جسٹس قاضی فائز عیسیٰ: سپریم کورٹ کے جج کو کسی درخواست کی سماعت سے روکنا کتنا غیر معمولی ہے؟
- شہزاد ملک
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
8 گھنٹے قبل
،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشن
سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے وزیراعظم عمران خان کی طرف سے سینیٹ کے انتخابات سے پہلے ارکان پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈ دینے کے اعلان کا از خود نوٹس لیا تھا
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جمعرات کو وزیراعظم کی طرف سے مبینہ طور پر ارکان پارلیمیٹ کو پچاس کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈ دینے سے متعلق از خود نوٹس کی درخواست نمٹاتے ہوئے آبزرویشن دی کہ چونکہ بنچ کے ایک رکن جسٹس فائز عیسیٰ نے ذاتی حیثیت میں وزیراعظم کے خلاف پٹیشن دائر کر رکھی ہے، اس لیے غیر جانبداری کے اصولوں کا تقاضا یہی ہے کہ انھیں ایسے معاملات کی سماعت نہیں کرنی چاہیے جو کہ وزیراعظم عمران خان سے متعلق ہوں۔
سپریم کورٹ کی طرف سے ایک جج کو کسی درخواست کی سماعت سے روکنے کا یہ فیصلہ کتنا غیر معمولی ہے اور ماضی میں اس کی کیا مثالیں ملتی ہیں؟ ہم نے ان سوالات کے جواب کے لیے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین حامد خان اور سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر سے بات کی ہے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران وزیراعظم عمران خان کی طرف سے سینیٹ کے انتخابات سے پہلے ارکان پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈ دینے کے اعلان کا از خود نوٹس لیا تھا اور یہ معاملہ اُنھوں نے چیف جسٹس کو بھجوا دیا تھا جنھوں نے اس از خود نوٹس پر پانچ رکنی بنچ تشکیل دیا تھا۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین حامد خان کا کہنا ہے کہ بہتر ہوتا کہ چیف جسٹس گلزار احمد اس طرح کی آبزرویشن نہ دیتے، جس سے کسی جج کی غیر جانبداری پر سوال ہو سکے۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر کسی جج کی جانبداری پر کوئی شبہ ہے تو اس بارے میں سماعت کے دوران درخواست گزار یہ معاملہ کسی بھی مرحلے پر اٹھا سکتا ہے تاہم اس کا حتمی فیصلہ وہ جج ہی کرسکتا ہے جس پر اعتراض اٹھایا گیا ہو۔
حامد خان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کی جانب سے آس ابزرویشن سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ چونکہ موجودہ حکومت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ ’کمفرٹیبل‘ (comfortable ( نہیں اس لیے مستقبل میں اُنھیں ایسے مقدمات کی سماعت سے روکا جائے جو کہ موجودہ حکومت یا وزیراعظم سے متعلق ہوں۔
حامد خان نے، جو پاکستان کی آئینی تاریخ کے بارے میں ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں، کہا کہ عدلیہ کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں جس میں کسی جج کو کسی مقدمے کی سماعت سے روکا گیا ہو۔
،تصویر کا ذریعہSupreme Court of Pakistan
حامد خان کا کہنا تھا کہ ماضی میں سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھی جسٹس فائز عیسیٰ سے متعلق اس سے ملتا جلتا اقدام ہی اٹھایا تھا جب پشاور میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران دونوں میں اختلاف ہوا تھا۔
’اس وقت کے چیف جسٹس نے جسٹس فائز عیسیٰ کو مقدمے کی سماعت سے الگ کر کے دو رکنی بینچ کے ساتھ اس مقدمے کی سماعت کی تو اس سماعت کے بعد تیسرے جج جسٹس منصور علی شاہ نے اس واقعہ پر ایک سخت نوٹ لکھا کہ کسی جج کو بنچ سے الگ کرنے کا فیصلہ چیف جسٹس کو نہیں بلکہ اس جج کو خود ہی کرنا چاہیے جس کی بنچ میں موجودگی کے بارے میں اعتراض اٹھایا گیا ہو۔‘
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کے پاس انتظامی اختیارات ضرور ہیں کہ وہ مقدمات کی سماعت کے لیے اپنی مرضی کے بنچ بنا سکتے ہیں لیکن ان کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں کہ وہ کسی جج کو کسی مقدمے کی سماعت کرنے سے روکیں۔
،تصویر کا ذریعہAFP
سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا ہے کہ نوے کی دہائی میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج عثمان علی شاہ کی ایک بنچ میں موجودگی پر اعتراض اٹھایا گیا تو سپریم کورٹ کے چار رکنی بینچ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ اگر کسی جج کی غیر جانبداری پر درخواست گزار یا دوسرے فریق کی جانب سے یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے تو اس جج پر منحصر ہے کہ وہ خود اس بنچ سے الگ ہوتا ہے یا نہیں۔
اُنھوں نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بیٹے ارسلان افتخار کے مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب سابق چیف جسٹس کے بیٹے پر بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض سے مبینہ طور پر پیسے لینے کا معاملہ سامنے آیا تو اس کی پہلی سماعت افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی تھی۔
اُنھوں نے کہا کہ جب اُنھوں نے بطور اٹارنی جنرل ان کی بنچ میں موجودگی پر اعتراض اٹھایا تو اس وقت کے چیف جسٹس نے اس اعتراض کو درست تسلیم کرتے ہوئے خود کو بنچ سے الگ کر لیا۔
عرفان قادر کا کہنا تھا کہ بظاہر وزیراعظم کی طرف سے ارکان پارلیمان کو فنڈ دینے سے متعلق اس از خود نوٹس کے بارے میں فیصلہ آ گیا ہے لیکن اُنھیں خدشہ ہے کہ اس بارے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے کوئی اختلافی نوٹ بھی آ سکتا ہے جس سے ’عدلیہ میں ڈویژن ہو سکتی ہے‘۔
یاد رہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے ایک مذہبی جماعت کی طرف سے فیض آباد دھرنے سے متعلق فیصلہ تحریر کیا تھا جس کے خلاف وزارت دفاع اور اس کے ماتحت اداروں کے علاوہ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف نے بھی نظرثانی کی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں تاہم نظرثانی کی درخواستوں کو ابھی سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے وزیراعظم عمران خان کا تحریک انصاف لائرز فورم میں شرکت کے بارے میں بھی نوٹس لے رکھا ہے اور یہ معاملہ بھی اُنھوں نے چیف جسٹس کو بھجوایا ہوا ہے لیکن یہ معاملہ ابھی سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوا ہے۔