فرخ منظور
لائبریرین
جلاوطن (افسانہ)
تحریر: قرۃ العین حیدر
سندر لالہ۔ سجے دلالہ۔ ناچے سری ہری کیرتن میں ناچے سری ہری کیرتن میں ناچے چوکھٹ پر اکڑوں بیٹھی رام رکھی نہایت انہماک سے چاول صاف کررہی تھی۔ اس کے گانے کی آواز دیر تک نیچے گموں والی سنسان گلی میں گونجا کی۔ پھر ڈاکٹر آفتاب رائے صدر اعلیٰ کے چبوترے کی اور سے بڑے پھاٹک کی سمت آتے دکھلائی پڑے۔ ’’بندگی بھین صاحب__‘‘ رام رکھی نے گھونگھٹ اور زیادہ طویل کرکے آواز لگائی۔ ’’بندگی__ بندگی__‘‘ ڈاکٹر آفتاب رائے نے زینے پر پہنچتے ہوئے بے خیالی سے جواب دیا۔ ’’راجی کھسی ہو بھین صاحب__‘‘ رام رکھی نے اخلاقاً دریافت کیا۔ ’’اور کیا__ مجھے کیا ہوا ہے جو راضی خوشی نہ ہوں گا۔ یہ سوپ ہٹا بیچ میں سے۔‘‘ انہوں نے جھنجھلا کر کہا۔ ’’بھین صاحب ناج پھٹک رہی تھی۔‘‘ ’’توناج پھٹکنے کے لیے تجھے گاڑی بھر راستہ چاہئے۔ چل ہٹا سب چیز__‘‘ ڈاکٹر آفتاب رائے نے دنیا بھر کی ڈگریاں تولے ڈالی تھیں۔ لیکن حالت یہ تھی کہ ذری ذری سی بات پر بچوں کی طرح خفا ہوجایا کرتے تھے۔ رام رکھی پر برستے ہوئے وہ اوپر آئے اور مونڈھے پر پیرٹکا کر انہوں نے اپنی بہن کو آواز دی__ جیجی__ جی ای ای__ جی ای ای ای__ (چھوراہے اب تلک مورا بھین__ ہیم کرن پیار سے کہا کرتیں) دالان کے آگے کھلی چھت پر نیم کی ڈالیاں منڈیر پر جھکی پچھوا ہوا میں سرسرا رہی تھیں۔ شام کی گہری کیفیت موسم کی اداسی کے ساتھ ساتھ سارے میں بکھری تھی۔ دن بھر نیچے مہوا کے باغ میں شہد کی مکھیاں بھنبھنایا کرتیں۔ اور ہر چیز پر غنودگی ایسی چھائی رہتی۔ آم اب پیلے ہوچلے تھے۔‘‘ ٹھکرائن کی بگیا‘‘ میں صبح سے لے کر رات گئے تک روں روں کرتا رہٹ چلا کرتا۔ ’’آرت ہن بھین صاحب__‘‘ ہیم کرن نے دالان کا پیتل کے نقش و نگار والا کواڑ کھولتے ہوئے غلے کے گودام میں سے باہر آکر جواب دیا۔ اورکنجیوں کا گچھا ساری کے پلو میں باندھ کر چھن سے پشت پر پھینکتی ہوئی صخچی میں آگئیں۔ ’’جے رام جی کی بھین صاحب__‘‘ رسویے نے چوکے میں سے آواز لگائی__ ’’کٹہل کی ترکاری کھیٔو بھین صاحب__؟‘‘ ’’ہاں۔ ہاں ضرور کھیسا بھائی__‘‘ ڈاکٹر آفتاب رائے مونڈھے پر سے ہٹ کر ٹہلتے ہوئے تلسی کے چبوترے کے پاس آگئے۔صخچی میں رنگ برنگی مورتیاں سا لگ رام سے لے کر بجرنگ بلی مہراج تک سیند درسے لپی پتی اور گنگاجل سے نہائی دھوئی قرینے سے سجی تھیں۔ ہیم کرن تھیں تو بڑی سخت رام بھگت لیکن باقی کے سبھی دیوی دیوتائوں سے سمجھوتہ رکھتی تھیں کہ نہ جانے کون کس سمے آڑے آجائے۔ سب سے بنائے رکھنی چاہئے۔ ابھی سرین اور راما کانت کھیل کے میدان سے لوٹیں گے۔ آٹھ بجے کھیما کتھک کے توڑے سیکھ کر جمنا مہراج کے ہاں سے واپس آئے گی۔ پھر چوکے میں کھانا پروسا جائے گا (پیتل کے برتن ٹھنڈی چاندنی میں جھلملائیں گے۔ نیچے آنگن میں رام رکھی کوئی کجری شروع کردے گی)یہاں پر بالآخر امن تھا۔ اور سکون۔ اب کھیم نیچے پکی گلیارے میں سے چلتی ہوئی اوپر آرہی تھی (ٹھکرائن کی بگیا میں سے ابھی اس نے کروندے اور کمر کھیں اور مکوہ توڑ کر جلدی جلدی منہ میں ٹھونسے تھے۔ دھاکر دادھی ناکت تا__ دھاکردا (اس نے کھتک کے بول دہرائے__ ارے باپ رے اس نے منڈیر پر سے اوپر جھانک کر دمینتی سے کہا__ ماما آئے ہیں۔ بھاگ جا ورنہ ما ما مجھے ماریں گے کہ ہر سمے کھیلتی ہے__ دمینتی بھاگ گئی) کھیم چھت پر آئی۔ لمبے سے ڈھیلے ڈھالے فراک میں ملبوس‘ جس پر موتیوں سے خوب تتلیاں اور پھول پتے بنے تھے‘ خوب کھینچ کر بالوں کی مینڈھیاں گوندھے‘ ہاتھوں میں چھنا چھن چوڑیاں بجاتی کھیم وتی رائے زادہ اپنے اتنے پیارے اور اتنے سندر ماما کو دیکھ کر بے حد خوش ہوئی۔ نمستے ماما__ابھی کتابیں لاتی ہوں بس ذرا منہ ہاتھ دھو آؤں __‘‘ ’’ چل چڑیل __بہانے باز__ سبق سنا پہلے __ ڈاکٹر آفتاب رائے نے پیارسے کہا (لیکن یہ کچھ تجربہ انہیں تھا کہ اپنے سے کم عمر لوگوں سے اور کنبے برادری والوں سے یہ گھر گرہستی اور لاڈ پیار کے مکالمے وہ زیادہ کامیابی سے ادا نہ کرپاتے تھے) ’’ تجھے تو میں انٹرمیڈیٹ میں بھی حساب دلاؤں گا ۔ دیکھتی جا __ ‘‘ (انہوں نے پھر ماما بننے کی سعی کی ) ’’ ارے باپ رے __ !! کھیم نے مصنوعی خوف کا اظہار کیا۔ ’’ اور تو نے چوڑیاں تو بڑی خوب صورت خریدی ہیں ری __‘‘ ’’ ہی ہی ہی __ ما ما __‘‘ ۔ کھیم نے دلی مسرت سے اپنی چوڑیوں کو دیکھا۔ ’’ اور تو ساری بھی تو پہنا کر کہ فراک ہی پہنے پھرے گی __ باؤلی سی __ (انہوں نے اپنی بزرگی کا احساس خود اپنے اوپر طاری کرنا چاہا۔) جی ما ما __ کھیم کے ذہن میں وہ ساریاں جھما جھم کرتی کوند گئیں جو ماں کے صندوقوں میں ٹھنسی تھیں۔ وہ تو خدا سے چاہتی تھی کہ کل کی پہنتی آج ہی وہ ساریاں پہن ڈالے۔ مگر ہیم کرن ہی پر انگریزیت سوار تھی۔ ایک تو وہ یہ نہیں بھولی تھیں کہ تھیں تو وہ جونپور کے اس ٹھیٹھ ‘ دقیانوسی سریواستوا گھرانے کی بیٹا __ پر ان کا بیاہ ہوا تھا۔ الٰہ آباد کے اتنے فیشن ایبل کنبے میں جس کے سارے افراد سول لائنز میں رہتے تھے۔ اور جوتے پہنے پہنے کھانا کھاتے تھے۔ اور مسلمانوں کے ساتھ بیٹھ کر چائے پانی پیتے تھے۔ اور گووھوا ہوئے ان کو اب سات برس ہونے کو آئے تھے اور تب سے وہ میکے ہی میں رہتی تھیں۔ لیکن محلے پر ان کا رعب تھا۔ کیوں کہ وہ الٰہ آباد کے رائے زادوں کی بہو تھیں… دوسرے یہ کہ یہ فراک کا فیشن ڈاکٹر سین گپتا کے ہاں سے چلا تھا۔ ڈاکٹر سین گپتا ضلع کے سول ہسپتال کے اسسٹنٹ سرجن تھے۔ اور ہسپتال سے ملحق ان کے پیلے رنگ کے اجاڑ سے مکان کے سامنے ان کی پانچوں بیٹیاں رنگ برنگے فراک پہنے دن بھر اودھم مچایا کرتیں۔ شام ہوتی تو آگے آگے ڈاکٹر سین گپتا دھوتی کا پلا نہایت نفاست سے ایک انگلی میں سنبھالے ‘ ذرا پیچھے ان کی بی بی سرخ کنارے والی سفید ساڑی پہنے ‘ پھر پانچوں کی پانچوںلڑکیاں سیدھے سیدھے بال کندھوں پر بکھرائے چلی جارہی ہیں‘ ہوا خوری کرنے۔ افوہ کیا ٹھکانہ تھا بھلا۔ بس ہر بنگالی گھرانے میں یہ لڑکیوں کی فوج دیکھ لو۔ ہیم کرن کو ڈاکٹر سین گپتا سے بڑی ہمدردی تھی۔ کھیم کی ان سب سے بہت گھٹتی تھی۔ خصوصاً موندیرا سے ‘ اور اسکول کے ڈرامے کے دنوں میں تو بس کھیم اور موندیرا ہی سب پر چھائی رہتیں۔ کیا کیا ڈرامے مہادیوی کنیا پاٹھ شالہ نے نہ کر ڈالے __ ’’ نل و مینتی ‘‘ __ اور شکنتلا ہریش چندر ‘‘ اور ’’ راج رانی میرا __ ‘‘ اور اوپر سے ڈانس الگ __ گربا بھی ہو رہا ہے کہ آر تیرے گنگا پارٹیرے جمنا بیچ میں ٹھاڑے ہیں نند لال __ اور آپ کا خدا بھلا کرے رادھا کرشنا ڈانس بھی لیجئے کہ میں تو گردھر آگے ناچوں گی۔ جی ہاں اور وہ گکری والا ناچ بھی موجود ہے کہ چلو چلو سکھی سکھیاری ری چلو پنگھٹ بھروا پانی __ اور ساتھ ساتھ موندیرا سین گپتا ہے کہ فراٹے سے ہار مونیم بجا رہی ہے۔ ایسے ہونے کو تومسلمانوں کا بھی ایک اسکول تھا۔ انجمن اسلام گرلز اسکول۔ وہاں یہ سب ٹھاٹھ کہاں۔ بس بارہ وفات کی بارہ وفات میلاد شریف ہوجایا کرتا ۔ اس میں کھڑے ہو کر لڑکیوں نے خاصی بے سری آوازوں میں پڑھ دیا۔ تم ہی فخر انبیاء ہو ۔ یا نبی سلام علیکا __ چلیے قصہ ختم۔ ایک مرتبہ ایک سر پھری ہیڈ مسٹرس نے جو نئی نئی لکھنؤ سے آئی تھی۔ ’’ روپ متی باز بہادر ‘‘ خواتین کے سالانہ جلسے میں اسٹیچ کروا دیا توجناب عالی لوگوں نے اسکول کے پھاٹک پر پکٹنگ کرڈالی __ اور روز نامہ صدائے حق نے پہلے صفحے پر جلی حروف میں شائع کیا : ملت اسلامیہ کی غیرت کا جنازہ __ گرلز اسکول کے اسٹیج پر نکل گیا۔ مسلمانو ! تم کو خدا کے آگے بھی جواب دینا ہوگا__ بنا ت اسلام کو رقص و سرور کی تعلیم__ اسکول کو بند کرو __ ( یہ سب قصے کھیم کی مسلمان سہیلی کشوری اسے سنایا کرتی تھی جو پڑوس میں رہتی تھی)۔ صدر اعلیٰ کے چبوترے کے آگے والے مکان میں وہ اسلامیہ گرلز اسکول میں پڑھتی تھی۔ اس کا بڑا بھائی اصغر عباس‘ سرین اور رما کانت کے ساتھ ہاکی کھیلنے آیا کرتا تھا۔ ویسے پڑھتے وہ لوگ بھی الگ الگ تھے۔ سرین اور رما کانت ڈی اے وی کالج میں تھے ۔ اصغر عباس فیض اسلام کنگ جارج انٹر کالج میں۔ ’’ کیوں ری ۔ ایف اے کرنے کہاں جائے گی۔ جولائی آرہی ہے۔ بنارس جائے گی یا لکھنؤ__ ؟ ‘‘ ڈاکٹر آفتاب رائے نے چوکے میں بیٹھتے ہوئے سوال کیا۔ اب یہ ایک ایسا ٹیڑھا اور اچانک سوال تھا ۔ جس کا جواب دینے کے لیے کھیم وتی ہرگز تیار نہ تھی۔ دونوں جگہوں سے متعلق اسے کافی انفرمیشن حاصل تھی۔ لیکن دو ٹوک فیصلہ وہ فی الحال کسی ایک کے حق میں نہ کرسکتی تھی۔ بنارس میں ایک تو یہ کہ چوڑیاں بہت عمدہ ملتی تھیں۔ لیکن لکھنؤ کو بھی بہت سی باتوں میں فوقیت حاصل تھی۔ مثلاً سنیما تھے۔ اور دس سنیماؤں کا ایک سنیما تو خود مہیلا ودیالہ تھا۔ جہاں اسے بھیجنے کا تذکرہ ماما نے کیا تھا۔ پردہ غالباً اسے بہر صورت ہر جگہ کرنا تھا۔ تانگے پر پردہ یہاں بھی ہیم کرن اپنے اور اس کے لیے بندھواتی تھیں۔ اور ماما جو اتنا بڑا ڈنڈا لیے سر پر موجود تھے۔ یہ ماما اس کے آج تک پلّے نہ پڑے۔ ولایت سے ان گنت ڈگریاں لے آئے تھے ۔ یونی ورسٹی میں پروفیسری کرتے تھے ۔تاریخ پر کتابیں لکھتے تھے۔ فارسی میں شعر کہتے تھے ۔ چوں چوں کا مربہ تھے کھیم کے ماما __ رہے رما کانت اور سرین۔ رما کانت تو شاعرآدمی تھا۔ سارے مقامی شاعروں میں جاکر وہ غزلے سہ غزلے پڑھ ڈالتا۔ اور حضرت ناشاد جون پوری کے نام نامی سے یاد کیا جاتا۔ سرین اس کے برعکس بالکل انجینئر تھا۔ اس سال وہ بھی انٹر کر کے بنارس انجینئرنگ کالج چلا جائے گا۔ باقی کے سارے کنبے برادری کے بہن بھائی یوں ہی بکواس تھے۔ اس سلسلے میں اس کی گوئیاں کشوری یعنی کشور آرا بیگم کے بڑے ٹاٹھ تھے۔ اس کے بے شمار رشتے کے بھائی تھے اور سب ایک سے ایک سورما۔ یہاں کسی کے سورما پنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ کسی نے آج تک اس سے یہ نہ کہا کہ چل کھیم تجھے سرکس یانو ٹنکی ہی دکھلا دیں__ ( نوٹنکی کے دنوں میں رسویا تک لہک لہک کر گاتا__ اب یہی ہے میں نے ٹھانی __ لاؤں گا نوٹن کی رانی __) کہاں کشوری کے ماجد بھائی ہیں تو اس کے لیے لکھنؤ سے چوڑیاں لیے چلے آتے ہیں۔ اکرام بھائی ہیں تو کشوری ان کے لیے جھپا جھپ پل اوور بن رہی ہے۔ اشفاق بھائی ہیں تو کشوری کو بیٹھے انگریزی شاعری پڑھا رہے ہیں۔ ان بھائیوں اور کھیم کے بھائیوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ کہاں کی چوڑیاں اور پل اوور۔ یہاں تو جوتیوں میں دال بٹتی تھی۔ ہیم کرن کو گھر کے کام دھندوں ہی سے فرصت نہ ملتی۔ آفتاب رائے ان کے لیے بڑا سہارا تھے۔ وہ ہر تیسرے چوتھے مہینے لکھنؤ سے آکر مل جاتے ۔ رہنے والے ان کے بھین صاحب جون پور ہی کے تھے۔ پر یہاں ان کی کسی سے ملاقات نہ تھی۔ ’’ ضلع کے رؤساء اور مقامی عمائدین شہر ‘‘ میں ان کا شمار تھا۔ پر آپ کا خیال اگر یہ ہے کہ ڈاکٹر اافتاب رائے جون پور کے ان معززین کے ساتھ اپنا وقت خراب کریں گے تو آپ غلطی پر ہیں۔ حکام سے ان کی کبھی نہ بنی۔ انٹلکچوئیل آدمی تھے۔ ان سول سروس اور پولس والوں سے کیا دماغ سوزی کرتے۔ جگن ناتھ جین آئی سی ایس جب نیا نیا حاکم ضلع ہو کر آیا تو اس نے کئی بار ان کو کلب میں بلا بھیجا۔ پر یہ ہرگز نہ گئے۔ رئیس الدین کاظمی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے دعوت کی۔ اس میں بھی نہ پہنچے۔ اور تواور ولایت واپس جاتے وقت مسٹر چارلس مارٹن نے کوئین وکٹوریہ گورنمنٹ انٹر کالج کی پرنسپل شپ پیش کی۔ لیکن کھیم کے ماما نے اسے بھی رد کردیا۔ یوں تو خیر کانگریسی ہونا کوئی خاص بات نہیں۔ شہر اور قصبہ جات کا ہر ہندو جو سرکاری ملاز م نہ تھا گھر پر ترنگا لگاتا تھا اور ہر مسلمان کے اپنے دسیوں مشغلے تھے ۔ احرار پارٹی تھی‘ شیعہ کانفرنس تھی‘ ڈسٹرکٹ کانگریس کمیٹی میں مسلمان بھرے ہوئے تھے۔ مسلم لیگ کا تو خیر اس وقت کسی نے نام بھی نہ سنا تھا‘ پر بہت سے مسلمان اگر انصاف کی پوچھئے تو کچھ بھی نہ تھے‘ یا شاعری کرتے تھے۔ یا مجلسیں پڑھتے تھے۔ تو کہنے کا مطلب یہ کہ کوئی ایسی تشویش ناک بات نہ تھی۔ پر ڈاکٹر آفتاب رائے کی زیادہ تر لوگوں سے کبھی نہ پٹی۔ ارے صاحب یہاں تک سنا گیا ہے کہ تری پورہ کانگریس کے موقع پر انہوں نے سب کو کھری کھری سنا دی۔ گو یہ راوی کو یاد نہیں کہ انہوں نے کیا کہا تھا۔ ضلع کی سوسائٹی جن عنا صر پر مشتمل تھی۔ انہیں سے ڈاکٹر آفتاب رائے کوسوں دور بھاگتے تھے۔ وسط شہر میں مہاجنوں‘ ساہو کاروں اور زمین داروں کی اونچی حویلیاں تھیں۔ یہ لوگ سرکاری فنڈوں میں ہزاروں روپیہ چندہ دیتے۔ اسکول کھلواتے‘ مجرے اور مشاعرے اور دنگل کرواتے۔ جلسے جلوس اور سر پھٹول بھی ان ہی کی زیر سرپرستی منعقد ہوتے۔ ہندو مسلمانوں کا معاشرہ بالکل ایک سا تھا۔ وہی تیج تہوار ۔ میلے ٹھیلے۔ محرم بالے میاں کی برات۔ پھر وہی مقدمے بازیاں۔ موکل ‘ گواہ‘ پیشکار سمن۔ عدالتیں صاحب لوگوں کے لیے ڈالیاں۔ شہر کے باہر ضلع کا ہسپتال تھا۔ لق و دق ہری گھاس کے میدانوں میں بکھری ہوئی اداس پیلے رنگ کی عمارتیں۔ کچے احاطے۔ نیم کے درختوں کی چھاؤں میں آؤٹ ڈور‘ مریضوں کے ہجوم ۔گرد آلود یکوں کے اڈے۔ سڑک کے کنارے بیٹھے ہوئے دو دو آنے میں خط لکھ کر دینے والے بہت بوڑھے اور شکستہ حال منشی جو دھاگوں والی عینکیں لگائے دھندلی آنکھوں سے راہ گیروں کو دیکھتے۔ پھر گلیاں تھیں جن کے گموں کے فرش پر پانی بہتا تھا۔ سیاہی مائل دیواروں پر کوئلے سے اشتہار لکھے تھے__ حکیم مارکہ دھاگہ خریدیئے ۔ پری برانڈ بیٹری پیو__ ایک پیسہ باپ سے لو __چائے جاکر ماں کو دو __ آگیا۔ آگیا ۔ آگیا __ سال رواں کا سنسنی خیز فلم ’’ لہری راجہ‘‘ آگیا جس میں مش مادھوری کام کرتی ہے __ پھر سایہ دار سڑکوں کے پرے آم اورمولری میں چھپی ہوئی حکام ضلع کی بڑی بڑی کوٹھیاں تھیں۔ انگریزی کلب تھا۔ جس میں بے اندازہ خنکی ہوتی ۔ چپ چاپ اور سائے کی طرح چلتے ہوئے مودب اور شائستہ ’’ بیرے‘‘ انگریز اور کالے صاحب لوگوں کے لیے ٹھنڈے پانی کی بوتلیں اور برف کی بالٹیاں لاکر گھاس پر رکھتے‘ نیلے پردوں کی قناتوں کے پیچھے ٹینس کی گیندیں سبزے پر لڑھکتی رہتیں۔ (۲) اور سول لائنز کی اس دنیا میں اوپر سے آئی کنول کماری جین جگن ناتھ جین‘ آئی سی ایس کی بالوں کٹی بیوی جس نے لکھنؤ کے مشہور انگریزی کالج ازابلا تھوبرن میں پڑھا تھا اور جو گیند بلا کھیلتی تھی۔ کلب میں بڑی چہل پہل ہوگئی __ گنتی کی کل تین تو میمیں ہی تھیں کلب میں۔ کوئین وکٹوریہ گورنمنٹ انٹر کالج کے انگریز پرنسپل کی میم ایک۔ زنانہ ہسپتال کی بڑی ڈاکٹرنی میم مس مک کنزی دو۔ اور اے پی مشن گرلز ہائی اسکول کی بڑی استانی مس سالفرڈ جو چن چنیامیم کہلاتی تھی کہ نوکروں پر چلاتی بہت تھی۔ ان تین کے علاوہ ڈاکٹر نی میم کی چھوٹی بہن مس اولیومک کنزی تھی۔ جو اپنی بہن سے ملنے نینی تال سے آئی ہوئی تھی اور ضلع کے غیر شادی شدہ حکام کے ساتھ ٹنس کھیلنا اس کا خاص مشغلہ تھا اوراس میں ایسا کچھ اس کا جی لگا تھا کہ اب واپس جانے کا نام نہ لیتی تھی ۔ شام ہوتے ہی وہ کلب میں آن موجود ہوتی اور وے مسٹر سکسینہ اور وے مسٹر فرحت علی۔ اور وے مسٹر پانڈے۔ سبھی تو اس کے چاروں طرف کھڑے دانت نکھو سے ہنس رہے ہیںاس ایک سیانے بھائی لوگوں کو تگنی کا ناچ نچا رکھا تھا۔ باقی ماندہ حضرات بھی کہتے تھے کہ میاں کیا مضائقہ ہے۔ جون پور ایسی ڈل جگہ پر مس مک کنزی کا دم وہی غنیمت جانو۔ اب غور کرنے کا مقام ہے کہ مس شبیرہ حمایت علی جو دوسری لیڈی ڈاکٹر تھیں ان کا تو نام سن کر ہی جی بیٹھ جاتا تھا۔ مگر وہ خود بے چاری بڑی اسپورٹنگ آدمی تھیں۔ برابر جی داری سے ٹینس کھیلنے آیا کرتیں۔ لکھنؤ کے کنگ جارجز کی پڑھی ہوئی تھیں۔ لندن جا کر ایک ٹھوڈ پلوما بھی مار لائی تھیں لیکن کیا مجال جو کبھی بد دماغی دکھلا جاویں۔ لوگ کہتے تھے۔ صاحب بڑی شریف ڈاکٹر نی ہے۔ بالکل گائے سمجھئے گائے۔ جی ہاں اب یہ دوسری بات ہے کہ آپ یہ توقع کریں کہ ہر لیڈی ڈاکٹر افسانوں اور ناولوں کی روایت کے مطابق بالکل حور شمائل مہ وش پری پیکر ہو۔ اچھی آدمی کا بچہ تھیں۔ بلکہ ایک مرتبہ تو ڈسٹرکٹ جج مسٹر کاظمی کی بیگم صاحب نے مسٹر فرحت علی سے تجویز بھی کی تھی کہ بھیا آزادی کا زمانہ ہے مس شبیرہ ہی سے بیاہ کر لو۔ یہ جو سال کے سال چھٹیوں میں تمہاری اماں تمہیںلڑکیاں دیکھنے کے لیے نینی تال مسوری بھیجا کرتی ہیں۔ اس درد سرسے بھی نجات ملے گی اور کیا۔ راوی کہتا ہے کہ فرحت علی نے جو ان دنوں بڑے معرکے کا سپرنٹنڈنٹ پولس لگا ہوا تھا۔ بیگم کاظمی کے سامنے کان پکڑ کر اٹھک بیٹھک کی تھی۔ اور تھر تھر کانپا تھا۔ اور دست بستہ یوں گویا ہوا تھا کہ آئندہ وہ مس شبیرہ حمایت سے جو گفتگو کرے گا ۔ وہ صرف چار جملوں پر مشتمل ہوگی__ آداب عرض۔ آپ اچھی طرح سے ہیں؟ جی ہاں میں بالکل اچھی طرح ہوں۔ شکریہ آداب عرض۔ مصیبت یہ تھی کہ جہاں کسی شامت کے مارے نے کسی ’’ غیر منسلک ‘‘ خاتون محترم سے سوشل گفتگو کے دوران میں ان چار جملوں سے تجاوز کیا تو بس سمجھ لیجئے ایکٹوٹی ہو گئی۔ تو غرض یہ کہ راوی دریا کویوں کوزے میں بند کرتا ہے کہ کنول کماری کے میاں کا تقرر اس جگہ پر ہوا (انگریز حاکموں کی اصطلاح میں صوبے کا ضلع اسٹیشن کہلاتا تھا) اور نئے حاکم ضلع کے اعزاز میں کنور نرنجن داس رئیس اعظم جون پور نے (کہ یہ سارا کا سارا ایک نام تھا) اپنے باغ میں بڑی دھوم کی دعوت کی چبوترے پر زر تار شامیانہ تانا گیا۔ رات گئے تک جلسہ رہا۔ بیبیوں کے لیے اندر علاحدہ دعوت تھی۔ مصرانیوں نے کیا کیا کھانے نہ بنائے۔ مسلمان مہمانوں کے لیے باؤلے ڈپٹیوں کے وہاں سے باورچی بلوائے گئے تھے ( باؤلے ڈپٹیوں کا ایک خاندان تھا۔ جس میں عرصہ ہوا ایک ڈپٹی صاحب کا دماغ چل گیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ پورا خاندان باؤلے ڈپٹیوں کا گھرانا کہلاتا تھا۔ کہار آواز لگاتے۔ اجی باؤلے ڈپٹیوں کے ہاں سے سواریاں آئی ہیں اتروالو مہریوں سے کہا جاتا ارے باؤلے ڈپٹیوں کے ہاں نیوتہ دیتی آنا ری رام رکھی۔) ہیم کرن ایسے تو کہیں آتی جاتی نہ تھیں۔ پر رانی نرنجن داس کی زبردستی پر وہ بھی دعوت میں آگئی تھیں۔ کلکٹر کی بیوی‘ سے ملنے کے لیے عمائدین شہر کی بیویوں نے کیا کیا جوڑے نہ پہنے تھے ۔ لیکن جب خود کنول کماری کو دیکھا تو پتہ چلا کہ یہ تو پوری میم ہے۔ غضب خداکا ہاتھوں میں چوڑیاں تک نہ تھیں۔ ناک کی کیل تو گئی چولہے بھاڑ میں ہلکے نیلے رنگ کی ساڑی سی پہنے گاؤ تکیے سے ذرا ہٹ کر بیٹھی وہ سب سے مسکرا مسکرا کر باتیں کرتی رہی۔ ’’اے لو بیٹا تم نے تو سہاگ کی نشانی ہی کو جھاڑو پیٹے فیشن کی بھینٹ کردیا ‘‘۔صدر اعلیٰ کی بیگم نے ناک پہ انگلی رکھ کر اس سے کہا ۔ ’’ اے ہاں سچ تو ہے ۔ کیا ڈنڈا ایسے ہاتھ لیے بیٹھی ہو۔ دور پار چھائیں پھوئیں دیکھے ہی سے ہول آتا ہے؟ ‘‘ بیگم کاظمی نے بھی صاد کیا۔ کھیم کی توبہرحال آج عید تھی۔ اس نے تیز جامنی رنگ کی بنارسی ساری باندھی تھی۔ پاؤں میں رام جھول پہنے تھے۔ سونے کی کرودھنی اور دوسرے سارے گہنے پاتے علاحدہ کندن کا چھپکا اور مگر۔ کشوری بہن بھی آئی تھی۔ لیکن کشوری کی اماں ( جو محلے میں بڑی بھاوج کے نام سے یاد کی جاتی تھیں) بن بیاہی لڑکیوں کے زیادہ سنگار پٹار کی قطعی قائل نہ تھیں۔ ان کے یہاں تو لڑکیاں بالیاں مانگ تک بالوں میں نہ کاڑھ سکتی تھیں۔ پر اب زمانے کی ہوا کے زیر اثر نئی پود کی لڑکیوں نے سیدھی اور آڑی مانگیں کاڑھنی شروع کردی تھیں۔ کھیم دور سے بیٹھی کنول کماری کو دیکھتی رہیں۔ کتنی سندر ہے اور پھر ایم اے پاس۔ ایم اے پاس لڑکی کھیم اور کشوری کی نظروں میں بالکل دیوی دیوتا کا درجہ رکھتی تھی۔ کنول کماری جین ساری مہمان بیبیوں سے ہنس ہنس کر سخت خوش اخلاقی سے گفتگو کرنے میں مصروف تھی ( اور ساری حاضرات محفل نے اسی وقت فیصلہ کر لیا تھا کہ یہ لڑکی سابق کلکٹر کی بیوی اس چڑیل مسز بھارگوا سے کہیں زیادہ اچھی اور ملنسار ہے‘ رانی بیٹا ہے بالکل) دالان کے گملوں کی اوٹ میں کھیم اور کشوری بیٹھی تھیں ۔ اور منٹ منٹ پر ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہوئی جاتی تھیں۔ اب ایک بات ہو تو بتلائی جائے۔ دسیوں تھیں۔ مثلاً موٹی مصرانی کی چال ہی دیکھ لو ۔ اوراوپر سے کنور نرنجن داس صاحب خانہ کی اسٹیٹ کے منیجر صاحب لالہ گنیش مہاشے بار بار ڈیوڑھی میں آن کر للکارتے __ ‘‘ جی پردہ کر لو کہار اندر آرہے ہیں‘‘۔ تو ان کے حلق میں سے ایسی آواز نکلتی جیسے ہار مونیم کے پردوں کو برساتی ہوا مار گئی ہو۔ اب کے سے جب ماما لکھنؤ سے گھر آئے تو کھیم نے دعوت کی ساری داستان ان کے گوش گزار کردی۔ کنول کماری ایسی۔ اور کنول کماری ویسی۔ ماما چپکے بیٹھے سنتے رہے۔ (۳) کھیم جب رات کا کھانا کھا کر سونے چلی گئی۔ اور سارے گھر میں خاموشی چھا گئی تو ڈاکٹر آفتاب رائے چھت کی منڈیر پر آکھڑے ہوگئے۔ باغ اب سنسان پڑے تھے۔ گرمیوں کا موسم نکلتا جارہا تھا۔ اور گلابی جاڑے شروع ہونے والے تھے۔ پروائی ہوا آہستہ آہستہ بہ رہی تھی۔ نیچے ٹھکرائن کی بگیاوالی گلی کے برابر سے مسلمانوں کا محلہ شروع ہوتا تھا‘ اس کے بعد بازار تھا۔ جس میں مدھم گیس اور لالٹین کی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ پھر پولس لائنز کے میدان تھے۔ اس کے بعد کچہری اور سول لائنز ۔ سول لائنز میں حاکم ضلع کی بڑی کوٹھی تھی۔ جس پر یونین جیک جھٹ پٹے کی نیم تاریکی میں بڑے سکون سے لہرا رہا تھا۔ سارے میں یہ تھکی ہوئی خاموشی چھائی تھی۔ سامنے عہد سلطان حسین شرقی کے اونچے پھاٹک اور مسجدوں کے بلند مینار رات کے آسمان کے نیچے صدیوں سے اسی طرح ساکت اور صامت کھڑے تھے۔ زندگی میں بے کیفی تھی اور اداسی، اور ذلت تھی اور شدید غلامی کا احساس۔ عمر بھر آفتاب رائے نے یوں ہی سوچا تھا کہ اب وہ اور کچھ نہ کریں گے۔ لیکن دنیا موجود تھی۔ وہ کام بھی کرتے کھانا بھی کھاتے۔ سال میں چار دفعہ جون پور آکر جی جی سے دماغ سوزی بھی کرتے ۔ زندگی کے بھاری پن کے باوجود گاڑی تھی کہ چلے جارہی تھی۔ کنول کماری اس منظر کے پرے مولسری کے جھنڈ کے دوسری طرف یونین جیک کے سائے میں براجتی تھی۔ بہت سے لوگ ہیں کہ جو راستہ سوچا اختیار کر لیا ۔ آرام سے اس پر چلتے چلے گئے۔ یہاں کسی راستے کا تعین ہی نہ ہوپاتا تھا۔ ایک کے بعد ایک سب ادھر اُدھر نکل گئے تھے۔ آفتاب رائے ہیں کے وہیں تھے۔ کنول کماری __ ؟ لاحول ولا قوۃ۔ جب وہ یونی ورسٹی سے ڈاکٹریٹ کے لیے ولایت جارہے تھے تو کنول نے ان سے کہا تھا ’’ آفتاب بہادر تم کو اپنے اوپر بڑا مان ہے۔ پر وہ مان ایک روز ٹوٹ جائے گا۔ جب میں بھی کہیں چلی جاؤں گی۔ ’’ تم کہاں چلی جاؤ گی __؟ ‘‘ ’’ فوہ __ لڑکیاں کہاں چلی جاتی ہیں__؟‘‘ ’’ گویا تمہارا مطلب ہے کہ تم بیاہ کر لو گی؟‘‘ ’’ میںخود تھوڑا ہی بیاہ کرتی پھروں گی۔ ارے عقل مند داس میرا بیاہ کردیا جائے گا‘‘ اس نے جھنجھلا کر جواب دیا تھا۔ ’’ ارے جاؤ __ ‘‘ آفتاب رائے خوب ہنستے تھے __ ‘‘ میں اس جھانسے میں آنے والا نہیں ہوں۔ تم لڑکیوں کی پسند بھی کیا شے ہے۔ تم جیسی موڈرن لڑکیاں آخر میں پسند اسی کو کرتی ہیں جو ان کے سماجی اور معاشی معیار پر پورا اترتا ہے۔ باقی سب بکواس ہے۔ پسند اضافی چیز ہے تمہارے لیے __ ‘‘ ’’ ہاں __ بالکل اضافی چیز ہے۔ آفتاب بہادر __ ‘‘ وہ غصے کے مارے بالکل خاموش ہوگئی تھی۔ وہ چاند۱؎ باغ میں تھی۔ آپ بادشاہ ۲؎باغ میں بڑی دھوم دھام سے براجتے تھے۔ یونین کی پریزیڈنٹی کرتے تھے۔ تقریریں بگھارتے تھے ۔ ایک منٹ نچلے نہ بیٹھتے تھے تاکہ کنول نوٹس نہ سمجھی لیتی ہو تولے۔ وہ اے پی سین روڈ پر رہتی تھی اور سائیکل پر روز چاند باغ آیا کرتی تھی۔ ۱؎ ازابلا تھوبرن کا علاقہ جو عہد شاہی میں چاند باغ کہلاتا تھا۔ ۲؎ نصیر الدین ہاشمی کا باغ جہاں اب یونیورسٹی قائم ہے۔ لکھنؤ کی بڑی نمائش ہوئی تو وہ بھی اپنے کنبے کے ساتھ میوزک کانفرنس میں گئی۔ وہاں یونی ورسٹی والوں نے سہگل کو اپنے محاصرے میں لے رکھا تھا۔ جس گانے کی یونی ورسٹی اور چاند باغ کا مجمع فرمائش کرتا۔ وہی سہگل کو بار بار گانا پڑتا۔ بھائی آفتاب بھی شور مچانے میں پیش پیش ۔ لیکن اگلی صف میں کنول کو بیٹھا دیکھ کر فوراً سٹ پٹا کر چپ ہوگئے اور سنجیدگی سے دوستوں سے بولے کہ یار چھوڑو کیا ہلڑ مچا رکھا ہے۔ اس پر عزت۱؎ نے عسکری۲؎ بلگرامی سے کہا۔ (آج ان دونوں پیارے دوستوں کو مرے بھی اتنا عرصہ ہوگیا تھا‘ منڈیر پر کھڑے ہوئے آفتاب رائے کو خیال آیا ) عزت نے عسکری ۲؎سے کہا تھا۔ استاد یہ اپنا آفتاب جو ہے یہ اس لونڈیا پر اچھا امپریشن ڈالنے کی فکر میں غلطاں و پیچاں ہے۔ اب خدا وند تعالیٰ ہی اس پر رحم کرے__ ’’ بی اے کے بعد تم کیا کرو گی__ ؟ ‘‘ ایک روز آفتاب رائے نے کنول سے سوال کیا۔ ’’ مجھے کچھ پتہ نہیں__ ‘‘ کنول نے کہا تھا۔ اس میں گویا یہ اشارہ تھا کہ مجھے تو کچھ پتہ نہیں تم ہی کوئی پروگرام بتاؤ۔ لیکن کچھ عرصہ بعد وہ سیدھے سیدھے ولایت نکل لیے۔ کیوں کہ غالباً ان کی زندگی ان کے لیے‘ ان کے گھر والوں کے لیے کنول کے وجود سے کہیں زیادہ اہم تھی۔ پھر ان کی ٓائیڈیا لوجی تھی ( یار کیا بکواس لگا رکھی ہے عزت نے ڈپٹ کر کہا تھا) پر ایک روز‘ لندن میں ‘ جب وہ سینٹ ہاؤس کی لائبریری سے گھر کی اور جارہے تھے تو راہ میں انہیں مہی پال نظر آیا جس نے دور سے آواز لگائی __ ‘‘ چائے پینے چلو تو ایک واقعہ فاجعہ گوش گزار کروں۔ کنول کمار کا جگن ناتھ جین سے بیاہ ہوگیا۔ وہی جو سن 45 کے بیچ کا آئی سی ایس ہے __‘‘ لڑکیوں کی عجب بے ہودہ قوم ہے۔ اس روز آفتاب رائے اس نتیجے پر پہنچے ’’ ان کو سمجھنا ہمارے تمہارے بس کا روگ نہیں۔ میاں وہ جو بڑی انٹلکچوئیل کی ساس بنی پھرتی تھی‘ سو گئی ہوگی۔ اب گلیڈ __ جگن ناتھ جین مائی فٹ __ کون تھا یہ الو __ میں نے کبھی دیکھا ہے اسے __ ؟ ‘‘ مہی پال کے کمرے میں پہنچ کر آتش دان سلگاتے ہوئے انہوں نے سوال کیا۔ مہی پال رائے زادہ کھڑکی میں جھکا باہر سڑک کو دیکھ رہا تھا۔ جہاں ٹھیلے والے کو کنی ۱؎ ۲؎ لکھنؤ یونی ورسٹی کے نامور طلباء دن بھر گلا پھاڑ کر چلاتے رہنے کے بعد اب اپنے اپنے ترکاریوں کے ٹھیلے ڈھکیلتے ہوئے سر جھکائے آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ شام کا دھند لکا سارے میں بکھر گیا تھا۔ زندگی بڑی اداس ہے۔ اس نے خیال کیا تھا۔ ہاں۔ اس نے آفتاب رائے سے کہا تھا میں نے اسے پٹنے میں دیکھا تھا۔ کالا سا آدمی ہے۔ عینک لگاتا ہے۔ کچھ کچھ لومڑی سے ملتی جلتی اس کی شکل ہے۔ ’’ بے وقوف بھی ہے __؟‘‘ آفتاب رائے نے پوچھا تھا۔ ’’ خاصا بے وقوف ہے __‘‘ مہی پال رائے زادہ نے جواب دیا تھا۔ __ پھر کنول اس کے ساتھ خوش کیسے رہ سکے گی؟ ‘‘ آفتاب رائے نے مہی پال سے مطالبہ کیا۔ ’’ میاں آفتاب بہادر __ ‘‘ مہی پال نے مڑ کر ان کو مخاطب کیا __ ’’ یہ جتنی لڑکیاں ہیں نا __ جو افلاطون زماں بنی پھرتی ہیں۔ یہ بے وقوفوں کے ساتھ ہی خوش رہتی ہیں۔ آیا عقل میں تمہاری __ ؟ ‘‘ ’’ کیا بکواس ہے __ ‘‘ آفتاب رائے نے آزردگی سے کہا تھا۔ اب مہی پال رائے زادہ کو صریحاً غصہ آگیا ہے۔ اس نے جھنجھلا کر کہا تھا __ ‘‘ تو میاں تم کو روکا کس نے تھا اس سے بیاہ کرنے کو ‘ جواب مجھے بور کر رہے ہو۔ کیا وہ تم سے خود آکر کہتی کہ میاں آفتاب بہادر میں تم سے بیاہ کرنا چاہتی ہوں۔ ایں __؟ اور فرص کرو اگر وہ خود سے ہی انکارکر__ دیتی تو کیا قیامت آجاتی ۔ میاں لڑکی تھی یا ہوا۔ کیا مارتی وہ تم کو بھاڑ دیکر __ کیا کرتی __؟ تم نے لیکن کہہ کے ہی نہیں دیا ۔ خیر چلو__ خیریت گذر گئی۔ اچھا ہی ہوا۔ کہاں کا جھگڑا مول لیتے بے کار میں ۔ کیوں کہ میرا مقولہ ہے۔ ( اس نے انگلی اٹھا کر عالمانہ انداز میں کہا) کہ شادی کے ایک سال بعد سب شادیاں ایک سی ہوجاتی ہیں__ تم کو تو جگن ناتھ جین کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس نے تم کو ایک بار عظیم سے سبکدوش کیا۔ بلکہ وہ تمہارے حق میں بالکل دافع بلیات ثابت ہوا__ ‘‘ ’’ بے ہودہ ہیں آپ انتہا سے زیادہ ‘‘ آفتاب رائے نے جھنجھلا کر کہا تھا‘‘۔ لکھنؤ لوٹ کر ایک روز آفتاب رائے اتفاقاً اے پی سین روڈ پر سے گزرے۔ سامنے کنول کے باپ کی سرخ رنگ کی بڑی سی کوٹھی تھی۔ جس کی برساتی پر کاسنی پھولوں کی بیل پھیلی تھی۔ یہاں ایک زمانے میں کتنا اودھم مچتا۔ کنول کے سارے بہن بھائیوں نے مل کر اپنا آر کیسٹرا بنا رکھا تھا۔ کوئی بانسری بجاتا۔ کوئی جل ترنگ ۔ کنول طبلہ بجاتی‘ ایک بھائی وائلن کا استاد تھا۔ سب مل کر جے جے ونتی شروع کردیتے ۔ مورے مندر اب لوں نہیں آئے۔ کیسی چوک بھئی مو سے آلی۔ پھر ارچنابنرجی آجاتی اور کو ئل ایسی آواز میں گاتی__ آمی پو ہوڑی جھورنا فکر مکر بوجوئے __ بو جوئے ہو__ اتوار کو دن بھر بیڈ منٹن کھیلا جاتا ہر سمے تو آفتاب رائے ان لوگوں کے یہاں موجود رہتے تھے۔ اور جب ایک روز خود ہی چپکے سے ولایت کھسک لیے تو ان لوگوں کا کیا قصور۔ وہ لڑکی کو بنک کے سیف ڈپازٹ میں تو ان کے خیال سے رکھنے سے رہے اور جگن ناتھ جین ایسا رشتہ تو بھائی قسمت والوں ہی کو ملتا ہے۔ پھر ایک روز امین آباد میں انہوں نے کنول کو دیکھا۔ وہ کار سے اتر کر اپنی سسرال والوں کے ساتھ پارک کے مندر کی اور جارہی تھی اور سرخ ساڑی میں ملبوس تھی اور آلتا اس کے پیروں میں تھا ( آلی ری سائیں کے مندر دیا بار آؤں۔ کر آؤں سولہ شرنگار __ وہ گرمیوں کی شام تھی۔ امین آباد جگمگا رہا تھا ۔ ہوا میں موتیا اور خس کی مہک تھی۔اور مندر کا گھنٹہ یکسانیت سے بجے جارہا تھا ) اب آفتاب رائے یونی ورسٹی میں تاریخ پڑھاتے تھے۔ ساتھیوں کی محفل میں خوب اودھم مچاتے‘ ٹینس کھیلتے ۔ اور تھے۔ میں وہ نہیں ہوں جو میں ہوں۔ میں وہ ہوں جو میں نہیں ہوں۔ ہر چیز باقی ساری چیزیں ہیں۔ بھگوان کرشن جب ارجن سے کہتے ہیں __ اوپرنس ارجنا __(ارے جا __‘‘ عسکری ڈانٹ بتاتا۔ اگر تم اس چکر میں ہو کہ تم بھی پروفیسر ڈی پی مکرجی کی طرح مہاگروبن کے بیٹھ جاؤ گے تو تم غلطی پر ہو۔ ڈاکٹر آفتاب رائے‘ تمہارا تو ہم مارتے مارتے حلیہ ٹھیک کردیں گے‘‘ مہی پال اضافہ کرتا) جون پور آکر وہ کھیم کو دیکھتے کہ تندہی سے کچالو کھا رہی ہے۔ کتھک سیکھ رہی ہے۔ جل بھرنے چلی ری گوئیاں آں آں گاتی پھر رہی ہے۔ یہ بھی کنول کماری کی قوم سے ہے۔ ’’ اری او باؤلی__ بتا تو کیا کرنے والی ہے __‘‘ وہ سوال کرتے۔ ’’ پتہ نہیں ماما__ ‘‘ وہ معصومیت سے جواب دیتی۔ ’’ پتہ نہیں کی بچی__ ‘‘ وہ دل میں کہتے تھے۔ چھت کی منڈیر پر ٹہلتے ٹہلتے آفتاب رائے نیم کی ڈالیوں کے نیچے آگئے۔ سامنے بہت دور سول لائنز کے درختوں میں چھپی ہوئی حاکم ضلع کی کوٹھی میں گیس کی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ پروائی ہوا بہے جارہی تھی۔ یہ چاند رات تھی اور مسلمانوں کے محلوں کی طرف سے محرم کے نقاروں کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ محرم آگیا__ آفتاب رائے کو خیال آیا__ شاید اب کے سے پھر سر پھٹول ہو۔ بہت دنوں سے نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے سوچا۔ ویسے انگریز کی پالیسی یہ تھی کہ جن ضلعوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ وہاں ہندو افسروں کو تعینات کیا جاتا تھا۔ اورجہاں ہندو زیادہ ہوتے تھے۔ وہاں مسلمان حاکموں کو بھیجا جاتا تھا تاکہ توازن قائم رہے۔ یہ دوسری بات تھی کہ صوبے کی چھ کروڑ آبادی کا صرف ۱۳ فی صدی حصہ مسلمان تھے۔ لیکن اتنی شدید اقلیت میں ہونے کے باوجود تہذیبی اور سماجی طور پر مسلمان ہی سارے صوبے پر چھائے ہوئے تھے۔ جون پور ‘ لکھنؤ‘ آگرہ‘ علی گڑھ ‘ بریلی‘ مرادآباد‘ شاہجہاں پور‘ وغیرہ جیسے ضلعوں میں تو مسلمانوں کی دھاک بیٹھی ہی ہوئی تھی۔ لیکن باقی کے سارے خطوں میں بھی ان کا بول بالا تھا۔ صوبے کی تہذیب‘ سے مراد وہ کلچر تھا جس پر مسلمانوں کا رنگ غالب تھا۔ گلی گلی محلے محلے گاؤں گاؤں لاکھوں مسجدیں اور امام باڑے موجود تھے۔ مکتب مدرسے‘ درگاہیں‘ قلعے حویلیاں، چپے چپے سے مسلمانوں کی آٹھ سو سال پرانی روایات وابستہ تھیں۔ اور لطف یہ ہے کہ مسلمان اب تک نہیں مرے تھے۔ بڑے زور شور سے زندہ تھے۔ ہندو مسلمانوں میں سماجی سطح پر کوئی زیادہ فرق نہ تھا۔ خصوصاً دیہاتوں اور قصبہ جات میں عورتیں زیادہ تر ساڑیاں اور ڈھیلے پائجامے پہنتیں۔ اودھ کے بہت سے پرانے خاندانوں میں بیگمات اب تک لہنگے بھی پہنتیں تھیں۔ لیکن بیاہی لڑکیاں ہندو اور مسلمان دونوں ساڑی کے بجائے کھڑے پائنچوں کا پائجامہ زیب تن کرتیں۔ ہندوؤں کے یہاں اسے ’’ اجار‘‘ کہا جاتا۔ مشغلوں کی تقسیم بڑی دل چسپ تھی۔ پولس کا عملہ اسی فیصد مسلمان تھا۔ محکمہ تعلیم میں ان کی اتنی ہی کمی تھی۔ تجارت تو خیرکبھی مسلمان بھائی نے ڈھنگ سے کر کے نہ دی۔ چند پیشے مگر خاص مسلمانوں کے تھے۔ جن کے دم سے صوبے کی مشہور صنعتیں قائم تھیں۔ لیکن خدا کے فضل و کرم سے کچھ ایسا مضبوط نظام تھا کہ سارا منافع تو بازار تک پہنچاتے پہنچاتے مڈل مین ہی مار لے جاتا تھا اور جو بھائی کے پاس بچتا تھا اس میں قرضے چکانے تھے‘ بٹیا کا جہیز بنانا تھا۔ اور ہزاروں قصے تھے آپ جانیے ۔ زبان اور محاورے ایک ہی تھے۔ مسلمان بچے برسات کی دعا مانگنے کے لیے منہ نیلا پیلا کیے گلی گلی ٹین بجاتے پھرتے اور چلاتے__ برسو رام دھڑا کے سے بڑھیا مر گئی فاقے سے۔ گڑیوں کی بارات نکلتی تو وظیفہ کیا جاتا__ ہاتھی گھوڑا پالکی__ جے کنہیا لال کی۔ ذہنی اور نفسیاتی پس منظر چونکہ یکساں تھا لہٰذا غیر شعوری طور پر __ Imagery بھی ایک ہی تھی۔ جس میں رادھا اور سیتا اور پنگھٹ کی گوپیوں کا عمل دخل بھی تھا۔ مسلمان پردہ دار عورتیں جنہوں نے ساری عمر کسی ہندو سے بات نہ کی تھی۔ رات کو جب ڈھولک لے کر بیٹھتیں تو لہک لہک کر الاپتیں__ بھری گگری موری ڈھر کائی شام __ کرشن کنہیا کے اس تصور سے ان لوگوں کے اسلام پرکوئی حرف نہ آتا تھا۔ یہ سب چیزیں اس تمدن کی مظہر تھیں۔ جنہیں پچھلی صدیوں میں مسلمانوں کی تہذیبی ہمہ گیری اور وسعت نظر اور ایک رچے ہوئے جمالیاتی حس نے جنم دیا تھا ۔ یہ گیت اور گجریاں اور خیال یہ محاورے‘ یہ زبان ‘ ان سب کی بڑی پیاری اور دل آویز مشترکہ میراث تھی۔ یہ معاشرہ جس کا دائرہ مرزا پور اور جون پور سے لے کر لکھنؤ اور دلی تک پھیلا ہوا تھا۔ ایک مکمل اور واضح تصویر تھا۔ جس میں آٹھ سو سال کے تہذیبی ارتقاء نے بڑے گمبھیر اور خوب صورت رنگ بھرے تھے۔ ڈاکٹر آفتاب رائے نے ( کہ ان کا نام ہی اس مشترکہ تمدن کی لطافت کا ایک مظہر تھا) ایک بار سوچا تھا کہ وہ کبھی ایک کتاب لکھیں گے کہ کس طرح پندرہویں صدی میں صوفی بھگتی تحریکوں کے زیر اثر ایک خوب صورت مستقبل کی بنیاد رکھی جارہی تھی۔ کس طرح نانک کا مذہب ہندوؤں کی فرقہ پرستی کے خلاف ایک پروگریسو رد عمل ثابت ہوسکتا تھا۔ کس طرح انیسویں صدی کی وہابی تحریک کو غیر ملکی راج کے مقابلے میں ایک قومی محاذ بننے کے بجائے اس کا رخ دوسری طرف موڑ دیا گیا۔ آریہ سماجیوں اور فرقہ پرستوں کو کیسے کیسے شہ دی گئی۔ یہ اور اس طرح کی سو باتیں ان کے ذہن میں آئیں۔ لیکن ذہن ہی کو مکمل سکون کہاں میسر تھا۔ پہلے یہ کنول کماری کود پڑی۔ پھر ان کی معاشی مجبوریاں آڑے آئیں۔ اور ان کو ولایت سے لوٹ کر بنارس میں لیکچر شپ سنبھالنی پڑی‘ جہاں دن رات ہندی اتھوا ہندو ہندوستانی کے گن گائے جاتے ۔ یہ میں تم سے کہتا ہوں __ کہ شدھ ہندی اور گئور کھشا اور رام راجیہ یہ سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس خطرے سے بچو۔ انہوں نے ایک دفعہ کانگریس ورکنگ کمیٹی کے پنڈال میں چلا کر کہا تھا__ بھائی اگریہی بات ہے تو سیدھے سیدھے مسلمان کیوں نہیں ہوجاتے__ ان سے کہا گیا ہم تو ہندو پیدا ہوئے اور ہندو ہی مریں گے۔ تمہاری طرح سے تھوڑا ہی ہیں ڈھل مل یقین۔ آفتاب رائے کے ساتھی مذاق میںانہیں جون پور کا قاضی کہا کرتے ۔ ’’ یہ جو کتاب تم لکھنے والے ہو اس کا نام رکھنا __ ‘‘ جون پور کا قاضی‘‘ __ عرف ’’ میں شہر کے اندیشے میں دبلا کیوں ہوا __؟ ‘‘ رات کی ہوا میں خنکی بڑھ چکی تھی۔ نیم کے پتے بڑے پر اسرار طریقے سے سائیں سائیں کر رہے تھے۔ ہاں زندگی میں بے پایاں اداسی تھی اور ویرانہ اور تاریکی ۔ محلے کے مکانوں میں مدھم روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ نیچے بڑی بھاوج کے مکان کے آنگن میں مجلس کے لیے جو گیس کا ہنڈہ نصب کیا گیا تھا۔ اس کی روشنی رات کے اس ویرانے میں لرزہ خیز معلوم ہوتی تھی۔ جیسے مہوے کے جنگل میں اگیا بھتال اور مسان چپکے چپکے روتے ہوں۔ مجلسوں کے گریہ و بکا کی مدھم آوازیں پروائی کے جھونکوں میں رل مل کر وقفے وقفے کے بعد یک لخت بلند ہوجاتی تھیں۔ نکڑ پر کنور نرنجن داس کے ہاں کی محرم کی سبیل کے پاس رکھی ہوئی نوبت یکسانیت سے بجے جارہی تھی۔
تحریر: قرۃ العین حیدر
سندر لالہ۔ سجے دلالہ۔ ناچے سری ہری کیرتن میں ناچے سری ہری کیرتن میں ناچے چوکھٹ پر اکڑوں بیٹھی رام رکھی نہایت انہماک سے چاول صاف کررہی تھی۔ اس کے گانے کی آواز دیر تک نیچے گموں والی سنسان گلی میں گونجا کی۔ پھر ڈاکٹر آفتاب رائے صدر اعلیٰ کے چبوترے کی اور سے بڑے پھاٹک کی سمت آتے دکھلائی پڑے۔ ’’بندگی بھین صاحب__‘‘ رام رکھی نے گھونگھٹ اور زیادہ طویل کرکے آواز لگائی۔ ’’بندگی__ بندگی__‘‘ ڈاکٹر آفتاب رائے نے زینے پر پہنچتے ہوئے بے خیالی سے جواب دیا۔ ’’راجی کھسی ہو بھین صاحب__‘‘ رام رکھی نے اخلاقاً دریافت کیا۔ ’’اور کیا__ مجھے کیا ہوا ہے جو راضی خوشی نہ ہوں گا۔ یہ سوپ ہٹا بیچ میں سے۔‘‘ انہوں نے جھنجھلا کر کہا۔ ’’بھین صاحب ناج پھٹک رہی تھی۔‘‘ ’’توناج پھٹکنے کے لیے تجھے گاڑی بھر راستہ چاہئے۔ چل ہٹا سب چیز__‘‘ ڈاکٹر آفتاب رائے نے دنیا بھر کی ڈگریاں تولے ڈالی تھیں۔ لیکن حالت یہ تھی کہ ذری ذری سی بات پر بچوں کی طرح خفا ہوجایا کرتے تھے۔ رام رکھی پر برستے ہوئے وہ اوپر آئے اور مونڈھے پر پیرٹکا کر انہوں نے اپنی بہن کو آواز دی__ جیجی__ جی ای ای__ جی ای ای ای__ (چھوراہے اب تلک مورا بھین__ ہیم کرن پیار سے کہا کرتیں) دالان کے آگے کھلی چھت پر نیم کی ڈالیاں منڈیر پر جھکی پچھوا ہوا میں سرسرا رہی تھیں۔ شام کی گہری کیفیت موسم کی اداسی کے ساتھ ساتھ سارے میں بکھری تھی۔ دن بھر نیچے مہوا کے باغ میں شہد کی مکھیاں بھنبھنایا کرتیں۔ اور ہر چیز پر غنودگی ایسی چھائی رہتی۔ آم اب پیلے ہوچلے تھے۔‘‘ ٹھکرائن کی بگیا‘‘ میں صبح سے لے کر رات گئے تک روں روں کرتا رہٹ چلا کرتا۔ ’’آرت ہن بھین صاحب__‘‘ ہیم کرن نے دالان کا پیتل کے نقش و نگار والا کواڑ کھولتے ہوئے غلے کے گودام میں سے باہر آکر جواب دیا۔ اورکنجیوں کا گچھا ساری کے پلو میں باندھ کر چھن سے پشت پر پھینکتی ہوئی صخچی میں آگئیں۔ ’’جے رام جی کی بھین صاحب__‘‘ رسویے نے چوکے میں سے آواز لگائی__ ’’کٹہل کی ترکاری کھیٔو بھین صاحب__؟‘‘ ’’ہاں۔ ہاں ضرور کھیسا بھائی__‘‘ ڈاکٹر آفتاب رائے مونڈھے پر سے ہٹ کر ٹہلتے ہوئے تلسی کے چبوترے کے پاس آگئے۔صخچی میں رنگ برنگی مورتیاں سا لگ رام سے لے کر بجرنگ بلی مہراج تک سیند درسے لپی پتی اور گنگاجل سے نہائی دھوئی قرینے سے سجی تھیں۔ ہیم کرن تھیں تو بڑی سخت رام بھگت لیکن باقی کے سبھی دیوی دیوتائوں سے سمجھوتہ رکھتی تھیں کہ نہ جانے کون کس سمے آڑے آجائے۔ سب سے بنائے رکھنی چاہئے۔ ابھی سرین اور راما کانت کھیل کے میدان سے لوٹیں گے۔ آٹھ بجے کھیما کتھک کے توڑے سیکھ کر جمنا مہراج کے ہاں سے واپس آئے گی۔ پھر چوکے میں کھانا پروسا جائے گا (پیتل کے برتن ٹھنڈی چاندنی میں جھلملائیں گے۔ نیچے آنگن میں رام رکھی کوئی کجری شروع کردے گی)یہاں پر بالآخر امن تھا۔ اور سکون۔ اب کھیم نیچے پکی گلیارے میں سے چلتی ہوئی اوپر آرہی تھی (ٹھکرائن کی بگیا میں سے ابھی اس نے کروندے اور کمر کھیں اور مکوہ توڑ کر جلدی جلدی منہ میں ٹھونسے تھے۔ دھاکر دادھی ناکت تا__ دھاکردا (اس نے کھتک کے بول دہرائے__ ارے باپ رے اس نے منڈیر پر سے اوپر جھانک کر دمینتی سے کہا__ ماما آئے ہیں۔ بھاگ جا ورنہ ما ما مجھے ماریں گے کہ ہر سمے کھیلتی ہے__ دمینتی بھاگ گئی) کھیم چھت پر آئی۔ لمبے سے ڈھیلے ڈھالے فراک میں ملبوس‘ جس پر موتیوں سے خوب تتلیاں اور پھول پتے بنے تھے‘ خوب کھینچ کر بالوں کی مینڈھیاں گوندھے‘ ہاتھوں میں چھنا چھن چوڑیاں بجاتی کھیم وتی رائے زادہ اپنے اتنے پیارے اور اتنے سندر ماما کو دیکھ کر بے حد خوش ہوئی۔ نمستے ماما__ابھی کتابیں لاتی ہوں بس ذرا منہ ہاتھ دھو آؤں __‘‘ ’’ چل چڑیل __بہانے باز__ سبق سنا پہلے __ ڈاکٹر آفتاب رائے نے پیارسے کہا (لیکن یہ کچھ تجربہ انہیں تھا کہ اپنے سے کم عمر لوگوں سے اور کنبے برادری والوں سے یہ گھر گرہستی اور لاڈ پیار کے مکالمے وہ زیادہ کامیابی سے ادا نہ کرپاتے تھے) ’’ تجھے تو میں انٹرمیڈیٹ میں بھی حساب دلاؤں گا ۔ دیکھتی جا __ ‘‘ (انہوں نے پھر ماما بننے کی سعی کی ) ’’ ارے باپ رے __ !! کھیم نے مصنوعی خوف کا اظہار کیا۔ ’’ اور تو نے چوڑیاں تو بڑی خوب صورت خریدی ہیں ری __‘‘ ’’ ہی ہی ہی __ ما ما __‘‘ ۔ کھیم نے دلی مسرت سے اپنی چوڑیوں کو دیکھا۔ ’’ اور تو ساری بھی تو پہنا کر کہ فراک ہی پہنے پھرے گی __ باؤلی سی __ (انہوں نے اپنی بزرگی کا احساس خود اپنے اوپر طاری کرنا چاہا۔) جی ما ما __ کھیم کے ذہن میں وہ ساریاں جھما جھم کرتی کوند گئیں جو ماں کے صندوقوں میں ٹھنسی تھیں۔ وہ تو خدا سے چاہتی تھی کہ کل کی پہنتی آج ہی وہ ساریاں پہن ڈالے۔ مگر ہیم کرن ہی پر انگریزیت سوار تھی۔ ایک تو وہ یہ نہیں بھولی تھیں کہ تھیں تو وہ جونپور کے اس ٹھیٹھ ‘ دقیانوسی سریواستوا گھرانے کی بیٹا __ پر ان کا بیاہ ہوا تھا۔ الٰہ آباد کے اتنے فیشن ایبل کنبے میں جس کے سارے افراد سول لائنز میں رہتے تھے۔ اور جوتے پہنے پہنے کھانا کھاتے تھے۔ اور مسلمانوں کے ساتھ بیٹھ کر چائے پانی پیتے تھے۔ اور گووھوا ہوئے ان کو اب سات برس ہونے کو آئے تھے اور تب سے وہ میکے ہی میں رہتی تھیں۔ لیکن محلے پر ان کا رعب تھا۔ کیوں کہ وہ الٰہ آباد کے رائے زادوں کی بہو تھیں… دوسرے یہ کہ یہ فراک کا فیشن ڈاکٹر سین گپتا کے ہاں سے چلا تھا۔ ڈاکٹر سین گپتا ضلع کے سول ہسپتال کے اسسٹنٹ سرجن تھے۔ اور ہسپتال سے ملحق ان کے پیلے رنگ کے اجاڑ سے مکان کے سامنے ان کی پانچوں بیٹیاں رنگ برنگے فراک پہنے دن بھر اودھم مچایا کرتیں۔ شام ہوتی تو آگے آگے ڈاکٹر سین گپتا دھوتی کا پلا نہایت نفاست سے ایک انگلی میں سنبھالے ‘ ذرا پیچھے ان کی بی بی سرخ کنارے والی سفید ساڑی پہنے ‘ پھر پانچوں کی پانچوںلڑکیاں سیدھے سیدھے بال کندھوں پر بکھرائے چلی جارہی ہیں‘ ہوا خوری کرنے۔ افوہ کیا ٹھکانہ تھا بھلا۔ بس ہر بنگالی گھرانے میں یہ لڑکیوں کی فوج دیکھ لو۔ ہیم کرن کو ڈاکٹر سین گپتا سے بڑی ہمدردی تھی۔ کھیم کی ان سب سے بہت گھٹتی تھی۔ خصوصاً موندیرا سے ‘ اور اسکول کے ڈرامے کے دنوں میں تو بس کھیم اور موندیرا ہی سب پر چھائی رہتیں۔ کیا کیا ڈرامے مہادیوی کنیا پاٹھ شالہ نے نہ کر ڈالے __ ’’ نل و مینتی ‘‘ __ اور شکنتلا ہریش چندر ‘‘ اور ’’ راج رانی میرا __ ‘‘ اور اوپر سے ڈانس الگ __ گربا بھی ہو رہا ہے کہ آر تیرے گنگا پارٹیرے جمنا بیچ میں ٹھاڑے ہیں نند لال __ اور آپ کا خدا بھلا کرے رادھا کرشنا ڈانس بھی لیجئے کہ میں تو گردھر آگے ناچوں گی۔ جی ہاں اور وہ گکری والا ناچ بھی موجود ہے کہ چلو چلو سکھی سکھیاری ری چلو پنگھٹ بھروا پانی __ اور ساتھ ساتھ موندیرا سین گپتا ہے کہ فراٹے سے ہار مونیم بجا رہی ہے۔ ایسے ہونے کو تومسلمانوں کا بھی ایک اسکول تھا۔ انجمن اسلام گرلز اسکول۔ وہاں یہ سب ٹھاٹھ کہاں۔ بس بارہ وفات کی بارہ وفات میلاد شریف ہوجایا کرتا ۔ اس میں کھڑے ہو کر لڑکیوں نے خاصی بے سری آوازوں میں پڑھ دیا۔ تم ہی فخر انبیاء ہو ۔ یا نبی سلام علیکا __ چلیے قصہ ختم۔ ایک مرتبہ ایک سر پھری ہیڈ مسٹرس نے جو نئی نئی لکھنؤ سے آئی تھی۔ ’’ روپ متی باز بہادر ‘‘ خواتین کے سالانہ جلسے میں اسٹیچ کروا دیا توجناب عالی لوگوں نے اسکول کے پھاٹک پر پکٹنگ کرڈالی __ اور روز نامہ صدائے حق نے پہلے صفحے پر جلی حروف میں شائع کیا : ملت اسلامیہ کی غیرت کا جنازہ __ گرلز اسکول کے اسٹیج پر نکل گیا۔ مسلمانو ! تم کو خدا کے آگے بھی جواب دینا ہوگا__ بنا ت اسلام کو رقص و سرور کی تعلیم__ اسکول کو بند کرو __ ( یہ سب قصے کھیم کی مسلمان سہیلی کشوری اسے سنایا کرتی تھی جو پڑوس میں رہتی تھی)۔ صدر اعلیٰ کے چبوترے کے آگے والے مکان میں وہ اسلامیہ گرلز اسکول میں پڑھتی تھی۔ اس کا بڑا بھائی اصغر عباس‘ سرین اور رما کانت کے ساتھ ہاکی کھیلنے آیا کرتا تھا۔ ویسے پڑھتے وہ لوگ بھی الگ الگ تھے۔ سرین اور رما کانت ڈی اے وی کالج میں تھے ۔ اصغر عباس فیض اسلام کنگ جارج انٹر کالج میں۔ ’’ کیوں ری ۔ ایف اے کرنے کہاں جائے گی۔ جولائی آرہی ہے۔ بنارس جائے گی یا لکھنؤ__ ؟ ‘‘ ڈاکٹر آفتاب رائے نے چوکے میں بیٹھتے ہوئے سوال کیا۔ اب یہ ایک ایسا ٹیڑھا اور اچانک سوال تھا ۔ جس کا جواب دینے کے لیے کھیم وتی ہرگز تیار نہ تھی۔ دونوں جگہوں سے متعلق اسے کافی انفرمیشن حاصل تھی۔ لیکن دو ٹوک فیصلہ وہ فی الحال کسی ایک کے حق میں نہ کرسکتی تھی۔ بنارس میں ایک تو یہ کہ چوڑیاں بہت عمدہ ملتی تھیں۔ لیکن لکھنؤ کو بھی بہت سی باتوں میں فوقیت حاصل تھی۔ مثلاً سنیما تھے۔ اور دس سنیماؤں کا ایک سنیما تو خود مہیلا ودیالہ تھا۔ جہاں اسے بھیجنے کا تذکرہ ماما نے کیا تھا۔ پردہ غالباً اسے بہر صورت ہر جگہ کرنا تھا۔ تانگے پر پردہ یہاں بھی ہیم کرن اپنے اور اس کے لیے بندھواتی تھیں۔ اور ماما جو اتنا بڑا ڈنڈا لیے سر پر موجود تھے۔ یہ ماما اس کے آج تک پلّے نہ پڑے۔ ولایت سے ان گنت ڈگریاں لے آئے تھے ۔ یونی ورسٹی میں پروفیسری کرتے تھے ۔تاریخ پر کتابیں لکھتے تھے۔ فارسی میں شعر کہتے تھے ۔ چوں چوں کا مربہ تھے کھیم کے ماما __ رہے رما کانت اور سرین۔ رما کانت تو شاعرآدمی تھا۔ سارے مقامی شاعروں میں جاکر وہ غزلے سہ غزلے پڑھ ڈالتا۔ اور حضرت ناشاد جون پوری کے نام نامی سے یاد کیا جاتا۔ سرین اس کے برعکس بالکل انجینئر تھا۔ اس سال وہ بھی انٹر کر کے بنارس انجینئرنگ کالج چلا جائے گا۔ باقی کے سارے کنبے برادری کے بہن بھائی یوں ہی بکواس تھے۔ اس سلسلے میں اس کی گوئیاں کشوری یعنی کشور آرا بیگم کے بڑے ٹاٹھ تھے۔ اس کے بے شمار رشتے کے بھائی تھے اور سب ایک سے ایک سورما۔ یہاں کسی کے سورما پنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ کسی نے آج تک اس سے یہ نہ کہا کہ چل کھیم تجھے سرکس یانو ٹنکی ہی دکھلا دیں__ ( نوٹنکی کے دنوں میں رسویا تک لہک لہک کر گاتا__ اب یہی ہے میں نے ٹھانی __ لاؤں گا نوٹن کی رانی __) کہاں کشوری کے ماجد بھائی ہیں تو اس کے لیے لکھنؤ سے چوڑیاں لیے چلے آتے ہیں۔ اکرام بھائی ہیں تو کشوری ان کے لیے جھپا جھپ پل اوور بن رہی ہے۔ اشفاق بھائی ہیں تو کشوری کو بیٹھے انگریزی شاعری پڑھا رہے ہیں۔ ان بھائیوں اور کھیم کے بھائیوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ کہاں کی چوڑیاں اور پل اوور۔ یہاں تو جوتیوں میں دال بٹتی تھی۔ ہیم کرن کو گھر کے کام دھندوں ہی سے فرصت نہ ملتی۔ آفتاب رائے ان کے لیے بڑا سہارا تھے۔ وہ ہر تیسرے چوتھے مہینے لکھنؤ سے آکر مل جاتے ۔ رہنے والے ان کے بھین صاحب جون پور ہی کے تھے۔ پر یہاں ان کی کسی سے ملاقات نہ تھی۔ ’’ ضلع کے رؤساء اور مقامی عمائدین شہر ‘‘ میں ان کا شمار تھا۔ پر آپ کا خیال اگر یہ ہے کہ ڈاکٹر اافتاب رائے جون پور کے ان معززین کے ساتھ اپنا وقت خراب کریں گے تو آپ غلطی پر ہیں۔ حکام سے ان کی کبھی نہ بنی۔ انٹلکچوئیل آدمی تھے۔ ان سول سروس اور پولس والوں سے کیا دماغ سوزی کرتے۔ جگن ناتھ جین آئی سی ایس جب نیا نیا حاکم ضلع ہو کر آیا تو اس نے کئی بار ان کو کلب میں بلا بھیجا۔ پر یہ ہرگز نہ گئے۔ رئیس الدین کاظمی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے دعوت کی۔ اس میں بھی نہ پہنچے۔ اور تواور ولایت واپس جاتے وقت مسٹر چارلس مارٹن نے کوئین وکٹوریہ گورنمنٹ انٹر کالج کی پرنسپل شپ پیش کی۔ لیکن کھیم کے ماما نے اسے بھی رد کردیا۔ یوں تو خیر کانگریسی ہونا کوئی خاص بات نہیں۔ شہر اور قصبہ جات کا ہر ہندو جو سرکاری ملاز م نہ تھا گھر پر ترنگا لگاتا تھا اور ہر مسلمان کے اپنے دسیوں مشغلے تھے ۔ احرار پارٹی تھی‘ شیعہ کانفرنس تھی‘ ڈسٹرکٹ کانگریس کمیٹی میں مسلمان بھرے ہوئے تھے۔ مسلم لیگ کا تو خیر اس وقت کسی نے نام بھی نہ سنا تھا‘ پر بہت سے مسلمان اگر انصاف کی پوچھئے تو کچھ بھی نہ تھے‘ یا شاعری کرتے تھے۔ یا مجلسیں پڑھتے تھے۔ تو کہنے کا مطلب یہ کہ کوئی ایسی تشویش ناک بات نہ تھی۔ پر ڈاکٹر آفتاب رائے کی زیادہ تر لوگوں سے کبھی نہ پٹی۔ ارے صاحب یہاں تک سنا گیا ہے کہ تری پورہ کانگریس کے موقع پر انہوں نے سب کو کھری کھری سنا دی۔ گو یہ راوی کو یاد نہیں کہ انہوں نے کیا کہا تھا۔ ضلع کی سوسائٹی جن عنا صر پر مشتمل تھی۔ انہیں سے ڈاکٹر آفتاب رائے کوسوں دور بھاگتے تھے۔ وسط شہر میں مہاجنوں‘ ساہو کاروں اور زمین داروں کی اونچی حویلیاں تھیں۔ یہ لوگ سرکاری فنڈوں میں ہزاروں روپیہ چندہ دیتے۔ اسکول کھلواتے‘ مجرے اور مشاعرے اور دنگل کرواتے۔ جلسے جلوس اور سر پھٹول بھی ان ہی کی زیر سرپرستی منعقد ہوتے۔ ہندو مسلمانوں کا معاشرہ بالکل ایک سا تھا۔ وہی تیج تہوار ۔ میلے ٹھیلے۔ محرم بالے میاں کی برات۔ پھر وہی مقدمے بازیاں۔ موکل ‘ گواہ‘ پیشکار سمن۔ عدالتیں صاحب لوگوں کے لیے ڈالیاں۔ شہر کے باہر ضلع کا ہسپتال تھا۔ لق و دق ہری گھاس کے میدانوں میں بکھری ہوئی اداس پیلے رنگ کی عمارتیں۔ کچے احاطے۔ نیم کے درختوں کی چھاؤں میں آؤٹ ڈور‘ مریضوں کے ہجوم ۔گرد آلود یکوں کے اڈے۔ سڑک کے کنارے بیٹھے ہوئے دو دو آنے میں خط لکھ کر دینے والے بہت بوڑھے اور شکستہ حال منشی جو دھاگوں والی عینکیں لگائے دھندلی آنکھوں سے راہ گیروں کو دیکھتے۔ پھر گلیاں تھیں جن کے گموں کے فرش پر پانی بہتا تھا۔ سیاہی مائل دیواروں پر کوئلے سے اشتہار لکھے تھے__ حکیم مارکہ دھاگہ خریدیئے ۔ پری برانڈ بیٹری پیو__ ایک پیسہ باپ سے لو __چائے جاکر ماں کو دو __ آگیا۔ آگیا ۔ آگیا __ سال رواں کا سنسنی خیز فلم ’’ لہری راجہ‘‘ آگیا جس میں مش مادھوری کام کرتی ہے __ پھر سایہ دار سڑکوں کے پرے آم اورمولری میں چھپی ہوئی حکام ضلع کی بڑی بڑی کوٹھیاں تھیں۔ انگریزی کلب تھا۔ جس میں بے اندازہ خنکی ہوتی ۔ چپ چاپ اور سائے کی طرح چلتے ہوئے مودب اور شائستہ ’’ بیرے‘‘ انگریز اور کالے صاحب لوگوں کے لیے ٹھنڈے پانی کی بوتلیں اور برف کی بالٹیاں لاکر گھاس پر رکھتے‘ نیلے پردوں کی قناتوں کے پیچھے ٹینس کی گیندیں سبزے پر لڑھکتی رہتیں۔ (۲) اور سول لائنز کی اس دنیا میں اوپر سے آئی کنول کماری جین جگن ناتھ جین‘ آئی سی ایس کی بالوں کٹی بیوی جس نے لکھنؤ کے مشہور انگریزی کالج ازابلا تھوبرن میں پڑھا تھا اور جو گیند بلا کھیلتی تھی۔ کلب میں بڑی چہل پہل ہوگئی __ گنتی کی کل تین تو میمیں ہی تھیں کلب میں۔ کوئین وکٹوریہ گورنمنٹ انٹر کالج کے انگریز پرنسپل کی میم ایک۔ زنانہ ہسپتال کی بڑی ڈاکٹرنی میم مس مک کنزی دو۔ اور اے پی مشن گرلز ہائی اسکول کی بڑی استانی مس سالفرڈ جو چن چنیامیم کہلاتی تھی کہ نوکروں پر چلاتی بہت تھی۔ ان تین کے علاوہ ڈاکٹر نی میم کی چھوٹی بہن مس اولیومک کنزی تھی۔ جو اپنی بہن سے ملنے نینی تال سے آئی ہوئی تھی اور ضلع کے غیر شادی شدہ حکام کے ساتھ ٹنس کھیلنا اس کا خاص مشغلہ تھا اوراس میں ایسا کچھ اس کا جی لگا تھا کہ اب واپس جانے کا نام نہ لیتی تھی ۔ شام ہوتے ہی وہ کلب میں آن موجود ہوتی اور وے مسٹر سکسینہ اور وے مسٹر فرحت علی۔ اور وے مسٹر پانڈے۔ سبھی تو اس کے چاروں طرف کھڑے دانت نکھو سے ہنس رہے ہیںاس ایک سیانے بھائی لوگوں کو تگنی کا ناچ نچا رکھا تھا۔ باقی ماندہ حضرات بھی کہتے تھے کہ میاں کیا مضائقہ ہے۔ جون پور ایسی ڈل جگہ پر مس مک کنزی کا دم وہی غنیمت جانو۔ اب غور کرنے کا مقام ہے کہ مس شبیرہ حمایت علی جو دوسری لیڈی ڈاکٹر تھیں ان کا تو نام سن کر ہی جی بیٹھ جاتا تھا۔ مگر وہ خود بے چاری بڑی اسپورٹنگ آدمی تھیں۔ برابر جی داری سے ٹینس کھیلنے آیا کرتیں۔ لکھنؤ کے کنگ جارجز کی پڑھی ہوئی تھیں۔ لندن جا کر ایک ٹھوڈ پلوما بھی مار لائی تھیں لیکن کیا مجال جو کبھی بد دماغی دکھلا جاویں۔ لوگ کہتے تھے۔ صاحب بڑی شریف ڈاکٹر نی ہے۔ بالکل گائے سمجھئے گائے۔ جی ہاں اب یہ دوسری بات ہے کہ آپ یہ توقع کریں کہ ہر لیڈی ڈاکٹر افسانوں اور ناولوں کی روایت کے مطابق بالکل حور شمائل مہ وش پری پیکر ہو۔ اچھی آدمی کا بچہ تھیں۔ بلکہ ایک مرتبہ تو ڈسٹرکٹ جج مسٹر کاظمی کی بیگم صاحب نے مسٹر فرحت علی سے تجویز بھی کی تھی کہ بھیا آزادی کا زمانہ ہے مس شبیرہ ہی سے بیاہ کر لو۔ یہ جو سال کے سال چھٹیوں میں تمہاری اماں تمہیںلڑکیاں دیکھنے کے لیے نینی تال مسوری بھیجا کرتی ہیں۔ اس درد سرسے بھی نجات ملے گی اور کیا۔ راوی کہتا ہے کہ فرحت علی نے جو ان دنوں بڑے معرکے کا سپرنٹنڈنٹ پولس لگا ہوا تھا۔ بیگم کاظمی کے سامنے کان پکڑ کر اٹھک بیٹھک کی تھی۔ اور تھر تھر کانپا تھا۔ اور دست بستہ یوں گویا ہوا تھا کہ آئندہ وہ مس شبیرہ حمایت سے جو گفتگو کرے گا ۔ وہ صرف چار جملوں پر مشتمل ہوگی__ آداب عرض۔ آپ اچھی طرح سے ہیں؟ جی ہاں میں بالکل اچھی طرح ہوں۔ شکریہ آداب عرض۔ مصیبت یہ تھی کہ جہاں کسی شامت کے مارے نے کسی ’’ غیر منسلک ‘‘ خاتون محترم سے سوشل گفتگو کے دوران میں ان چار جملوں سے تجاوز کیا تو بس سمجھ لیجئے ایکٹوٹی ہو گئی۔ تو غرض یہ کہ راوی دریا کویوں کوزے میں بند کرتا ہے کہ کنول کماری کے میاں کا تقرر اس جگہ پر ہوا (انگریز حاکموں کی اصطلاح میں صوبے کا ضلع اسٹیشن کہلاتا تھا) اور نئے حاکم ضلع کے اعزاز میں کنور نرنجن داس رئیس اعظم جون پور نے (کہ یہ سارا کا سارا ایک نام تھا) اپنے باغ میں بڑی دھوم کی دعوت کی چبوترے پر زر تار شامیانہ تانا گیا۔ رات گئے تک جلسہ رہا۔ بیبیوں کے لیے اندر علاحدہ دعوت تھی۔ مصرانیوں نے کیا کیا کھانے نہ بنائے۔ مسلمان مہمانوں کے لیے باؤلے ڈپٹیوں کے وہاں سے باورچی بلوائے گئے تھے ( باؤلے ڈپٹیوں کا ایک خاندان تھا۔ جس میں عرصہ ہوا ایک ڈپٹی صاحب کا دماغ چل گیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ پورا خاندان باؤلے ڈپٹیوں کا گھرانا کہلاتا تھا۔ کہار آواز لگاتے۔ اجی باؤلے ڈپٹیوں کے ہاں سے سواریاں آئی ہیں اتروالو مہریوں سے کہا جاتا ارے باؤلے ڈپٹیوں کے ہاں نیوتہ دیتی آنا ری رام رکھی۔) ہیم کرن ایسے تو کہیں آتی جاتی نہ تھیں۔ پر رانی نرنجن داس کی زبردستی پر وہ بھی دعوت میں آگئی تھیں۔ کلکٹر کی بیوی‘ سے ملنے کے لیے عمائدین شہر کی بیویوں نے کیا کیا جوڑے نہ پہنے تھے ۔ لیکن جب خود کنول کماری کو دیکھا تو پتہ چلا کہ یہ تو پوری میم ہے۔ غضب خداکا ہاتھوں میں چوڑیاں تک نہ تھیں۔ ناک کی کیل تو گئی چولہے بھاڑ میں ہلکے نیلے رنگ کی ساڑی سی پہنے گاؤ تکیے سے ذرا ہٹ کر بیٹھی وہ سب سے مسکرا مسکرا کر باتیں کرتی رہی۔ ’’اے لو بیٹا تم نے تو سہاگ کی نشانی ہی کو جھاڑو پیٹے فیشن کی بھینٹ کردیا ‘‘۔صدر اعلیٰ کی بیگم نے ناک پہ انگلی رکھ کر اس سے کہا ۔ ’’ اے ہاں سچ تو ہے ۔ کیا ڈنڈا ایسے ہاتھ لیے بیٹھی ہو۔ دور پار چھائیں پھوئیں دیکھے ہی سے ہول آتا ہے؟ ‘‘ بیگم کاظمی نے بھی صاد کیا۔ کھیم کی توبہرحال آج عید تھی۔ اس نے تیز جامنی رنگ کی بنارسی ساری باندھی تھی۔ پاؤں میں رام جھول پہنے تھے۔ سونے کی کرودھنی اور دوسرے سارے گہنے پاتے علاحدہ کندن کا چھپکا اور مگر۔ کشوری بہن بھی آئی تھی۔ لیکن کشوری کی اماں ( جو محلے میں بڑی بھاوج کے نام سے یاد کی جاتی تھیں) بن بیاہی لڑکیوں کے زیادہ سنگار پٹار کی قطعی قائل نہ تھیں۔ ان کے یہاں تو لڑکیاں بالیاں مانگ تک بالوں میں نہ کاڑھ سکتی تھیں۔ پر اب زمانے کی ہوا کے زیر اثر نئی پود کی لڑکیوں نے سیدھی اور آڑی مانگیں کاڑھنی شروع کردی تھیں۔ کھیم دور سے بیٹھی کنول کماری کو دیکھتی رہیں۔ کتنی سندر ہے اور پھر ایم اے پاس۔ ایم اے پاس لڑکی کھیم اور کشوری کی نظروں میں بالکل دیوی دیوتا کا درجہ رکھتی تھی۔ کنول کماری جین ساری مہمان بیبیوں سے ہنس ہنس کر سخت خوش اخلاقی سے گفتگو کرنے میں مصروف تھی ( اور ساری حاضرات محفل نے اسی وقت فیصلہ کر لیا تھا کہ یہ لڑکی سابق کلکٹر کی بیوی اس چڑیل مسز بھارگوا سے کہیں زیادہ اچھی اور ملنسار ہے‘ رانی بیٹا ہے بالکل) دالان کے گملوں کی اوٹ میں کھیم اور کشوری بیٹھی تھیں ۔ اور منٹ منٹ پر ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہوئی جاتی تھیں۔ اب ایک بات ہو تو بتلائی جائے۔ دسیوں تھیں۔ مثلاً موٹی مصرانی کی چال ہی دیکھ لو ۔ اوراوپر سے کنور نرنجن داس صاحب خانہ کی اسٹیٹ کے منیجر صاحب لالہ گنیش مہاشے بار بار ڈیوڑھی میں آن کر للکارتے __ ‘‘ جی پردہ کر لو کہار اندر آرہے ہیں‘‘۔ تو ان کے حلق میں سے ایسی آواز نکلتی جیسے ہار مونیم کے پردوں کو برساتی ہوا مار گئی ہو۔ اب کے سے جب ماما لکھنؤ سے گھر آئے تو کھیم نے دعوت کی ساری داستان ان کے گوش گزار کردی۔ کنول کماری ایسی۔ اور کنول کماری ویسی۔ ماما چپکے بیٹھے سنتے رہے۔ (۳) کھیم جب رات کا کھانا کھا کر سونے چلی گئی۔ اور سارے گھر میں خاموشی چھا گئی تو ڈاکٹر آفتاب رائے چھت کی منڈیر پر آکھڑے ہوگئے۔ باغ اب سنسان پڑے تھے۔ گرمیوں کا موسم نکلتا جارہا تھا۔ اور گلابی جاڑے شروع ہونے والے تھے۔ پروائی ہوا آہستہ آہستہ بہ رہی تھی۔ نیچے ٹھکرائن کی بگیاوالی گلی کے برابر سے مسلمانوں کا محلہ شروع ہوتا تھا‘ اس کے بعد بازار تھا۔ جس میں مدھم گیس اور لالٹین کی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ پھر پولس لائنز کے میدان تھے۔ اس کے بعد کچہری اور سول لائنز ۔ سول لائنز میں حاکم ضلع کی بڑی کوٹھی تھی۔ جس پر یونین جیک جھٹ پٹے کی نیم تاریکی میں بڑے سکون سے لہرا رہا تھا۔ سارے میں یہ تھکی ہوئی خاموشی چھائی تھی۔ سامنے عہد سلطان حسین شرقی کے اونچے پھاٹک اور مسجدوں کے بلند مینار رات کے آسمان کے نیچے صدیوں سے اسی طرح ساکت اور صامت کھڑے تھے۔ زندگی میں بے کیفی تھی اور اداسی، اور ذلت تھی اور شدید غلامی کا احساس۔ عمر بھر آفتاب رائے نے یوں ہی سوچا تھا کہ اب وہ اور کچھ نہ کریں گے۔ لیکن دنیا موجود تھی۔ وہ کام بھی کرتے کھانا بھی کھاتے۔ سال میں چار دفعہ جون پور آکر جی جی سے دماغ سوزی بھی کرتے ۔ زندگی کے بھاری پن کے باوجود گاڑی تھی کہ چلے جارہی تھی۔ کنول کماری اس منظر کے پرے مولسری کے جھنڈ کے دوسری طرف یونین جیک کے سائے میں براجتی تھی۔ بہت سے لوگ ہیں کہ جو راستہ سوچا اختیار کر لیا ۔ آرام سے اس پر چلتے چلے گئے۔ یہاں کسی راستے کا تعین ہی نہ ہوپاتا تھا۔ ایک کے بعد ایک سب ادھر اُدھر نکل گئے تھے۔ آفتاب رائے ہیں کے وہیں تھے۔ کنول کماری __ ؟ لاحول ولا قوۃ۔ جب وہ یونی ورسٹی سے ڈاکٹریٹ کے لیے ولایت جارہے تھے تو کنول نے ان سے کہا تھا ’’ آفتاب بہادر تم کو اپنے اوپر بڑا مان ہے۔ پر وہ مان ایک روز ٹوٹ جائے گا۔ جب میں بھی کہیں چلی جاؤں گی۔ ’’ تم کہاں چلی جاؤ گی __؟ ‘‘ ’’ فوہ __ لڑکیاں کہاں چلی جاتی ہیں__؟‘‘ ’’ گویا تمہارا مطلب ہے کہ تم بیاہ کر لو گی؟‘‘ ’’ میںخود تھوڑا ہی بیاہ کرتی پھروں گی۔ ارے عقل مند داس میرا بیاہ کردیا جائے گا‘‘ اس نے جھنجھلا کر جواب دیا تھا۔ ’’ ارے جاؤ __ ‘‘ آفتاب رائے خوب ہنستے تھے __ ‘‘ میں اس جھانسے میں آنے والا نہیں ہوں۔ تم لڑکیوں کی پسند بھی کیا شے ہے۔ تم جیسی موڈرن لڑکیاں آخر میں پسند اسی کو کرتی ہیں جو ان کے سماجی اور معاشی معیار پر پورا اترتا ہے۔ باقی سب بکواس ہے۔ پسند اضافی چیز ہے تمہارے لیے __ ‘‘ ’’ ہاں __ بالکل اضافی چیز ہے۔ آفتاب بہادر __ ‘‘ وہ غصے کے مارے بالکل خاموش ہوگئی تھی۔ وہ چاند۱؎ باغ میں تھی۔ آپ بادشاہ ۲؎باغ میں بڑی دھوم دھام سے براجتے تھے۔ یونین کی پریزیڈنٹی کرتے تھے۔ تقریریں بگھارتے تھے ۔ ایک منٹ نچلے نہ بیٹھتے تھے تاکہ کنول نوٹس نہ سمجھی لیتی ہو تولے۔ وہ اے پی سین روڈ پر رہتی تھی اور سائیکل پر روز چاند باغ آیا کرتی تھی۔ ۱؎ ازابلا تھوبرن کا علاقہ جو عہد شاہی میں چاند باغ کہلاتا تھا۔ ۲؎ نصیر الدین ہاشمی کا باغ جہاں اب یونیورسٹی قائم ہے۔ لکھنؤ کی بڑی نمائش ہوئی تو وہ بھی اپنے کنبے کے ساتھ میوزک کانفرنس میں گئی۔ وہاں یونی ورسٹی والوں نے سہگل کو اپنے محاصرے میں لے رکھا تھا۔ جس گانے کی یونی ورسٹی اور چاند باغ کا مجمع فرمائش کرتا۔ وہی سہگل کو بار بار گانا پڑتا۔ بھائی آفتاب بھی شور مچانے میں پیش پیش ۔ لیکن اگلی صف میں کنول کو بیٹھا دیکھ کر فوراً سٹ پٹا کر چپ ہوگئے اور سنجیدگی سے دوستوں سے بولے کہ یار چھوڑو کیا ہلڑ مچا رکھا ہے۔ اس پر عزت۱؎ نے عسکری۲؎ بلگرامی سے کہا۔ (آج ان دونوں پیارے دوستوں کو مرے بھی اتنا عرصہ ہوگیا تھا‘ منڈیر پر کھڑے ہوئے آفتاب رائے کو خیال آیا ) عزت نے عسکری ۲؎سے کہا تھا۔ استاد یہ اپنا آفتاب جو ہے یہ اس لونڈیا پر اچھا امپریشن ڈالنے کی فکر میں غلطاں و پیچاں ہے۔ اب خدا وند تعالیٰ ہی اس پر رحم کرے__ ’’ بی اے کے بعد تم کیا کرو گی__ ؟ ‘‘ ایک روز آفتاب رائے نے کنول سے سوال کیا۔ ’’ مجھے کچھ پتہ نہیں__ ‘‘ کنول نے کہا تھا۔ اس میں گویا یہ اشارہ تھا کہ مجھے تو کچھ پتہ نہیں تم ہی کوئی پروگرام بتاؤ۔ لیکن کچھ عرصہ بعد وہ سیدھے سیدھے ولایت نکل لیے۔ کیوں کہ غالباً ان کی زندگی ان کے لیے‘ ان کے گھر والوں کے لیے کنول کے وجود سے کہیں زیادہ اہم تھی۔ پھر ان کی ٓائیڈیا لوجی تھی ( یار کیا بکواس لگا رکھی ہے عزت نے ڈپٹ کر کہا تھا) پر ایک روز‘ لندن میں ‘ جب وہ سینٹ ہاؤس کی لائبریری سے گھر کی اور جارہے تھے تو راہ میں انہیں مہی پال نظر آیا جس نے دور سے آواز لگائی __ ‘‘ چائے پینے چلو تو ایک واقعہ فاجعہ گوش گزار کروں۔ کنول کمار کا جگن ناتھ جین سے بیاہ ہوگیا۔ وہی جو سن 45 کے بیچ کا آئی سی ایس ہے __‘‘ لڑکیوں کی عجب بے ہودہ قوم ہے۔ اس روز آفتاب رائے اس نتیجے پر پہنچے ’’ ان کو سمجھنا ہمارے تمہارے بس کا روگ نہیں۔ میاں وہ جو بڑی انٹلکچوئیل کی ساس بنی پھرتی تھی‘ سو گئی ہوگی۔ اب گلیڈ __ جگن ناتھ جین مائی فٹ __ کون تھا یہ الو __ میں نے کبھی دیکھا ہے اسے __ ؟ ‘‘ مہی پال کے کمرے میں پہنچ کر آتش دان سلگاتے ہوئے انہوں نے سوال کیا۔ مہی پال رائے زادہ کھڑکی میں جھکا باہر سڑک کو دیکھ رہا تھا۔ جہاں ٹھیلے والے کو کنی ۱؎ ۲؎ لکھنؤ یونی ورسٹی کے نامور طلباء دن بھر گلا پھاڑ کر چلاتے رہنے کے بعد اب اپنے اپنے ترکاریوں کے ٹھیلے ڈھکیلتے ہوئے سر جھکائے آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ شام کا دھند لکا سارے میں بکھر گیا تھا۔ زندگی بڑی اداس ہے۔ اس نے خیال کیا تھا۔ ہاں۔ اس نے آفتاب رائے سے کہا تھا میں نے اسے پٹنے میں دیکھا تھا۔ کالا سا آدمی ہے۔ عینک لگاتا ہے۔ کچھ کچھ لومڑی سے ملتی جلتی اس کی شکل ہے۔ ’’ بے وقوف بھی ہے __؟‘‘ آفتاب رائے نے پوچھا تھا۔ ’’ خاصا بے وقوف ہے __‘‘ مہی پال رائے زادہ نے جواب دیا تھا۔ __ پھر کنول اس کے ساتھ خوش کیسے رہ سکے گی؟ ‘‘ آفتاب رائے نے مہی پال سے مطالبہ کیا۔ ’’ میاں آفتاب بہادر __ ‘‘ مہی پال نے مڑ کر ان کو مخاطب کیا __ ’’ یہ جتنی لڑکیاں ہیں نا __ جو افلاطون زماں بنی پھرتی ہیں۔ یہ بے وقوفوں کے ساتھ ہی خوش رہتی ہیں۔ آیا عقل میں تمہاری __ ؟ ‘‘ ’’ کیا بکواس ہے __ ‘‘ آفتاب رائے نے آزردگی سے کہا تھا۔ اب مہی پال رائے زادہ کو صریحاً غصہ آگیا ہے۔ اس نے جھنجھلا کر کہا تھا __ ‘‘ تو میاں تم کو روکا کس نے تھا اس سے بیاہ کرنے کو ‘ جواب مجھے بور کر رہے ہو۔ کیا وہ تم سے خود آکر کہتی کہ میاں آفتاب بہادر میں تم سے بیاہ کرنا چاہتی ہوں۔ ایں __؟ اور فرص کرو اگر وہ خود سے ہی انکارکر__ دیتی تو کیا قیامت آجاتی ۔ میاں لڑکی تھی یا ہوا۔ کیا مارتی وہ تم کو بھاڑ دیکر __ کیا کرتی __؟ تم نے لیکن کہہ کے ہی نہیں دیا ۔ خیر چلو__ خیریت گذر گئی۔ اچھا ہی ہوا۔ کہاں کا جھگڑا مول لیتے بے کار میں ۔ کیوں کہ میرا مقولہ ہے۔ ( اس نے انگلی اٹھا کر عالمانہ انداز میں کہا) کہ شادی کے ایک سال بعد سب شادیاں ایک سی ہوجاتی ہیں__ تم کو تو جگن ناتھ جین کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس نے تم کو ایک بار عظیم سے سبکدوش کیا۔ بلکہ وہ تمہارے حق میں بالکل دافع بلیات ثابت ہوا__ ‘‘ ’’ بے ہودہ ہیں آپ انتہا سے زیادہ ‘‘ آفتاب رائے نے جھنجھلا کر کہا تھا‘‘۔ لکھنؤ لوٹ کر ایک روز آفتاب رائے اتفاقاً اے پی سین روڈ پر سے گزرے۔ سامنے کنول کے باپ کی سرخ رنگ کی بڑی سی کوٹھی تھی۔ جس کی برساتی پر کاسنی پھولوں کی بیل پھیلی تھی۔ یہاں ایک زمانے میں کتنا اودھم مچتا۔ کنول کے سارے بہن بھائیوں نے مل کر اپنا آر کیسٹرا بنا رکھا تھا۔ کوئی بانسری بجاتا۔ کوئی جل ترنگ ۔ کنول طبلہ بجاتی‘ ایک بھائی وائلن کا استاد تھا۔ سب مل کر جے جے ونتی شروع کردیتے ۔ مورے مندر اب لوں نہیں آئے۔ کیسی چوک بھئی مو سے آلی۔ پھر ارچنابنرجی آجاتی اور کو ئل ایسی آواز میں گاتی__ آمی پو ہوڑی جھورنا فکر مکر بوجوئے __ بو جوئے ہو__ اتوار کو دن بھر بیڈ منٹن کھیلا جاتا ہر سمے تو آفتاب رائے ان لوگوں کے یہاں موجود رہتے تھے۔ اور جب ایک روز خود ہی چپکے سے ولایت کھسک لیے تو ان لوگوں کا کیا قصور۔ وہ لڑکی کو بنک کے سیف ڈپازٹ میں تو ان کے خیال سے رکھنے سے رہے اور جگن ناتھ جین ایسا رشتہ تو بھائی قسمت والوں ہی کو ملتا ہے۔ پھر ایک روز امین آباد میں انہوں نے کنول کو دیکھا۔ وہ کار سے اتر کر اپنی سسرال والوں کے ساتھ پارک کے مندر کی اور جارہی تھی اور سرخ ساڑی میں ملبوس تھی اور آلتا اس کے پیروں میں تھا ( آلی ری سائیں کے مندر دیا بار آؤں۔ کر آؤں سولہ شرنگار __ وہ گرمیوں کی شام تھی۔ امین آباد جگمگا رہا تھا ۔ ہوا میں موتیا اور خس کی مہک تھی۔اور مندر کا گھنٹہ یکسانیت سے بجے جارہا تھا ) اب آفتاب رائے یونی ورسٹی میں تاریخ پڑھاتے تھے۔ ساتھیوں کی محفل میں خوب اودھم مچاتے‘ ٹینس کھیلتے ۔ اور تھے۔ میں وہ نہیں ہوں جو میں ہوں۔ میں وہ ہوں جو میں نہیں ہوں۔ ہر چیز باقی ساری چیزیں ہیں۔ بھگوان کرشن جب ارجن سے کہتے ہیں __ اوپرنس ارجنا __(ارے جا __‘‘ عسکری ڈانٹ بتاتا۔ اگر تم اس چکر میں ہو کہ تم بھی پروفیسر ڈی پی مکرجی کی طرح مہاگروبن کے بیٹھ جاؤ گے تو تم غلطی پر ہو۔ ڈاکٹر آفتاب رائے‘ تمہارا تو ہم مارتے مارتے حلیہ ٹھیک کردیں گے‘‘ مہی پال اضافہ کرتا) جون پور آکر وہ کھیم کو دیکھتے کہ تندہی سے کچالو کھا رہی ہے۔ کتھک سیکھ رہی ہے۔ جل بھرنے چلی ری گوئیاں آں آں گاتی پھر رہی ہے۔ یہ بھی کنول کماری کی قوم سے ہے۔ ’’ اری او باؤلی__ بتا تو کیا کرنے والی ہے __‘‘ وہ سوال کرتے۔ ’’ پتہ نہیں ماما__ ‘‘ وہ معصومیت سے جواب دیتی۔ ’’ پتہ نہیں کی بچی__ ‘‘ وہ دل میں کہتے تھے۔ چھت کی منڈیر پر ٹہلتے ٹہلتے آفتاب رائے نیم کی ڈالیوں کے نیچے آگئے۔ سامنے بہت دور سول لائنز کے درختوں میں چھپی ہوئی حاکم ضلع کی کوٹھی میں گیس کی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ پروائی ہوا بہے جارہی تھی۔ یہ چاند رات تھی اور مسلمانوں کے محلوں کی طرف سے محرم کے نقاروں کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ محرم آگیا__ آفتاب رائے کو خیال آیا__ شاید اب کے سے پھر سر پھٹول ہو۔ بہت دنوں سے نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے سوچا۔ ویسے انگریز کی پالیسی یہ تھی کہ جن ضلعوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ وہاں ہندو افسروں کو تعینات کیا جاتا تھا۔ اورجہاں ہندو زیادہ ہوتے تھے۔ وہاں مسلمان حاکموں کو بھیجا جاتا تھا تاکہ توازن قائم رہے۔ یہ دوسری بات تھی کہ صوبے کی چھ کروڑ آبادی کا صرف ۱۳ فی صدی حصہ مسلمان تھے۔ لیکن اتنی شدید اقلیت میں ہونے کے باوجود تہذیبی اور سماجی طور پر مسلمان ہی سارے صوبے پر چھائے ہوئے تھے۔ جون پور ‘ لکھنؤ‘ آگرہ‘ علی گڑھ ‘ بریلی‘ مرادآباد‘ شاہجہاں پور‘ وغیرہ جیسے ضلعوں میں تو مسلمانوں کی دھاک بیٹھی ہی ہوئی تھی۔ لیکن باقی کے سارے خطوں میں بھی ان کا بول بالا تھا۔ صوبے کی تہذیب‘ سے مراد وہ کلچر تھا جس پر مسلمانوں کا رنگ غالب تھا۔ گلی گلی محلے محلے گاؤں گاؤں لاکھوں مسجدیں اور امام باڑے موجود تھے۔ مکتب مدرسے‘ درگاہیں‘ قلعے حویلیاں، چپے چپے سے مسلمانوں کی آٹھ سو سال پرانی روایات وابستہ تھیں۔ اور لطف یہ ہے کہ مسلمان اب تک نہیں مرے تھے۔ بڑے زور شور سے زندہ تھے۔ ہندو مسلمانوں میں سماجی سطح پر کوئی زیادہ فرق نہ تھا۔ خصوصاً دیہاتوں اور قصبہ جات میں عورتیں زیادہ تر ساڑیاں اور ڈھیلے پائجامے پہنتیں۔ اودھ کے بہت سے پرانے خاندانوں میں بیگمات اب تک لہنگے بھی پہنتیں تھیں۔ لیکن بیاہی لڑکیاں ہندو اور مسلمان دونوں ساڑی کے بجائے کھڑے پائنچوں کا پائجامہ زیب تن کرتیں۔ ہندوؤں کے یہاں اسے ’’ اجار‘‘ کہا جاتا۔ مشغلوں کی تقسیم بڑی دل چسپ تھی۔ پولس کا عملہ اسی فیصد مسلمان تھا۔ محکمہ تعلیم میں ان کی اتنی ہی کمی تھی۔ تجارت تو خیرکبھی مسلمان بھائی نے ڈھنگ سے کر کے نہ دی۔ چند پیشے مگر خاص مسلمانوں کے تھے۔ جن کے دم سے صوبے کی مشہور صنعتیں قائم تھیں۔ لیکن خدا کے فضل و کرم سے کچھ ایسا مضبوط نظام تھا کہ سارا منافع تو بازار تک پہنچاتے پہنچاتے مڈل مین ہی مار لے جاتا تھا اور جو بھائی کے پاس بچتا تھا اس میں قرضے چکانے تھے‘ بٹیا کا جہیز بنانا تھا۔ اور ہزاروں قصے تھے آپ جانیے ۔ زبان اور محاورے ایک ہی تھے۔ مسلمان بچے برسات کی دعا مانگنے کے لیے منہ نیلا پیلا کیے گلی گلی ٹین بجاتے پھرتے اور چلاتے__ برسو رام دھڑا کے سے بڑھیا مر گئی فاقے سے۔ گڑیوں کی بارات نکلتی تو وظیفہ کیا جاتا__ ہاتھی گھوڑا پالکی__ جے کنہیا لال کی۔ ذہنی اور نفسیاتی پس منظر چونکہ یکساں تھا لہٰذا غیر شعوری طور پر __ Imagery بھی ایک ہی تھی۔ جس میں رادھا اور سیتا اور پنگھٹ کی گوپیوں کا عمل دخل بھی تھا۔ مسلمان پردہ دار عورتیں جنہوں نے ساری عمر کسی ہندو سے بات نہ کی تھی۔ رات کو جب ڈھولک لے کر بیٹھتیں تو لہک لہک کر الاپتیں__ بھری گگری موری ڈھر کائی شام __ کرشن کنہیا کے اس تصور سے ان لوگوں کے اسلام پرکوئی حرف نہ آتا تھا۔ یہ سب چیزیں اس تمدن کی مظہر تھیں۔ جنہیں پچھلی صدیوں میں مسلمانوں کی تہذیبی ہمہ گیری اور وسعت نظر اور ایک رچے ہوئے جمالیاتی حس نے جنم دیا تھا ۔ یہ گیت اور گجریاں اور خیال یہ محاورے‘ یہ زبان ‘ ان سب کی بڑی پیاری اور دل آویز مشترکہ میراث تھی۔ یہ معاشرہ جس کا دائرہ مرزا پور اور جون پور سے لے کر لکھنؤ اور دلی تک پھیلا ہوا تھا۔ ایک مکمل اور واضح تصویر تھا۔ جس میں آٹھ سو سال کے تہذیبی ارتقاء نے بڑے گمبھیر اور خوب صورت رنگ بھرے تھے۔ ڈاکٹر آفتاب رائے نے ( کہ ان کا نام ہی اس مشترکہ تمدن کی لطافت کا ایک مظہر تھا) ایک بار سوچا تھا کہ وہ کبھی ایک کتاب لکھیں گے کہ کس طرح پندرہویں صدی میں صوفی بھگتی تحریکوں کے زیر اثر ایک خوب صورت مستقبل کی بنیاد رکھی جارہی تھی۔ کس طرح نانک کا مذہب ہندوؤں کی فرقہ پرستی کے خلاف ایک پروگریسو رد عمل ثابت ہوسکتا تھا۔ کس طرح انیسویں صدی کی وہابی تحریک کو غیر ملکی راج کے مقابلے میں ایک قومی محاذ بننے کے بجائے اس کا رخ دوسری طرف موڑ دیا گیا۔ آریہ سماجیوں اور فرقہ پرستوں کو کیسے کیسے شہ دی گئی۔ یہ اور اس طرح کی سو باتیں ان کے ذہن میں آئیں۔ لیکن ذہن ہی کو مکمل سکون کہاں میسر تھا۔ پہلے یہ کنول کماری کود پڑی۔ پھر ان کی معاشی مجبوریاں آڑے آئیں۔ اور ان کو ولایت سے لوٹ کر بنارس میں لیکچر شپ سنبھالنی پڑی‘ جہاں دن رات ہندی اتھوا ہندو ہندوستانی کے گن گائے جاتے ۔ یہ میں تم سے کہتا ہوں __ کہ شدھ ہندی اور گئور کھشا اور رام راجیہ یہ سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس خطرے سے بچو۔ انہوں نے ایک دفعہ کانگریس ورکنگ کمیٹی کے پنڈال میں چلا کر کہا تھا__ بھائی اگریہی بات ہے تو سیدھے سیدھے مسلمان کیوں نہیں ہوجاتے__ ان سے کہا گیا ہم تو ہندو پیدا ہوئے اور ہندو ہی مریں گے۔ تمہاری طرح سے تھوڑا ہی ہیں ڈھل مل یقین۔ آفتاب رائے کے ساتھی مذاق میںانہیں جون پور کا قاضی کہا کرتے ۔ ’’ یہ جو کتاب تم لکھنے والے ہو اس کا نام رکھنا __ ‘‘ جون پور کا قاضی‘‘ __ عرف ’’ میں شہر کے اندیشے میں دبلا کیوں ہوا __؟ ‘‘ رات کی ہوا میں خنکی بڑھ چکی تھی۔ نیم کے پتے بڑے پر اسرار طریقے سے سائیں سائیں کر رہے تھے۔ ہاں زندگی میں بے پایاں اداسی تھی اور ویرانہ اور تاریکی ۔ محلے کے مکانوں میں مدھم روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ نیچے بڑی بھاوج کے مکان کے آنگن میں مجلس کے لیے جو گیس کا ہنڈہ نصب کیا گیا تھا۔ اس کی روشنی رات کے اس ویرانے میں لرزہ خیز معلوم ہوتی تھی۔ جیسے مہوے کے جنگل میں اگیا بھتال اور مسان چپکے چپکے روتے ہوں۔ مجلسوں کے گریہ و بکا کی مدھم آوازیں پروائی کے جھونکوں میں رل مل کر وقفے وقفے کے بعد یک لخت بلند ہوجاتی تھیں۔ نکڑ پر کنور نرنجن داس کے ہاں کی محرم کی سبیل کے پاس رکھی ہوئی نوبت یکسانیت سے بجے جارہی تھی۔