جنرل حمید گل سے یاد گار ملاقاتیں ...حکم اذاں ........ڈاکٹرحسین احمد پراچہ
جنرل حمید گل کے ساتھ میری ملاقاتوں اور یادوں کا سلسلہ دو دہائیوں پر پھیلاہوا ہے۔ اس دوران میری طرف سے اظہار عقیدت ہوتا رہااور وہ ہمیشہ شفقت سے پیش آتے رہے ۔روبرو ملاقاتوں کے علاوہ ٹیلی فون اور اخباری ِکالموں کے ذریعے تبادلۂ افکار کا سلسلہ چلتا رہا۔ جنرل صاحب کی ایک خوبصورت ادا تھی کہ اخباری صفحات میں اپنے خلاف سخت سے سخت ، تندوتیز تنقید پر بھی وہ وسیع النظری کا ثبوت دیتے اور تعلقات کے آبگینے پر کوئی بال نہ آنے دیتے۔ اُن سے اسلام آباد ،لاہور اور سرگودھا میں کئی یادگار ملاقاتیں ہوئیں۔ ان ملاقاتوں میں عالمِ اسلامِ، وطن ِ عزیز پاکستان اور دو قومی نظریہ وغیرہ کے موضوعات پر تبادلہ خیالات ہوا۔ ان موضوعات پر سیرحاصل گفتگو ہوتی۔ جنرل صاحب بہت سے سیاسی وفوجی قائدین کے برعکس صرف اپنی ہی نہ سناتے دوسرے کی بھی سنتے اور نہایت غور سے سنتے تھے ۔اُن سے آخری ملاقات چند ماہ قبل سرگودھا میں ہوئی۔ شہری آسودگی اور دیہاتی حسن کے دل کش سنجوگ کا نام سرگودھا ہے۔ میں ہمیشہ سرگودھا کو شہرِ وفا کہتا ہوں جبکہ اسلام آباد کو شہر ’’بے وفا‘‘ کہتا ہوں کیونکہ یہاں کا اقتدار کم ہی کسی سے وفا کرتا ہے یقین نہ آئے تو مشاہد اللہ صاحب سے پوچھ لیجئے ۔میری طرح جنرل صاحب کا تعلق بھی سرگودھا سے ہے ۔جنرل صاحب میری وضع کردہ ترکیب ’’شہروفا‘‘ سے بہت محظوظ ہوتے اور سرگودھا کے لئے اس لقب کی تعریف فرماتے ۔
چند ماہ قبل یونیورسٹی آف سرگودھا کے علم دوست وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری نے سیرت النبی اﷺ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار کی صدارت کے لئے جنرل (ر) حمید گل صاحب کو دعوت دی۔میں بھی اس سیمینار میں حاضر تھا۔ جنرل صاحب نے بڑے ذوق وشوق کے ساتھ سیرتِ سرور عالمﷺ کے بارے میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کیا۔ اپنے خطاب سے پہلے انھوں نے ہال میں ایک سی ڈی چلانے کا حکم دیا جسے وہ اپنے ہمراہ لائے تھے۔ یہ سی ڈی کنور مہندرا سنگھ بیدی کی ایک خوبصورت اور اثر انگیز نعت پرمشتمل تھی۔ اس نعت کے چند اشعار قارئین کی دل چسپی کے لئے یہاں نقل کر رہاہوں:
ہم کسی دین سے ہوں ،قائل کردار تو ہیں
ہم ثنا خوانِ شہہ حیدرِ کرار تو ہیں
نام لیوا ہیں محمدؐکے پرستارتو ہیں
یعنی مجبور پئے احمدِ مختار تو ہیں
عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمدؐ پر اجارہ تو نہیں
نوجوان طلبہ وطالبات کو ایک غیر مسلم کی ولولہ انگیز نعت سنانے کے بعد حیاتِ طیبہﷺ کے بارے میں جنرل (ر) حمید گل نے نہایت ایمان افروز ، پرجوش اور فکر انگیز خطاب کیا۔جنرل صاحب نے یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات کو سرکار دو عالمِ ﷺ کی حیات ِ طیبہ سے ایمان افروز واقعات سنائے اور نوجوانوں کو بتایا کہ آپ کے پاس قرآن وسنت کی شکل میں خدا کا آخری پیغام محفوظ شکل میں موجود ہے۔ اس پیغام مہروفا کو دنیاکے کونے کونے تک پہنچانا ،بحیثیت مسلمان ہماری اور آپ سب کی ذمہ داری ہے۔ استاد گرامی ڈاکٹر خورشید رضوی کا شعر ہے کہ
کبھی اصول کی غیرت کبھی زباں کا سوال
دماغ و دل میں رہی ہے مشاورت کیا کیا
جنرل صاحب کے ساتھ ربع صدی کے دوران میں نے ایک بار بھی محسوس نہیں کیا کہ انھیں کبھی دماغ ودل کے درمیان کسی ’’مشاورت‘‘ کی صعوبت سے دو چار ہونا پڑا ہو۔سبب اس کا یہ تھا کہ جنرل صاحب نے ’’اصول کی غیرت‘‘ کا پرچم ہمیشہ سربلند رکھا اور ’’زباں‘‘ کا سوال تو کبھی اُن کے ہاں پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ اللہ نے انھیں بہت کچھ دے رکھا تھا اورا نھوں نے حرص وہوس سے اپنے دامن کو آلودہ نہ ہونے دیا۔
جنرل صاحب امیر مینائی کے اس شعر کی چلتی پھرتی تصویر بھی تھے اور تفسیر بھی
خنجر چلے کسی پر تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
سارے جہاں کا تو مجھے پتہ نہیں مگر عالمِ اسلام کا سچا درد ،وہ اپنے جگر میں محسوس کرتے اور مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم کا سن کر تو اُن کا دل پاش پاش ہوجاتا۔ کشمیر ،افغانستان ،بوسنیا ،اریٹریا،برما کے مسلمانوں کی حالتِ زار پر وہ بہت کبیدہ خاطر ہوتے مگر اُن کی شدّت احساس صرف کبیدگی خاطر تک محدود نہ رہتی بلکہ وہ مسلمانوں کے مسائل ومعاملات کے حل کے لئے غورو فکر کے بعد نہایت قابل عمل تجاویز بھی پیش کرتے۔
جنرل حمید گل جہاد افغانستان کے ہیرو کے طور پر یاد کئے جاتے رہیں گے۔ جنرل صاحب نے جب آئی ایس آئی کے چیف کے طور پر 1987ء میں چارج سنبھالا تو جہاد افغانستان اپنے عروج پر تھا۔ اس وقت کوئی شخص یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آئی ایس آئی، پاک فوج اور پاکستانی عوام کی اشیر باد کے ساتھ جہاد افغانستان کو اس مقام پرلے جائے گی جہاں روس کو ناکوں چنے چبوائے جائیں گے اور روس کے پاس افغانستان خالی کرنے اور واپس اپنے وطن لوٹ جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ اس کامیابی کے پیچھے جنرل ضیاء الحق کی جوانمردی اور منصوبہ بندی یقیناََ موجود تھی مگر افغان مجاہدین کے ساتھ براہ راست رابطہ استوار کرنا ،اس رابطے کو مستحکم کرنا ،اس رابطے میں کوئی دراڑ نہ آنے دینا بہت بڑا کام تھا، بہت بڑا ٹاسک تھا اور اس ٹاسک کو جس شخص نے نہایت حسن وخوبی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اس کا نام جنرل (ر) حمید گل ہے اگرچہ جنرل ضیاء الحق اورا ُن کے لائق وفائق جنرل (ر) حمید گل تو باریک چالوں کو بڑی حد تک سمجھتے تھے مگر جنرل ضیاء الحق کے آخری زمانے اور اس کے بعد کی سول حکومتیں ’’دوستوں‘‘ اور دشمنوں کی چالوں کو نہ سمجھ سکے اور جنیوا معاہدے کے جال میں آ گئے ۔جس کے نتیجے میں افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو گیا ۔ جنرل صاحب کہا کرتے تھے کہ ہمارے جملہ مسائل کا کافی وشافی علاج ’’نرم انقلاب‘‘ ہے، میرا جواب یہ ہوتا جنرل صاحب ! اگر ’’نرم انقلاب ‘‘ سے آپ کی مراد دعوت وارشاد ہے تو اس کے کئی ماڈل ہمارے ہاں موجود ہیں۔ ان ماڈلوں میں تبلیغی جماعت کی خاموش دعوت ہے جو اپنی ذات سے شروع ہوکر اپنے معاشرے تک پھیلتی چلی جاتی ہے اور پھر اُن کا دعوی ہے کہ ہم اس دعوت کو ساری دنیا میں پھیلائیں گے ۔ پھر جماعت اسلامی کی دعوت اقامت دین ہے جسے وہ رابطہ عوام اورکتب بینی کے ذریعے لوگوں کو پہنچاتی ہے ۔اگر آپ کا نرم انقلاب بھی ایسی ہی کسی دعوت کا نام ہے تو مجھے یقین نہیں آتا کہ کسی قوّت نافذہ کے بغیر آپ کا یہ انقلاب کیسے برپا ہو گا۔ جنرل صاحب ایسے مواقع پر اپنی وسعت ِ مطالعہ کے تمام تر ہتھیاروںسے لیس ہو کر سامع کوگھائل اور قائل کرنے کی بھرپور کوشش کرتے۔نوّے کی دہائی میں اپنی ریٹائرمنٹ کے دو سالوں کے بعد جنرل حمید گل ایک دیو مالائی شخصیت کے طور پر پسند کئے جاتے تھے ۔
اور لوگ ہرجگہ اُن پر عقیدت ومحبت کے پھول نچھاور کرتے تھے میری رائے یہ تھی کہ جنرل صاحب کو اس وقت اپنے ’’نرم انقلاب‘‘ کی تفسیر بیان کرنے کے لیے کوئی عملی راستہ اختیار کر لینا چاہئے تھا۔ اس کی ایک شکل تو یہ ہو سکتی تھی کہ وہ اپنی پسندکی کسی سیاسی ودینی جماعت میں شمولیت اختیار کرتے یا پھر اپنے اسلامی وسیاسی افکار کی صورت گری کے لیے اپنی کوئی پارٹی تشکیل دیتے۔
جنرل صاحب کی اسلام اور پاکستان سے کمٹمنٹ مضبوط تھی۔ وہ اسلام ،دو قومی نظریہ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دفاع کے لئے ہمیشہ شمشیرِبے نیام تھے۔ وہ کسی بھی قومی یا بین الاقوامی فورم پر کھل کر اور ڈٹ کر اور لگی لپٹی رکھے بغیر عالمِ اسلام اور پاکستان کی سربلندی کے لئے نعرہ مستانہ بلند کرتے اور امریکہ ، بھارت اور اسرائیل کی پالیسیوں کو نشانہ تنقید بناتے رہتے۔ جنرل صاحب کے بارے میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اُن کی نیکیوں کا پلڑا اُن کی خامیوں کے پلڑے سے بہت بھاری ہے۔ اللہ اُن کی حسنات کو قبول فرمائے اور اُن کی خامیوں سے درگزر فرمائے ۔آمین