جاسم محمد
محفلین
جماعت الدعوۃ اور فلاحِ انسانیت کو کالعدم قرار دیدیا گیا
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس سے پہلے ان تنظیموں کالعدم تنظیموں میں شامل کرنے کا اعلان کیا گیا تھا
پاکستان کی حکومت نے مذید دو تنظیموں کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا ہے جس کے بعد اب ملک میں ایسی تنظیموں کی تعداد 70 ہو گئی ہے اور اس ضمن میں وزارت داخلہ کی طرف سے منگل کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔
انسداد دہشتگردی کے قومی ادارے، نیکٹا کی طرف سے جاری ہونے والی تازہ ترین فہرست کے مطابق منگل پانچ فروری کو جن تنظیموں کو اس میں شامل کیا گیا ہے ان میں جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت شامل ہیں، جو دراصل لشکر طیبہ کی ہی شاخیں ہیں جسے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں کالعدم قرار دیا گیا تھا۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق وزارت داخلہ کے اہلکار نے بتایا ہے کہ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد مذکورہ دو تنظیموں سمیت کل چار تنظیموں کو کالعدم قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ حکومت نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس سے پہلے فلاح انسانیت اور جماعت الدعوۃ کو کالعدم تنظیموں میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا، تاہم انھیں ایسی کسی فہرست میں باقاعدہ شامل نہیں کیا گیا تھا۔
وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق فلاح انسانیت اور جماعت الدعوۃ کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ملک کے مختلف علاقوں میں چھاپے مارنا شروع کردیے ہیں اور اس ضمن میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے مختلف علاقوں میں چھاپے مارکر 20 سے زائد ایمبولنس گاڑیاں قبضے میں لے لی ہیں۔
وزیرِ مملکت برائے داخلہ شہر یار آفریدی کا کہنا تھا کہ دونوں افراد کے نام انڈیا کی طرف سے پاکستان کو بھیجے گئے ڈوزئیر میں شامل ہیں۔
اہلکار کے مطابق پنجاب کے وسطی شہروں گوجرانوالہ، سیالکوٹ کے علاوہ گجرات میں بھی ان تنظیموں کے دفاتر پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے کارروائیاں کرنے کی اطلاعات ہیں۔
وزارت داخلہ کے اہلکار سے جب حافظ سعید کے بارے میں کسی بھی ممکنہ کارروائی کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک وزارت داخلہ کے پاس حافظ سیعد کے خلاف کارروائی کرنے سے متعلق کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔
دوسری طرف راولپنڈی کی انتظامیہ کے ایک اہلکار کے مطابق حکومت نے ان دونوں تنظیموں کے زیر انتظام چلنے والے دو اداروں کا انتظام بھی سنبھال لیا ہے۔ ان اداروں میں طلبا کو مختلف تکنیکی امور کی تعلیم دی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور میں بھی ایف اے ٹی ایف کے اجلاس سے پہلے ان اداروں میں نگراں مقرر کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہوسکا تھا۔
اس سے قبل منگل کو ہی وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار خان آفریدی نے اعلان کیا کہ حکومت نے کالعدم تنظیموں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے 44 افراد کو حراست میں لے لیا ہے جن میں جیش محمد کے بانی مولانا مسعود اظہر کے بیٹے حماد اظہر اور رشتے دار مفتی عبدالرؤف شامل ہیں۔
میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے شہر یار آفریدی کا کہنا تھا کہ ان دونوں افراد کے نام انڈیا کی طرف سے پاکستان کو بھیجی گئی دستاویزات یا ڈوزئیر میں شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر 14 فروری کو ہونے والے پلوامہ حملے میں ملوث ہونے سے متعلق انڈیا نے ان کے ملوث ہونے کے بارے شواہد پیش کیے تو ان افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی ورنہ انھیں رہا کردیا جائے گا۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں 14 فروری کو پلوامہ کے مقام پر ایک خود کش حملہ میں تقریباً 50 انڈین اہلکار ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں سخت کشیدگی ہو گئی ہے
شہر یار آفریدی کا کہنا تھا کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی ملک بھر میں جاری ہے اور یہ کارروائیاں دو ہفتوں تک جاری رہیں گی۔ اُنھوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کسی بھی شخص کو پاکستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
سیکریٹری داخلہ میجر ریٹائرڈ اعظم سلیمان خان نے بی بی سی کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ حکومت اپنی جانب سے شفافیت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
'جن افراد کے نام ڈوزئیر میں شامل ہیں ہم ان کے خلاف تفتیش کریں گے اور اگر کسی کے خلاف شواہد ملتے ہیں تو ان کے خلاف کاروائی کی جائے گی اور شواہد نہ ملنے کی صورت میں انھیں چھوڑ دیا جائے گا۔'
واضح رہے کہ حماد اظہر کالعدم قرار دی جانے والی تنظیم جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کے بیٹے ہیں اور وہ ان دنوں پاکستان میں ہیں جبکہ مولانا عبدالرؤف مولانا مسعود اظہر کے بھائی ہیں۔
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے چند روز قبل بیان دیا تھا کہ مولانا مسعود اظہر اتنے بیمار ہیں کہ وہ گھر سے باہر بھی نہیں نکل سکتے۔
واضح رہے کہ انڈیا کی طرف سے یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ پلوامہ حملے میں جیش محمد کے ارکان ملوث ہیں۔
یاد رہے کہ ماضی میں اس سے پاکستان نے نومبر 2008 کے ممبئی حملوں کے نتیجے میں انڈیا کی طرف سے بھیجے گئے ڈوزئیر کے نتیجے میں لشکر طیبہ کے رہنما ذکی الرحمن لکھوی سمیت آٹھ افراد کو حراست میں لیا تھا۔
بعد ازاں ذکی الرحمن لکھوی ضمانت پر رہا کردیے گئے جبکہ باقی افراد گذشتہ 10 سال سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ممبئی حملوں میں انڈیا کی طرف سے بھیجے گئے ڈوزئیر اور انڈیا میں بھارتی اہلکاروں کے بیانات پاکستان کی عدالتوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس سے پہلے ان تنظیموں کالعدم تنظیموں میں شامل کرنے کا اعلان کیا گیا تھا
پاکستان کی حکومت نے مذید دو تنظیموں کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا ہے جس کے بعد اب ملک میں ایسی تنظیموں کی تعداد 70 ہو گئی ہے اور اس ضمن میں وزارت داخلہ کی طرف سے منگل کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔
انسداد دہشتگردی کے قومی ادارے، نیکٹا کی طرف سے جاری ہونے والی تازہ ترین فہرست کے مطابق منگل پانچ فروری کو جن تنظیموں کو اس میں شامل کیا گیا ہے ان میں جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت شامل ہیں، جو دراصل لشکر طیبہ کی ہی شاخیں ہیں جسے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں کالعدم قرار دیا گیا تھا۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق وزارت داخلہ کے اہلکار نے بتایا ہے کہ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد مذکورہ دو تنظیموں سمیت کل چار تنظیموں کو کالعدم قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ حکومت نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس سے پہلے فلاح انسانیت اور جماعت الدعوۃ کو کالعدم تنظیموں میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا، تاہم انھیں ایسی کسی فہرست میں باقاعدہ شامل نہیں کیا گیا تھا۔
وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق فلاح انسانیت اور جماعت الدعوۃ کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ملک کے مختلف علاقوں میں چھاپے مارنا شروع کردیے ہیں اور اس ضمن میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے مختلف علاقوں میں چھاپے مارکر 20 سے زائد ایمبولنس گاڑیاں قبضے میں لے لی ہیں۔
وزیرِ مملکت برائے داخلہ شہر یار آفریدی کا کہنا تھا کہ دونوں افراد کے نام انڈیا کی طرف سے پاکستان کو بھیجے گئے ڈوزئیر میں شامل ہیں۔
اہلکار کے مطابق پنجاب کے وسطی شہروں گوجرانوالہ، سیالکوٹ کے علاوہ گجرات میں بھی ان تنظیموں کے دفاتر پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے کارروائیاں کرنے کی اطلاعات ہیں۔
وزارت داخلہ کے اہلکار سے جب حافظ سعید کے بارے میں کسی بھی ممکنہ کارروائی کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک وزارت داخلہ کے پاس حافظ سیعد کے خلاف کارروائی کرنے سے متعلق کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔
دوسری طرف راولپنڈی کی انتظامیہ کے ایک اہلکار کے مطابق حکومت نے ان دونوں تنظیموں کے زیر انتظام چلنے والے دو اداروں کا انتظام بھی سنبھال لیا ہے۔ ان اداروں میں طلبا کو مختلف تکنیکی امور کی تعلیم دی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور میں بھی ایف اے ٹی ایف کے اجلاس سے پہلے ان اداروں میں نگراں مقرر کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہوسکا تھا۔
اس سے قبل منگل کو ہی وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار خان آفریدی نے اعلان کیا کہ حکومت نے کالعدم تنظیموں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے 44 افراد کو حراست میں لے لیا ہے جن میں جیش محمد کے بانی مولانا مسعود اظہر کے بیٹے حماد اظہر اور رشتے دار مفتی عبدالرؤف شامل ہیں۔
میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے شہر یار آفریدی کا کہنا تھا کہ ان دونوں افراد کے نام انڈیا کی طرف سے پاکستان کو بھیجی گئی دستاویزات یا ڈوزئیر میں شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر 14 فروری کو ہونے والے پلوامہ حملے میں ملوث ہونے سے متعلق انڈیا نے ان کے ملوث ہونے کے بارے شواہد پیش کیے تو ان افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی ورنہ انھیں رہا کردیا جائے گا۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں 14 فروری کو پلوامہ کے مقام پر ایک خود کش حملہ میں تقریباً 50 انڈین اہلکار ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں سخت کشیدگی ہو گئی ہے
شہر یار آفریدی کا کہنا تھا کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی ملک بھر میں جاری ہے اور یہ کارروائیاں دو ہفتوں تک جاری رہیں گی۔ اُنھوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کسی بھی شخص کو پاکستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
سیکریٹری داخلہ میجر ریٹائرڈ اعظم سلیمان خان نے بی بی سی کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ حکومت اپنی جانب سے شفافیت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
'جن افراد کے نام ڈوزئیر میں شامل ہیں ہم ان کے خلاف تفتیش کریں گے اور اگر کسی کے خلاف شواہد ملتے ہیں تو ان کے خلاف کاروائی کی جائے گی اور شواہد نہ ملنے کی صورت میں انھیں چھوڑ دیا جائے گا۔'
واضح رہے کہ حماد اظہر کالعدم قرار دی جانے والی تنظیم جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کے بیٹے ہیں اور وہ ان دنوں پاکستان میں ہیں جبکہ مولانا عبدالرؤف مولانا مسعود اظہر کے بھائی ہیں۔
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے چند روز قبل بیان دیا تھا کہ مولانا مسعود اظہر اتنے بیمار ہیں کہ وہ گھر سے باہر بھی نہیں نکل سکتے۔
واضح رہے کہ انڈیا کی طرف سے یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ پلوامہ حملے میں جیش محمد کے ارکان ملوث ہیں۔
یاد رہے کہ ماضی میں اس سے پاکستان نے نومبر 2008 کے ممبئی حملوں کے نتیجے میں انڈیا کی طرف سے بھیجے گئے ڈوزئیر کے نتیجے میں لشکر طیبہ کے رہنما ذکی الرحمن لکھوی سمیت آٹھ افراد کو حراست میں لیا تھا۔
بعد ازاں ذکی الرحمن لکھوی ضمانت پر رہا کردیے گئے جبکہ باقی افراد گذشتہ 10 سال سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ممبئی حملوں میں انڈیا کی طرف سے بھیجے گئے ڈوزئیر اور انڈیا میں بھارتی اہلکاروں کے بیانات پاکستان کی عدالتوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔