روحانی جمہوریت سے آپکی کیا مراد ھے ؟؟؟؟ اسلامی ریاست میں اللہ کی برتری کے بعد عوام لناس کی رائے ہی برتر ھے ،،،، اسلام نے کبھی بھی کسی قسم کی آمریت اور بادشاہت کا درس نہیں دیا ھے ،،،خلفاء راشدین کا دور ایک ماڈل ھے موجودہ اسلامی ریاستوں کیلئے اگرچہ ادوار کی مناسبت سے اس میں تبدیلیاں ہو سکتی ہیں لیکن بنیادی اصول تو ایک ہی ھے کہ جمہور کی رائے کو فوقیت حاصل ھے !!
اقبال نے شاید مغربی طرز کی جمہوریت کو نشانہ بنایا ھے یہاں لیکن انہوں نے اسلامی طرز حکومت کودرست قرار دیا ھے اور اسلام نے کہیں بھی شخصی حکومت کو سپورٹ نہیں کیا ھے ،، یہ لنک دیکھئے !!!
http://www.allamaiqbal.com/publications/journals/review/apr85/6.htm
میں بھی تو یہی بات کر رہا ہوں۔
علامہ اقبالؒ نے 28 مئی 1937ءکو قائداعظم کے نام ایک خط میں تحریر کیا۔
”اسلام کے قانونی اصولوں کے مطابق کسی مناسب شکل میں سماجی جمہوریت کو قبول کرلینا کوئی انقلاب نہیں ہے بلکہ اسلام کی اصل روح کی جانب لوٹنا ہے“۔ پاکستان میں ہم
فیوڈل جمہوریت کے تماشے دیکھ رہے ہیں۔ جمہوریت کا یہ ماڈل چونکہ اسلام کی حدود و قیود کے مطابق نہیں ہے اس لیے موجودہ جمہوری ماڈل ہمارے مسائل حل کرنے کی بجائے ان میں اضافہ ہی کرتا جارہا ہے۔
ایک اور جگہ کہتے ہیں کہ
”اُن حالات میں ہمارے لیے ایک ہی راستہ کھلا ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام کے آئینہ پر غیر اسلامی رنگ کی جو سخت تہیں جم چکی ہیں انہیں کھرچ کھرچ کر صاف کیا جائے۔ حریت سا لمیت اورمساوات کی حقیقی اقدار کو از سرِ نو زندہ کیا جائے اور اُن کی روشنی میں اپنے اخلاقی ، معاشی اور سیاسی نظام کی نئی تشکیل کی جائے جو حقیقی اسلام کی سادگی اور آفادیت کی آئینہ دار ہو“۔
علامہ اقبال ایسی جمہوریت کے قائل تھے جو مساوات اور قانون کی حکمرانی پر مبنی ہو۔انہوں نے تحریر کیا”دوسرا سیاسی اُصول جمہوریت ہے جو انسانوں کی غیر مشروط اور کامل مساوات پر مبنی ہو۔ مسلم ملت کے تمام افراد معاشرتی اور معاشی تفاوت کے باوجود قانون کی نظر میں مساوی حقوق کے مالک ہیں۔ اس مساوات کے اُصول کی بنیاد پر ترکی کے بزرگوں میں سے ایک خلیفہ کے خلاف ایک معمار نے مقدمہ درج کیا اور قاضی نے خلیفہ وقت پر جرمانہ عائد کردیا تھا لہذا مساوات پر مبنی جمہوریت ہی اسلامی سیاسی فکر کی اہم ترین قدر ہے“۔
اقبال جمہوریت کودینی تعلیمات اوراخلاقی اصولوں کا پابنددیکھناچاہتے تھے۔ ایسی جمہوریت سماج کی اخلاقی اقدار پرنشوونماکرسکتی ہے کیونکہ اس کے لائحہ عمل میں حکومت سازی کے ساتھ ساتھ کردارسازی بھی شامل ہوتی ہے۔ وہ کمزوروں، غیر مسلموں، معذوروں اورغریبوں کا استحصال نہیں کرتی بلکہ معاشرے میں عدل وانصاف اوراحسان کی روش کومستحکم کرتی ہے۔ یہی روحانی جمہوریت ہے جومعاشی ناہمواری، کرپشن اوراخلاقی انحطاط کرروکتی ہے اور انسان کی نہ صرف معاشی ضروریات کی تکمیل کرتی ہے بلکہ اس کے اخلاقی ونفسیاتی تقاضوں کوبھی پوراکرتی ہے۔
میرا خیال ہے روحانی جمہوریت کے متعلق جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ حضرت علامہ اقبالؒ کے ارشادات سے واضح ہو گیا ہو گا۔