شاہد شاہنواز
لائبریرین
جل رہا ہے سماج کچھ کیجے
نفرتوں کا علاج کچھ کیجے
سب کی آنکھوں میں دھند پھیلی ہے
ظلمتوں کا ہے راج کچھ کیجے
کل کو آنا نہیں، یہ ہے معلوم
آج بس میں ہے، آج کچھ کیجے
قدرِ انسانیت نہ کم ہوجائے
بڑھ نہ جائیں رواج کچھ کیجے
اب تو سستی ہے جان انساں کی
اور ہے مہنگا اناج کچھ کیجے
کون دیتا ہے ساتھ مفلس کا
کون رکھتا ہے لاج کچھ کیجے
اب زمیں چاہتی ہے جانوں کا
ہم سے شاید خراج کچھ کیجے
نفرتوں کا علاج کچھ کیجے
سب کی آنکھوں میں دھند پھیلی ہے
ظلمتوں کا ہے راج کچھ کیجے
کل کو آنا نہیں، یہ ہے معلوم
آج بس میں ہے، آج کچھ کیجے
قدرِ انسانیت نہ کم ہوجائے
بڑھ نہ جائیں رواج کچھ کیجے
اب تو سستی ہے جان انساں کی
اور ہے مہنگا اناج کچھ کیجے
کون دیتا ہے ساتھ مفلس کا
کون رکھتا ہے لاج کچھ کیجے
اب زمیں چاہتی ہے جانوں کا
ہم سے شاید خراج کچھ کیجے