جسٹس فائز عیسیٰ پر قومی اداروں کی تضحیک کی فرد جرم بھی عائد

جاسم محمد

محفلین
یہ کیس تکنیکی بنیاد پر بند ہی ہونا تھا۔
آخر کیا وجہ ہے کہ ان سیاسی مافیاؤں کے خلاف تمام کرپشن کیسز تکنیکی بنیادوں پر بند ہو جاتے ہیں؟ کیا آپ اسے قانون کی حکمرانی سمجھتے ہیں؟
جب آپ کے سامنے شریف اور زرداری خاندان کی منی لانڈرنگ میں استعمال ہونے والے بینک اکاؤنٹس، ان میں باہر سے منتقل ہونے والی ہوش ربا رقوم اور ان سے بننے والے آمدن سے زائد اثاثے موجود ہوں۔ اس کے باوجود آپ کہیں کہ منی لانڈرنگ کا کیس تکنیکی بنیادوں پر بند کر کے انصاف ہو گیا تو پھر میں کیا کہوں؟
 

فرقان احمد

محفلین
آخر کیا وجہ ہے کہ ان سیاسی مافیاؤں کے خلاف تمام کرپشن کیسز تکنیکی بنیادوں پر بند ہو جاتے ہیں؟ کیا آپ اسے قانون کی حکمرانی سمجھتے ہیں؟
جب آپ کے سامنے شریف اور زرداری خاندان کی منی لانڈرنگ میں استعمال ہونے والے بینک اکاؤنٹس، ان میں باہر سے منتقل ہونے والی ہوش ربا رقوم اور ان سے بننے والے آمدن سے زائد اثاثے موجود ہوں۔ اس کے باوجود آپ کہیں کہ منی لانڈرنگ کا کیس تکنیکی بنیادوں پر بند کر کے انصاف ہو گیا تو پھر میں کیا کہوں؟
جناب! کیا آپ پاناما فیصلہ قبول کرتے ہیں، بھٹو کا فیصلہ تسلیم کرتے ہیں، کتنی مثالیں پیش کی جائیں؟ دراصل، جس طرح کا انصاف یہاں فراہم کیا جاتا ہے، اسی طرح کی ریلیکسیشن بھی دی جانی چاہیے۔ یہاں انصاف کے تقاضے یہی ہیں۔ :) اب یہ روایت ختم ہو جانی چاہیے کہ کوئی فیصلہ جی جان سے ماننا ہے، اور وہ فیصلہ رد کرنا ہے، جو آپ کی مرضی کا نہ ہو۔ ریاستی ادارے کا فیصلہ ہے، تسلیم کرتے ہی بنے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
جناب! کیا آپ پاناما فیصلہ قبول کرتے ہیں، بھٹو کا فیصلہ تسلیم کرتے ہیں، کتنی مثالیں پیش کی جائیں؟ دراصل، جس طرح کا انصاف یہاں فراہم کیا جاتا ہے، اسی طرح کی ریلیکسیشن بھی دی جانی چاہیے۔ یہاں انصاف کے تقاضے یہی ہیں۔
متفق۔ اسی لئے اپوزیشن چاہتی ہے کہ ان کو متعدد منی لانڈرنگ کیسز میں ٹیکنیکل بنیادوں پر ریلیف حاصل کرنے کیلئے جسٹس فائز عیسیٰ کی ضرورت ہے۔ جبکہ حکومت / اسٹیبلشمنٹ کا مؤقف ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے سیاسی مافیاؤں کو غیرمعمولی ریلیف دینے کے عوض ملک سے باہر جائیدادیں بنائی ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے بھی ان مالی الزامات کا جواب منی ٹریل اور دیگر ثبوتوں سے دینے کی بجائے سیاسی مافیا والا موقف ہی اپنایا ہے کہ یہ کیس ان کو سیاسی شہید بنانے کیلئے سامنے لایا گیا ۔ جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ واقعتا جسٹس فائز عیسی نے دیگر ججز کی طرح سیاسی مافیا سے پیسے لئے تھے۔ اور وہ بھی سیاسی مافیا کی طرح تکنیکی بنیادوں پر اس سے نکلنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ان اثاثو ں کی منی ٹریل ان کے پاس بھی نہیں ہے :)
 

جاسم محمد

محفلین
یہ آپ کے قیاسات اور مفروضات ہیں۔ :) ثابت کیجیے۔ :) فیصلہ وہی ہے، جو ہو چکا؛ چاہے اچھا لگے یا برا لگے۔
مجرم کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ جب اس کو ڈھیل یا ڈیل دی جاتی ہے تو وہ وہی جرم دوبارہ کر تا ہے۔
مشرف نے شریف خاندان کو جدہ ڈیل کے عوض تمام کرپشن کیسز میں ریلیف فراہم کیا تھا۔ اور بعد میں ملک واپسی پر بھی اعلیٰ عدلیہ ان کو کلین چٹ دیتی رہی۔ قیاس یہی رہا ہوگا کہ شریف خاندان اب سدھر گیا ہے۔ لیکن ان کو کیا معلوم تھا کہ اس دوران سارا وقت شریف خاندان منی لانڈرنگ میں ملوث رہا۔
ٹھیک ہے ان کو ڈیل و ڈھیل کے بد حدیبیہ پیپر ملز منی لانڈرنگ کیس میں ریلیف مل گیاتھا۔ لیکن اب وہ چوہدری شوگر ملز منی لانڈرنگ کیس میں بری طرح پھنس چکے ہیں۔ اب نہ کوئی ڈیل ہے نا ڈھیل ہے۔ ماضی میں این آر او دینے والے مشرف اس وقت بستر مرگ پہ پڑیں ہیں۔ اور ان کو ریلیف فراہم کرنے والے جج جسٹس فائز عیسیٰ خود آمدن سے زائد اثاثہ جات والے کیس میں دھنسے ہوئے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
مشرف صاحب پر خود مقدمات قائم ہیں۔ ججوں اور جرنیلوں کا اپنا حال سب کے سامنے ہے۔ خان صاحب سمیت اُن کی فیملی مشکل سے ڈیل کر کے اور تکنیکی سہارے لے کر احتساب سے بچ نکلی ہے۔ آدھی کابینہ پر نیب میں کیس لگے ہوئے ہیں تاہم انہیں کوئی گرفت میں نہیں لے رہا ہے۔ احتساب چند خاندانوں کا ہی ہو رہا ہے اور آپ اپنی ناقص کارکردگی سے توجہ ہٹانے کے لیے ان پر فوکس کیے ہوئے ہیں۔ :) کس سے گلہ کریں؟
 

جاسم محمد

محفلین
خان صاحب سمیت اُن کی فیملی مشکل سے ڈیل کر کے اور تکنیکی سہارے لے کر احتساب سے بچ نکلی ہے۔
خان صاحب کا بنی گالہ اثاثہ والا کیس تو خود سپریم کورٹ نے سنا تھا اور وہاں ان کی سابق اہلیہ نے 15 سال پرانی منی ٹریل پیش کر کے ان کو صادق و امین ڈکلیئر کروا دیا تھا۔
اگر اپوزیشن اور ان کے حامی ججوں نے اپنے اثاثے قانونی طریقہ سے بنائے ہیں تو عمران خان کی طرح منی ٹریل پیش کر کے باعزت بری کیوں نہیں ہو جاتے؟
 

فرقان احمد

محفلین
یہ تو معاملات بعد میں کھلیں گے نا! سمجھا کریں۔ ابھی بہت کیسز ہیں اور اپوزیشن جماعتیں بوجوہ انہیں ہائی لائٹ نہیں کر رہی ہے۔ ہیلی کاپٹر کیس، فارن فنڈنگ کیس سے لے کر کچھ اور کیسز بھی ہیں۔ یہ تو اُن کی رخصتی کے بعد معاملات کھلیں گے۔ محترمہ علیمہ خانم والا معاملہ بھی اتنا سادہ نہیں ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ تو اُن کی رخصتی کے بعد معاملات کھلیں گے۔
شوق سے کھول لیں۔ یاد رہے کہ جب عمران خان نے سپریم کورٹ میں اپنے بنی گالہ اثاثہ کی منی ٹریل فراہم کی تھی۔ اس وقت وہ اپوزیشن میں تھے اور ان پر مقدمات حکومت نے ہی پاناما کیس کے جواب میں بنائے تھے۔ جس میں جہانگیر ترین بروقت منی ٹریل پیش نہ کرنے پر نااہل بھی ہوئے تھے۔
 

فرقان احمد

محفلین
شوق سے کھول لیں۔ یاد رہے کہ جب عمران خان نے سپریم کورٹ میں اپنے بنی گالہ اثاثہ کی منی ٹریل فراہم کی تھی۔ اس وقت وہ اپوزیشن میں تھے اور ان پر مقدمات حکومت نے ہی پاناما کیس کے جواب میں بنائے تھے۔
یہ سب کچھ ہو گا، تاہم، ابھی کچھ نہیں ہو گا۔ یہاں کی روایت یہی ہے۔ :) بنی گالہ کا معاملہ تو صرف ایک ہے۔ میاں صاحب اگر ایک کاغذ کے پرزے پر کڑی سزا کاٹ سکتے ہیں تو یہی معاملہ خان صاحب کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ برا نہ مانیے۔ حقیقت یہی ہے۔ سچ یہی ہے۔ سن انیس سو ستاسی میں خان صاحب نے میاں صاحب سے ایک پلاٹ لیا تھا۔ اور بتلایا تھا کہ اُن کے نام پر کوئی شاید کوئی رہائشی جگہ نہیں۔ مگر، نون لیگ اس لیے عدالت نہ گئی کہ اس ڈاکومنٹ پر میاں صاحب کے بطور وزیراعلیٰ دستخط تھے۔ یہ معاملات اور اس طرح کے دیگر معاملات کھل گئے تو بہت آگے تک جائیں گے۔ تاہم، ابھی وہ گڈ بکس میں ہیں تو سب خیر رہے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
تاہم، ابھی وہ گڈ بکس میں ہیں تو سب خیر رہے گی۔
فائز عیسی کیس نئے مرحلہ میں داخل

جسٹس فائز عیسیٰ ریفرنس: فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست
26/08/2019 بی بی سی


سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کے لیے ایک نئی درخواست سپریم کورٹ میں جمع کروائی ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ ان کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کی بجائے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق پیر کو دائر کی جانے والی ایک متفرق درخواست میں جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ’سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے ان کے خلاف صدر مملکت کو لکھے گئے خط کے ریفرنس کو بند کرنے کے بارے میں کونسل کے چیئرمین اور دیگر ارکان کی طرف سے درخواست گزار (فائز عیسیٰ) کے بارے میں متعصبانہ رویہ اختیار کیا گیا اس کی وجہ سے چیئرمین ان کے خلاف ریفرنس کی سماعت نہیں کرسکتے۔‘

واضح رہے کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل نے 19 اگست کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک ریفرنس خارج کر دیا تھا جو ان کے خلاف صدر مملکت کو خطوط لکھنے سے متعلق تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف انکم ٹیکس گوشواروں میں بیرون ممالک جائیداد کو ظاہر نہ کرنے سے متعلق صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا تھا اور اُنھوں نے اس ریفرنس کی کاپی حاصل کرنے کے لیے صدر مملکت کو خطوط لکھے تھے۔

اس سے پہلے بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف دائر کیے گئے صدارتی ریفرنس کو چیلنج کر رکھا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں یہ مثال موجود ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت سپریم جوڈیشل کونسل میں ہونے کی بجائے سپریم کورٹ کے فل بینچ نے کی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ ان کی درخواست کی سماعت کرنے والے ’بینچ میں سپریم کورٹ کے تمام اہل اور قابل ججز کو شامل کیا جائے۔‘

درخواست میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کی طرف سے ان کے خلاف دائر ریفرنس کے بارے میں اہم آئینی سوالات بھی اُٹھائے گئے ہیں جو عدلیہ کی آزادی، اس ریفرنس سے متعلق صدر مملکت کی آزادانہ رائے اور ریفرنس کے بارے میں وفاقی کابینہ کی منظوری سے متعلق ہیں۔

درخواست میں اعلیٰ عدلیہ کے جج اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کی نگرانی کے علاوہ سپریم کورٹ کے جج کے خلاف ثبوت اکھٹے کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں بھی سوالات اُٹھائے گئے ہیں۔

یاد رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے اہم رکن اور سپریم کورٹ کے سینئر جج عظمت سعید 27 اگست کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہو رہے ہیں اور ان کی جگہ مشیر عالم سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ ہوں گے۔

جسٹس مشیر عالم اس دو رکنی بینچ کی سربراہی کر رہے تھے جس نے ایک مذہبی جماعت کی طرف سے فیض آباد دھرنے سے متعلق فیصلہ دیا تھا۔

جسسٹس عظمت سعید اور سپریم جوڈیشل کونسل کے ایک اور رکن اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ کے خلاف درخواستیں بھی دائر کی گئی تھیں جن کی سماعت سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس گلزار احمد کر رہے ہیں۔

جسٹس گلزار احمد سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن بھی ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
فائز عیسی کیس نئے مرحلہ میں داخل

جسٹس فائز عیسیٰ ریفرنس: فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست
26/08/2019 بی بی سی


سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کے لیے ایک نئی درخواست سپریم کورٹ میں جمع کروائی ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ ان کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کی بجائے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق پیر کو دائر کی جانے والی ایک متفرق درخواست میں جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ’سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے ان کے خلاف صدر مملکت کو لکھے گئے خط کے ریفرنس کو بند کرنے کے بارے میں کونسل کے چیئرمین اور دیگر ارکان کی طرف سے درخواست گزار (فائز عیسیٰ) کے بارے میں متعصبانہ رویہ اختیار کیا گیا اس کی وجہ سے چیئرمین ان کے خلاف ریفرنس کی سماعت نہیں کرسکتے۔‘

واضح رہے کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل نے 19 اگست کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک ریفرنس خارج کر دیا تھا جو ان کے خلاف صدر مملکت کو خطوط لکھنے سے متعلق تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف انکم ٹیکس گوشواروں میں بیرون ممالک جائیداد کو ظاہر نہ کرنے سے متعلق صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا تھا اور اُنھوں نے اس ریفرنس کی کاپی حاصل کرنے کے لیے صدر مملکت کو خطوط لکھے تھے۔

اس سے پہلے بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف دائر کیے گئے صدارتی ریفرنس کو چیلنج کر رکھا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں یہ مثال موجود ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت سپریم جوڈیشل کونسل میں ہونے کی بجائے سپریم کورٹ کے فل بینچ نے کی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ ان کی درخواست کی سماعت کرنے والے ’بینچ میں سپریم کورٹ کے تمام اہل اور قابل ججز کو شامل کیا جائے۔‘

درخواست میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کی طرف سے ان کے خلاف دائر ریفرنس کے بارے میں اہم آئینی سوالات بھی اُٹھائے گئے ہیں جو عدلیہ کی آزادی، اس ریفرنس سے متعلق صدر مملکت کی آزادانہ رائے اور ریفرنس کے بارے میں وفاقی کابینہ کی منظوری سے متعلق ہیں۔

درخواست میں اعلیٰ عدلیہ کے جج اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کی نگرانی کے علاوہ سپریم کورٹ کے جج کے خلاف ثبوت اکھٹے کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں بھی سوالات اُٹھائے گئے ہیں۔

یاد رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے اہم رکن اور سپریم کورٹ کے سینئر جج عظمت سعید 27 اگست کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہو رہے ہیں اور ان کی جگہ مشیر عالم سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ ہوں گے۔

جسٹس مشیر عالم اس دو رکنی بینچ کی سربراہی کر رہے تھے جس نے ایک مذہبی جماعت کی طرف سے فیض آباد دھرنے سے متعلق فیصلہ دیا تھا۔

جسسٹس عظمت سعید اور سپریم جوڈیشل کونسل کے ایک اور رکن اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ کے خلاف درخواستیں بھی دائر کی گئی تھیں جن کی سماعت سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس گلزار احمد کر رہے ہیں۔

جسٹس گلزار احمد سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن بھی ہیں۔
تکنیکی و قانونی معاملات جو بھی ہوں، دراصل، دس سالہ پلاننگ کرنے والوں کو معمولی درجے کا خوف لاحق ہے کہ اس طرح کی کوئی شخصیت سپریم کورٹ میں رہی، یا کبھی چیف جسٹس بن گئی، تو شاید بہت سے راز منکشف ہو جائیں گے یا ان کی راہ میں موصوف رکاوٹ بن جائیں گے۔ بس انہیں ہٹانا مقصود ہے اور اس کے لیے آخری حد تک جایا جائے گا؛ وگرنہ ریفرنسز تو کئی اور ججز پر بھی ہیں۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
بس انہیں ہٹانا مقصود ہے اور اس کے لیے آخری حد تک جایا جائے گا
نواز شریف کو حدیبیہ پیپر ملز کیس میں چھوڑ دینے پر صرف خطرہ کی گھنٹی بجی تھی۔ البتہ جب فیض آباد دھرنا کیس میں جسٹس فائز عیسیٰ نے ایجنسیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا تو تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ یہ وہی کیس ہے جس سے متعلق آرمی چیف نے سینیٹ میں بیان دیا تھا کہ اگر فوج کا کردار ثابت ہوا تو استعفیٰ دے دوں گا :)
 

فرقان احمد

محفلین
نواز شریف کو حدیبیہ پیپر ملز کیس میں چھوڑ دینے پر صرف خطرہ کی گھنٹی بجی تھی۔ البتہ جب فیض آباد دھرنا کیس میں جسٹس فائز عیسیٰ نے ایجنسیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا تو تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ یہ وہی کیس ہے جس سے متعلق آرمی چیف نے سینیٹ میں بیان دیا تھا کہ اگر فوج کا کردار ثابت ہوا تو استعفیٰ دے دوں گا :)
تو پھر، انہیں بھی ہٹا دیجیے۔ شاید اس ٹوٹکے سے ملکی معیشت سنبھل جائے۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
باجوہ ڈاکٹرائن (ڈائین) تو3 سال کی مزید ایکسٹینشن لے بیٹھی ہے :)
اپوزیشن کی صفوں میں اس ایکسٹینشن سے مزید خوف پیدا ہوا ہے تاہم سب کچھ ملکی معیشت سے جڑا ہوا ہے۔ عوام کا مزاج کچھ ایسا ہے کہ اگر معیشت ٹھیک ہو گئی تو سمجھیے، وہ تمام دیگر لیڈران کو بھلا دے گی اور یہ سیاسی رہنما بھی مزید شکست خوردہ ہو جائیں گے۔ تاہم، اگر معاشی نظام بہتر نہ ہوا تو باجوہ عمران جوڑی بھی حکومت کو تتر بتر ہونے سے بچا نہ پائے گی۔
 
ن لیگ اور پیپلز پارٹی دور میں بھی عسکری اداروں کے پاس فنڈز کی کمی نہ تھی۔ ان کا بجٹ ہر سال ڈیمانڈ کے مطابق بڑھتا رہا۔
776efbb7-36be-4a08-82f9-e743086d7ab7.png

اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ان طاقتور اداروں کی ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے نفرت کی بنیادی وجہ معیشت نہیں بلکہ اداروں سے مسلسل ٹکراؤ پیدا کر کے اپنی سیاست چمکانا ہے۔

یہ بھی دیکھیں

sipri-pakistan-1556529049.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
مُنیر اے ملک کے دلائل پر تناؤ کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کی سماعت کرنے والا لارجر بینچ کیسے ٹوٹا؟

اسد علی طور
ستمبر 17, 2019

صُبح 9 بج کر 25 منٹ پر سُپریم کورٹ کی پہلی منزل پر عدالت نمبر 4 میں داخل ہوا تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب فیصل چوہدری اور صحافی دوستوں حسنات ملک، ناصر اقبال، سہیل خان، اُستادِ محترم مطیع اللہ جان، عبدالقیوم صدیقی، آصف بشیر چوہدری، عدیل، ثاقب تنویراور ٹیرنس سے ہاتھ ملاتا کمرہ عدالت کی دائیں طرف نسبتاً کم رش والی جگہ پر جا کھڑا ہوا۔ نظر دوڑائی تو پاکستانی وُکلا کی کریم مُنیر اے ملک، حامد خان، بابر ستار، اکرم شیخ، اکرام چوہدری، رشید اے رضوی، جسٹس (ر) طارق محمود، کامران مُرتضیٰ، امجد شاہ، تحریکِ انصاف کے وکیل رہنما نعیم بُخاری اور سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کو عدالت کے روبرو بیٹھے دیکھا جبکہ درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھے۔

کورٹ آ گئی کی آواز لگی تو 9 بج کر 32 منٹ پر لارجر بینچ کے رُکن سات معزز جج صاحبان کمرہِ عدالت میں آ کر بیٹھ گئے۔ بینچ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال کے دائیں ہاتھ پر کراچی کے اُردو سپیکنگ جج جسٹس مقبول باقر موجود تھے جِن کے ساتھ دو پنجابی ججز جسٹس سردار طارق مسعود اور پھر جسٹس اعجاز الاحسن بیٹھے تھے جبکہ بائیں طرف پنجابی جج منظور ملک سب سے پہلے اور اُن کے ساتھ سندھی جج فیصل عرب اور پھر پختون جج مظہر عالم خان میاں خیل کی نشست تھی۔

سماعت کا آغاز بہت ہی خوشگوار ماحول میں ہوا۔ لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے ججز بحالی کے لئے چلائی وکلا تحریک کے چیمپئن وکیل منیر اے ملک ایڈووکیٹ کو انتہائی مُسرت سے روسٹرم پر ویلکم کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی، آپ ہمارے بھائی جج کے دفاع میں پیش ہو رہے ہیں بہت اچھی بات ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل مُنیر اے ملک نے بینچ کے سربراہ کا شُکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے دلائل کا آغاز نئے عدالتی سال کے آغاز کے موقع پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی تقریر کے احتساب اور آزادیِ اظہار سلب کرنے والے پیراگراف پڑھ کر کیا۔

اِس کے بعد مُنیر اے ملک گویا ہوئے کہ پوری قوم کی نظریں وکلا تنظیموں، وکلا اور بینچ پر لگی ہیں۔ درخواست گزار جج کے وکیل مُنیر اے ملک نے مزید کہا کہ ہم نے خون دے کر عدلیہ کو آزادی دلوائی ہے اور اِس آزادی کو سلب کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے۔

ابتدائی کلمات سُن کر جسٹس بندیال نے مُنیر اے ملک کو کیس کے قانونی پوائنٹس بیان کرنے کی دعوت دی تو سینیئر وکیل نے جواب دیا کہ اُنہوں نے اہل ججز پر مُشتمل فُل کورٹ بنانے کی درخواست کی تھی۔ اہل ججز کی وضاحت کرتے ہوئے مُنیر اے ملک ایڈووکیٹ نے بتایا کہ دو طرح کے ججز اِس فُل کورٹ میں شامل نہیں ہو سکتے۔ ایک وہ ججز جو سُپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ریفرنس سُن رہے ہیں یعنی چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس گُلزار احمد اور جسٹس مُشیر عالم اور دوسرے وہ ججز جِن کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ہٹائے جانے کی صورت میں براہِ راست یا بالواسطہ فائدہ ہوتا ہو اور بینچ میں ایسے دو ججز موجود ہیں جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف فیصلے کے بینفشری ہوں گے۔

جب مُنیر اے ملک یہ کہہ رہے تھے تو جسٹس اعجاز الاحسن تو تاثرات سے عاری چہرے کے ساتھ صرف مُنیر اے ملک کی طرف دیکھ رہے تھے لیکن جسٹس سردار طارق مسعود نے فوراً سر موڑ کر جسٹس عُمر عطا بندیال کی طرف کُچھ یوں دیکھا جیسے کہنا چاہتے ہوں کہ کہا تھا نا میں نے بینچ میں نہیں بیٹھنا۔ مُنیر اے ملک کے جملوں سے ایسا لگا کہ ایک فائر ہوا ہے جِس نے کمرہِ عدالت میں تناؤ پیدا کر دیا۔

جسٹس عُمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بینچ میں شامل تمام ساتھی ججز اپنی ذمہ داریاں آئین اور قانون کے مطابق بغیر کسی خوف کے ادا کرنے والے ہیں۔ مُنیر اے ملک کا کہنا تھا جسٹس مظہر علی کیس اور سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کیس میں جسٹس فلک شیر اور جسٹس اجمل میاں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

orgsize_177Justice-Umar-Ata-Bandial.jpg

جسٹس عمر عطا بندیال

جسٹس عُمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ ٹی وی چینل کے خلاف کیس میں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے بینچ سے علیحدگی سے انکار کر کے بھی ایک مثال قائم کی تھی۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے آبزرویشن دی کہ یہ جج کا ذاتی فیصلہ ہوگا وہ بینچ کا رُکن رہنا چاہتا ہے یا نہیں، اِس کے لئے کوئی قانونی پابندی نہیں اور شاید سُپریم کورٹ کو طے کرنا چاہیے کہ آخر کِن بنیادوں پر جج کو کسی بینچ کا رُکن نہیں ہونا چاہیے۔ اِن ریمارکس کے دوران جسٹس بندیال کے بائیں طرف موجود جسٹس فیصل عرب زیرِ لب مُسکراتے رہے۔

ایڈووکیٹ مُنیر اے ملک نے جسٹس عُمر عطا بندیال کے ریمارکس پر جواب دیا کہ ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کی شق چار کہتی ہے کہ جج کو وہ کیس نہیں سُننا چاہیے جس سے ذاتی مُفاد وابستہ ہو۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے کہا کہ اگر شِق چار کو پڑھا جائے پھر تو سُپریم کورٹ کا کوئی بھی جج یہ کیس سُننے کا اہل نہیں رہ جائے گا۔ مُنیر اے ملک نے اِس پر جواب دیا کہ بینچ کے دو رُکن ججز میں سے ایک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہٹائے جانے کی صورت میں چار سال بعد چیف جسٹس بنتا ہے اور دوسرے کی مُدت میں توسیع ہوتی ہے۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ ہم میں سے کسی کو اپنی زندگی کے بارے میں کل کا یقین نہیں چار سال تو بہت دور ہیں، آپ چار سال بعد کے امکانات پر ججز پر ذاتی مُفاد کا کہہ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کی سماعت کرنے والے سات ججز کا شخصی خاکہ

ایڈوکیٹ مُنیر ملک کا کہنا تھا کہ جب کوئی جج چیف جسٹس بنتا ہے تو اُس کی تنخواہ اور پینشن میں اضافہ ہوتا ہے تو اُس کا ذاتی مُفاد ثابت ہوتا ہے۔ لارجر بینچ کے سربراہ نے آبزرویشن دی کہ آپ تعصب اور ذاتی مُفاد کا کہہ کر ادارے کی ساکھ کمزور کر رہے ہیں۔ جسٹس عُمرعطا بندیال نے اِس موقع پر ریمارکس دیے کہ آپ الزام لگا کر قیاس آرائیوں کا دروازہ کھول رہے ہیں۔ بینچ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے اپنے ساتھی ججز کا دفاع کرتے ہوئے درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل مُنیر اے ملک سے درخواست کی کہ آپ نے جو کہنا تھا وہ کہہ دیا، اب ججز پر چھوڑ دیں وہ بینچ میں بیٹھے رہنا چاہتے ہیں یا نہیں کیونکہ اگر آپ مزید اِس نُکتے پر زور دیں گے تو ایسا لگے گا آپ مخصوص ججز کو ہدف بنا رہے ہیں۔ یہ ریمارکس سُنتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی تو ٹارگٹ ہی کیا گیا ہے۔

اِس کے بعد جسٹس فیصل عرب نے سوال اُٹھایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہٹانے کا فیصلہ اِس لارجر بینچ نے نہیں بلکہ سُریم جوڈیشل کونسل نے کرنا ہے تو پھر اِس بینچ میں موجود ججز پر ذاتی مُفاد کی دلیل کیوں؟ جس پر مُنیر اے ملک نے جواب دیا، ہم تعصب کی نہیں ایک اصول کی بات کر رہے ہیں کہ انصاف صرف ہونا نہیں چاہیے بلکہ ہوتا نظر بھی آنا چاہیے۔ درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ میں عدلیہ کے ادارے کی ساکھ کی خاطر دو ججز کی موجودگی پر اعتراض کر رہا ہوں تاکہ کسی قسم کے شک کی گُنجائش باقی نہ رہے۔

Faisal-Arab.jpg

جسٹس فیصل عرب

بینچ اور وکلا کے درمیان جاری اِس تمام بحث کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن سنجیدہ چہرے کے ساتھ صرف مُنیر اے ملک کی طرف دیکھتے رہے لیکن جسٹس سردار طارق مسعود کے چہرے پر اضطراب واضح تھا۔ جسٹس سردار طارق مسعود کبھی بائیں جانب سر گُھما کر بینچ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال کی طرف دیکھتے اور کبھی گہری سوچ میں ڈوبے دکھائے دیتے۔ ایسا بہت کم ہوا کہ جسٹس سردار طارق مسعود نے سر اُٹھا کر وُکلا کر روسٹرم کی جانب دیکھا ہو۔

بینچ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے مُنیر اے ملک سے سوال پوچھا کہ کیا وہ ججز کے خود کو بینچ سے علیحدہ کرنے پر کوئی نظیر عدالت کو بتا سکتے ہیں۔ جِس پر مُنیر اے ملک نے پہلے اُن کو اسد علی کیس میں جسٹس اجمل میاں کا نوٹ پڑھ کر سُنایا اور بعد ازاں پنوشے کی کورٹ کا فیصلہ پڑھنا شروع کر دیا۔ درخواستگزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل مُنیر اے ملک جب غیر مُلکی کورٹ کا فیصلہ پڑھ رہے تھے تو لارجر بینچ کے تمام ججز ماسوائے جسٹس منظور ملک کے فیصلے کی فراہم کردہ کاپی کا مطالعہ کر رہے تھے۔ جسٹس منظور ملک پڑھ نہیں رہے تھے بلکہ صرف سُن رہے تھے اور اُنکے چہرے پر کُچھ اضطراب تھا۔

اِس تمام سماعت کے دوران معروف وکیل اکرم شیخ کمرہِ عدالت میں گہری نیند کے مزے لیتے رہے۔ 10 بج کر 40 منٹ پر لارجر بینچ کے سربراہ کے دائیں طرف بیٹھے جسٹس مقبول باقر نے فراہم کردہ غیر مُلکی عدالت کے فیصلہ کی کاپی کے خراب ہونے کا کہہ کر دوسری کاپی مانگی تو جسٹس عُمر عطا بندیال نے اُن کو پیشکش کی کہ وہ دونوں آپس میں کاپی شیئر کر سکتے ہیں۔

ابھی یہ مُکالمہ جاری تھا کہ جسٹس سردار طارق مسعود نے جسٹس مقبول باقر کی طرف جُھک کر اُن سے گفتگو شروع کر دی۔ دونوں ججز کُچھ دیر بات کرتے رہے۔ پھر جسٹس مقبول باقر نے بینچ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال کی طرف جُھک کر اُن سے کُچھ کہا۔ بعد ازاں جسٹس عُمر عطا بندیال، جسٹس مقبول باقر اور جسٹس سردار طارق مسعود سرگوشی کے انداز میں سر جوڑ کر گفتگو کرنے لگے۔ جب تینوں ججز میں جاری گفتگو ختم ہوئی تو 10 بج کر 56 منٹ ہو چُکے تھے اور جسٹس عُمر عطا بندیال نے مُنیر اے ملک کو مُخاطب کر کے کہا کہ اب باقی دستاویز آپ سے بریک کے بعد سُن لیتے ہیں۔ جِس پر عدالتی وقفہ ہو گیا۔

عموماً 11 بجے ٹی بریک ہوتی ہے اور ججز آدھے گھنٹے بعد 11 بج کر 30 منٹ پر کمرہ عدالت میں لوٹ آتے ہیں۔ لیکن معمول سے ہٹ کر یہ عدالتی وقفہ ایک گھنٹے سے بھی طویل ثابت ہوا اور 12 بج کر 3 منٹ پر ججز کمرہِ عدالت میں واپس آئے۔ ججز کے بیٹھنے کے بعد مُنیر اے ملک نے دوبارہ فیصلہ کے نکات پڑھنے شروع کیے تو جسٹس سردار طارق مسعود نے اپنے ہاتھ میں موجود فیصلہ کی کاپی سائیڈ پر پھینک دی اور یہی وہ لمحہ تھا جب لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے مُنیر اے ملک کو روکتے ہوئے کہا کہ میرے کُچھ ساتھی ججز نے فیصلہ کیا ہے وہ بینچ کا حصہ نہیں رہنا چاہتے اور اِن ساتھی ججز میں سے جسٹس سردار طارق مسعود کُچھ کہنا چاہتے ہیں۔

جسٹس سردار طارق مسعود کافی دھیمی آواز میں بولنا شروع ہوئے تو کمرہِ عدالت کے دونوں اطراف رپورٹرز اُن کو سُننے کے لئے ایک ساتھ اِس انداز میں ایک ایک قدم آگے بڑھے جیسے کرکٹ میچ میں بالر رن اپ لے رہا ہوتا ہے تو فیلڈر بلے باز کی طرف گھیرا ڈالنے والے انداز میں قدم بڑھاتے ہیں۔

Justice-Sardar-Tariq-Masood.jpg

جسٹس طارق مسعود

جسٹس سردار طارق مسعود نے اپنی بات کا آغاز ہی اِس جُملے سے کیا کہ وہ وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ وُکلا کے اعتراض پر نہیں اُٹھ رہے بلکہ انہوں نے یہ فیصلہ پہلے سے لے رکھا تھا کہ وہ یہ کیس نہیں سُنیں گے۔ اِس بات سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ سات ججز میں صرف جسٹس سردار طارق مسعود ہی وہ واحد جج تھے جو اعلیٰ عدالتی اقدار کا پاس رکھتے ہوئے اِس لارجر بینچ کے رُکن نہیں بننا چاہتے تھے جِس کی مزید تصدیق جسٹس اعجاز الاحسن کے بینچ سے علیحدگی کی وجوہات بیان کرنے والے ریمارکس سے بھی ہوئی۔

جسٹس سردار طارق نے مُنیر اے ملک کی طرف سے مُستقبل میں چیف جسٹس بننے کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے اپنے ہاتھ سے چھت کی طرف اشارہ کرتے کہا کہ اِس کا فیصلہ تو سپریم جوڈیشل کونسل نے قانون کی روشنی میں کرنا ہے۔ شاید جسٹس سردار طارق مسعود چھت کی طرف اشارہ سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی جانب کیا تھا کیونکہ پہلی منزل پر واقع کورٹ روم نمبر چار کے اوپر تیسری منزل پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا چیمبر واقع ہے۔

جسٹس سردار طارق مسعود مُختصر گفتگو کر کے خاموش ہوئے تو اُن کے دائیں ہاتھ بیٹھے جسٹس اعجازالاحسن نے بھی کُچھ کہنے کی اجازت چاہی اور گویا ہوئے کہ انہوں نے قانون اور آئین کی روشنی میں فیصلے کرنے کا حلف لے رکھا ہے اور اُن کی بینچ میں موجودگی پر برادر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اعتراض بلاجواز اور افسوسناک تھا لیکن وہ اپنی غیر جانبدار پوزیشن کے لئے سپریم کورٹ کی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے خود کو بینچ سے علیحدہ کر رہے ہیں۔

Justice-Ijaz-ul-Ahsan.jpg

جسٹس اعجاز الاحسن

جسٹس اعجاز الاحسن خاموش ہوئے تو مُنیر اے ملک نے کہا کہ وہ دونوں ججز کو سیلوٹ کرتے ہیں اور اپنے کلائنٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے دونوں ججز کی ساکھ پر کوئی سوال نہیں اُٹھا رہے اور جسٹس عیسیٰ دونوں ججز کی بہت عزت کرتے ہیں۔ جِس پر لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے مُنیر اے ملک کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو چھوڑیں صرف اپنی بات کریں۔

اِس موقع پر جسٹس عُمر عطا بندیال نے کہا کہ بس اِس بات کو مزید مت کریں اور ہم یہ معاملہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو واپس بھجوا رہے ہیں کہ وہ نیا بینچ بنا دیں۔ جب ججز اُٹھ کر کمرہِ عدالت سے نکل رہے تھے تو جسٹس سردار طارق مسعود نے اپنے دوست جسٹس منظور ملک کی طرف دونوں ہاتھ کھول کر یوں اشارہ کیا جیسے کہنا چاہتے ہوں بس میرا امتحان ختم اور جواباً جسٹس منظور ملک نے سر کو ہلکا سا ہلا کر یوں جواب دیا جیسے کہہ رہے ہوں ہاں میں سمجھ سکتا ہوں۔

جب ججز کمرہِ عدالت سے رُخصت ہو رہے تھے تو میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اِس بینچ کو بنانے کے پیچھے موجود حِکمت کو سمجھنے کی کوشش کررہا تھا کہ معزز چیف جسٹس نے جانتے بوجھتے ہوئے جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن کو اِس امتحان سے کیوں گزارا؟ چیف جسٹس آصف سعید تو تقریباً تین ماہ بعد 20 دسمبر 2019 کو ریٹائر ہو جائیں گے لیکن اِن ججز کو اگلے چار سال تک ساتھ کام کرنا ہے اور اِس بینچ میں شامل کر کے آپ اِن ججز کے ذہنوں پر ایک تکلیف دہ یاد چھوڑ گئے۔

اب کیونکہ وہ بینچ کے رُکن نہیں رہے تو کم از کم جسٹس سردار طارق مسعود کے بارے میں اِس گُمان کا اظہار کر سکتا ہوں کہ وہ اِس بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں رائے دیتے۔ وہ سمجھتے تھے کہ تاریخ نے اُنہیں موقع دیا ہے کہ وہ اپنا نام پاکستانی جسٹس شرما کے طور پر لِکھوا کر جائیں۔ لیکن جب درخواستگُزار بار کونسلز کی طرف سے اُن کے نام پر مُمکنہ اعتراض کی خبریں آئیں تو دلبرداشتہ ہو کر جسٹس سردار طارق مسعود نے بینچ سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا ہوگا۔

بینچ سے علیحدہ ہونے والے دونوں ججز نے بینچ سے علیحدگی کی جو وجوہات بیان کیں اُن کو سُن کر بھی اندازہ کیا جا سکتا تھا کہ عدالتی وقفہ میں آدھے گھنٹے کی تاخیر بھی شاید جسٹس سردار طارق مسعود کو بینچ سے علیحدگی کا فیصلہ بدلنے پر راضی کرنے میں ہوئی۔ لیکن جسٹس سردار طارق مسعود نہیں مانے اور پھر جسٹس اعجازالاحسن نے بھی اُن کی تقلید کرتے ہوئے بینچ سے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
بس انہیں ہٹانا مقصود ہے اور اس کے لیے آخری حد تک جایا جائے گا؛ وگرنہ ریفرنسز تو کئی اور ججز پر بھی ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ بھی حدیبیہ پیپر ملز کرپشن کیس کو بند کروانے والے اپنے قائد نواز شریف کے ساتھ "ڈٹ" گئے ہیں۔ اس کا انجام تو آپ کو معلوم ہی ہے :)

اہلخانہ کی ملکیتی جائیدادوں کی منی ٹریل دینے کا پابند نہیں، جسٹس فائز عیسیٰ
حسنات ملک اتوار 13 اکتوبر 2019
1840254-justicefaizessa-1570936503-810-640x480.jpg

اہلیہ اور بچوں کے زیرملکیت جائیدادوں کی تفصیل سے آگاہ کرنے کا نہیں کہا جا سکتا، جج۔ فوٹو : فائل


اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس فائز عیسیٰ نے موقف اپنایا ہے کہ وہ اپنے اہلخانہ کی زیرملکیت جائیدادوں کی منی ٹریل دینے کے پابند نہیں۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے جواب الجواب میں جسٹس فائز عیسیٰ نے موقف اپنایا کہ ان کی اہلیہ اور بچے ان کے زیرکفالت نہیں، انہیں اپنے اہلخانہ کے مالی معاملات کے متعلق تفصیلات کا علم نہیں، بالکل اسی طرح جیسے ان کے اہلخانہ ان کے(جسٹس فائز عیسیٰ) مالی معاملات کے متعلق نہیں جانتے، انہیں اہلیہ اور بچوں کے زیرملکیت جائیدادوں کی تفصیل سے آگاہ کرنے کا نہیں کہا جا سکتا۔
 
Top