مُنیر اے ملک کے دلائل پر تناؤ کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کی سماعت کرنے والا لارجر بینچ کیسے ٹوٹا؟
اسد علی طور ستمبر 17, 2019
صُبح 9 بج کر 25 منٹ پر سُپریم کورٹ کی پہلی منزل پر عدالت نمبر 4 میں داخل ہوا تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب فیصل چوہدری اور صحافی دوستوں حسنات ملک، ناصر اقبال، سہیل خان، اُستادِ محترم مطیع اللہ جان، عبدالقیوم صدیقی، آصف بشیر چوہدری، عدیل، ثاقب تنویراور ٹیرنس سے ہاتھ ملاتا کمرہ عدالت کی دائیں طرف نسبتاً کم رش والی جگہ پر جا کھڑا ہوا۔ نظر دوڑائی تو پاکستانی وُکلا کی کریم مُنیر اے ملک، حامد خان، بابر ستار، اکرم شیخ، اکرام چوہدری، رشید اے رضوی، جسٹس (ر) طارق محمود، کامران مُرتضیٰ، امجد شاہ، تحریکِ انصاف کے وکیل رہنما نعیم بُخاری اور سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کو عدالت کے روبرو بیٹھے دیکھا جبکہ درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھے۔
کورٹ آ گئی کی آواز لگی تو 9 بج کر 32 منٹ پر لارجر بینچ کے رُکن سات معزز جج صاحبان کمرہِ عدالت میں آ کر بیٹھ گئے۔ بینچ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال کے دائیں ہاتھ پر کراچی کے اُردو سپیکنگ جج جسٹس مقبول باقر موجود تھے جِن کے ساتھ دو پنجابی ججز جسٹس سردار طارق مسعود اور پھر جسٹس اعجاز الاحسن بیٹھے تھے جبکہ بائیں طرف پنجابی جج منظور ملک سب سے پہلے اور اُن کے ساتھ سندھی جج فیصل عرب اور پھر پختون جج مظہر عالم خان میاں خیل کی نشست تھی۔
سماعت کا آغاز بہت ہی خوشگوار ماحول میں ہوا۔ لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے ججز بحالی کے لئے چلائی وکلا تحریک کے چیمپئن وکیل منیر اے ملک ایڈووکیٹ کو انتہائی مُسرت سے روسٹرم پر ویلکم کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی، آپ ہمارے بھائی جج کے دفاع میں پیش ہو رہے ہیں بہت اچھی بات ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل مُنیر اے ملک نے بینچ کے سربراہ کا شُکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے دلائل کا آغاز نئے عدالتی سال کے آغاز کے موقع پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی تقریر کے احتساب اور آزادیِ اظہار سلب کرنے والے پیراگراف پڑھ کر کیا۔
اِس کے بعد مُنیر اے ملک گویا ہوئے کہ پوری قوم کی نظریں وکلا تنظیموں، وکلا اور بینچ پر لگی ہیں۔ درخواست گزار جج کے وکیل مُنیر اے ملک نے مزید کہا کہ ہم نے خون دے کر عدلیہ کو آزادی دلوائی ہے اور اِس آزادی کو سلب کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے۔
ابتدائی کلمات سُن کر جسٹس بندیال نے مُنیر اے ملک کو کیس کے قانونی پوائنٹس بیان کرنے کی دعوت دی تو سینیئر وکیل نے جواب دیا کہ اُنہوں نے اہل ججز پر مُشتمل فُل کورٹ بنانے کی درخواست کی تھی۔ اہل ججز کی وضاحت کرتے ہوئے مُنیر اے ملک ایڈووکیٹ نے بتایا کہ دو طرح کے ججز اِس فُل کورٹ میں شامل نہیں ہو سکتے۔ ایک وہ ججز جو سُپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ریفرنس سُن رہے ہیں یعنی چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس گُلزار احمد اور جسٹس مُشیر عالم اور دوسرے وہ ججز جِن کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ہٹائے جانے کی صورت میں براہِ راست یا بالواسطہ فائدہ ہوتا ہو اور بینچ میں ایسے دو ججز موجود ہیں جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف فیصلے کے بینفشری ہوں گے۔
جب مُنیر اے ملک یہ کہہ رہے تھے تو جسٹس اعجاز الاحسن تو تاثرات سے عاری چہرے کے ساتھ صرف مُنیر اے ملک کی طرف دیکھ رہے تھے لیکن جسٹس سردار طارق مسعود نے فوراً سر موڑ کر جسٹس عُمر عطا بندیال کی طرف کُچھ یوں دیکھا جیسے کہنا چاہتے ہوں کہ کہا تھا نا میں نے بینچ میں نہیں بیٹھنا۔ مُنیر اے ملک کے جملوں سے ایسا لگا کہ ایک فائر ہوا ہے جِس نے کمرہِ عدالت میں تناؤ پیدا کر دیا۔
جسٹس عُمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بینچ میں شامل تمام ساتھی ججز اپنی ذمہ داریاں آئین اور قانون کے مطابق بغیر کسی خوف کے ادا کرنے والے ہیں۔ مُنیر اے ملک کا کہنا تھا جسٹس مظہر علی کیس اور سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کیس میں جسٹس فلک شیر اور جسٹس اجمل میاں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال
جسٹس عُمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ ٹی وی چینل کے خلاف کیس میں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے بینچ سے علیحدگی سے انکار کر کے بھی ایک مثال قائم کی تھی۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے آبزرویشن دی کہ یہ جج کا ذاتی فیصلہ ہوگا وہ بینچ کا رُکن رہنا چاہتا ہے یا نہیں، اِس کے لئے کوئی قانونی پابندی نہیں اور شاید سُپریم کورٹ کو طے کرنا چاہیے کہ آخر کِن بنیادوں پر جج کو کسی بینچ کا رُکن نہیں ہونا چاہیے۔ اِن ریمارکس کے دوران جسٹس بندیال کے بائیں طرف موجود جسٹس فیصل عرب زیرِ لب مُسکراتے رہے۔
ایڈووکیٹ مُنیر اے ملک نے جسٹس عُمر عطا بندیال کے ریمارکس پر جواب دیا کہ ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کی شق چار کہتی ہے کہ جج کو وہ کیس نہیں سُننا چاہیے جس سے ذاتی مُفاد وابستہ ہو۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے کہا کہ اگر شِق چار کو پڑھا جائے پھر تو سُپریم کورٹ کا کوئی بھی جج یہ کیس سُننے کا اہل نہیں رہ جائے گا۔ مُنیر اے ملک نے اِس پر جواب دیا کہ بینچ کے دو رُکن ججز میں سے ایک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہٹائے جانے کی صورت میں چار سال بعد چیف جسٹس بنتا ہے اور دوسرے کی مُدت میں توسیع ہوتی ہے۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ ہم میں سے کسی کو اپنی زندگی کے بارے میں کل کا یقین نہیں چار سال تو بہت دور ہیں، آپ چار سال بعد کے امکانات پر ججز پر ذاتی مُفاد کا کہہ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کی سماعت کرنے والے سات ججز کا شخصی خاکہ
ایڈوکیٹ مُنیر ملک کا کہنا تھا کہ جب کوئی جج چیف جسٹس بنتا ہے تو اُس کی تنخواہ اور پینشن میں اضافہ ہوتا ہے تو اُس کا ذاتی مُفاد ثابت ہوتا ہے۔ لارجر بینچ کے سربراہ نے آبزرویشن دی کہ آپ تعصب اور ذاتی مُفاد کا کہہ کر ادارے کی ساکھ کمزور کر رہے ہیں۔ جسٹس عُمرعطا بندیال نے اِس موقع پر ریمارکس دیے کہ آپ الزام لگا کر قیاس آرائیوں کا دروازہ کھول رہے ہیں۔ بینچ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے اپنے ساتھی ججز کا دفاع کرتے ہوئے درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل مُنیر اے ملک سے درخواست کی کہ آپ نے جو کہنا تھا وہ کہہ دیا، اب ججز پر چھوڑ دیں وہ بینچ میں بیٹھے رہنا چاہتے ہیں یا نہیں کیونکہ اگر آپ مزید اِس نُکتے پر زور دیں گے تو ایسا لگے گا آپ مخصوص ججز کو ہدف بنا رہے ہیں۔ یہ ریمارکس سُنتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی تو ٹارگٹ ہی کیا گیا ہے۔
اِس کے بعد جسٹس فیصل عرب نے سوال اُٹھایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہٹانے کا فیصلہ اِس لارجر بینچ نے نہیں بلکہ سُریم جوڈیشل کونسل نے کرنا ہے تو پھر اِس بینچ میں موجود ججز پر ذاتی مُفاد کی دلیل کیوں؟ جس پر مُنیر اے ملک نے جواب دیا، ہم تعصب کی نہیں ایک اصول کی بات کر رہے ہیں کہ انصاف صرف ہونا نہیں چاہیے بلکہ ہوتا نظر بھی آنا چاہیے۔ درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ میں عدلیہ کے ادارے کی ساکھ کی خاطر دو ججز کی موجودگی پر اعتراض کر رہا ہوں تاکہ کسی قسم کے شک کی گُنجائش باقی نہ رہے۔
جسٹس فیصل عرب
بینچ اور وکلا کے درمیان جاری اِس تمام بحث کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن سنجیدہ چہرے کے ساتھ صرف مُنیر اے ملک کی طرف دیکھتے رہے لیکن جسٹس سردار طارق مسعود کے چہرے پر اضطراب واضح تھا۔ جسٹس سردار طارق مسعود کبھی بائیں جانب سر گُھما کر بینچ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال کی طرف دیکھتے اور کبھی گہری سوچ میں ڈوبے دکھائے دیتے۔ ایسا بہت کم ہوا کہ جسٹس سردار طارق مسعود نے سر اُٹھا کر وُکلا کر روسٹرم کی جانب دیکھا ہو۔
بینچ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے مُنیر اے ملک سے سوال پوچھا کہ کیا وہ ججز کے خود کو بینچ سے علیحدہ کرنے پر کوئی نظیر عدالت کو بتا سکتے ہیں۔ جِس پر مُنیر اے ملک نے پہلے اُن کو اسد علی کیس میں جسٹس اجمل میاں کا نوٹ پڑھ کر سُنایا اور بعد ازاں پنوشے کی کورٹ کا فیصلہ پڑھنا شروع کر دیا۔ درخواستگزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل مُنیر اے ملک جب غیر مُلکی کورٹ کا فیصلہ پڑھ رہے تھے تو لارجر بینچ کے تمام ججز ماسوائے جسٹس منظور ملک کے فیصلے کی فراہم کردہ کاپی کا مطالعہ کر رہے تھے۔ جسٹس منظور ملک پڑھ نہیں رہے تھے بلکہ صرف سُن رہے تھے اور اُنکے چہرے پر کُچھ اضطراب تھا۔
اِس تمام سماعت کے دوران معروف وکیل اکرم شیخ کمرہِ عدالت میں گہری نیند کے مزے لیتے رہے۔ 10 بج کر 40 منٹ پر لارجر بینچ کے سربراہ کے دائیں طرف بیٹھے جسٹس مقبول باقر نے فراہم کردہ غیر مُلکی عدالت کے فیصلہ کی کاپی کے خراب ہونے کا کہہ کر دوسری کاپی مانگی تو جسٹس عُمر عطا بندیال نے اُن کو پیشکش کی کہ وہ دونوں آپس میں کاپی شیئر کر سکتے ہیں۔
ابھی یہ مُکالمہ جاری تھا کہ جسٹس سردار طارق مسعود نے جسٹس مقبول باقر کی طرف جُھک کر اُن سے گفتگو شروع کر دی۔ دونوں ججز کُچھ دیر بات کرتے رہے۔ پھر جسٹس مقبول باقر نے بینچ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال کی طرف جُھک کر اُن سے کُچھ کہا۔ بعد ازاں جسٹس عُمر عطا بندیال، جسٹس مقبول باقر اور جسٹس سردار طارق مسعود سرگوشی کے انداز میں سر جوڑ کر گفتگو کرنے لگے۔ جب تینوں ججز میں جاری گفتگو ختم ہوئی تو 10 بج کر 56 منٹ ہو چُکے تھے اور جسٹس عُمر عطا بندیال نے مُنیر اے ملک کو مُخاطب کر کے کہا کہ اب باقی دستاویز آپ سے بریک کے بعد سُن لیتے ہیں۔ جِس پر عدالتی وقفہ ہو گیا۔
عموماً 11 بجے ٹی بریک ہوتی ہے اور ججز آدھے گھنٹے بعد 11 بج کر 30 منٹ پر کمرہ عدالت میں لوٹ آتے ہیں۔ لیکن معمول سے ہٹ کر یہ عدالتی وقفہ ایک گھنٹے سے بھی طویل ثابت ہوا اور 12 بج کر 3 منٹ پر ججز کمرہِ عدالت میں واپس آئے۔ ججز کے بیٹھنے کے بعد مُنیر اے ملک نے دوبارہ فیصلہ کے نکات پڑھنے شروع کیے تو جسٹس سردار طارق مسعود نے اپنے ہاتھ میں موجود فیصلہ کی کاپی سائیڈ پر پھینک دی اور یہی وہ لمحہ تھا جب لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے مُنیر اے ملک کو روکتے ہوئے کہا کہ میرے کُچھ ساتھی ججز نے فیصلہ کیا ہے وہ بینچ کا حصہ نہیں رہنا چاہتے اور اِن ساتھی ججز میں سے جسٹس سردار طارق مسعود کُچھ کہنا چاہتے ہیں۔
جسٹس سردار طارق مسعود کافی دھیمی آواز میں بولنا شروع ہوئے تو کمرہِ عدالت کے دونوں اطراف رپورٹرز اُن کو سُننے کے لئے ایک ساتھ اِس انداز میں ایک ایک قدم آگے بڑھے جیسے کرکٹ میچ میں بالر رن اپ لے رہا ہوتا ہے تو فیلڈر بلے باز کی طرف گھیرا ڈالنے والے انداز میں قدم بڑھاتے ہیں۔
جسٹس طارق مسعود
جسٹس سردار طارق مسعود نے اپنی بات کا آغاز ہی اِس جُملے سے کیا کہ وہ وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ وُکلا کے اعتراض پر نہیں اُٹھ رہے بلکہ انہوں نے یہ فیصلہ پہلے سے لے رکھا تھا کہ وہ یہ کیس نہیں سُنیں گے۔ اِس بات سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ سات ججز میں صرف جسٹس سردار طارق مسعود ہی وہ واحد جج تھے جو اعلیٰ عدالتی اقدار کا پاس رکھتے ہوئے اِس لارجر بینچ کے رُکن نہیں بننا چاہتے تھے جِس کی مزید تصدیق جسٹس اعجاز الاحسن کے بینچ سے علیحدگی کی وجوہات بیان کرنے والے ریمارکس سے بھی ہوئی۔
جسٹس سردار طارق نے مُنیر اے ملک کی طرف سے مُستقبل میں چیف جسٹس بننے کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے اپنے ہاتھ سے چھت کی طرف اشارہ کرتے کہا کہ اِس کا فیصلہ تو سپریم جوڈیشل کونسل نے قانون کی روشنی میں کرنا ہے۔ شاید جسٹس سردار طارق مسعود چھت کی طرف اشارہ سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی جانب کیا تھا کیونکہ پہلی منزل پر واقع کورٹ روم نمبر چار کے اوپر تیسری منزل پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا چیمبر واقع ہے۔
جسٹس سردار طارق مسعود مُختصر گفتگو کر کے خاموش ہوئے تو اُن کے دائیں ہاتھ بیٹھے جسٹس اعجازالاحسن نے بھی کُچھ کہنے کی اجازت چاہی اور گویا ہوئے کہ انہوں نے قانون اور آئین کی روشنی میں فیصلے کرنے کا حلف لے رکھا ہے اور اُن کی بینچ میں موجودگی پر برادر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اعتراض بلاجواز اور افسوسناک تھا لیکن وہ اپنی غیر جانبدار پوزیشن کے لئے سپریم کورٹ کی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے خود کو بینچ سے علیحدہ کر رہے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن
جسٹس اعجاز الاحسن خاموش ہوئے تو مُنیر اے ملک نے کہا کہ وہ دونوں ججز کو سیلوٹ کرتے ہیں اور اپنے کلائنٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے دونوں ججز کی ساکھ پر کوئی سوال نہیں اُٹھا رہے اور جسٹس عیسیٰ دونوں ججز کی بہت عزت کرتے ہیں۔ جِس پر لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے مُنیر اے ملک کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو چھوڑیں صرف اپنی بات کریں۔
اِس موقع پر جسٹس عُمر عطا بندیال نے کہا کہ بس اِس بات کو مزید مت کریں اور ہم یہ معاملہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو واپس بھجوا رہے ہیں کہ وہ نیا بینچ بنا دیں۔ جب ججز اُٹھ کر کمرہِ عدالت سے نکل رہے تھے تو جسٹس سردار طارق مسعود نے اپنے دوست جسٹس منظور ملک کی طرف دونوں ہاتھ کھول کر یوں اشارہ کیا جیسے کہنا چاہتے ہوں بس میرا امتحان ختم اور جواباً جسٹس منظور ملک نے سر کو ہلکا سا ہلا کر یوں جواب دیا جیسے کہہ رہے ہوں ہاں میں سمجھ سکتا ہوں۔
جب ججز کمرہِ عدالت سے رُخصت ہو رہے تھے تو میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اِس بینچ کو بنانے کے پیچھے موجود حِکمت کو سمجھنے کی کوشش کررہا تھا کہ معزز چیف جسٹس نے جانتے بوجھتے ہوئے جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن کو اِس امتحان سے کیوں گزارا؟ چیف جسٹس آصف سعید تو تقریباً تین ماہ بعد 20 دسمبر 2019 کو ریٹائر ہو جائیں گے لیکن اِن ججز کو اگلے چار سال تک ساتھ کام کرنا ہے اور اِس بینچ میں شامل کر کے آپ اِن ججز کے ذہنوں پر ایک تکلیف دہ یاد چھوڑ گئے۔
اب کیونکہ وہ بینچ کے رُکن نہیں رہے تو کم از کم جسٹس سردار طارق مسعود کے بارے میں اِس گُمان کا اظہار کر سکتا ہوں کہ وہ اِس بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں رائے دیتے۔ وہ سمجھتے تھے کہ تاریخ نے اُنہیں موقع دیا ہے کہ وہ اپنا نام پاکستانی جسٹس شرما کے طور پر لِکھوا کر جائیں۔ لیکن جب درخواستگُزار بار کونسلز کی طرف سے اُن کے نام پر مُمکنہ اعتراض کی خبریں آئیں تو دلبرداشتہ ہو کر جسٹس سردار طارق مسعود نے بینچ سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا ہوگا۔
بینچ سے علیحدہ ہونے والے دونوں ججز نے بینچ سے علیحدگی کی جو وجوہات بیان کیں اُن کو سُن کر بھی اندازہ کیا جا سکتا تھا کہ عدالتی وقفہ میں آدھے گھنٹے کی تاخیر بھی شاید جسٹس سردار طارق مسعود کو بینچ سے علیحدگی کا فیصلہ بدلنے پر راضی کرنے میں ہوئی۔ لیکن جسٹس سردار طارق مسعود نہیں مانے اور پھر جسٹس اعجازالاحسن نے بھی اُن کی تقلید کرتے ہوئے بینچ سے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔