یاد رہے کہ ملکی تاریخ میں صرف عمران خان ہی واحد سیاستدان نہیں ہے جو بزور اسٹیبلشمنٹ اقتدار میں آیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آپ یہ تو مانتے ہیں کہ اس سے پہلے جو بزور اسٹیبلشمنٹ اقتدار میں آئے وہ نا اہل تھے لیکن یہ ماننے پہ راضی نہیں کہ جو اب آیا ہے وہ بھی نا اہل ہی ہے۔
کسی حکمران کی اہلیت یا غیر اہل ہونے کا تعلق فوج کی لانچنگ سے نہیں بلکہ موقع ملنے کے بعد کارکردگی دکھانے سے ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو بار بار اقتدار میں آنے کا موقع ملا۔ اگر یہ دونوں سیاسی جماعتیں ملک کو بہتری کی طرف لے جاتی تو فوج کو مزید سیاسی انجینئرنگ کی ضرورت نہ پڑتی۔ اور جمہوری نظام اپنے آپ مستحکم ہوجاتا۔ اس کی بجائے ان جماعتوں کے لیڈران کرپشن اور قومی خزانے کی لوٹ مار میں لگےرہے۔ اور جب احتساب کا عمل شروع ہوتا تو سیاسی شہادت کا نعرہ لگا کر یہ جا وہ جا۔ پھر اسی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل وغیرہ کر کے واپس آکر قوم کے سروں پر دوبارہ سوار۔
ان حالات میں کسی تیسری سیاسی قوت کا آنا ناگزیر تھا۔ اور یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا۔ لیکن قوم بہرحال شریفین اور زرداریوں کے عشق میں مبتلا تھی۔ اس لئے 2008 اور 2013 میں دوبارہ ان دونوں سیاسی جماعتوں کو پرفارم کرنے کا بھرپور موقع دیا گیا۔ مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پاٹ۔ اگر بار بار نااہل سیاسی قیادت کو اقتدار دے دینے سے جمہوریت پنپتی ہے (کیونکہ بد ترین جمہوریت آمریت سے بہتر ہے) تو بھارت میں کانگریس کا جمود پورے 50 سال حکومت کرنے کے بعد بھی نہیں ٹوٹا۔ اس دوران میں دیگر ایشیائی ممالک جیسے تائیوان، جنوبی کوریا، چین اور سنگاپور آمریت جیسی جمہوریت کے ساتھ کہیں زیادہ ترقی کر گئے۔ اور آج ہر میدان میں مغربی جمہوریتوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
قطع نظر اس کے کہ عمران خان کو کس نے لانچ کیا۔ ان کی اہلیت یا نااہلی پانچ سال حکومت کے بعد ہی سامنے آئے گی۔ یاد رہے کہ عمران خان کے پاس یہ پہلاحکومتی منصب ہے۔ جب تحریک انصاف کی کے پی کے میں حکومت تھی تووہ اس وقت بھی صرف پارٹی چیئرمین تھے۔ کیونکہ ان کو اقتدار کی حوس ہی نہیں ہے۔ بلکہ اقتدار پورے ملک کی سمت بدلنے اور اسے ٹھیک کرنے کیلئے درکار تھا۔ جس کے لئے انہوں نے 22 سال جدوجہد کی ہے۔ اگر کسی کے کندھے پر چڑھ کر وزیر بننا ہوتا تو یہ آفر ضیاءالحق، نواز شریف اور مشرف کئی بار آن ریکارڈ کر چکے تھے۔ مگر عمران خان نے اس چور دروازے سے اقتدار میں آنے کو مسترد کر دیا۔
1992 میں ورلڈ کپ جیتنے کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم اور آج کل کے قیدی نواز شریف نے ٹیم کے اعزاز میں پارٹی رکھی تھی۔ وہاں ایک بیرون ملک سے آئے صحافی نے سوال پوچھا کہ کیا عمران خان سیاست میں جانا پسند کریں گے۔ جس پر نواز شریف نے کہا کہ میں تو ان کو کئی بار آفرکر چکا ہوں مگر یہ مانتے ہی نہیں۔ پتا نہیں کیوں۔
اب جیل میں بیٹھ کر یاد کریں کہ کیوں: