سید شہزاد ناصر
محفلین
جلال الدین بن خوارزم شاہ اپنے باپ کی وفات کے بعد بحیرۂ کا سپین کے جزیرہ سے روانہ ہوکر شہر تبریز میں آیا،یہاں بعض بہادر دوستوں کو اپنے ساتھ ملایا،مغلوں نے اُس کو گرفتار کرنا چاہا،لیکن مغلوں کی صفوں کو چیر کر معہ ہمراہیوں کے نکل گیا،وہاں سے روانہ ہوکر غزنین پہنچا، یہاں اُس کو اپنے ہمدردوں اور دوستوں کی ایک جمعیت مل گئی اس نواح میں جو مغلیہ فوج تھی اُس نے حملہ کیا جلال الدین نے اس کو شکست دے کر بھگادیا اوریہ غالباً پہلی شکست تھی جو چنگیزی فوج کو جلال الدین کے مقابلے میں حاصل ہوئی، اس خبر کو سُن کر چنگیز خاں قلعہ طائفان سے روانہ ہوکر با میان پہنچا،یہاں اُس کا ایک پوتا یعنی چغتائی خان کا بیٹا ایک تیر کے لگنے سے ہلاک ہوا،چنگیز خاں نے بامیان کے زن و مرد کے قتل عام کا حکم دیا،یہاں تک کہ اگر کوئی عورت حاملہ تھی تو اُس کو قتل کرکے اُس کے پیٹ میں سے بچے کو نکال کر اس بچہ کی بھی گردن کاٹی گئی،سلطان جلال الدین نے مغلوں کی فوج کو شکستِ فاش دے کر بہت جلد اپنی حالت کو درست اورمضبوط کرلیا اورچنگیز خاں کے مقابلے کے لئے مستعد ہوگیا،اگر خوارزم شاہ کی جگہ جلال الدین ہوتا تو یقیناً مغلوں کو چیرہ دستی کا یہ موقعہ ہرگز نہ مل سکتا، مگر خوارزم شاہ کی پس ہمتی اوربے وقوفی نے اپنے عظیم الشان لشکر سے کوئی کام بھی نہ لینے دیا اور آباد شہروں کو مغلوں کی خون آشام تلوار سے قتل ہونے کے لئے بے گناہ چھوڑدیا،سلطان جلال الدین جمعیت فراہم کرکے چنگیز خاں کے مقابلہ پر مستعد ہوگیا،مگر بد قسمتی سے اس جمعیت میں ایسے سردار موجود تھے جو عین وقت پر دھوکہ دے کر مغلوں سے جاملے اور سلطان جلال الدین کے پاس صرف سات سو آدمی رہ گئے انہیں سے لڑتا بھڑتا دریائے سندھ کے ساحل کی طرف سلطان جلال الدین متوجہ ہوا،چنگیز خاں بھی اپنا لشکر عظیم لئے ہوئے وہاں پہنچ گیا،جلال الدین نے دریائے سندھ کو اپنی پشت پر رکھ کر لشکر مغول کا مقابلہ کیا،مغلوں نے کمان کی شکل میں محاصرہ کرکے ہنگامہ کارزار گرم کیا،مگر جلال الدین نے اس بہادری اور جواں مردی سے مقابلہ کیا کہ چنگیز خاں اوراس کی لا تعداد فوج کے دانت کھٹے کردیئے ،سلطان جلال الدین جب حملہ آور ہوتا تھا مغلوں کی صفوں کو دور تک پیچھے ہٹادیتا تھا،مگر وہ پھر فراہم ہوکر بڑھتے اورپہلے سے زیادہ جوش کے ساتھ حملہ آور ہوتے تھے،اپنی جمعیت کی قلت اور دشمنوں کی کثرت کے سبب اس معرکہ آرائی میں سلطان جلال الدین کو کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی،مگر سلطان جلال الدین کی شجاعت وبہادری کاسکہ چنگیز خاں کے دل پر بیٹھ گیا،یہاں تک کہ ان سات سو بہادروں میں سے بھی جب صرف ایک سو کے قریب باقی رہ گئے تو سلطان جلال الدین نے اپنی زرہ اُتار کر پھینک دی اوراپنا تاج ہاتھ میں لے کر گھوڑا دریائے سندھ میں ڈال دیا،اُس کے بقیہ ہمراہیوں نے بھی اپنے سلطان کی تقلید کی،چنگیز خاں نے چاہا کہ مغلوں کا لشکر بھی اُس کا تعاقب کرے اوراس بہادر شخص کو گرفتار کرکے لائے لیکن اس بحر ذخار میں گھوڑا ڈالنا کوئی آسان کام نہ تھا؛چنانچہ چنگیز خاں اورمغل دریائے سندھ کے کنارے پر رک گئے اوردریائے سندھ کے اندر ان مٹھی بھر بہادر وں پر تیروں کا مینہ برساتے رہے،یہاں تک کہ صرف سات آدمی معہ سلطان جلال الدین کے کنارے پر پہنچ گئے، باقی سب دریا کے اندر مغلوں کے تیروں سے شہید ہوگئے،سلطان جلال الدین نے اس کنارے پر پہنچ کر اپنے کپڑے اُتار کر جھاڑیوں پر سکھانے کے لئے ڈال دیئے،نیزہ زمین پر گاڑ کر اُس کی نوک پر اپنا تاج رکھ دیا اوراُس کے نیچے دم لینے لگا اورگھوڑے کے زین کو اُتار کر خشک ہونے کے لئے سامنے رکھ دیا۔
چنگیز خاں دوسرے کنارے پر کھڑا ہوا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اورحیران تھا،اپنے تمام بیٹوں اورسرداروں کو جو اُس کے لشکر میں موجود تھے سامنے بلا کر کہنے لگا کہ میں نے آج تک ایسا بہادر اور باہمت شخص نہیں دیکھا،اس کے ہمرا ہی بھی اس کی مانند بے نظیر بہادر ہیں،اتنے بڑے عظیم الشان دریا کو اس طرح عبور کرنا بھی انہیں کا کام تھا،اگر یہ شخص زندہ رہا تو مجھ کو اندیشہ ہے کہ دنیا سے مغلوں کا نام ونشان گم کردے گا،جس طرح ممکن ہو اس کے قتل کرنے کی تدبیر سوچی جائے،مگر بجز اس کے اورکچھ نہیں ہوسکتا تھا کہ چنگیز خاں متاسف ومغموم دریائے سندھ کےکنارے سے واپس چلا گیا،یہ واقعہ ۶۲۰ھ کو وقوع پذیر ہوا۔
اس کے بعد سلطان جلال الدین نے سندھ میں کچھ فتوحات حاصل کیں اوراُس کے بہی خواہ یہاں آ آ کر اُس کے ساتھ شامل ہوتے رہے،چند روز کے بعد سلطان جلال الدین دریا کو عبور کرکے کرمان کی جانب پہنچا وہاں سے شیراز گیا،اسی عرصہ میں فدائیوں کو متواتر ہزیمتیں دے کر اُن کے قریباً تمام قلعوں کو سوائے قلعہ الموت کے منہدم کردیا،فدائی یا باطنی گروہ مغلوں کی اس حملہ آوری کے وقت بہت مطمئن اورمسرور تھا اورمسلمانوں کے قتل عام کی خبریں سُن سُن کر یہ لوگ بہت خوش ہورہے تھے چونکہ یہ لوگ بھی مسلمانوں کے اس طرح دشمن تھے جیسے کہ مغل لہذاان کو مغلوں سے کوئی اندیشہ نہ تھا،انہوں نے مسلمانوں کی تباہ حالت دیکھ کر اپنے مقبوضات کو بہت وسیع کرلیا،قرامطہ کی بیخ کنی سلطان جلال الدین کے قابل تذکرہ اوراہم کارناموں میں شمار ہونا چاہئے،اب وہ زمانہ تھا کہ مغلوں کا سیلاب شمال کی جانب متوجہ تھا،سلطان جلال الدین نے موقعہ مناسب سمجھ کر بغداد کا رُخ کیا کہ وہاں جاکر خلیفہ ناصر لدین اللہ عباسی کی خدمت میں حاضر ہوکر امداد طلب کروں تاکہ مغلوں کا ممالکِ اسلامیہ سے اخراج و استیصال بآسانی کیا جاسکے،خلیفہ کو چونکہ جلال الدین کے باپ سے نفرت تھی،لہذااس نے جلال الدین کو بھی نفرت کی نگاہ سے دیکھ کر فورا امرا کو مامور کیا کہ جلال الدین کو آگے نہ بڑھنے دو اور ہماری مملکت سے باہر نکال دو،یہ رنگ دیک کر سلطان جلال الدین مقابلہ پر مستعد ہوگیا اور امرائے بغداد کو شکست دے کر بھگادیا پھر خود وہاں سے بجائے بغداد کے تبریز کی طرف متوجہ ہوا،تبریز پر قابض ہوکر گرجستان کی طرف گیا، وہاں کے امرانے بڑی عزت کے ساتھ اُس کا استقبال کیا اوراُس کی تشریف آوری کو بہت ہی غنیمت سمجھ کر سب نے اظہارکیا۔
اب سلطان جلال الدین کی حالت پھر درست ہوگئی اُدھر مغلوں کا عظیم الشان لشکر اُس کے مقابلے پر آیا،اصفہان کے قریب معرکۂ کارزار گرم ہوا، سلطان جلال الدین نے مغلوں کو شکست دے کر بھگادیا اورفتح عظیم حاصل کرکے تمام ملک گرجستان اوراُس کے نواحی علاقوں پر قابض ومتصرف ہوگیا،اس کے بعد مغلوں نے بہت تیاری اور عظیم الشان لشکر کے ساتھ سلطان جلال الدین پر حملہ کیا اس حملہ کی تیاریوں کا حال سن کر سلطان جلال الدین نےبغداد اوردوسرے اسلامی درباورں کی طرف ایلیچی روانہ کئے کہ اس وقت میری مدد کرو اور اس متفقہ دشمن کا سرکچل لینے دو،مگر چونکہ جلال الدین کی بہادری اورشجاعت کی شہرت دور دور تک ہوچکی تھی، اس لئے کسی نے بھی اس بات کو پسند نہ کیا کہ جلا الدین مغلوں پر فتح یاب ہوکر ہمارے لئے موجب خطر بنے لہذا کوئی امداد جلاالدین کو کسی طرف سے نہ پہنچی مجبوراً وہ خود ہی مقابلہ کے لئے مستعد ہوا اورممکن تھا کہ وہ مغلوں کو شکست دے کر اُن کے حوصلے پست کردے اورآئندہ مصائب سے عالمِ اسلام نجات پائے،مگر خدائے تعالیٰ کو یہ بات منظور نہ تھی،جلال الدین نے جو جاسوس مغلوں کی لشکر کی نقل وحرکت معلوم کرنے کے لئے مقرر کئے تھے،انہوں نے یہ غلط خبر سلطان کو پہنچائی کہ مغلوں کا لشکر ابھی بہت دور ہے؛حالانکہ لشکر مغل بالکل قریب پہنچ چکا تھا؛چنانچ مغلوں نے آدھی رات کے وقت یکایک ایسی حالت میں حملہ کیا کہ جلال الدین کو کوئی توقع دشمن کے حملہ کی نہ تھی،اس یکایک اپنے آپ کو دشمن پنجہ میں گرفتار دیکھ کر اول اُس نے ہاتھ پاؤ ں مارے اورمصروف جدال وقتال ہوا،لیکن جب مایوس ہوگیا تو اس ہنگامے سے نکل کر کسی سمت کو گھوڑا اُڑا کر لے گیا، اُس کے بعد کسی کو اس کا حال معلوم نہ ہوا۔
دوروایتیں سلطان جلال الدین کے انجام کی نسبت مشہور ہیں،ایک یہ کہ اُس کو کسی پہاڑی شخص نے جب کہ وہ پہاڑ میں کسی جگہ آرام لینے کے لئے ٹھہرا ہوا تھا اُس کے گھوڑے اورلباس کے لالچ میں دھوکے سے قتل کردیا،دوسرے روایت یہ ہے کہ وہ بہ تبدیلِ لباس اورمشائخ عظام کی خدمت میں حاضر ہوکر صوفیوں اورعابدوں کی زندگی بسر کرنے لگا اور دور دراز ملکوں میں سفر کرتا رہا اوراسی زہد وعبادت کی حالت میں عرصہ دراز تک زندہ رہا۔ واللہ اعلم بالصواب
ربط
http://anwar-e-islam.org/node/10462?view=normal
چنگیز خاں دوسرے کنارے پر کھڑا ہوا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اورحیران تھا،اپنے تمام بیٹوں اورسرداروں کو جو اُس کے لشکر میں موجود تھے سامنے بلا کر کہنے لگا کہ میں نے آج تک ایسا بہادر اور باہمت شخص نہیں دیکھا،اس کے ہمرا ہی بھی اس کی مانند بے نظیر بہادر ہیں،اتنے بڑے عظیم الشان دریا کو اس طرح عبور کرنا بھی انہیں کا کام تھا،اگر یہ شخص زندہ رہا تو مجھ کو اندیشہ ہے کہ دنیا سے مغلوں کا نام ونشان گم کردے گا،جس طرح ممکن ہو اس کے قتل کرنے کی تدبیر سوچی جائے،مگر بجز اس کے اورکچھ نہیں ہوسکتا تھا کہ چنگیز خاں متاسف ومغموم دریائے سندھ کےکنارے سے واپس چلا گیا،یہ واقعہ ۶۲۰ھ کو وقوع پذیر ہوا۔
اس کے بعد سلطان جلال الدین نے سندھ میں کچھ فتوحات حاصل کیں اوراُس کے بہی خواہ یہاں آ آ کر اُس کے ساتھ شامل ہوتے رہے،چند روز کے بعد سلطان جلال الدین دریا کو عبور کرکے کرمان کی جانب پہنچا وہاں سے شیراز گیا،اسی عرصہ میں فدائیوں کو متواتر ہزیمتیں دے کر اُن کے قریباً تمام قلعوں کو سوائے قلعہ الموت کے منہدم کردیا،فدائی یا باطنی گروہ مغلوں کی اس حملہ آوری کے وقت بہت مطمئن اورمسرور تھا اورمسلمانوں کے قتل عام کی خبریں سُن سُن کر یہ لوگ بہت خوش ہورہے تھے چونکہ یہ لوگ بھی مسلمانوں کے اس طرح دشمن تھے جیسے کہ مغل لہذاان کو مغلوں سے کوئی اندیشہ نہ تھا،انہوں نے مسلمانوں کی تباہ حالت دیکھ کر اپنے مقبوضات کو بہت وسیع کرلیا،قرامطہ کی بیخ کنی سلطان جلال الدین کے قابل تذکرہ اوراہم کارناموں میں شمار ہونا چاہئے،اب وہ زمانہ تھا کہ مغلوں کا سیلاب شمال کی جانب متوجہ تھا،سلطان جلال الدین نے موقعہ مناسب سمجھ کر بغداد کا رُخ کیا کہ وہاں جاکر خلیفہ ناصر لدین اللہ عباسی کی خدمت میں حاضر ہوکر امداد طلب کروں تاکہ مغلوں کا ممالکِ اسلامیہ سے اخراج و استیصال بآسانی کیا جاسکے،خلیفہ کو چونکہ جلال الدین کے باپ سے نفرت تھی،لہذااس نے جلال الدین کو بھی نفرت کی نگاہ سے دیکھ کر فورا امرا کو مامور کیا کہ جلال الدین کو آگے نہ بڑھنے دو اور ہماری مملکت سے باہر نکال دو،یہ رنگ دیک کر سلطان جلال الدین مقابلہ پر مستعد ہوگیا اور امرائے بغداد کو شکست دے کر بھگادیا پھر خود وہاں سے بجائے بغداد کے تبریز کی طرف متوجہ ہوا،تبریز پر قابض ہوکر گرجستان کی طرف گیا، وہاں کے امرانے بڑی عزت کے ساتھ اُس کا استقبال کیا اوراُس کی تشریف آوری کو بہت ہی غنیمت سمجھ کر سب نے اظہارکیا۔
اب سلطان جلال الدین کی حالت پھر درست ہوگئی اُدھر مغلوں کا عظیم الشان لشکر اُس کے مقابلے پر آیا،اصفہان کے قریب معرکۂ کارزار گرم ہوا، سلطان جلال الدین نے مغلوں کو شکست دے کر بھگادیا اورفتح عظیم حاصل کرکے تمام ملک گرجستان اوراُس کے نواحی علاقوں پر قابض ومتصرف ہوگیا،اس کے بعد مغلوں نے بہت تیاری اور عظیم الشان لشکر کے ساتھ سلطان جلال الدین پر حملہ کیا اس حملہ کی تیاریوں کا حال سن کر سلطان جلال الدین نےبغداد اوردوسرے اسلامی درباورں کی طرف ایلیچی روانہ کئے کہ اس وقت میری مدد کرو اور اس متفقہ دشمن کا سرکچل لینے دو،مگر چونکہ جلال الدین کی بہادری اورشجاعت کی شہرت دور دور تک ہوچکی تھی، اس لئے کسی نے بھی اس بات کو پسند نہ کیا کہ جلا الدین مغلوں پر فتح یاب ہوکر ہمارے لئے موجب خطر بنے لہذا کوئی امداد جلاالدین کو کسی طرف سے نہ پہنچی مجبوراً وہ خود ہی مقابلہ کے لئے مستعد ہوا اورممکن تھا کہ وہ مغلوں کو شکست دے کر اُن کے حوصلے پست کردے اورآئندہ مصائب سے عالمِ اسلام نجات پائے،مگر خدائے تعالیٰ کو یہ بات منظور نہ تھی،جلال الدین نے جو جاسوس مغلوں کی لشکر کی نقل وحرکت معلوم کرنے کے لئے مقرر کئے تھے،انہوں نے یہ غلط خبر سلطان کو پہنچائی کہ مغلوں کا لشکر ابھی بہت دور ہے؛حالانکہ لشکر مغل بالکل قریب پہنچ چکا تھا؛چنانچ مغلوں نے آدھی رات کے وقت یکایک ایسی حالت میں حملہ کیا کہ جلال الدین کو کوئی توقع دشمن کے حملہ کی نہ تھی،اس یکایک اپنے آپ کو دشمن پنجہ میں گرفتار دیکھ کر اول اُس نے ہاتھ پاؤ ں مارے اورمصروف جدال وقتال ہوا،لیکن جب مایوس ہوگیا تو اس ہنگامے سے نکل کر کسی سمت کو گھوڑا اُڑا کر لے گیا، اُس کے بعد کسی کو اس کا حال معلوم نہ ہوا۔
دوروایتیں سلطان جلال الدین کے انجام کی نسبت مشہور ہیں،ایک یہ کہ اُس کو کسی پہاڑی شخص نے جب کہ وہ پہاڑ میں کسی جگہ آرام لینے کے لئے ٹھہرا ہوا تھا اُس کے گھوڑے اورلباس کے لالچ میں دھوکے سے قتل کردیا،دوسرے روایت یہ ہے کہ وہ بہ تبدیلِ لباس اورمشائخ عظام کی خدمت میں حاضر ہوکر صوفیوں اورعابدوں کی زندگی بسر کرنے لگا اور دور دراز ملکوں میں سفر کرتا رہا اوراسی زہد وعبادت کی حالت میں عرصہ دراز تک زندہ رہا۔ واللہ اعلم بالصواب
ربط
http://anwar-e-islam.org/node/10462?view=normal