سید شہزاد ناصر
محفلین
-
1965ءکی جنگ میں پاکستان کی برتری کو ایک معجزہ تصور کیا جاتا ہے۔ اسلحہ اور افرادی قوت کی شدید کمی کے باوجود اپنے سے تین گنا بڑے اور بعض مواقع پر دس گنا دشمن کو شکست فاش سے دوچار کر نا اگرچہ اعلیٰ فوجی حکمت عملی کہی جا سکتی ہے، لیکن اس جنگ میں عوام نے جس یکجہتی اور ولولے کا ثبوت دے کر مادر وطن کی حفاظت کی وہ آج کے حالات میں دیکھیں، تو وہ بھی ایک معجزہ ہی تھا۔ اگر ہماری فوج اور عوام میں اتحاد اور جذبوں کا فقدان ہوتا، تو دشمن حقیقت میں لاہور جم خانہ میں جام فتح پینے میں کامیاب ہو سکتا تھا،لیکن اس کے تمام مذموم ارادے اور منصوبے ہماری جری فوج کے انمٹ لازوال جذبوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔
دشمن نے جس عددی برتری کے ساتھ لاہور پر شب خون مارا اور وہ لاہور کے قریبی علاقوں پر فوج پھیلا کر بی آر بی نہر بھی عبور کر چکا تھا، اس کے بڑھتے قدموں کو نہ صرف روکنے بلکہ دندان شکن شکست سے دوچار ہو کر واپس پلٹ جانے پر مجبور کرنے والے ہمارے شہیدوں کے ساتھ ساتھ بہت سے شیر دل غازیوں کا بھی نمایاں کردار ہے۔ یہ غازی لاہور کو دشمن سے بچانے میں کیسے کامیاب ہوئے، یہ ایک طویل داستان ہے، لیکن اس داستان کا راوی پاک فوج کا ایک شیر دل آفیسر آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے جس نے دشمن پر عقب سے حملہ کر کے نہ صرف لاہور کو دشمن کے قبضہ سے بچا لیا بلکہ جرأت و بہادری کی لازوال تاریخ رقم کر دی۔ کرنل (ر) سردار عبدالرئوف مگسی دفاعی حکمت کے تحت دشمن سے نبردآزما تھے،لیکن جب دشمن بی آر بی کو ایک طرح سے عبور کر چکا تھا۔ قدرت نے ان کی راہنمائی کرتے ہوئے جارحانہ عزائم سے نواز دیا۔
وہ بھسین کا علاقہ دشمن سے وا گزار کرانے کے لیے جب آگے بڑھے، تو راستہ سے بھٹک جانے کے بعد دشمن کے دائیں اور عقب سے حملہ کرنے میں کامیاب ہو گئے اور یوں دشمن کی دو بٹالین فوج ان کی ایک کمپنی (119افراد) کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہو گئی۔
کرنل (ر) سردار عبدالرئوف مگسی پاک فوج کے لیے سرمایہ افتخار غازی ہیں۔ شہادت کی تمنا کرتے کرتے عمر رفتہ کے اس دور میں آ پہنچے ہیں جہاں انھیں قوم کی بے راہروی شاک گزرتی ہے۔ قوم کو راہ حق پر لانے کے لیے وہ آج بھی اتنے ہی سرگرم ہیں جتنے وہ تقسیم ہند کے وقت تھے۔ وہ پہلے بلوچ ہیں جنھوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے فیلڈ مارشل ایوب خان کی خواہش پر فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ فوج کی نوکری دراصل شہادت کی منزل تک پہنچنے کا ایک وسیلہ تھی،لیکن یہ سعادت ان کے حصے میں نہ آ سکی، البتہ ان کا یہ خواب اپنے بڑے بیٹے کیپٹن سردار علی رئوف مگسی کی سیاچن کے محاذ پر شہادت سے شرمندۂ تعبیر ہو چکا ہے۔ وہ رب العزت کے کروڑ ہا بار شکر گزار ہیں کہ اس ذات اعلیٰ و برتر نے ایک غازی کو شہید کا باپ بننے کی توفیق دی۔ سردار عبدالرئوف مگسی کی گفتگو ولولہ تازہ عطا کرتی اور جذبہ ایمانی سے روشناس کراتی ہے۔ شجاعت،
بہادری، شکر گزاری، فہم و فراست جو ایک مومن کی شان ہے موجودہ عہد میں کرنل (ر) مگسی اس کا مجسم نمونہ ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل بلوچستان کی معروف ریاست جھل مگسی جو اب ایک ضلع میں بدل چکی ہے۔ سردار عبدالرئوف مگسی،اس مگسی قبیلہ کے باقاعدہ سردار کا رتبہ رکھتے ہیں اور اپنے قبائلی معاملات کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرتے ہیں۔ فوج میں ان کی عزت و توقیر کا اندازہ اس بات سے لگایاجاتا ہے کہ انھیں تین یونٹوں 16بلوچ، 40بلوچ اور 47بلوچ ’’بابا‘‘ کہہ کر پکارتی ہیں۔ یہ ان کے سچے اور کھرے مسلمان پاکستانی ہونے کی نشانی ہے۔ ایسا فخر کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔ کرنل مگسی اب تک 140سے زائد مرتبہ اپنا خون دے چکے ہیں۔ جب حاضر سروس تھے تب بھی اور آج بھی جب وہ ستر سال کے ہو چکے ہیں، اپنا گرم خون انسانی جان بچانے کے لیے دینے سے گریز نہیں کرتے۔ ان کی صحت قابل رشک ہے اور یہ قطعی احساس نہیں ہوتا کہ وہ ستر برس کے ہو چکے ہیں۔ اسے وہ اللہ کریم کی عطا کہتے ہیں کہ اس ذات کریم نے انھیں بوڑھا نہیں ہونے دیا۔ وہ اس کی رضا پر راضی اور شکر گزار رہنے والے انسان ہیں۔
سردار عبدالرئوف مگسی 14اگست 1934ء کو لیہ کے مقام پر پیدا ہوئے۔ 13سال کی عمر میں انھوں نے تقسیم ہند کے وقت کفار کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، تو ان کا لہو جذبہ ایمانی سے ایسی حدت پکڑ گیا جو آج بھی اُسی طرح شعلہ بار ہے۔ اسی جذبہ کے تحت انھوں نے عہد کیا کہ وہ کفار سے اس کا بدلہ لے کر رہیں گے۔ انھوں نے پرائمری سے میٹرک تک تعلیم لاہور میں حاصل کی۔ کالج آف اینمل ہسبنڈری اینڈ وٹرنری سائنسز لاہور سے بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ بعدازاں بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے پاکستان لوٹ آئے۔ ایک روز فیلڈ مارشل ایوب خان نے انھیں گھوڑے پر سواری کرتے اور ہرن کا شکار کھیلتے ہوئے دیکھا، تو ان کے نشانے کے گرویدہ ہو گئے اور کرنل مگسی سے کہا کہ وہ فوج میں کمیشن حاصل کر لیںکیونکہ فوج کو ان کے نشانے کی ضرورت ہے۔ کرنل مگسی شہادت کی تمنا لے کر مایہ ناز پلٹن 18بلوچ (موجودہ 3سندھ رجمنٹ) میں شامل ہو گئے۔ جنگ ستمبر اور ان کی عسکری خدمات کے حوالے سے ہماری جو گفتگو ہوئی۔
’’حقائق بھی یہی بتاتے ہیں کہ بھارت نے پاکستان پر شب خون مارا تھا۔ اگر پاکستان کو پہلے سے بھارت کے اس منصوبے کا علم ہوتا،تو ہم قبل از وقت تیار ہوتے۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی ملک بھاری فوج کے ساتھ اچانک حملہ نہیں کر سکتا۔ اس کی اطلاعات موصول ہو جاتی ہیں،لیکن یہ بات موجودہ عہد میں تسلیم نہیں کی جا سکتی۔ 65ء میں تو حالات یکسر مختلف تھے۔ ہمارے پاس دنیا کی اعلیٰ ترین فوج اور قوم تھی۔ اسلحہ کم تھا اور جاسوسی کے ذرائع بھی محدود تھے۔ ہم قومی جذبے کے تحت لڑے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں دشمن کے شر سے محفوظ فرمایا تھا۔ جنگ ستمبر میں غزوہ بدر کی تاریخ تازہ ہو گئی تھی۔ اگر معجزے نہ ہوتے، تو ہم جنگ کبھی نہیں جیت سکتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی فوج اللہ کے سپاہیوں پر مشتمل تھی اور اللہ اپنے سپاہیوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔ اب اگر یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان بھارتی افواج کی لاہور کی طرف پیش قدمی
کو دیکھ رہا تھا، تو یہ غلط انفارمیشن ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہم اس وقت ہاکی کا فائنل میچ کھیل رہے تھے کہ اس اثناء میں جنگی بگل بج اٹھا۔ ہم سب حیران ہوئے کہ اس وقت بگل اچانک کیوں بجا ہے کیونکہ یہ حالت امن کی نشاندہی نہیں کر رہا تھا۔ ہم فوراً بھاگے۔ جس کے ہاتھ جو اسلحہ تھا اس نے اُٹھایا، وردی پہننے کا ہوش نہ رہا۔ کسی نے مشین گن اٹھائی ہے،تو کوئی ہینڈ گرنیڈ بکس اٹھا رہا ہے۔ جنگ کا بلاوا جس انداز میں آیا تھا وہ یہی بتاتا ہے کہ دشمن نے شب خون مارا ہے اسی لیے افراتفری برپا ہوئی۔ ہم جس وقت محاذ پر پہنچے، باقاعدہ بریگیڈ اس کے دو تین دن بعد آئے تھے۔
٭آپ کو فی الفور کس محاذ پر بھیجا گیا؟
٭ہمارے ذمہ بی آر بی، جلو اور سائفن کے آگے پیچھے کے کچھ علاقے تھے۔ ہمارا دوسرا گروپ کرنل شفقت بلوچ کی زیر قیادت آگے ہڈیارہ میں تھا اور ان کے پیچھے میجر عزیز بھٹی تھے۔
٭کیا اس وقت دشمن نے بی آر بی نہر پار کرلی تھی؟
٭دشمن مکمل طور پر بی آر بی عبور نہیں کر سکا تھا لیکن یہ جان لیجیے کہ بی آر بی پر اس کا قبضہ ہو چکا تھا اور وہ ایک طرح سے پار کر گیا تھا۔ اس وقت ہمیں تائید غیبی نہ آتی، تو دشمن لاہور کے جم خانہ میںپہنچ چکا ہوتا۔ کرنل شفقت بلوچ اور میجر عزیز بھٹی اپنے جوانوں کے ساتھ دشمن کو پیچھے دھکیل رہے تھے کہ 7اور 8ستمبر کی رات ہماری کمپنی کو حکم ملا کہ دشمن سے بھسین کا علاقہ خالی کرائو۔ ہم نے اس علاقے میں ریکی نہیں کی تھی، یہ دوسری کمپنی کے زیر نگرانی تھا۔ خیر! اس کمپنی کا ایک گائیڈ ہمارے ساتھ ہوا اور ہم اس کی رہنمائی میں آگے بڑھنے لگے۔ دیکھیے! یہاں قدرت کیا معجزہ دکھاتی ہے۔ دراصل جب قدرت کو کوئی کام کرنا مقصود ہوتا ہے، تو وہ خو د راہ دکھاتی ہے۔ گائیڈ کچھ بھول گیا اور ہم اس جانب نکل گئے کہ جہاں ہمیں کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آنے لگیں۔ کتوں نے کچھ لوگوں کو چلتے پھرتے دیکھ لیا تھا۔ یہ علاقہ ہمارے منصوبے
میں شامل نہیں تھا۔ جب ہم وہاں سے چکر کاٹ کر آگے بڑھے، تو احساس ہوا کہ ہم دشمن کے دائیں اور عقب میں پہنچ چکے ہیں۔ یہ دشمن کی 15ڈویژن کی دو بٹالین فوج وہ تھی جو بی آر بی نہر پر قابض ہو کر آگے بڑھ رہی تھی۔ ہمارے پاس صرف 119افراد کی کمپنی تھی۔ ہم نے اللہ کا نام لیا اورعقب سے حملہ کردیا۔ دشمن بوکھلا گیا۔ ہم نے 351دشمن مارے اور 187گرفتار کر لیے۔ اس دوران 15ڈویژن کے کمانڈر جنرل نرجن شاد کی جیپ اور ڈائری بھی ہمارے قبضہ میں آگئی جس میں لاہور پر حملے کا پورا منصوبہ درج تھا اور نقشے مارک کیے گئے تھے۔ ان دستاویزات کے ہاتھ لگنے سے ہمیں دفاعی حکمت عملی تیار کرنے کا موقع مل گیا۔ یہ جیپ آج بھی 18بلوچ پلٹن کوارٹر گارڈ میں وارٹرافی کے طور پر موجود ہے۔ ہم نے 8ستمبر کونہ صرف بھسین کا علاقہ بلکہ دشمن کا وسیع علاقہ پل کنجری، ککڑ اور مقیم پور بھی قبضے میں لے لیا۔ یاد رہے کہ یہاں سے امرتسر صرف
12میل دور رہ گیا تھا۔ میرا دل چاہتا تھا کہ میں اور آگے بڑھوں اور امرتسر تک یلغار کروں۔ آپ سوچیں صرف 12میل کا فاصلہ طے ہو جاتا، تو امرتسر آج ہمارے پاس ہوتا،لیکن اعلیٰ حکام کے حکم پر ہماری پلٹن کو مناسب حد تک پیچھے ہٹا لیا گیا۔ لاہور کے مکمل دفاع کے لیے یہ بھی ضروری تھا۔ ہماری یونٹ 8ستمبر کو بھسین ڈے کے طور پر مناتی ہے۔
٭کرنل صاحب! آپ نے 65ء کی جنگ جیت لی، لیکن 71ء کی ہار گئے۔ اس جنگ میں معجزے کیوں نہ ہوئے؟
٭یہ جنگ پاک فوج نہیں ہاری تھی۔یہ تو ہمارے بداعمال سیاستدانوں نے ہروائی تھی، فوج کو محض بدنام کیا جاتا ہے۔ ہم تو جہاں جہاں لڑے دشمن کے قدم اُکھاڑ دیے۔1965ء کی جنگ کے بعد میری پوسٹنگ 40بلوچ رجمنٹ میں ہو گئی تھی۔ اس یونٹ نے 1971ء میں صرف 8ماہ کی تربیت کے دوران بی آر بی، سائفن کے علاقوں، کالا خطائی سیکٹر میں دشمن کے دانت کھٹے کر دیے تھے اور دشمن کے کچھ مزید علاقے چھین کر وہاں پاکستان کا جھنڈا لہرا دیا تھا۔ 71ء کی جنگ مشرقی پاکستان کے محاذ پر ہاری گئی۔ مغربی پاکستان کے محاذ پر ہماری فوج دشمن کے علاقوں تک پہنچ گئی تھی۔ یہ اقتدار کی جنگ کا گھنائونا کھیل تھا جو ہمارے سیاستدانوں نے کھیلا۔
ہماری پلٹن نے جنگ میں دشمن کا SU-7بمبار فائٹر مار گرایا اس کے بعد دشمن کو لاہور پر آنکھ اُٹھانے کی جرأت نہیں ہوئی ورنہ حالات تو یہ تھے کہ دشمن کے طیارے اس علاقے پر یوں حملہ آور ہوتے تھے جیسے سسرال کے گھر بدمزاج داماد آتا ہے۔ آخر تنگ آ کر میںنے اپنے صوبیدار ناصر خان خٹک حوالدار میجر ادل خان کے ساتھ مل کر اس جہاز کو ٹارگٹ بنایا۔ اس کے پائلٹ کا پیرا شوٹ اور جہاز کا ملبہ آج بھی پلٹن کے پاس وارٹرافی کے طور پر محفوظ ہے۔
1971ء کی جنگ میں دشمن نے فضائی حملوں میں بھاری بم استعمال کیے تھے۔ ایک دن آرمر سکواڈرن کمانڈر میجر نعیم، بیٹری کمانڈر میجر محمود کے ساتھ میں دشمن کی ایک پوزیشن پر حملہ کرنے کے لیے ریکی کر کے واپس آرہے تھے کہ دشمن کے جہازوں نے ہمیں آگھیرا۔ جہازوں نے پہلے مشین گنوں اور پھر راکٹوں سے حملہ کیا۔ جب ہم نے جوابی کارروائی کی تو دشمن نے ایک ہزار پونڈ وزنی بم گرا دیا۔ اس سے زمین میں پچاس فٹ گہرا گڑھا پڑ گیا اور مٹی کا غبار آسمان کو چھونے لگا۔ معجزہ اس وقت بھی ہوا۔ ہمارے کسی بھی جوان کو ایک خراش تک نہ آئی۔ میں نے اپنی رجمنٹ سے عشق کیا ہے۔ اپنے جوانوں میں جنگی جنون پیدا کرتا تھا۔ یہی
وجہ تھی کہ وہ اپنی جان نچھاور کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ ایک دن میں بی آر بی نہر سے آگے اینٹی ٹینک ڈچ پر دفاعی پوزیشن کا چکر لگا کر واپس آ رہا تھا کہ دشمن کے طیاروں نے راکٹ اور گولیاں برسانی شروع کردیں۔ اس موقع پر میرے جانثار سپاہیوں نے میری جان خطرے میں دیکھی، تو بہت سے جوان میرے اوپر گر گئے اور میں ان کے نیچے ایسا دب گیا کہ سانس لینا مشکل ہو گئی۔ میں بمشکل ان کے نیچے سے نکلا اور غصے سے کہا ’’یہ کیا حرکت کی ہے تم نے؟‘‘
جوان بولے ’’سر! آپ ہماری فوج کا سرمایہ ہیں۔ خدا کرے دشمن کی گولیاں ہمیں لگ جاتیں، مگر آپ کو کچھ نہ ہوتا۔‘‘ بہت کم افسران کو اپنے جوانوں کا یہ سر فروشانہ جذبہ نصیب ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اپنے جوانوں کے ساتھ ایسے مل بیٹھتا اور ان کے اندر اسلام اور پاکستان کی محبت پیدا کرتا تھا کہ وہ مجھ میں اور اپنے میں کوئی فرق نہیں سمجھتے تھے۔ میں تو مجاہدانہ سپرٹ کے ساتھ فوج میں شامل ہوا تھا ورنہ میرے لیے تو فوج کی تنخواہ کوئی معنی نہیں رکھتی۔ میں اپنے ملازموں کو اتنی تنخواہ دیتا تھا جتنی مجھے ملتی تھی۔ پیدائشی سردار تھا اور سرداروں جیسے حوصلے ظرف کے ساتھ میں نے فوج میں 27سال گزار دیے۔ مجھے اپنی مجاہدانہ زندگی سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں تھی۔
حقیقت بھی یہی ہے۔ کرنل(ر) مگسی پاک فو ج میں ایک مستند حوالہ ہیں۔ سوویت یونین جنگ میں اپنی سرحدوں کی حفاظت کا معاملہ ہوتا یا بلوچستان میں آپریشن کا مشکل ترین مرحلہ…کرنل مگسی کی خدمات کے صلے میں ان تمام معاملات میں پاک فوج سرخرو رہی ہے۔ انھوںنے بھٹو کی ہدایت پر سرکش بلوچوں کے دل پاکستان کی محبت سے بھردیے اور گولی چلائے بغیر انھیںایسا گرویدہ کر لیا کہ بعدازاں سرکش بلوچ پاک فوج میں بھرتی ہونے لگے۔ کرنل مگسی کے چہرے پرعزم و استقلال کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا ہے۔ وہ 71ء کی جنگ کے حوالے سے بتا رہے تھے کہ وہ جنگ ہم نے نہیں ہاری۔ میں نے تو سیز فائر میںبھی گولی چلائی۔ سیز فائر کے دوران بعض اوقات ایسے واقعات ہو جاتے تھے کہ میں اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکتا تھا۔ ہمارے سامنے دریا کے پار دشمن نماز اور اذان کی نقالی کر کے ہمارے جذبۂ ایمانی کو بھڑکاتے تھے۔ ایک روز ان کے ایک بد
مست سپاہی نے دریا کے پار کپڑے اتار کر ناچنا شروع کر دیا اور ہمارا تمسخر اڑانے لگا۔ اس وقت میں اپنی فوج کی اگلی پوزیشن کا معاینہ کر رہا تھا کہ میری اس پر نظرپڑ گئی۔ میں نے مشین گن سیدھی کی اور میرے ذہن میں صدر ایوب خاں کے وہ الفاظ گردش کرنے لگے ’’مگسی تمھارے نشانے کی فوج کو ضرورت ہے۔‘‘ میں نے اس ناہنجار کا نشانہ لیا اور ایک ہی گولی سے اسے جہنم واصل کر دیا۔ اس کے بعد باقاعدہ جھڑپ شروع ہو گئی۔ میں نے مشین گن نیچے نہیں رکھی۔ اس جھڑپ میں دشمن کاایک کمپنی کمانڈر میجر اور گیارہ جوان مارے گئے۔
کرنل مگسی کے کارنامے ہماری عسکری تاریخ میں سنہری حروف سے رقم ہیں۔ وہ شہادت کی تمنا لے کر فوج میں شامل ہوئے تھے،لیکن جان خطرات میں ڈالنے کے باوجود قدرت نے انھیں غازی کا رتبہ دیا۔ 71ء کی جنگ میں وہ آرٹلری آبزرور میجر اختر کے ساتھ دشمن کی نقل و حرکت کی نشاندہی پر ماور تھے،لیکن واپسی پر میجر اختر کا پائوں بارودی سرنگ سے ٹکرا گیا اور زور دار دھماکے سے دشمن چوکنا ہو گیا۔ میجر اختر کا ایک پائوں اڑ گیا۔ کرنل مگسی جان ہتھیلی پر رکھ کر میجر اختر کو دشمن کے علاقے سے اٹھا کر ہسپتال لے آئے۔
اسی طرح ایک سرحدی جھڑپ کے دوران سرکنڈوں میں آگ لگ گئی جس سے پاک فوج کے گولہ بارود اور ہتھیاروں کے تباہ ہونے کا اندیشہ پیدا ہو گیا ،تو کرنل مگسی جان کی پروا کیے بغیر آگ میں کود گئے اور ہتھیار اور بارود بچا لینے میں کامیاب ہو گئے، لیکن وہ خود کافی حد تک جھلس گئے۔ اسی بارڈر پرکرنل مگسی نے پاکستان کے دریائوں پر قائم پلوں کو بڑی تباہی سے بچانے کے لیے گرانقدر خدمت انجام دی۔ دشمن نے اس علاقے میں بارودی سرنگیں بچھا رکھی تھیں۔ سیلاب کی وجہ سے زمینی کٹائو ہو جانے سے باوردی سرنگیں دریا میں بہ گئیں۔ اس وقت کرنل مگسی دریا میں ڈوبنے والے جوانوں کو بچا رہے تھے کہ اچانک اُن کی نظر بہتی سرنگوں پر
پڑ گئی۔ انھوں نے جان کی پروا کیے بغیر تمام سرنگیں دریا سے نکال دیں۔ اگر یہ سرنگیں دریا کے پلوں سے ٹکرا جاتیں، تو بہت بڑی تباہی آجاتی۔ کرنل (ر) مگسی کی اعلیٰ عسکری خدمات کا ایک بڑا حوالہ افغان جہاد بھی ہے۔ ان کی کمان میں پاکستانی فوج نے چمن کے محاذ پر روس اور افغانستان کی فوج کے ساتھ پانچ ماہ دس روز تک جنگ لڑی اور فتح حاصل کی۔انھوں نے چمن کے بارڈر پر تعیناتی کے دوران روسی اور افغانی فوجیوں کو ہتھیار گرانے پر مجبور کر دیا تھا۔ پھر جب تک روسی فوج افغانستان میں رہی اس نے چمن کی سرحد پر پاکستانی علاقوںکی طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھا۔ ان کے کارناموں سے پاک فوج کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ وہ قوم کے حقیقی ہیرو ہیں۔ ان جیسے محب الوطن پاکستانیوں کی اس قوم کو اشد ضرورت ہے۔ کرنل مگسی کسی تمغہ کی تمنا نہیں کرتے۔ ان کا یہی فخر ہے کہ دشمن کی گولیوں نے ان کے بدن پر ’’تمغے‘‘ سجا رکھے ہیں۔ ایک بیٹا وطن پر قربان کر دیا ہے اور اب وہ اپنی اگلی نسل کو فوج میں لانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
- See more at: http://urdudigest.pk/2013/09/genera...ry-kese-hamare-hath-lagi#sthash.RMHx4dwI.dpuf