جمہوریت بہترین انتظام ہے

سول اداروں میں غیر منظم کرپشن ہوتی ہے تبھی عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں جبکہ جہاں منظم کرپشن ہوتی ہے اس کا تذکرہ کرنا تو بجا، آنکھ اٹھا کر کسی کو دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔
او پائین۔۔۔۔ فوج اور عدالتوں (یا جرنیلوں اور ججوں) کا اپنا ذاتی قسم کا نظام احتساب ہوتا ہے، اب کیا وہ کرپشن وغیرہ کے معمولی الزامات میں نیب، پولیس، ایف آئی اے اور کلاس تھری کے سول ججوں کے سامنے حاضر ہوتے اچھے لگے گے۔۔۔۔ جانے دیجیے۔۔۔۔ ایسی ہی ایک خوائش سابقہ وزیراعظم نے ایک نجی محفل میں کی تھی اور اب ان کا حال دیکھ لیجیے۔
 
کسی ادارے پر تنقید کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اس ادارے سے نفرت کریں۔ پاکستان فوج ایک بہترین فوج ہے ۔ یہ ملک کا دفاع کرنے ی صلاحیت رکھتی ہے اور اس کا ثبوت بارہا دے چکی ہے۔ لیکن ہم سب یہ جانتے ہیں کہ سڑک پر 13 سال کی لڑکی ، گود میں اپنی عزت لٹا کر ایک بچہ اٹھائے، ریستورانوں کے آگے بھیک مانگتی، اس بات کا ثبوت ہے کہ یہی فوج ، ملک کے اندر کا دفاع کرنے کے قابل نہیں۔

فوجی یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی کام مشکل نہیں ، یہ ان کے لئے ضروری ہے تاکہ وہ جنگ لڑ سکیں۔
لیکن جس طرح ایک ڈاکٹر فورئیر ٹرانسفار نہیں بکال سکتا
انجینئر ، دل کا آپریشن نہیں کرسکتا،
اسی طرح فوجی صرف اور صرف فوج کی ایڈمنسٹریشن کرسکتا ہے ، وہ کسی قسم کے سرمایاکاری، فائنانس، کاروبار، اور کاروباری نظریات میں صفر ہوتا ہے۔ بلکہ بہت ہی خطرناک ہوتا ہے کہ سمجھتا ہے کہ وہ سب کچھ جانتا ہے اور اب اس کو کسی بھی مدد کی ضرورت نہیں۔

اگر پاکستان کی عسکری قوتیں ، اپنی حدود میں رہیں تو یقینی طور پر یہی سابقہ حکومتیں اور آنے والی حکومتیں بہتر طریقے سے پرفارم کر پائیں گی۔ یا پھر عسکری طاقتیں کھل کر ذمہ داری قبول کریں، کیا وجہ ہے کہ فوج اسمبلیاں توڑتی رہی ہے؟ اس کا فائیدہ کس کو ہوا ہے؟ اور کیا وجہ ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے فوری بعد فوج نے سپریم کورٹ کی مدد سے گیلانی کو برطرف کیا؟ اس کی ضرورت کیا
ہونا یہ چاہئے کہ سپریم کورت چیف آف آرمی سٹاف کو حکم دے کہ جاؤ کشمیر فتح کرکے لاؤ اور پھر نافرمانی پر ایک کے بعد ایک جنرل کو برطرف کیا جائے۔ کیا مذاق ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
یاد رہے کہ ملکی تاریخ میں صرف عمران خان ہی واحد سیاستدان نہیں ہے جو بزور اسٹیبلشمنٹ اقتدار میں آیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آپ یہ تو مانتے ہیں کہ اس سے پہلے جو بزور اسٹیبلشمنٹ اقتدار میں آئے وہ نا اہل تھے لیکن یہ ماننے پہ راضی نہیں کہ جو اب آیا ہے وہ بھی نا اہل ہی ہے۔
کسی حکمران کی اہلیت یا غیر اہل ہونے کا تعلق فوج کی لانچنگ سے نہیں بلکہ موقع ملنے کے بعد کارکردگی دکھانے سے ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو بار بار اقتدار میں آنے کا موقع ملا۔ اگر یہ دونوں سیاسی جماعتیں ملک کو بہتری کی طرف لے جاتی تو فوج کو مزید سیاسی انجینئرنگ کی ضرورت نہ پڑتی۔ اور جمہوری نظام اپنے آپ مستحکم ہوجاتا۔ اس کی بجائے ان جماعتوں کے لیڈران کرپشن اور قومی خزانے کی لوٹ مار میں لگےرہے۔ اور جب احتساب کا عمل شروع ہوتا تو سیاسی شہادت کا نعرہ لگا کر یہ جا وہ جا۔ پھر اسی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل وغیرہ کر کے واپس آکر قوم کے سروں پر دوبارہ سوار۔
ان حالات میں کسی تیسری سیاسی قوت کا آنا ناگزیر تھا۔ اور یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا۔ لیکن قوم بہرحال شریفین اور زرداریوں کے عشق میں مبتلا تھی۔ اس لئے 2008 اور 2013 میں دوبارہ ان دونوں سیاسی جماعتوں کو پرفارم کرنے کا بھرپور موقع دیا گیا۔ مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پاٹ۔ اگر بار بار نااہل سیاسی قیادت کو اقتدار دے دینے سے جمہوریت پنپتی ہے (کیونکہ بد ترین جمہوریت آمریت سے بہتر ہے) تو بھارت میں کانگریس کا جمود پورے 50 سال حکومت کرنے کے بعد بھی نہیں ٹوٹا۔ اس دوران میں دیگر ایشیائی ممالک جیسے تائیوان، جنوبی کوریا، چین اور سنگاپور آمریت جیسی جمہوریت کے ساتھ کہیں زیادہ ترقی کر گئے۔ اور آج ہر میدان میں مغربی جمہوریتوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
قطع نظر اس کے کہ عمران خان کو کس نے لانچ کیا۔ ان کی اہلیت یا نااہلی پانچ سال حکومت کے بعد ہی سامنے آئے گی۔ یاد رہے کہ عمران خان کے پاس یہ پہلاحکومتی منصب ہے۔ جب تحریک انصاف کی کے پی کے میں حکومت تھی تووہ اس وقت بھی صرف پارٹی چیئرمین تھے۔ کیونکہ ان کو اقتدار کی حوس ہی نہیں ہے۔ بلکہ اقتدار پورے ملک کی سمت بدلنے اور اسے ٹھیک کرنے کیلئے درکار تھا۔ جس کے لئے انہوں نے 22 سال جدوجہد کی ہے۔ اگر کسی کے کندھے پر چڑھ کر وزیر بننا ہوتا تو یہ آفر ضیاءالحق، نواز شریف اور مشرف کئی بار آن ریکارڈ کر چکے تھے۔ مگر عمران خان نے اس چور دروازے سے اقتدار میں آنے کو مسترد کر دیا۔
1992 میں ورلڈ کپ جیتنے کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم اور آج کل کے قیدی نواز شریف نے ٹیم کے اعزاز میں پارٹی رکھی تھی۔ وہاں ایک بیرون ملک سے آئے صحافی نے سوال پوچھا کہ کیا عمران خان سیاست میں جانا پسند کریں گے۔ جس پر نواز شریف نے کہا کہ میں تو ان کو کئی بار آفرکر چکا ہوں مگر یہ مانتے ہی نہیں۔ پتا نہیں کیوں۔
اب جیل میں بیٹھ کر یاد کریں کہ کیوں:
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
سول اداروں میں غیر منظم کرپشن ہوتی ہے تبھی عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں جبکہ جہاں منظم کرپشن ہوتی ہے اس کا تذکرہ کرنا تو بجا، آنکھ اٹھا کر کسی کو دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔
یہ محض آپ کا وہم اور خام خیالی ہے کہ عسکری منظم کرپشن کے خلاف کوئی بات نہیں ہوتی۔ آئے روز میڈیا میں اس قسم کے سکینڈلز سامنے آتے رہتے ہیں۔ اور یہ صرف پاک فوج کا خاصا نہیں ہے۔ دیگر دنیا کی افواج میں موجود کالی بھیڑیں بھی اسی قسم کے گھپلے کرتی ہیں اور اپنے آپ کو خود ہی قوم کی نظروں میں گراتی ہیں۔
PAF converts land for ‘national security’ into housing scheme in Lahore
 

جاسم محمد

محفلین
ایسی ہی ایک خوائش سابقہ وزیراعظم نے ایک نجی محفل میں کی تھی اور اب ان کا حال دیکھ لیجیے۔
آپ کے جمہوری قائد نواز شریف کو بدنیتی اور نا اہلیت کی سزا ملی ہے۔ ان کے ابا جی نے جیسے تیسے جرنیلوں سے اچھے تعلقات قائم کر کے اپنے نکمے بیٹے کی سیاست میں چور دروازےسے اینٹری کروا دی تھی۔ مگر اب بیٹے کا فرض تھا کہ اس ذمہ داری کو بھرپور انداز میں نبھاتا۔ اور جو سیاسی غلطیاں بھٹو کر چکے تھے ان کو دوبارہ نہ دہراتا۔ مگر موصوف پر انتقام کی آگ سوار تھی۔
اس لئے موصوف نے پہلے فوج کے ساتھ مل کر بینظیر کی منتخب حکومت گرا دی۔ پھر پہلی بار وزیر اعظم بنے تو صدر پاکستان سے پنگا لے کر اس کو بھی گھر بھیجا اور خود بھی جانا پڑا۔ دوبارہ اقتدار میں آئے تو دو تہائی اکثریت ساتھ لائے۔ اس بھرپور قوت کے ساتھ وہ پوری ملک کی تقدیر بدل سکتے تھے۔ مگر ایٹمی دھماکوں کی چول مار دی۔ ساتھ میں سپریم کورٹ کے جج سےپنگا لے کر اس پر اپنے گلو بٹوں سے حملہ کروا دیا۔ رہی سہی کسر ایوان میں امیر المومنین بننے کیلئے آئینی ترامیم نے پوری کر دی۔ کیونکہ شو مئی قسمت دو تہائی اکثریت تھی۔تمام اپوزیشن مل کر بھی ان کا بال بیکا نہیں کر سکتی تھی۔
اقتدار کے حوس میں مشغول اس بدمست ہاتھی کو لگام ڈالنا ضروری تھی۔ سو فوج نے تختہ الٹ دیا۔ اور اس دو تہائی اکثریت والے جمہوری لیڈر کے حق میں عوام کا جم غفیر تو کیا جلسی بھی باہر نہیں نکلی۔ پھر یہ جمہوری لیڈر کہتے ہیں کہ اصل میں حکومت تو فوج کی ہے جب تختہ الٹنے کے بعد عوام ان کی بجائے فوج کو سپورٹ کرے گی تو اصل حکومت فوج ہی کے ہاتھ میں رہے گی۔ اردوگان ، منڈیلا بننا کیلئے جیل جانے کی نہیں، کیریکٹر والا حکمران بننے کی ضرورت ہے۔ جس سے یہ دونوں سیاسی جماعتوں کے لیڈران عاری ہیں۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
ہونا یہ چاہئے کہ سپریم کورت چیف آف آرمی سٹاف کو حکم دے کہ جاؤ کشمیر فتح کرکے لاؤ اور پھر نافرمانی پر ایک کے بعد ایک جنرل کو برطرف کیا جائے۔ کیا مذاق ہے؟
بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ پاک فوج کا آپریشن جبرالٹر جس کی بنیاد پر 1965 کی ہولناک جنگ چھڑی تھی۔ وہ دراصل ذوالفقار علی بھٹو کا برین چائلڈ تھا۔ اس وقت بھٹو ایوب خان کی سلیکٹڈ کابینہ میں وزیر خارجہ ہوا کرتے تھے۔ اور جنرل ایوب خان کی ریزرویشنز کے باوجود انہوں نے جرنیلوں کی ٹاپ براس کو قائل کر لیا کہ یہ آپریشن کشمیر حاصل کر نے کیلئے ناگزیر ہے۔
البتہ جب پاکستان کو اس جنگ کے سنگین نتائج بھگتنے پڑے اور عالمی قوتوں کے ایماء پربھارت کے ساتھ معاہدہ تاشقند ہوا۔ تو اسی بھٹو نے جس نے جرنیلوں کو کشمیر فتح کرنے کیلئے بھیجا تھا ، اس معاہدہ کی مخالفت شروع کردی۔ نتیجتاً جنرل ایوب خان نے اپنی کابینہ سے بھٹو کی چھٹی کرادی اور اس منافق نے اس بنیاد پر اپنی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ جو آج تک سندھ میں بھٹو زندہ ہے کے نام سے مقبول ہے۔
 

جان

محفلین
کسی حکمران کی اہلیت یا غیر اہل ہونے کا تعلق فوج کی لانچنگ سے نہیں بلکہ موقع ملنے کے بعد کارکردگی دکھانے سے ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو بار بار اقتدار میں آنے کا موقع ملا۔ اگر یہ دونوں سیاسی جماعتیں ملک کو بہتری کی طرف لے جاتی تو فوج کو مزید سیاسی انجینئرنگ کی ضرورت نہ پڑتی۔ اور جمہوری نظام اپنے آپ مستحکم ہوجاتا۔ اس کی بجائے ان جماعتوں کے لیڈران کرپشن اور قومی خزانے کی لوٹ مار میں لگےرہے۔ اور جب احتساب کا عمل شروع ہوتا تو سیاسی شہادت کا نعرہ لگا کر یہ جا وہ جا۔ پھر اسی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل وغیرہ کر کے واپس آکر قوم کے سروں پر دوبارہ سوار۔
ان حالات میں کسی تیسری سیاسی قوت کا آنا ناگزیر تھا۔ اور یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا۔ لیکن قوم بہرحال شریفین اور زرداریوں کے عشق میں مبتلا تھی۔ اس لئے 2008 اور 2013 میں دوبارہ ان دونوں سیاسی جماعتوں کو پرفارم کرنے کا بھرپور موقع دیا گیا۔ مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پاٹ۔ اگر بار بار نااہل سیاسی قیادت کو اقتدار دے دینے سے جمہوریت پنپتی ہے (کیونکہ بد ترین جمہوریت آمریت سے بہتر ہے) تو بھارت میں کانگریس کا جمود پورے 50 سال حکومت کرنے کے بعد بھی نہیں ٹوٹا۔ اس دوران میں دیگر ایشیائی ممالک جیسے تائیوان، جنوبی کوریا، چین اور سنگاپور آمریت جیسی جمہوریت کے ساتھ کہیں زیادہ ترقی کر گئے۔ اور آج ہر میدان میں مغربی جمہوریتوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
قطع نظر اس کے کہ عمران خان کو کس نے لانچ کیا۔ ان کی اہلیت یا نااہلی پانچ سال حکومت کے بعد ہی سامنے آئے گی۔ یاد رہے کہ عمران خان کے پاس یہ پہلاحکومتی منصب ہے۔ جب تحریک انصاف کی کے پی کے میں حکومت تھی تووہ اس وقت بھی صرف پارٹی چیئرمین تھے۔ کیونکہ ان کو اقتدار کی حوس ہی نہیں ہے۔ بلکہ اقتدار پورے ملک کی سمت بدلنے اور اسے ٹھیک کرنے کیلئے درکار تھا۔ جس کے لئے انہوں نے 22 سال جدوجہد کی ہے۔ اگر کسی کے کندھے پر چڑھ کر وزیر بننا ہوتا تو یہ آفر ضیاءالحق، نواز شریف اور مشرف کئی بار آن ریکارڈ کر چکے تھے۔ مگر عمران خان نے اس چور دروازے سے اقتدار میں آنے کو مسترد کر دیا۔
1992 میں ورلڈ کپ جیتنے کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم اور آج کل کے قیدی نواز شریف نے ٹیم کے اعزاز میں پارٹی رکھی تھی۔ وہاں ایک بیرون ملک سے آئے صحافی نے سوال پوچھا کہ کیا عمران خان سیاست میں جانا پسند کریں گے۔ جس پر نواز شریف نے کہا کہ میں تو ان کو کئی بار آفرکر چکا ہوں مگر یہ مانتے ہی نہیں۔ پتا نہیں کیوں۔
اب جیل میں بیٹھ کر یاد کریں کہ کیوں:
پائین سانوں معافی دیو تے خدا دا واسطہ جے سانوں ٹیگ نہ کرنا دوبارہ۔
 

جاسم محمد

محفلین
پائین سانوں معافی دیو تے خدا دا واسطہ جے سانوں ٹیگ نہ کرنا دوبارہ۔
اور ہمیں بھی مزید ٹیگ نہ کیا جاوے ۔۔۔! ہم بھی یہ 'پکا راگ' سُن سُن کر عاجز آ چکے ۔۔۔! :)
جی بہتر۔ ویسے بھی حکومت اور اپوزیشن دونوں کا مؤقف واضح ہو چکا ہے۔ قارئین اسے پڑھ کر خود ہی غلط صحیح کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
 
Top