جاسم محمد
محفلین
جمہوریت اور عدلیہ کا ہتھوڑا
15/05/2020 ڈاکٹر ناظر محمود
چلیں اس بات سے ابتدا کرتے ہیں کہ جمہوریت کیا ہے۔ ہم جمہوریت کی تعریف یوں کرسکتے ہیں کہ یہ عوام کی رائے کا اظہار ہے جسے ووٹوں یا چناؤ کے ذریعے سامنے لایا جاتا ہے۔ اور اس رائے کا استعمال عوامی نمائندے کرتے ہیں۔ رائے عامہ ضروری نہیں کہ سول اور فوجی افسر شاہی کی پسند وناپسند کے مطابق ہو۔
رائے عامہ عدلیہ کے فیصلوں کے برعکس بھی ہوسکتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ یا مقتدرہ کے مخالف بھی۔ رائے عامہ کو پامال کرنے کے لیے سول و فوجی افسر شاہی کے پاس کئی طریقے ہوتے ہیں اگر یہ طریقے آسانی سے کام نہ آئیں تو عدلیہ کا ہتھوڑا یا فوجی کی بندوق سے کام چل سکتا ہے۔ غالباً یہ بات ریٹائرڈ جنرل فیض علی چشتی نے کہی تھی کہ وزیر اعظم کے گھر یا ایوان صدر پر قبضے کے لیے صرف ایک ٹرک اور دو جیپ کی ضرورت ہوتی ہے۔
رائے عامہ کو کچلنے کا ایک اور طریقہ یہ ہوتا ہے کہ انتخابات ہونے ہی نہ دیے جائیں تاکہ لوگ اپنی رائے کا اظہار ہی نہ کرسکیں ایک اور راستہ یہ ہوسکتا ہے کہ انتخابات تو ہونے دیے جائیں لیکن اس سے پہلے یا اس کے دوران پورے انتخابی عمل پر ہی سوال اٹھا دیے جائیں یا پھر انتخابات کے بعد انہیں دھاندلی زدہ قرار دیاجائے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ انتخابات سے قبل ہی عدلیہ کا ہتھوڑا استعمال کرکے ناپسندیدہ عناصر کو انتخابی عمل سے باہر کردیا جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مطلوبہ قانون سازی نہ ہونے دی جائے یا پھر ان میں نقائص نکال کر انتخابات کو ملتوی کردیا جائے۔ پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پرتشدد واقعات کروا کر دہشت گردی کے ذریعے لوگوں سے ووت ڈالنے کا حق چھین لیا جائے۔
تشدد اور دہشت گردی کا ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ انتخابی جلسے جلوس اور دیگر سرگرمیوں میں حصہ لینے سے کترانے لگتے ہیں جس سے غیر جمہوری لوگوں کی بن آتی ہے پھر انتخابات کے دوران پولنگ اسٹیشن پر قبضے کیے جاسکتے ہیں۔ پولنگ کے پورے عمل کو ہائی جیک کیا جاسکتا ہے یا پھر بیلٹ بکس ہی قبضے میں لے کر گنتی کے عمل کو متنازع بنایا جاسکتا ہے جعلی ووٹ بھگتائے جاسکتے ہیں یا پھر خاص طبقوں کے کو لوگوں کو انتخابی عمل سے باہر رکھا جاسکتا ہے مثلاً خواتین یا اقلیتی افراد کو حق رائے دہی سے محروم رکھا جاسکتا ہے۔
پھر انتخابات کے بعد دھرنے کرائے جاسکتے ہیں تاکہ جولوگ منتخب ہوکر آئے ہیں وہ سکون سے کام نہ کرسکیں۔ پھر ان دھرنوں کو بندوق اور ہتھوڑے دونوں کی مدد حاصل ہوسکتی ہے اور جب جمہوری حکومت لرز رہی ہو تو دھرنا کرنے والوں کو دامے درمے مدد کی جاسکتی ہے تاکہ وہ آئندہ بھی اپنی خدمات پیش کرنے میں تامل نہ کریں۔ بندوق اور ہتھوڑے کو انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے مگر دھرنے باز بدمعاشوں کے خلاف نہیں کیوں کہ وہ تو اپنے لوگ ہیں اور اپنے لوگوں کے خلاف کیسے کارروائی کی جاسکتی ہے۔
عدلیہ کا ہتھوڑا ان لوگوں کے خلاف حرکت میں نہیں آتا جو زہر اگلتے رہتے ہیں اور جمہوریت کو ہی برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ یہی ہتھوڑا جمہوری حکومت کو ہر بات کا ذمہ دار قرار دے کر جواب دہ ٹھہراتا ہے مگر غیر جمہوری قوتوں کے خلاف اسے سانپ سونگھ جاتا ہے۔
اس پر بھی اگر جمہوری حکومت جیسے تیسے چلتی رہے تو اسے ہر وقت پل صراط پر چلنا ہوتا ہے کہ حکومت اب گری کہ تب گری۔ ہم پورے پاکستان کی تاریخ کو اس پس منظر میں سمجھ سکتے ہیں۔ خاص طور پر پہلے دس سال کی تاریخ کو۔ جب پاکستان وجود میں آیا تو آئین سازی کا عمل ملتوی ہوتا رہا اور اسے بار بار پٹری سے اتارا گیا۔ رائے عامہ کا کبھی احترام نہیں کیا گیا۔ مثلاً جگتو فرنٹ کی مشرقی پاکستان میں 1954 میں کامیابی کے بعد نومنتخب وزیر اعلیٰ اے کے فضل الحق کو چند ہفتوں بعد ہی برطرف کردیا گیا۔
پھر جب آئین وجود میں آیا تو 1956 کے بعد اسے صرف دو ڈھائی سال بعد ہی منسوخ کردیا گیا اور پہلے عام انتخابات غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی بل کہ منسوخ کردیے گئے۔ اس سارے عمل میں بندوق اور ہتھوڑا دونوں عوام کے ساتھ نہیں تھے بلکہ طاقت وروں کے ساتھ تھے۔ جب خود ساختہ فیلڈ مارشل اور صدر جنرل ایوب خان نے 1965 کے انتخابات میں بھاری دھاندلی کی تو اپنی پوری ریاستی مشینری کی مدد سے محترمہ فاطمہ جناح کو ہرانے کا اعلان کیا۔
اور اس پر بھی عدلیہ کا ہتھوڑا خاموش رہا۔ جب 1962 کے آئین کو 1969 میں خود اس کے بنانے والے نے توڑا تو بھی عدلیہ کا ہتھوڑا خاموش رہا۔ جنرل یحییٰ خان کے اقتدار پر قبضے کو مشہور عاصمہ جیلانی مقدمے میں غیر قانونی قرار دیا گیا مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ جنرل یحییٰ اپنے گھر میں مزے لے رہے اور انہیں کوئی سزا نہ دی گئی۔
1971 کی فوجی کارروائی میں بہیمانہ مظالم کیے گئے ان کے مجرموں کی نشاندہی حمود الرحمان کمیشن میں کی گئی مگر کسی عدلیہ نے جنگی جرائم کے مجرموں کے خلاف فرد جرم عائد نہیں کی۔ جب ذوالفقار علی بھٹو خود اپنے آئین کو توڑ مروڑ رہے تھے تو اس وقت بھی عدلیہ کا ہتھوڑا خاموش رہا بلکہ بھٹو کے غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدامات کو عدلیہ نے ہی تقوت پہنچائی مثلاً نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی اور بلوچستان میں فوجی کارروائی کو عدلیہ نے تحفظ فراہم کیا پھر جب جنرل ضیاءالحق نے بھٹو کو نشانہ بنایا اور فوجی بغاوت برپا کی تو اس وقت بھی ہتھوڑا سوتا رہا بلکہ خود بھٹو کے خلاف متحرک ہو گیا۔
جنرل ضیاءالحق نے تمام جمہوری اور آئینی روایات کا گلا گھونٹ دیا مگر عدلیہ اس کے ساتھ کھڑی رہی۔ بھٹو کا عدالتی قتل انصاف کا مذاق اڑانا تھا جس میں جج اور جنرل دونوں شریک تھے۔ اب بھی یہ مقدمہ اس بات کی مثال ہے کہ عوامی رہ نماؤں کو کیسے ذلیل و خوار کرکے موت کے گھاٹ اتارا جاسکتا ہے اور اس لیے ہتھوڑے کا غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کا مقصد ایسے عوامی رہنماؤں کو راستے سے ہٹانا ہوتا ہے جو مقبولیت کے عروج پر ہوں۔ خود عدلیہ کے حلقوں میں اب تک بھٹو کے مقدمے کو ایک بدنام زمانہ مقدمہ سمجھا جاتا ہے جس کی دیگر قتل کے مقدمات میں مثال تک نہیں دی جاتی۔
جنرل ضیا الحق کے گیارہ سالہ دور میں آئین کو توڑا مروڑا گیا اور اس کی شکل بدل دی گئی لیکن کسی جج نے اس کے خلاف کچھ نہیں کیا نہ ہی آئین کی بالادستی کی بات کی۔ کئی نئے قوانین جو جمہوری طور پر منتخب پارلیمان نے نہیں بلکہ فوجی جرنیلوں اور ان کے حواریوں نے بنائے تھے ملک پرمسلط کیے گئے جن کے ذریعے خواتین اور اقلیتوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ عقائد اور انسانی حقوق پر پابندیاں لگائی گئیں۔ لیکن کسی عدلیہ کے کسی جج نے ”آئین کے بنیادی ڈھانچے“ کا دفاع نہیں کیا۔ نام نہاد مجلس شوریٰ کو کسی جج نے نہیں للکارا جب کہ وہ آئین میں ترامیم منظور کرکے جنرل ضیا الحق کے احکام کو قانونی جواز فراہم کررہی تھی اور ایسے قوانین بنا رہی تھی جن سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اعلامیے کی خلاف ورزی ہوتی تھی۔
جنرل ضیا الحق نے خود اپنا پسندیدہ وزیر اعظم برطرف کیا تو عدلیہ نے اس قدم کو غیر آئینی قرار دیا مگر صرف اس وقت جب کہ جنرل ضیا طیارے کے ساتھ پھٹ کر مر چکا تھا۔ لیکن پھر بھی جونیجو کو بحال نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس غیر قانونی قدم پر جنرل ضیا الحق اور اس کے جو ساتھی حیات تھے ان کو کوئی سزا سنائی گئی۔ وہ سارے لوگ جنرل ضیاءالحق کی گیارہ سالہ آمریت میں اس کے ساتھ مل کر ملک، آئین، انسانی حقوق اور جمہوریت کا گلا گھونٹے رہے انہیں کسی عدلیہ نے نہیں پکڑا نہ سزا دی۔
پھر 1990 کے عشرے میں افسر شاہی کے سب سے بڑے نمائندہ غلام اسحاق خان نے جمہوریت کے ساتھ جو کھلواڑ کیا اس پر بھی بندوق اور ہتھوڑا دونوں اس کے ساتھ رہے۔ جب جسٹس سجاد علی شاہ کو خود ان کے برادر ججوں نے ہٹایا تو کوئی ایسا حکم نہیں دیا گیا جس میں سجاد علی شاہ کے فیصلوں کو منسوخ کیا جاتا جس سے بے نظیر کی حکومت بحال ہوجاتی۔
1999 میں پھر نواز شریف کے بھاری مینڈیٹ اور دو تہائی اکثریت کو جنرل پرویز مشرف نے کوڑے میں پھینک دیا جس سے ایک بار پھر آئینی بحران پیدا ہوا اور جمہوریت پٹری سے اتر گئی مگر عدالت عالیہ اور اس کے ججوں نے فوجی آمر کا ساتھ دینے میں کوئی دیر نہ لگائی اور جمہوریت کے ساتھ زیادتی کی۔ ایک بار پھر آئین کا ”بنیادی ڈھانچہ“ بری طرح مسخ کردیا گیا مگر عبوری آئینی احکامات کے تحت حلف اٹھانے والے پی سی او ججوں نے خود اپنی کھال بچانے میں عافیت جانی۔
غالباً پاکستان کی تاریخ کے واحد چیف جسٹس جنہوں نے کسی آمر ک سامنے جھکنے سے انکار کیا وہ افتخار محمد چوہدری تھے مگر انہوں نے بھی بعد میں بحال ہونے کے بعد آمر کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی۔ البتہ خود اپنے ججوں کی بڑی تعداد کو گھر بھیج دیا۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کبھی جنرل مشرف کے ساتھیوں کے خلاف بھی کارروائی نہیں کی نہ جسٹس چودھری نے جنرل مشرف کو ایک بار پھر صدر منتخب کرانے سے روکا جس کے ذریعے پورا صدارتی انتخاب ایک مذاق بن گیا۔
لیکن جیسے ہی ایک منتخب سیاسی حکومت اقتدار میں آئی جسٹس چودہری ایک دم بیدار ہو کر متحرک ہوگئے اور پیپلز پارٹی کے پورے پانچ سالہ دور میں اس کے خلاف کارروائیاں کرتے رہے اور خود آگے بڑھ کر انتظامی معاملات میں بھی فیصلے کرنے لگے اور حکومت کو بے دست و پا کردیا۔ حتیٰ کہ ایک منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو عدلیہ نے برطرف کردیا اور پارلیمان کی خاک اڑا دی۔
جب نواز شریف ایک بار پھر منتخب وزیر اعظم بنے تو انہیں بھی اپنی مدت وزارت عظمیٰ پوری نہ کرنے دی گئی بلکہ انہیں پارٹی قیادت کے لیے بھی نا اہل قرار دے دیا گیا۔ جسٹس ثاقب نثار نے اس ملک میں جمہوریت، سیاست اور پارلیمان کو ذلیل و خوار کرنے میں جو گھناؤنا کردار ادا کیا وہ پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے۔ انہوں نے خود اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کرنے کے بجائے ڈیم کا چند جمع کرنے، ہسپتالوں کے معاملات میں مداخلت کرنے اور خود اپنی عدالت میں سائلین کو ذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔
مختصر یہ کہ پاکستان کی پون صدی کی تاریخ میں عدلیہ کے ہتھوڑے نے اکثرو بیشتر بندوق والوں کا ساتھ دیا۔ جمہوری کی جڑیں کھودنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور آمروں کو پارلیمان سے کھلواڑ کی مکمل اجازت دی۔
جسٹس منیر، جسٹس مولوی مشتاق اور جسٹس انوار الحق سے لے کر جسٹس نسیم حسن شاہ، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس ارشاد حسن خان سے لے کر جسٹس افتخار چودہری، جسٹس حمید ڈوگر اور ثاقب نثار تک سب نے اپنی اپنی توفیق کے مطابق اس ملک میں عدلیہ کے ہتھوڑے کو جمہوریت اور سیاست کے خلاف استعمال کیا اور ہاں اس میں جسٹس جاوید اقبال کا نام رہ گیا جو عدلیہ سے ریٹائر ہوکر بھی احتساب کے نام پر جمہوریت، سیاست اور میڈیا کے خلاف اپنی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
15/05/2020 ڈاکٹر ناظر محمود
چلیں اس بات سے ابتدا کرتے ہیں کہ جمہوریت کیا ہے۔ ہم جمہوریت کی تعریف یوں کرسکتے ہیں کہ یہ عوام کی رائے کا اظہار ہے جسے ووٹوں یا چناؤ کے ذریعے سامنے لایا جاتا ہے۔ اور اس رائے کا استعمال عوامی نمائندے کرتے ہیں۔ رائے عامہ ضروری نہیں کہ سول اور فوجی افسر شاہی کی پسند وناپسند کے مطابق ہو۔
رائے عامہ عدلیہ کے فیصلوں کے برعکس بھی ہوسکتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ یا مقتدرہ کے مخالف بھی۔ رائے عامہ کو پامال کرنے کے لیے سول و فوجی افسر شاہی کے پاس کئی طریقے ہوتے ہیں اگر یہ طریقے آسانی سے کام نہ آئیں تو عدلیہ کا ہتھوڑا یا فوجی کی بندوق سے کام چل سکتا ہے۔ غالباً یہ بات ریٹائرڈ جنرل فیض علی چشتی نے کہی تھی کہ وزیر اعظم کے گھر یا ایوان صدر پر قبضے کے لیے صرف ایک ٹرک اور دو جیپ کی ضرورت ہوتی ہے۔
رائے عامہ کو کچلنے کا ایک اور طریقہ یہ ہوتا ہے کہ انتخابات ہونے ہی نہ دیے جائیں تاکہ لوگ اپنی رائے کا اظہار ہی نہ کرسکیں ایک اور راستہ یہ ہوسکتا ہے کہ انتخابات تو ہونے دیے جائیں لیکن اس سے پہلے یا اس کے دوران پورے انتخابی عمل پر ہی سوال اٹھا دیے جائیں یا پھر انتخابات کے بعد انہیں دھاندلی زدہ قرار دیاجائے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ انتخابات سے قبل ہی عدلیہ کا ہتھوڑا استعمال کرکے ناپسندیدہ عناصر کو انتخابی عمل سے باہر کردیا جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مطلوبہ قانون سازی نہ ہونے دی جائے یا پھر ان میں نقائص نکال کر انتخابات کو ملتوی کردیا جائے۔ پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پرتشدد واقعات کروا کر دہشت گردی کے ذریعے لوگوں سے ووت ڈالنے کا حق چھین لیا جائے۔
تشدد اور دہشت گردی کا ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ انتخابی جلسے جلوس اور دیگر سرگرمیوں میں حصہ لینے سے کترانے لگتے ہیں جس سے غیر جمہوری لوگوں کی بن آتی ہے پھر انتخابات کے دوران پولنگ اسٹیشن پر قبضے کیے جاسکتے ہیں۔ پولنگ کے پورے عمل کو ہائی جیک کیا جاسکتا ہے یا پھر بیلٹ بکس ہی قبضے میں لے کر گنتی کے عمل کو متنازع بنایا جاسکتا ہے جعلی ووٹ بھگتائے جاسکتے ہیں یا پھر خاص طبقوں کے کو لوگوں کو انتخابی عمل سے باہر رکھا جاسکتا ہے مثلاً خواتین یا اقلیتی افراد کو حق رائے دہی سے محروم رکھا جاسکتا ہے۔
پھر انتخابات کے بعد دھرنے کرائے جاسکتے ہیں تاکہ جولوگ منتخب ہوکر آئے ہیں وہ سکون سے کام نہ کرسکیں۔ پھر ان دھرنوں کو بندوق اور ہتھوڑے دونوں کی مدد حاصل ہوسکتی ہے اور جب جمہوری حکومت لرز رہی ہو تو دھرنا کرنے والوں کو دامے درمے مدد کی جاسکتی ہے تاکہ وہ آئندہ بھی اپنی خدمات پیش کرنے میں تامل نہ کریں۔ بندوق اور ہتھوڑے کو انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے مگر دھرنے باز بدمعاشوں کے خلاف نہیں کیوں کہ وہ تو اپنے لوگ ہیں اور اپنے لوگوں کے خلاف کیسے کارروائی کی جاسکتی ہے۔
عدلیہ کا ہتھوڑا ان لوگوں کے خلاف حرکت میں نہیں آتا جو زہر اگلتے رہتے ہیں اور جمہوریت کو ہی برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ یہی ہتھوڑا جمہوری حکومت کو ہر بات کا ذمہ دار قرار دے کر جواب دہ ٹھہراتا ہے مگر غیر جمہوری قوتوں کے خلاف اسے سانپ سونگھ جاتا ہے۔
اس پر بھی اگر جمہوری حکومت جیسے تیسے چلتی رہے تو اسے ہر وقت پل صراط پر چلنا ہوتا ہے کہ حکومت اب گری کہ تب گری۔ ہم پورے پاکستان کی تاریخ کو اس پس منظر میں سمجھ سکتے ہیں۔ خاص طور پر پہلے دس سال کی تاریخ کو۔ جب پاکستان وجود میں آیا تو آئین سازی کا عمل ملتوی ہوتا رہا اور اسے بار بار پٹری سے اتارا گیا۔ رائے عامہ کا کبھی احترام نہیں کیا گیا۔ مثلاً جگتو فرنٹ کی مشرقی پاکستان میں 1954 میں کامیابی کے بعد نومنتخب وزیر اعلیٰ اے کے فضل الحق کو چند ہفتوں بعد ہی برطرف کردیا گیا۔
پھر جب آئین وجود میں آیا تو 1956 کے بعد اسے صرف دو ڈھائی سال بعد ہی منسوخ کردیا گیا اور پہلے عام انتخابات غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی بل کہ منسوخ کردیے گئے۔ اس سارے عمل میں بندوق اور ہتھوڑا دونوں عوام کے ساتھ نہیں تھے بلکہ طاقت وروں کے ساتھ تھے۔ جب خود ساختہ فیلڈ مارشل اور صدر جنرل ایوب خان نے 1965 کے انتخابات میں بھاری دھاندلی کی تو اپنی پوری ریاستی مشینری کی مدد سے محترمہ فاطمہ جناح کو ہرانے کا اعلان کیا۔
اور اس پر بھی عدلیہ کا ہتھوڑا خاموش رہا۔ جب 1962 کے آئین کو 1969 میں خود اس کے بنانے والے نے توڑا تو بھی عدلیہ کا ہتھوڑا خاموش رہا۔ جنرل یحییٰ خان کے اقتدار پر قبضے کو مشہور عاصمہ جیلانی مقدمے میں غیر قانونی قرار دیا گیا مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ جنرل یحییٰ اپنے گھر میں مزے لے رہے اور انہیں کوئی سزا نہ دی گئی۔
1971 کی فوجی کارروائی میں بہیمانہ مظالم کیے گئے ان کے مجرموں کی نشاندہی حمود الرحمان کمیشن میں کی گئی مگر کسی عدلیہ نے جنگی جرائم کے مجرموں کے خلاف فرد جرم عائد نہیں کی۔ جب ذوالفقار علی بھٹو خود اپنے آئین کو توڑ مروڑ رہے تھے تو اس وقت بھی عدلیہ کا ہتھوڑا خاموش رہا بلکہ بھٹو کے غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدامات کو عدلیہ نے ہی تقوت پہنچائی مثلاً نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی اور بلوچستان میں فوجی کارروائی کو عدلیہ نے تحفظ فراہم کیا پھر جب جنرل ضیاءالحق نے بھٹو کو نشانہ بنایا اور فوجی بغاوت برپا کی تو اس وقت بھی ہتھوڑا سوتا رہا بلکہ خود بھٹو کے خلاف متحرک ہو گیا۔
جنرل ضیاءالحق نے تمام جمہوری اور آئینی روایات کا گلا گھونٹ دیا مگر عدلیہ اس کے ساتھ کھڑی رہی۔ بھٹو کا عدالتی قتل انصاف کا مذاق اڑانا تھا جس میں جج اور جنرل دونوں شریک تھے۔ اب بھی یہ مقدمہ اس بات کی مثال ہے کہ عوامی رہ نماؤں کو کیسے ذلیل و خوار کرکے موت کے گھاٹ اتارا جاسکتا ہے اور اس لیے ہتھوڑے کا غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کا مقصد ایسے عوامی رہنماؤں کو راستے سے ہٹانا ہوتا ہے جو مقبولیت کے عروج پر ہوں۔ خود عدلیہ کے حلقوں میں اب تک بھٹو کے مقدمے کو ایک بدنام زمانہ مقدمہ سمجھا جاتا ہے جس کی دیگر قتل کے مقدمات میں مثال تک نہیں دی جاتی۔
جنرل ضیا الحق کے گیارہ سالہ دور میں آئین کو توڑا مروڑا گیا اور اس کی شکل بدل دی گئی لیکن کسی جج نے اس کے خلاف کچھ نہیں کیا نہ ہی آئین کی بالادستی کی بات کی۔ کئی نئے قوانین جو جمہوری طور پر منتخب پارلیمان نے نہیں بلکہ فوجی جرنیلوں اور ان کے حواریوں نے بنائے تھے ملک پرمسلط کیے گئے جن کے ذریعے خواتین اور اقلیتوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ عقائد اور انسانی حقوق پر پابندیاں لگائی گئیں۔ لیکن کسی عدلیہ کے کسی جج نے ”آئین کے بنیادی ڈھانچے“ کا دفاع نہیں کیا۔ نام نہاد مجلس شوریٰ کو کسی جج نے نہیں للکارا جب کہ وہ آئین میں ترامیم منظور کرکے جنرل ضیا الحق کے احکام کو قانونی جواز فراہم کررہی تھی اور ایسے قوانین بنا رہی تھی جن سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اعلامیے کی خلاف ورزی ہوتی تھی۔
جنرل ضیا الحق نے خود اپنا پسندیدہ وزیر اعظم برطرف کیا تو عدلیہ نے اس قدم کو غیر آئینی قرار دیا مگر صرف اس وقت جب کہ جنرل ضیا طیارے کے ساتھ پھٹ کر مر چکا تھا۔ لیکن پھر بھی جونیجو کو بحال نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس غیر قانونی قدم پر جنرل ضیا الحق اور اس کے جو ساتھی حیات تھے ان کو کوئی سزا سنائی گئی۔ وہ سارے لوگ جنرل ضیاءالحق کی گیارہ سالہ آمریت میں اس کے ساتھ مل کر ملک، آئین، انسانی حقوق اور جمہوریت کا گلا گھونٹے رہے انہیں کسی عدلیہ نے نہیں پکڑا نہ سزا دی۔
پھر 1990 کے عشرے میں افسر شاہی کے سب سے بڑے نمائندہ غلام اسحاق خان نے جمہوریت کے ساتھ جو کھلواڑ کیا اس پر بھی بندوق اور ہتھوڑا دونوں اس کے ساتھ رہے۔ جب جسٹس سجاد علی شاہ کو خود ان کے برادر ججوں نے ہٹایا تو کوئی ایسا حکم نہیں دیا گیا جس میں سجاد علی شاہ کے فیصلوں کو منسوخ کیا جاتا جس سے بے نظیر کی حکومت بحال ہوجاتی۔
1999 میں پھر نواز شریف کے بھاری مینڈیٹ اور دو تہائی اکثریت کو جنرل پرویز مشرف نے کوڑے میں پھینک دیا جس سے ایک بار پھر آئینی بحران پیدا ہوا اور جمہوریت پٹری سے اتر گئی مگر عدالت عالیہ اور اس کے ججوں نے فوجی آمر کا ساتھ دینے میں کوئی دیر نہ لگائی اور جمہوریت کے ساتھ زیادتی کی۔ ایک بار پھر آئین کا ”بنیادی ڈھانچہ“ بری طرح مسخ کردیا گیا مگر عبوری آئینی احکامات کے تحت حلف اٹھانے والے پی سی او ججوں نے خود اپنی کھال بچانے میں عافیت جانی۔
غالباً پاکستان کی تاریخ کے واحد چیف جسٹس جنہوں نے کسی آمر ک سامنے جھکنے سے انکار کیا وہ افتخار محمد چوہدری تھے مگر انہوں نے بھی بعد میں بحال ہونے کے بعد آمر کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی۔ البتہ خود اپنے ججوں کی بڑی تعداد کو گھر بھیج دیا۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کبھی جنرل مشرف کے ساتھیوں کے خلاف بھی کارروائی نہیں کی نہ جسٹس چودھری نے جنرل مشرف کو ایک بار پھر صدر منتخب کرانے سے روکا جس کے ذریعے پورا صدارتی انتخاب ایک مذاق بن گیا۔
لیکن جیسے ہی ایک منتخب سیاسی حکومت اقتدار میں آئی جسٹس چودہری ایک دم بیدار ہو کر متحرک ہوگئے اور پیپلز پارٹی کے پورے پانچ سالہ دور میں اس کے خلاف کارروائیاں کرتے رہے اور خود آگے بڑھ کر انتظامی معاملات میں بھی فیصلے کرنے لگے اور حکومت کو بے دست و پا کردیا۔ حتیٰ کہ ایک منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو عدلیہ نے برطرف کردیا اور پارلیمان کی خاک اڑا دی۔
جب نواز شریف ایک بار پھر منتخب وزیر اعظم بنے تو انہیں بھی اپنی مدت وزارت عظمیٰ پوری نہ کرنے دی گئی بلکہ انہیں پارٹی قیادت کے لیے بھی نا اہل قرار دے دیا گیا۔ جسٹس ثاقب نثار نے اس ملک میں جمہوریت، سیاست اور پارلیمان کو ذلیل و خوار کرنے میں جو گھناؤنا کردار ادا کیا وہ پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے۔ انہوں نے خود اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کرنے کے بجائے ڈیم کا چند جمع کرنے، ہسپتالوں کے معاملات میں مداخلت کرنے اور خود اپنی عدالت میں سائلین کو ذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔
مختصر یہ کہ پاکستان کی پون صدی کی تاریخ میں عدلیہ کے ہتھوڑے نے اکثرو بیشتر بندوق والوں کا ساتھ دیا۔ جمہوری کی جڑیں کھودنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور آمروں کو پارلیمان سے کھلواڑ کی مکمل اجازت دی۔
جسٹس منیر، جسٹس مولوی مشتاق اور جسٹس انوار الحق سے لے کر جسٹس نسیم حسن شاہ، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس ارشاد حسن خان سے لے کر جسٹس افتخار چودہری، جسٹس حمید ڈوگر اور ثاقب نثار تک سب نے اپنی اپنی توفیق کے مطابق اس ملک میں عدلیہ کے ہتھوڑے کو جمہوریت اور سیاست کے خلاف استعمال کیا اور ہاں اس میں جسٹس جاوید اقبال کا نام رہ گیا جو عدلیہ سے ریٹائر ہوکر بھی احتساب کے نام پر جمہوریت، سیاست اور میڈیا کے خلاف اپنی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔