ناصر علی مرزا
معطل
جمہوریت علامہ اقبال کی نگاہ میں
ربط
نیا آئین منظور ہوا ،تو صدر ِتیونس نے اپنے دیس کو دنیائے عرب کی پہلی جمہوری مملکت قرار دیا۔یہ ایک بڑی اہم سیاسی تبدیلی ہے۔سوال یہ ہے کہ تیونسی جمہوریت کا خمیر مغربی نظریات سے اٹھے گا یا اسلامی اقدار و تعلیمات سے؟مسلم مفکرین مغربی جمہوریت کو شک و شبہے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جن میں شاعر مشرقؒ سرفہرست ہیں۔یہ 1926ء کی بات ہے جب علامہ اقبالؒ نے پنجاب اسمبلی (لیجسلیٹلو کونسل) کا انتخاب لڑا اور کامیاب رہے۔
انہوں نے پھر اسمبلی کے تمام سیشنوں کی کارروائی میں بھر پور حصہ لیا اور مختلف موضوعات پر تقاریر کیں۔آپ اکثر کسانوں ‘مزدوروں اور خواتین کے حقوق کی بات کرتے تھے۔ درج بالا حقیقت آشکارا کرتی ہے کہ علامہ اقبالؒ نظریاتی ہی نہیں عملی سیاست داں اور جمہوری لیڈر بھی تھے۔حقیقتاً آپ کا سیاسی قد کاٹھ بڑی تیزی سے ابھرا۔آپ 1924ء سے سیاسی سرگرمیوں میں باقاعدہ حصہ لینے لگے اور محض چھ سال بعد الہ آباد میں تصورِ پاکستان کو عملی شکل دے ڈالی۔ دور جدید کے یہ قد آور مسلم فلسفی ومفکر ہر قسم کی آمریت اور زور زبردستی کو سخت ناپسند کرتے تھے۔آپ کی خواہش تھی کہ عوام اپنی تقدیر و مستقبل کے خود مالک بن جائیں۔اسی عوامی یا جمہوری قوت کو شاعر مشرق نے اپنے ایک شعر میں یوں بیان کیا
؎ سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے‘مٹا دو
علامہ اقبالؒ کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ بذریعہ اجتہاد دور جدید کے مسلمانوں کو زوال سے نکالا جائے۔اسی سلسلے میں انہوں نے سات خطبے بھی دئیے جو ’’تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ چناں چہ دیکھنا چاہیے کہ ہمارے نامور جدید اسلامی مفکر نے جمہوریت کو کس نظرسے دیکھا جسے شدت پسند غیر اسلامی قرار دیتے ہیں۔
ممتاز انگریز شاعر،الیگزینڈر پوپ کا قول ہے:’’صرف بے وقوف ہی حکومت پانے کی خاطر لڑتے ہیں۔‘‘لیکن علامہ اقبال کے نزدیک حکومت کی ہئیت بہت اہم ہے…کیونکہ وہی ایک قوم کا کردار تشکیل دیتی اور اسے کامیابیوں یا ناکامیوں سے ہمکنار کرتی ہے۔‘‘
(بحوالہ علامہ اقبالؒ کی ڈائری)تاریخِ انسانی بھی علامہ کی فکر پر صاد کرتی اور بتاتی ہے کہ جن ملکوں میں آمریت کی حکمرانی رہی، وہاں بزدل اور کم ہمت اقوام نے جنم لیا۔دوسری طرف جمہوریت ہر انسان میں دلیری و خود اعتمادی پیدا کرتی اور اسے یہ موقع دیتی ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں سے بھر پور فائدہ اٹھا سکے
۔تاہم علامہ اقبالؒ مغربی طرز جمہوریت کے قدرداں ہرگز نہ تھے۔ اس ناپسندیدگی کی پہلی وجہ یہ کہ مغربی جمہوریت ’’معیار‘‘(Quality) نہیں ’’مقدار‘‘(Quantity) پر استوار ہے۔وہ تمام انسانوں کو برابر تو کھڑا کر دیتی ہے ،لیکن تعلیم،قابلیت اور صلاحیتوں کے لحاظ سے ان میں کوئی تمیز نہیں کرتی۔اسی لیے علامہ اقبال نے مغربی جمہوریت پر یوں طنز کیا
؎ جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں،تولا نہیں کرتے
شاعر مشرق نے اسی باعث مغربی جمہوریت کو برہنہ تلوار (تیغ بے نیامی) قرار دیا۔نیزیہ مثال دے کر اپنے مقدمے کو مضبوط بنایا:
’’دو سو گدھے مل کر بھی ایک انسانی ذہن کی برابری نہیں کر سکتے۔‘‘
چونکہ جمہوریت کوئی فلسفہ یا نظریہ نہیں محض طرزِ حکومت ہے،اسی لیے پچھلے دو برس میں یہ کئی اشکال اختیار کر چکا ۔مثلاً برطانوی جمہوریت جہاں آج بھی بادشاہت کے محدود روپ میں زندہ ہے۔یا امریکی جمہوریت جہاں صدر سب سے طاقتور حیثیت رکھتا ہے۔مگر انہی جمہوری یا عوام دوست ممالک کے حکمرانوں نے پچھلے دو سو برس میں انسانیت پر بے انتہا ظلم بھی ڈھائے اور جنگ و جدل کی انتہا کر دی۔ اسی باعث ’’بال جبرئیل ‘‘میں حیرت زدہ شیطان بھی پکار اٹھتا ہے
؎ جمہور کے ابلیس ہیں ارباب ِسیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک
سو علامہ اقبالؒ کے نزدیک اخلاقی و مذہبی اصولوں سے عاری مغربی جمہوریت دراصل آمریت ہی کا نیا روپ ہے۔چناں چہ دنیائے مغرب میں امیر حکمران طبقہ عوام کا استحصال کر کے اپنی حکمرانی برقرار رکھے ہوئے ہے۔بس جمہوریت کے نام پر عوام کو کچھ سہولتیں دے دی جاتی ہیں تاکہ وہ مطیع و فرماں بردار رہ سکے۔
مزید برآں مغربی جمہوریت میں اقلیت کو رگیدنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔مثلاً 1887ء میں سر سید احمد خاں نے کہا تھا ’’اگر ہندوستان میں (برطانوی) جمہوریت آئی، تو ہندوستانی مسلمان خود کو ہندوئوں کے رحم و کرم پر پائیں گے۔‘‘آ ج بھارتی مسلمانوں کی حالت ِزار ہمارے سامنے ہے۔ گویا مغربی جمہوریت اکثریت کو یہ موقع دے ڈالتی ہے کہ وہ من مانی کر سکے۔اسی باعث علامہ اقبالؒ کہہ اٹھے
؎ تونے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہور ی نظام
چہرہ روشن،اندروں چنگیز سے تاریک تر
علامہ کے نزدیک بہترین جمہوری حکومت وہ ہے جو عدل انصاف، مساوات اور محبت کے دائمی اصول اپنائے ۔مشہور ماہر اقبالیات،ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم نے اپنی کتاب ’’فکرِاقبال‘‘ میں شاعر مشرق کے نظریہِ جمہوریت کو بخوبی بیان کیا ہے:’’اسلام بہترین جمہوریت کا تصّور سامنے لایا اور جسے بقول اقبالؒ عملی شکل میں ڈھالا جا سکتا ہے۔یہ اسلام ہی ہے جس نے مسلمانوں کو مساوات اختیار کرنے کا حکم دیا۔اورسمجھایا کہ بذریعہ مشاورت حکومت چلائی جائے۔اس نے ایک عام مسلمان کو طاقت بخشی کہ عدالت میں امیر المومنین کو طلب کر سکے۔اسلام نے آزادی ضمیر کا اعلان کیا،فلاحی مملکت کا قیام ممکن بنایا اور حکمران کو یہ ذمے داری سونپی کو وہ محض حکومتی انتظام نہ چلائے بلکہ عوام کو بنیادی ضروریات زندگی بھی مہیا کرے۔اسلام نے ذات پات کا نظام ختم کر ڈالا‘ہر مسلمان کو طرز زندگی اختیارکرنے کی آزادی بخشی اور مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ دولت کو چند ہاتھوں میں مرتکز نہ ہونے دیں۔‘‘
علامہ اقبالؒ کے نزدیک ایسے اسلامی جمہوری نظام میں مقدار نہیں معیار اہم ہے۔ اور ہر انسان اپنی قابلیت و صلاحیت کے مطابق معاشرے میں مقام پائے گا۔نیز حکومت بھی قابل ترین شہریوں کی مشاورت سے چلائی جائے گی۔اس ضمن میں ڈاکٹر عبدالحکیم ’’فکر اقبال‘‘ میں مزید لکھتے ہیں:
’’دنیائے اسلام میں فی الوقت تنگ نظری اور جہل پسندی کا زور ہے۔اگر مسلمان اپنے اندر اسلام کی روحانی خصوصیات پیدا کر لیں اور ظاہر پرکم سے کم توجہ دیں،تو اسلامی ممالک میں ایسی زبردست جمہوریت وجود میں آئے گی جسے دیکھ کر برطانیہ و امریکہ کے سیاسی نظام شرما جائیں اور خود کو کمتر محسوس کریں ۔‘‘
ربط
نیا آئین منظور ہوا ،تو صدر ِتیونس نے اپنے دیس کو دنیائے عرب کی پہلی جمہوری مملکت قرار دیا۔یہ ایک بڑی اہم سیاسی تبدیلی ہے۔سوال یہ ہے کہ تیونسی جمہوریت کا خمیر مغربی نظریات سے اٹھے گا یا اسلامی اقدار و تعلیمات سے؟مسلم مفکرین مغربی جمہوریت کو شک و شبہے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جن میں شاعر مشرقؒ سرفہرست ہیں۔یہ 1926ء کی بات ہے جب علامہ اقبالؒ نے پنجاب اسمبلی (لیجسلیٹلو کونسل) کا انتخاب لڑا اور کامیاب رہے۔
انہوں نے پھر اسمبلی کے تمام سیشنوں کی کارروائی میں بھر پور حصہ لیا اور مختلف موضوعات پر تقاریر کیں۔آپ اکثر کسانوں ‘مزدوروں اور خواتین کے حقوق کی بات کرتے تھے۔ درج بالا حقیقت آشکارا کرتی ہے کہ علامہ اقبالؒ نظریاتی ہی نہیں عملی سیاست داں اور جمہوری لیڈر بھی تھے۔حقیقتاً آپ کا سیاسی قد کاٹھ بڑی تیزی سے ابھرا۔آپ 1924ء سے سیاسی سرگرمیوں میں باقاعدہ حصہ لینے لگے اور محض چھ سال بعد الہ آباد میں تصورِ پاکستان کو عملی شکل دے ڈالی۔ دور جدید کے یہ قد آور مسلم فلسفی ومفکر ہر قسم کی آمریت اور زور زبردستی کو سخت ناپسند کرتے تھے۔آپ کی خواہش تھی کہ عوام اپنی تقدیر و مستقبل کے خود مالک بن جائیں۔اسی عوامی یا جمہوری قوت کو شاعر مشرق نے اپنے ایک شعر میں یوں بیان کیا
؎ سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے‘مٹا دو
علامہ اقبالؒ کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ بذریعہ اجتہاد دور جدید کے مسلمانوں کو زوال سے نکالا جائے۔اسی سلسلے میں انہوں نے سات خطبے بھی دئیے جو ’’تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ چناں چہ دیکھنا چاہیے کہ ہمارے نامور جدید اسلامی مفکر نے جمہوریت کو کس نظرسے دیکھا جسے شدت پسند غیر اسلامی قرار دیتے ہیں۔
ممتاز انگریز شاعر،الیگزینڈر پوپ کا قول ہے:’’صرف بے وقوف ہی حکومت پانے کی خاطر لڑتے ہیں۔‘‘لیکن علامہ اقبال کے نزدیک حکومت کی ہئیت بہت اہم ہے…کیونکہ وہی ایک قوم کا کردار تشکیل دیتی اور اسے کامیابیوں یا ناکامیوں سے ہمکنار کرتی ہے۔‘‘
(بحوالہ علامہ اقبالؒ کی ڈائری)تاریخِ انسانی بھی علامہ کی فکر پر صاد کرتی اور بتاتی ہے کہ جن ملکوں میں آمریت کی حکمرانی رہی، وہاں بزدل اور کم ہمت اقوام نے جنم لیا۔دوسری طرف جمہوریت ہر انسان میں دلیری و خود اعتمادی پیدا کرتی اور اسے یہ موقع دیتی ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں سے بھر پور فائدہ اٹھا سکے
۔تاہم علامہ اقبالؒ مغربی طرز جمہوریت کے قدرداں ہرگز نہ تھے۔ اس ناپسندیدگی کی پہلی وجہ یہ کہ مغربی جمہوریت ’’معیار‘‘(Quality) نہیں ’’مقدار‘‘(Quantity) پر استوار ہے۔وہ تمام انسانوں کو برابر تو کھڑا کر دیتی ہے ،لیکن تعلیم،قابلیت اور صلاحیتوں کے لحاظ سے ان میں کوئی تمیز نہیں کرتی۔اسی لیے علامہ اقبال نے مغربی جمہوریت پر یوں طنز کیا
؎ جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں،تولا نہیں کرتے
شاعر مشرق نے اسی باعث مغربی جمہوریت کو برہنہ تلوار (تیغ بے نیامی) قرار دیا۔نیزیہ مثال دے کر اپنے مقدمے کو مضبوط بنایا:
’’دو سو گدھے مل کر بھی ایک انسانی ذہن کی برابری نہیں کر سکتے۔‘‘
چونکہ جمہوریت کوئی فلسفہ یا نظریہ نہیں محض طرزِ حکومت ہے،اسی لیے پچھلے دو برس میں یہ کئی اشکال اختیار کر چکا ۔مثلاً برطانوی جمہوریت جہاں آج بھی بادشاہت کے محدود روپ میں زندہ ہے۔یا امریکی جمہوریت جہاں صدر سب سے طاقتور حیثیت رکھتا ہے۔مگر انہی جمہوری یا عوام دوست ممالک کے حکمرانوں نے پچھلے دو سو برس میں انسانیت پر بے انتہا ظلم بھی ڈھائے اور جنگ و جدل کی انتہا کر دی۔ اسی باعث ’’بال جبرئیل ‘‘میں حیرت زدہ شیطان بھی پکار اٹھتا ہے
؎ جمہور کے ابلیس ہیں ارباب ِسیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک
سو علامہ اقبالؒ کے نزدیک اخلاقی و مذہبی اصولوں سے عاری مغربی جمہوریت دراصل آمریت ہی کا نیا روپ ہے۔چناں چہ دنیائے مغرب میں امیر حکمران طبقہ عوام کا استحصال کر کے اپنی حکمرانی برقرار رکھے ہوئے ہے۔بس جمہوریت کے نام پر عوام کو کچھ سہولتیں دے دی جاتی ہیں تاکہ وہ مطیع و فرماں بردار رہ سکے۔
مزید برآں مغربی جمہوریت میں اقلیت کو رگیدنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔مثلاً 1887ء میں سر سید احمد خاں نے کہا تھا ’’اگر ہندوستان میں (برطانوی) جمہوریت آئی، تو ہندوستانی مسلمان خود کو ہندوئوں کے رحم و کرم پر پائیں گے۔‘‘آ ج بھارتی مسلمانوں کی حالت ِزار ہمارے سامنے ہے۔ گویا مغربی جمہوریت اکثریت کو یہ موقع دے ڈالتی ہے کہ وہ من مانی کر سکے۔اسی باعث علامہ اقبالؒ کہہ اٹھے
؎ تونے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہور ی نظام
چہرہ روشن،اندروں چنگیز سے تاریک تر
علامہ کے نزدیک بہترین جمہوری حکومت وہ ہے جو عدل انصاف، مساوات اور محبت کے دائمی اصول اپنائے ۔مشہور ماہر اقبالیات،ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم نے اپنی کتاب ’’فکرِاقبال‘‘ میں شاعر مشرق کے نظریہِ جمہوریت کو بخوبی بیان کیا ہے:’’اسلام بہترین جمہوریت کا تصّور سامنے لایا اور جسے بقول اقبالؒ عملی شکل میں ڈھالا جا سکتا ہے۔یہ اسلام ہی ہے جس نے مسلمانوں کو مساوات اختیار کرنے کا حکم دیا۔اورسمجھایا کہ بذریعہ مشاورت حکومت چلائی جائے۔اس نے ایک عام مسلمان کو طاقت بخشی کہ عدالت میں امیر المومنین کو طلب کر سکے۔اسلام نے آزادی ضمیر کا اعلان کیا،فلاحی مملکت کا قیام ممکن بنایا اور حکمران کو یہ ذمے داری سونپی کو وہ محض حکومتی انتظام نہ چلائے بلکہ عوام کو بنیادی ضروریات زندگی بھی مہیا کرے۔اسلام نے ذات پات کا نظام ختم کر ڈالا‘ہر مسلمان کو طرز زندگی اختیارکرنے کی آزادی بخشی اور مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ دولت کو چند ہاتھوں میں مرتکز نہ ہونے دیں۔‘‘
علامہ اقبالؒ کے نزدیک ایسے اسلامی جمہوری نظام میں مقدار نہیں معیار اہم ہے۔ اور ہر انسان اپنی قابلیت و صلاحیت کے مطابق معاشرے میں مقام پائے گا۔نیز حکومت بھی قابل ترین شہریوں کی مشاورت سے چلائی جائے گی۔اس ضمن میں ڈاکٹر عبدالحکیم ’’فکر اقبال‘‘ میں مزید لکھتے ہیں:
’’دنیائے اسلام میں فی الوقت تنگ نظری اور جہل پسندی کا زور ہے۔اگر مسلمان اپنے اندر اسلام کی روحانی خصوصیات پیدا کر لیں اور ظاہر پرکم سے کم توجہ دیں،تو اسلامی ممالک میں ایسی زبردست جمہوریت وجود میں آئے گی جسے دیکھ کر برطانیہ و امریکہ کے سیاسی نظام شرما جائیں اور خود کو کمتر محسوس کریں ۔‘‘