آج صرف اپنے ملک کی آزادی کے دن میں کافی عرصے بعد محفل میں آیا ہوں اور ڈھونڈتے دھونڈتے مجھ کو اپنے ایک سال پہلے کا پیغام مل ہی گیا جسن خدشات کا اظہار میں نے ایک سال پہلے کیا تھا وہ اب اور زیادہ بڑھ چکے ہیں ایک سال پہلے میں شرمندہ ضرور تھا پھر بھی اپنے وطن کی آزادی کے دن کی خوشی ضرور تھی پر آج۔۔۔۔۔۔۔ آج میرا دل رورہا ہے۔ میرے بھائیوں کے سروں پر چھت نہیں میری بہنیں بے آسرا بیٹھی ہوئی ہیں بلکتے بچوں کو لئے ہماری امداد کی منتظر ہیں۔ جن لوگوں نے 2005 کے زلزلے میں بڑھ چڑھ کر امداد کی تھی اور جو جذبہ اسوقت نظر آیا تھا وہ جذبہ اسوقت نظر کیوں نہیں آرہا اگراسوقت رمضان تھے اور لوگ اپنے اللہ کے سامنے اپنے مسلمان بھائیوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کر کے سر خرو ہونا چاہ رہے تھے تو اب بھی تو رمضان ہی ہیں سارےامدادی کیمپ خالی پڑے ہوئے ہیں 5 سال پہلے جب میں نے دوائوں بالخصوص گلوکوز اور نمکیات کی ڈرپس اگر کسی سے ایک مانگی تھی تو کسی نے پانچ اور کسی نے 10 دی تھیں پر آج ہر کوئی غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہے ۔ کیا میرا کوئی بھائی یا بہن اسکی وجہ بتا سکے گا آج جب کہ جشنِ آزادی ہے جس دن ہم ہر سال یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ “اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں“ کیوں آج ہم نے اپنے بھائیوں کو اکیلا چھوڑا ہوا ہے ۔
آج احساس ہوا کے نعرے صرف نعرے ہی ہوتے ہیں ۔ کیوں کہ جو سچ ہے وہ یہ کہ نہ تو اب ہمارا پرچم ایک ہے نہ ہی ہم ایک ہیں۔
اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور سبز ہلالی پرچم ہی سب کا پرچم تا قیامت رہے نہ کہ یہ لال پیلے اور نیلے رنگ کے الگ الگ پرچم