حسان خان
لائبریرین
جناں سے ہے اعلیٰ بہارِ نجف
الجھتے ہیں رضواں سے خارِ نجف
بنے گل چراغِ دیارِ نجف
بندھی ہے ہوائے بہارِ نجف
زہے وسعت و اقتدارِ نجف
پڑے ہیں فلک بھی کنارِ نجف
یہ آدم پہ ہے اختیارِ نجف
اٹھائے بٹھائے غبارِ نجف
کرم اے ہوائے دیارِ نجف
ہمیں بھی ذرا سا غبارِ نجف
ہے دنیا کی رونق دیارِ نجف
گلِ سرسبد ہے بہارِ نجف
جو مشتاقِ نظارہ ہو برقِ طور
کہے لن ترانی غبارِ نجف
یہاں سے نظر آتی ہے شکلِ خلد
صفائی ہے آئینہ دارِ نجف
نہ آتی کبھی جسمِ آدم میں جاں
نہ ملتی جو خاکِ دیارِ نجف
فرشتوں کے بھی ہاتھ آیا نہیں
جب اونچا ہوا ہے غبارِ نجف
فلک، عرش و کعبہ، ریاضِ جناں
یہ ہیں گوشہ ہائے دیارِ نجف
وہی پھول حوروں کے عارض بنے
ہوا خشک جب لالہ زارِ نجف
نسیمِ جناں لاکھ منت کرے
جگہ سے نہ اٹھے غبارِ نجف
سنا شورِ کوثر تو سمجھا یہ میں
گری خلد میں آبشارِ نجف
سلیماں سے لے باج مورِ ضعیف
اگر حکم دے تاجدارِ نجف
بھلا خلد سے کیوں نہ ہو خوب تر
کہ نقشِ دوم ہے دیارِ نجف
سفید و سیہ کے ہیں مختار ہم
یہ کہتے ہیں لیل و نہارِ نجف
شفق کو ہمیشہ یہ حسرت رہی
بنوں تختۂ لالہ زارِ نجف
زمیں کعبہ کی اور زمینِ جناں
یہ دونوں ہیں گرد و غبارِ نجف
جو حق نے دیے ہوتے کعبے کو پا
تو ہر سال ہوتا نثارِ نجف
نہ کیوں پھول جنت کے خوش رنگ ہوں
بھرا رنگِ نقش و نگارِ نجف
گلستانِ جنت ہے طرّے کی شکل
نثارِ سرِ اعتبارِ نجف
رخِ حور کے واسطے حسنِ سبز
بنا سایۂ سبزہ زارِ نجف
دلِ باغِ جنت میں کانٹے کی شکل
کھٹکتی ہے کیا یادِ خارِ نجف
ابھی توڑیں سدرہ کی چوٹی کے پھول
بڑھائیں اگر ہاتھ خارِ نجف
زرِ گل کے انبار ہوں تا فلک
جھٹک دیں اگر ہاتھ خارِ نجف
خضر کو سدا شیوۂ رہبری
بتایا کرے سبزہ زارِ نجف
مقامِ ولادت ترا یا علی
پئے کعبہ ہے یادگارِ نجف
نہیں زلف و رخسارِ حورانِ خلد
مجسم ہیں لیل و نہارِ نجف
رہے گی تری بات کیا اے بہشت
زبانیں جو کھولیں گے خارِ نجف
جو دیکھیں تو ہو خضر کا منہ سفید
زہے سبزیِ سبزہ زارِ نجف
نسیمِ جناں پائے اقدس دبائے
جو خوابیدہ ہو سبزہ زارِ نجف
ہوا تھا جو موسیٰ کے غش کا سبب
وہی نور ہے ہمکنارِ نجف
یہ مٹی کے پتلے ہوں آگاہ خاک
خدا جانتا ہے وقارِ نجف
نہ ہے چاہِ زمزم نہ نہرِ لبن
یہ ہیں شعبۂ آبشارِ نجف
جو پوچھیں خضر راہِ باغِ جناں
ابھی بول اٹھے سبزہ زارِ نجف
کسی سے سنا حوضِ کوثر کا وصف
ہے چیں بر جبیں آبشارِ نجف
کئی کعبہ بنتے کئی کوہِ طور
جو تقسیم ہوتا وقارِ نجف
خدا سے جو ہوں طالبِ فوج خضر
ہراول بنے سبزہ زارِ نجف
کہاں ہیں پڑھیں آ کے مریم نماز
سرِ دامنِ آبشارِ نجف
جگہ اپنی رکھتی ہیں آٹھوں بہشت
تہِ گلبنِ سایہ دارِ نجف
عجب برگ ہوں میں رگوں سے مرے
ٹپکتا ہے خونِ بہارِ نجف
علی نے کیا قبر میں سرفراز
یہ شب ہے کہ صبحِ بہارِ نجف
یہ ہے اعتقادِ زمینِ بہشت
کہ میں بھی ہوں اک خاکسارِ نجف
نہیں چشمِ یعقوب کا کچھ علاج
سوائے سوادِ دیارِ نجف
نہ اٹھے فلک صورتِ نقشِ پا
جہاں لے کے بیٹھے غبارِ نجف
ملک دیکھ لیں بوترابی ہوں میں
کفن میں بھرا ہے غبارِ نجف
لپٹتا ہے کیا ہر گنہ گار سے
عجب صاف دل ہے غبارِ نجف
نہ آباد ہو کس طرح ملکِ دیں
کہ ہے منتظم شہریارِ نجف
گذر جائے خاموش صبحِ نشور
جو سوتے ہوں شب زندہ دارِ نجف
اگر آسماں کے قفس میں ہو بند
تو اڑ جائے لے کر ہزارِ نجف
ہے چرخ اور مہتاب فانوس و شمع
پئے بزمِ اہلِ دیارِ نجف
خدا سے تعشق کی ہے یہ دعا
کہ ہو جسمِ خاکی غبارِ نجف
(تعشق لکھنوی)
الجھتے ہیں رضواں سے خارِ نجف
بنے گل چراغِ دیارِ نجف
بندھی ہے ہوائے بہارِ نجف
زہے وسعت و اقتدارِ نجف
پڑے ہیں فلک بھی کنارِ نجف
یہ آدم پہ ہے اختیارِ نجف
اٹھائے بٹھائے غبارِ نجف
کرم اے ہوائے دیارِ نجف
ہمیں بھی ذرا سا غبارِ نجف
ہے دنیا کی رونق دیارِ نجف
گلِ سرسبد ہے بہارِ نجف
جو مشتاقِ نظارہ ہو برقِ طور
کہے لن ترانی غبارِ نجف
یہاں سے نظر آتی ہے شکلِ خلد
صفائی ہے آئینہ دارِ نجف
نہ آتی کبھی جسمِ آدم میں جاں
نہ ملتی جو خاکِ دیارِ نجف
فرشتوں کے بھی ہاتھ آیا نہیں
جب اونچا ہوا ہے غبارِ نجف
فلک، عرش و کعبہ، ریاضِ جناں
یہ ہیں گوشہ ہائے دیارِ نجف
وہی پھول حوروں کے عارض بنے
ہوا خشک جب لالہ زارِ نجف
نسیمِ جناں لاکھ منت کرے
جگہ سے نہ اٹھے غبارِ نجف
سنا شورِ کوثر تو سمجھا یہ میں
گری خلد میں آبشارِ نجف
سلیماں سے لے باج مورِ ضعیف
اگر حکم دے تاجدارِ نجف
بھلا خلد سے کیوں نہ ہو خوب تر
کہ نقشِ دوم ہے دیارِ نجف
سفید و سیہ کے ہیں مختار ہم
یہ کہتے ہیں لیل و نہارِ نجف
شفق کو ہمیشہ یہ حسرت رہی
بنوں تختۂ لالہ زارِ نجف
زمیں کعبہ کی اور زمینِ جناں
یہ دونوں ہیں گرد و غبارِ نجف
جو حق نے دیے ہوتے کعبے کو پا
تو ہر سال ہوتا نثارِ نجف
نہ کیوں پھول جنت کے خوش رنگ ہوں
بھرا رنگِ نقش و نگارِ نجف
گلستانِ جنت ہے طرّے کی شکل
نثارِ سرِ اعتبارِ نجف
رخِ حور کے واسطے حسنِ سبز
بنا سایۂ سبزہ زارِ نجف
دلِ باغِ جنت میں کانٹے کی شکل
کھٹکتی ہے کیا یادِ خارِ نجف
ابھی توڑیں سدرہ کی چوٹی کے پھول
بڑھائیں اگر ہاتھ خارِ نجف
زرِ گل کے انبار ہوں تا فلک
جھٹک دیں اگر ہاتھ خارِ نجف
خضر کو سدا شیوۂ رہبری
بتایا کرے سبزہ زارِ نجف
مقامِ ولادت ترا یا علی
پئے کعبہ ہے یادگارِ نجف
نہیں زلف و رخسارِ حورانِ خلد
مجسم ہیں لیل و نہارِ نجف
رہے گی تری بات کیا اے بہشت
زبانیں جو کھولیں گے خارِ نجف
جو دیکھیں تو ہو خضر کا منہ سفید
زہے سبزیِ سبزہ زارِ نجف
نسیمِ جناں پائے اقدس دبائے
جو خوابیدہ ہو سبزہ زارِ نجف
ہوا تھا جو موسیٰ کے غش کا سبب
وہی نور ہے ہمکنارِ نجف
یہ مٹی کے پتلے ہوں آگاہ خاک
خدا جانتا ہے وقارِ نجف
نہ ہے چاہِ زمزم نہ نہرِ لبن
یہ ہیں شعبۂ آبشارِ نجف
جو پوچھیں خضر راہِ باغِ جناں
ابھی بول اٹھے سبزہ زارِ نجف
کسی سے سنا حوضِ کوثر کا وصف
ہے چیں بر جبیں آبشارِ نجف
کئی کعبہ بنتے کئی کوہِ طور
جو تقسیم ہوتا وقارِ نجف
خدا سے جو ہوں طالبِ فوج خضر
ہراول بنے سبزہ زارِ نجف
کہاں ہیں پڑھیں آ کے مریم نماز
سرِ دامنِ آبشارِ نجف
جگہ اپنی رکھتی ہیں آٹھوں بہشت
تہِ گلبنِ سایہ دارِ نجف
عجب برگ ہوں میں رگوں سے مرے
ٹپکتا ہے خونِ بہارِ نجف
علی نے کیا قبر میں سرفراز
یہ شب ہے کہ صبحِ بہارِ نجف
یہ ہے اعتقادِ زمینِ بہشت
کہ میں بھی ہوں اک خاکسارِ نجف
نہیں چشمِ یعقوب کا کچھ علاج
سوائے سوادِ دیارِ نجف
نہ اٹھے فلک صورتِ نقشِ پا
جہاں لے کے بیٹھے غبارِ نجف
ملک دیکھ لیں بوترابی ہوں میں
کفن میں بھرا ہے غبارِ نجف
لپٹتا ہے کیا ہر گنہ گار سے
عجب صاف دل ہے غبارِ نجف
نہ آباد ہو کس طرح ملکِ دیں
کہ ہے منتظم شہریارِ نجف
گذر جائے خاموش صبحِ نشور
جو سوتے ہوں شب زندہ دارِ نجف
اگر آسماں کے قفس میں ہو بند
تو اڑ جائے لے کر ہزارِ نجف
ہے چرخ اور مہتاب فانوس و شمع
پئے بزمِ اہلِ دیارِ نجف
خدا سے تعشق کی ہے یہ دعا
کہ ہو جسمِ خاکی غبارِ نجف
(تعشق لکھنوی)
آخری تدوین: