سید شہزاد ناصر
محفلین
جس جگہ بیٹھنا دکھ درد ہی گانا ہم کو
اور آتا ہی نہیں کوئی فسانہ ہم کو
کل ہر اک زلف سمجھتی رہی شانہ ہم کو
آج آئینہ دکھاتا ہے زمانہ ہم کو
عقل پھرتی ہے لیے خانہ بہ خانہ ہم کو
عشق اب تو ہی بتا کوئی ٹھکانا ہم کو
یہ اسیری ہے سنورنے کا بہانہ ہم کو
طوق آئینہ ہے زنجیر ہے شانہ ہم کو
جادہ غم کے مسافر کا نہ پوچھو احوال
دور سے آے ہیں اور دور ہے جانا ہم کو
اک کانٹا سا کوئی دل میں چبھو دیتا ہے
یاد جب آتا ہے پھولوں کا زمانہ ہم کو
دل تو سو چاک ہے دامن بھی کہیں چاک نہ ہو
اے جنوں دیکھ ! تماشا نہ بنانا ہم کو