بہت زبردست تھی ہر بات اس حساب سے تو نوازشریف سچ ثابت ہو رہا ہاے جبکہ مشرف کی ہر بات اس کی اپنی طرح جھوٹی۔۔۔میں نے بھی دل لگا کے ہر بات انکھیں کان کھول کے پورے 2 گھنٹے سنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زینب سسٹر،
کیا آپ کو نہیں محسوس ہوا کہ شاہد مسعود اپنے منصب سے انصاف نہیں کرتا اور غیر جانبدارانہ صحافت کرنے کے بجائے چھان چھان کو اُن لوگوں کو سامنے لے کر آتا ہے جو صدر مشرف کے خلاف ہوتے ہیں۔
سسٹر، کیا آپ بتائیں گی کہ گلزار کیانی نے کونسی نئی بات کی ہے؟
کیا افغانستان اور طالبان کا مسئلہ نیا ہے جو گلزار صاحب نے نئے الزامات لگائے ہیں؟ یہ گلزار صاحب انہیں احمقوں کی صف میں شامل ہیں جو اپنی بنائی ہوئی جنت میں رہتے ہیں۔
ایک طرف ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کارگل میں انتا کمزور تھا کہ انڈیا سے لڑ نہیں سکتا تھا [غور سے انکا انٹرویو پھر سنئیے، اور دوسری طرف بڑک ہانک رہے ہیں کہ پاکستان کو طالبان کی خاطر امریکہ سے ٹکڑا جانا چاہیے تھا۔ کیا آپ کو ان جیسے احمقوں کی سوچ پر حیرت نہیں ہوتی؟ [یاد رکھئیے، احمقوں کے سروں پر سینگ نہیں ہوتے، بلکہ یہ انکی باتیں ہیں جن سے آپ کو پتا چلے گا]
آج تک ان بڑک مارنے والوں نے اس بات کا جواب نہیں دیا کہ اگر امریکہ سے ٹکڑا جانا اتنا ہی آسان تھا تو پھر طالبان افغانستان میں اپنی نہتی و معصوم عوام کو امریکی جنگی جہازوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر کیوں پہاڑوں میں بھاگتے اور چھپتے اور اپنی جانیں بچاتے پھر رہے تھے۔
/////////////////////////////////
اور ہم کیسے نواز شریف ایسے کذاب کی باتوں کا یقین کر لیں؟ مگر نہیں، یہ ریٹائرڈ جنرل صاحب مکمل طور پر نواز شریف کے گاڑی میں سوار ہو گئے ہیں اور سچ کو جھوٹ بنانے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں۔
میں کارگل کی جنگ کو نظر انداز کرتی ہوں کہ جسکی خاظر نواز شریف طرح طرح کے جھوٹ بول رہا ہے، مگر انہی جنرل صاحب کا دعوی ہے کہ نواز شریف نے طیارہ کے پائلٹ کو طیارہ ہائی جیک کرنے کی کوئی ہدایات نہیں دی تھیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔ تو کیا ہم واقعی اس جنرل گلزار کی باتوں کو جوں کا توں مان لیں؟
نواز شریف وہ جھوٹا سیاسی شخص ہے جو مہیوں تک ایسے کسی معاہدے کا انکار کرتا رہا تھا کہ جس کی بنا پر اُسے دس سال کے لیے ملک بدر ہونا تھا۔ مگر جب یہ تمام معاہدے میڈیا کے سامنے آ گئے تو یہ مکار شخص پھر بھی اپنی کذب بیانیوں پر شرمندہ ہونے کے لیے تیار نہیں تھا۔
//////////////////////////////////
نواز کے متعلق ایک بات اور:
پاکستان میں کسی بھی فرم میں دس پندرہ کام کرنے والے مل کر "یونین" بنا لیتے ہیں اور یہ "جمہوریت" ہے۔
مگر نواز شریف کی جمہوریت {جسکا یہ یہ مکار شخص ہر وقت نام لیکر ڈکٹیٹر دکٹیٹر روتا ہے] اس کی اپنی آمریت کی حالت یہ تھی کہ جمہوریت کے اس پورے دور میں اس کے ظلم کی وجہ سے اتنی بڑی اتفاق فانڈری میں ایک دفعہ بھی مزدور لوگ یونین بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے، بلکہ جس نے بھی یہ جمہوری حق حاصل کرنے کی کوشش کی، اُسکا حشر برا ہوا۔
تو ایسے آمر، جو اپنی ہی فیکٹری میں مزدوروں کو یونین تک نہ بنانے دے، اُس سے آپ کیا توقع کرِیں گے کہ وہ میڈیا کو آزادی دے گا اور عدلیہ کو آزادی دے گا۔
سسٹر زینب،
میں آپ کو نہیں کہہ رہی، مگر قوم کے کچھ ایسے طبقات کی بات کر رہی ہوں جو صدر مشرف کو ہٹانے کے بعد اب اس چکر میں ہیں کہ زرداری کو ہٹایا جائے، اور اس مقصد کے لیے اب نواز شریف کو ہیرو بنایا جائے گا۔