جس حال میں جینا مشکل ہو اس حال میں جینا لازم ہے ۔ نادیہ ارشد

کاشفی

محفلین
جس حال میں جینا مشکل ہو اس حال میں جینا لازم ہے ۔ نادیہ ارشد
استحصال زدہ مظلوم عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنا، یہ وہ مقصد ہے جو کم و بیش ہر سیاسی جماعت کے منشور کا حصہ ہے کیونکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جسکی بنیاد پر سیاسی جماعتیں یا تحریکیں عوام کی نمائندگی حاصل کرتی ہیں لیکن اگر اس حقیقت پسندی کا موازنہ عملیت پسندی سے کیا جائے اور اس روشنی میں سیاسی جماعتوں کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو قدرے مایوسی ہوتی ہے کہ پاکستان میں یہ نعرہ لگانے والی جماعتیں اپنے نمائندہ افراد کے لیئے اسی استحصالی طبقے سے جاگیردار، وڈیروں اور سرمایہ داروں کا انتخاب کرتی ہیں جو مظلوم عوام کے استحصال میں ملوث ہوتے ہیں . روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دینے والی ppp نہ صرف حصول اقتدار کے لیئے جمہوریت کے بنیادی اصول اکثریت کی حکمرانی کی نفی کرتے ہوئے اکثریتی جماعت کو اقتدار سے دور رکھ کر ملک کو دو لخت کرنے کا سبب بنی بلکہ ملک میں سرمایہ دارانہ نظام رائج کرکے پاکستان کے کسانوں ,ہاریوں اور مزدوروں کو وڈیروں ,سرمایہ داروں کی نظر میں کمی کمین کا درجہ دیا.اسلامی نظام کا نعرہ لگانے والی جماعتوں نے بھیIJI کے نام پر نواز شریف کی صورت میں سرمایہ داروں کو عوام کا خون چوسنے کے لیے ان پر مسلط کردیا اور قائداعظم کی مسلم لیگ کے نام سے سرمایہ داروں کی حکمرانی قائم کردی گئی جو بعد میں کئی ٹکڑوں ن,ق,ض وغیرہ میں بٹ گئی. عمران خان پچھلے کئی برسوں سے وزیراعظم کے نعرے لگو ارہے ہیں اور خوش ہورہے ہیں مگر اپنے تمامتر دعوؤں کے برعکس انہوں نے بھی انتخابی نمائندگان میں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو فوقیت دی. نیز وزارتوں اور عہدوں کا لالچ تحریک ا نصاف کو اس مقام پر لے آیا ہے جہاں خود تحریک ا نصاف کے اندر تحریک ا نصاف بچاو تحریک چل رہی ہے.ان دوغلی جماعتوں کے برعکس ایک ایسی جماعت ایک ایسا لیڈر ہے جس نے نعرہ بعد میں دیا عملی جدوجہد پہلے کی.الطاف حسین کی مہاجر قومی موومنٹ.متحدہ قومی موومنٹ درجہ بدرجہ ترقی کے منازل طے کرتی ہوئی,جسکی ابتداء بالکل اس انداز میں ہوئی جیسے موجودہ سپر پاور امریکہ میں ایک سیاہ فام خاتون نے نسلی امتیاز کی بناء پر بس کی سیٹ خالی کرنے سے انکار کردیا اور یہ انکار ایک ایسے احتجاج میں تبدیل ہوگیا کہ نہ صرف وہ سیاہ فام جنھیں ووٹ کا حق تھانہ ملازمتوں کا,اپنے حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے بلکہ آج اس سپر پاور کا سربراہ ایک سیاہ فام ہے. اسی طرح شہر کراچی کی جامعہ کے دروازے ایک متعصبانہ پالیسی کے تحت اس شہر کے طالبعلم پر بند کئے گئے تو ایک طالبعلم نے صدائے احتجاج بلند کیا اور بی. ایس.سی ایکشن کمیٹی تشکیل دی گئی.الطاف حسین سے کہا گیا کہ تم اپنا داخلہ کروالو اور خاموش ہو جاؤ مگر اس حق کی آواز کو دنیا میں گونجنا تھا یہ صدائے حق کہاں خاموشی میں بدلتی استحصال زدہ مڈل کلاس شہری طبقے کے طالبعلموں کو انکا حق دلانے کے بعد اور اے پی ایم ایس او نے کے نام سے اس عظیم تحریک کا آغاز ہوا جو اسٹوڈنٹ لیول سے شروع ہوئی عوامی پزیرائی پائی.پاکستان کی تقریبا تمام سیاسی جماعتوں کی تشکیل پہلے ہوئی اور انکی طلبا تنظیمیں بعد میں تشکیل دی گئی.

مہاجر قومی موومنٹ کو عوامی پذیرائی ملتے ہی استحصالی طبقے نے لسانیت کے نام پر کشت و خون کا بازار گرم کردیا مگر الطاف حسین کی مدبرانہ سیاست نے نفرتوں کو محبت میں بدل دیا یہاں تک کہ MQM پاکستان کے تمام استحصال ذدہ سندھی,پنجابی,بلوچی,پختون,سرائیکی,ہزارہ وال,بروہی بھائیوں کی نمائندہ جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے قالب میں ڈھل گئی.1987 میں کراچی اور حیدرآباد کی بلدیہ عظمی کی نمائندہ جماعت MQM واحد جماعت ہے جس کے سو فیصد نمائندگان خوائندہ اور استحصال ذدہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ,بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر کئی وڈیرہ شاہی اور جاگیردارانہ نظام سے تعلق رکھنے والے سیاسی اکابرین نے شمولیت کے ذریعے تحریک کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی مگر الطاف حسین نے کسی بڑے نام کا سہارا لینا گواراہ نہیں کیا کیونکہ الطاف حسین کو پاکستانی سیاست کے افق پر آفتاب بننا تھا جسکے ظہور سے مصنوعی ستاروں کی چمک مانند ہوجاتی. جب کوئی پروجیکٹ تشکیل دیا جاتا ہے تو پہلے اسکا ماڈل بنایا جاتا ہے الطاف حسین نے کراچی ,حیدرآباد اور میر پور خاص کی شہری حکومتوں کو نمونہ بنایا اور پورے پاکستان کے استحصال ذدہ غریب و مظلوم 98% محکوم عوام کو سمجھادیا کہ تمہارا حق تمہیں اس صورت ہی مل سکتا ہے جب تم اپنے اندر سے نمائندے لاؤ غریب کے درد کو غریب ہی سمجھ سکتا ہے,کسی گاؤں کا ہاری, کسی شہر کا چھوٹے مکانوں میں رہنے والا مزدور کلرک ہی جانتا ہے کہ آٹا مہنگا ہوتا ہے تو کیا ہوتا ہے,بجلی گیس یا پانی میسر نہ ہو تو کیا مصائب ہوتے ہیں .موجودہ نظام میں کوئی غریب صرف خواب ہی دیکھ سکتا تھا کہ وہ بھی کبھی وزیر مشیر یا گورنر بن سکتا ہے الطاف حسین نے ثابت کیا کہ اگرنظریئے میں پختگی اور کردار میں استقامت ہو تو حقیقت پسندی عملیت پسندی میں بدل جاتی ہے.اور استحصال ذدہ غریب و محکوم طبقے کوانکی منزل ملتی ہے.
پاکستان کے استحصال ذدہ ہ غریب و محکوم طبقے کے لیئے الطاف حسین کی جدوجہد تا حال جاری ہے,داخلے سے محروم کیا جانے والا طالبعلم مارٹن لوتھر اور نیلسن منڈیلا کی طرح ایک نہ ڈرنے والا نہ جھکنے والا عظیم لیڈر بن چکا ہے .مزید انتظامی یونٹس اور چھوٹے صوبوں کی حمایت اور پاکستان کے سیاسی و انتخابی نظام کو موئثر و مربوط کرنے کے لیئے انکے خیالات کا اندازہ ہوتا ہے.استحصالی قوتیں پاکستان کے استحصال ذدہ ہ غریب و محکوم طبقے کو الطاف حسین سے دور رکھنے کیلیئے اس کے مرکزی شہر کراچی میں بدترین تشدد کو فروغ دے رہی ہیں اگر اس کوشش کا خاتمہ نہ کیا گیا تو یہ ایسی ہی بدترین غلطی ہوگی جیسی 1971 کے انتخاب میں اکثریتی جماعت کو حکومت نہ دے کرکی گئی تھی.
الطاف حسین کے ویژن کے مطابق اس مملکت کی بقاء اسی صورت ممکن ہے جب%98عوام اپنے اندر سے انقلاب لائیں اور خود آگے بڑھ کر ان معاشی اصلاحات کا نفاذ کریں جو انکے بنیادی مسائل کا خاتمہ کردے اور ایسا اس وقت ہی ممکن ہے جب عوام تمام سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے الطاف حسین کا ساتھ دیں .​
 

کاشفی

محفلین
پنجاب سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد۔۔ایسے ہی لوگ میرے شہر میں آکر دہشت گردی کرتے ہیں۔۔
 

کاشفی

محفلین
پختونوں کے ایک لیڈر کے مطابق خیبرپختونخواہ افغانستان کا حصہ ہے۔۔
اس پختون لیڈر کے بارے میں کسی پنجابی لیڈر یا اسٹبلشمنٹ کی آواز نہیں نکلتی :)
 

کاشفی

محفلین
پنجاب اور دیگر صوبوں سے آئے ہوئے دہشت گرد میرے شہر میں دہشت گردی کرتے ہیں۔۔اب یہ دہشت اپنے شہروں میں بچوں کو اغواء کر رہے ہیں۔۔ اللہ رحم کرے ان بچوں پر۔۔
 
Top