شکریہ آبی بھائی۔
لیجئے ام نورالعین! 9ذولحجہ،جمعہ کو تھا،اب کسی بھی طرح کر کے مطلب ذوالحجہ،محرم،صفر (پھر ربیع الاول)کو 29کا فرض کرلیں،30کا فرض کرلیں،کسی بھی طرح پیر کے دن 12ربیع الاول لاکر دکھائیں۔
اور بالفرض اگر پیر کو 12ربیع الاول ہو بھی، اور سرکار صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا وصال مبارک 12ربیع الاول کو ہی فرض کر لیا جائے۔تو اس دن ہم سرکار کے وصال کا دن منائیں یا عرس منائیں۔ تو کیا ہم سوگ منائیں؟جبکہ ہمارے عقیدے کے مطابق شریعت نے 3دن سوگ منانے کا حکم دیا ہے۔(اس معاملے میں آپ کا عقیدہ بھی یہی ہے)3دن سے زیادہ سوگ منانے کا حکم نہیں دیا۔(،اب ہم سوگ نہیں منائیں گے۔اگر آپ کا عقیدہ ہو تو آپ مناؤ،ماتم کرو جو مرضی آپ کا عقیدہ آپ کو مبارک)تو یہ تو طے ہوا کہ عرس منائیں تو سوگ تو نہیں منایا جائے گا۔عرس ہو،محفل منعقد کی جائے تو پھر بھی سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان و سیرت ہی بیان کی جائے گی۔تو یوم ولادت ہو یا یوم وفات دونوں صورتوں میں سرکار کے فضائل ہی بیان کئے جائیں گے۔
اور قران نے حضرت یحیی علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرمایا۔۔
وَسَلٰمٌ عَلَیۡہِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوۡتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا ﴿٪۱۵﴾
اورسلامتی ہے اس پر جس دن پیدا ہوا اور جس دن مرے گا اورجس دن مردہ اٹھایا جائے گا (ف۲۲)
عیسی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا
وَالسَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدۡتُّ وَ یَوْمَ اَمُوۡتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا ﴿۳۳﴾
اور وہی سلامتی مجھ پر (ف۵۱)جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں (ف۵۲)
تو سرکار تو سیدالانبیاء ہیں۔صلی اللہ علیہ والہ وسلم۔ تو سرکار کے وصال کا دن تو بدرجہ اولی سلامتی والا دن ہوا۔
اور موت کا مفہوم آپ کے عقیدے میں نجانے کیا ہو؟ کہ امام الطائفہ(آپ کے گروہ یا جماعت کے امام)مولوی اسماعیل دہلوی تقویۃ الایمان صفحہ 52 پر معاذاللہ سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر جھوٹ باندھا کہ معاذاللہ آپ نے فرمایا، کہ میں بھی ایک دن مر کر مٹی میں ملنے والا ہو۔
جبکہ سنّیوں کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ نبی زندہ ہوتا ہے،مٹی پر حرام ہے کہ انبیاء کے اجسام کو کھائے۔اور نبی کے نام پر کوئی مرجائے تو اسے شہید کہتے ہیں اور قرآن کہتا ہے کہ اس مردہ مت کہوبلکہ وہ زندہ ہے۔تو جس کے نام پر کوئی شہید ہوجائے تو وہ زندہ اور معاذاللہ نبی کیسے مردہ ہو سکتا ہے۔بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔موت کے بارے میں آپ کا (
concept)ہی کلئیر نہيں۔موت مرنے کا نام نہیں مطلب فنا ہونے کا نام نہیں،موت منتقل ہونے کا نام ہے۔کہ ایک جہان سے دوسرے جہان منتقل ہوگیا۔پہلے عالم ارواح میں تھا،پھر ماں کے پیٹ میں عالم جنین،پھر عالم دنیا،پھر عالم برزخ(کہ یہاں حساب و کتاب کا سلسلہ ہے۔)،پھر عالم آخرت اب حساب کتاب کے بعد یا جنت یا دوزخ ۔۔تو اس دوران بندہ مرا کب؟؟ وہ تو منتقل ہی ہوتا رہا۔سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث ہے کہ تم ہمیشہ زندہ رہنے کیلئے پیدا کئے گئے ہو۔پھر قبر میں منکر نکیر کا سوالات کرنا،سزا یا جزا کا سلسلہ ۔۔جب مر گیا ،فنا ہوگیا تو عذاب و ثواب کس کو؟؟ تو موت آتی ہے۔فقط چند ساعت کیلئے اور اگلے جہان منتقلی ہے ۔اور احادیث سے ثابت ہے کہ مردہ کی عقل سلامت ہوتی ہے۔وہ جانتا ہے کہ مجھے کون غسل دے رہا ہے،کون دفن کررہا ہے۔
مرنے کے بعد میّت کو اپنے عزیزوں سے کس طرح تعلقات رہتے ہیں؟
الجواب:موت فنائے روح نہیں، بلکہ وہ جسم سے روح کا جدا ہونا ہے، روح ہمیشہ زندہ رہتی ہے، حدیث میں ہےانما خلقتم للابد ۱؎تم ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے بنائے گئے، تو جیسے تعلقات حیات دنیوی میں تھے اب بھی رہتے ہیں۔ حدیث میں فرمایا کہ ''ہر جمعہ کو ماں باپ پر اولاد کے ایک ہفتہ کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں، نیکیوں پر خوش ہوتے ہیں، برائیوں پر رنجیدہ ہوتے ہیں، تواپنے گزرے ہوؤں کو رنجیدہ نہ کرو، اے اللہ کے بندو! واللہ تعالٰی اعلم۔(۱؎ شرح الصدور باب مقرالارواح مطبوعہ خلافت اکیڈمی سوات ص۹۶)
{(۲) انسان کبھی خاک نہیں ہوتا بدن خاک ہوجاتا ہے، اور وہ بھی کُل نہیں ، کچھ اجزائے اصلیہ دقیقہ جن کو عجب الذنب کہتے ہیں وہ نہ جلتے ہیں نہ گلتے ہیں ہمیشہ باقی رہتے ہیں ، انھیں پر روز قیامت ترکیب جسم ہوگی، عذاب وثواب روح وجسم دونوں کے لیے ہے۔ جو فقط روح کے لیے مانتے ہیں گمراہ ہیں، روح بھی باقی اور جسم کے اجزائے اصلی بھی باقی، او ر جو خاک ہوگئے وہ بھی فنائے مطلق نہ ہوئے، بلکہ تفرق اتصال ہوا اور تغیر ہیأت۔ پھر استحالہ کیا ہے۔ حدیث میں روح وجسم دونوں کے معذب ہونے کی یہ مثال ارشاد فرمائی کہ ایک باغ ہے اس کے پھل کھانے کی ممانعت ہے۔ ایک لنجھا ہے کہ پاؤں نہیں رکھتا اور آنکھیں ہیں وہ اس باغ کے باہر پڑا ہوا ہے،پھلوں کو دیکھتا ہے مگر ان تک جا نہیں سکتا، اتنے میں ایک اندھا آیا اس لنجھے نے اس سے کہا: تو مجھے اپنی گردن پر بٹھا کر لے چل، میں تجھے رستہ بتاؤں گا، اس باغ کا میوہ ہم تم دونوں کھائیں گے، یوں وہ اندھا اس لنجھے کو لے گیا اور میوے کھائے دونوں میں کون سزا کا مستحق ہے؟ دونوں ہی مستحق ہیں، اندھا اسے نہ لے جاتا تو وہ نہ جاسکتا، اور لنجھا اسے نہ بتاتا تووہ نہ دیکھ سکتا، وہ لنجھا روح ہے کہ ادراک رکھتی ہے اور افعال جو ارح نہیں کرسکتی ۔ا ور وہ اندھا بدن ہے کہ افعال کرسکتا ہے اورادراک نہیں رکھتا۔ دونوں کے اجتماع سے معصیت ہوئی دونوں ہی مستحقِ سزا ہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم
(۳ ) روح کا مقام بعد موت حسب مراتب مختلف ہے۔ مسلمانوں میں بعض کی روحیں قبر پر رہتی ہیں اور بعض کی چاہِ زمزم میں اور بعض کی آسمان وزمین کے درمیان، اور بعض آسمانِ اول دوم ہفتم تک،ا ور بعض اعلٰی علیین میں، اور بعض سبز پرندوں کی شکلیں میں زیر عرش نور کی قندیلوں میں، کفار میں بعض کی روحیں چاہ وادی برہوت میں، بعض کی زمین دوم سوم ہفتم تک، بعض سجین میں ۔ واﷲ تعالٰی اعلم
(۵) روح میرے رب کے حکم سے ایک شے ہے اور تمھیں علم نہ دیا گیا مگر تھوڑا، روح کے ادر اکات علم وسمع و بصر باقی رہتے، بلکہ پہلے سے بھی زائد ہوجاتے ہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم
(۶) قبر پر آنے والے کو میّت دیکھتا ہے۔ ا س کی بات سنتاہے۔ اگر زندگی میں پہچانتا تھا اب بھی پہچانتا ہے اگر اس کا عزیز یا دوست ہے تو اس کے آنے سے انس حاصل کرتا ہے: یہ سب باتیں احادیث اقوال ائمہ میں مصرح اوراہلسنت کا اعتقاد ہیں، ان کی تفصیل ہماری کتاب ''حیات الموات فی بیان سماع الاموات'' میں دیکھیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم}
ابن ابی الدنیا وبیہقی سعید بن مسیب رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے راوی حضرت سلمان فارسی وعبداللہ بن سلام رضی اﷲ تعالٰی عنہما باہم ملے، ایک نے دوسرے سے کہا کہ اگر مجھ سے پہلے انتقال کرو تو مجھے خبر دینا کہ وہاں کیا پیش آیا، کہا کیا زندے اور مردے بھی ملتے ہیں؟ کہا:نعم اما المومنون فان ارواحھم فی الجنۃ وھی تذھب حیث شاءت۱؎۔ہاں مسلمان کی روحیں تو جنت میں ہوتی ہیں انھیں اختیار ہوتاہے جہاں چاہیں جائیں۔
(۱؎ شعب الایمان باب التوکل والتسلیم حدیث ۱۳۵۵ دارالکتب العلمیہ بیروت ۲ /۱۲۱)
ابن المبارک کتاب الزہد وابوبکر ابن ابی الدنیا وابن مندہ سلمان رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی :قال ان ارواح المؤمنین فی برزخ من الارض تذھب حیث شاءت ونفس الکافر فی سجین۲؎ ۔بیشک مسلمانوں کی روحیں زمین کے برزخ میں ہیں جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں، اور کافر کی روح سجین میں مقید ہے۔ (۲؎ کتاب الزہد لابن مبارک باب ماجاء فی التوکل حدیث ۴۲۹ دارالکتب العلمیہ بیروت ص۱۴۴)
ابن ابی الدنیا مالک بن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی:قال بلغنی ان ارواح المومنین مرسلۃ تذھب حیث شاءت ۳؎ ۔فرمایا: مجھے حدیث پہنچی ہے کہ مسلمانوں کی روحیں آزادہیں جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں۔ (۳؎ شرح الصدور بحوالہ ابن ابی الدنیا باب مقرالا رواح خلافت اکیڈمی منگورہ سوات ص۹۸)
اما م جلال الدین سیوطی شرح الصدور میں فرماتے ہیں:رجح ابن البران ارواح الشھداء فی الجنۃ وارواح غیرھم علی افنیۃ القبور فتسرح حیث شاءت ۴؎ ۔امام ابو عمر ابن عبدالبر نے فرمایا: راجح یہ ہے کہ شہیدوں کی روحیں جنت میں ہیں ا ور مسلمانوں کی فنائے قبور پر، جہاں چاہیں آتی جاتی ہیں،(۴؎ شرح الصدور بحوالہ ابن ابی الدنیا باب مقرالا رواح خلافت اکیڈمی منگورہ سوات ص۱۰۵ )
تو سنّی سرکار کی ولادت کی خوشی مناتے ہيں۔
(۱) اﷲ تعالٰی فرماتا ہے:وامّابنعمۃ ربّک فحدّث۱
؎اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔(۱؎القران الکریم۹۳/۱۱)
اگر وہابیہ ثبوت دے دیں کہ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ولادت نعمت نہیں یا مجلس میلاد مبارک اس نعمت کا چرچا نہیں توپھر تو بات بنے۔
(۲) اللہ تعالٰی فرماتا ہے:وذکرھم بایّام اﷲ ۲ ؎انہیں اللہ کے دن یاد دلاؤ۔ ( ۱؎ القرآن الکریم ۱۴/ ۵ )
اگر وہابیہ ثبوت دے دیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ولادت کا دن اﷲ کے عظمت والے دنوں میں نہیں یا مجلسِ میلاد اُس دن کا یاد دلانا نہیں تو پھر تو ہم ان کی سنے بھی۔
(۳) اﷲ تعالٰی فرماتا ہے: ،قل بفضل اﷲ وبرحمتہ فبذلک فلیفرحوا ۳ ؎تم فرمادو کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت ہی پر لازم ہے کہ خوشیاں مناؤ۔ ( ۱؎القرآن الکریم ۱۰/ ۵۸)
اگر وہابیہ ثبوت دیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ولادت اﷲ کا فضل اور اس کی رحمت نہیں یا مجلسِ میلاد اس فضل و رحمت کی خوشی نہیں تو آپ کی بات درست نہیں تو آپ غلط۔
(۴) اﷲ تعالٰی فرماتا ہے:وامااٰتکم الرسول فخذوہ وما نھٰکم عنہ فانتھوا ۱ ؎جو رسول تمہیں دے وہ لو اور جس سے وہ منع کریں اس سے باز رہو۔ (۱القرآن الکریم ۵۹/۷)
اگر وہابیہ ثبوت دیں کہ قرآن مجید یا حدیث شریف میں کہیں مجلس میلاد مبارک کو منع فرماتا ہے تو آپ کی بات درست نہیں تو آپ غلط۔
ضروری اطلاع :واضح رہے کہ ایچ پیچ کا کام نہیں صرف وہ آیت یا مع حوالہ کتاب وصحیح اسناد وہ حدیث شائع کردینا کافی ہے جس میں لکھا ہے کہ ربیع الاول کے مہینے میں مجلس میلاد نہ کیا کرو مجلس میلاد کرنا عذاب ہے بلکہ ہماری طرف سے اجازت ہے کہ چاروں اماموں یا صحاح ستّہ کے چھ مصنفوں میں سے کسی ایک امام ہی کا قول مذکوردکھا دیں جو کسی مستند کتاب میں ہو، اگر منع کا اتنا ثبوت بھی نہیں تو پھر ایسے بے ثبوت منع کو چھوڑنے میں ذرا دیر نہ کریں ورنہ خدا کے سامنے جواب دہی ہوگی۔
(۵) اہلحدیث کی کانفرنس اور اس میں سیکریٹری وغیرہ مقرر کرنا اور بننا اور اس کے بڑے سالانہ جلسے اور ان کی ہیئت کذائی اور اہلحدیث کا اخبار چھاپنا اور اس کی پیشگی قیمت لینا اور رَدِّائمہ میں کتابیں چھاپنا اور ہیئت مروجہ پر مدرسے بنانا اور ان میں تنخواہ دار مدرسین رکھنا، سہ ماہی، ششماہی، سالانہ امتحان ہونا، ان میں پاس کے نمبر ٹھہرانا، کسی مسئلہ کا ثبوت مانگنے پر اشتہار چھاپنا، اس پر درس کا نصاب معین کرنا، انعام ٹھہرانا ، ان سب باتوں کا اگر وہابیہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یا صحابہ، تابعین یا چار امام یاچھ مصنف صحاح سے ثبوت دے دیں تو ۴۰ روپیہ انعام، اور ثبوت نہ دے سکیں، تو پھر ایسی بے ثبوت باتوں کے چھوڑنے میں ذرا دیر نہ کریں ورنہ خدا کے سامنے جواب دہی ہوگی۔والسلام علٰی من اتبع الہدٰی (اور سلامتی اسے جو ہدایت کی پیروی کرے ۔ت)۔