تاسف جمیل الدین عالی انتقال کرگئے

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
انا للہ و انا الیہ راجعون
انا للہ و انا الیہ راجعون
انا للہ و انا الیہ راجعون- اللہ مغفرت کرے آمین

انا للہ و انا الیہ راجعون

اردو ویکیپیڈیا پر جمیل الدین عالی کا صفحہ۔ انگلش ویکیپیڈیا پر جمیل الدین عالی کا صفحہ۔ اگر کوئی ان صفحات میں اضافہ کرنا چاہے تو...
انا للہ و انا الیہ راجعون
آمین برادرز
 

عاطف بٹ

محفلین
معروف شاعر، نقاد، دانشور، کالم نگار اور اردو زبان و ادب کے فروغ کے حوالے سے عالمی شہرت رکھنے والے جمیل الدین عالی طویل علالت کے بعد آج 90 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ وہ گذشتہ تین روز کراچی کے ایک نجی اسپتال میں زیر علاج تھے۔

ان کا اصل نام مرزا جمیل الدین احمد خاں اور آبائی وطن لوہارو تھا۔ ان کے والد مرزا امیر الدین خاں مرزا غالب کے خانوادے سے تھے جبکہ ان کی والدہ کا تعلق خواجہ میر درد کے خاندان سے تھا۔ 20 جنوری 1926ء کو دہلی میں پیدا ہونے والے عالی صاحب نے 1940ء میں اینگلو عریبک کالج دہلی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1945ء میں انھوں نے معاشیات، تاریخ اور فارسی زبان و ادب کے مضامین کے ساتھ بی اے کیا۔ پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز انھوں نے 1948ء میں وزارتِ تجارت میں اسسٹنٹ کے عہدے سے کیا۔ 1951ء میں مقابلے کے امتحان میں کامیابی کے بعد وہ پاکستان ٹیکسیشن سروس سے منسلک ہوگئے۔ ایک سرکاری افسر کے طور پر انھوں نے مختلف عہدوں پر اور مختلف محکموں/اداروں میں خدمات انجام دیں۔ انھوں نے سیاست میں بھی حصہ لیا اور 1997ء میں متحدہ قومی موومنٹ کی حمایت سے سینیٹر منتخب ہوئے۔

عالی صاحب مشہور ملّی نغمے 'جیوے جیوے پاکستان' کے خالق تھے۔ علاوہ ازیں، انھوں نے 'اے وطن کے سجیلے جوانوں'، 'جُگ جُگ جیے میرا پیارا وطن'، 'سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے' اور 'ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں' جیسے مقبول عام نغمے بھی لکھے۔ بنیادی طور پر مالیات کے شعبے سے تعلق رکھنے والی عالی صاحب انجمن ترقیِ اردو، اردو لغت بورڈ اور پاکستان رائٹرز گلڈ سے بھی وابستہ رہے۔ ان کی مختلف اصنافِ ادب سے تعلق رکھنے والی درجن بھر سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں 'بس اِک گوشۂ بساط (خاکے،مضامین اور تاثرات)'، 'غزلیں، دوہے، گیت (شاعری)'، 'دنیا مرے آگے (سفرنامہ)'، 'کارگاہِ وطن (کالموں کا مجموعہ)' اور 'حرفے چند (انجمن ترقی اُردو کی کتابوں پر لکھے گئے مقدمے اور دیباچے، تین جلدیں)' شامل ہیں۔ انھیں ادبی خدمات کے صلے میں ہلالِ امتیاز، تمغہ برائے حسن کارکردگی، کمالِ فن ایوارڈ اور آدم جی ادبی ایوارڈ سمیت کئی اعزازات سے نوازا گیا۔
 
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری کم علمی اس عروج پر ہے، کہ کل میرے بہت سے احباب کو میرے پوسٹ کرنے پر عالی صاحب کے بارے میں معلوم ہوا۔ کہ فلاں، فلاں اور فلاں نغمہ بھی انہی کا ہے۔ دوہے کا خالق کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ عالی صاحب ان لوگوں میں سے تھے کہ جن کی زندگی میں ان سے زیادہ ان کے کلام نے شہرت پائی۔
اسے ان کی خوبی سمجھا جائے یا ہماری قوم کی بڑھتی ہوئی ادب بیزاری۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top