جماعۃ الدعوہ پر پابندی

زین

لائبریرین
جماعۃ الدعوۃ کے ترجمان کا بیان
جماعت الدعوۃ کے ترجمان نے اس امر پر نہایت افسوس اور دکھ کااظہار کیاہے کہ حکومت پاکستان کی حالیہ پابندی نے ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے لاکھوںمتاثرین وضرورت مند ان سہولیات سے اورامدادی کاموں سے محروم ہوگئے ہیں جو جماعت الدعوۃ عرصہ دراز سے کررہی ہے کشمیر کے زلزلے سے لے کر حالیہ آنے والے زیارت کے زلزلے تک متاثرین میں امدادی سامان راشن ، گرم بستر ، گرم کپڑے ، ادویات ، شیلٹرز کی فراہمی شامل ہیں اورحکومت پاکستان نے ان تمام کاموںکوروک کر زلزلہ متاثرہ ضلع زیارت کے 78 علاقوں میںجماعت کے ایمبولینس سروس اورڈسپنسریاں بند کردی گئی ہی میڈیکل کیمپ کا انعقاد بند ہوگیا یہ جماعت ملکی فلاح وبہبود میں ہر آفت پر ہر اول دستہ رہی ہے۔ترجمان نے کہاکہ جماعت الدعوۃ کاسوال یہ ہے کہ اس مفادات کی جنگ میںغریب عوام کاکیاقصور ہے حکومت پاکستان نے سراسر یہ فیصلہ امریکہ اورانڈیاکے دبائو میںآکر کیاہے انڈیا اٹھارہ مرتبہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی مخالفت کرچکاہے بال ٹھاکرے سرعام مسلمانوں اورپاکستانیوں کی نسل کشی کرنے کادعو یٰ کرچکاہے لیکن وہ سلامتی کونسل اورانڈین گورنمنٹ کے نزدیک دہشت گرد نہیں ہیں اورایک فلاحی ادارہ اوراس کے سربراہ وکارکن دہشت گرد ہیں کیایہ حالیہ قیادت کی کمزوری اورلاچاری نہیں ؟ مزید انہوںنے کہاکہ زیارت میں حکومت بلوچستان نے ہمارا کیمپ جوکہ وہاں کی عوام کی مدد کے لیے ریلیف کاکام کررہاتھا بندکردیا اور ہمارا تین کروڑ کاسامان حکومت نے ضبط کرلیاہے اورہم حکومت سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیایہ سامان غریب عوام کا سامان نہیں یہ ان کے لیے آیاتھا اوران کاحق ہے لہٰذا یہ کسی جماعت کاسامان نہیں بلکہ یہ ان متاثرین کاسامان ہے جو کہ ہمیںواپس کیاجائے اورانہوںنے پاکستانی عوام سے گزارش کی ہے کہ وہ حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کرائے کہ یہ پابندی سراسر زیادتی اورافسوسناک ہے لہٰذا اس پابندی کوختم کیاجائے تاکہ ملک بھر میں جماعت الدعوۃ کے تحت چلنے والے فلاحی کام جن سے غریب عوام مستفید ہورہے تھے اس پابندی کی وجہ سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ نہ ہو ۔جماعت دعوۃ کے ترجمان فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق تنظیم نے بلوچستان کے زلزلہ متاثرہ علاقوں میں 584شیلٹرز ،300رضائیاں جبکہ700کمبل تقسیم کئے ،00خاندانوں کو ایک ماہ کا مکمل راشن فراہم کیا ،4777مریضوں کا چیک اپ کیا اور ادویات فراہم کئے،7عدد مائینز سرجری آپریشن بذریعہ موبائل آپریشن تھیٹر کئے،4,000لوگوں کو پکا ہوا تیار کھانافراہم کیا۔سب سے پہلے زلزلہ سے جاں بحق ہونے والے افراد کےلیے تجہیز و تکفین کا کام سرانجام دیا ۔مستحقین ، بیوگان اور ضرورت مندوں میں,50,000روپے نقد تقسیم کئے اس کے علاوہ87افراد کو فری ایمبولنس سروس مہیا کی گئی۔ترجمان کے مطابق جماعت الدعوۃ کے زیر اہتمام ملک بھر میں چلنے والے50میں سے 100سکول بھی بند کردیئے گئے ہیں۔
 

علی ذاکر

محفلین
افسوس کے ھم نے یہ کام یو این او کے کھنے پر کیا ھمیں یہ کام خود کرنا چاھیے تھا اور بہت پھلے کرنا چاھیے تھا
 

جوش

محفلین
پاکستان کے اقوام متحدہ میں باخبر سفیر حسین عبداللہ ہارون نے بھارتی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ :

پاکستان میں‌دہشت گردی کے موبائل کیمپس ہیں۔

جب ایسے ایسے مسخرے جیالے پاکستان کی نمایندگی کرنے بیٹھے ہوں تو کیا کہا جا سکتا ہے۔
 

mfdarvesh

محفلین
نیبل صاحب چندہ کہا ں جاتا ہے اس کا جواب اوپر زین زیڈ ایف نے دے دیا ہے اگراس میں سے چوتھائی بھی ٹھیک ہے تو عوام کا چندہ کام کررہا ہے کیونکہ ہماری حکومت بھی عوام کا آدھا پیسہ خود کھا جاتی ہے۔ دوسری بات تنظیم کی تو یہ امریکہ کی پالیسوں کا ردعمل ہے۔ جب تک حکومت امریکہ کے کہنے پر عوام کو قتل کرتی رہے گی ردعلم سامنے آتا رہے گا اور ہماری موجودہ حکومت تو سب پاکستانیوں کوبھارت یا امریکہ کے حوالے کردے گی اور پوری لسٹ بہت جلد بھارت کو افراد کے ساتھ دے دی جائے گی۔ دیکھتے رہیے۔
 

دوست

محفلین
یہ حقیقت ہے کہ جماعت الدعوہ نے بہت فلاحی کام کیا اور اس کی بندش کے بعد جو اثاثے سرکاری تحویل میں چلے گئے حق دار ان سے محروم ہوگئے اور سرکاری حرام خوروں کی چاندی ہوگئی۔ خاص طور پر زلزلہ زدگان کے لیے امدادی سامان۔
 
چاہے جماعت الدعوہ ہو یا لشکر طیبہ یا ٹھوکر نیاز بیگ کے فرقہ پرست تنظیمیں۔ یہ سب فوج کے غیر سرکاری ملازم ہیں۔ جماعت الدعوہ یا لشکر طیبہ بنی ہی اس لیے تھی کہ پریشر انے پر ان پر پابندی لگ جائے اور جنرل ارام سے سگار پیتا رہے۔ دکھانے کو یہ کچھ فلاحی کام بھی کرتے ہیں‌

امریکہ پاکستان پر میزائیل پر میزائیل مار رہا ہے اور پاکستانی فوج اور حکومت مزے سے ان حملوں کو پی رہی ہیں۔ عوامی توجہ ہٹانے اور ان کو خوفزدہ کرنے کے لے ممبی حملے پلاٹ کیے گے۔ بھلا بتاو موبائل فون دے کر اور پنچابی لہجے کے لوگوں کو بھیج کر پھر ایسے لوگ جو دو جوتے میں‌فرید کوٹ کی رٹ لگادیں سے کیا یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ آصل پلاٹ کیا تھا۔ پاکستانی عوام کی توجہ امریکی میزائیل سے ہٹ گئی۔ دنیا امریکی مزائیلز کو درست سمجھ رہی ہے اور پاکستانی عوام کو اپنی جان کی پڑی ہے۔ ایک تیر میں کئی شکار
وہ لوگ جو جہاد جہاد کہہ کر لوگوں کو بھرتی کرتے ہیں‌اور اس طرح کے مشن پر بھیجتے ہیں ان کی اصلیت ظاہر ہوہی گئی ہے۔
 

Ukashah

محفلین
ہمت علی
چاہے جماعت الدعوہ ہو یا لشکر طیبہ یا ٹھوکر نیاز بیگ کے فرقہ پرست تنظیمیں۔ یہ سب فوج کے غیر سرکاری ملازم ہیں۔ جماعت الدعوہ یا لشکر طیبہ بنی ہی اس لیے تھی کہ پریشر انے پر ان پر پابندی لگ جائے اور جنرل ارام سے سگار پیتا رہے۔ دکھانے کو یہ کچھ فلاحی کام بھی کرتے ہیں‌
نلکل صحیح ۔۔ اسی طرح حرکت المجاہدین بھی دہشت گرد ہے اس پر بھی پابندی لگائی جائے ۔
 
رووزنامہ ایکسپریس 14 دسمبر 2008
کالم از جاوید چوہدری

1100538125-2.gif
 
روزنامہ جنگ 14 دسمبر 2008
کالم از خالد مسعود خان

بزدلی اور نااہلی کا حسین امتزاج,,,,کٹہرا… خالد مسعود خان
ہمارے ساتھ اسی بچے والا معاملہ ہے جس کی ٹیچر نے اس کی ماہانہ رپورٹ پر لکھا کہ بچہ نہ صرف یہ کہ انتہائی گستاخ اور بدتمیز ہے بلکہ کبھی غیر حاضر بھی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ہم پر اپنا رحم اور کرم فرمائے ہمارے حکمران نہ صرف یہ کہ بزدل ہیں بلکہ نااہل بھی ہیں۔ دکھ اس بات پر نہیں کہ بھارت نے امریکی تعاون سے ہم پر دہشت گردی کا الزام لگایا بلکہ ملال اس بات کا ہے کہ ہم نے کسی قسم کا کوئی ثبوت ملنے سے قبل ہی بھارتی اور امریکی مطالبات پر عمل کر ڈالا اور دکھ اس بات کا نہیں کہ اقوام متحدہ نے جماعت الدعوة پر پابندی عائد کر دی ہے بلکہ اصل افسوس اس بات کا ہے کہ اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب حسین ہارون نے اس قرارداد پر مکمل خاموشی اختیار کرکے اس قرارداد پر پاکستان کی جانب سے کسی قسم کی صفائی پیش نہ کرکے اس قرارداد کو درست تسلیم کر لیا۔ موصوف کی جانب سے اس رویے پر کم از کم عاجز کو حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ موصوف بھی دیگر بہت سے اہم ترین عہدوں پر فائز لوگوں کی طرح اپنے منصب سے کہیں نچلے درجے کا شخص تھا جو موجودہ کلیئرنس سیل کے موسم میں اس منصب پر فائز ہو گیا ہے وگرنہ موصوف کی واحد خوبی یہ ہے کہ صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری کے پرانے یار غار ہیں اور خاندانی طور پر امریکی پیاروں میں شامل ہیں۔
امریکہ اور بھارت نے دھمکی دی کہ 48گھنٹوں کے اندر اندر ذکی الرحمان لکھوی، جرار شاہ اور مولانا مسعود اظہر کو گرفتار کیا جائے۔ ہم نے پہلا بیان دیا کہ ایسا کوئی مطالبہ ہی نہیں کیاگیا۔ پھر دوسرا بیان دیا کہ جب تک بھارت ہمیں ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کرتا ہم کسی قسم کا کوئی ایکشن نہیں لیں گے۔ پھر تیسرا بیان دیا کہ بھارت کسی قسم کے کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکا اور 48گھنٹے کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہم نے تینوں افراد کے خلاف کارروائی کر ڈالی اور بیان جاری کیا کہ یہ کارروائی بھارتی مطالبات(جو درحقیقت ہدایات تھیں) پر نہیں کی گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ کارروائی بھارتی ہدایات پر نہیں کی گئی تو آخر یہ انہی دیے گئے 48گھنٹوں کے اندر ہی کیوں کی گئی ہے؟ اگر ذکی الرحمان لکھوی پر کوئی اور الزامات تھے تو اسے پہلے کیوں آزاد چھوڑا گیا تھا؟ اگر اس پر الزامات پرانے تھے تو اس کے خلاف اب تک کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی تھی؟ اگر اسے کسی نئے الزام کے تحت پکڑا گیا ہے تو اس کے خلاف وہ نئے ثبوت عوام کے سامنے کیوں نہیں پیش کئے گئے؟ آخر بھارتی مطالبات پر فوری اور سوفیصد عمل کرنے میں اتنی عجلت کیوں برتی گئی؟ بزدلی کا یہ عالم ہے کہ اب مملکت خداداد پاکستان کے مختار لوگ بھارتی احکامات پر سرتسلیم خم کررہے ہیں۔ چند فیصد پاکستانیوں کے علاوہ ابھی عوام کی اکثریت اپنے حکمرانوں کے امریکی احکامات پر سجدہ ریز ہونے کو ہضم نہیں کر سکی کجا کہ بھارتی احکامات پر زمیں بوس ہوا جائے۔ اب حکمرانوں کی بزدلی اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ انہوں نے ہمیں بھارت کے سامنے برابری والے درجے سے گرا کرقریباً اسی مقام پر پہنچادیا ہے جس پر گزشتہ حکمرانوں نے ہمیں امریکہ کے مقابلے پر پہنچادیاتھا۔ بحیثیت پاکستانی وہ لوگ جو پاکستان اور امریکہ کے درمیان قریباً حاکم و محکوم اور آقا و غلام جیسے دوستانہ تعلقات کو نہ چاہتے ہوئے بھی قبول کر چکے تھے بہرحال پاکستان کو بھارت کے سامنے دوسرے درجے کا ملک تسلیم کرنے پر کسی صورت تیار نہیں ہیں۔
جماعت الدعوة پر پابندی لگ گئی ہے۔ اس سے قبل الرشید ٹرسٹ جیسی فلاحی اور غیرضربی تنظیم پر پابندی لگ چکی ہے۔ راقم کو خود کئی بار جماعت الدعوة کے مرید کے والے مرکز میں جانے کا اتفاق ہوا ہے اوروہاں سوائے تعلیمی اور فلاحی سرگرمیوں کے کبھی کوئی منفی یا قابل اعتراض سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی لیکن بھارتی پراپیگنڈے نے ، جسے مکمل امریکی تائید حاصل تھی محض تین چار دن میں اپنا مطلوبہ ہدف حاصل کر لیا اور ہمارے صدر محترم کے دیرینہ دوست اقوام متحدہ میں پاکستانی حکومت کی جانب سے کوئی موٴقف پیش کرنے، کوئی صفائی فراہم کرنے یا کسی قسم کی مزاحمت کرنے کے بجائے ایک خاموش تماشائی کی حیثیت سے سب کچھ ہوتا دیکھتے رہے اور بھارت نے اپنا مطلوبہ ہدف نہایت ہی آسانی سے حاصل کر لیا۔ یہ بھارتی مطالبات کا اختتام نہیں بلکہ آغاز ہے۔ ہم نے پہلے ہی مرحلے پر زمین بوس ہو کر اپنی بزدلی، کمزوری اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کا اعتراف کر لیا ہے۔ حالانکہ اس کے جواب میں بلوچستان، فاٹا اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے بھارتی پشت پناہی کے ٹھوس ثبوت دیے جانے چاہئیں تھے۔ وزارت خارجہ میں گزشتہ سات ہفتوں سے جنرل(ر) حمید گل کے بارے میں امریکی حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 1267 کے تحت القاعدہ اور طالبان کے معاون و مددگار ہونے کے الزام میں ایک خط بھیجا گیا جس پر نہایت خاموشی اور تابعداری سے عمل کیا جارہاتھا اور کسی کو اس کی ہوا بھی نہیں لگنے دی جارہی تھی۔ حالانکہ یہ ایک انتہائی حساس اور قومی سلامتی کے مستقبل کے حوالے سے بہت اہم معاملہ تھا کیونکہ امریکہ کی جانب سے چار ریٹائرڈ فوجی افسران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ دراصل ایک ٹیسٹ کے طور پر کیا گیا تھا اور ہمارے ردعمل نے اس کے مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا۔ ان چار ریٹائرڈ فوجی افسروں کے بعد حاضر سروس فوجی افسروں کا معاملہ آجائے گا اور امریکی حسب معمول مزید اور مزید کا مطالبہ کریں گے۔ اس خط کا کسی طرح جنرل حمید کو پتہ چل گیا۔ جنرل صاحب نے وزارت خارجہ سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے اس قسم کے خط کی تصدیق کر دی۔ جنرل حمید گل نے خاندانی طور پر آئی ایس آئی کے احسان مندوزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے اس خط کے بارے میں دریافت کیا موصوف حسب معمول اس قسم کے کسی خط کی موجودگی سے یکسر انکاری ہو گئے اور اپنی مکمل لاعلمی کا اظہار کردیا(موصوف اب ایک بہت بڑے عہدے کے امیدوار ہیں) جو اگر سچ تھا تو ان کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اگر جھوٹ تھا تو پھر ٹھیک ہے کیونکہ آپ کی ذات کے حوالے سے یہ معمول کی بات ہے۔وزیراعظم صاحب نے تو حد ہی مکا دی۔ ملتان ائرپورٹ پر فرمایا کہ حمید گل کو امریکہ کے حوالے نہیں کیا جائے گا تاہم ثبوت ملے تو ان کے خلاف قانون کے مطابق پاکستان میں ہی کارروائی کی جائے گی۔ حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قرار داد نمبر 1267 جس کے تحت امریکہ نے خط بھجوایا ہے کسی قسم کی قانونی کارروائی وغیرہ کی جانب ہدایات جاری ہی نہیں کرتی مگر ہمارے حکمران محض اپنی بزدلی کے طفیل زمین پر بچھے جارہے ہیں۔ جماعت الدعوة پر پابندی، ذکی الرحمان کی گرفتاری، حافظ سعید احمد کی نظربندی، جنرل حمید گل اور برگیڈئیر یوسف جیسے محب وطن پاکستانیوں کے خلاف امریکی چالبازیاں اور ہماری تابعداریاں مستقبل کے بارے میں کسی اچھی صورتحال کی نشاندہی نہیں کرتیں لیکن جہاں بزدلی اور نااہلی یکجا ہو جائے بھلا وہاں اس کے علاوہ اور ہو بھی کیا سکتا ہے؟ پہلے حکمرانوں نے تو ہمیں صرف امریکہ کے نیچے لگایا تھا، موجودہ حکمرانوں نے تو ہمیں ہمارے ازلی دشمن بھارت کے نیچے لگا دیا ہے۔ بزدلی آخر کار انسان کو بے حمیتی اور بے غیرتی تک لے جاتی ہے، نااہلی اوپر سے سونے پر سہاگے والا معاملہ ہے۔

http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=321525
 
موجودہ حکومت کا انتہائی بزدلانہ کام ہے یہ۔۔۔۔۔
حق تو یہ ہے بیٹی کہ ان تنظیموں‌پر پابندی حکومت کا انتہائی بہادرانہ قدم ہے۔ یہ تو فوج کی پالی وہ مقدس گائے تھیں جوکو ہاتھ لگانا برہمن کا درم برھشٹ ہوجائے ہے۔
بہادری یہ نہیں‌ کہ اپنی غلطی پر اڑ جائے۔ بہادری یہ کہ غلطی کی تلافی درست طور پر کرے۔
 

زینب

محفلین
نہیں میرے خیال میں‌بجائے انڈیا اور اقوام متحدہ کے پریشر میں انے کے خود سے تحقیق کرتے اگر ایسا کچھ پایا جاتا جو ملک و قوم کے خلاف ہوتا تو بھلے پابندی لگاتے پر یہ جو کچھ ہوا "باہر"والوں کے کہنے سے ہوا اپنی پالیسی کے تحت نہیں۔۔۔۔۔اور میرے خیال میں اقوام متحدہ کو تو سب سے زیادہ جوتے مارنے چاہیئں جنہیں سالوں سے لاکھوں شہید ہوتے کشمیری مسلمان نظر نہیں ائے یہاں 100 ہندوو مرے تو واویلا مچا دیا۔۔۔اتنا دم‌خم ہے وت پہلے انڈیا کو دہشت گرد ملک قرار دیں جو سالوں سے مسلمانوں کو قتل کر کے غلام بنائے ہوئے ہے
 

زیک

مسافر
جاوید چوہدری اور خالد مسعود خان کیسے بے‌خبر کالم‌نگار ہیں‌کہ انہیں یہ بھی علم نہیں کہ جماعت الدعوہ کا تعلق لشکر طیبہ اور کشمیر اور انڈیا میں مسلح (یا دہشتگردانہ کہہ لیں) لڑائ سے کتنا گہرا تھا؟ کیا یہ پچھلے بیس سال سے سو رہے تھے؟ کیا یہ دونوں اس وقت پیدا نہیں ہوئے تھے جب حافظ سعید اعلانیہ جہاد کے اعلان اور اس کے لئے چندے اکٹھے کیا کرتے تھے؟
 

طالوت

محفلین
اسی کی دہائی میں سارے عالم کے لیے یہ مجاہد اعظم تھے اب دہشت گرد ۔۔۔۔
چناب کا پانی جب مکمل طور پر رک جائے گا تو یقیننا حافظ سعید کی یاد آئے گی ۔۔۔۔
اور پھر یہی حکومتیں اور ایجنسیاں کتوں کی طرح دم ہلاتی مرکز طیبہ جائیں گی ، جو پہلے بھی ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی امید ہے ۔۔۔
وزیراعظم اپنی قوم کی حالت پر ٹسوے بہاتے ہیں اور حزب اللہ قوم کی حفاظت کرتی ہے ۔۔۔ کچھ ایسا ہی ہوا تھا نہ ؟ ؟
وسلام
 

نبیل

تکنیکی معاون
یہ کتوں کی طرح دم ہلانے والی گیم خوب ہے۔ کبھی مرکز طیبہ والے کتوں کی طرح دم ہلا رہے ہوتے ہیں تو کبھی فوج والے۔
یہ ہماری قوم کی خود فریبی سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ زیر زمین کاروائیاں کرنے والے دہشت گرد گروہ ہماری سرحدوں کا دفاع کریں گے۔ اس وقت تو وہ بزرگ سرحدوں پر کھڑے ہوں گے جن کی آغوش میں توپ کے گولے گر کر تربوز بن جائیں گے۔ ;)
اسی کی دہائی کے مجاہدین اعظم کی حقیقت بھی سب کو معلوم ہے کہ یہ محض پروپیگینڈا تھا۔ اس وقت سی آئی اے اور ایم آئی 5 انہیں گوریلا کاروائی کی تربیت دیتے ہوئے بھول گئی تھیں کہ یہ واپس انہیں پر بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ اور اگر یہ اتنے ہی بڑے مجاہد ہیں تو ہر تخریبی کاروائی کے بعد چوہے کی طرح اپنے بل میں کیوں گھس جاتے ہیں؟ یہ سامنے آ کر مانتے کیوں نہیں ہے کہ ہاں یہ سب ہم نے کیا ہے؟
 

طالوت

محفلین
یہ کتوں کی طرح دم ہلانے والی گیم خوب ہے۔ کبھی مرکز طیبہ والے کتوں کی طرح دم ہلا رہے ہوتے ہیں تو کبھی فوج والے۔یہ ہماری قوم کی خود فریبی سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ زیر زمین کاروائیاں کرنے والے دہشت گرد گروہ ہماری سرحدوں کا دفاع کریں گے۔ اس وقت تو وہ بزرگ سرحدوں پر کھڑے ہوں گے جن کی آغوش میں توپ کے گولے گر کر تربوز بن جائیں گے۔ ;)
اسی کی دہائی کے مجاہدین اعظم کی حقیقت بھی سب کو معلوم ہے کہ یہ محض پروپیگینڈا تھا۔ اس وقت سی آئی اے اور ایم آئی 5 انہیں گوریلا کاروائی کی تربیت دیتے ہوئے بھول گئی تھیں کہ یہ واپس انہیں پر بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ اور اگر یہ اتنے ہی بڑے مجاہد ہیں تو ہر تخریبی کاروائی کے بعد چوہے کی طرح اپنے بل میں کیوں گھس جاتے ہیں؟ یہ سامنے آ کر مانتے کیوں نہیں ہے کہ ہاں یہ سب ہم نے کیا ہے؟
بھولے بادشاہو ! پاکستان میں 2/4 ہی تو لوگ ہیں جو دم ہلانے کا کام نہیں کرتے ، بدقسمتی مرکز طیبہ والوں کی کہ وہ بھی ان میں شامل ہیں ۔۔اصل میں نو گیارہ کا "سانحہ" ہی اتنا شدید ہے کہ ہم بیچارے سارے دنیا سے مار کھائے ہوئے بھوکے ننگے بھکاریوں کی سوچ مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔۔ اب راوی والے بابا کا ذکر آپ نے چھیڑ دیا حضور تو سنیے کہ وہاں تو سیدنا علی اور ان کے بیٹے تک گھوڑوں پر سوار ہندوستانی آرمی کو ناکوں چنے چبواتے رہے ، (اب قادری پادری بھی شور مچائیں گے کہ گستاخیاں کرتے ہیں) ۔۔ جب کہ بعض حلقوں کے مطابق اس بہادری کا شاخسانہ مرحومہ کے نغمات ہیں ۔۔
اورگوریلا جنگ چوہے بلی کی ہی جنگ ہوتی ہے ۔۔ اور اس کے موجد بھی ہمارے سلف ہی ہیں ۔۔ اگر بات لشکر طیبہ کی کی جائے تو ان کا وہ خانہ کافی عرصہ ہوا بند ہو چکا ، اب ان کی پہچان ایک رفاعی ادارے کی ہے ۔۔ جس کے حلق سے یہ بات نہیں اترتی وہ جا کر راولا کوٹ کا مشاہدہ کر لے کہ ان لوگوں نے کام کیا تھا ناکہ قبر نما گھروں پر "جئے الطاف" لکھ کر آ گئے تھے ۔۔
نوٹ :::: مشاہدے کے لیے تخت طاؤس سے اترنا ضروری ہے ;)
وسلام
 
Top