جناح کی تعریف پر جسونت سنگھ بی جے پی سے باہر

فخرنوید

محفلین
نئی دہلی: قائد اعظم کو عظیم لیڈر کہنا بی جے پی کے رہنما اور سابق بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ کو مہنگا پڑا۔بھارتیہ جنتا پارٹی نے قائد اعظم کو عظیم اور غیر متعصب لیڈر کہنے پر سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ کو پارٹی سے نکال دیا۔سابق بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ کی کتاب شائع ہونے کے بعد انتہاپسند ہندووٴں میں نئی بحث کا آغاز ہوگیا۔ کتاب میں جسونت سنگھ نے بانی پاکستان قائداعظم کو عظیم رہنما اورغیر متعصب جبکہ گاندھی کو متعصب قرار دینے کے علاوہ کانگرس کو بھی برصغیر کی تقسیم کا ذمے دار قرار دیا ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما جسونت سنگھ کی کتاب' جناح انڈیا پارٹیشن انڈی پینڈنس' شائع ہونے کے بعد ہندو انتہا تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ نے شدید ناراضی کا اظہارکیا ہے۔

آرایس ایس کے ترجمان رام مادھیوکا کہنا ہے کہ انہیں جسونت سنگھ کے خیالات سے قطعی اتفاق نہیں ہے۔رام مادھیو نے اعتراف کیا ہے کہ ابھی انہوں نے کتاب کا مطالعہ نہیں کیا تاہم میڈیا پر اس کتاب کے جو اقتباسات آئے ہیں ان سے وہ متفق نہیں ہیں۔ سابق بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے شملہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں پارٹی کا ہنومان تھا مجھے راون بنادیا گیا۔ جسونت سنگھ نے کہا کہ افسوس ہے کہ بی جے پی نے کتاب پڑھے بغیر مجھے پارٹی سے نکال دیا ۔

56530_big.jpg
 

فخرنوید

محفلین
بی بی سی...........بھارتیہ جنتا پارٹی ’بی جے پی‘ کے سینیئر رہنما اور سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ کو بانیء پاکستان محمد علی جناح کی ستائش کرنے کی پاداش میں بی جے پی نے پارٹی سے نکال دیا ہے۔

جسونت کی پارٹی کی ابتدائی رکنیت کی منسوخی ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے جب حالیہ پارلیمانی اور اسمبلی اجلاس میں زبردست شکست اور پارٹی قیادت میں تبدیلی کے اہم سوالوں کا جائزہ لینے کے لیے بی جے بی کے سینیئر رہنماؤں نے غور خوض شروع کیا ہے۔

پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ کے بیان سے ظاہر ہے کہ جسونت سنگھ کے اخراج کا فیصلہ کل ہی کر لیا گیا تھا۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کل ہی ’آر ایس ایس‘ کے سربراہ موہن بھاگوت نے ایک انٹرویو میں بی جے پی کے اندر نظریاتی اختلافات اور ڈسپلن شکنی پر نکتہ چینی کی تھی اور کہا تھا کہ پارٹی کو ایسے رہنماؤں کے خلاف فوراً کارروائی کرنی چاہئیےجو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

محمد علی جناح کی ستائش سے متعلق تمام پہلوؤں سے بی جے پی نے واضح طور پر لاتعلقی ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ یہ سنگھ کے اپنے ذاتی خیالات ہیں ۔ لیکن ایک دن بعد اچانک انہیں پارٹی سے نکالا جانا واضح طور پر پارٹی کی نظریاتی کشمکش کا عکاس ہے۔

تقسیم اور جناح ہندوستان میں بہت حساس موضوع رہے ہیں اور یہاں تاریخ کی کتابوں اور تعلیمی نصابوں میں جناح کے ’دو قومی نظریے‘ کو تقسیم کا ذمے دار قرار دیا گیا ہے اور انہیں تقسیم کے ایک ’ویلین‘ کے طور پر ہی پیش کیا جاتا رہا ہے۔

اس ماحول میں جسونت سنگھ کا یہ کہنا کہ ’محمد علی جناح ایک عظیم انسان تھے‘ اور یہ کہ ’تقسیم برصغیرکا ایک بہت بڑا واقعہ تھا اور اس کے لیے ہمیں ایک ڈیمن (برے کردار ) کی ضرورت تھی سو ہم نے جناح کی شکل میں ایک ویلن تخِلیق کر لیا‘ ہندوستان میں مروجہ تصورات سے زبردست انحراف تھا۔

ظاہر ہے کہ جسونت سنگھ کے اس طرح کے خیالات بی جے پی اور ’ار ایس ایس‘ میں کسی کے لیےقابل قبول نہیں ہیں۔


جسونت کے اخراج سے ایک بار پھر یہ واضح ہو گیا ہے پارٹی پر آر ایس ایس کی گرفت بہت مضبوط ہے اور بی جے پی کے اندر سخت گیر عناصر کا کنٹرول بڑھتا جا رہا ہے ۔

راج ناتھ سنگھ کا تعلق پارٹی کے سخت گیر دھڑے سے ہے اور اعتدال پسند سمجھے جانے والے جسونت سنگھ کو نشانہ بنا کر انہوں نے پارٹی کے اندر ان عناصر کو وارننگ دی ہے جو پارٹی کو اعتدال پسندی کی طرف لے جانے کے حق میں ہیں ۔



جسونت سنگھ نے حال ہی میں اپنی کتاب کا اجراء کیا تھا

پارٹی کی اس ’چنتن بیٹھک‘ یعنی غور خوض کے اجلاس میں جب پارٹی کی شکست کے اسباب پر غور کیا جائے گا تو ہندتو ا کے نظریے پر بھی بات ہو گی۔

نریند مودی اور راج ناتھ سنگھ جیسے پارٹی کے رہنما پارٹی کے ہندوئیت کے کردار کو برقرار رکھنے پر زور دیتے رہے ہیں ۔جبکہ اعتدال پسند دھڑے کا خیال ہے کہ پارٹی کے مسلم مخالف تاثر سے پارٹی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے اور بدلتے ہوئے حالات میں بی جے پی کو بھی تبدیل ہونے کی ضرورت ہے ۔

لیکن اس تصور کی آر ایس ایس اور بی جے پی کے پرانے رہنماؤں کی طرف سے شدیر مزاحمت کی جا رہی ہے ۔ بی جے پی کے اندر یہ بحث ایک عرصے سے چل رہی ہے جس کے نتیجے میں پارٹی میں اندورنی طور پر پھوٹ بھی پڑی ہے ۔

جسونت کے اخراج سے فوری طور پر ‎سخت گیر رہنما حاوی ہو جائیں گے ۔ لیکن پارٹی کی شناخت کی کشمکش مزید گہری ہو جائے گی ۔





جسونت سنگھ نے اپنے اخراج کے بعد کہا کہ اس بات پر انہیں افسوس ہے کہ انہیں ایک کتاب لکھنے کی پاداش میں اس پارٹی سے نکال دیا گیا جس کے وہ تیس برس سے رکن تھے ۔ انہوں نے کہا کہ جس دن ہندوستان کی سیاسی جماعتوں میں لکھنے ، پڑھنے اور بحث و مباحثے ککا سلسلہ بند ہو جائے گا وہ دن ملک کی سیاست کےلیے بہت برا دن ہو گا۔


بی جے پی کا تین روزہ تجزیاتی اجلاس شملہ میں ہو رہا ہے اور اس میں پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ ، سینیر رہنما ایل کے اڈوانی اور نریندر مودی سمیت بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں کے سبھی وزراء اعلی اور پار لیمانی پارٹی کے اعلی رہنما شرکت کر رہے ہیں۔ یہ اجلاس بند کمرے میں ہو رہا ہے اور اس کی تفصیلات میڈیا کو نہیں دی جائیں گی ۔


جسونت کے اخراج کے بعد اس بات کے امکان کم ہی ہیں کہ اس اجلاس میں شکست کے اسباب اور قیادت کے سوال پر کو ئی معروضی بحث ہو پائے گی۔

پارٹی میں قیادت کے سوال پر بھی زبردست کشمکش چل رہی ہے اور اب یہ کشمکش اور بھی شدت اختیار کرے گی ۔ لیکن فی الوقت بی جےپی پوری طرح آر ایس ایس کی گرفت میں ہے اور ہو گا وہی جو آر ایس ایس چاہے گی ۔
 
میں الف عین صاحب سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا وہ جسونٹ سنگھ کی لکھ ہوٕی کتاب کے اہم اکتسابات پیش کر سکیں گے محفل اراکین کے لیے ۔
 
میں الف عین صاحب سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا وہ جسونٹ سنگھ کی لکھ ہوٕی کتاب کے اہم اکتسابات پیش کر سکیں گے محفل اراکین کے لیے ۔

مجھے علم نہیں کہ چاچو کا جواب کیا ہو پر جہاں تک مجھے لگتا ہے کہ چاچو خود ان اقتباسات کو دیکھنا نہیں چاہیں گے خواہ وہ کچھ بھی ہوں۔ ان کی سیاست سے دوری کے معاملے میں میرا اب تک کا تجربہ یہی کہتا ہے۔ اور جہاں تک مجھے لگتا ہے کہ وہ کتاب جتنی سہل الحصول ان کے لئے ہوگی اتنی ہی آپ کے لئے بھی۔ لہٰذا میرا مشورہ ہے کہ آپ خود کوشش کرکے اقتباسات کے بجائے پوری کتاب ہی حاصل کر لیں۔
 

arifkarim

معطل
یہ حقائق کب تک چھپتے۔ جیسے اب سابق امریکی سی آئی اے ایجنٹس کے پیٹوں سے سچ باہر پھدک آئے ہیں، یہی حال بھارتیوں کیساتھ بھی آجکل ہو رہا ہے۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے:
You cannot fool all of the people, all of the time!
 
Top