عاطف بٹ
محفلین
عامر خاکوانی صاحب کی معلومات اسد صاحب کے بارے میں خاصی ناقص ہیں اور وہ تاریخ سے بالکل ناواقف معلوم ہوتے ہیں۔ اسد صاحب کی حیات و خدمات کے حوالے سے میرا ایک الگ دھاگہ شروع کرنے کا ارادہ تو ہے مگر یہاں کچھ وضاحتیں پیش کرتا چلوں تاکہ ان غلطی فہمیوں کا ازالہ ہوسکے جنہیں کالم نگار موصوف نے جان بوجھ لوگوں کے ذہنوں میں ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ اسلام قبول کرنے سے قبل اسد صاحب کا نام لیوپولڈ اسد نہیں بلکہ لیوپولڈ وِیز تھا۔ ان کا خاندان یہودی ربیوں کی ایک اہم لڑی سے تعلق تو رکھتا ہے مگر اسد صاحب کے والد ربی نہیں تھے بلکہ اپنی خاندانی روایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہوں نے وکالت کا پیشہ اختیار کرلیا تھا۔
یہودی ربیوں کے گھرانے میں پیدا ہونے کے باعث اسد صاحب کا مذہبی تعلیم حاصل کرنا اور عبرانی زبان سیکھنا ایک عام فہم سی بات ہے۔
محکمہ احیائے ملتِ اسلامیہ حکومت پاکستان کا ادارہ تھا اور صوبائی حکومت کا انتظامی حوالے سے اس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، لہٰذا وزیراعلیٰ پنجاب نواب افتخار خان ممدوٹ کی جانب سے اسد صاحب کو مقرر کرنے والی بات بہت ہی عجیب سی ہے۔
قائداعظم کے ہی کہنے پر اسد صاحب نے پاکستان کے دستور کے لئے سفارشات بھی مرتب کی تھیں، جو شاید کابینہ ڈویژن میں کہیں موجود ہوں گی۔ میں اس سلسلے میں کچھ تحقیقی کام کررہا ہوں، امید ہے کہ انشاءاللہ آئندہ سال میں کسی وقت یہ منصوبہ مکمل ہوجائے گا!
کالم نگار موصوف شاید اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ پطرس بخاری اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے مستقل مندوب بننے سے قبل گورنمنٹ کالج لاہور میں صرف انگریزی کے استاد ہی نہیں بلکہ اس ادارے کے سربراہ یعنی پرنسپل بھی تھے اور بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ اسی دوران پطرس سیکرٹری ایجوکیشن کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ اسد صاحب کے ساتھ جو کچھ پطرس بخاری کی طرف سے ہوا اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ دونوں شخصیات کے مزاج ایک دوسرے سے مختلف تھے اور وہ اقوام متحدہ میں ایک ساتھ کام کرنے سے قبل ایک دوسرے کو جانتے بھی نہیں تھے!
خاکوانی صاحب اگر اسد صاحب کے نظریات سے واقف ہوتے یا انہوں نے The Message of the Quran نامی ان کی انگریزی تفسیر کا مطالعہ کیا ہوتا تو انہیں پتہ ہوتا کہ جمہور علماء سے اسد صاحب کا نظریاتی اختلاف کن بنیادوں پر ہے۔ جو شخص معتزلہ اور اشاعرہ کے نظریاتی اختلافات سے واقفیت رکھتا ہے اس کے لئے اسد صاحب اور جمہور علماء کے مابین پائے جانے والے نظریاتی اختلاف کو سمجھنا بہت آسان ہوگا۔
جہاں تک مودودی صاحب اور اسد صاحب کے نظریاتی اختلاف کی بات ہے تو خاکوانی صاحب اگر دونوں محترم بزرگوں کی تفاسیر کا مطالعہ کرلیتے تو انہیں اندازہ ہوتا کہ تفسیر کے کئی مقامات ایسے ہیں جہاں ان دونوں بزرگوں کی رائے ایک دوسرے سے مطابقت رکھتی ہے حالانکہ باقی مفسرین ان دونوں سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ کہ اسلام قبول کرنے سے قبل اسد صاحب کا نام لیوپولڈ اسد نہیں بلکہ لیوپولڈ وِیز تھا۔ ان کا خاندان یہودی ربیوں کی ایک اہم لڑی سے تعلق تو رکھتا ہے مگر اسد صاحب کے والد ربی نہیں تھے بلکہ اپنی خاندانی روایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہوں نے وکالت کا پیشہ اختیار کرلیا تھا۔
یہودی ربیوں کے گھرانے میں پیدا ہونے کے باعث اسد صاحب کا مذہبی تعلیم حاصل کرنا اور عبرانی زبان سیکھنا ایک عام فہم سی بات ہے۔
محکمہ احیائے ملتِ اسلامیہ حکومت پاکستان کا ادارہ تھا اور صوبائی حکومت کا انتظامی حوالے سے اس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، لہٰذا وزیراعلیٰ پنجاب نواب افتخار خان ممدوٹ کی جانب سے اسد صاحب کو مقرر کرنے والی بات بہت ہی عجیب سی ہے۔
قائداعظم کے ہی کہنے پر اسد صاحب نے پاکستان کے دستور کے لئے سفارشات بھی مرتب کی تھیں، جو شاید کابینہ ڈویژن میں کہیں موجود ہوں گی۔ میں اس سلسلے میں کچھ تحقیقی کام کررہا ہوں، امید ہے کہ انشاءاللہ آئندہ سال میں کسی وقت یہ منصوبہ مکمل ہوجائے گا!
کالم نگار موصوف شاید اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ پطرس بخاری اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے مستقل مندوب بننے سے قبل گورنمنٹ کالج لاہور میں صرف انگریزی کے استاد ہی نہیں بلکہ اس ادارے کے سربراہ یعنی پرنسپل بھی تھے اور بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ اسی دوران پطرس سیکرٹری ایجوکیشن کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ اسد صاحب کے ساتھ جو کچھ پطرس بخاری کی طرف سے ہوا اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ دونوں شخصیات کے مزاج ایک دوسرے سے مختلف تھے اور وہ اقوام متحدہ میں ایک ساتھ کام کرنے سے قبل ایک دوسرے کو جانتے بھی نہیں تھے!
خاکوانی صاحب اگر اسد صاحب کے نظریات سے واقف ہوتے یا انہوں نے The Message of the Quran نامی ان کی انگریزی تفسیر کا مطالعہ کیا ہوتا تو انہیں پتہ ہوتا کہ جمہور علماء سے اسد صاحب کا نظریاتی اختلاف کن بنیادوں پر ہے۔ جو شخص معتزلہ اور اشاعرہ کے نظریاتی اختلافات سے واقفیت رکھتا ہے اس کے لئے اسد صاحب اور جمہور علماء کے مابین پائے جانے والے نظریاتی اختلاف کو سمجھنا بہت آسان ہوگا۔
جہاں تک مودودی صاحب اور اسد صاحب کے نظریاتی اختلاف کی بات ہے تو خاکوانی صاحب اگر دونوں محترم بزرگوں کی تفاسیر کا مطالعہ کرلیتے تو انہیں اندازہ ہوتا کہ تفسیر کے کئی مقامات ایسے ہیں جہاں ان دونوں بزرگوں کی رائے ایک دوسرے سے مطابقت رکھتی ہے حالانکہ باقی مفسرین ان دونوں سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔