پاکستان کا اک مقصد تھا
مقصد پاکستان نہیں تھا
یہ صرف ایک شعر نہیں بلکہ ایک ایسی داستان ہے جس میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام سے لے کر آج 2022 کے پچھترویں جشن آزادی تک کا ایک ایک لمحہ رقم ہے، اس ایک شعر میں وہ دکھ اور کرب موجود ہے جس پر مورخین اور مصنفین نے پوری پوری کتابیں لکھ ڈالیں۔ آج کی نوجوان نسل کو اس شعر کو اپنا نعرہ بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ نعرہ ہمارے بزرگوں کی قربانیوں کا ثمر بن سکتا ہے۔ کاش اس نعرے کے ساتھ ہم ایسا جشن آزادی منا سکیں جس کا خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھا اور ایک بڑے مقصد کی خاطر ہجرت کی اور اپنا سب کچھ تیاگ دیا۔
اجمل سراج کی یہ نظم اور اس کا آخری شعر ہر اس پاکستانی کی آواز ہے جو انصاف پر مبنی ریاست اور آزادی کا سچا خواب دیکھتا آیا ہے۔
یہ وہ شاعری ہے جسے سلیبس کا حصہ بننا چاہیے۔
یاد کرو وہ وقت کہ جب ہم
آنکھوں میں کچھ خواب سجا کر
خالی ہاتھوں, ننگے پیروں
گھر سے چلے تھے
فکر و فہم کے باب میں جس دم
کوئی بھی ہیجان نہیں تھا
قول و عمل کی یکجائی کا
ذرا بھی جب فقدان نہیں تھا
اپنے ہدف اپنے مقصد سے
کوئی بھی انجان نہیں تھا
اندیشے خدشات نہیں تھے
اور معدوم امکان نہیں تھا
دنیا تو تج کر آئے تھے
دنیا کا ارمان نہیں تھا
آج بتا دینا آساں ہے
جو اتنا آسان نہیں تھا
پاکستان کا اک مقصد تھا
مقصد پاکستان نہیں تھا