جمہوریت علامہ اقبال کی نگاہ میں

جمہوریت علامہ اقبال کی نگاہ میں
ربط
نیا آئین منظور ہوا ،تو صدر ِتیونس نے اپنے دیس کو دنیائے عرب کی پہلی جمہوری مملکت قرار دیا۔یہ ایک بڑی اہم سیاسی تبدیلی ہے۔سوال یہ ہے کہ تیونسی جمہوریت کا خمیر مغربی نظریات سے اٹھے گا یا اسلامی اقدار و تعلیمات سے؟مسلم مفکرین مغربی جمہوریت کو شک و شبہے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جن میں شاعر مشرقؒ سرفہرست ہیں۔یہ 1926ء کی بات ہے جب علامہ اقبالؒ نے پنجاب اسمبلی (لیجسلیٹلو کونسل) کا انتخاب لڑا اور کامیاب رہے۔
انہوں نے پھر اسمبلی کے تمام سیشنوں کی کارروائی میں بھر پور حصہ لیا اور مختلف موضوعات پر تقاریر کیں۔آپ اکثر کسانوں ‘مزدوروں اور خواتین کے حقوق کی بات کرتے تھے۔ درج بالا حقیقت آشکارا کرتی ہے کہ علامہ اقبالؒ نظریاتی ہی نہیں عملی سیاست داں اور جمہوری لیڈر بھی تھے۔حقیقتاً آپ کا سیاسی قد کاٹھ بڑی تیزی سے ابھرا۔آپ 1924ء سے سیاسی سرگرمیوں میں باقاعدہ حصہ لینے لگے اور محض چھ سال بعد الہ آباد میں تصورِ پاکستان کو عملی شکل دے ڈالی۔ دور جدید کے یہ قد آور مسلم فلسفی ومفکر ہر قسم کی آمریت اور زور زبردستی کو سخت ناپسند کرتے تھے۔آپ کی خواہش تھی کہ عوام اپنی تقدیر و مستقبل کے خود مالک بن جائیں۔اسی عوامی یا جمہوری قوت کو شاعر مشرق نے اپنے ایک شعر میں یوں بیان کیا
؎ سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے‘مٹا دو
علامہ اقبالؒ کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ بذریعہ اجتہاد دور جدید کے مسلمانوں کو زوال سے نکالا جائے۔اسی سلسلے میں انہوں نے سات خطبے بھی دئیے جو ’’تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ چناں چہ دیکھنا چاہیے کہ ہمارے نامور جدید اسلامی مفکر نے جمہوریت کو کس نظرسے دیکھا جسے شدت پسند غیر اسلامی قرار دیتے ہیں۔
ممتاز انگریز شاعر،الیگزینڈر پوپ کا قول ہے:’’صرف بے وقوف ہی حکومت پانے کی خاطر لڑتے ہیں۔‘‘لیکن علامہ اقبال کے نزدیک حکومت کی ہئیت بہت اہم ہے…کیونکہ وہی ایک قوم کا کردار تشکیل دیتی اور اسے کامیابیوں یا ناکامیوں سے ہمکنار کرتی ہے۔‘‘

(بحوالہ علامہ اقبالؒ کی ڈائری)تاریخِ انسانی بھی علامہ کی فکر پر صاد کرتی اور بتاتی ہے کہ جن ملکوں میں آمریت کی حکمرانی رہی، وہاں بزدل اور کم ہمت اقوام نے جنم لیا۔دوسری طرف جمہوریت ہر انسان میں دلیری و خود اعتمادی پیدا کرتی اور اسے یہ موقع دیتی ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں سے بھر پور فائدہ اٹھا سکے

۔تاہم علامہ اقبالؒ مغربی طرز جمہوریت کے قدرداں ہرگز نہ تھے۔ اس ناپسندیدگی کی پہلی وجہ یہ کہ مغربی جمہوریت ’’معیار‘‘(Quality) نہیں ’’مقدار‘‘(Quantity) پر استوار ہے۔وہ تمام انسانوں کو برابر تو کھڑا کر دیتی ہے ،لیکن تعلیم،قابلیت اور صلاحیتوں کے لحاظ سے ان میں کوئی تمیز نہیں کرتی۔اسی لیے علامہ اقبال نے مغربی جمہوریت پر یوں طنز کیا
؎ جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں،تولا نہیں کرتے

شاعر مشرق نے اسی باعث مغربی جمہوریت کو برہنہ تلوار (تیغ بے نیامی) قرار دیا۔نیزیہ مثال دے کر اپنے مقدمے کو مضبوط بنایا:
’’دو سو گدھے مل کر بھی ایک انسانی ذہن کی برابری نہیں کر سکتے۔‘‘
چونکہ جمہوریت کوئی فلسفہ یا نظریہ نہیں محض طرزِ حکومت ہے،اسی لیے پچھلے دو برس میں یہ کئی اشکال اختیار کر چکا ۔مثلاً برطانوی جمہوریت جہاں آج بھی بادشاہت کے محدود روپ میں زندہ ہے۔یا امریکی جمہوریت جہاں صدر سب سے طاقتور حیثیت رکھتا ہے۔مگر انہی جمہوری یا عوام دوست ممالک کے حکمرانوں نے پچھلے دو سو برس میں انسانیت پر بے انتہا ظلم بھی ڈھائے اور جنگ و جدل کی انتہا کر دی۔ اسی باعث ’’بال جبرئیل ‘‘میں حیرت زدہ شیطان بھی پکار اٹھتا ہے
؎ جمہور کے ابلیس ہیں ارباب ِسیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک
سو علامہ اقبالؒ کے نزدیک اخلاقی و مذہبی اصولوں سے عاری مغربی جمہوریت دراصل آمریت ہی کا نیا روپ ہے۔چناں چہ دنیائے مغرب میں امیر حکمران طبقہ عوام کا استحصال کر کے اپنی حکمرانی برقرار رکھے ہوئے ہے۔بس جمہوریت کے نام پر عوام کو کچھ سہولتیں دے دی جاتی ہیں تاکہ وہ مطیع و فرماں بردار رہ سکے۔
مزید برآں مغربی جمہوریت میں اقلیت کو رگیدنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔مثلاً 1887ء میں سر سید احمد خاں نے کہا تھا ’’اگر ہندوستان میں (برطانوی) جمہوریت آئی، تو ہندوستانی مسلمان خود کو ہندوئوں کے رحم و کرم پر پائیں گے۔‘‘آ ج بھارتی مسلمانوں کی حالت ِزار ہمارے سامنے ہے۔ گویا مغربی جمہوریت اکثریت کو یہ موقع دے ڈالتی ہے کہ وہ من مانی کر سکے۔اسی باعث علامہ اقبالؒ کہہ اٹھے
؎ تونے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہور ی نظام
چہرہ روشن،اندروں چنگیز سے تاریک تر

علامہ کے نزدیک بہترین جمہوری حکومت وہ ہے جو عدل انصاف، مساوات اور محبت کے دائمی اصول اپنائے ۔مشہور ماہر اقبالیات،ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم نے اپنی کتاب ’’فکرِاقبال‘‘ میں شاعر مشرق کے نظریہِ جمہوریت کو بخوبی بیان کیا ہے:’’اسلام بہترین جمہوریت کا تصّور سامنے لایا اور جسے بقول اقبالؒ عملی شکل میں ڈھالا جا سکتا ہے۔یہ اسلام ہی ہے جس نے مسلمانوں کو مساوات اختیار کرنے کا حکم دیا۔اورسمجھایا کہ بذریعہ مشاورت حکومت چلائی جائے۔اس نے ایک عام مسلمان کو طاقت بخشی کہ عدالت میں امیر المومنین کو طلب کر سکے۔اسلام نے آزادی ضمیر کا اعلان کیا،فلاحی مملکت کا قیام ممکن بنایا اور حکمران کو یہ ذمے داری سونپی کو وہ محض حکومتی انتظام نہ چلائے بلکہ عوام کو بنیادی ضروریات زندگی بھی مہیا کرے۔اسلام نے ذات پات کا نظام ختم کر ڈالا‘ہر مسلمان کو طرز زندگی اختیارکرنے کی آزادی بخشی اور مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ دولت کو چند ہاتھوں میں مرتکز نہ ہونے دیں۔‘‘

علامہ اقبالؒ کے نزدیک ایسے اسلامی جمہوری نظام میں مقدار نہیں معیار اہم ہے۔ اور ہر انسان اپنی قابلیت و صلاحیت کے مطابق معاشرے میں مقام پائے گا۔نیز حکومت بھی قابل ترین شہریوں کی مشاورت سے چلائی جائے گی۔اس ضمن میں ڈاکٹر عبدالحکیم ’’فکر اقبال‘‘ میں مزید لکھتے ہیں:
’’دنیائے اسلام میں فی الوقت تنگ نظری اور جہل پسندی کا زور ہے۔اگر مسلمان اپنے اندر اسلام کی روحانی خصوصیات پیدا کر لیں اور ظاہر پرکم سے کم توجہ دیں،تو اسلامی ممالک میں ایسی زبردست جمہوریت وجود میں آئے گی جسے دیکھ کر برطانیہ و امریکہ کے سیاسی نظام شرما جائیں اور خود کو کمتر محسوس کریں ۔‘‘
 

حسینی

محفلین
یقینا جمہوریت عقلی اور اسلامی بنیادوں پر کامل نظام نہیں ہے۔۔۔ کبھی بھی جمہوریت حق اور سچ کی نشانی نہیں۔۔۔ چونکہ اکثریت باطل پر بھی اکھٹے ہو سکتے ہیں۔۔
ہاں البتہ اس وقت دنیا میں موجود نظاموں میں جمہوریت اگر حقیقی معنوں میں جمہوریت ہو، 35 پنکچروں والی جمہوریت نہ ہو، تو سب سے برتر نظام ہے۔
 

arifkarim

معطل
’’دنیائے اسلام میں فی الوقت تنگ نظری اور جہل پسندی کا زور ہے۔اگر مسلمان اپنے اندر اسلام کی روحانی خصوصیات پیدا کر لیں اور ظاہر پرکم سے کم توجہ دیں،تو اسلامی ممالک میں ایسی زبردست جمہوریت وجود میں آئے گی جسے دیکھ کر برطانیہ و امریکہ کے سیاسی نظام شرما جائیں اور خود کو کمتر محسوس کریں ۔‘‘
پورے مغرب سے اجتماعی بغض اور نفرت سے بھرپور مضمون شیئر کرنے کا بہت بہت شکریہ! آپکی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ مغرب میں جمہوریت کو محض مقدار ہی نہیں بلکہ معیار کے ترازو پر بھی تولا جاتا ہے۔ اور اس پیمانہ کے مطابق اس وقت دنیا کی بہترین اور معیاری جمہوریتیں اسکینڈینوین ممالک ہیں جن میں خاکسار کا ملک ناروے کئی سالوں سے مسلسل اول نمبر پر آرہا ہے۔ یہاں کی جمہوریت اسقدر معیاری اور قابل تعریف ہے کہ حسن نثار جیسے سخت تجزیہ نگار بھی یہاں محض ایک ہفتے کے قیام کے بعد ناروےکے قصیدے پڑھتے رخصت ہوئے:
b312.gif

http://democracyranking.org/?page_id=738#prettyPhoto[rank]/0/

اس رینکنگ کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جمہوریت کا معیار 110 نمبر رہا ہے یعنی آخری پوزیشن سے 5 نمبر آگے! :D
 
مدیر کی آخری تدوین:

arifkarim

معطل
یقینا جمہوریت عقلی اور اسلامی بنیادوں پر کامل نظام نہیں ہے۔۔۔ کبھی بھی جمہوریت حق اور سچ کی نشانی نہیں۔۔۔ چونکہ اکثریت باطل پر بھی اکھٹے ہو سکتے ہیں۔۔
ہاں البتہ اس وقت دنیا میں موجود نظاموں میں جمہوریت اگر حقیقی معنوں میں جمہوریت ہو، 35 پنکچروں والی جمہوریت نہ ہو، تو سب سے برتر نظام ہے۔

حسینی
مندرجہ بالا پوسٹ دیکھیں۔
 

حسینی

محفلین
حسینی
مندرجہ بالا پوسٹ دیکھیں۔
چین کا بدترین جمہوریت میں دوسرا نمبر (یا چھٹا ظاہرا) دیکھ کر تعجب ہوا۔۔ اس سے آگے تو دنیا میں موجود بادشاہتوں کا ہونا چاہیے تھا۔ ہاں البتہ بادشاہت اگر جمہوریت کی اس فہرست میں اصلا شامل ہی نہ ہو تو الگ بات ہے۔ لیکن پھر بحرین میں بھی تو بادشاہت ہے۔
میرا یہ ماننا ہے کہ جمہوریت (حقیقی) اس وقت دنیا میں جتنے بھی نظام چل رہے ہیں ان میں بہترین ہے۔۔ لیکن جمہوریت کو کبھی بھی حق اور سچ کا معیار نہیں بنا سکتے۔۔ مغرب میں اب سیاست کے علاوہ اخلاق، حقوق اور دوسرے میدانوں میں بھی جمہور کی نظر ہی دیکھا جاتا ہے۔۔۔ یا بلکہ اکثر شخصی آزادی پر زور دیا جاتا ہے۔۔ لیکن اسلام کہتا ہے کہ کچھ سچ ہیں، کچھ چیزیں ثابت ہیں، کچھ حقائق ہیں جن کے خلاف اگر پوری دنیا بھی اکھٹی ہو وہ تبدیل نہیں ہو سکتی۔ پس ہمیں جمہوریت کو اک قراردا کی طرح ماننا چاہیے کہ ہم آپس میں اتفاق کر لیتے ہیں کہ جس کو زیادہ رائے حاصل ہو وہ اجتماعی اور سیاسی امور کو امور چلائے گا۔
 

زیک

مسافر
چین کا بدترین جمہوریت میں دوسرا نمبر (یا چھٹا ظاہرا) دیکھ کر تعجب ہوا۔۔ اس سے آگے تو دنیا میں موجود بادشاہتوں کا ہونا چاہیے تھا۔ ہاں البتہ بادشاہت اگر جمہوریت کی اس فہرست میں اصلا شامل ہی نہ ہو تو الگ بات ہے۔ لیکن پھر بحرین میں بھی تو بادشاہت ہے۔
چین یقینا صحیح مقام پر ہے۔ جو ملک گرے رنگ میں ہیں وہ اس میں شامل نہیں۔
 

arifkarim

معطل
کیا آپ اب کمیونزم کے حق میں ہیں؟

یہاں آپ عام برین واشڈ امریکی کی طرح جواب دے رہے ہیں! حضرت، موجودہ سرمایہ دارانہ نظام اور سوویت کمیونیزم کے درمیان اور بہت سے بہتر اور منصفانہ نظام معیشت و مالیات موجود ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہم ہر موجودہ مغربی نظام کی تنقید پر اسکے مخالف شدت پسند نظام کا فروغ چاہتے ہوں۔ اوپر کی پوسٹ میں الف نظامی نے جو خاکہ پیش کیا ہے وہ بالکل درست ہے۔ یہی خاکہ کچھ عرصہ قبل مشہور بلومبرگ کی سائیٹ پر موجود تھا:
econ_onepercentchart15_630.jpg

http://www.businessweek.com/articles/2014-04-03/top-tenth-of-1-percenters-reaps-all-the-riches
ہم یہاں امریکی کیپٹل ازم کو نشانہ نہیں بنا رہے لیکن جس غیر منصفانہ انداز میں اسکو 1970 - 1980 سے چلایا جا رہا ہے اسپر تنقید کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ وہی سرمایہ دارانہ نظام ہے جو مغربی کامیاب معیشت کی بنیاد ہے۔ البتہ پچھلی چند دہائیوں سے اسمیں ایسے خطرناک غیر منصفانہ عناصر نے جنم لیا ہے جسکی بدولت امیر دانستہ طور پر مزید امیر اور غریب مزید غریب ہورہا ہے۔ اگر آپ اسی نظام کے حامی ہیں تو پھر آپکی سوچ میں مسئلہ ہے ۔ کیونکہ یہ سب کچھ اب سائنسی طور پر ثابت ہوچکا ہے:
http://www.theguardian.com/books/2014/apr/28/thomas-piketty-capital-surprise-bestseller
 
پاکستانی جمہوریت ہماری نظر میں

نوحہ
محمد خلیل الرحمٰن

’’جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جِس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے‘‘

اِک بار عدد بن کے جو بکسوں میں پڑے ہیں
ہر بات میں، بے بات میں بولا نہیں کرتے

بے دِ ل ہیں ، ضمیر اپنے ابھی بیچ چکے ہیں
پہلو میں وہ دھڑکن کو ٹٹولا نہیں کرتے

اِس طرزِ سیاست کی سیاست ہے نرالی
سسٹم کی بُرائی کبھی کھولا نہیں کرتے

باری کے جو رسیا ہیں وہی کھیل رہے ہیں
کمّی کبھی اِس کھیل میں بولا نہیں کرتے

موجودہ سیاست بھی تو جاگیر ہے اُن کی
گھٹّی میں پڑی ہے ، اسے گھولا نہیں کرتے

سوجاؤ الیکشن تو ابھی دور ہیں لوگو!
اِس نیند میں آنکھوں کوتو کھولا نہیں کرتے

سوئے ہوئے لوگو! کبھی جاگو گے نہیں کیا؟
پر سوئے ہوئے لوگ تو بولا نہیں کرتے

جِس قائدِ اعظم نے ہمیں ملک دیا تھا
اُس نام کو مٹی میں تو رولا نہیں کرتے
 

زیک

مسافر
یہاں آپ عام برین واشڈ امریکی کی طرح جواب دے رہے ہیں! حضرت، موجودہ سرمایہ دارانہ نظام اور سوویت کمیونیزم کے درمیان اور بہت سے بہتر اور منصفانہ نظام معیشت و مالیات موجود ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہم ہر موجودہ مغربی نظام کی تنقید پر اسکے مخالف شدت پسند نظام کا فروغ چاہتے ہوں۔ اوپر کی پوسٹ میں الف نظامی نے جو خاکہ پیش کیا ہے وہ بالکل درست ہے۔ یہی خاکہ کچھ عرصہ قبل مشہور بلومبرگ کی سائیٹ پر موجود تھا:
econ_onepercentchart15_630.jpg

http://www.businessweek.com/articles/2014-04-03/top-tenth-of-1-percenters-reaps-all-the-riches
ہم یہاں امریکی کیپٹل ازم کو نشانہ نہیں بنا رہے لیکن جس غیر منصفانہ انداز میں اسکو 1970 - 1980 سے چلایا جا رہا ہے اسپر تنقید کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ وہی سرمایہ دارانہ نظام ہے جو مغربی کامیاب معیشت کی بنیاد ہے۔ البتہ پچھلی چند دہائیوں سے اسمیں ایسے خطرناک غیر منصفانہ عناصر نے جنم لیا ہے جسکی بدولت امیر دانستہ طور پر مزید امیر اور غریب مزید غریب ہورہا ہے۔ اگر آپ اسی نظام کے حامی ہیں تو پھر آپکی سوچ میں مسئلہ ہے ۔ کیونکہ یہ سب کچھ اب سائنسی طور پر ثابت ہوچکا ہے:
http://www.theguardian.com/books/2014/apr/28/thomas-piketty-capital-surprise-bestseller
یاد رہے کہ Piketty بھی سرمایہ داری نظام کا حامی ہے۔ wealth inequality ایک مسئلہ ہے مگر الف نظامی نے سرمایہ داری کی بات کی تھی جس پر میں نے سوال کیا
 

arifkarim

معطل
یاد رہے کہ Piketty بھی سرمایہ داری نظام کا حامی ہے۔ wealth inequality ایک مسئلہ ہے مگر الف نظامی نے سرمایہ داری کی بات کی تھی جس پر میں نے سوال کیا
Piketty مغربی سرمایہ دارانہ نظام کا حامی صرف اس صورت میں ہے اگر منظم اور دانستہ طور پر اس نظام سے حاصل ہونے والی آمدن اور دولت کی ترسیل پہلے سے موجود امراء تک منتقل نہ ہو جیسے کہ یہاں مغرب میں 70 کی دہائی سے ہو رہا ہے (اوپر کی پوسٹ میں گراف کے مطابق)۔ یہ مسئلہ ہر سرمایہ دارانہ نظام میں بنیادی طور پر موجود ہے۔ یعنی جب کسی بھی سرمایہ دارانہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار بڑھتی ہے تو اسکی زیادہ ترآمدن اور دولت بڑے مزے سے امراء طبقے تک منتقل ہونا شروع ہو جاتی ہے جو کہ پہلے ہی سے بے تحاشا املاک ،اثاثہ جات اور جائیدادوں کے مالک ہوتے ہیں۔ یوں اس نئی دولت کی ترسیل منصفانہ مساوات کی بجائے غیر منصفانہ طریقے سے اکثریت یعنی متوسط اور غریب طبقے سے چھینی جاتی ہے۔ چونکہ یہ غیر مساواتی عمل کئی دہائیوں سے دانستہ طور پر جاری ہے اسلئے میں اسکو اس نظام کا ایک "مسئلہ" شمار نہیں کرتا بلکہ Piketty کے مطابق: System working as normal تصور کرتا ہوں۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ Piketty کی اس شہرہ آفاق کتاب سے پہلے اس نظام پر تنقید کرنے والوں کو بڑے بڑے ماہر معاشیات کمیونسٹ، مارکسٹ، سوشلسٹ جیسے القابات سے نوازتے ہیں۔ ایک پوسٹر کے مطابق جو کچھPiketty نے اپنی اس 700 صفحات کی کتاب میں لکھا ہے وہ سب تو ہم عام لوگوں کو کئی سالوں سے معلوم تھا۔ لیکن ان سب حقائق کو مشہور ماہر معاشیات کو سمجھانے کیلئے Piketty کی کتاب کی ضرورت پڑی :D
 
یہ! آپکی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ مغرب میں جمہوریت کو محض مقدار ہی نہیں بلکہ معیار کے ترازو پر بھی تولا جاتا ہے۔! :D
علامہ اقبالؒ مغربی طرز جمہوریت کے قدرداں ہرگز نہ تھے۔ اس ناپسندیدگی کی پہلی وجہ یہ کہ مغربی جمہوریت ’’معیار‘‘(Quality) نہیں ’’مقدار‘‘(Quantity) پر استوار ہے۔وہ تمام انسانوں کو برابر تو کھڑا کر دیتی ہے ،لیکن تعلیم،قابلیت اور صلاحیتوں کے لحاظ سے ان میں کوئی تمیز نہیں کرتی -۔اسی لیے علامہ اقبال نے مغربی جمہوریت پر یوں طنز کیا
؎ جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں،تولا نہیں کرتے
یہاں کسی اور معیار کی بات کی گئی ہے - ایک چھوٹی سی مثال پیش کرنے کی جسارت ہے کیا میرے جیسے( کم علم) بندے کی رائے اور آپ جیسے (صاحب علم ) انسان کی رائے برابر ہو سکتی ہے؟
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
یہاں کسی اور معیار کی بات کی گئی ہے - ایک چھوٹی سی مثال پیش کرنے کی جسارت ہے کیا میرے جیسے( کم علم) بندے کی رائے اور آپ جیسے (صاحب علم ) انسان کی رائے برابر ہو سکتی ہے؟
حضرت میں کوئی بڑا عالم فاضل ہونے کا دعوے دار نہیں۔ آپ ہی کی طرح 27 سالہ طالب علم ہوں۔ مغربی جمہوریت کی میں نے جن خوبیوں کا ذکر کیا ہے ان میں ایک قدر قابلیت ، صلاحیت اور تعلیم کی بھی ہے۔ جیسے آپ پاکستانی، ہندوستانی ایوانوں میں بہت سے اجٹ گنوارانپڑھ لوگوں کو پائیں گے۔ یہاں مغربی جمہورت میں جو جتنا زیادہ پڑھا لکھا اور قابل ہوتا ہے اسکو ہی ووٹ زیادہ ملتے ہیں۔ یہاں ناروے کی پارلیمنٹ میں تقریباً 90فیصد لوگ ایم اے یا ڈاکٹریٹ ہولڈرز ہے۔ باقی کم از کم بیچلر ڈگری تک پڑھے لکھے ہیں۔ یہاں پرائمری پاسوں کو ایوانوں میں نہیں بھیجا جاتا!
 

زیک

مسافر
کیا 1930 کی دہائی میں ناتزیوں کی وجہ سے اقبال کے فلسفے میں کوئی تبدیلی آئی؟
 

arifkarim

معطل
Top