جس کا ڈر تھا وہی ہوا نا(مفعولن فاعلن فعولن)

نوید ناظم

محفلین
جس کا ڈر تھا وہی ہوا نا
آخر وہ اجنبی ہوا نا

میرے مرنے پہ کہہ رہا ہے
چھوڑو بس ٹھیک ہی ہوا نا

رسوائی عشق میں ہے لازم
دیکھا! یہ کام بھی ہوا نا

سانسوں کا ربط اُس سے قائم
مطلب وہ زندگی ہوا نا

میں اُس کو بھولنے لگا ہوں
پھر یہ سانس آخری ہوا نا؟

جو میرا گھر جلا رہا تھا
وہ نذرِ تیرگی ہوا نا

مجھ کو شبیر کا ملا غم
یوں ہر غم سے بری ہوا نا
 

عباد اللہ

محفلین
ہمیں یہ بحر کچھ نامانوس سی لگی مطالعے کی کمی ہی اس کی وجہ ہو سکتی ہے اگر آپ اساتذہ کا کہا کچھ اس بحر میں پیش کر سکیں تو عنایت، باقی کاوش کے لئے داد
 

نوید ناظم

محفلین
ہمیں یہ بحر کچھ نامانوس سی لگی مطالعے کی کمی ہی اس کی وجہ ہو سکتی ہے اگر آپ اساتذہ کا کہا کچھ اس بحر میں پیش کر سکیں تو عنایت، باقی کاوش کے لئے داد
تشکر۔۔۔ جی ان اوزان پر پہلے بھی بات ہوئی جب ایک غزل پیش کی، اساتذہ نے اسے درست قرار دیا، مجھے ربط دینا نہیں آتا، محمد ریحان قریشی صاحب کا تبصرہ کاپی پیسٹ کر رہا ہوں۔
"اصل بحر مفعول مفاعلن فعولن(ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف) ہے۔ تسکینِ اوسط کے ذریعے وزن مفعولن فاعلن فعولن(ہزج مسدس اخرم اشتر محذوف یا پھر ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف مسکن) حاصل کیا جا سکتا ہے۔"

ویسے غالب کی ایک غزل "فریاد کی کوئی لے نہیں ہے" اوپر کے دونوں اوزان کے خلط کے ساتھ ہے۔
 

عباد اللہ

محفلین
تشکر۔۔۔ جی ان اوزان پر پہلے بھی بات ہوئی جب ایک غزل پیش کی، اساتذہ نے اسے درست قرار دیا، مجھے ربط دینا نہیں آتا، محمد ریحان قریشی صاحب کا تبصرہ کاپی پیسٹ کر رہا ہوں۔
"اصل بحر مفعول مفاعلن فعولن(ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف) ہے۔ تسکینِ اوسط کے ذریعے وزن مفعولن فاعلن فعولن(ہزج مسدس اخرم اشتر محذوف یا پھر ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف مسکن) حاصل کیا جا سکتا ہے۔"

ویسے غالب کی ایک غزل "فریاد کی کوئی لے نہیں ہے" اوپر کے دونوں اوزان کے خلط کے ساتھ ہے۔
دراصل غالب کو ہم نے تقطیع سیکھنے سے پہلے ہی مکمل پڑھ لیا تھا دوبارہ اس دقتِ نظر سے پڑھنے کے لئے وقت بھی نہیں مل سکا اور کچھ ہماری ترجیحات بھی بدل گئیں ، ہم یوں بھی بہت سہل طلب ہیں طبیعت کی موزونی پر ہی زیادہ بھروسہ کرتے ہیں اس لئے غالب کی غزل میں اس خلط کا اندازہ نہیں ہو سکا تھا اب دوبارہ پڑھنے پر ایک خوشگوار حیرت سے سابقہ ہوا۔
مفعول مفاعلن فعولن ہماری "ڈیفالٹ بحر" ہے، پہلی غزل اسی میں کہی تھی جب ہم بحور و اوازن تو کیا اردو زبان سے بھی ناواقفیت کے مزے لوٹتے تھے ،
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
مفعول مفاعلن فعولن
نالہ پابندِ نے نہیں ہے
مفعولن فاعلن فعولن
یہاں ہم دونوں مصرعے موزونیت کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں مگر آپ کی غزل نہیں، ہماری طبیعت ہی کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے شاید
"پھر یہ سانس آخری ہوا نا"
یہاں الف وصل سے کام چلایا ہے یا سانس کو دوحرفی بھی باندھ سکتے ہیں ؟
 

نوید ناظم

محفلین
دراصل غالب کو ہم نے تقطیع سیکھنے سے پہلے ہی مکمل پڑھ لیا تھا دوبارہ اس دقتِ نظر سے پڑھنے کے لئے وقت بھی نہیں مل سکا اور کچھ ہماری ترجیحات بھی بدل گئیں ، ہم یوں بھی بہت سہل طلب ہیں طبیعت کی موزونی پر ہی زیادہ بھروسہ کرتے ہیں اس لئے غالب کی غزل میں اس خلط کا اندازہ نہیں ہو سکا تھا اب دوبارہ پڑھنے پر ایک خوشگوار حیرت سے سابقہ ہوا۔
مفعول مفاعلن فعولن ہماری "ڈیفالٹ بحر" ہے، پہلی غزل اسی میں کہی تھی جب ہم بحور و اوازن تو کیا اردو زبان سے بھی ناواقفیت کے مزے لوٹتے تھے ،
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
مفعول مفاعلن فعولن
نالہ پابندِ نے نہیں ہے
مفعولن فاعلن فعولن
یہاں ہم دونوں مصرعے موزونیت کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں مگر آپ کی غزل نہیں، ہماری طبیعت ہی کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے شاید
"پھر یہ سانس آخری ہوا نا"
یہاں الف وصل سے کام چلایا ہے یا سانس کو دوحرفی بھی باندھ سکتے ہیں ؟
جی آپ اپنی طبیعت کے متعلق بالکل شاکی نہ ہوں، چونکہ یہ ایک مبتدی کی تکبندی ہے اس لیے بعید نہیں کہ یہ اور اس طرح کے اور مسائل بھی در آئیں۔:)
جی ہاں! یہاں الف وصل ہی سے کام چلانے کی کوشش کی تھی۔ سانس میرے خیال میں تو دو حرفی نہیں باندھ سکتے بصورت اس کے جو اوپر ہے۔۔۔۔۔ ویسے اساتذہ ہی جانتے ہیں اس بارے، یہ تو محض خیال ہے۔
 
Top