سیما علی
لائبریرین
جزاک اللّہ خیرا کثیرافخر آدم و بنی آدم کی تعمیر کعبہ میں شرکت۔۔۔
بیت اللہ کی پہلی بنیاد اس طرح رکھی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے بیت المعمور کو جو کہ یاقوت سرخ تھا نازل فرما کر کعبہ کی جگہ رکھوایا۔ پھر اس کو آسمان پر اٹھایا گیا اور اس جگہ حضرت آدم علیہ السلام نے مکان تیار کیا اور ان کے بعد ان کی اولاد نے گارے اور پتھر سے اسے تعمیر کیا۔ طوفان نوح علیہ السلام میں وہ مکان غرق ہو گیا اور اس جگہ صرف ایک ٹیلہ رہ گیا جس پر بارش و سیلاب وغیرہ کا پانی نہیں چڑھتا تھا۔ بعد ازاں حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام نے اسے تعمیر کیا ۔ اس کے بعد عمالقہ اور پھر جرہم نے سعادت تعمیر حاصل کی اور آخر میں قریش نے اس کو ازسر نو تعمیر کیا۔
سرور کائنات فخر موجودات علیہ افضل الصلوٰت والتسلیمات پینتیس سال کی عمر کو پہنچے تو قریش نے کعبہ مبارکہ کو شہید کر کے نئے سرے سے تعمیر کرنا شروع کیا، کیونکہ اس کی دیواریں سیلاب و طغیانی کی وجہ سے کمزور پڑ گئی تھیں۔ حضور علیہ الصلاۃ والسلام بھی ان کے ہمراہ پتھر لاتے رہے اور تعمیر میں عملی طور پر حصہ لیا۔ جب دیواریں حجر اسود کی بلندی تک پہنچیں اور اس کے نصب کرنے کا مرحلہ آیا تو باہم جھگڑا پیدا ہوا (ہر قبیلہ کی خواہش تھی کہ اسے اپنی جگہ نصب کرنے کی سعادت صرف ہمیں نصیب ہو) حتیٰ کہ جنگ و جدال اور قتل کی دھمکیاں دی جانے لگیں۔
چند دن اسی طرح گزرے پھر باہم مشورہ کیا تاکہ کوئی حل تلاش کیا جائے۔ ابو امیہ بن المغیرہ نے جو قریش کا سردار تھا ، کہا کہ جو شخص پہلے پہل مسجد حرام کے دروازہ سے اندر آئے اس کو اپنا حکم اور فیصلہ کرنے والا تسلیم کر لو۔ چنانچہ سب سے پہلے جو ہستی مسجد حرام میں داخل ہوئی وہ رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی تھی۔ جب لوگوں نے آپ کو دیکھا تو کہنے لگے ، یہ امین ہیں ہم ان کے فیصلہ پر راضی ہیں (اور قریش آپ کو نزول وحی اور دعویٰ نبوت سے قبل امین کہہ کر پکارتے تھے)۔ جب آپ پہنچے اور انہوں نے اپنے مشورہ اور فیصلہ کا آپ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا، ایک کپڑا لے آؤ۔ جب وہ لایا گیا تو آپ نے حجر اسود کو اٹھاکر اس چادر پر رکھا۔ پھر فرمایا کہ ہر قبیلہ کپڑے کا ایک کنارہ پکڑ کر اسے اٹھائے۔ جب حجر اسود کے نصب کرنے والی جگہ کے قریب تک اٹھایا گیا تو آپ نے اپنے دست مبارک سے اس کو اپنی جگہ پر نصب کر دیا اور پھر باقی تعمیر پایہ تکمیل تک پہنچی (اور اس طرح رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے جنگ و جدال سے امن نصیب ہوا)۔
(الوفا باحوال المصطفےٰ ، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)
مِرے مصطفٰے! ﷺمجتبٰے، جانِ عالَم
نہیں کوئی بھی تجھ سے بڑھ کے مکرم
تو فخرِ بنی آدم و فخرِ آدم
’’ترے درکار درباں ہے جبریل اعظم
ترا مدح خواں ہر نبی و ولی ہے‘‘