جموں‘ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ‘ قبضہ غاصبانہ ہے : ارون دتی رائے

الف نظامی

لائبریرین
بھارت کی معروف تجزیہ نگار ارون دتی رائے نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کبھی بھارت کاحصہ (اٹوٹ انگ) نہیں رہا۔ بھارت نے 1948ء سے اس کے بڑے حصہ پر جبراً قبضہ جما رکھا ہے۔ ان کے اس بیان پر بھارت بھر میں ہلچل مچ گئی ہے۔ انہوں نے اتوار کو ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے اپنے اس موقف کو دہرایا کہ جموں و کشمیر پر بھارت کا قبضہ غاصبانہ ہے۔ قبضہ زبردستی کیا گیا ہے۔ اسے اٹوٹ انگ قرار دینے سے وہ بھارت کا حصہ نہیں بن سکتا۔ ہندوستان ٹائمز میں شائع ہونےوالی رپورٹ کے مطابق ارون دتی رائے نے سیکشن آف سول سوسائٹی کی جانب سے ”کشمیر کی آزادی یا غلامی“ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جموں و کشمیر کبھی بھارت کا حصہ نہیں رہا اور اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا جو اسے جھٹلانے کی کوشش کرتا ہے وہ احمقوں کی جانب میں رہتا ہے۔ یہاں تک کہ بھارتی حکومت بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے۔ یاد رہے کہ ارون دتی رائے نے "Booker Prize" بھی حاصل کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے فوراً بعد ہی بھارت توسیع پسند طاقت بن گیا تھا۔ انہوں نے حریت پسند رہنما سید علی گیلانی کی حمایت کی اور ان کے ساتھ آزادی کو مسئلہ کشمیر کا واحد حل قرار دیا تھا۔


بھارت کی معروف تجزیہ نگار ارون وتی رائے نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کبھی بھارت کا حصہ (اٹوٹ انگ) نہیں رہا۔ بھارت نے 1948ء سے اسکے بڑے حصے پر جبراً قبضہ جما رکھا ہے۔ اتوار کے روز انہوں نے نئی دہلی میں ’’کشمیر کی آزادی یا غلامی‘‘ کے زیر عنوان منعقدہ ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ اٹوٹ انگ قرار دینے سے کشمیر بھارت کا حصہ نہیں بن سکتا کیونکہ جموں و کشمیر پر بھارت کا قبضہ غاصبانہ ہے۔ انہوں نے کہا ہے یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جموں و کشمیر کبھی بھارت کا حصہ نہیں رہا۔ انکے بقول جو اس تاریخی حقیقت کو جھٹلانے کی کوشش کرتا ہے وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے جبکہ خود بھارتی حکومت اس تاریخی حقیقت کو تسلیم کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے فوراً ہی بعد بھارت توسیع پسند طاقت بن گیا تھا، انہوں نے حریت رہنما سید علی گیلانی کی حمایت کی اور کشمیر کی آزادی کو مسئلہ کشمیر کا واحد حل قرار دیا۔
ارون وتی رائے نے جو بھارت کی ’’بُکر پرائز‘‘ جیتنے والی معروف تجزیہ نگار ہیں، جموں و کشمیر کی تاریخی حقیقت کو اجاگر کر کے کشمیر پر غاصبانہ تسلط جمانے والے مکار ہندو بنیاء کے مکروہ عزائم کو ہی بے نقاب نہیں کیا، کشمیری عوام اور حریت پسندوں کے جذبے، جذبات اور مؤقف پر بھی مہر تصدیق ثبت کی ہے جبکہ ارون وتی کے اس بیان کی روشنی میں جہادِ کشمیر میں بھی نئی روح پیدا ہو گئی ہے جس سے کشمیری عوام کیلئے ایک واضح مقصد کے ساتھ منزل کا حصول بھی آسان ہو جائیگا۔
یہی اصل حقیقت ہے کہ کشمیر کبھی بھارت کا حصہ تھا نہ بن سکتا ہے اور بھارتی جبر کا کوئی ہتھکنڈہ کشمیری عوام کو ان کے مقاصد سے نہیں ہٹا سکتا۔ تقسیم ہند سے قبل دیگر ریاستوں کی طرح کشمیر کی بھی آزاد اور خودمختار حیثیت تھی جبکہ تقسیم ہند کے ایجنڈے کے تحت دیگر ریاستوں کے باشندوں کی طرح کشمیریوں کوبھی یہ فیصلہ کرنے کا حق حاصل تھا کہ انہوں نے ہندوستان میں شامل ہونا ہے یا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا ہے، کشمیری عوام نے تو 1945ء میں ہی اس واضح رائے کا اظہار کر دیا کہ ان کا مستقبل برصغیر کے مسلمانوں کیلئے قائم ہونیوالی آزاد مملکت پاکستان کے ساتھ وابستہ ہو گا، کشمیری عوام کے ان جذبات کو بھانپ کر ہی ہندو بنیاء نے وادیٔ کشمیر پر تقسیم ہند کا فارمولا لاگو نہ ہونے دیا اور بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کشمیر کو متنازعہ قرار دے کر اقوام متحدہ میں پہنچ گئے اور مسئلہ کشمیر کے تصفیہ کی درخواست گزاری جس پر یو این جنرل اسمبلی نے اپنی قرارداد کے ذریعے کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا اور نہرو کو کشمیر میں استصواب کا اہتمام کرانے کیلئے کہا مگر نہرو یو این جنرل اسمبلی کی اس قرارداد سے منحرف ہو گئے اور 1949ء میں کشمیر میں بھارتی افواج داخل کر کے اسکے بڑے حصے پر جبراً اپنا تسلط جما لیا جو نہ صرف 60 سال سے زیادہ عرصہ سے جاری ہے بلکہ غاصب و جابر بھارتی افواج اور دوسری سکیورٹی فورسز نے کشمیری عوام پر مظالم کی انتہا کر رکھی ہے۔
بھارتی بنیاء لیڈرشپ نے کشمیر پر اپنے جابرانہ قبضہ کا جواز پیدا کرنے کیلئے 1955ء میں بھارتی آئین میں ترمیم کر کے کشمیر کو باقاعدہ بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا اور وہاں اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کر دی مگر ایسے ہتھکنڈوں کے ذریعے کشمیری عوام کے دل جیتے جا سکے نہ انہیں کشمیر کی آزادی کی تحریک پر انکے اصولی مؤقف سے ہٹایا جا سکا، اپنی آزادی کی خاطر کشمیری عوام اب تک ایک لاکھ سے زائد انسانی جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں۔ کشمیری ماؤں، بہنوں، بیٹیوں نے مکروہ و ملعون بھارتی فوجوں کا ہر ظلم برداشت کیا ہے، اپنی عصمتوں کی قربانیاں دی ہیں‘ اپنے بھائیوں، بیٹوں، شوہروں، والدین اور دیگر عزیز و اقربا کے جنازے اٹھائے ہیں مگر صبر و استقلال کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے جسے اسکی تاریخی، جغرافیائی اور نظریاتی حیثیت کے پیش نظر قائداعظم نے خود پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا اس لئے کشمیر کے الحاق کے بغیر پاکستان کا وجود مکمل ہو سکتا ہے نہ تقسیم ہند کا ایجنڈہ پورا ہو سکتا ہے، اسی بنیاد پر پاکستان کے عوام کشمیری بھائیوں کو اپنے وجود کا حصہ سمجھتے ہیں اور انکی جدوجہد آزادی میں دامے درمے سخنے شریک رہتے ہیں‘ ہر مقامی اور عالمی فورم پر انکی آزادی کیلئے آواز بھی اٹھاتے ہیں اور انکی آواز میں اپنی آواز شامل بھی کرتے ہیں۔ گزشتہ چار پانچ ماہ سے جس عزم، ہمت اور حوصلہ مندی کے ساتھ کشمیری عوام نے اپنی آزادی کی منزل کی جانب رخت سفر باندھا ہوا ہے اور وہ بھارتی فوجوں کی لاٹھی، گولی، شیلنگ اور جبر و تشدد کے کسی بھی دوسرے ہتھکنڈے کو خاطر میں نہیں لا رہے اور سخت مزاحمت کر کے بھارتی فوجوں کو پسپائی پر مجبور کر رہے ہیں اسکے پیش نظر ہی ہندو منتریوں، مکھیا منتریوںکے علاوہ پردھان منتری اور سیناپتی کو بھی مکمل احساس و ادراک ہو چکا ہے کہ مقبوضہ وادی میں پُرعزم کشمیریوں سے جنگ جیتنا ان کیلئے آسان نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں بھارتی ’’سیناپتی‘‘ جنرل وی کے سنگھ تو متعدد مواقع پر بھارتی سورماؤں کو پسپا ہوتے دیکھ کر اپنے حکمرانوں کو مشورے دے چکے ہیں کہ مقبوضہ وادی سے بھارتی فوجیں واپس بلوا کر مسئلہ کشمیر کا کوئی سیاسی حل نکالا جائے، اسی مقصد کیلئے بھارتی منحنی وزیراعظم منموہن سنگھ نے نئی دہلی میں دو بار کشمیر ایشو پر آل پارٹیز کانفرنس طلب کی اور دونوں بار انہیں منہ کی کھانا پڑی۔ انہوں نے کشمیر کی خود مختاری کا دانہ بھی پھینکا مگر دال نہ گلی اور ان کیلئے پسپائی کی انتہا تو یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی انکی اے پی سی میں شرکت سے معذرت کر لی جبکہ اب بھارتی آرمی چیف پھر اپنے حکمرانوں کو آئینہ دکھا رہے ہیں کہ کشمیر میں حریت پسند زیادہ مؤثر ہو گئے ہیں مگر بھارت نے اب تک کشمیر سے متعلق حقائق پر سبق نہیں سیکھا۔
ظالم و مکار ہندو بنیاء کی تو اب بھی یہی کوشش ہے کہ جیسے بھی ہو کشمیری عوام کی آواز کو دبا دیا جائے، اس مقصد کیلئے وہ جبر کا کوئی ہتھکنڈہ بھی بروئے کار لانے سے باز نہیں آتا اور مکر و فریب کے جال بچھانے میں بھی مصروف ہے‘ اس وقت بھی بھارتی حکومت نے ایک بھارتی صحافی دلیپ بڈکانگر کی زیر قیادت ایک مذاکراتی ٹیم تشکیل دے رکھی ہے‘ جو کشمیر کے حریت رہنمائوں سے مذاکرات کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے۔ گزشتہ روز اس مذاکراتی ٹیم نے بزرگ کشمیری رہنماء سید علی گیلانی سے بھی جو گھر پر نظربند ہیں‘ ملاقات کی کوشش کی جنہوں نے اس پیغام کیساتھ ملاقات سے انکار کر دیا کہ پاکستان کے بغیر مسئلہ کشمیر کا حل ممکن نہیں۔ کشمیری عوام چونکہ ہندو بنیاء کی شیطانی ذہنیت اور مکروہ چہرے سے مکمل آشنا ہیں اس لئے وہ انکے کسی فریب میں آسکتے ہیں‘ نہ اپنی آزادی کی جانب تیزی سے بڑھائے جانیوالے قدم روک سکتے ہیں۔ جبکہ بھارتی تجزیہ نگار ارون وتی رائے نے تو اب انکی تحریک آزادی کو مہمیز لگا دی ہے‘ اس لئے یہی نادر وقت ہے کہ ہمارے حکمران مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے امریکہ سے امداد کی بھیک مانگنے اور بھارت کے ساتھ مذاکرات کی بے کار ایکسرسائز کرنے کے بجائے کھل کر کشمیری عوام کیساتھ آجائیں۔ انکی جدوجہد آزادی کو نہ صرف عالمی فورموں پر سپورٹ کریں بلکہ اس میں عملی طور پر شریک بھی ہو جائیں۔ بھارت تو اپنے خبث باطن کی بنیاد پر ویسے ہی ہم پر دراندازی کے الزامات لگاتا رہتا ہے اور گزشتہ روز بھی بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کی تان اسی پر ٹوٹی ہے کہ سرحد پار سے دہشت گردی کی پشت پناہی ہو رہی ہے۔
اس صورتحال میں جبکہ ہندو بنیاء اصل حقائق سے صرف نظر کرتے ہوئے کشمیر پر اپنی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی پر قائم ہے‘ مذاکرات کی میز پر یا امریکہ کے کسی کردار کے ذریعہ یو این قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کی ہرگز توقع نہیں‘ یہ مسئلہ حل ہونا ہے تو صرف طاقت کے زور پر‘ اس لئے کیوں نہ اسی آپشن کو آخری چارۂ کار کے طور پر استعمال کرلیا جائے اور اب جبکہ لوہا گرم ہے کشمیری عوام کا مکمل ساتھ دے کر انہیں آزادی کی منزل تک پہنچا دیا جائے‘ جس کے بعد کشمیر کے پاکستان کیساتھ الحاق کا مرحلہ شروع ہونا ہے‘ اگر ہم کشمیری عوام کی آزادی کی جدوجہد میں صدق دل سے ان کا ساتھ نبھائیں گے تو وہ الحاق پاکستان کے مرحلے میں ہمیں مایوس نہیں کرینگے اس لئے اب کشمیر پر گومگو کی بجائے واضح پالیسی اختیار کی جائے اور کشمیری عوام کے دل جیتے جائیں‘ کیا ہمارے حکمرانوں میں ارون وتی رائے جیسا جذبہ بھی موجود نہیں؟
جاگو! پاکستانی حکمرانو! جاگو! پاکستان کو زندہ رکھنے کیلئے! خود زندہ رہنے کیلئے‘ جاگو!
 

شمشاد

لائبریرین
بے شک اعتراف کرتے رہیں، بھارتی قیادت نے کون سا مان جانا ہے۔

میرے خیال میں تو یہ جتنے بھی کشمیری حریت پسند لیڈرہیں، یہی کشمیریوں کے سب سے بڑے غدار ہیں۔
 

جاویداقبال

محفلین
نہیں شمشاد بھائی، سیدعلی گیلانی صاحب نےبہت قربانیاں دیں ہیں کشمیرمیں ان کاایک اپنامقام ہے۔اوراب توجوبھی یہ ہلچل ہوئی ہےیہ سب کشمیریوں کی طرف سےہوئی ہےاس میں پاکستان کاایک فیصدبھی حصہ نہیں ہےکیونکہ پاکستان نےتوکشمیرکومشرف حکومت میں ہی بائےبائےکردیاتھا۔ اللہ تعالی کشمیریوں کےاس خون کارائیگاں نہیں کریں گےانشاء اللہ کشمیرضرور آزادہوگا۔ آمین ثم آمین
 

شمشاد

لائبریرین
میں نہیں مانتا، فلسطینیوں لیڈروں کیطرح یہ بھی لالچی اور اپنی ذات کے لیے ہی کرتے ہیں۔ مرتے ہیں تو غریب عوام، قربانیاں دی ہیں تو عوام نے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
میں نہیں مانتا، فلسطینیوں لیڈروں کیطرح یہ بھی لالچی اور اپنی ذات کے لیے ہی کرتے ہیں۔ مرتے ہیں تو غریب عوام، قربانیاں دی ہیں تو عوام نے۔
شمشاد صاحب ایسی بات نہیں ، جس شخص نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ بھارتی قید و بند میں گزارا ہو ان کے بارے میں آپ اپنی رائے پر نظر ثانی کیجیے۔

سید علی گیلانی کامکتوب ملاحظہ کیجیے

:
متنازعہ خطے کے عوام پاکستان کی صدا سننے کو بے تاب ہیں

آل پارٹیز کشمیر کانفرنس کے نام سید علی گیلانی کامکتوب

اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم۔

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔

ولو اَن اھل القریٰ آمنوا واتقوا لفتحنا علیھم برکٰت منَ السمائِ والارض ولٰکن کذّبوا فاخذنٰھم بما کانوا یکسبون۔

اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے توہم ان پر آسمانوں اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے، مگر انہوں نے توجھٹلایا، لہٰذا ہم نے اس بری کمائی کے حساب میں انہیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے۔''

30ستمبر2010ء کو جماعت اسلامی پاکستان۔ مقبوضہ و آزاد جموں کشمیر اور پاکستان کی تمام تنظیموں کی آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی ہے۔ مجھے بھی کانفرنس کے شرکاء کی خدمت میں معروضات پیش کرنے کا مشورہ دیاگیا جس کے لیے میں منتظمین کا دل کی عمیق گہرائیوں کے ساتھ شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس مفوضہ ذمہ داری کو انجام دیتے ہوئے میں سب سے پہلے تمام شرکاء کی خدمت میں محبت و احترام سے بھرپور سلام مسنون عرض کروں گا۔

پاکستان اور آزاد خطے کی موجودہ صورتحال مقبوضہ جموں کشمیر کے عوام کی غالب اکثریت کے لئے نہایت رنجیدہ اور دلخراش ہے۔ قیامت خیز سیلاب کے نتیجے میں دو کروڑ لوگ متاثر ہوئے جن کا سب کچھ چھن گیا حتیٰ کہ ان کو جان کے لالے پڑ گئے ہیں۔ سیلاب کے نتائج، عواقب اور اثرات تباہ کن اور ہلاکت آفرین ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی ان مشکل ترین اور صبرآزما حالات سے پاکستانی قوم کو نجات دے سکتا ہے۔ ہماری مظلوم اور مقہور قوم کی تمام ترہمدردیاں متاثرین کے ساتھ ہیں اور دعا گو ہیں کہ پاکستان موجودہ گھمبیر اور پریشان کن صورتحال سے اللہ پر بھروسے اور خوداعتمادی کے سہارے نجات حاصل کرے۔ آمین!

سامعین محترم:

پاکستان کے 17کروڑ عوام جانناچاہتے ہیں کہ ہماری تحریک آزادی کس مرحلے میں ہے قابض بھارتی فورسز کے ہاتھوں ڈھائے جارہے مظالم کی نوعیت کیا ہے اور عوام کے عزائم اور ارادے کیاہیں؟ وہ مسلم ممالک سے کیا توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں اور حکومت پاکستان سے ان کی کیا امیدیں ہیں؟۔ میں اس بارے میں جموں کشمیر کی غالب مسلم اکثریت کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے پورے اعتماد اور وثوق کے ساتھ یہ بات ارض پاک کے دینی اور انسانی رشتوں کے بھائیوں او ربہنوں تک پہنچانا چاہتا ہوں کہ بھارت کا 63سالہ فوجی قبضہ ہمارے لئے ایک سخت ترین عذاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ مقبوضہ خطے پر بھارتی غاصبانہ تسلط پر مستزاد بھارتی فوج کا یہ طرز عمل کہ جہاںکہیں خالی جگہ دیکھی بندوق کی نوک پر قبضہ جما لیا۔ 28لاکھ کنال پر بھارتی فوج ڈیرے ڈالے ہوئے ہے اور اب جنگلات سے متصل زمینوں پر قبضہ کرنا ان کا معمول بن گیا ہے۔ جہاں عوام کو چرائی کی مشینوں کو نصب کرنے کی ممانعت ہے وہیں فوج کو درخت کاٹنے، چرائی کروا کے فرنیچر بنانے اور اپنے گھروں کو بھیجنے کی کھلی چھوٹ ہے۔صرف ضلع شوپیاں میں 5200 کنال رقبہ جنگلات پر جبراً قبضہ کیا گیاہے۔ تین سے چار لاکھ درختوں کے کاٹے جانے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔

آبی وسائل کو استعمال میں لاکر پاور پروجیکٹس کے ذریعے 88فیصد بجلی پنجاب، ہریانہ،دہلی اور راجستھان کو فروخت کی جاتی ہے جبکہ ریاستی عوام کو صرف 12فیصد کے استعمال کا حق دیا جاتا ہے۔

آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ کے تحت قابض فوج کو وسیع اختیارات حاصل ہیں او ر انہیں کسی جوابدہی کے بغیر کشمیریوں کو قتل کرنے کی بھی آزادی ہے اور ان کی عزت وآبرو سے کھیلنے کی بھی…

سد بھاؤنا کے نام پر راشٹریہ رائفلز نے سکول کھولے ہیں جہاں مشرکانہ تہذیب ذہنوں میںر اسخ کی جاتی ہے۔ جبکہ دہلی پبلک سکولوں کے ذریعے منصوبہ بند طریقے پر طلبہ و طالبات کو INDIANIZEکیا جا رہا ہے۔

ریڈیو، ٹی وی اور میڈیا کے دوسرے ذرائع کو استعمال میں لا کر بھارت فوجی قبضے کے ساتھ ساتھ تہذیبی غلبہ بھی حاصل کرنا چاہتا ہے جو یہاں کے عوام کی اکثریت کے لیے سب سے بڑا اور سنگین خطرہ ہے۔

وادیِ کشمیر کے مقابلے میں صوبہ جموں کی مسلم آبادی بہت زیادہ دباؤ میں ہے۔ وہاں آر ایس ایس شیوسینا، بجرنگ دل، بی جے پی اور دیگر فرقہ پرست پارٹیاں پولیس، فوج اور انتظامیہ کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو ہراساں اور خوفزدہ کرنے میںبہت ہی شرمناک اور گھناؤنا کردار ادا کرہی ہیں۔

اس صورتحال نے بھارتی مقبوضہ خطے کے عوام کی اکثریت کے لیے خطہ جنت نظیر کو جہنم زار میں بدل دیا ہے۔ اس عذاب سے نجات حاصل کرنے کے لیے گزشتہ 63سال میں کئی تحریکیں اٹھیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگیں بھی ہوئیں اور 1988ء کے اواخر میں مقامی طور مسلح جدوجہد کاآغاز بھی ہوا، جس پر امریکہ اور بھارت سے مرعوب پاکستانی آمر نے Terrorism کا لیبل چسپاں کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔2008ء میں شرائن بورڈ کو 800 کنال زمین الاٹ کرنے کے خلاف عوام لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر آگئے مگر مکروفن خواجگی کا شکار ہوکر 2009ء میںمراعات کے نام پرانتخابات کی بھینٹ چڑھ گئے۔

جوش و جذبے کو جواں رکھنے کے لیے ہم نے 2009ء میںضلع وار ہڑتال اور عوامی احتجاج کے پروگرام کا اعلان کیا جو زبردست رکاوٹوں اور بندشوں کے باوجود کامیاب رہا۔ گاندر بل اور بڈگام اضلاع میں یہ پروگرام2010ء میں میری رہائی کے بعد روبہ عمل آئے۔

جون2010ء میں طفیل احمد متو کی شہادت کے بعدبھارتی فورسز اور مقامی پولیس کی سفاکیت کے نتیجے میں شہداء کی تعداد109تک پہنچ گئی ہے۔جس میں نو عمر نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اسی دوران ''گو انڈیا گو بیک'' کا نعرہ بلندکیا گیا اور ہڑتالوں اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا جو عوامی جذبات کی ترجمانی کی بنیاد پر اب تک جاری ہے۔ صوبہ جموں کے مسلمانوں نے نامساعد حالات کے باوجود اس آواز میں اپنی آوز ملاکر غیرت ایمانی اور حریت پسندی کا ثبوت دیا۔

کئی مہینے گزرنے کے باوجودآزاد کشمیر اور پاکستان سے تحریک مزاحمت کے حق میں کوئی مؤثر آواز بلند نہیں ہوئی۔ آمریت کے خاتمے کے باوجود عوامی حکومت کے دور میں روا رکھا گیا یہ طرز عمل متنازعہ خطے کے عوام کے لیے کوئی مثبت پیغام نہیں تھا۔مظلوم عوام کے حق میں منظم اور زوردار آواز اٹھانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ عوامی مظاہروں، جلسے جلوسوں، سیمینارزا ور پرامن احتجاج کے ذریعے جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو بھی اجاگر کیاجا ئے اور قابض بھارتی فوجیوں کی طرف سے وسیع پیمانے پر کی جارہی زیادتیوں کو بھی بے نقاب کیا جائے۔

پاکستانی حکومت مختلف ممالک میں موجود اپنے سفارت کاروں کو فعال اور متحرک کرے تاکہ مسئلہ کشمیر اور موجودہ تحریک آزادی کی حقیقت سے عالمی رائے عامہ ہموار کی جاسکے۔مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی حکومت اور سیاسی قیادت اپنے بنیادی اصولی موقف سے پیچھے نہ ہٹے۔ اسے سرحدی تنازعے کے بجائے ریاستی عوام کے حق خود ارادیت کے مسئلے کی حیثیت سے ہرفورم پر اٹھایا جائے خواہ اس کے نتیجے میں آلو پیاز کی تجارت اور ثقافتی طائفوں کی آمد ورفت متاثر ہی ہو۔ مسئلہ کشمیر پر بھارت کی جانب سے ''اٹوٹ انگ''کی رٹ کے خاتمے تک دوطرفہ مذاکرات بے معنی اور کارلاحاصل ہیں۔ گزشتہ ادوار کے150 بار مذاکرات سے کیا حاصل ہواجو اب ہوگا۔

پاکستانی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عوام کومسئلہ کشمیر کی تاریخی حیثیت سے آگاہ کرے۔ مسئلہ کشمیر کے پس منظر کے عینی گواہوں کی نسل گزشتہ63 سال میں رخصت ہوگئی ہے۔ نئی پود کو سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اس تاریخ سے روشناس کرناحکومت کی اہم ذمہ داری ہے مگر اس ضرورت سے اب تک غفلت برتی گئی ہے۔پاکستان میں دوقومی نظریے کانام لینے سے بھی کچھ لوگ شرماتے ہیں، نتیجتاً مسئلہ کشمیر کے ساتھ ساتھ خود پاکستان کوبھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ صوبائی، علاقائی اور لسانی تعصبات پاکستان کی بقا، سالمیت اور استحکام کے لیے سم قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں اور کشمیر بھی اسی لپیٹ میں آرہا ہے۔ یہ سوچ کہ طاقتور، بڑی آبادی اور بڑے سائز والے ملک بھارت کے ساتھ ٹکراؤ کے بجائے پانی اور سیاچین پرکوئی سمجھوتہ کرکے مسئلہ کشمیر سے دستبردار ہوا جائے،شکست خوردہ ذہنیت کی عکاس ہے،''کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے'' کہنے والے قائد کے پاکستان کی سوچ نہیں۔

بھارت ایک سانس میں مذاکرات کی بات کرتا ہے اور دوسری سانس میں جموں و کشمیر کو اٹوٹ انگ قراردے کر مقبوضہ خطے میںہورہی انسانی حقوق کی پامالیوں کو بھارت کا ایسا داخلی معاملہ ٹھہراتا ہے جس کے بارے میں پاکستان او آئی سی یاکسی ملک اور ادارے کو بات کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان کی حکومت کو مسئلہ کشمیرکی متنازعہ حیثیت منوانے پر زور دینا چاہیے اور ایک جوہری طاقت رکھنے والے ملک کی حیثیت سے قراردادوں کے کاغذی گھوڑے دوڑانے کے بجائے او آئی سی کو فعال اور متحرک کرکے کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے زیادہ موثر اور نتیجہ خیزکردار ادا کرنا چاہیے۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں قابض فورسز اور مقامی پولیس کی زیادتیوں، قتل وغارت گری اور اشتعال انگیزی کے باوجود پرامن جدوجہد جاری ہے۔ دشمن کی کوشش ہے کہ جوان تشدد پراترآئیں تاکہ بھارت'' مظلوم'' بن کر دنیا کو پھر ایک بارگمراہ کرسکے اور اپنی ریاستی دہشت گردی کو چھپانے میںکامیاب ہوسکے۔

ہم بھارت کے ہاتھ میںیہ ہتھیار نہیں دینا چاہتے۔ پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر پرلازم ہے کہ وہ ہماری پرامن جدوجہد کی اخلاقی، سیاسی اورسفارتی مدد کریں اور عالمی ضمیرکو جگانے میںاپنا کرداراداکریں۔اگرچہ کوئی اورراستہ اختیار کرنے کی فی الحال کوئی ضرورت نہیں لیکن مکار دشمن سے غافل رہنا بھی کوئی آپشن نہیں۔

پاکستان اور آزاد خطے کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کوموجودہ جدوجہد کو زیادہ سے زیادہ ابھارنا چاہیے تاکہ پاکستان کے عوام اورعالمی سطح پر بھی اصل صورتحال سے واقفیت بہم پہنچائی جاسکے۔ رب کائنات کی بارگاہ میںجموں کشمیر کے مظلوموں کے لیے دعاؤں کی بھی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ارض پاک کے ساتھ ہماری نظریاتی وابستگی حکمرانوں کے طرز عمل سے مشروط نہیں۔ پاکستان کی سالمیت اور نظریاتی استحکام ہمیں اپنی جانوں سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ مملکت خداداد میں جن قوتوں کی طرف سے ڈرون حملے ہورہے ہیں ان کے بارے میں بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیو ں ہو

استعماری قوتوں سے غلو کی حد تک مرعوبیت، قومی وقار اور خودمختاری ڈالروں کی جھنکار کے عوض گروی رکھنا ہمارے لئے ناقابل برداشت صدمہ ہے۔

کاش ارضِ پاک کے 17کروڑ غیور عوام ہم بہی خواہوں کوجانکاہ صدموں سے نجات بخشنے کے لیے شعور کی بیداری کے ساتھ یہ نعرہ بلندکریں۔

والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

فلاح ملت کا متمنی

سید علی گیلانی
 

الف نظامی

لائبریرین
[URL="http://www.nawaiwaqt.com.pk/pakistan-news-newspaper-daily-urdu-online/Regional/25-Oct-2010/43006"]بھارت کی معروف تجزیہ نگار ارون دتی رائے نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کبھی بھارت کاحصہ (اٹوٹ انگ) نہیں رہا۔ بھارت نے 1948ء سے اس کے بڑے حصہ پر جبراً قبضہ جما رکھا ہے۔ ان کے اس بیان پر بھارت بھر میں ہلچل مچ گئی ہے۔ انہوں نے اتوار کو ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے اپنے اس موقف کو دہرایا کہ جموں و کشمیر پر بھارت کا قبضہ غاصبانہ ہے۔ قبضہ زبردستی کیا گیا ہے۔ اسے اٹوٹ انگ قرار دینے سے وہ بھارت کا حصہ نہیں بن سکتا۔ ہندوستان ٹائمز میں شائع ہونےوالی رپورٹ کے مطابق ارون دتی رائے نے سیکشن آف سول سوسائٹی کی جانب سے ”کشمیر کی آزادی یا غلامی“ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جموں و کشمیر کبھی بھارت کا حصہ نہیں رہا اور اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا جو اسے جھٹلانے کی کوشش کرتا ہے وہ احمقوں کی جانب میں رہتا ہے۔ یہاں تک کہ بھارتی حکومت بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے۔ یاد رہے کہ ارون دتی رائے نے "Booker Prize" بھی حاصل کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے فوراً بعد ہی بھارت توسیع پسند طاقت بن گیا تھا۔ انہوں نے حریت پسند رہنما سید علی گیلانی کی حمایت کی اور ان کے ساتھ آزادی کو مسئلہ کشمیر کا واحد حل قرار دیا تھا۔

بھارتی وزارت داخلہ نے نئی دہلی پولیس کو ممتاز کشمیری رہنما سید علی گیلانی اور انسانی حقوق کی کارکن ارون دھتی رائے کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کی اجازت دے دی ہے ۔ بھارتی اخبار کے مطابق وزارت داخلہ نے پولیس کو قانونی مشورے میں کہا ہے کہ تعزیرات ہند کی دفعہ124 اے کا اطلاق ان کیسز میں ہوتا ہے جہاں ریاست سے علیحدگی کی حمایت کی گئی ہو ۔ محکمہ قانون نے بھی مقدمے کے اندراج کی حمایت کی ہے ۔ تاہم پولیس تمام پہلوؤں پر غور کررہی ہے اور اس سلسلے میں وزارت داخلہ کے حکام سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا ہے ۔ علی گیلانی اور ارون دھتی رائے اور دیگر افراد پر دلی کے ایک سیمینار میں منافرت پر مبنی تقاریر کرنے کا الزام ہے ۔ دوسری جانب علی گیلانی کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف پہلے ہی نوے کیسز ہیں اور نئے مقدمے کے اندراج کے بعد کیسز کی تعداد91 ہوجائے گی۔[/URL]
 
Top