آصف اثر
معطل
ہوا کچھ یوں کہ آج سے تقریبا ایک سال پہلےجب یہاں کے ایک معروف پبلشنگ ادارے سے بطور گرافکس ڈیزائنر کی وابستگی ہوئی تو شروع شروع میں ادارے کی جانب سے انڈیزائن کی تربیت کا اہتمام کیا گیا تاکہ پیج لے آؤٹ میں کچھ حد تک مہارت حاصل ہوسکے۔ (یہ خواہش ہمارے آرٹ ڈائیرکٹرصاحب کی تھی) لہذا انڈیزائن پر پہلی بار ہاتھ صاف کیے۔بعد میں ڈیزائننگ کے ساتھ ساتھ پیج فارمیٹنگ اور پبلشنگ کی دوسری ذمہ داریاں بھی نفاست سے میرے حوالے کردی گئی۔ مجھے جو خوشی ہونی تھی وہ تو بہت ہوئی کہ چلو لگے ہاتھوں پبلشنگ کے استاد سافٹ وئیر ”انڈیزائن “کو بھی سمجھ لیتے ہیں۔۔۔جو کہ اکثر بلکہ بیشتر اردو پبلشنگ اداروں میں ناپید ہے( جس کی ایک وجہ انڈیزائن کا نستعلیق سے دلی لگاؤ کا نہ ہونا بھی ہے)۔
اب جب کہ انڈیزائن کا بحمداللہ بہت کچھ سمجھ آچکا ہے(اس تناظر میں کہ انڈیزائن، پبلشنگ کا ایک سوفیصد محیط ہے)لہذا کورل ڈرا یا ان پیج میں پیج لے آؤٹ عجیب لگتا ہے۔۔۔ اگر چہ کورل بھی سیکھا ہوا ہے مگر اب اس جانب دل بالکل ہی نہیں جاتا کہ جب ہر کام ایک کلک کی دوری سے ہی کماحقہٗ سرانجام پاسکتا ہے تو کیوں بکھیڑوں میں پڑا جائے۔۔۔خیر یہ میرا اپنا ذاتی خیال ہے۔تو ذکر ہورہاتھا پیج لے آؤٹ یا پیج فارمیٹنگ کا۔ ابتدا میں جب پوری سیٹنگز کا جائزہ لیا تو پتا چلا کہ صاحبانِ ادارہ تمام رسائل و کتب ”علوی نستعلیق“ میں چھاپ رہےہیں۔۔۔ حیرت ہوئی کہ جب جمیل نوری نستعلیق جیسا خوب صورت ، عام اور ایک لحاظ سے خاص فونٹ موجود ہے تو علوی نستعلیق کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟ پوچھنے پر جواب ملا کہ جمیل نوری انڈیزائن میں صحیح کام نہیں کرتا ، اکثر الفاظ کی شکل بگڑ جاتی ہے۔
جب خود کرکے دیکھا تو پہلی نظر میں فونٹ کی بنیادی تبدیلیوں کے علاوہ کوئی تبدیلی محسوس نہ ہوئی مگر غور سے نظر کرنے پر ان کی بات درست نکلی کہ واقعی عام استعمال ہونے والے الفاظ کی شکل ویسی نہیں جیسی ہونی چاہیے۔( اسی بنیادی فرق کی وجہ سے کئی کتابوں کی لے آؤٹ اور ڈیزائن، انڈیزائن کے بجائے ان پیج(نوری نستعلیق) اور السٹریٹر میں کرنی پڑی ۔ )
لیکن ان پیج سے موازنہ کرنے پر پورا فرق واضح ہوا۔جب یہی غور علوی پر کیا تو اس میں بھی کچھ الفاظ ٹھیک نظر نہیں آرہے تھے۔مگر افسوس کہ جمیل نوری کے الفاظ کی تعداد علوی سے کہیں زیادہ تھی۔ دل پر بوجھ پڑ گیا کہ یہ کیا ۔۔۔۔ ہم جمیل کے بغیر ہی کام چلاتے رہیں۔۔۔ دل مطمئن نہیں ہورہاتھا۔ فوراً اردو محفل ، القلم اور دیگر اردو فورمز پر تلاش بسیار شروع کردی۔۔۔ مگر کچھ ہاتھ نہیں آیا۔۔۔
چوں کہ جمیل ہی کو استعمال کرنے کا تہیہ کرچکا تھا لہذا انفرادی طور پر رسائل وجرائد کے کچھ حصوں کو علوی سے جمیل نوری میں بدل دیاجبکہ ساتھ ساتھ بگڑے الفاظ کو واپس علوی میں کرتا رہا۔مزید برآں ورڈ میں دونوں نویسوں کے خراب الفاظ کی فہرست بھی بنانی شروع کردی۔۔۔ تاکہ صحیح اندازہ ہوسکے ۔۔۔ تقریبا دو تین ماہ تک یہی کچھ کرتاچلا گیا۔۔۔ اب جب نظر ڈالی تو تحریر میں جو الفاظ کثرت سے استعمال ہوتے ہیں وہی الفاظ جمیل نوری کی فہرست میں موجود تھے۔۔۔جن میں ”میں“ (جو غالبا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ ہے) ،یہ ، کیا ،ایسی،تھی،کیسے ، ۔۔۔وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔جب کہ علوی والے اتنے عام استعمال کے نہیں تھے۔ ۔۔ظاہر سی بات تھی کہ جمیل نوری کی دال انڈیزائن میں گلنے والی نہیں تھی۔۔۔ کیوں کہ فرداً فرداً ان سب کو تبدیل کرتے رہنا دقت طلب اور وقت لینے والا مسئلہ تھا۔۔۔بعد میں جب انڈیزائن سی سی کا اجرا ہوا تو اسے اتار کر اس میں بھی جمیل نوری نستعلیق کو آزمایا مگر کسی قسم کی بھی بہتری نظر نہیں آئی ۔لہذا مجبوراً مجھے پسپائی اختیار کرنی پڑی۔۔۔
مسئلے کی جڑ
جب چھ سات مہینے تک گاہے گاہے دونوں نویسوں کی فہرستوں میں اضافہ ہوتا جارہاتھاتو ایک دن ذہن میں خیال آیا کہ ذرا دیکھ تو سہی عام یا خاص استعمال کے کونسے الفاظ جمیل نوری میں ٹھیک بن نہیں پاتے۔۔۔لہذا جائزہ لینے پر پتا چلا کہ خدا کے بندے یہ تو محض وہ الفاظ ہے جن میں ”ی“ صاحبہ موجود ہے۔۔۔ باقی کسی لفظ میں ایسا مسئلہ موجود نہیں۔ لہذا پوری توجہ ”ی“پر مرکوز کردی۔
ان دنوں مجھے یہ بھی پتا چلا کہ م بلال م کی محنت اور ان کے معاونین بھائیوں کے مشوروں سے جو کی بورڈ مواجہ تشکیل پایا ہے اس میں عربی کی دونوں ”یائیں“بھی موجود ہے۔
مگر یہاں ذہن میں جو یہ بات آئی کہ عربی میں تو دو ”ی“ ہیں۔۔ایک درمیانی اور دوسری” اختتامی“۔ جن میںدرمیانی ”ي“ یا تو نستعلیق نویسوں سے ان پیج تک میں تقریبا ٹھیک مطابقت نہیں رکھتی جبکہ آخری ”ی“ جب کسی لفظ کے درمیان آجائے تو اس کے نیچے ”دو نقطے “ موجود نہیں ہوتے۔۔۔ بعض عربی نویسوں پر جب چیک کیا تو واقعی یہی بات تھی۔۔۔اسی اثنا میں خیال گزراکہ ذرا نستعلیق میں دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ لہذا جب نستعلیق میں وہی لفظ عربی ”ی“ کے ساتھ چیک کیا تو اس کے نیچے دو نقطے نظر آرہے تھے۔۔۔ خوشی بھی ہوئی اور حیرت بھی ۔۔کہ یہ کیا معاملہ ہے۔۔
خوشی تو اس بات کی اب اسے انڈیزائن میں جمیل نوری نستعلیق پر آزما کر دیکھ لیتے ہیں کہ ہوتا کیا ہے ۔۔۔آیا الفاظ ویسے کے ویسے نظر آرہے ہیں یا کچھ تبدیلی ہوتی ہے۔۔؟ کیوں کہ عربی ”ی“ میرے خیال میں ایڈوب اور دوسرے بڑے پبلشنگ و گرافکس ہاوسز کے تمام سافٹ وئیر میں 100 فیصد مطابقت پذیر (کمپیٹیبل) ہے۔ سب سے پہلے تو ”میں “ کو پکڑا اور اس کی اردو ”ی“ کو نکال کر اس کی جگہ Alt+Shift+iکی مدد سے عربی ”ی“ شامل کردی۔یہ کام انڈیزائن سے باہر ہوا کیوں کہ انڈیزائن میں آلٹ گئیر سے آپ کوئی لفظ آسانی سے ٹائپ نہیں کرسکتے۔ پھر اسی ”میں“ کو کاپی کرکے جب انڈیزائن میں پیسٹ کیا تو ۔۔۔واؤ۔۔۔۔۔جمیل نوری نستعلیق کی جلوہ گری پوری آب وتاب کے ساتھ نظر آرہی تھی۔۔۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ اتنی ”یاؤں“ کو جو اردو کے اکثر وبیشتر الفاظ میں موجود ہوتی ہیں کو یک دم کیسے تبدیل کیا جائے ۔۔۔جو کہ انڈیزائن کے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔اس کے لیےسب سے پہلے تو تمام متن کو جمیل نوری نستعلیق میں بدل کر سرتا پا متن کو منتخب کرلیا۔ پھر Ctrl+Fدبا کر”تلاش اور بدل دو“ کے آپشن نے کام کردکھانا تھا۔۔۔لہذا تلاش کے ”متن خانے“میں اردو ”ی“ اور بدل دو ”کے خانے میں عربی ”ی“ کو پیسٹ کرکے نیچے ”کو بدل دو“ میں سے جمیل نوری نستعلیق منتخب کرکے جب ”سب بدل دو“پر کلک کیا تو جمیل نوری نستعلیق کا یہ دیرینہ مسئلہ الحمد للہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکا تھا۔۔۔
نوٹ: یہ طریقہ علوی نستعلیق پر ناکام رہا ہے کہ اس میں مسئلہ ”ی“ کانہیں بلکہ کچھ اور ہے ۔ جسے فونٹ ساز بھائیوں کے ساتھ ایڈوب کو بھی دیکھنا چاہیے۔
آخر میں پہلے اور بعد کا فرق:
کسی بھی ذاتی نوعیت کی بات پر معذرت۔
اب جب کہ انڈیزائن کا بحمداللہ بہت کچھ سمجھ آچکا ہے(اس تناظر میں کہ انڈیزائن، پبلشنگ کا ایک سوفیصد محیط ہے)لہذا کورل ڈرا یا ان پیج میں پیج لے آؤٹ عجیب لگتا ہے۔۔۔ اگر چہ کورل بھی سیکھا ہوا ہے مگر اب اس جانب دل بالکل ہی نہیں جاتا کہ جب ہر کام ایک کلک کی دوری سے ہی کماحقہٗ سرانجام پاسکتا ہے تو کیوں بکھیڑوں میں پڑا جائے۔۔۔خیر یہ میرا اپنا ذاتی خیال ہے۔تو ذکر ہورہاتھا پیج لے آؤٹ یا پیج فارمیٹنگ کا۔ ابتدا میں جب پوری سیٹنگز کا جائزہ لیا تو پتا چلا کہ صاحبانِ ادارہ تمام رسائل و کتب ”علوی نستعلیق“ میں چھاپ رہےہیں۔۔۔ حیرت ہوئی کہ جب جمیل نوری نستعلیق جیسا خوب صورت ، عام اور ایک لحاظ سے خاص فونٹ موجود ہے تو علوی نستعلیق کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟ پوچھنے پر جواب ملا کہ جمیل نوری انڈیزائن میں صحیح کام نہیں کرتا ، اکثر الفاظ کی شکل بگڑ جاتی ہے۔
جب خود کرکے دیکھا تو پہلی نظر میں فونٹ کی بنیادی تبدیلیوں کے علاوہ کوئی تبدیلی محسوس نہ ہوئی مگر غور سے نظر کرنے پر ان کی بات درست نکلی کہ واقعی عام استعمال ہونے والے الفاظ کی شکل ویسی نہیں جیسی ہونی چاہیے۔( اسی بنیادی فرق کی وجہ سے کئی کتابوں کی لے آؤٹ اور ڈیزائن، انڈیزائن کے بجائے ان پیج(نوری نستعلیق) اور السٹریٹر میں کرنی پڑی ۔ )
لیکن ان پیج سے موازنہ کرنے پر پورا فرق واضح ہوا۔جب یہی غور علوی پر کیا تو اس میں بھی کچھ الفاظ ٹھیک نظر نہیں آرہے تھے۔مگر افسوس کہ جمیل نوری کے الفاظ کی تعداد علوی سے کہیں زیادہ تھی۔ دل پر بوجھ پڑ گیا کہ یہ کیا ۔۔۔۔ ہم جمیل کے بغیر ہی کام چلاتے رہیں۔۔۔ دل مطمئن نہیں ہورہاتھا۔ فوراً اردو محفل ، القلم اور دیگر اردو فورمز پر تلاش بسیار شروع کردی۔۔۔ مگر کچھ ہاتھ نہیں آیا۔۔۔
چوں کہ جمیل ہی کو استعمال کرنے کا تہیہ کرچکا تھا لہذا انفرادی طور پر رسائل وجرائد کے کچھ حصوں کو علوی سے جمیل نوری میں بدل دیاجبکہ ساتھ ساتھ بگڑے الفاظ کو واپس علوی میں کرتا رہا۔مزید برآں ورڈ میں دونوں نویسوں کے خراب الفاظ کی فہرست بھی بنانی شروع کردی۔۔۔ تاکہ صحیح اندازہ ہوسکے ۔۔۔ تقریبا دو تین ماہ تک یہی کچھ کرتاچلا گیا۔۔۔ اب جب نظر ڈالی تو تحریر میں جو الفاظ کثرت سے استعمال ہوتے ہیں وہی الفاظ جمیل نوری کی فہرست میں موجود تھے۔۔۔جن میں ”میں“ (جو غالبا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ ہے) ،یہ ، کیا ،ایسی،تھی،کیسے ، ۔۔۔وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔جب کہ علوی والے اتنے عام استعمال کے نہیں تھے۔ ۔۔ظاہر سی بات تھی کہ جمیل نوری کی دال انڈیزائن میں گلنے والی نہیں تھی۔۔۔ کیوں کہ فرداً فرداً ان سب کو تبدیل کرتے رہنا دقت طلب اور وقت لینے والا مسئلہ تھا۔۔۔بعد میں جب انڈیزائن سی سی کا اجرا ہوا تو اسے اتار کر اس میں بھی جمیل نوری نستعلیق کو آزمایا مگر کسی قسم کی بھی بہتری نظر نہیں آئی ۔لہذا مجبوراً مجھے پسپائی اختیار کرنی پڑی۔۔۔
مسئلے کی جڑ
جب چھ سات مہینے تک گاہے گاہے دونوں نویسوں کی فہرستوں میں اضافہ ہوتا جارہاتھاتو ایک دن ذہن میں خیال آیا کہ ذرا دیکھ تو سہی عام یا خاص استعمال کے کونسے الفاظ جمیل نوری میں ٹھیک بن نہیں پاتے۔۔۔لہذا جائزہ لینے پر پتا چلا کہ خدا کے بندے یہ تو محض وہ الفاظ ہے جن میں ”ی“ صاحبہ موجود ہے۔۔۔ باقی کسی لفظ میں ایسا مسئلہ موجود نہیں۔ لہذا پوری توجہ ”ی“پر مرکوز کردی۔
ان دنوں مجھے یہ بھی پتا چلا کہ م بلال م کی محنت اور ان کے معاونین بھائیوں کے مشوروں سے جو کی بورڈ مواجہ تشکیل پایا ہے اس میں عربی کی دونوں ”یائیں“بھی موجود ہے۔
مگر یہاں ذہن میں جو یہ بات آئی کہ عربی میں تو دو ”ی“ ہیں۔۔ایک درمیانی اور دوسری” اختتامی“۔ جن میںدرمیانی ”ي“ یا تو نستعلیق نویسوں سے ان پیج تک میں تقریبا ٹھیک مطابقت نہیں رکھتی جبکہ آخری ”ی“ جب کسی لفظ کے درمیان آجائے تو اس کے نیچے ”دو نقطے “ موجود نہیں ہوتے۔۔۔ بعض عربی نویسوں پر جب چیک کیا تو واقعی یہی بات تھی۔۔۔اسی اثنا میں خیال گزراکہ ذرا نستعلیق میں دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ لہذا جب نستعلیق میں وہی لفظ عربی ”ی“ کے ساتھ چیک کیا تو اس کے نیچے دو نقطے نظر آرہے تھے۔۔۔ خوشی بھی ہوئی اور حیرت بھی ۔۔کہ یہ کیا معاملہ ہے۔۔
خوشی تو اس بات کی اب اسے انڈیزائن میں جمیل نوری نستعلیق پر آزما کر دیکھ لیتے ہیں کہ ہوتا کیا ہے ۔۔۔آیا الفاظ ویسے کے ویسے نظر آرہے ہیں یا کچھ تبدیلی ہوتی ہے۔۔؟ کیوں کہ عربی ”ی“ میرے خیال میں ایڈوب اور دوسرے بڑے پبلشنگ و گرافکس ہاوسز کے تمام سافٹ وئیر میں 100 فیصد مطابقت پذیر (کمپیٹیبل) ہے۔ سب سے پہلے تو ”میں “ کو پکڑا اور اس کی اردو ”ی“ کو نکال کر اس کی جگہ Alt+Shift+iکی مدد سے عربی ”ی“ شامل کردی۔یہ کام انڈیزائن سے باہر ہوا کیوں کہ انڈیزائن میں آلٹ گئیر سے آپ کوئی لفظ آسانی سے ٹائپ نہیں کرسکتے۔ پھر اسی ”میں“ کو کاپی کرکے جب انڈیزائن میں پیسٹ کیا تو ۔۔۔واؤ۔۔۔۔۔جمیل نوری نستعلیق کی جلوہ گری پوری آب وتاب کے ساتھ نظر آرہی تھی۔۔۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ اتنی ”یاؤں“ کو جو اردو کے اکثر وبیشتر الفاظ میں موجود ہوتی ہیں کو یک دم کیسے تبدیل کیا جائے ۔۔۔جو کہ انڈیزائن کے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔اس کے لیےسب سے پہلے تو تمام متن کو جمیل نوری نستعلیق میں بدل کر سرتا پا متن کو منتخب کرلیا۔ پھر Ctrl+Fدبا کر”تلاش اور بدل دو“ کے آپشن نے کام کردکھانا تھا۔۔۔لہذا تلاش کے ”متن خانے“میں اردو ”ی“ اور بدل دو ”کے خانے میں عربی ”ی“ کو پیسٹ کرکے نیچے ”کو بدل دو“ میں سے جمیل نوری نستعلیق منتخب کرکے جب ”سب بدل دو“پر کلک کیا تو جمیل نوری نستعلیق کا یہ دیرینہ مسئلہ الحمد للہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکا تھا۔۔۔
نوٹ: یہ طریقہ علوی نستعلیق پر ناکام رہا ہے کہ اس میں مسئلہ ”ی“ کانہیں بلکہ کچھ اور ہے ۔ جسے فونٹ ساز بھائیوں کے ساتھ ایڈوب کو بھی دیکھنا چاہیے۔
آخر میں پہلے اور بعد کا فرق:
کسی بھی ذاتی نوعیت کی بات پر معذرت۔