خطاب ختم کرنے کے بعد مکے دکھانا کوئی بات نہیں جناب، مکا ہمیشہ پہلے دکھایا جاتا ہے۔ ایک تو آپ کو بات بنانا بھی نہیں آتالیاقت علی خان تو ہمارے لیڈر اور ہیرو ہیں اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے آمین۔
مشرف جب پہلی اور آخری بار پارلیمنٹ میں بطور صدر خطاب کر نے آیا تو اپوزیشن نے مخالفانہ نعرے بازی کی۔ خطاب ختم کرنے کے بعد مشرف نے انکو مکے دکھائے ۔ تصویر آپ دیکھ سکتے ہیں۔
استغفراللہ العظیم ۔ آپ مجھ سے جھوٹی بات بنانے کی توقع کر رہے تھے؟خطاب ختم کرنے کے بعد مکے دکھانا کوئی بات نہیں جناب، مکا ہمیشہ پہلے دکھایا جاتا ہے۔ ایک تو آپ کو بات بنانا بھی نہیں آتا
تو آپ یہ کہہ دیتے کہ جی جب خطاب کے دوران نعرے لگے تو پہلے کیسے مکے دکھاتا؟استغفراللہ العظیم ۔ آپ مجھ سے جھوٹی بات بنانے کی توقع کر رہے تھے؟
میں نے سارا واقعہ جیسے ہوا بیان کر دیا۔ ضروری نہیں مکا پہلے دکھایا جائے۔ آپ چاہیں تو مشرف سے پوچھ سکتے ہیں کہ انکو مکا پہلے ہی کیوں نا دکھا دیا؟
اس بات پر اتفاق کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس نے برداشت کرنا سیکھ لیا کہ سیاست بغیر برداشت نہیں ہوسکتی۔ شروع میں وہ ایسا نہیں تھا برداشت کرنے والا۔تو آپ یہ کہہ دیتے کہ جی جب خطاب کے دوران نعرے لگے تو پہلے کیسے مکے دکھاتا؟
ویسے مذاق برطرف، مشرف جیسے بندے میں تنقید سہنے کا مادہ ہے۔ اسی محفل پر اس سے متعلق وڈیو بھی لگ چکی ہے
آپ نے سید عدنان کاکا خیل والی وڈیو نہیں دیکھی شایداس بات پر اتفاق کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس نے برداشت کرنا سیکھ لیا کہ سیاست بغیر برداشت نہیں ہوسکتی۔ شروع میں وہ ایسا نہیں تھا برداشت کرنے والا۔
آپ شاید اس وڈیو کی بات کر رہے ہیں جس میں ایک باریش طالب علم نے مشرف پر اپنی تقریر میں تنقید کی تھی؟ ویسے مجھے نہیں معلوم کہ سید عدنان کاکا خیل کون ہے۔آپ نے سید عدنان کاکا خیل والی وڈیو نہیں دیکھی شاید
کاش کہ ہمارا کوئی "جمہوری طور پر منتخب" وزیرِ اعظم یا صدر بھی اتنی ہمت دکھا سکے کہ سوالات سن کر اور جواب بھی دے سکے
جی اسی کی بات کر رہا ہوں جس کا کاکا خیل کی گفتگو والا حصہ الگ سے دکھا کر پرو طالبان افراد نے بہت اچھالا تھا کہ دیکھو کتنا جیالا ہے کہ مشرف کے منہ پر اسے یہ سب کہہ رہا ہے۔ بعد میں ہم لوگوں نے قطع و برید سے پاک صاف وڈیو بھی دکھائی تھی جس میں مشرف نے پوائنٹ بائی پوائنٹ جواب دیا تھا اور کاکا خیل صاحب چوسنی لے کر پنگوڑے میں سو گئے تھےآپ شاید اس وڈیو کی بات کر رہے ہیں جس میں ایک باریش طالب علم نے مشرف پر اپنی تقریر میں تنقید کی تھی؟ ویسے مجھے نہیں معلوم کہ سید عدنان کاکا خیل کون ہے۔
مجھے البتہ مشرف کے اقتدار کے شروع کی ایک پریس کانفرنس یاد ہے جس میں ارشاد احمد حقانی نے مشرف سے کہا کہ آپ کے بارے میں تاثر ہے کہ آپ تنقید سن کر غصے میں آجاتے ہیں۔ جس پر مشرف نے کہا کہ نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ اسکے بعد ایک صحافی نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے مسئلے پر مشرف کی پالیسیوں پر تنقید تو مشرف غصے میں آگیا۔
مان لین تنقید برداشت کرنا مشرف نے آہستہ آہستہ سیاسی ضرورت سمجھ کر سیکھا۔
آپ نے کاکا خیل کی تقریر کے دوران سامعین کا جوش و خروش بھی ملاحظہ کیا ہو گا؟جی اسی کی بات کر رہا ہوں جس کا کاکا خیل کی گفتگو والا حصہ الگ سے دکھا کر پرو طالبان افراد نے بہت اچھالا تھا کہ دیکھو کتنا جیالا ہے کہ مشرف کے منہ پر اسے یہ سب کہہ رہا ہے۔ بعد میں ہم لوگوں نے قطع و برید سے پاک صاف وڈیو بھی دکھائی تھی جس میں مشرف نے پوائنٹ بائی پوائنٹ جواب دیا تھا اور کاکا خیل صاحب چوسنی لے کر پنگوڑے میں سو گئے تھے
اور پھر جواب کے وقت یہی سامعین کیا کر رہے تھے بھلاآپ نے کاکا خیل کی تقریر کے دوران سامعین کا جوش و خروش بھی ملاحظہ کیا ہو گا؟
پہلے جتنے پرجوش نہیں تھے۔ میں نے دونوں تقاریر دیکھی تھیں۔ پہلی کاکا خیل کی بعد میں مشرف کی۔اور پھر جواب کے وقت یہی سامعین کیا کر رہے تھے بھلا
یہ سوالیہ جوابیہ سیشن تھا، اسے تقاریر نہ کہئےپہلے جتنے پرجوش نہیں تھے۔ میں نے دونوں تقاریر دیکھی تھیں۔ پہلی کاکا خیل کی بعد میں مشرف کی۔
صدر اور وزیر اعظم کو پارلیمنٹ ہی منتخب کرتے ہیں۔بے چارہ مشرف، ساری عمر سمجھتا رہا کہ دشمن سرحد کے اس پار ہے ! پاکستان کے دشمن تو کود ہماری گودیوں میں پل رہے ہیں۔
ساری طاقت کا مرکز منتخب نمائندوں یعنی سینیٹ اور اسمبلی کو ہونا چاہئیے نا کہ ایک فرد واحد کو ۔۔۔ ۔ قوت و طاقت کا مرکز صدر اور وزیر اعظم سے ہٹانے کی بڑی ضرورت ہے۔
جب تک صدر اور وزیر اعظم جمہوری طریقے کو اپنی جماعت میں نافذ نہیں کرتے، تب تک یہ آمریت کی بدترین قسم ہی رہے گیصدر اور وزیر اعظم کو پارلیمنٹ ہی منتخب کرتے ہیں۔
اس بےچارگی کے کیا کہنے ، یہ بھی اسی سوچ کا حصہ تھا جس نے عرصہ دو دہائی تک آس پڑوس میں پھلجھڑیاں جلائے رکھیں ، وہ تو پھربھلا ہو امریکہ کا کہ اس نے ورلڈ ٹریڈ کا سارا غصہ افغانستان پر نکالنے کا فیصلہ کیا تواس سمیت بہت سوں کو خیال آ یا کہ چلو یہیں سے پلٹتے ہیں اور یہ بھی یاد رکھنے کی چیز ہے کہ پلٹے دل سے نہیں تھے اسی سبب سے ذلیل و خوار بھی ہو رہے ہیں۔ اور دور کیا جائیے گا کارگل کے تماشے کو یاد کر لینا ہی کافی ہو گا۔ یہ سادہ سی بات ہے کہ ہماری بے تکی مہم جویانہ سوچ نے ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ گھر سے بھی خطرہ اور باہر سے بھی۔ اور اس سوچ کا صدر دروازہ پنڈی میں واقع ہے۔بے چارہ مشرف، ساری عمر سمجھتا رہا کہ دشمن سرحد کے اس پار ہے ! پاکستان کے دشمن تو کود ہماری گودیوں میں پل رہے ہیں۔
ساری طاقت کا مرکز منتخب نمائندوں یعنی سینیٹ اور اسمبلی کو ہونا چاہئیے نا کہ ایک فرد واحد کو ۔۔۔ ۔ قوت و طاقت کا مرکز صدر اور وزیر اعظم سے ہٹانے کی بڑی ضرورت ہے۔