محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
عجیب ۔۔۔۔ عجیب۔۔۔۔ عجیب۔۔۔قبلہ ! ایم۔اے۔ (اردو)میں ایک پرچے میں میر کا کلام بھی تھا۔ اسی دوران استاذِمحترم پروفیسر وارث علوی کے ہمراہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں منعقدہ میر تقی میر سیمینار میں دہلی جانے کا اتفاق ہوا تھا، وہیں سے نیشنل کائونسل فار پروموشن آف اردو لینگویج کی شائع کردہ کلیاتِ میر خرید کر لائے تھے۔ چونکہ میر اردو شاعری میں ایک معیار کا درجہ رکھتے تھے اور خود انہیں دعویٰ بھی تھا:’’ مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔‘‘ ہم کلیات میر کو سینے سے لگا کر رکھتے،اُٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے خوب پڑھتے، مجھے یاد ہے غالب اور اقبال سے بھی زیادہ ہمیں میر پسند تھے۔ کچھ اس لیے بھی کہ اس زمانے میں میر کی شاعری کا چلن تھا۔ رسائل و جرائد میں میر کی شاعری پر تنقیدی مضامین شائع ہوتے۔ میر پر نئی نئی کتابیں شائع ہو تیں۔ اسی دور میں میر سے متعلق ڈاکٹر جمیل جالبی کی کتاب بھی شائع ہوئی تھی۔ دوسری طرف شمس الرحمان فاروقی نے میر کے شعر کی بلند خوانی کا غلغلہ بلند کر رکھا تھا۔ میر کی شاعری کے فیشن یا چلن سے بھلا ہم کہاں دور رہ سکتے تھے۔ لہذا ہم بھی میر کے چاہنے والوں میں شامل ہو گئے۔ لیکن شادی کے ہوتے ہی کلیاتِ میر کو مقدس پتھر کی طرح چوم چاٹ کر الماری کی زینت بنا دِیا گیا۔کہ اب کلیات میر کی جگہ بیگم نے لے لی تھی اور پھر جب کبھی بیگم میکے جاتیں ہم کلام میر سے اپنی محبت کو از سر نوتازہ کرنے کے لیے کلیات میر کی رسم رونمائی کرتے۔ پھر بڑے چائو سے پڑھتے شوق سے بلند خوانی کرتے۔ آرزو تو تھی کہ کلام میر کا بیشتر حصہ زبانی حفظ کر لیں گے۔ لیکن ہماری طبع غیر موزوں اور پھرمیر کا کلام بھی غیر معجزانہ، قرآن مجید فرقان حمید تو تھا نہیں کہ تھوڑی سی محنت میں جلدی یاد ہو جاتا اُسے توجس قدر یاد کرتے اُسی قدر بھولتے جاتے۔ اس غزل کا مطلع بھی ہم نے یاد کر ہی لیا تھا۔
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
کل اُس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
بیگم کے آتے ہی کلیات میر دوبارہ الماری کی زینت بن جاتی۔ گویا کلیات میر کے ساتھ ہماری آنکھ مچولی کچھ یونہی چلتی رہی، اور پھردسمبر1995ء میں گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے یعنی شارٹ سرکٹ سے لگی آگ میں ہمارا آشیانہ جل کر خاک ہو گیا۔ ہزاروں کتابیں نذر آتش ہوئیں۔ لیکن ہماری محبت (کلیات میر)بال بال بچ گئی کہ وہ دوسرے مکان پر تھی۔ 2001ء میں تباہ کن زلزلہ آیا۔ اُس میں تو ہم اور ہماری محبت بفضل خدا بچ گئے۔ لیکن مارچ2002ء میں گودھرا حادثہ کے بعد اچانک جو فسادات پھوٹ نکلے، اُن میں ہمارے آشیانےکو فسادیوں نے نذرَ آتش کر دیا۔ اس بار پھر مع ڈھائی سو مخطوطات کے قریب سات ہزارسے زائد کتابیں، جل کر خاک ہوئیں۔ان کتابوں میں کیا کچھ نہ تھا۔ تقریبا ہر صنف سخن اور ہر فن پر کوئی نہ کوئی کتاب موجود تھی، چونکہ لسانیات کا طالبَ علم تھا۔ اُردو گجراتی لغات کی تالیف کا کام کر چکا تھا اردو کی قدیم و جدید تمام لغات کےتقریباتمام تر نسخے موجود تھے، وہ بھی جو مارکٹ میں دستیاب تھے اور وہ بھی جو دُرِّ نایاب تھے، کہ اُن کی فوٹو کاپیاں زرِ کثیر خرچ کر کے بنوا لی تھیں۔ اسی زمانے میں کمپیوٹر سائنس اور پروگرامنگ کا نیا نیا شوق چرایا تھا، ایک بھتیجی نے جب الکٹرانک سائنس میں B.Scکیا تو اسی کے ساتھ ہم نے پروگرامنگ سیکھنے کے لیے ڈپلوما ان پروگرامنگ میں داخلہ لے لیا تھا اور ڈپلوما اعلیٰ نمبروں سے پاس بھی کر لیا تھا۔ نیانیا کمپیوٹر اور ہزاروں روپے کی مالیت کی کمپیوٹر پروگرامنگ کی درجنوں کتابیں سب کی سب نذر آتش ہو گئیں۔ ہمیں جن چیزوں سے محروم ہونے کا بے حد قلق ہوا ان میں صف اول میں کلیات میر بھی تھی۔ اوردس ہزار اسلامی اصطلاحات پر مشتمل وہ اردو گجراتی لغت بھی تھا جس کی تالیف کا کام مکمل ہو چکا تھا، بس اشاعت باقی تھی: بقول میر
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کاحضور! اب دل کو تسلی دیجیے کہ آپ نے ہمارے زخم تازہ کردیے۔
آپ کو اللہ تعالیٰ نے صبر کی دولت سے مالا مال فرمایا ہوا ہے۔ بہت خوب۔
آپ کے ان واقعات نے رلادیا۔