مہدی نقوی حجاز
محفلین
جن اشرف المخلوقات، بالخصوص پيروانِ اسلام کا يہ ماننا ہے کہ، جنس کی تعليم نصاب ميں شامل نہيں ہونی چاہيے، وہ شايد کمسن بچوں کی فطری جبلت اور جنسی کنجکاوی کا پيٹ، ادعيہ، اذکاراور نماز يا قرآن سے بھرنا چاہتے ہيں۔ آغاز ميں ايک نکتے کی جانب اشارہ ضروری سمجھتا ہوں کہ کچھ حضرات سمجھتے ہيں کہ يہ تعليم دی جانی چاہيے ليکن اس وقت جب بچہ بچہ نہ رہے اور خود سب جان چکا ہو۔ انکا خيال ہے کہ اس تعليم کے ليے کوئی خاص سن يعنی ايک طرح سے بلوغت درکار ہے تاکہ يہ بہ آسانی ہضم ہو سکے۔ وہ جنسی مسائل پر ہر قسم کی بحث کو فحاشی پر مامور کرتے ہيں، حتیٰ کہ مثنوی معنوی ميں بھی فحش پہلو نکال ليتے ہيں۔ ايسے لوگ آنے والے کل قرآن کے بارے ميں بھی اسی قسم کی رائے قائم کر ليں تو اچھنبے کی بات نہيں۔ وہ قرآن کے کچھ حصوں کو محصور کريں گے اور اس کے بارے ميں حکم صادر کر ديں گے کہ ان اوراق کی تلاوت اس عمر سے کم کے افراد کے ليے ممنوع، اور بدآموزی کا سبب، ہے۔ نعوذباللہ قرآن کيا کسی خاص عمر يا عصر کے افراد کے ليے نازل ہوا ہے، يا اب اشرف ہی سہی پر مخلوقات کی عقل خالق سے کامل تر ہو گئی ہے؟
موضوع در اصل يہ ہے کہ ہمارے معاشرے ميں جنسی جبلت کو دوسری فطری خواہشات سے مختلف قرار ديا جاتا ہے۔ اگر بچہ غذا کے بارے ميں نا فہمی يا کم فہمی کہہ ليں، کے دور ميں سوالات کرتا ہے تو اسے انتہائی تسلی بخش جواب ديے جاتے ہيں۔ جبکہ اگر وہ جنسيات يا اپنی اس دنيا ميں تشريف آوری ہی کے بارے ميں بھی سائل ہوتا ہے تو خرافات سے بچپن ميں ہی غير طبيعی جوابات سےاس کے خيالات کا ڈھانچہ خراب کيا جاتا ہے جو بچے کو بھی غیر طبیعی ہی معلوم ہوتے ہیں! اور صاحبو! کنجکاوی بہت بری بلا ہے۔ جب يہ غير فطری و طبيعی جوابات سن کر بچے کے ذہن ميں خلش پيدا ہوتی ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اپنی عمر کے تناسب سے، جب تک اسے تسلی بخش جواب نہيں ملتا، مختلف ذرائع کا استعمال کرتا ہے اور اپنی کنجکاوی کو سيراب کرتا ہے۔
پھر ايک پہلو يہ بھی ہے کہ انسان اس منزل کی جانب ضرور بڑھتا ہے جسے اس سے دور رکھا جائے اور يہ بڑھنا طبيعی نہيں ہوتا۔ فطری اور طبيعی رفتار وہ ہوتی ہے جو پہلی بار ميں انسان اختيار کرے جو کہ مفيد بھی ہوا کرتی ہے۔ بطور مثال، کوئی فرد کسی نقطے تک پہنچنے کا اردہ کرتا ہے اور سيدھے اور ستھرے راستے سے اس کی جانب بڑھتا ہے۔ پھر راہ کے آغاز ميں ہی کوئی رکاوٹ آتی ہے جو اسے اس صرات مستقيم سے وہاں تک نہيں پہنچنے ديتی ظاہر ہے وہ وہاں پہنچنے کی ٹھان تو چکا ہے، اب وہ ايسے راستے سے وارد ہوگا جو ظاہر ہے کہ سيدھا راستہ نہيں ہے اور گمراہی کی طرف بھی لے جا سکتا ہے۔ اسی طرح اگر بچے کو معلومات درست، اور درست منبع سے نہيں مليں گی تو وہ کسی غير مستقيم اور غير طبيعی راستے سے اس کو حاصل کرنے کی تگ و دو کرے گا۔
لہٰذا ميرا يہ خيال ہے کہ جنسيات کی تعليم نصاب اور بالائے نصاب يعنی ايکسٹرا کريکيولر دونوں ميں شامل ہوني چاہيے۔
مہدی نقوی حجازؔ
(یہ تحریر مشہور کالم نگار کے کالم جن کا نام لینا مناسب نہیں، کے پاسخ میں لکھی گئی تھی، مگر حیف کہ شائع نہ ہونے دیا گیا۔)
موضوع در اصل يہ ہے کہ ہمارے معاشرے ميں جنسی جبلت کو دوسری فطری خواہشات سے مختلف قرار ديا جاتا ہے۔ اگر بچہ غذا کے بارے ميں نا فہمی يا کم فہمی کہہ ليں، کے دور ميں سوالات کرتا ہے تو اسے انتہائی تسلی بخش جواب ديے جاتے ہيں۔ جبکہ اگر وہ جنسيات يا اپنی اس دنيا ميں تشريف آوری ہی کے بارے ميں بھی سائل ہوتا ہے تو خرافات سے بچپن ميں ہی غير طبيعی جوابات سےاس کے خيالات کا ڈھانچہ خراب کيا جاتا ہے جو بچے کو بھی غیر طبیعی ہی معلوم ہوتے ہیں! اور صاحبو! کنجکاوی بہت بری بلا ہے۔ جب يہ غير فطری و طبيعی جوابات سن کر بچے کے ذہن ميں خلش پيدا ہوتی ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اپنی عمر کے تناسب سے، جب تک اسے تسلی بخش جواب نہيں ملتا، مختلف ذرائع کا استعمال کرتا ہے اور اپنی کنجکاوی کو سيراب کرتا ہے۔
پھر ايک پہلو يہ بھی ہے کہ انسان اس منزل کی جانب ضرور بڑھتا ہے جسے اس سے دور رکھا جائے اور يہ بڑھنا طبيعی نہيں ہوتا۔ فطری اور طبيعی رفتار وہ ہوتی ہے جو پہلی بار ميں انسان اختيار کرے جو کہ مفيد بھی ہوا کرتی ہے۔ بطور مثال، کوئی فرد کسی نقطے تک پہنچنے کا اردہ کرتا ہے اور سيدھے اور ستھرے راستے سے اس کی جانب بڑھتا ہے۔ پھر راہ کے آغاز ميں ہی کوئی رکاوٹ آتی ہے جو اسے اس صرات مستقيم سے وہاں تک نہيں پہنچنے ديتی ظاہر ہے وہ وہاں پہنچنے کی ٹھان تو چکا ہے، اب وہ ايسے راستے سے وارد ہوگا جو ظاہر ہے کہ سيدھا راستہ نہيں ہے اور گمراہی کی طرف بھی لے جا سکتا ہے۔ اسی طرح اگر بچے کو معلومات درست، اور درست منبع سے نہيں مليں گی تو وہ کسی غير مستقيم اور غير طبيعی راستے سے اس کو حاصل کرنے کی تگ و دو کرے گا۔
لہٰذا ميرا يہ خيال ہے کہ جنسيات کی تعليم نصاب اور بالائے نصاب يعنی ايکسٹرا کريکيولر دونوں ميں شامل ہوني چاہيے۔
مہدی نقوی حجازؔ
(یہ تحریر مشہور کالم نگار کے کالم جن کا نام لینا مناسب نہیں، کے پاسخ میں لکھی گئی تھی، مگر حیف کہ شائع نہ ہونے دیا گیا۔)