قیصرانی نے کہا:پیارے بھائی، انگریزوں سے پہلے پاکستان کا کوئی وجود نہ تھا۔ تو جس چیز کا وجود شروع ہوا، تو وہ پیدائش یا قیام ہوگا نہ کہ آزادی؟محب علوی نے کہا:آزادی انگریزوں سے تھی اور قیام اس صورت میں تھا کہ پہلے اکھنڈ بھارت تھا۔ اس لیے آزادی بھی ہے اور قیام بھی
قیصرانی
جیہ نے کہا:قیصرانی نے کہا:پیارے بھائی، انگریزوں سے پہلے پاکستان کا کوئی وجود نہ تھا۔ تو جس چیز کا وجود شروع ہوا، تو وہ پیدائش یا قیام ہوگا نہ کہ آزادی؟محب علوی نے کہا:آزادی انگریزوں سے تھی اور قیام اس صورت میں تھا کہ پہلے اکھنڈ بھارت تھا۔ اس لیے آزادی بھی ہے اور قیام بھی
قیصرانی
میں تو جانوں سیدھی بات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو 90 سالہ جدو جہد کے بعد بالآخر “ آزادی“ مل گئی اور پاکستان کا “ قیام“ عمل میں آگیا
بہت شکریہ محب ، اصل میں یہ تھریڈ شمشاد صاحب نے شروع کیا ہے اور واقعی دیار غیر میں وطن کی یاد تو ویسے ہی ستاتی ہے اور اگر اگست کا مہینہ ہو تو اس کی شدت اور زیادہ ہوجاتی ہے۔محب علوی نے کہا:لو راجہ ہم بھی آگئے ہیں۔
یار دل خوش کر دیا یہ موضوع شروع کرکے تم نے اور دیار غیر میں تو اس کی قدر اور بڑھ جاتی ہے ۔ ملی نغمہ اور ترانے سننے کو بہت دل کر رہا ہے
مجھے ایک اچھا سا اوتار ڈھونڈ دو تو میں بھی لگا لوں اور اچھا موقع ہے کہ ہم آزادی کے حوالے سے کچھ تحریریں اور پاکستان بنانے میں کردار ادا کرنے والوں پر معلومات بانٹیں۔ میں بھی دیکھتا ہوں اور باقی دوست بھی اس سلسلے میں دیکھیں کہ کوئی اچھی تحریر ، نغمہ یا واقعہ جو یادوں اور جذبوں کو تازہ کر دے۔
نبیل میں کچھ اوتار پوسٹ کرتا ہوں۔نبیل نے کہا:راجہ یہ کچھ کام تو ہوگا لیکن اگر واقعی کوئی ایسی اوتار گیلری بن جائے تو لوگوں کے لیے منتخب کرنے میں آسانی ہوجائے گی۔
شاکر القادری آپ نے بالکل صحیح لکھا کہ یہ دن خوشی منانے کے علاوہ مادر وطن سے تجدید عہد کا دن ہے کہ ہم اس وطن کی خوشحالی ، ترقی اور معاشرتی انصاف کے لیے اپنی تمام توانائیاں بروے کار لائیں گے اور اس ملک کو ایسا بنانے کے لیے (جیسا کہ قائد اعظم اور علامہ اقبال کا خواب تھا)نہ صرف خود کام کریں گے بلکہ دوسروں کو بھی اس کا احساس دلائیں گے۔شاکرالقادری نے کہا:جناب راجہ نعیم صاحب
سلام مسنون و دعوات
سب سے پہلے تو شکریہ قبول کیجیئے کہ آپ نے مجھے اس طرف متوجہ کیا ۔ میرے نزدیک آزادی کی سالگرہ میں دو پہلو ہیں جیسا کہ جیہ نے لکھا ہے ہر سالگرہ پر انہیں خوشی کے ساتھ ایک احساس غم بھی ہوتا ہے کہ عمر عزیز میں سے ایک سال اور کم ہوگیا۔
آزادی کی سالگرہ پر خوشیاں منانا اور جشن کا سا سماں پیدا کردینا تو اپنی جگہ بجا لیکن اس کے جو پہلو میرے سامنے ہیں وہ ہیں ﴿1﴾ اطہار تشکر ﴿2﴾ خوداحتسابی
اول الذکر کا اظہار اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے کہ ہم تلاوت کریں اور درود شریف کے گلدستے پیش کریں اور اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو جائیں کہ اس نے ہمیں محکومی کی لعنت سے نجات بخشی ۔
رہا دوسرا پہلو تو میں آپ کی وساطت سے پوری قوم کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ ایک بار اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھین کہ یہ خداداد مملکت جس مقصد کے لیئے وجود میں آئی تھی ہم اس مقصد میں کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں۔ کل جب ہم غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے ہماری کیا حالت تھی اور آج ہم آزادی کی نعمت سے مالامال ہوکر اپنے رب کا شکر کس انداز میں ادا کر رہے ہیں پاکستان جس نظریہ کی بنا پر وجود میں آیا تھا آج ہم اس نظریہ کو پائمال کر چکے ہیں آپ سب لوگ کہیں گے کہ یہ کیا بور کن باتیں شروع ہو گئیں ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جو قومیں خود احتسابی نہیں کرتیں وہ کبھی ترقی نہیں کر پاتیں ۔
آج ہم اپنے ملک کے اندر باہم دست و گریبان ہیں مسجدون اور عبادت گاہوں پر بمم پھینکے جا رہے ہیں مذہبی لسانی اور صوبائی تعصبات نے ہماری بنیادوں کو اکھاڑ کر رکھ دیا ہے ہمارا قومی تشخص کیا ہے
لباس میں ۔۔۔۔ کردار میں ۔۔۔ گفتار میں ۔۔۔۔ نظریاتی وحدت کے اعتبار سے ہم کس حد تک پاکستانی ہیں
ہمارا لباس مغربی ہے ۔۔۔۔۔ دیسی لباس پہن کر ہم پین۔۔۔۔۔ڈو نہیں بننا چاہتے
ہمارا کردار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟
ہماری گفتار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم اپنی قومی زبان کو آج تک اپنے ملک کے اندر دفاتر میں رائج نہیں کر سکے جب تک ہم اپنی گفتگو میں غلط سلط انگریزری کی کی پیوند کاری نہ کر لیں ہمیں اپنے پڑھے لکھے ہونے کا خود بھی یقین نہیں ہوتا دوسرے کیا کریں گے۔
نظریاتی وحدت ۔۔۔۔ اس کا تو پوچھیں ہی نہیں ۔۔۔ تقسیم ہندوستان سے پہلے ہندوستان میں دو بڑی قومیں تھیں ہندو اور مسلمان ۔۔۔۔ تقسیم ہندوستان کے بعد صرف پاکستان کے اندر مسلمانوں میں کئی نظریاتی گرہ ہیں دو ایک دوسرے کو انتہائی قابل نفرت جانتے ہیں ایک دوسرے کو کافر و مشرک کہتے ہیں اور مسلمان مسلمان کا گلا کاٹنا اور دہشت گردی کے ذریعہ ایک دوسرے کو قتل کرنا عین کار صواب تصور کرتا ہہے
کیا ہم آزاد ہیں
کیا ہم کسی کی انگلیوں سے بندھی ہوئی کٹھ پتلیوں کی طرح نہیں
کیا آج تک ہم دیسی لوگ بدیسی لوگوں سے مرعوب نہیں
کیا ہم اپنی ہر چیز کو حقیر اور بدیس کی ہر چیز کو برتر و اعلی نہیں جانتے
کیا ہم آج بھی ذہنی طور پر غلام نہیں
یہ سب باتیں مجھے پریسان کرتی ہیں اور
میں جشن آزادی کے پر مسرت دن
بھی اداسی کے احساس سے آشنا رہتا ہوں
آیئے ہم عہد کریں کہ
ہم جشن آزادی کے موقع پر خوشی مسرت اور تشکر کے اظہار کے ساتھ ساتھ خود احتسابی کے ذریعہ اپنی اصلاح کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں[/font]
بہت خوب!شمشاد نے کہا:غافل نہ ہو، خودی سے کر اپنی پاسبانی
شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ