جس کا ڈر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حسن علوی

محفلین
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اعلٰی امریکی حکام میں اب یہ چہ مگوئیاں شروع ہو چکی ہیں کہ چیونکہ پاکستان میں القائدہ کی شر پسند کاروائیاں حد سے تجاوز کر رہی ہیں اور پاکستانی حکومت اسے روکنے کے قابل بھی نہیں اسلیئے اس کارِ خیر کے لیئے امریکہ کو اپنی افواج پاکستان بھیجنا چاہیئے؛ اب دیکھیئے کہ اس منصوبہ پر عمل در آمد کب شروع ہوتا ھے۔
جس کا ڈر تھا وہی ہوا۔

مزید تفصیلات کےلیئے دیکھیئے:http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/01/080106_us_covert_opertions_ra.shtml
 

زینب

محفلین
ہلیری کلنٹن نے بھی کہا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔امریکہ اور برطانیہ کو نگرانی کے لیے فو ج بھیجنی چاہیے۔//////
 

حسن علوی

محفلین
آج کی خبروں کے مطابق پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل وحید ارشد نے ان تمام خبروں کی تردید کی ھے اور دو ٹوک الفاظ میں کہا ھے کہ پاکستان کی سرزمین پر کسی غیر ملکی فوج کو کوئی آپریشن کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ (ویسے آپس کی بات ھے جنرل صاحب پہلے کبھی امریکہ کو کسی سے اجازت لینے کی ضرورت پیش آئی ھے؟؟؟ )
مزید تفصیلات کےلیئے بی بی سی کی یہ خبر ملاحظہ کیجیئے:http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/01/080107_pak_on_covert_ra.shtml
 

تلمیذ

لائبریرین
ہلیری کلنٹن نے بھی کہا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔امریکہ اور برطانیہ کو نگرانی کے لیے فو ج بھیجنی چاہیے۔//////

بچپن میں پڑھی ہوئی بھیڑیے اور میمنے کی ندی پر اکٹھے پانی پینے کی کہانی یاد آ گئی ہے ۔ !!
 
شرم سے ڈوب مرنے کی بات ہے مشرف اور اس کے حواریوں کے لیے کہ جب تک ایٹم بم اور میزائل ٹیکنالوجی نہیں تھی تو پاکستان نے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن بھارت سے متعدد جنگیں کی اور ڈرا نہیں اور اب سب کچھ ہوتے ہوئے دنیا میں کھلے عام ہمارے ایٹمی اثاثوں کو ضبط کرنے اور ہم پر حملے کی باتیں ہوتی ہیں اور

بے حمیت اور شرم سے عاری مشرف ٹولہ ممناتا بھی نہیں ہے ۔ سچ کہا تھا اقبال نے

غیرت تھا جس کا نام رخصت ہوئی تیمور کے گھر سے
 

ظفری

لائبریرین
محب تمہارا کیا خیال ہے ۔۔۔ ؟ مشرف اور اس کے حواریوں کے جانے کے بعد پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر قبضے یا اس پر حملے کی بات ختم ہوجائے گی ۔ ؟
 
مشرف کے جانے کے بعد صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی آئے گی کیونکہ مشرف کی انتہائی غیر مقبول حکومت کو جانتے بوجھتے ہوئے امریکہ کی طرف سے یہ دباؤ آتا ہے۔

جب کوئی مقبول لیڈر برسر اقتدار ہوگا تو وہ امریکہ کی مرضی پر اس طرح کٹ مرنے کے لیے تیار نہ ہوگا اور امریکہ بھی سوچ سمجھ کر بیان دے گا کیونکہ امریکہ کو بھی پتا ہے کہ وہ جتنا بھی زور لگا لے پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان میں اس کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ یہ حقیقت امریکہ کو بہت اچھی طرح معلوم ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
مشرف کے جانے کے بعد صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی آئے گی کیونکہ مشرف کی انتہائی غیر مقبول حکومت کو جانتے بوجھتے ہوئے امریکہ کی طرف سے یہ دباؤ آتا ہے۔

محب تم سے یہ امید نہیں تھی کہ تم ایسا تجزیہ پیش کروگے ۔ ! پاکستان کی تاریخ اٹھاؤ اور دیکھو کہ کس کس حکومت کو امریکی دباؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے ۔ اور یہ دباؤ 1950 سے چلا آرہا ہے اور اسی دباؤ کے نتیجے میں لیاقت علی خاں نے بغل میں موجود روس کو چھوڑ کر امریکہ کے دورے کو ترجیح دی تھی ۔

جب کوئی مقبول لیڈر برسر اقتدار ہوگا تو وہ امریکہ کی مرضی پر اس طرح کٹ مرنے کے لیے تیار نہ ہوگا اور امریکہ بھی سوچ سمجھ کر بیان دے گا کیونکہ امریکہ کو بھی پتا ہے کہ وہ جتنا بھی زور لگا لے پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان میں اس کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ یہ حقیقت امریکہ کو بہت اچھی طرح معلوم ہے ۔

پاکستان بننے کے بعد ہر دھائی میں پاکستان کا پس منظر بدلا ہے ۔ خصوصاً 911 کے بعد دنیا میں جو تبدیلی رونما ہوئی اس کا پاکستان کی ہر دھائی میں بدلتی ہوئی صورتحال پر بہت بڑا اثر پڑا ہے ۔ جو بھی حکومت اس صورتحال میں آئے گی اس کو اسی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ پاکستان ایمٹی طاقت نہ ہوتا تو شاید اس دباؤ میں کسی کمی یا رعایت کا سوچا جاسکتا تھا مگر اب انتہا پسندی اور دہشت گردی کی آڑ میں کسی بھی حکومت کے بس کی بات نہیں کہ وہ اس دباؤ کا سامنا کرسکے ۔

رہی بات مقبول لیڈر کے برسرِ اقتدار میں آنے کی کہ تو ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ عوام میں کون مقبول رہا ہوگا ۔ مگر امریکی دباؤ پر اس کا انجام سامنے ہے ۔ پاکستان کی ساری سیاست کا دارومدار امریکن پالیسی پر ہے ۔ جو بھی یہاں حکومت کرنے آئے گا اس کو امریکہ کی پشت پناہی ضرور حاصل ہوگی ۔ لہذا اب مشرف سے سیاسی اختلاف کی وجہ سے اصل حقائق کو پسِ پشت ڈالنا دانشمندی نہیں ہے ۔ امریکہ ایک بدمست ہاتھی ہے ۔ جہاں اس کو اپنا جو مفاد نظر آئے گا وہ وہاں آئے گا اور جہاں ا سکو اپنے مفاد کے لیئے کوئی خطرہ لاحق محسوس ہوگا وہ اس کی سرکوبی کے لیئے ہر ممکن اقدام کرے گا ۔ چنانچہ دانشمندی یہ ہوگی کہ خود کو اس سے تصادم سے کیسے بچایا جائے ۔ ؟ اور اپنی بقاء کے ساتھ ساتھ اپنی ترقی و استحکام میں کن کن ترجیحات کو مدِ نظر رکھ کر امریکہ کو اپنے ملک میں ‌ہر ممکنہ مداخلت سے دور رکھا جائے ۔ اور یہ تاثر بھی غلط ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں پاکستان کی ضرورت ہے ۔ وہاں اب روس والی صورتحال نہیں ہے ۔ پاکستانی سرحدی علاقے جو افغانستان کے بارڈ کے ساتھ ہیں ۔ وہاں سے افغانی طالبان کو پاکستانی طالبان کی ہر قسم کی مدد جاری ہے ۔ لہذا وہ کئی بار وہاں بھرپور حملوں کا عندیہ بھی دے چکا ہے اور کئی بار وہاں مزائل بھی داغ چکا ہے ۔ مگر حکومت کے کئی بار اسٹینڈ لینے پر یہ ممکن نہیں‌ ہوسکا ہے ۔ پاکستان کی سیاست کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال میں انہوں نے پھر سے کچھ دن پہلے ایک اور بیان داغ دیا ہے ۔ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے ۔ ؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
شرم سے ڈوب مرنے کی بات ہے مشرف اور اس کے حواریوں کے لیے کہ جب تک ایٹم بم اور میزائل ٹیکنالوجی نہیں تھی تو پاکستان نے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن بھارت سے متعدد جنگیں کی اور ڈرا نہیں اور اب سب کچھ ہوتے ہوئے دنیا میں کھلے عام ہمارے ایٹمی اثاثوں کو ضبط کرنے اور ہم پر حملے کی باتیں ہوتی ہیں اور

بے حمیت اور شرم سے عاری مشرف ٹولہ ممناتا بھی نہیں ہے ۔ سچ کہا تھا اقبال نے

غیرت تھا جس کا نام رخصت ہوئی تیمور کے گھر سے

معذرت کے ساتھ محب صاحب - علاّمہ اقبال کی اس نظم کا عنوان ہے "غلام قادر رہیلہ" اور اس نظم کا یہ آخری مصرعہ ہے -

غلام قادر رہیلہ
رہیلہ کس قدر ظالم، جفا جو، کینہ پرور تھا
نکالیں شاہِ تیموری کی آنکھیں نوک خنجر سے
دیا اہلِ حرم کو رقص کا فرماں، ستم گر نے
یہ اندازِ ستم کچھ کم نہ تھا آثارِ محشر سے
بھلا تعمیل اس فرمانِ غیرت کش کی ممکن تھی!
شہنشاہی حرم کی نازنینانِ سمن بر سے
بنایا آہ! سامانِ طرب بیدرد نے ان کو
نہاں تھا حسن جن کا چشمِ مہر و ماہ و اختر سے
لرزتے تھے دل نازک، قدم مجبورِ جنبش تھے
رواں دریائے خوں ، شہزادیوں کے دیدۂ تر سے
یونہی کچھ دیر تک محوِ نظر آنکھیں رہیں اس کی
کیا گھبرا کے پھر آزاد سر کو بارِ مغفر سے
کمر سے ، اٹھ کے تیغِ جاں ستاں ، آتش فشاں کھولی
سبق آموز تابانی ہوں انجم جس کے جوہر سے
رکھا خنجر کو آگے اور پھر کچھ سوچ کر لیٹا
تقاضا کر رہی تھی نیند گویا چشمِ احمر سے
بجھائے خواب کے پانی نے اخگر اس کی آنکھوں کے
نظر شرما گئی ظالم کی درد انگیز منظر سے
پھر اٹھا اور تیموری حرم سے یوں لگا کہنے
شکایت چاہیے تم کو نہ کچھ اپنے مقدر سے
مرا مسند پہ سو جانا بناوٹ تھی، تکلّف تھا
کہ غفلت دور ہے شانِ صفِ آرایان لشکر سے
یہ مقصد تھا مرا اس سے ، کوئی تیمور کی بیٹی
مجھے غافل سمجھ کر مار ڈالے میرے خنجر سے
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے
 

اظہرالحق

محفلین
ایٹمی طاقت اور مزاءیل کس کام کے جب دل جذبوں سے ہی خالی ہوں ؟

کافر ہے تو شمیشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی ۔ ۔ ۔ ۔
 

ظفری

لائبریرین
میرا خیال یہ ہے کہ آج یہ سوال ہمارے اہلِ دانش کی توجہ کا سب سے بڑا مستحق ہے کہ ہم اس معاشرے کو کس طرح دورِحاضر کا زندہ معاشرہ بنا سکتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اقتدار کی حریفانہ کشمکش میں فریق بن کر کوئی بھی شخص اس سوال کا جواب تلاش نہیں کرسکتا ۔ ایک مخلص اور نیک آدمی جب اس سوال کا جواب تلاش کرتا ہے تو اس کے نزدیک معاشرے کو درپیش مسائل کا سبب جنرل پرویز مشرف کا اقتدار ہے ۔ اگر کسی کو دلیل کی ضرورت ہے تو عمران خان اور قاضی حسین احمد کے سابقہ بیانات پڑھ لے ۔ مشرف سے پہلے یہ سبب نواز شریف تھے ۔ جب وہ برسراقدار تھے تو اس وقت بینظیر مرحومہ صاحبہ ہمارے مسائل کی اصل جڑ تھیں ۔ یہ نتیجہ صرف اسی صورت میں ترتیب پاتا ہے جب آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ اصل اہمیت معاشرے کی نہیں ، ریاست کی ہے ۔ اور مطلوبہ تبدیلی ، معاشرتی تبدیلی نہیں بلکہ سیاسی تبدیلی ہے ۔ جبکہ اصل اہمیت معاشرے کی ہے اور ایک مصلح کا میدانِ عمل معاشرتی اصلاح ہے ۔ جس کا ایک نتیجہ سیاسی اصلاح ہے ۔ اور یہ عمل معاشرے میں ایک شعوری تبدیلی سے شروع ہوگا ۔ اچھے لوگ ہونگے تو معاشرہ اچھا ہوگا اور معاشرہ اچھا ہوگا تو ایک اچھی حکومت کی تخلیق ممکن ہوسکے گی ۔ سو اگر اس بحران میں ہم نے اپنی توجہ اور توانائی کا رخ معاشرے کی اصلاح پر کر لیا تو کوئی بعید نہیں کہ سیاسی افق پر چھائے ہوئے یہ مکروفریب کے سیاہ بادل چھٹ جائیں ۔ اور ہم معاشرے کی اصلاح کرتے ہوئے سیاسی طور پر ملک و قوم سے اتنے مخلص ہوجائیں کہ قوم کی خوشحالی اور ترقی ہمیں دنوں‌کا سفر لگیں گے ۔
 

ظفری

لائبریرین
توبہ اتنی الجھی ہوئی بات میرے تو زرہ بھی پلے نہیں پڑی۔۔۔۔

بھئی سیدھی سی بات ہے محب اور دیگر ساتھیوں کا اصرار ہے کہ مشرف ہی تمام برائیوں کا محور ہیں ۔ میں کہہ رہا ہوں کل کوئی اور تھا ، آج مشرف ہے کل کوئی اور آجائے گا ۔ تو ایسا سلسلہ کیوں ہے ۔ کیونکہ ہم اس طرح کی سیاسی تبدیلی کو معاشرتی تبدیلی میں بدلنا چاہتے ہیں ۔ میرا کہنا ہے پہلے معاشرے کی اصلاح ضروری ہے ۔ یعنی سیاسی اصلاح کا پہلو پہلے سامنے ضروری ہے ۔ پھر کہیں جاکر کسی مثبت سیاسی تبدیلی کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں ۔ ورنہ ایک بیمار معاشرے سے ایک بیمار حکمران ہی آسکتا ہے ۔

سمجھ آئی ۔ ;)
 
Top