سید انور محمود
محفلین
تاریخ: 20 فروری، 2017
جنرل ضیاء الحق کے ہمجولی
تحریر: سید انور محمود
سابق آمرجنرل ضیاءالحق (جس کو کچھ لوگ جنرل ضیاع بھی لکھتے ہیں)نے اپنے گیارہ سالہ اقتدار کے دور میں منافقت کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے تھے۔اقتدار پر ناجائز قابض ہونے سے پہلے تک سگریٹ پیتا تھا لیکن اپنے دورمیں سگریٹ پینا چھوڑ دیا، چندروز سائیکل پردفتر جاکر قوم کو بچت کی نصحیت کرنا، شلوار قمیض اور شیروانی پہننا، دکھاوے کی عبادت کرنا، یوم آزادی منانا، اسلامی بینکاری اور دفاتر میں نماز کا وقفہ، یہ سب عمل منافقت سے جڑئے ہوئے تھے، اس کا مقصد صرف اورصرف اپنے اقتدار کو طول دینا تھا۔روس کے افغانستان میں داخلے کے بعد تو اس کی عید ہوگئی ، امریکہ سے سیاسی حمایت کے ساتھ ساتھ ڈالروصول کرکے مذہب فروشی کرتا رہا۔ اس شغل کے زریعے وہ امریکہ کو ڈالر مجاہد مہیا کرتا تھا جو افغانستان جاکر روس سےنام نہاد جہاد کے نام پر لڑتے اور ڈالر کماتے تھے۔ آمر جنرل ضیاء الحق کے مذہب فروشی کے اس کاروبار میں اس کی سب سے بڑی شریک کا رجماعت اسلامی تھی جو آج بھی پاکستان میں دہشتگردوں کی سب سے بڑی سہولت کار ہے۔ دوسروں کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور موجودہ وزیر اعظم نوازشریف اور انکے وزیر داخلہ بھی منافق جنرل ضیاءالحق کے ہمجولی تھے اور دونوں ہی جنرل سے سیاست کی ٹرینگ لیتے تھے، دونوں میں آج وہی گن پائے جاتے ہیں جوان کےسیاسی باپ جنرل ضیاءالحق میں تھے۔
سترہ اگست 1988 کو جنرل ضیاءالحق فوج کے ایک پروگرام میں شریک ہوکر بہاولپور سے واپس اسلام جارہا تھا کہ اس کا طیارہ فضا میں پھٹ گیا اور ساتھ ہی فضا میں وہ خود بھی پھٹ گیا، جس پر پاکستانی عوام کا کہنا تھا کہ’خس کم جہاں آباد‘۔اگلے دن جنرل ضیاءالحق منافق کے لیے ایک اور منافقت کی گئی اور ایک بتیسی کے ساتھ جلے ہوئے گوشت کے لوتھڑوں کو جنرل ضیاءالحق کی باقیات کہہ کر بغیر کسی وجہ کےاسلام آباد کی فیصل مسجد کے احاطے میں دفن کیا گیا۔ بعد میں کچھ لوگوں نے فیصل مسجد کے اسٹاپ کا نام جبڑا چوک رکھ دیا۔صحافی اعزاز سید کا کہنا ہے کہ اب بھی یہاں لوگ ویگنوں سے اُتر کر مطلوبہ دفاتر کی جانب جاتے ہیں ، اُس سے قبل ویگن کا کنڈکٹر آواز لگاتا ہے: ”جبڑا چوک والے بھائی“۔ شروع کے چند سالوں میں جنرل ضیاءالحق کے مزار پر ہر سال اسکی برسی کا اہتمام ہوتا تھا لیکن جب کچھ ہی سالوںمیں جنرل ضیاءالحق کے سیاسی کرتوت سامنے آئے تو سوداگر نواز شریف نے جنرل ضیاءالحق کے مزار پر جانا چھوڑ دیا، یہاں تک ہوا کہ اب اس کا بیٹا بھی اپنے باپ کی قبر پر نہیں جاتا، کچھ مہینے قبل سوشل میڈیا پر ایک تصویر پوسٹ کی گئی تھی جس میں جنرل ضیاءالحق کی قبر پرکچھ کتے لیٹے ہوئے تھے۔جنرل ضیاءالحق نے ملک کو گیارہ سال تک جمہوریت سے دور رکھا، آئین میں من مانی ترمیم کرکے اس کی شکل بدلی، اس کے علاوہ اس نے اسلام کے نام پر قوم سے فراڈ کیا اور اسلام کو اپنے گیارہ سالہ دور اقتدار میں بھی مکمل نافذ نہ کر کےاسے ایک مشکل مذہب ثابت کرنے کی کوشش کی۔
روس کےافغانستان سے چلے جانے کے بعد امریکہ نے روسیوں سے لڑنے والوں کا راتب بند کردیا ۔ جنرل ضیاءالحق کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی اور ڈالر مجاہدوں کا راتب بھی بند ہوگیا، اس لیے یہ سب امریکہ کے مخالف ہوگئے، روس سے جنگ کے دوران امریکہ نے نام نہاد مجاہدوں کو بہت اسلحہ دیا تھا جو اب ان کے قبضے میں تھا۔11 ستمبر 2001 کو اسامہ بن لادن کی دہشتگرد تنظیم ’القاعدہ‘ کے ارکان نے چار امریکی طیارئے اغوا کیے جن میں سے دو کو نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹرسے ٹکرا دیا، جس کے نتیجے میں ہزاروں انسان ہلاک ہوگئے۔11 ستمبر2001 تاریخ کا وہ افسوس ناک دن ہے جس نے پوری دنیا کو بدل کر رکھ دیا، دہشت گردی کے اس واقعہ کو امریکیوں نے 9/11(نائن الیون) کا نام دیا۔ نائن الیون کے بعددہشتگرد اسامہ بن لادن جو افغانستان میں جنگ کے دوران روس کے خلاف امریکوں کا سب سے بڑا ہمدرد اور نام نہاد مجاہد تھا ، اس کو اوراس کے ساتھیوں کو پہلے ہی پوری دنیا دہشتگرد کہتی تھی امریکہ نے بھی ان کو دہشتگردقرار دیا اور اس کو مارنے کےلیے دوڑاہوا افغانستان چلا آیا جہاں پر طالبان کی حکومت تھی اور ملا عمر اس کا سربراہ تھا، القاعدہ کا سربراہ اسامہ بن لادن بھی افغانستان میں ہی موجود تھا۔ملا عمر تو حکومت چھوڑ کر بھاگ نکلا اور نام نہاد مجاہددہشتگرداسامہ بن لادن روپوش ہوگیا۔ امریکی فوج کے افغانستان پر قبضے کے بعد القاعدہ کمزور ہوئی تو نام نہاد جہادیوں نے جو دراصل فسادی اور دہشتگرد ہیں اپنے آپ کوپاکستانی طالبان کا نام دیااور پاکستان میں دہشتگردی کرنےلگے جو آج بھی جاری ہے۔ اب ان دہشتگردوں کو راتب بھارت دیتا ہے، اور دہشتگرد اب بھارتی خفیہ ایجینسی ’را‘ کی ہدایت پر اکثرپاکستان میں دہشتگردی کرتے ہیں۔
نواز شریف ایک سیاستدان کے ساتھ ساتھ کاروباری بھی ہیں لہذا ضرورت پڑنے پر اپنے سیاسی باپ جنرل ضیاءالحق کی منافقتوں کو یاد کرتے ہیں اور پھر ان ہی منافقوتوں میں سے کسی ایک کو اپناتے ہیں۔ دہشتگردوں کے ساتھ تو وہ ہمیشہ سے ہی ہیں لیکن اپنے کاروبار کو ترقی دینے کے لیے وہ کبھی کبھی لبرل کا لبادہ بھی اوڑھ لیتے ہیں جیسا کہ انہوں نے گذشتہ سال ہندوں کے تہوار میں شرکت کرکے کہا تھا کہ مجھ پر بھی رنگ پھنکیں، کیوں نہ کہتے آخر ان کے سیاسی باپ جنرل ضیاءالحق نے بھی تو نیپال کے ایک مندر میں داخل ہوکر اس کی گھنٹیاں بجائی تھیں۔ نواز شریف نے 2013 میں تیسری بار وزیراعظم بننے کےبعد طالبان دہشتگردوں سے مذکرات کا ڈرامہ شروع کیا ، پوری قوم ان مذکرات سے پریشان تھی لیکن مذہب فروش اور طالبان کے سہولت کار جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے دونوں گروپوں کی خواہش یہ ہی تھی کہ مذکرات جاری رہیں، مسلسل دہشتگردی کی وجہ سے پاکستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف نے طالبان دہشتگردوں کے خلاف فوجی آپریشن’ضرب عضب‘ شروع کیا۔ جواب میں دہشتگردوں نے بھی بہت دہشتگردی کی ، لیکن بعد میں دہشتگردی میں بہت حد تک کمی آئی تھی۔
جنرل راحیل کے ریٹائر منٹ سے پہلے تک کہا جارہا تھا کہ دہشتگردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے لیکن فوجی قیادت کی تبدیلی کے بعد دہشتگرد کارروایاں بڑھ گیں ہیں اور فروری 2017 میں دہشتگردوں نے صرف پانچ دن میں 8 یا 9 دہشتگرد کاروایاں کرکے 100سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کیا ہے اوریہ سب کرکے دہشتگردوں نے حکومت کو یہ واضع پیغام دیا ہے کہ ابھی تک ہماری کمریں سلامت ہیں۔ ملک کے عوام کو دہشتگردی سے بچانے کی زمہ داری عوام کی منتخب حکومت کی ہوتی ہے، لیکن وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار کے بارئے میں پورا پاکستان جانتا ہے کہ وہ دہشتگردوں کے بہت بڑئے غم خوار ہیں، طویل پریس کانفرنس میں وہ قوم کو لیکچردے کر یہ بتاتے ہیں کہ دہشتگرد جوکچھ کررہے وہ ٹھیک ہے انکے خلاف کوئی کارروائی کرنا نامناسب ہے، لہذا نواز شریف سب سے پہلے چوہدری نثار کی زباں بندی کریں اور اپنی منافقت ختم کرکے قوم کے ساتھ وعدہ کریں کہ وہ دہشتگردی کے خلاف لڑینگے،آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے لیے دہشتگروں کا صرف پانچ دن میں 8 یا 9 دہشتگرد کاروایاں ایک کھلا چیلنج ہے، ان کو بھی چاہیے کہ اب پوری کوشش کریں اور دہشتگردوں کی واقعی کمرتوڑ دیں جو ساری دنیا کو صاف نظر آئے۔