جسٹس قاضی فائز عیسیٰ وزیراعظم سے متعلق کوئی کیس نہیں سن سکتے، سپریم کورٹ

جاسم محمد

محفلین
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ وزیراعظم سے متعلق کیس نہ سنیں، سپریم کورٹ
حسیب بھٹی | ویب ڈیسک 11 فروری 2021

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ غیر جانب داری کے اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ وزیراعظم سے متعلق کوئی بھی مقدمہ نہ سنیں۔

چیف جسٹس نے فیصلے میں کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نامعلوم ذریعے سے وصول شدہ وٹس ایپ پیغام کا حوالہ دیا اور نامعلوم ذرائع سے وصول شدہ دستاویزات ججوں کو فراہم کیے گئے۔

انہوں نے تحریر کیا کہ دستاویزات کی کاپی اٹارنی جنرل کو بھی فراہم کی گئی جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ نامعلوم نمبر سے وصول شدہ دستاویزات اصلی ہیں یا نہیں۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے کہا دستاویزات کے مستند ہونے پر سوالیہ نشان موجود ہے اور استدعا کی کہ دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ نہ بنایا جائے۔

چیف جسٹس نے فیصلے میں لکھا کہ اٹارنی جنرل نے کہا اگر کوئی جج شکایت کنندہ ہو تو یہ مناسب نہیں وہ مقدمہ سنے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ اس مقدمے کو سنیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا اس صورت حال میں یہ مناسب نہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس مقدمے کو سنیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ذاتی حیثیت میں وزیراعظم کے خلاف ایک درخواست بھی دائر کر چکے ہیں۔

فیصلے میں کہا کہ غیر جانب داری اور بلا تعصب انصاف کی فراہمی کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے خلاف کیس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نہیں سن سکتے۔

چیف جسٹس نے فیصلے میں لکھا کہ وفاق سمیت تمام حکومتیں ترقیاتی فنڈز کے اجرا کی نفی کر چکی ہیں، اس لیے سپریم کورٹ نے مقدمہ نمٹا دیا۔


قبل ازیں سپریم کورٹ نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کے معاملے میں عمران خان کے دستخط شدہ جواب پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے معاملہ نمٹا دیا تھا۔

عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے لیے گئے نوٹس پر مذکورہ معاملے کی سماعت کی تھی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیراعظم کی جانب سے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کا نوٹس لیا تھا اور معاملے پر سماعت کے لیے بینچ تشکیل دینے کا معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا تھا۔

جس پر چیف جسٹس نے اپنی سربراہی میں ایک 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا، جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل تھے، بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن تھے۔

اس معاملے کی دوسری سماعت جب ہوئی تو گزشتہ روز طلب کیا گیا وزیراعظم کے دستخط شدہ محکمہ خزانہ کا جواب پیش کیا گیا۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو کہا تھا کہ پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کو 50 کروڑ روپے کے فنڈز سے متعلق محکمہ خزانہ کا واضح جواب جمع کرائیں، جس پر وزیراعظم کے دستخط موجود ہوں۔

اس پر جب وزیراعظم کے دستخط شدہ محکمہ خزانہ کا جواب پیش کیا گیا تو اس میں اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کی خبر کی تردید کی گئی اور ساتھ ہی سماعت میں اٹارنی جنرل نے وزیراعظم سے جواب مانگنے پر اعتراض کیا تھا، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جو اعتراض آج کر رہے ہیں وہ کل کیوں نہیں کیا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئینی سوال کسی بھی سطح پر اٹھایا جا سکتا ہے، کسی رکن اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز نہیں دیے جا سکتے۔

سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا وزیر اعظم ذاتی حیثیت میں جوابدہ تھے؟ وزیراعظم کو آئینی تحفظ حاصل ہے، وزیراعظم اس وقت جوابدہ ہے جب معاملہ ان سے متعلق ہو، حکومت جوابدہ ہو تو وزیراعظم سے نہیں پوچھا جاسکتا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالتی حکم میں جواب وزیراعظم کے سیکریٹری سے مانگا گیا تھا، حکومت سیکریٹریز کے ذریعے چلائی جاتی ہے۔

انہوں نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اٹارنی جنرل صاحب کوئی غیر قانونی حکم جاری نہ کرنے دیا کریں'۔

اس موقع پر جسٹس عیسیٰ نے کہا تھا کہ کل مجھے واٹس ایپ پر کسی نے کچھ دستاویزات بھیجی ہیں، حلقہ این اے 65 میں حکومتی اتحادی کو بھاری بھرکم فنڈز جاری کیے گئے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ کیا سڑک کی تعمیر کے لیے مخصوص حلقوں کو فنڈز دیے جا سکتے ہیں، کیا حلقے میں سڑک کے لیے فنڈز دینا قانون کے مطابق ہے؟

انہوں نے کہا تھا کہ ہم دشمن نہیں عوام کے پیسے اور آئین کے محافظ ہیں، اُمید ہے آپ بھی چاہیں گے کہ کرپشن پر مبنی اقدامات نہ ہوں۔

جسٹس عیسیٰ نے کہا تھا کہ میرے خلاف ٹوئٹس کی بھرمار ہورہی ہے، کیا کرپٹ پریکٹس کے خلاف اقدامات، الیکشن کمیشن کی ذمہ داری نہیں۔

معاملے کا پس منظر
یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے 27 جنوری کو پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے قانون سازوں کا اپنے حلقوں کے لیے ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کا دیرینہ مطالبہ پورا کیا تھا۔

وزیراعظم نے پائیدار ترقی کے اہداف کے تحت ہر رکن قومی اور صوبائی اسملبی کے لیے 50 کروڑ روپے کی گرانٹ کا اعلان کیا تاکہ وہ اپنے ووٹرز کے لیے ترقیاتی اسکیمیں شروع کرسکیں۔

بعد ازاں 3 فروری کو ایک کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیراعظم کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے ہر رکن اسمبلی کو 50 کروڑ روپے کی ترقیاتی گرانٹ دینے کی اخباری خبر کا نوٹس لیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مقبول باقر کی 2 رکنی بینچ نے 4 صفحات پر مشتمل حکم نامہ لکھا تھا آئین کی دفعہ 5(2) جو بتاتی ہے کہ آئین اور قانون کی اطاعت ہر شہری کی ناقابل قبول ذمہ داری ہے اور دفعہ 204(2) جو سپریم کورٹ کو عدالتی حکم کی پاسداری نہ کرنے والے شخص کو سزا دینے کا اختیار دیتی ہے، کا حوالہ دیا گیا تھا۔

مزید یہ کہ ججز کے عہدے کے لیے اٹھایا گیا حلف بھی انہیں آئین کے تحفظ اور اس کے دفاع کی ذمہ داری سونپتا ہے۔

اس کیس کے ابتدائی حکم نامے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ قومی اخبارات بشمول معتبر روزنامے ڈان میں 28 جنوری 2021 کو 'ہر قانون ساز کیلئے 50 کروڑ روپے کی گرانٹ کی منظوری' کی ہیڈ لائن کے تحت یہ رپورٹس سامنے آئی تھیں جس میں ایک وزیر کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ وزیراعظم نے رکن قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے 50 کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا ہے تاکہ وہ اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام کرواسکیں۔

اسی طرح یکم فروری کو اسی اخبار نے 'ترقیاتی فنڈز کے عنوان سے ایک اداریہ لکھا جس میں وزیراعظم کی جانب سے اپنی پارٹی کے ہر رکن قومی و صوبائی اسمبلی کو ان کے حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے نصف ارب روپے دینے پر سوال اٹھائے گئے تھے۔
 

جاسم محمد

محفلین
چیف جسٹس نے فیصلے میں کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نامعلوم ذریعے سے وصول شدہ وٹس ایپ پیغام کا حوالہ دیا اور نامعلوم ذرائع سے وصول شدہ دستاویزات ججوں کو فراہم کیے گئے۔
انہوں نے تحریر کیا کہ دستاویزات کی کاپی اٹارنی جنرل کو بھی فراہم کی گئی جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ نامعلوم نمبر سے وصول شدہ دستاویزات اصلی ہیں یا نہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے کہا دستاویزات کے مستند ہونے پر سوالیہ نشان موجود ہے اور استدعا کی کہ دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ نہ بنایا جائے۔
چیف جسٹس نے فیصلے میں لکھا کہ اٹارنی جنرل نے کہا اگر کوئی جج شکایت کنندہ ہو تو یہ مناسب نہیں وہ مقدمہ سنے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ اس مقدمے کو سنیں۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا اس صورت حال میں یہ مناسب نہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس مقدمے کو سنیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ذاتی حیثیت میں وزیراعظم کے خلاف ایک درخواست بھی دائر کر چکے ہیں۔
فیصلے میں کہا کہ غیر جانب داری اور بلا تعصب انصاف کی فراہمی کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے خلاف کیس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نہیں سن سکتے۔
چیف جسٹس نے فیصلے میں لکھا کہ وفاق سمیت تمام حکومتیں ترقیاتی فنڈز کے اجرا کی نفی کر چکی ہیں، اس لیے سپریم کورٹ نے مقدمہ نمٹا دیا۔
چیف جسٹس پاکستان کے اس تاریخی فیصلہ کے اب جمہوری انقلابی جسٹس فائز عیسیٰ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف کوئی کیس نہیں سن سکتے۔ البتہ وہ اپنا بغض عمران حکومت کے دیگر کرتا دھرتاؤں پر نکال سکتے ہیں :)
 

جاسم محمد

محفلین
پاناما والے ججز کو بوٹ چاٹ اور واٹس ایپ کہتے تھے۔ آج اپنا حدیبہ پیپر ملز کرپشن کیس بند کرنے والا اور فیض آباد دھرنے میں ایجنسیوں پر الزامات لگانے والا جمہوری انقلابی جج واٹس ایپ زدہ نکل آیا :)
image.png
 

جاسم محمد

محفلین
میں نے ایک چیز نوٹ کی ہے ن لیگ فوج اور ایجنسیوں پر جونسا بھی الزام لگاتی ہے بعد میں وہی الزام ان کے اپنے اوپر ثابت ہو جاتا ہے۔ پاناما ججز پر واٹس ایپ کا الزام لگایا۔ آج اپنا پسندیدہ جسٹس واٹس ایپ زدہ نکل آیا۔ ماضی میں جسٹس قیوم کو شہباز شریف کی جانب سے کی گئی فون کالز سامنے آئی تھی جس میں وہ زرداری اور بینظیر کو سخت ترین سزائیں دلوانے کا کہہ رہے تھے کہ نواز شریف کا حکم ہے۔ پھر جج ارشد ملک مرحوم کی نازیبہ ویڈیو کا الزام لگا کر خود ہی اس کو بلیک میل کرنے والی ویڈیو بنا کر جاری کر دی۔
 

جاسم محمد

محفلین
ڈان اور دی نیوز کی جس جھوٹی خبر پر جسٹس فائز عیسی نے سوموٹو ایکشن لیا ، آج ان دونوں بڑے انگریزی اخبارات نے اپنے فرنٹ پیج پر اس تاریخی عدالتی فیصلہ کو شائع تک نہیں کیا۔ ملک کا میڈیا بکاؤ اور جانبدار ہے اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا؟
image.png

image.png
 

آورکزئی

محفلین
اگر چ جسٹس کے وزیراعظم کے ساتھ ذاتی بغض کے اصول کے تحت جسٹس فائز عیسی ٰ کو عمران خان کے کیس نہیں سننا چاہئے
تو پھر اسی اصول کے تحت جسٹس ر عظمت سعید کو براڈ شیٹ کا کیس نہیں سننا چاہئے اور
عمر عطا بندیال، اعجاز الاحسن، اور چ جسٹس گلزار کو مسلم لیگ کے خلاف کیس نہیں سننے چاہئیں۔!!
 

جاسم محمد

محفلین
ہمیں تو خدشا ہے کہ ماورائی فیصلوں کے تحت موصوف کو عہدۂ زریں بھی نہیں ملنے والا!
تو موصوف کو کس حکیم نے کہا تھا کہ واٹس ایپ کے ایک گمنام نمبر سے میسیج کی بنیاد پر وزیر اعظم کے خلاف سو موٹو ایکشن لے لیں؟ یہ قانون سے کھلواڑ نہیں؟ بغض عمران لا علاج ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اگر چ جسٹس کے وزیراعظم کے ساتھ ذاتی بغض کے اصول کے تحت جسٹس فائز عیسی ٰ کو عمران خان کے کیس نہیں سننا چاہئے
تو پھر اسی اصول کے تحت جسٹس ر عظمت سعید کو براڈ شیٹ کا کیس نہیں سننا چاہئے اور
عمر عطا بندیال، اعجاز الاحسن، اور چ جسٹس گلزار کو مسلم لیگ کے خلاف کیس نہیں سننے چاہئیں۔!!
جسٹس فائز عیسی نے ذاتی حیثیت میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف کیس دائر کر رکھا ہے۔ اسی لئے ان کو وزیر اعظم کے خلاف کوئی بھی کیس سننے سے روکا گیا ہے۔ بغض عمران لا علاج ہے۔
 
تو موصوف کو کس حکیم نے کہا تھا کہ واٹس ایپ کے ایک گمنام نمبر سے میسیج کی بنیاد پر وزیر اعظم کے خلاف سو موٹو ایکشن لے لیں؟ یہ قانون سے کھلواڑ نہیں؟ بغض عمران لا علاج ہے۔
موصوف کو چیف جسٹس نے کہا بھی تھا کہ آپ یہ سب کیوں کررہے ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ ماورائی طاقتیں آپ کے خلاف ہوگئی ہیں اور اپنے بندے کو استعمال کررہی ہیں۔ اب آپ سیدھے گھر جائیں اور اللہ اللہ کریں۔
 
Top