حسان خان
لائبریرین
جسے بھی دیکھیے سینہ فگار شہر میں ہے
قدم قدم پہ لہو کی بہار شہر میں ہے
دھواں دھواں ہوئے جاتے ہیں مسجد و محراب
فقیہِ شہر یہ کیا انتشار شہر میں ہے
نکل کے دل سے محبت کہاں گئی سوچو
ہر ایک گام یہ کس کا مزار شہر میں ہے
جدھر بھی دیکھیے دریائے خوں کی موجیں ہیں
تعصبات کا اک آبشار شہر میں ہے
وہ جس نے شہر کی بنیاد خوں سے رکھی تھی
وہ شخص آج غریب الدیار شہر میں ہے
سکون، چین، محبت، خلوص سب موقوف
نفاق و بغض فقط برقرار شہر میں ہے
خبر کسی کو نہیں ہے یہ مقتلِ جاں میں!
کہ اُس کا قتل کسی پر اُدھار شہر میں ہے
اگرچہ بے گھری ریحان کو ملی ہے مگر
فقط یہی تو مگر شہریار، شہر میں ہے
(ریحان اعظمی)