مہ جبین
محفلین
جس طرف جائیے گرتی ہوئی دیوار ملے
اس خرابے کو الٰہی کوئی معمار ملے
اہلِ دل حق سے بغاوت تو نہیں کر سکتے
جانے کیا جرم تھا ان کا جو سرِ دار ملے
میں ترے سوزِ محبت کا امیں ہوں ورنہ
کتنے سورج مرے اشکوں کے خریدار ملے
نیند آتی ہے کہاں زیست کے ہنگاموں کو
حادثے خواب کے عالم میں بھی بیدار ملے
میں ہوں پتھر تو کسی راہ کا پتھر نہ بنا
آئینہ ہوں تو مجھے آئنہ بردار ملے
وہم کے نقش تھے یا ذوقِ نظر کے شہکار
کچھ خدو خال سرِ پردہء دیوار ملے
تھے وہ مہتاب کے آنسو کہ سحر کی کرنیں
کچھ رگِ جاں میں اترتے ہوئےانوار ملے
کاش آجائے مری سمت بھی اُس کا جھونکا
وہ ہَوا جس کو تری سانس کی مہکار ملے
شکریہ اے غمِ دل تیری بدولت ہی سہی
رات جاگے تو نئی صبح کے آثار ملے
تیرے آنگن کی ہَوا سے یہ توقع تو نہ تھی
ہر گلی میں تری پازیب کی جھنکار ملے
رات احساس کے در پر کوئی دستک نہ ہوئی
دل کی دہلیز پہ بکھرے ہوئے کچھ ہار ملے
پسِ خاموشیء دریا کئی طوفاں ہیں بپا
کیا عجب ہے جو ہمیں بھی لبِ گفتار ملے
کل تھا وہ رنگِ بہاراں کہ نظر جل اٹھی
شاخ در شاخ دہکتے رخسار ملے
جب بھی احساس کے زینے سے گزرنا چاہوں
کوئی وجدان کے جلووں کا نگہدار ملے
اے حزیں شہرِ نگاراں میں گئے تھے ہم بھی
بیشتر سنگ ملے آئنے دو چار ملے
حزیں صدیقی
انکل الف عین کی شفقتوں کی نذر
والسلام
اس خرابے کو الٰہی کوئی معمار ملے
اہلِ دل حق سے بغاوت تو نہیں کر سکتے
جانے کیا جرم تھا ان کا جو سرِ دار ملے
میں ترے سوزِ محبت کا امیں ہوں ورنہ
کتنے سورج مرے اشکوں کے خریدار ملے
نیند آتی ہے کہاں زیست کے ہنگاموں کو
حادثے خواب کے عالم میں بھی بیدار ملے
میں ہوں پتھر تو کسی راہ کا پتھر نہ بنا
آئینہ ہوں تو مجھے آئنہ بردار ملے
وہم کے نقش تھے یا ذوقِ نظر کے شہکار
کچھ خدو خال سرِ پردہء دیوار ملے
تھے وہ مہتاب کے آنسو کہ سحر کی کرنیں
کچھ رگِ جاں میں اترتے ہوئےانوار ملے
کاش آجائے مری سمت بھی اُس کا جھونکا
وہ ہَوا جس کو تری سانس کی مہکار ملے
شکریہ اے غمِ دل تیری بدولت ہی سہی
رات جاگے تو نئی صبح کے آثار ملے
تیرے آنگن کی ہَوا سے یہ توقع تو نہ تھی
ہر گلی میں تری پازیب کی جھنکار ملے
رات احساس کے در پر کوئی دستک نہ ہوئی
دل کی دہلیز پہ بکھرے ہوئے کچھ ہار ملے
پسِ خاموشیء دریا کئی طوفاں ہیں بپا
کیا عجب ہے جو ہمیں بھی لبِ گفتار ملے
کل تھا وہ رنگِ بہاراں کہ نظر جل اٹھی
شاخ در شاخ دہکتے رخسار ملے
جب بھی احساس کے زینے سے گزرنا چاہوں
کوئی وجدان کے جلووں کا نگہدار ملے
اے حزیں شہرِ نگاراں میں گئے تھے ہم بھی
بیشتر سنگ ملے آئنے دو چار ملے
حزیں صدیقی
انکل الف عین کی شفقتوں کی نذر
والسلام