تاسف جنرل حمید گل انتقال کر گئے-انا للہ و انا الیہ راجعون

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

arifkarim

معطل
آئی ایس پی آر کی آفیشل ویب سائٹ سے:
6777.jpg

https://www.ispr.gov.pk/front/main.asp?latest=1&o=t-press_release#pr_link3000
 

arifkarim

معطل
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
زیک جنرل صاحب مرحوم کا افغان جہاد، کشمیر جہاد، اور 9/11 امریکی جہادی حملوں میں بعض ذرائع کے مطابق کردار متنازع رہا ہے۔ البتہ بطور آئی ایس آئی چیف کے انکے حب الوطن پاکستانی ہونے میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہئے۔
 

زیک

مسافر
ٹی وی پر خبر آئی تھی کل


11898535_1645725555671589_9093960266611320768_n.jpg

ایک تصویر نظر سے گزری ہے

جنازے میں شرکت کی نہیں بلکہ کندھا دینے کی بات کر رہا ہوں۔ یہ آخری تصویر کندھے والی میری معلومات کے مطابق حمید گل کے جنازے کی نہیں ہے
 

زیک

مسافر
زیک جنرل صاحب مرحوم کا افغان جہاد، کشمیر جہاد، اور 9/11 امریکی جہادی حملوں میں بعض ذرائع کے مطابق کردار متنازع رہا ہے۔ البتہ بطور آئی ایس آئی چیف کے انکے حب الوطن پاکستانی ہونے میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہئے۔
متنازع؟ اور سیاست میں کیا کردار رہا؟

کیا وہ شخص جو جلال آباد آپریشن میں بری طرح ناکام ہو جائے ایک اچھا آئی ایس آئی چیف مانا جا سکتا ہے؟
 

عزیزامین

محفلین
انا للہ و انا الیہ راجعون
اللہ پاک جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
آمین
جنرل حمید گل مرحوم سے کئی بار ملاقات ہوئی پاکستان سے ان کی محبت سچی اور بےپایاں تھی۔چکلالہ میں ان کے گھر جانے کا بھی اتفاق ہوا۔ بالکل سادہ طرزِ زندگی نظر آئی۔ انتہائی سادہ طبع ، نفیس اور کھرے انسان تھے۔ پاکستان اور پاکستان سے محبت کرنے والوں پر بھونکنے والے کتوں کی پرواہ کسے ہے۔
آپ سے کس وجہ سے ملاقات رہی انکی آپ ان کے رشتے دار تو نہیں لگتے ؟ نہ ہی صحافی ہیں؟
 

زیک

مسافر
آج ۱۷ اگست ہے۔ ۲۷ سال پہلے ایک جہاز تباہ ہوا تھا۔ اس وقت آئی ایس آئی چیف کون تھا؟
 
السلام علیکم،
"تنقید سب کا حق ہے ..مگر اخلاقیات کی بھی کوئی اہمیت ہوتی ہے ...بہت وقت ہے ..جنرل صاحب کی عسکری اور سیاسی سرگرمیوں پر تنقید کرنے کو ...مگر برا ہو انسانیت اور انسانی حقوق کا کہ بال ٹھاکرے کے مرنے کی خبر آئے تو "انسانیت" کے ناطے ان کو چپ لگ جاتی ہے ..مگر افغان جہاد کے "جرم" میں جنرل ان کے معتوب ٹھرے کہ ان کو شرافت بھی بھول گئی ..اھھو ..شرافت کس کو کہتے ہیں ؟...ان کو کیا پتا ..یہ بے چارے برگر پیپسی برانڈ "مفکر " کیا جانیں کہ تدفین کیا ہوتی ہے ...ان کے اپنے گھر میں کسی کی وفات ہو جائے تو ان کو اپنا کالا جوڑا ڈھونڈنے کی فکر ہوتی ہے ..کہ سوگ کا دن ہے ...اور "جنازہ سرمنی " ان کے لیے محض ایک رسم .....ان کی دانش دیکھنی ہے ؟...ابھی چی گویرا پر پوسٹ کریں ..یا پھر ہوچی منہ کی تصویر share کریں ..پھر دیکھیں ...کیسے تبصرے کرتے ہیں .."
.abubakr quddusi
 
جنرل صاحب -ہارون رشید
آدمی چلے جاتے ہیں‘ آخر کو دعا رہ جاتی ہے۔ فرصتِ یک دونفس اور قبر کی شب ہائے دراز۔
گھنٹوں جاری رہنے والی راولپنڈی کی موسلادھار بارش۔میجر عامر نے عنایت کی کہ خود گئے اور جنرل حمید گل سے ملاقات کا وقت طے کیا۔ سرکاری مکان خالی کردیا تھا اور یوسف گل کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے‘ جو وزیراعظم کے سٹاف میں شامل تھے۔ ایوان وزیراعظم سے گوارا فاصلے پر۔
یہ 1991ء کا موسم برسات تھا۔ تفصیل حافظے میں ابھرتی نہیں۔ بس اتنا یاد ہے کہ ان کی خوش اخلاقی نے حیران کردیا۔ عسکری امور پر جو کچھ لکھا تھا‘ اس سے انہیں شدید اختلاف تھا‘ یہ کہہ کر مگر بات ختم کردی'' آپ کو علم نہیں تھا‘‘ ماحول میں شائستگی رہی ‘ شگفتگی رہی۔ میر صاحب نے کہا تھا ؎
مصرعہ کبھو کبھو کوئی موزوں کروں ہوں میں
کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں
کبھی کبھار نہیں جنرل صاحب عمر بھر جگر خوں کرتے رہے۔ زندگی میں شاذ ہی کوئی دوسرا آدمی دیکھا‘ اولادِ آدم سے جو اس قدر حسنِ ظن رکھتا ہو‘ اتنی آسانی سے معاف کر سکتا ہو۔ حسنِ اخلاق کے ایک نادر روزگار پیکر ۔ یہی ان کی سب سے بڑی قوّت تھی۔ مخاطب کے دل میں اتر جاتے اور وہیں بسیرا کیے رکھتے۔
کیسے ہی شدید اختلاف کے باوجود جو بعد کے برسوں میں‘ بعض موضوعات پر ہوا‘ آپ ان کی عزت کرنے پر مجبور ہوتے۔ حیرت انگیز معلومات‘ دنیا بھر کی تحریکوں اور شخصیات سے شناسائی کے باوجود‘ ان میں بچوں کی سی معصومیت‘ سادگی اور سلاست تھی۔ سات آٹھ سال اُدھر‘ پروفیسر احمد رفیق اختر سے کہا کہ عمران خان اور جنرل صاحب کو کھانے پر بلائیں۔ شاید ایک بار پھر وہ رفیق کار بن سکیں۔ آمادگی ظاہر کی لیکن پھر طرح دے گئے‘ میں حیران کہ ہر حال میں وہ پیمان کو یاد رکھنے اورایفا کرنے والے ہیں۔ برسوں بعد ایک روز سبب انہوں نے بتادیا: جنرل صاحب عہد قدیم کے شرفا کی شخصیت رکھتے ہیں اور عمران خان نوجوانوں کے سے تیور۔ ایک دوسرے کے ہم سفر وہ نہیں ہو سکتے۔
اللہ انہیں صحت اور برکت دے‘ کچھ عرصہ قبل بیگم حمید گل نے کہ سرتاپا عمل اور سرتاپا نظم ہیں‘ ناچیز سے کہا تھا:تم انہیں سمجھاتے کیوں نہیں۔ بہو سے ادھار لیکر روپیہ ایک بھکارن کو دے دیا‘ جس نے کہا کہ اسے بیٹی کی شادی کرنی ہے۔ خیرات وہ بھی کرتیں اور ان سے زیادہ ان کی صاحب زادی عظمیٰ گل‘ جو سرمایہ میّسرہوتا تو قیدیوں کے جرمانے ادا کیا کرتیں۔ بیگم صاحبہ مگرجانچ پڑتال کی قائل ہیں۔ جنرل صاحب کو کوئی بھی فریب دے سکتا۔ ایک بار کوئی گردے کا مریض بن کر بہت سے پیسے لے گیا۔ عربوں کا محاورہ ہے: آدمی دوسروں کو خود پر قیاس کرتا ہے۔ انہیں گمان ہی نہ ہوتا کہ کوئی کذب بیانی کر سکتا ہے۔ کیسے کیسوں پر انہوں نے اعتبار کیا‘ کیسے کیسوں سے فریب کھایا۔ ایک آدھ نہیں کئی حکمرانوں کے چرکے ۔ ان کی صاحبزادی اور داماد نے ایک مثالی ٹرانسپورٹ کمپنی بنائی۔ ایک کے بعد دوسری حکومت نے ظلم کا ارتکاب کیا۔ عرض کیا کہ یہ شرفا کا کاروبار نہیں‘ اس چیز سے گریز کرنا چاہیے‘ سرکار سے جس میں واسطہ پڑے۔ جنرل صاحب نے کہا تم ٹھیک کہتے ہو مگر باپ کی طرح اولاد میں بھی حسنِ ظن بہت ہے۔ خواب و خیال کی جنّتیں آباد کرنے کی تمنا۔ ایک مثالی ادارہ بنانے کی آرزو میں سب کچھ برباد ہوگیا۔ ٹرانسپورٹروں کے دو تین ہزار ووٹوں کے لئے‘مقامی ارکانِ اسمبلی اور تقریباً تمام سیاسی جماعتیں ان کے خلاف استعمال ہوئیں۔ جنرل صاحب کسی کا دروازہ کھٹکھٹاتے تو تباہی نہ آتی۔ ان کی خودداری کو گوارا نہ ہوا۔ اولاد نے بھی کمال تحمّل‘ کمال صبر کا مظاہرہ کیا۔ سب سے تکلیف دہ پہلو میڈیا تھا‘ جھوٹی خبریں‘ حتیٰ کہ افواہیں تک چھپتی رہیں۔ ایک بار تو راولپنڈی کے مقامی لیڈر نے ''واران‘‘ کی پچاس ساٹھ بسوں کو
نذرآتش کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس پر بھی جنرل صاحب چپ سادھے رہے‘ اس ناچیز نے واویلا کیا‘ قاضی حسین احمد سمیت‘ سیاسی لیڈروں کے علاوہ پولیس افسروں اور صحافیوں کو گواہ بنایا تو بلا ٹلی۔مشکل سے انہیں آمادہ کر سکا کہ وزیرداخلہ آفتاب شیرپائو سے بات کریں۔ سرکاری معاہدے کے باوجود راولپنڈی کے کورکمانڈر نے عظمیٰ گل اور یوسف گل کو مجرموں کی طرح طلب کیا‘ کمپنی کے مرکزی دفتر پر قبضے کی کوشش کی۔ جنرل مشرف کے عہد میں کاروبار بند کردیا گیا تو بسوں کو فروخت کرنے کی کوشش بھی ناکام بنا دی گئی۔ باوردی افسر گاہکوں کا تعاقب کرتے‘ شہبازشریف باردگر برسراقتدار آئے تو ازسرنو معاہدہ ہوا‘ مگر وہ پیمان ہی کیا جو پورا ہو۔
جنرل صاحب کے ذکر میں بحث آئی جے آئی کی تشکیل پر ہے‘ سیاق و سباق منہا کر کے۔ بے نظیر بھٹو کے خلاف متحدہ محاذ کی تشکیل جنرل کا نہیں‘ عسکری قیادت کا فیصلہ تھا۔ ذمہ داری ایک آدمی پر ڈال دی گئی ۔ اس آدمی نے قبول کر لی‘ بار بار قوم سے معافی کا طلب گار بھی ہوا۔ فوج کو شبہ تھا کہ دشمن ممالک سے محترمہ کے مراسم ہیں۔ سب کچھ وہ لپیٹ دیں گی اور انتقام لیں گی۔ جب ادراک ہوا کہ یہ تعلقات محض ایک سیاسی حکمت عملی تھی تو جنرل صاحب نے بار بار کہا کہ وہ ایک محب وطن لیڈر تھیں ؛ اگرچہ محترمہ کو ان کے بارے میں اکسایا جاتا رہا ۔ بار بار وہ غلط فہمیوں کا شکار ہوتی رہیں‘ آخری دنوں تک!
جنرل صاحب کی کہانی ‘ ایک کتاب کی مستحق ہے ۔ آغاز ان کے پرداداسے ہوتا ہے جو سید احمد شہید کے لشکر کا حصہ تھے اور ان کی شہادت کے بعد لاہور آ بسے‘ جہاں ان کے نام پر ایک محلّے کا نام ہے۔ دادا سرکاری ملازم ہوئے ‘والد تحریک پاکستان کے کارکن۔ محدود سی زمینداری پر انہوں نے قناعت کی۔ اپنے لوگوں سے جنرل صاحب والہانہ محبت کرتے۔ ربع صدی پہلے سرگودھا میں اپنے گائوں کے سب مکان انہوں نے پختہ بنوائے۔ ایک لاکھ ڈالر لندن میں مقیم ان کے دوست نے عطیہ کیا۔ مساوی رقم حکومت پاکستان نے دی۔ پندرہ برس ہوتے ہیں‘ ان میں سے ایک مکان کے باہر ہم کھڑے تھے۔ حقّہ گڑ گڑاتے ہوئے دیہاتی سے جنرل صاحب نے پوچھا: ہماری چار کنال زمین پر آپ نے قبضہ کیوں جما لیا؟اس کا جواب یہ تھا:موتیوں والے! ہم ہر وقت تیرے لیے دعا کیا کرتے ہیں۔ جنرل صاحب جھنجھلائے مگر کوئی سخت بات زبان سے نہیں نکالی۔ ذاتی سر مایے سے انہوں نے گائوںکے لیے‘ ایک ڈسپنسری قائم کی ۔
وسیع المطالعہ‘ صاف ستھرے ‘مہمان نواز‘ شائستہ کلام‘ پابند صوم و صلوٰۃ ہی نہیں‘ تلاوت اور سحر خیزی کے عادی ۔ حسّاس بھی بہت۔ ایک شب جاوید ہاشمی کو ان کے ہاں آنا تھا ۔ ملتان کے کور کمانڈر رہے تھے۔ دو دیہات کے مکینوں نے کہا تھا ‘اس امیدوار کی وہ حمایت کریں گے‘ جنرل صاحب جس کی سفارش کریں۔ بجلی کی سہولت ان کے طفیل ملی تھی۔ میں نے گزارش کی تو بولے: مجھے یاد نہیں‘ بہرحال میں ان سے کہہ دوں گا۔ جاوید ہاشمی تین گھنٹے تاخیر سے آئے۔ جنرل صاحب پریشان۔ بھوکے رہے‘ صبح سویرے جاگنا تھا۔ زیادہ حیرت اس پر ہوئی کہ جاوید صاحب آئے تو رسمی معذرت پر ہی شاد ہو گئے۔
امّت کا درد رکھنے والے تھے۔ معتدل مزاج‘ اقبال اور قائد اعظم کے پیرو کار۔ تعجّب یہ کہ فرقہ پرست مذہبی لیڈروں سے بھی حسن ظن۔ انہیں معلوم تھا کہ اقبال کے اس طالب علم کو مذہب فروشوں سے گھن آتی ہے۔ وہ مجھے اچھے گمان کی تاکید کرتے۔ دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ہوتا انہیں تکلیف پہنچتی۔
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
سچی بات تو یہ ہے کہ سیاست ان کا میدان ہی نہ تھا۔ جو آدمی کبھی شک سے کام نہ لے۔ جو طشتری میں رکھ کر پیش کی جانے والی قومی اسمبلی کی سیٹ کو آنکھ اٹھا کر نہ دیکھے‘ وہ کہاں کا سیاست دان ! پاکستان اور عالم اسلام کے مستقبل پر وہ ہمیشہ سوچ بچار میں محو رہا کرتے۔ کہیں سے کوئی اچھی خبر آتی تو شاد ہوتے۔ کہیں بھی مسلمان مجروح ہوتے تو جنرل کا دل دکھتا۔ موم کی طرح پگھل جانے والے۔ سرکارؐ کے ذکر میں پانی سے ہو جاتے۔ عادات صحت مند‘ خوش لباس اور خوش ذوق۔دعا کو ہاتھ اٹھتے ہیں۔ یقین ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہوں گے۔ سادہ اطوار‘ ایثار کیش‘ نیک نیّت۔ پروردگار ان کی نیکیاں قبول کرے‘ خطائوں سے درگزر فرمائے۔
آدمی چلے جاتے ہیں۔ آخر کو دعا رہ جاتی ہے۔ فرصتِ یک دو نفس اور قبر کی شب ہائے دراز۔
- See more at: http://dunya.com.pk/index.php/author/haroon-ur-rahid/2015-08-18/12325/70429039#tab2
 
خوابوں کا بنجارہ - ارشاد احمد عارف
اپنے بیٹے شاہ حسن کے ساتھ بحریہ ٹائون سے نکلا تو ٹی وی چینلز پر پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل(ر) شجاع خانزادہ کے ڈیرے پر خودکش دھماکے کی بریکنگ نیوز چل رہی تھی۔ رئوف طاہر صاحب کو گھر سے لیا تو انہوں نے یہی اطلاع دی کہ اگرچہ سات افراد جاں بحق ہوئے ہیں اور ڈیرے کی چھت گر چکی ہے مگر کرنل صاحب خیریت سے ہیں‘ میں نے ٹویٹر آن کیا تو جنرل حمید گل کے بارے میں کرنل(ر) شجاع خانزادہ کا تبصرہ نظر آیا جو برادرم انصار عباسی نے شیئر کیا تھا۔ شجاع خانزادہ نے لکھا۔‘‘
Gen Hameed Gul, loss will create a large vacuum in the strategic thought process of Pakistan. Gen was my Mentor and my DG during my service with him. A great Gen with super dynamic qualities and possessed a visionary mind.
ہم تینوں جنرل(ر) حمید گل کے جنازے میں شرکت کی غرض سے موٹر وے پر اسلام آباد کی طرف رواں دواں تھے کہ بھیرہ انٹرچینج پر '' دنیا نیوز ‘‘کی طرف سے کرنل صاحب کی شہادت پر Beeperکی فرمائش آئی۔ دل بجھ سا گیا۔ حمید گل کے ساتھ اس کا ایک بہادر‘ بے لوث اور ''را‘‘ کی آنکھ کا کانٹاپیروکار بھی چلا گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
جنرل (ر) حمید گل سے ملاقات فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد ممتاز قانون دان احمد اویس کے نہر کنارے گھر پر ہوئی۔ اسد اللہ غالب صاحب چند صحافیوں کو پاک فوج اور افغان جہاد کے ایک افسانوی کردار سے ملوانے لے گئے۔ سید مشاہد حسین نے ان کی ریٹائرمنٹ پر اپنے ایک مضمون میں انکشاف کیاتھا کہ حمید گل نے آئی ایس آئی میں بطور چیف اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے سے کم و بیش چار سال قبل جمع کرائے گئے مقالے میں سوویت یونین کو ایک ڈوبتا ہوا جہاز قرار دے کر افغانستان سے بصد سامان رسوائی پسپائی کی پیش گوئی کی تھی۔
حمید گل نے دوران گفتگو افغان عوام کی جدوجہد‘ پاکستان اور اس کے عسکری و خفیہ اداروں کے کردار اور سوویت یونین میں جنم لینے والے تضادات پر تفصیل سے روشنی ڈالی پھر وہ داخلی سیاست کی طرف آئے اور ہمارے تلخ و ترش سوالات کے جواب خندہ پیشانی سے دیئے۔میں نے سید مشاہد حسین کے مضمون اوران کی تازہ گفتگو کا حوالہ دے کر سوال کیا کہ ''ایک سپر پاور کے بارے میں آپ کے اندازے درست ثابت ہوئے مگر جب آپ آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے میاں نواز شریف کو لانچ کر رہے تھے تو ایک شخص کے بارے میں یہ اندازہ کیوں نہ لگا سکے کہ وہ آپ کی توقعات پر پورا اتر سکتا ہے نہ اس سیاسی‘ معاشی‘ جغرافیائی اور نظریاتی ایجنڈے کی تکمیل کے قابل جو آپ کے علاوہ آپ کے ساتھیوں کے پیش نظر تھا۔‘‘جنرل نے جواب دینے سے پہلے پوچھا''آپ کا تعلق کس اخبار سے ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا تو بولے''واقعی سوال دلچسپ اورجاندار ہے۔ آپ سے ملاقات رہے گی۔‘‘
یہ سوال جنرل حمید گل سے میری واقفیت ‘تعلقداری اور قربت کا باعث بنا پھر چل سو چل۔ حمید گل کی عظمت کا نقش میرے دل و دماغ پر اس وقت ثبت ہوا جب ایک نجی محفل میں مجید نظامی صاحب نے بتایا کہ 1990ء میں آئی جے آئی کی انتخابی کامیابی کے بعد جنرل حمید گل میرے پاس آئے اور مجھے لے کر ماڈل ٹائون میاں محمد شریف سے ملے۔ ابھی میاں نواز شریف نے وزیر اعظم کے طور پر حلف نہیں اٹھایا تھا۔ جنرل نے میاں محمد شریف کو رسمی مبارکباد دینے کے بعد درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے خاندان کو اتنے بڑے منصب سے نوازاہے ۔ میں نظامی صاحب کے ہمراہ یہ گزارش کرنے آیا ہوں کہ قانونی اور اخلاقی تقاضے کے طور پر آج کے بعد آپ کے کاروبار‘ فیکٹریوں اور کارخانوں میں اضافہ نہیں ہونا چاہیے ۔یہ Conflict of interestہے۔
مجید نظامی صاحب نے بتایا کہ یہ سن کر بڑے میاں صاحب مسکرائے‘ یہ خندہ استہزا تھا ‘گویا کہہ رہے ہوں حلوہ نہیں کھانا توحافظ جی بننے کا فائدہ؟(یہ نظامی صاحب کے الفاظ ہیں) پھر بولے :دیکھیں جنرل صاحب! میں نے کاروبار ہمیشہ عبادت سمجھ کر کیا ہے۔ میرا نواز شریف کے سیاسی معاملات سے لینا دینا نہیں مگر کوئی مجھ سے کہے کہ میں آج سے عبادت نہ کروں‘ یہ ناممکن ہے؟ اگر جنرل کا دانشمندانہ مشورہ مان لیا جاتا تو شائد بعدازاں جن ہوشربا‘ اورناپسندیدہ داستانوں نے جنم لیا اورشریف خاندان پر الزام تراشی ہوئی اس کی نوبت نہ آتی۔
جنرل (ر) حمید گل نے اپنے پیشروئوں اور جانشینوں کے برعکس‘ حالات اور حکومتوں کی تبدیلی پر موقف بدلا نہ طرز عمل۔ درست سمجھ کر جو کیا اور کہا کبھی اس سے منحرف ہوئے نہ تاویل اور معذرت خواہی کا رویہ اختیار کیا۔ وہ خواب دیکھتے ‘نوجوان نسل کو دکھاتے اور خوابوں میں زندہ رہنے کی کوشش کرتے۔ان کا خواب کیا تھا؟ اسلام کی سربلندی‘ خطے اور دنیا میں پاکستان کا قائدانہ کردار اور اقبالؒ و قائدؒ کے تصورات و نظریات کی روشنی میں ایک اسلامی فلاحی جمہوری ریاست کی تشکیل۔ وہ شکست خوردہ اور مرعوب ذہنیت کو پاکستان کی نوجوان نسل کے لیے سمّ قاتل قرار دیتے اور ہمیشہ اعلیٰ و ارفع مقاصد کی ترویج و اشاعت کے لیے کمر بستہ رہنے کی تلقین کرتے۔ توہین رسالتؐ کے واقعات‘ افغانستان پر امریکی حملے‘ پاکستان میں عدلیہ کی آزادی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کی روک تھام کے حوالے سے وجود میں آنے والی تنظیموں اور احتجاجی تحریکوں میں وہ اپنی عمر‘ صحت اور سابقہ ملازمت کے تقاضوں کی پروا کئے بغیر جرأت مندانہ کردار ادا کر تے رہے اور اپنے سابقہ سٹاف افسر پرویزمشرف کی ناراضگی کی پروا نہیں کی جس نے انہیں سوڈو اٹیلکچول قرار دے ڈالا۔؎
نشہ خودی کا چڑھا‘ آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
حق گوئی و بے باکی ان کا شعار تھا۔ ایک ٹی وی پروگرام میںایم کیو ایم کے ایک بڑے اور بڑبولے لیڈر نے اظہار خیال کرتے ہوئے آئی ایس آئی کے خلاف ریمارکس دیئے تو حمید گل نے ڈانٹا اور کہا کہ اپنی زبان بند رکھیں ورنہ میں آپ کا اور آپ کے لیڈر کا کچا چٹھاکھول دوں گا‘ حیران کن طور پر لیڈر خاموش ہو گئے اور پروگرام کے آخر تک مؤدّب رہے۔ یہی سلوک انہوں نے ایک دو اورٹی وی اینکر کے ساتھ کیا جو بے چارے چوکڑی بھول گئے۔ سوویت یونین کی تشکیل کے بعد سنٹرل ایشیا کی ریاستوں کو ساتھ ملا کر پاکستانافغانستان اور ایران پر مشتمل مسلم بلاک کی تشکیل ان کا خواب تھا جو ضیاء الحق کے بعد آنے والے جمہوری حکمرانوں میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا۔ جبکہ ان کے سٹاف افسر جنرل پرویز مشرف نے تو لٹیا ہی ڈبو دی۔'' سب سے پہلے پاکستان ‘‘کا نعرہ دراصل شکست خوردگی‘ خود مذمّتی اور عالم اسلام سے کٹ کر بھارت کی بالادستی قبول کرنے کا استعارہ تھا جس پر حمید گل ہمیشہ دل گرفتہ رہے۔
ملی یکجہتی کونسل تشکیل پائی تو جنرل صاحب کی خوشی دیدنی تھی۔ انہی دنوں کراچی میں بھی نسلی و لسانی دہشت گردی کے خلاف آپریشن چل رہا تھا۔ جنرل صاحب کا خیال تھا کہ اگر یہ نوزائیدہ تنظیم فرقہ واریت کے عفریت کو نکیل ڈالنے میں کامیاب رہی تو پاکستان کو نسلی‘ لسانی‘ علاقائی اور فرقہ وارانہ تعصبات و منافرت کے ذریعے کمزور کرنے والے عناصر کے عزائم ناکام ہوں گے اور ہم ایک بار پھر اپنی اصل منزل کی طرف یکسوئی سے گامزن ہوں گے۔ کونسل کی تشکیل میں بردار عزیز خورشید گیلانی مرحوم کا کردار جنرل صاحب کے علم میں تھا ۔اس بنا پر جب ان کی وفات پر اہلیہ محترمہ کے ہمراہ میرے غریب خانے پر تشریف لائے تو دیر تک اتحاد امت کے لیے ان کی سعی و کاوش کا تذکرہ کرتے رہے۔
بھارتی عسکری ماہرین اور صحافتی بزر جمہر حمید گل کو ''حاضر سروس دشمن‘‘ قرار دیتے اور خالصتان تحریک‘ کشمیریوں کی مزاحمت اور بھارت کے اندر بے چینی کے پیچھے ہمیشہ حمید گل کا ہاتھ تلاش کرتے۔
جنرل صاحب نے زندگی بھر ہم خیال اور قریبی دوستوں کے علاوہ اپنے ناقدین سے بھی رابطہ برقرار رکھا‘ کسی مخالفانہ تبصرے ‘ تجزیے اور کالم پر ناک بھوں چڑھانے کے بجائے ہمیشہ فون کر کے اپنا نقطہ نظر بیان اورواقعاتی غلطیوں کی تصحیح کرتے۔ ایک بار میں نے ایک روسی ہوا باز کا ذکر کیا جس کو طیارہ گرا کر پاک فوج نے قیدی بنا لیا تو جنرل صاحب نے میری رہنمائی کی اور بتایا کہ بعدازاں یہ ہوا باز روس کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوا۔آخری رابطہ13اگست کی شام ہوا اور جنرل صاحب نے اپنی اہلیہ کی طبیعت کے بارے میں بتایا ۔معلوم نہ تھا کہ یہ آخری رابطہ ہے ورنہ کچھ اور باتیں ہو جاتیں۔ نماز جنازہ میں ہر طبقے ‘مسلک اور علاقے کے لوگ شامل تھے‘ جس سے جنرل صاحب کی مقبولیت اور تعلقات کا اندازہ ہوا۔ جنرل اسلم بیگ ‘ جنرل وحید کاکڑ‘ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور موجودہ آرمی چیف کی شرکت اس بات کا ثبوت تھی کہ فوج کے رینکس اینڈ فائلزمیں ان کی عزت و احترام برقرار ہے اورافسر و سپاہی مرحوم کو واقعی شجاع خانزادہ کی طرح اپنا مرشد‘ گُرو یا اُستاد(Mentor)سمجھتے ہیں۔
جنرل صاحب سے مکالمہ آسان اور اختلاف میں مزہ تھا۔ معاشرے میں اب کتنے لوگ رہ گئے ہیں جن سے اختلاف آسان ہے اور مکالمہ ممکن۔ دیانتدارانہ اختلاف اور دشمنی میں فرق برقرار نہیں رہا۔عبداللہ گل اور عمر گل بیرون ملک تھے‘ واپسی کی جلدی تھی‘ بہن عظمیٰ گل سے تعزیت کئے بغیر لاہور لوٹ آئے ؎
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لا ساقی!
- See more at: http://dunya.com.pk/index.php/author/irshad-ahmad-arif/2015-08-18/12324/94089075#tab2
 
حمید گل کی عظمت کا نقش میرے دل و دماغ پر اس وقت ثبت ہوا جب ایک نجی محفل میں مجید نظامی صاحب نے بتایا کہ 1990ء میں آئی جے آئی کی انتخابی کامیابی کے بعد جنرل حمید گل میرے پاس آئے اور مجھے لے کر ماڈل ٹائون میاں محمد شریف سے ملے۔ ابھی میاں نواز شریف نے وزیر اعظم کے طور پر حلف نہیں اٹھایا تھا۔ جنرل نے میاں محمد شریف کو رسمی مبارکباد دینے کے بعد درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے خاندان کو اتنے بڑے منصب سے نوازاہے ۔ میں نظامی صاحب کے ہمراہ یہ گزارش کرنے آیا ہوں کہ قانونی اور اخلاقی تقاضے کے طور پر آج کے بعد آپ کے کاروبار‘ فیکٹریوں اور کارخانوں میں اضافہ نہیں ہونا چاہیے ۔یہ Conflict of interestہے۔
مجید نظامی صاحب نے بتایا کہ یہ سن کر بڑے میاں صاحب مسکرائے‘ یہ خندہ استہزا تھا ‘گویا کہہ رہے ہوں حلوہ نہیں کھانا توحافظ جی بننے کا فائدہ؟(یہ نظامی صاحب کے الفاظ ہیں) پھر بولے :دیکھیں جنرل صاحب! میں نے کاروبار ہمیشہ عبادت سمجھ کر کیا ہے۔ میرا نواز شریف کے سیاسی معاملات سے لینا دینا نہیں مگر کوئی مجھ سے کہے کہ میں آج سے عبادت نہ کروں‘ یہ ناممکن ہے؟ اگر جنرل کا دانشمندانہ مشورہ مان لیا جاتا تو شائد بعدازاں جن ہوشربا‘ اورناپسندیدہ داستانوں نے جنم لیا اورشریف خاندان پر الزام تراشی ہوئی اس کی نوبت نہ آتی۔
یہ واقعہ آج نذیر ناجی نے بھی اپنے کالم میں بیان کیا ہے لیکن اس کا کالم چونکہ جنرل حمید گل کے ذکر سے زیادہ وزیراعظم نواز شریف کی خوشامد سے بھرا پڑا تھا اس لئے میں نے شریک نہیں کیا۔ محمداحمد
 
جنرل حمید گل... جرگہ…سلیم صافی

289372_s.jpg

SMS: #SSA (space) message & send to 8001
saleem.safi@janggroup.com.pk
ذاتی زندگی میں وہ ایک نفیس انسان تھے۔ اچھے دوست تھے ۔ہر جاننے والے کی غمی شادی پر سب سے پہلے پہنچنے والوں میں سے تھے ۔اچھے شوہر تھے۔ ( جب بھی ان سے بات ہوتی ، اپنی اہلیہ کی علالت کا دکھ بھرے لہجے میں ذکر کرتے اور اب بھی ان کی سہولت کی خاطر ان کے ساتھ مری میں مقیم تھے) ۔ بچوں کی نازبرداریاں اٹھانے والے اچھے باپ تھے ۔ انسانوں اور بالخصوص پاکستانیوں سے محبت کرنے والے تھے ۔ امت کا درد سینے میں رکھتے تھے۔ بعض تعیش پسند جرنیلوں کی طرح تعیش پرست نہیں تھے ۔ سادہ زندگی گزارتے تھے ۔ اپنی عزت اور وقار کے بارے میں ضرورت سے بھی زیادہ حساس تھے ۔ پڑھتے تھے ۔ سوچتے تھے ۔ لکھتے تھے اور کمال کے حافظے کے حامل تھے ۔خود اعتمادی بلا کی تھی ۔ خوش فہم تھے ۔امت اور پاکستان کے بارے میں خوش فہمی میں نہ صرف خود مبتلا رہتے تھے بلکہ اس قدر اعتماد سے اس کا اظہار کرتے کہ مخاطب بھی یقین کئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ ذاتی تعلق میں حسن ظن سے کام لیتے تھے۔ زندگی کی آخری سانس تک متحرک رہے ۔ زبان، عقل یا جسم کے کسی حصے پر بڑھاپے کا اثر ظاہر ہونے نہیں دیا۔ غرض ذاتی زندگی میں وہ خوبیوں کا مجموعہ تھے ۔ ان کی ذات مروجہ انسانی خرابیوں سے پاک تھی اور ایسی صفات کی حامل تھی، جو ہمارے معاشرے میں عنقا ہوتی جارہی ہیں۔ لیکن جنرل (ر) حمید گل صاحب ان سب خوبیوں کے باوجود متنازع ترین شخصیت رہے ۔ اپنے سیاسی اور اجتماعی کردار کی وجہ سے ، اپنے خاص نظریات کی وجہ سے ، اپنے گفتار کی وجہ سے اور سب سے بڑھ کر افغانستان اور پاکستان کی سیاست میں کردار کی وجہ سے متنازع تھے اور متنازع رہیں گے ۔
ذاتی تعلقات میں وہ انتہائی مستقل مزاج تھے تو نظریاتی اور سیاسی تعلق میں وہ اس قدر جلدی اپنی پسند بدلنے کے لئے مشہور تھے ۔ انہوں نے میاں نوازشریف کو سیاست میں متعارف کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا لیکن پھر ان کے شدید مخالف بن گئے ۔ عمران خان کو سیاست میں آنے کی ترغیب دی لیکن پھر ان کے ہمسفربننے کی بجائے ناقد بنے ۔ کسی زمانے میں گلبدین حکمت یار ، استاد سیاف اور برہان الدین ربانی کے دلدادہ تھے اور ان کو امت مسلمہ کا عظیم ہیرو قرردیتے تھے لیکن پھر جب ان کے خلاف ملا محمد عمر مجاہد میدان میں اترے تو وہ ان کے اور ان کے طالبان کے شیدائی بن گئے۔ بارہ اکتوبر 1999ء سے قبل میاں نوازشریف کے خلاف فوج کو دعوت دیتے رہے اور ابتداء میں پرویز مشرف کی بغاوت کی حمایت بھی کی لیکن بعد میں ان کے ایسے مخالف بن گئے کہ ان کے خلاف افتخار محمد چوہدری کی قیادت میں تحریک چلانے لگے۔ پرویز مشرف کے دور میں جمہوریت کی بحالی کے لئے چوہدری اعتراز احسن کے ہمرکاب بنے لیکن اب پھر جمہوریت سے بے زار ہوچکے تھے اور خلافت کی دہائی دیا کرتے تھے ۔ کسی زمانے میں وہ امریکہ کے منظور نظر اور سوویت یونین کے مخالف نمبرون تھے لیکن اب روس کے حامی اور امریکہ کے زبردست مخالف بن چکے تھے ۔ کسی زمانے میں برادر اسلامی ملک کے خاص بندے تھے لیکن زندگی کے آخری ایام میں ایران کی صف میں جاچکے تھے۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود وہ اپنے چاہنے والوں (جو لاکھوں میں ہیں) کے نزدیک عظیم دانشور اور مدبر تھے۔ ان کے چاہنے والے یہ لوگ انہی کو عظیم سمجھتے تھے۔ انہی کے تجزیئے پر یقین کرتے تھے ۔ کیونکہ جنرل حمید گل اس سلیقے اور اعتماد سے بولتے تھے کہ مخاطب پکار اٹھتا کہ حق ہے تو بس وہی ہے جو جنرل صاحب کی زبان سے ادا ہورہا ہے۔ اس لئے کہ وہ جنرل حمید گل تھے اور اپنی ہر بات کو حتمی حق سمجھ کر پورے اعتماد کے ساتھ بیان کرتے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑی حد تک اپنی دنیا میں مست اور ایک بے خبر انسان تھے ۔ ان کی خبری کا یہ عالم تھا کہ آخری وقت تک یہ دعویٰ کرتے رہے کہ نائن الیون القاعدہ کا نہیں بلکہ امریکیوں کا اپنا منصوبہ تھا۔ وہ یہ بھی دعویٰ کرتے رہے کہ ایبٹ آباد آپریشن کی دوران اسامہ بن لادن وہاں موجود نہیں تھے اور یہ کہ امریکی، جنرل کیانی اورجنرل پاشا وغیرہ سب غلط بیانی کررہے ہیں ۔ وہ یہی فلسفہ پھیلاتے رہے کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ۔ وہ پاکستانی طالبان کو ہندوستان کا ایجنٹ سمجھتے تھے لیکن ٹی وی انٹرویو ز میں مولوی فقیر محمد اور منگل باغ وغیرہ کی تعریف یہ کہہ کرکیا کرتے رہے کہ وہ پاکستان سے لڑنے کے حامی نہیں۔ انہوں نے پچھلے چودہ سال میں ملامحمد کو دیکھا تھا اور نہ ان سے ان کا کوئی براہ راست رابطہ ہوا تھا۔ ان کو یہ بھی علم نہیں کہ کئی سال قبل ملامحمد عمر وفات پاچکے ہیں اور ایک ماہ قبل (گزشتہ رمضان المبارک) میرے ساتھ ایک انٹرویو میں بھی انہوںنے یہ دعویٰ کیا کہ ملامحمد زندہ ہیں اور طالبان کی کمانڈ کررہے ہیں۔ نہ جانے کرنل امام کے بارے میں انہوں نے کس کو پیغام بھیجا تھا اور کس کی طرف سے ان کو جواب ملا تھا لیکن وہ اعتماد کے ساتھ کہتے تھے کہ میرے کہنے پر ملا محمد نے حکیم اللہ کو پیغام بھیجا تھا کہ وہ کرنل امام کو چھوڑ دیں ۔ لیکن اس کے باوجو لوگ جنرل حمید گل کو طالبان کا استاد اور سرپرست سمجھتے تھے اور تو اور امریکی اور افغان انٹیلی جنس کو بھی شک یا یقین تھا کہ وہ طالبان کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں اور یہ کہ وہ ان کی رہنمائی کرتے ہیں ۔ یہ اس لئے کہ وہ جنرل حمید گل اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ تھے۔
وہ آئی ایس آئی کے سربراہ تھے جب جنرل محمد ضیاء الحق کئی جرنیلوں سمیت ایک سازش کے نتیجے میں مارے گئے۔ جنرل حمید گل خود بھی اسے سازش اور امریکیوں کی سازش قرار دیتے تھے لیکن کبھی مجرموں کو بے نقاب نہ کرسکے ۔ وہ آئی ایس آئی کے سربراہ تھے جب اوجڑی کیمپ کا سانحہ رونما ہوا ۔ وہ آئی ایس آئی کے سربراہ تھے جب جلال آباد پر حملے کا ناقص ترین منصوبہ بنایا گیا ۔ انہوں نے آئی جے آئی بنا کر بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کا راستہ روکنا چاہا لیکن راستہ نہ روک سکے اور وہ وزیر اعظم بن گئیں۔ انہوں نے تحریک احتساب کی صورت میں اپنی جماعت بنانے کی کوشش کی لیکن وہ کوشش بری طرح فلاپ ہوگئی۔ لیکن ان سب کچھ کے باوجود وہ خود بھی اپنے آپ کو اسٹریٹجسٹ سمجھتے تھے اور مولانا سمیع الحق جیسے سینکڑوں لوگ بھی ان کے در پر مشورے اور رہنمائی کے لئے حاضر ہوتے تھے ۔ وہ ان کو بڑا سٹریٹجسٹ اور منصوبہ ساز سمجھتے ۔ اس لئے کہ وہ جنرل حمید گل تھے ۔
وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہتے تھے کہ میں نے سیاست میں مداخلت کی اور آئی جے آئی بنائی ۔ وہ للکارتے رہے کہ کوئی میرے خلاف مقدمہ چلانا چاہتا ہے تو چلا لے ۔ وہ کہتے رہے کہ اسامہ بن لادن امت مسلمہ کے ہیرو ہیں ۔ وہ زندگی کی آخری سانس تک ملا محمد اوران کے طالبان کے حامی رہے ۔ وہ امریکہ اور بعض اوقات پاکستان کو مطلوب لوگوں کے ساتھ رابطوں کا مبالغے کی حد تک اعتراف یا دعویٰ کرتے رہے ۔ بے نظیر بھٹو نے اپنے ایک ای میل میں اپنے مجوزہ قاتلوں میں ان کا بھی نام شامل کردیا۔ انہوں نے نوازشریف کو بھی للکارا، پرویز مشرف کو بھی اور آصف علی زرداری کو بھی لیکن کوئی ان پر ہاتھ ڈال سکا نہ ان کو کسی عدالت میں بلا سکا ۔ اس لئے کہ وہ جنرل (ر) حمیدگل تھے۔ واقعی جنرل حمید گل ، جنرل حمید گل تھے ۔ اس جنرل نے پاکستانی سیاست اور سماج پر غیرمعمولی اثرات ڈالے اور انہیں کبھی نہیں بلایا جاسکے گا۔
 

عبد الرحمن

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون
نظریاتی اختلاف اپنی جگہ ۔۔۔۔۔۔۔ مگر سچ کہ
اک کھرا محب وطن جانباز سپاہی
غلطیوں سے کون پاک یہاں ؟
حق مغفرت فرمائے آمین
بہت دعائیں
بہت خوب صورت بات کی آپ نے نایاب بھائی!
جزاک اللہ!
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top