شرم سے ڈوب مرنے کی بات ہے مشرف اور اس کے حواریوں کے لیے کہ جب تک ایٹم بم اور میزائل ٹیکنالوجی نہیں تھی تو پاکستان نے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن بھارت سے متعدد جنگیں کی اور ڈرا نہیں اور اب سب کچھ ہوتے ہوئے دنیا میں کھلے عام ہمارے ایٹمی اثاثوں کو ضبط کرنے اور ہم پر حملے کی باتیں ہوتی ہیں اور
بے حمیت اور شرم سے عاری مشرف ٹولہ ممناتا بھی نہیں ہے ۔ سچ کہا تھا اقبال نے
غیرت تھا جس کا نام رخصت ہوئی تیمور کے گھر سے
معذرت کے ساتھ محب صاحب - علاّمہ اقبال کی اس نظم کا عنوان ہے "غلام قادر رہیلہ" اور اس نظم کا یہ آخری مصرعہ ہے -
غلام قادر رہیلہ
رہیلہ کس قدر ظالم، جفا جو، کینہ پرور تھا
نکالیں شاہِ تیموری کی آنکھیں نوک خنجر سے
دیا اہلِ حرم کو رقص کا فرماں، ستم گر نے
یہ اندازِ ستم کچھ کم نہ تھا آثارِ محشر سے
بھلا تعمیل اس فرمانِ غیرت کش کی ممکن تھی!
شہنشاہی حرم کی نازنینانِ سمن بر سے
بنایا آہ! سامانِ طرب بیدرد نے ان کو
نہاں تھا حسن جن کا چشمِ مہر و ماہ و اختر سے
لرزتے تھے دل نازک، قدم مجبورِ جنبش تھے
رواں دریائے خوں ، شہزادیوں کے دیدۂ تر سے
یونہی کچھ دیر تک محوِ نظر آنکھیں رہیں اس کی
کیا گھبرا کے پھر آزاد سر کو بارِ مغفر سے
کمر سے ، اٹھ کے تیغِ جاں ستاں ، آتش فشاں کھولی
سبق آموز تابانی ہوں انجم جس کے جوہر سے
رکھا خنجر کو آگے اور پھر کچھ سوچ کر لیٹا
تقاضا کر رہی تھی نیند گویا چشمِ احمر سے
بجھائے خواب کے پانی نے اخگر اس کی آنکھوں کے
نظر شرما گئی ظالم کی درد انگیز منظر سے
پھر اٹھا اور تیموری حرم سے یوں لگا کہنے
شکایت چاہیے تم کو نہ کچھ اپنے مقدر سے
مرا مسند پہ سو جانا بناوٹ تھی، تکلّف تھا
کہ غفلت دور ہے شانِ صفِ آرایان لشکر سے
یہ مقصد تھا مرا اس سے ، کوئی تیمور کی بیٹی
مجھے غافل سمجھ کر مار ڈالے میرے خنجر سے
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے