الف نظامی
لائبریرین
بھارت کی معروف تجزیہ نگار ارون دتی رائے نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کبھی بھارت کاحصہ (اٹوٹ انگ) نہیں رہا۔ بھارت نے 1948ء سے اس کے بڑے حصہ پر جبراً قبضہ جما رکھا ہے۔ ان کے اس بیان پر بھارت بھر میں ہلچل مچ گئی ہے۔ انہوں نے اتوار کو ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے اپنے اس موقف کو دہرایا کہ جموں و کشمیر پر بھارت کا قبضہ غاصبانہ ہے۔ قبضہ زبردستی کیا گیا ہے۔ اسے اٹوٹ انگ قرار دینے سے وہ بھارت کا حصہ نہیں بن سکتا۔ ہندوستان ٹائمز میں شائع ہونےوالی رپورٹ کے مطابق ارون دتی رائے نے سیکشن آف سول سوسائٹی کی جانب سے ”کشمیر کی آزادی یا غلامی“ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جموں و کشمیر کبھی بھارت کا حصہ نہیں رہا اور اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا جو اسے جھٹلانے کی کوشش کرتا ہے وہ احمقوں کی جانب میں رہتا ہے۔ یہاں تک کہ بھارتی حکومت بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے۔ یاد رہے کہ ارون دتی رائے نے "Booker Prize" بھی حاصل کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے فوراً بعد ہی بھارت توسیع پسند طاقت بن گیا تھا۔ انہوں نے حریت پسند رہنما سید علی گیلانی کی حمایت کی اور ان کے ساتھ آزادی کو مسئلہ کشمیر کا واحد حل قرار دیا تھا۔
بھارت کی معروف تجزیہ نگار ارون وتی رائے نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کبھی بھارت کا حصہ (اٹوٹ انگ) نہیں رہا۔ بھارت نے 1948ء سے اسکے بڑے حصے پر جبراً قبضہ جما رکھا ہے۔ اتوار کے روز انہوں نے نئی دہلی میں ’’کشمیر کی آزادی یا غلامی‘‘ کے زیر عنوان منعقدہ ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ اٹوٹ انگ قرار دینے سے کشمیر بھارت کا حصہ نہیں بن سکتا کیونکہ جموں و کشمیر پر بھارت کا قبضہ غاصبانہ ہے۔ انہوں نے کہا ہے یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جموں و کشمیر کبھی بھارت کا حصہ نہیں رہا۔ انکے بقول جو اس تاریخی حقیقت کو جھٹلانے کی کوشش کرتا ہے وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے جبکہ خود بھارتی حکومت اس تاریخی حقیقت کو تسلیم کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے فوراً ہی بعد بھارت توسیع پسند طاقت بن گیا تھا، انہوں نے حریت رہنما سید علی گیلانی کی حمایت کی اور کشمیر کی آزادی کو مسئلہ کشمیر کا واحد حل قرار دیا۔
ارون وتی رائے نے جو بھارت کی ’’بُکر پرائز‘‘ جیتنے والی معروف تجزیہ نگار ہیں، جموں و کشمیر کی تاریخی حقیقت کو اجاگر کر کے کشمیر پر غاصبانہ تسلط جمانے والے مکار ہندو بنیاء کے مکروہ عزائم کو ہی بے نقاب نہیں کیا، کشمیری عوام اور حریت پسندوں کے جذبے، جذبات اور مؤقف پر بھی مہر تصدیق ثبت کی ہے جبکہ ارون وتی کے اس بیان کی روشنی میں جہادِ کشمیر میں بھی نئی روح پیدا ہو گئی ہے جس سے کشمیری عوام کیلئے ایک واضح مقصد کے ساتھ منزل کا حصول بھی آسان ہو جائیگا۔
یہی اصل حقیقت ہے کہ کشمیر کبھی بھارت کا حصہ تھا نہ بن سکتا ہے اور بھارتی جبر کا کوئی ہتھکنڈہ کشمیری عوام کو ان کے مقاصد سے نہیں ہٹا سکتا۔ تقسیم ہند سے قبل دیگر ریاستوں کی طرح کشمیر کی بھی آزاد اور خودمختار حیثیت تھی جبکہ تقسیم ہند کے ایجنڈے کے تحت دیگر ریاستوں کے باشندوں کی طرح کشمیریوں کوبھی یہ فیصلہ کرنے کا حق حاصل تھا کہ انہوں نے ہندوستان میں شامل ہونا ہے یا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا ہے، کشمیری عوام نے تو 1945ء میں ہی اس واضح رائے کا اظہار کر دیا کہ ان کا مستقبل برصغیر کے مسلمانوں کیلئے قائم ہونیوالی آزاد مملکت پاکستان کے ساتھ وابستہ ہو گا، کشمیری عوام کے ان جذبات کو بھانپ کر ہی ہندو بنیاء نے وادیٔ کشمیر پر تقسیم ہند کا فارمولا لاگو نہ ہونے دیا اور بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کشمیر کو متنازعہ قرار دے کر اقوام متحدہ میں پہنچ گئے اور مسئلہ کشمیر کے تصفیہ کی درخواست گزاری جس پر یو این جنرل اسمبلی نے اپنی قرارداد کے ذریعے کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا اور نہرو کو کشمیر میں استصواب کا اہتمام کرانے کیلئے کہا مگر نہرو یو این جنرل اسمبلی کی اس قرارداد سے منحرف ہو گئے اور 1949ء میں کشمیر میں بھارتی افواج داخل کر کے اسکے بڑے حصے پر جبراً اپنا تسلط جما لیا جو نہ صرف 60 سال سے زیادہ عرصہ سے جاری ہے بلکہ غاصب و جابر بھارتی افواج اور دوسری سکیورٹی فورسز نے کشمیری عوام پر مظالم کی انتہا کر رکھی ہے۔
بھارتی بنیاء لیڈرشپ نے کشمیر پر اپنے جابرانہ قبضہ کا جواز پیدا کرنے کیلئے 1955ء میں بھارتی آئین میں ترمیم کر کے کشمیر کو باقاعدہ بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا اور وہاں اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کر دی مگر ایسے ہتھکنڈوں کے ذریعے کشمیری عوام کے دل جیتے جا سکے نہ انہیں کشمیر کی آزادی کی تحریک پر انکے اصولی مؤقف سے ہٹایا جا سکا، اپنی آزادی کی خاطر کشمیری عوام اب تک ایک لاکھ سے زائد انسانی جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں۔ کشمیری ماؤں، بہنوں، بیٹیوں نے مکروہ و ملعون بھارتی فوجوں کا ہر ظلم برداشت کیا ہے، اپنی عصمتوں کی قربانیاں دی ہیں‘ اپنے بھائیوں، بیٹوں، شوہروں، والدین اور دیگر عزیز و اقربا کے جنازے اٹھائے ہیں مگر صبر و استقلال کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے جسے اسکی تاریخی، جغرافیائی اور نظریاتی حیثیت کے پیش نظر قائداعظم نے خود پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا اس لئے کشمیر کے الحاق کے بغیر پاکستان کا وجود مکمل ہو سکتا ہے نہ تقسیم ہند کا ایجنڈہ پورا ہو سکتا ہے، اسی بنیاد پر پاکستان کے عوام کشمیری بھائیوں کو اپنے وجود کا حصہ سمجھتے ہیں اور انکی جدوجہد آزادی میں دامے درمے سخنے شریک رہتے ہیں‘ ہر مقامی اور عالمی فورم پر انکی آزادی کیلئے آواز بھی اٹھاتے ہیں اور انکی آواز میں اپنی آواز شامل بھی کرتے ہیں۔ گزشتہ چار پانچ ماہ سے جس عزم، ہمت اور حوصلہ مندی کے ساتھ کشمیری عوام نے اپنی آزادی کی منزل کی جانب رخت سفر باندھا ہوا ہے اور وہ بھارتی فوجوں کی لاٹھی، گولی، شیلنگ اور جبر و تشدد کے کسی بھی دوسرے ہتھکنڈے کو خاطر میں نہیں لا رہے اور سخت مزاحمت کر کے بھارتی فوجوں کو پسپائی پر مجبور کر رہے ہیں اسکے پیش نظر ہی ہندو منتریوں، مکھیا منتریوںکے علاوہ پردھان منتری اور سیناپتی کو بھی مکمل احساس و ادراک ہو چکا ہے کہ مقبوضہ وادی میں پُرعزم کشمیریوں سے جنگ جیتنا ان کیلئے آسان نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں بھارتی ’’سیناپتی‘‘ جنرل وی کے سنگھ تو متعدد مواقع پر بھارتی سورماؤں کو پسپا ہوتے دیکھ کر اپنے حکمرانوں کو مشورے دے چکے ہیں کہ مقبوضہ وادی سے بھارتی فوجیں واپس بلوا کر مسئلہ کشمیر کا کوئی سیاسی حل نکالا جائے، اسی مقصد کیلئے بھارتی منحنی وزیراعظم منموہن سنگھ نے نئی دہلی میں دو بار کشمیر ایشو پر آل پارٹیز کانفرنس طلب کی اور دونوں بار انہیں منہ کی کھانا پڑی۔ انہوں نے کشمیر کی خود مختاری کا دانہ بھی پھینکا مگر دال نہ گلی اور ان کیلئے پسپائی کی انتہا تو یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی انکی اے پی سی میں شرکت سے معذرت کر لی جبکہ اب بھارتی آرمی چیف پھر اپنے حکمرانوں کو آئینہ دکھا رہے ہیں کہ کشمیر میں حریت پسند زیادہ مؤثر ہو گئے ہیں مگر بھارت نے اب تک کشمیر سے متعلق حقائق پر سبق نہیں سیکھا۔
ظالم و مکار ہندو بنیاء کی تو اب بھی یہی کوشش ہے کہ جیسے بھی ہو کشمیری عوام کی آواز کو دبا دیا جائے، اس مقصد کیلئے وہ جبر کا کوئی ہتھکنڈہ بھی بروئے کار لانے سے باز نہیں آتا اور مکر و فریب کے جال بچھانے میں بھی مصروف ہے‘ اس وقت بھی بھارتی حکومت نے ایک بھارتی صحافی دلیپ بڈکانگر کی زیر قیادت ایک مذاکراتی ٹیم تشکیل دے رکھی ہے‘ جو کشمیر کے حریت رہنمائوں سے مذاکرات کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے۔ گزشتہ روز اس مذاکراتی ٹیم نے بزرگ کشمیری رہنماء سید علی گیلانی سے بھی جو گھر پر نظربند ہیں‘ ملاقات کی کوشش کی جنہوں نے اس پیغام کیساتھ ملاقات سے انکار کر دیا کہ پاکستان کے بغیر مسئلہ کشمیر کا حل ممکن نہیں۔ کشمیری عوام چونکہ ہندو بنیاء کی شیطانی ذہنیت اور مکروہ چہرے سے مکمل آشنا ہیں اس لئے وہ انکے کسی فریب میں آسکتے ہیں‘ نہ اپنی آزادی کی جانب تیزی سے بڑھائے جانیوالے قدم روک سکتے ہیں۔ جبکہ بھارتی تجزیہ نگار ارون وتی رائے نے تو اب انکی تحریک آزادی کو مہمیز لگا دی ہے‘ اس لئے یہی نادر وقت ہے کہ ہمارے حکمران مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے امریکہ سے امداد کی بھیک مانگنے اور بھارت کے ساتھ مذاکرات کی بے کار ایکسرسائز کرنے کے بجائے کھل کر کشمیری عوام کیساتھ آجائیں۔ انکی جدوجہد آزادی کو نہ صرف عالمی فورموں پر سپورٹ کریں بلکہ اس میں عملی طور پر شریک بھی ہو جائیں۔ بھارت تو اپنے خبث باطن کی بنیاد پر ویسے ہی ہم پر دراندازی کے الزامات لگاتا رہتا ہے اور گزشتہ روز بھی بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کی تان اسی پر ٹوٹی ہے کہ سرحد پار سے دہشت گردی کی پشت پناہی ہو رہی ہے۔
اس صورتحال میں جبکہ ہندو بنیاء اصل حقائق سے صرف نظر کرتے ہوئے کشمیر پر اپنی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی پر قائم ہے‘ مذاکرات کی میز پر یا امریکہ کے کسی کردار کے ذریعہ یو این قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کی ہرگز توقع نہیں‘ یہ مسئلہ حل ہونا ہے تو صرف طاقت کے زور پر‘ اس لئے کیوں نہ اسی آپشن کو آخری چارۂ کار کے طور پر استعمال کرلیا جائے اور اب جبکہ لوہا گرم ہے کشمیری عوام کا مکمل ساتھ دے کر انہیں آزادی کی منزل تک پہنچا دیا جائے‘ جس کے بعد کشمیر کے پاکستان کیساتھ الحاق کا مرحلہ شروع ہونا ہے‘ اگر ہم کشمیری عوام کی آزادی کی جدوجہد میں صدق دل سے ان کا ساتھ نبھائیں گے تو وہ الحاق پاکستان کے مرحلے میں ہمیں مایوس نہیں کرینگے اس لئے اب کشمیر پر گومگو کی بجائے واضح پالیسی اختیار کی جائے اور کشمیری عوام کے دل جیتے جائیں‘ کیا ہمارے حکمرانوں میں ارون وتی رائے جیسا جذبہ بھی موجود نہیں؟
جاگو! پاکستانی حکمرانو! جاگو! پاکستان کو زندہ رکھنے کیلئے! خود زندہ رہنے کیلئے‘ جاگو!
بھارت کی معروف تجزیہ نگار ارون وتی رائے نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کبھی بھارت کا حصہ (اٹوٹ انگ) نہیں رہا۔ بھارت نے 1948ء سے اسکے بڑے حصے پر جبراً قبضہ جما رکھا ہے۔ اتوار کے روز انہوں نے نئی دہلی میں ’’کشمیر کی آزادی یا غلامی‘‘ کے زیر عنوان منعقدہ ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ اٹوٹ انگ قرار دینے سے کشمیر بھارت کا حصہ نہیں بن سکتا کیونکہ جموں و کشمیر پر بھارت کا قبضہ غاصبانہ ہے۔ انہوں نے کہا ہے یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جموں و کشمیر کبھی بھارت کا حصہ نہیں رہا۔ انکے بقول جو اس تاریخی حقیقت کو جھٹلانے کی کوشش کرتا ہے وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے جبکہ خود بھارتی حکومت اس تاریخی حقیقت کو تسلیم کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے فوراً ہی بعد بھارت توسیع پسند طاقت بن گیا تھا، انہوں نے حریت رہنما سید علی گیلانی کی حمایت کی اور کشمیر کی آزادی کو مسئلہ کشمیر کا واحد حل قرار دیا۔
ارون وتی رائے نے جو بھارت کی ’’بُکر پرائز‘‘ جیتنے والی معروف تجزیہ نگار ہیں، جموں و کشمیر کی تاریخی حقیقت کو اجاگر کر کے کشمیر پر غاصبانہ تسلط جمانے والے مکار ہندو بنیاء کے مکروہ عزائم کو ہی بے نقاب نہیں کیا، کشمیری عوام اور حریت پسندوں کے جذبے، جذبات اور مؤقف پر بھی مہر تصدیق ثبت کی ہے جبکہ ارون وتی کے اس بیان کی روشنی میں جہادِ کشمیر میں بھی نئی روح پیدا ہو گئی ہے جس سے کشمیری عوام کیلئے ایک واضح مقصد کے ساتھ منزل کا حصول بھی آسان ہو جائیگا۔
یہی اصل حقیقت ہے کہ کشمیر کبھی بھارت کا حصہ تھا نہ بن سکتا ہے اور بھارتی جبر کا کوئی ہتھکنڈہ کشمیری عوام کو ان کے مقاصد سے نہیں ہٹا سکتا۔ تقسیم ہند سے قبل دیگر ریاستوں کی طرح کشمیر کی بھی آزاد اور خودمختار حیثیت تھی جبکہ تقسیم ہند کے ایجنڈے کے تحت دیگر ریاستوں کے باشندوں کی طرح کشمیریوں کوبھی یہ فیصلہ کرنے کا حق حاصل تھا کہ انہوں نے ہندوستان میں شامل ہونا ہے یا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا ہے، کشمیری عوام نے تو 1945ء میں ہی اس واضح رائے کا اظہار کر دیا کہ ان کا مستقبل برصغیر کے مسلمانوں کیلئے قائم ہونیوالی آزاد مملکت پاکستان کے ساتھ وابستہ ہو گا، کشمیری عوام کے ان جذبات کو بھانپ کر ہی ہندو بنیاء نے وادیٔ کشمیر پر تقسیم ہند کا فارمولا لاگو نہ ہونے دیا اور بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کشمیر کو متنازعہ قرار دے کر اقوام متحدہ میں پہنچ گئے اور مسئلہ کشمیر کے تصفیہ کی درخواست گزاری جس پر یو این جنرل اسمبلی نے اپنی قرارداد کے ذریعے کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا اور نہرو کو کشمیر میں استصواب کا اہتمام کرانے کیلئے کہا مگر نہرو یو این جنرل اسمبلی کی اس قرارداد سے منحرف ہو گئے اور 1949ء میں کشمیر میں بھارتی افواج داخل کر کے اسکے بڑے حصے پر جبراً اپنا تسلط جما لیا جو نہ صرف 60 سال سے زیادہ عرصہ سے جاری ہے بلکہ غاصب و جابر بھارتی افواج اور دوسری سکیورٹی فورسز نے کشمیری عوام پر مظالم کی انتہا کر رکھی ہے۔
بھارتی بنیاء لیڈرشپ نے کشمیر پر اپنے جابرانہ قبضہ کا جواز پیدا کرنے کیلئے 1955ء میں بھارتی آئین میں ترمیم کر کے کشمیر کو باقاعدہ بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا اور وہاں اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کر دی مگر ایسے ہتھکنڈوں کے ذریعے کشمیری عوام کے دل جیتے جا سکے نہ انہیں کشمیر کی آزادی کی تحریک پر انکے اصولی مؤقف سے ہٹایا جا سکا، اپنی آزادی کی خاطر کشمیری عوام اب تک ایک لاکھ سے زائد انسانی جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں۔ کشمیری ماؤں، بہنوں، بیٹیوں نے مکروہ و ملعون بھارتی فوجوں کا ہر ظلم برداشت کیا ہے، اپنی عصمتوں کی قربانیاں دی ہیں‘ اپنے بھائیوں، بیٹوں، شوہروں، والدین اور دیگر عزیز و اقربا کے جنازے اٹھائے ہیں مگر صبر و استقلال کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے جسے اسکی تاریخی، جغرافیائی اور نظریاتی حیثیت کے پیش نظر قائداعظم نے خود پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا اس لئے کشمیر کے الحاق کے بغیر پاکستان کا وجود مکمل ہو سکتا ہے نہ تقسیم ہند کا ایجنڈہ پورا ہو سکتا ہے، اسی بنیاد پر پاکستان کے عوام کشمیری بھائیوں کو اپنے وجود کا حصہ سمجھتے ہیں اور انکی جدوجہد آزادی میں دامے درمے سخنے شریک رہتے ہیں‘ ہر مقامی اور عالمی فورم پر انکی آزادی کیلئے آواز بھی اٹھاتے ہیں اور انکی آواز میں اپنی آواز شامل بھی کرتے ہیں۔ گزشتہ چار پانچ ماہ سے جس عزم، ہمت اور حوصلہ مندی کے ساتھ کشمیری عوام نے اپنی آزادی کی منزل کی جانب رخت سفر باندھا ہوا ہے اور وہ بھارتی فوجوں کی لاٹھی، گولی، شیلنگ اور جبر و تشدد کے کسی بھی دوسرے ہتھکنڈے کو خاطر میں نہیں لا رہے اور سخت مزاحمت کر کے بھارتی فوجوں کو پسپائی پر مجبور کر رہے ہیں اسکے پیش نظر ہی ہندو منتریوں، مکھیا منتریوںکے علاوہ پردھان منتری اور سیناپتی کو بھی مکمل احساس و ادراک ہو چکا ہے کہ مقبوضہ وادی میں پُرعزم کشمیریوں سے جنگ جیتنا ان کیلئے آسان نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں بھارتی ’’سیناپتی‘‘ جنرل وی کے سنگھ تو متعدد مواقع پر بھارتی سورماؤں کو پسپا ہوتے دیکھ کر اپنے حکمرانوں کو مشورے دے چکے ہیں کہ مقبوضہ وادی سے بھارتی فوجیں واپس بلوا کر مسئلہ کشمیر کا کوئی سیاسی حل نکالا جائے، اسی مقصد کیلئے بھارتی منحنی وزیراعظم منموہن سنگھ نے نئی دہلی میں دو بار کشمیر ایشو پر آل پارٹیز کانفرنس طلب کی اور دونوں بار انہیں منہ کی کھانا پڑی۔ انہوں نے کشمیر کی خود مختاری کا دانہ بھی پھینکا مگر دال نہ گلی اور ان کیلئے پسپائی کی انتہا تو یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی انکی اے پی سی میں شرکت سے معذرت کر لی جبکہ اب بھارتی آرمی چیف پھر اپنے حکمرانوں کو آئینہ دکھا رہے ہیں کہ کشمیر میں حریت پسند زیادہ مؤثر ہو گئے ہیں مگر بھارت نے اب تک کشمیر سے متعلق حقائق پر سبق نہیں سیکھا۔
ظالم و مکار ہندو بنیاء کی تو اب بھی یہی کوشش ہے کہ جیسے بھی ہو کشمیری عوام کی آواز کو دبا دیا جائے، اس مقصد کیلئے وہ جبر کا کوئی ہتھکنڈہ بھی بروئے کار لانے سے باز نہیں آتا اور مکر و فریب کے جال بچھانے میں بھی مصروف ہے‘ اس وقت بھی بھارتی حکومت نے ایک بھارتی صحافی دلیپ بڈکانگر کی زیر قیادت ایک مذاکراتی ٹیم تشکیل دے رکھی ہے‘ جو کشمیر کے حریت رہنمائوں سے مذاکرات کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے۔ گزشتہ روز اس مذاکراتی ٹیم نے بزرگ کشمیری رہنماء سید علی گیلانی سے بھی جو گھر پر نظربند ہیں‘ ملاقات کی کوشش کی جنہوں نے اس پیغام کیساتھ ملاقات سے انکار کر دیا کہ پاکستان کے بغیر مسئلہ کشمیر کا حل ممکن نہیں۔ کشمیری عوام چونکہ ہندو بنیاء کی شیطانی ذہنیت اور مکروہ چہرے سے مکمل آشنا ہیں اس لئے وہ انکے کسی فریب میں آسکتے ہیں‘ نہ اپنی آزادی کی جانب تیزی سے بڑھائے جانیوالے قدم روک سکتے ہیں۔ جبکہ بھارتی تجزیہ نگار ارون وتی رائے نے تو اب انکی تحریک آزادی کو مہمیز لگا دی ہے‘ اس لئے یہی نادر وقت ہے کہ ہمارے حکمران مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے امریکہ سے امداد کی بھیک مانگنے اور بھارت کے ساتھ مذاکرات کی بے کار ایکسرسائز کرنے کے بجائے کھل کر کشمیری عوام کیساتھ آجائیں۔ انکی جدوجہد آزادی کو نہ صرف عالمی فورموں پر سپورٹ کریں بلکہ اس میں عملی طور پر شریک بھی ہو جائیں۔ بھارت تو اپنے خبث باطن کی بنیاد پر ویسے ہی ہم پر دراندازی کے الزامات لگاتا رہتا ہے اور گزشتہ روز بھی بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کی تان اسی پر ٹوٹی ہے کہ سرحد پار سے دہشت گردی کی پشت پناہی ہو رہی ہے۔
اس صورتحال میں جبکہ ہندو بنیاء اصل حقائق سے صرف نظر کرتے ہوئے کشمیر پر اپنی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی پر قائم ہے‘ مذاکرات کی میز پر یا امریکہ کے کسی کردار کے ذریعہ یو این قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کی ہرگز توقع نہیں‘ یہ مسئلہ حل ہونا ہے تو صرف طاقت کے زور پر‘ اس لئے کیوں نہ اسی آپشن کو آخری چارۂ کار کے طور پر استعمال کرلیا جائے اور اب جبکہ لوہا گرم ہے کشمیری عوام کا مکمل ساتھ دے کر انہیں آزادی کی منزل تک پہنچا دیا جائے‘ جس کے بعد کشمیر کے پاکستان کیساتھ الحاق کا مرحلہ شروع ہونا ہے‘ اگر ہم کشمیری عوام کی آزادی کی جدوجہد میں صدق دل سے ان کا ساتھ نبھائیں گے تو وہ الحاق پاکستان کے مرحلے میں ہمیں مایوس نہیں کرینگے اس لئے اب کشمیر پر گومگو کی بجائے واضح پالیسی اختیار کی جائے اور کشمیری عوام کے دل جیتے جائیں‘ کیا ہمارے حکمرانوں میں ارون وتی رائے جیسا جذبہ بھی موجود نہیں؟
جاگو! پاکستانی حکمرانو! جاگو! پاکستان کو زندہ رکھنے کیلئے! خود زندہ رہنے کیلئے‘ جاگو!