آخرکار وہ تاریخی فیصلہ آہی گیا جس کا انتظار قوم کو کئی ماہ سے تھا اور جس کے لیے لوگوں نے خون کا نذرانہ بھی پیش کیا اور بے مثال اتحاد اور یگانگت کا ثبوت بھی دیا۔ کوئی لالچ ، کوئی دھوکہ ، کوئی چال رغنہ نہ ڈال سکی اس بے مثال تحریک اور اتحاد میں ، اتحاد اور تحریک زور ہی پکڑتی گئی۔ ملک کے جس شہر میں بھی چیف جسٹس گئے وہاں ان کا والہانہ استقبال ہوا اور لوگوں نے وقت اور موسم کی پرواہ کیے بغیر گھنٹوں انتظار کیا اور شاندار استقبال کیا۔ وہ تمام سیاسی جماعتیں جو عوام کو باہر نہ لا سکیں وہ چیف جسٹس کی بحالی کی اس تحریک میں وکلا کے ساتھ مل کر بہت مدت بعد عوام کر سڑک پر لانے میں کامیاب رہیں۔ ہر چینل اور ہر جگہ چیف جسٹس کی ہی باتیں ہوتی رہیں اور ہر معاملہ سے زیادہ اہم چیف جسٹس کا معاملہ ہی رہا۔ ایک مدت بعد کسی نے مشرف کا حکم ماننے سے انکار کیا اور سر تسلیم خم کرنے کی بجائے لڑنے اور اپنے حق کے لیے جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا جس پر قوم کے ڈوبتے حوصلوں کو ایک نئی توانائی ملی اور انہیں محسوس ہوا کہ ان کے درمیان ابھی ایک ‘ رجل‘ ہے جو سر جھکانے کی بجائے سر افتخار سے کھڑا کرکے آمریت کے سامنے ڈٹ گیا ہے۔ کسی ایک شخص کے کھڑا ہونے کی منتظر تھی قوم اور جسٹس افتخار نے سر بلند ہو کر قوم کو پھر سے مجتمع ہونے کا ، اپنے حق کے لیے لڑنے کا ، بے حسی کو توڑنے کا ایک موقع فراہم کر دیا اور مشرف کے خلاف جمع سارا غصہ اور نفرت چیف جسٹس سے محبت اور موافقت میں بدل گئی۔ جب یہ کیس شروع ہوا تو کہا گیا کہ تاریخ کروٹ بدل رہی ہے اور ایک نئی تاریخ رقم ہونے جارہی ہے اور واقعی آج ایک نئی تاریخ رقم ہو گئی ہے ، عدلیہ نے پہلی بار کسی فوجی آمر کے خلاف اتنا بڑا فیصلہ عوامی خواہشات اور امنگوں کے مطابق دیا ہے ورنہ ہمیشہ نظریہ ضرورت جیسے ڈھکوسلوں سے غیر قانونی اور ماورائے آئین اقدامات کو تحفظ دیا گیا۔ تمام لوگوں کو امید پیدا ہوئی ہے کہ عدالتوں میں انصاف ابھی باقی ہے اور اس مردہ گھوڑے میں جان پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ اب شاید لوگ مسائل کے حل اور انصاف کے لیے عدالتوں کی طرف دیکھا کریں گے اور جن عدالتوں سے ان کا اعتماد اٹھ گیا وہ اس فیصلے سے بہت حد تک بحال ہوا ہے۔ قوم اور عدلیہ نے فیصلہ دے دیا ہے کہ
اسلامی جمہوری پاکستان چاہیے نہ کہ عسکری غیر جمہوری پاکستان
مشرف کے لیے میرے ایک بزرگ نے کہا ہے کہ اس سے آخری خواہش پوچھ لینی چاہیے کہ اب اس کے جانے کا وقت آ گیا ہے۔ مشرف کے لیے قوم کا پیغام ہے کہ
چلے بھی جاؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے