سر سیموئل بیکر کی دو کتب Wild Beasts and Their Ways دو جلدوں میں چھاپی گئی تھی۔ چونکہ یہ کتاب بہت قدیم ہے، سو اس کے کاپی رائٹ عرصہ دراز سے ختم ہو چکے ہیں۔ اس کا ترجمہ کیے عرصہ ہوا، مگر آج پوسٹ کرنا شروع کر رہا ہوں۔
باب ۱ پچھلی نصف صدی کی رائفل
باب ۲ ہاتھی
باب ۳ ہاتھی
باب ۴ ہاتھی
باب ۵ شیر
باب ۶ شیر
باب ۷ شیر
باب ۸ تیندوا
باب ۹ ببر شیر
باب ۱۰ ریچھ
باب ۱۱ ریچھ
باب ۱۲ دریائی گھوڑا
باب ۱۳ مگرمچھ
باب ۱۴ جنگلی بھینسا
باب ۱۵ امریکی بھینسا یعنی بائزن
باب ۱۶ گینڈا
باب ۱۷ جنگلی سور
باب ۱۸ لگڑبگڑ
باب ۱۹ زرافہ
باب ۲۰ اینٹلوپ
باب ۱ افریقی اینٹلوپ
باب ۲ ہرن
باب ۳ ہرن جاری
باب ۴ واپیٹی
باب ۵ سانبھر
باب ۶ چیتل اور پاڑہ
باب ۷ نتیجہ
باب اوّل
پچھلی نصف صدی کی رائفل
چالیس سال قبل ہمارے فوجیوں کو بھرمار بندوقیں دی جاتی تھیں اور چند ہی فوجیوں کے پاس رائفل ہوتی تھی جو رائفل برگیڈ کہلاتی تھی۔
فوجی رائفلوں میں گول شکل کی گولی ہوتی تھی کہ اُس دور کی رائفلوں میں گولی کو نالی کے سرے سے اندر ڈال کر دھکیلنا پڑتا تھا کہ گولی نال کے سوراخ سے زیادہ بڑی ہوتی تھی۔ اس طرح گولی رائفل کی نالی میں بنے ہوئے چکروں میں پھنس کر نیچے جاتی تھی۔
شکاری رائفلوں کی بہت ساری اقسام تھیں مگر ان کی ساخت میں ایک بنیادی اصول کارفرما تھا کہ جتنا کم بارود ڈالیں گے، اتنا ہی بہتر نشانہ ہوگا۔
اس مقصد کے لیے رائفل میں گولی کو اندر دھکیلنے کے لیے لکڑی کا ہتھوڑا، مضبوط فولادی ڈنڈا، بارود کی بوتل، ریشمی دھجیوں کا ڈبہ، ٹوپیوں کا ڈبہ اور گولیوں کا بکسہ لازمی ہوتے تھے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ ایک نپل سکریو بھی لازمی چیز تھی تاکہ بوقتِ ضرورت نپل کو نکالا جا سکے۔
عام استعمال کی ۱۶ بور کی رائفل (اس میں ایک اونس کی گول شکل کی گولی استعمال ہوتی تھی) میں ڈیڑھ ڈرام ( ۲۶۰ گرام) بارود کو ۲۰۰ گز کے لیے بہترین سمجھا جاتا تھا۔ جب مطلع صاف ہو اور ہوا نہ چل رہی ہو تو یہ مناسب رینج تھی مگر جب فاصلے کا تعین نہ ہو سکے تو نشانے کی درستی کا یقین نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ گولی کا سفر بالکل سیدھا نہیں ہوتا تھا۔ اُس دور کے شکاریوں کے لیے فاصلے کا بالکل درست تخمینہ لگانے کی صلاحیت لازمی سمجھی جاتی تھی تاکہ اسی مناسبت سے پتی اٹھائی جا سکے۔ پچاس سال قبل رائفل کا قادر انداز نشانچی ملنا بہت مشکل تھا۔ برطانوی افراد رائفل سے شکار پسند نہیں کرتے تھے جبکہ سوئٹزر لینڈ اور جرمنی میں یہ عام مشغلہ تھا۔ ان ممالک میں چقماق سے چلنے والی رائفل استعمال ہوتی تھی جو بہت بھاری ہوتی تھی اور بسا اوقات اس کا وزن ۱۶ پاؤنڈ سے بھی تجاوز کر جاتا تھا۔ تاہم ان رائفلوں کی گولی بہت چھوٹی ہوتی تھی۔
نشانے کی درستگی کے لیے دھکے سے بچنا لازمی امر تھا۔
رائفل کو اُن دنوں کمتر درجے کا ہتھیار سمجھا جاتا تھا کہ گولی کی رفتار کم، حرکت نیم قوسی اور کمزور ہونا اہم عوامل تھے۔
میں نے ۱۹۴۰ میں ایک ایسی رائفل کا خیال متعارف کرایا کہ جس میں بارود کی مقدار اتنی زیادہ تھی کہ اس شعبے کے ماہرین بھی اسے دیوانہ پن شمار کرتے تھے۔ میرا نکتہ نظر تھا کہ نشانے کی درستگی کے لیے طاقت ہونا لازمی ہے اور بارود کی مناسب مقدار کے بغیر طاقت ممکن نہیں۔ جتنی رفتار زیادہ ہوگی، گولی اتنی سیدھی جائے گی اور اتنی طاقتور بھی ہوگی اور ظاہر ہے کہ رفتار کا براہ راست انحصار بارودی دھماکے سے پیدا ہونے والی گیس کی مقدار پر ہوگا۔
یہ رائفل میرے لیے برسٹل کے گبز نے بنائی۔ اس کا وزن ۲۱ پاؤنڈ تھا اور نال کی لمبائی ۳۶ انچ تھی۔ اس کی گول شکل کی گولی کا وزن تین اونس جبکہ مخروطی کا وزن ۴ اونس تھا اور اس کے پیچھے ۱۶ ڈرام بارود کی طاقت ہوتی تھی۔ رائفل کا چکر پوری نال میں ایک دائرہ بناتا تھا۔ رائفلنگ کافی گہری اور چوڑی تھی جس سے گولی بھرنے کی دقت دور ہو گئی اور چونکہ گولی پر پٹی لگی ہوتی تھی، سو وہ آسانی سے چکروں میں سما جاتی تھی اور اسے دھکیلنا آسان ہوتا تھا۔ اس میں بارود ڈالنے کے لیے ڈنڈے کے اوپر ڈبے میں بارود ڈال کر اس پر رائفل کو الٹا رکھتے تھے۔ اس طرح بارود نالی میں چپک کر اسے خراب نہیں کرتا تھا اور سارا بارود ہی نیچے چلا جاتا۔
یہ رائفل بہت کامیاب ثابت ہوئی اور بہت برسوں تک شکار میں میرے ساتھ رہی۔ یاد رہے کہ اس میں گولی کے وزن کے ایک تہائی کے برابر بارود ڈالتے تھے جس سے نہ صرف گولی کی طاقت بہت بڑھ جاتی تھی بلکہ گولی بہت اندر تک گھستی تھی۔ اتنی طاقتور رائفل میں نے پھر کبھی نہیں استعمال کی۔
تاہم یہ ہتھیار اپنے دور سے بہت آگے کی چیز تھا کہ یہ ایکسپریس رائفل سے پہلے بنا اور اس کا اصول میری تسلی پر تھا کہ شکاری رائفل اگر زیادہ دور تک گولی چلانے کے قابل ہو تو بارود بھی اسی حساب سے ڈالنا چاہیے اور رائفل کو بھی اسی حساب سے بھاری ہونا چاہیے تاکہ دھکے کو جذب کر سکے۔
میں ۱۸۴۵ میں جب پہلی بار سائیلون (سری لنکا) گیا تو وہاں ہاتھیوں کے بہت سے مشہور شکاری تھے جن کے شکار کردہ ہاتھیوں کی تعداد سینکڑوں میں تھی مگر کسی کے پاس رائفل نہ تھی۔ ان کا پسندیدہ ہتھیار بندوق ہوتی تھی جس معمول سے دُگنا بارود اور سخت گولی استعمال ہوتی تھی۔ اُن دنوں عام بندوق ۱۴ یا ۱۶ بور ہوتی تھی اور ۱۲ بور خال خال ہی دکھائی دیتی تھی۔ ۱۶ بور میں پونے تین ڈرام باریک پسا ہوا بارود جبکہ ۱۲ بور میں اس سے زیادہ ہوتا تھا۔ کمتر درجے کی بندوقوں میں ۶ ڈرام بارود اور سخت گولی استعمال ہوتی تھی اور کبھی ناکامی کا سامنا نہ کرنا پڑا۔
قریب سے چلائی جانے والی ایک اونس کی گول شکل کی گولی اور زیادہ بارود سے رفتار اور طاقت بہت ہوتی تھی مگر پچاس گز کے بعد نشانہ درست نہیں رہتا تھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ سائیلون میں رائفل متعارف کرانے والا میں پہلا فرد تھا۔ حکام کا خیال تھا کہ رائفل بہت بھاری اور بیکار ہوتی ہے اور اس سے نشانہ لینا کارِ دارد جبکہ بندوق میں گولی ڈال کر آپ انتہائی عجلت میں بھی گولی چلا سکتے ہیں۔
جن رائفلوں کی میں نے بات کی ہے، وہ بہت بھاری ہوتی تھیں۔ تین اونس گولی والی رائفل ۲۱ پاؤنڈ وزنی، ۲ اونس والی رائفل جو کہ بلیسٹ نے بنائی تھی اور ۱۶ پاؤنڈ وزنی تھی اور اس میں ایک سے زیادہ چکر تھے اور بنانے والے کے مطابق اس میں ڈیڑھ ڈرام بارود ڈالا جاتا تھا۔ کم فاصلے پر اس کا نشانہ انتہائی درست ہوتا تھا کہ بارود کی مقدار کم ہوتی تھی۔ میں نے خود اس میں ڈیڑھ ڈرام کی بجائے چھ ڈرام بارود ڈالنا شروع کر دیا جس سے اس کے نشانے کی درستگی تو متاثر ہوئی مگر گولی کی رفتار کئی گنا بڑھ گئی۔
ایک سال تک ہاتھیوں اور بھینسوں کے شکار کے بعد مجھے دو نالی رائفلوں کی نئی بیٹری کی ضرورت پیش آئی جو دو چکروں والی ۱۰ بور کی رائفلیں تھیں۔ ان میں چھ ڈرام بارود اور پٹی والی گول شکل کی گولی ڈالی جاتی تھی۔ یہ رائفلیں بہت عمدہ کام کرتی تھیں اور انہی سے میں نے نئے تجربات شروع کیے۔
کرائمیا کی جنگ سے ذرا قبل بندوقوں کی ضرورت نہ رہی اور ۱۸۵۳ میں برطانوی فوج کو رائفلوں سے مسلح کر دیا گیا۔ تاہم فوجی رائفل کا مسئلہ یہ تھا کہ اس کی نال میں بارود جلد جم جاتا تھا اور اسی وجہ سے اس کی گولی کو چھوٹا بنایا جاتا تھا۔ مگر یہ گولیاں چکروں میں نہیں پھنستی تھیں اور اسی وجہ سے نشانہ غلط ہوتا تھا۔ اگر گولی بڑی بھی ہوتی تو بھی چند آوازوں کے بعد رائفل کی نالی میں اتنا بارود جم چکا ہوتا تھا کہ گولی اندر نہ جاتی۔
انہی دنوں میں نے حکام کو مشورہ دیا جس سے یہ مشکل آسان ہو گئی۔ میری تیار کردہ گولی مخروطی تھی جس کی بنیاد کھوکھلی تھی۔ یہ گولی مطلوبہ بور سے ایک بور چھوٹی تھی جس سے بارود جمی ہوئی نال میں بھی اسے ڈالنا آسان تھا۔ اس گولی سے پہلے لکڑی کا بنا ہوا ایک مخروطی سانچہ ڈالا جاتا تھا جس کا نوکیلا سرا گولی کی کھوکھلی بنیاد سے زیادہ چوڑا تھا۔ اس طرح جب گولی ڈال کر ہتھوڑے سے اس پر ضرب لگائی جاتی تو سیسے کی گولی پھیل کر نالی میں سما جاتی۔ جب بارود پھٹتا تو لکڑی کا سانچہ اور سیسے کی گولی، دونوں ہی باہر نکل جاتے۔
باکسر گولی مندرجہ بالا سے بہتر تھی کہ اس میں لکڑی کے سانچے کی بجائے ٹھیکری کا سانچہ ڈالا جاتا جو کام بھی بالکل درست کرتا اور سستا بھی تھا۔
کارتوس والی بریچ لوڈر کی ایجاد سے قبل ہاتھی جنگلی بھینسے اور دیگر خطرناک شکار پر جاتے ہوئے شکاریوں کے پاس ہمیشہ دونالی چار رائفلیں ہوا کرتی تھیں کہ ان رائفلوں کو بھرنے میں جو وقت لگتا تھا، وہ بہت خطرناک اور بعض اوقات مہلک بھی ثابت ہوتا تھا۔
مرطوب موسم میں ہر رائفل کو شام کے وقت چلا کر خالی کرنا پڑتا تھا ورنہ اگلے روز تک بارود نم ہو کر گولی خطا کرنے کا سبب بن سکتا تھا۔ اس سے نہ صرف قیمتی گولیوں کا نقصان ہوتا تھا بلکہ اس سے پیدا ہونے والا شور دور دور تک سنائی دیتا۔ عین اسی وقت جنگلی جانور گھومنے پھرنے نکلا کرتے تھے۔ قابلِ بھروسہ بندوق بردار کا حصول بھی ہمیشہ سے مسئلہ رہا ہے کہ عین خطرے کے وقت جب اضافی رائفل درکار ہو، بندوق بردار رائفل سمیت موقع سے فرار ہو جایا کرتے تھے۔
بریچ لوڈر کی ایجاد سے شکار بہت آسان ہو گیا ہے اور ایک سے زیادہ رائفل رکھنے کی ضرورت ختم ہو گئی ہے۔ فوجی اعتبار سے بھی یہ کامیاب ہیں کہ فوجی لیٹے لیٹے ہی رائفل کر دوبارہ بھر کر محفوظ مقام سے گولیاں چلا سکتے ہیں۔ کرائمیا کی جنگ میں یہ بات واضح ہوئی کیونکہ زیادہ تر زخمی فوجیوں کو دائیں بازو میں گولیاں لگی تھیں کہ رائفل بھرتے ہوئے یہی ہاتھ اوپر اٹھایا جاتا تھا۔
یہاں میرا مقصد فوجی رائفلوں کی تفصیل باریکی سے بیان کرنا نہیں مگر مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ ۱۸۶۵ میں ٹائمز میگزین میں میرے لکھے ہوئے کالموں میں چھوٹے بور کی وکالت کی گئی تھی حالانکہ اُس دور میں لگ بھگ سبھی اس بات کے خلاف تھے کیونکہ رائفل میں بارود جمنے سے اس کا استعمال مناسب نہ تھا۔ یہ بات تو واضح ہے کہ تھری ناٹ تھری کی ۷۰ گرین کی گولی چھوٹے بور کی ہے اور اس کی رفتار تیز اور دور مار ہے جبکہ زیادہ بھاری ۴۵۰ بور کی گولی ہے جس کا دھکا بھی زیادہ ہوتا تھا اور رفتار اور حد بھی کم۔
اس ضمن میں سب سے آگے پرڈی اینڈ کو تھی جس نے بریچ لوڈر کی ایجاد سے قبل ۷۰ بور کی ایکسپریس رائفل بنائی تھی جو دو چکروں والی نال میں سماتی تھی۔ اس کی شکل مخروطی اور وزن ۲۰۰ گرین تھا جبکہ بارود ۱۱۰ گرین استعمال ہوتا تھا جو گولی کے وزن کے نصف سے زیادہ تھا۔ اس رائفل کی انتہائی زیادہ رفتار کی وجہ سے یہ گولی جونہی جانور کے جسم سے ٹکراتی تو پھیلنا شروع ہو جاتی۔ یہ گولی ٹوٹتی نہیں تھی اور پھیلتے ہوئے جب جانور کے جسم کے اندر گزرتی تو تباہی پھیلاتی جاتی۔ رفتار کے حوالے سے اس رائفل کا آج تک کوئی ثانی نہیں حالانکہ بریچ لوڈر کی ایجاد کے بعد رائفلوں میں بہت نئی جدتیں لائی گئی ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ میں نے سب سے پہلے ۳ اونس کی گولی کے ساتھ ۱۶ ڈرام بارود استعمال شروع کیا تھا جو برسوں بعد پرڈی نے اپنایا۔ یہ میرے اصول کی تصدیق تھی۔
اب اس اصول کو عالمگیر مانا جاتا ہے اور بارود کی مقدار آج اتنی ہوتی ہے جو چالیس سال قبل ناممکن مانی جاتی تھی۔
جدید بریچ لوڈر جب تربیت یافتہ فوجی کے ہاتھ میں ہو تو انتہائی مہلک ہتھیار بن جاتی ہے۔
تاہم دوبدو جنگ کے دوران طویل فاصلے تک مار کرنے والی رائفل کے کئی نقصانات ہیں۔ جب دشمن دور ہو تو نشانے کی پتیاں ۶۰۰ یا ۸۰۰ گز پر اٹھی ہوتی ہیں مگر جب دشمن تیزی سے آگے بڑھے تو پتیاں گرانی پڑتی ہیں ورنہ گولیاں خطا جائیں گی اور دشمن جتنا قریب آتا جائے گا، اتنا ہی محفوظ ہوتا جائے گا۔ اس لیے فوجیوں کی تربیت میں یہ بات سختی سے اور بار بار سمجھائی جانی چاہیے۔ تیزی سے گولیاں چلانے سے دشمن کا بہت نقصان بھی ہوتا ہے مگر تیزی سے گولیاں چلانے کی وجہ سے فوجی اتنے پرجوش ہو جاتے ہیں کہ بہت ساری گولیاں خالی جاتی ہیں۔ اس لیے نسبتاً کم رفتار سے چلائی گئی گولیاں زیادہ کارگر ثابت ہوتی ہیں۔
جنگ کے دوران جب خون گرم ہو تو فوجیوں کو قابو کرنا مشکل ہو جاتا ہے مگر یہ متعلقہ افسر کا کام ہے کہ وہ ہر ممکن طور پر فوجیوں کو قابو میں رکھے، نشانے کی پتیاں درست ہوں اور دشمن فوجیوں کے گھٹنے کا نشانہ لیا جائے۔
اس بارے جنرل وولف کی رائے حتمی سمجھی جا سکتی ہے جس میں اسی نکتے پر زور دیا گیا تھا۔
اگرچہ جنرل وولف نے یہ رائے اُن فوجیوں کے حوالے سے دی تھی جو پرانے دور کی مزل لوڈنگ بندوقیں استعمال کرتے تھے اور چقماق کی مدد سے گولی چلتی تھی مگر یاد رہے کہ یہ اصول ہر جگہ لاگو ہوتا ہے ۔
بریچ لوڈر کی اصل اہمیت اس کی طاقت ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ جہاں اشد ضرورت نہ ہو، گولی چلانے میں عجلت نہیں کرنی چاہیے۔
چھوٹے بور کی رائفلیں موجودہ دور میں عام ہو گئی ہیں اور فوجی استعمال کے لیے ایک طرح لازمی ہیں۔ اس طرح زیادہ مقدار میں گولیاں بھی ساتھ لے جانا آسان ہو گیا ہے اور رائفل کی مار اور شست بھی بہتر ہو گئی ہے۔ حکومت نے نئی میگزین رائفل کے طور پر تھری ناٹ تھری کو چنا جس میں ۷۰ گرین بارود اور ۲۱۶ گرین کی سخت گولی استعمال ہوتی ہے۔
شکار کے لیے بھی چھوٹے بور کو ہر جگہ ترجیح دی جاتی ہے مگر میں اس کے خلاف ہوں کہ یہ چھوٹا بور عقلِ سلیم کے بھی خلاف ہے۔
جب کسی بندوق ساز کی دکان میں گھسیں تو اناڑی لوگ اپنے سامنے بے شمار رائفلیں اور بندوقیں دیکھ کر الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں کہ ان کی خصوصیات ایک دوسرے سے کافی مختلف ہوتی ہیں۔ سو خریدار کو جب تک یہ علم نہ ہو کہ وہ کیا چاہتا ہے، دکاندار سے سوال کرنا فضول ہے۔
تاہم اس کا جواب بہت سارے سوالات پر منحصر ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ رائفل کس مقصد کے لیے چاہیے؟ خریدار کی اپنی طاقت کتنی ہے؟ وہ دنیا کے کس حصے میں شکار کرنا چاہتا ہے؟ پیدل ہوگا یا گھوڑے پر سوار؟ شکار خطرناک نوعیت کے جانوروں کا ہوگا یا ہرن وغیرہ کا؟
رائفل کے علاوہ اس میں استعمال ہونے والی گولیاں بھی کافی اہم ہیں۔ دکاندار تو کسی بھی گولی کے بارے کہہ دے گا کہ یہ ہر قسم کے شکار کے لیے بہترین ہے اور کسی رائفل کو بھی بہترین کہہ سکتا ہے۔ اب یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے ایک ہی جنگی بحری جہاز یا ایک ہی گھوڑے میں تمام تر مطلوبہ خصوصیات جمع کر دی جائیں۔
جنوبی امریکہ میں کھلے میدانوں میں بہت طویل فاصلے سے گولی چلانی پڑتی ہے کہ ہرنوں کے جھنڈ بہت دور سے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ ہندوستانی جنگلوں میں جانور پچاس یا ساٹھ گز سے بمشکل ہی دور دکھائی دیتا ہے۔ امریکہ میں پہاڑ سکاٹ لینڈ کے پہاڑوں سے مشابہہ ہیں مگر اس سے کافی بڑے۔ وسطی امریکہ میں فاصلے کا تعین ممکن نہیں کہ مختلف جانور مختلف فاصلوں پر دکھائی دے سکتے ہیں۔
ہندوستان کے کھلے میدانوں میں کالا ہرن سب سے زیادہ شکار ہوتا ہے اور اس کے لیے طویل فاصلے پر بہترین نشانہ لگانا پڑتا ہے۔ ایکسپریس کی کھوکھلی گولی ہرن کے جسم سے پار نہیں ہو سکتی۔ اب بتائیے کہ ایک ہی رائفل کیسے ہر ضرورت کو پورا کر سکتی ہے؟ جس جانور کا شکار مطلوب ہو، رائفل کو اس مقصد کے لیے بنایا جانا چاہیے۔ میں یہاں لاگت یا قیمت پر بحث نہیں کر رہا، بلکہ میرا مقصد شکار اور اس کے لیے بہترین رائفل کا چناؤ ہے اور میں تکنیکی امور سے گریز کروں گا۔
چھوٹے بور جو کہ تمام ہی ایکسپریس ہیں کہ ان میں زیادہ بارود ڈالا جاتا ہے، کچھ ایسے ہیں:
چھوٹا بور ایکسپریس بارود کی مقدار بڑے بور بارود کی مقدار استعمال
.۵۷۷ ۶½ ڈرام ۴ بور ۱۴ ڈرام ہاتھی، گینڈے، جنگلی بھینسے
.۵۰۰ ۵½ ڈرام ۸ بور ۱۴ ڈرام
.۴۵۰ ۵ ڈرام ۱۰ بور ۱۲ ڈرام
.۴۰۰ ۴ ڈرام ۱۲ بور ڈرام۱
.۳۶۰ کھلونے
.۲۹۵
آخری دو رائفلیں یعنی ۳۶۰ اور ۲۹۵ بہت خوبصورت اضافہ ہیں اور ہرن کو شکار کر سکتی ہیں، مگر میرا مشورہ ہے کہ انہیں محض چہل قدمی کرتے ہوئے ساتھ رکھنا چاہیے۔ کسی بھی قسم کے شکار کے لیے ان پر بھروسہ کرنا مناسب نہیں۔ ان کا نشانہ انتہائی عمدہ ہے اور ان سے چھوٹے جانوروں اور پرندوں کا شکار بہت تسکین دیتا ہے۔ کالے ہرن کے لیے ۳۶۰ شاید مناسب ہو مگر میں کم از کم ۴۰۰ بور رائفل کا ہی مشورہ دوں گا۔
ایک مشورہ ہر کسی کے لیے مناسب نہیں ہو سکتا۔ اس لیے میں اپنے تجربے کی روشنی میں محض اپنا نکتہ نظر بیان کروں گا۔
چکارے سے بڑے ہر جانور کے لیے میں .۵۷۷ بور کی ٹھوس ایکسپریس کو ترجیح دوں گا جس میں ۶۴۸ گرین کی گولی اور ۶ گرین بارود استعمال ہوتا ہے۔ ساڑھے چھ گرین سے نشانہ خطا ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔
رائفل کا وزن ساڑھے گیارہ پاؤنڈ ہو مگر بارہ پاؤنڈ سے ہرگز زیادہ نہ ہو۔ چھوٹے شکار یعنی چکارے اور اس سے کم تر درجے کے جانوروں کے لیے میں .۴۰۰ بور کی رائفل استعمال کرتا ہوں جس میں ۸۵ گرین کی گولی اور ۴ ڈرام بارود استعمال ہوتا ہے۔ کالے ہرن پر ٹھوس گولی استعمال نہ کی جائے کہ کھلے میدان میں گولی بہت دور تک جاتی ہے۔ اس رائفل کا وزن عموماً ساڑھے آٹھ پاؤنڈ ہوتا ہے۔
میری کوشش ہوتی ہے کہ میرے پاس ایک .۵۷۷ بور، ایک .۴۰۰ بور اور ایک بارہ بور کی پیراڈاکس بندوق ہندوستان کے عام جانوروں کے لیے ہمراہ رہے۔ ہاتھی اور دیگر بڑے جانوروں کے لیے فہرست بدل جائے گی۔ پیراڈاکس بندوق کو کرنل فوزبری اور بانڈ سٹریٹ والے ہالینڈ اینڈ ہالینڈ نے بنایا تھا۔ اس میں بندوق اور رائفل، دونوں کی خصوصیات جمع ہیں اور سو گز کے فاصلے پر اس کا نشانہ بہترین ہوتا ہے۔ (اس کتاب کے لکھے جانے کے بعد ہالینڈ اینڈ ہالینڈ نے متواتر تجربات کر کے ۸ بور کی پیراڈاکس بنائی ہے جس میں ۱۰ ڈرام بارود ڈالا جاتا ہے اور بہت وزنی گولی سے بہترین نشانہ لگتا ہے۔ بڑے جانوروں کے لیے یہ بہت مناسب ہتھیار ہے۔)
یہ عام بندوق ہے جس کی نال سرے پر معمولی سی تنگ ہو جاتی ہے جسے چوک کہتے ہیں۔ لیکن اس کی نالی کے آخری ڈیڑھ انچ میں رائفل کے چکر بنے ہوئے ہیں۔ اس طرح گولی کو گھما دیا جاتا ہے جس سے مندرجہ بالا فاصلے تک گولی کا نشانہ بالکل ٹھیک ہو جاتا ہے۔
بارہ بور کی پیراڈاکس بندوق کا وزن ساڑھے آٹھ پاؤنڈ ہے اور اس میں پونے دو اونس کی گولی اور ساڑھے چار ڈرام بارود آتا ہے۔ اس بارود سے ایکسپریس والی رفتار تو ممکن نہیں مگر اس گولی کا دھکہ اور دخول کی طاقت بے پناہ ہیں کہ گولی ٹھوس ہے اور کھال اور ہڈیوں سے ٹکرانے کے بعد بھی اس کی شکل خراب نہیں ہوتی۔ ایسی بندوق کی اہمیت اس سے واضح ہوتی ہے کہ بائیں نال میں ہرن کے لیے گراپ بھر لیں اور دائیں نال میں وزنی گولی، جو بھاری جانوروں کی ہڈی کو بھی توڑ سکے۔ اس طرح چھوٹے شکار کے لیے الگ سے بندوق اٹھانے کی ضرورت نہیں رہتی کہ اس سے چلنے والے چھ نمبر کے چھرے بھی بہترین سلنڈر بندوق کے برابر اثر کرتے ہیں۔
بہت سے لوگ اعشاریہ ۵۷۷ پر اعشاریہ ۵۰۰ اور اعشاریہ ۴۰۰ پر اعشاریہ ۴۵۰ کو ترجیح دیتے ہیں۔ میرا یہ کہنا ہے کہ اعشاریہ ۵۷۷ بور کی رائفل کرہ ارض پر موجود ہر جانور کے لیے مہلک ہے، اگر گولی شانے کے پیچھے چلائی جائے۔ چونکہ بھینسے یا دیگر بڑے جانوروں پر شانے کے پیچھے گولی چلانے کا موقع کم ملتا ہے، سو ان کے لیے الگ نوعیت کی رائفل مناسب رہے گی۔ اس بارے میں آگے چل کر بات کروں گا۔
میں نے ہر قسم کی رائفل چلائی ہوئی ہے جن میں نصف پاؤنڈ وزنی اور پھٹنے والی گولی کی رائفل بھی شامل ہے اور میرا خیال ہے کہ ۸ بور سے بڑا بور غیرضروری ہے اور اس میں ۱۲ سے ۱۴ ڈرام بارود استعمال ہونا چاہیے۔ اس رائفل کا وزن ۱۵ پاؤنڈ ہونا چاہیے اور گولی کا وزن ۳ اونس اور اسے سخت دھات سے بنا ہونا چاہیے۔
میری بتائی ہوئی تمام تر رائفلیں ہمیشہ دو نالی ہونی چاہیئں اور اگر ہاتھی کا شکاری زیادہ بڑی رائفل چاہے تو میں اسے مشورہ دوں گا کہ ایک نالی جو کہ ۳۶ انچ لمبی ہو اور وزن ۲۲ پاؤنڈ ہو اور ۴۰۰ گز تک نشانہ درست ہو، کافی رہے گی۔ پچاس گز تک کے لیے یہ بھاری رائفل شانے سے لگا کر استعمال کرنی چاہیے اور اس سے زیادہ فاصلے پر کسی قسم کے سہارے پر رکھ کر چلانی چاہیے۔ اس طرح تالاب میں گھسے یا دریا کے دوسرے کنارے پر موجود ہاتھی کو شانے کے پیچھے گولی ماری جا سکتی ہے۔ میں نے اس طرح بے شمار ہاتھی دیکھے ہیں جن کے قریب جانا ممکن نہیں ہوتا۔ مندرجہ بالا قسم کی رائفل میں نصف پاؤنڈ وزنی گولی ہونی چاہیے جس میں پھٹنے کے لیے نصف اونس کا بارود موجود ہو اور اس کو ۱۶ ڈرام بارود سے چلایا جائے۔ میرے پاس ایک ایسی رائفل تھی جو بدقسمتی سے زیادہ لمبی نہیں تھی اور سو گز تک اس سے گولی چلائی جا سکتی تھی۔ اگرچہ ایسی رائفل کو آپ کو عام شکار کے لیے تو نہیں رکھ سکتے مگر افریقہ میں ہاتھی کے پیشہ ور شکاری شاید اسے رکھنا پسند کریں۔
شکاری کا وزن ضرورت سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے اور اسلحہ بھی اس کی طاقت کے حساب سے ہو۔ اگر شکاری کا وزن کم ہے تو اسے چھوٹے بور کی رائفل کا انتخاب کرنا چاہیے اور اگر اسے ۸ بور کی رائفل اور ۱۴ ڈرام بارود پسند نہ ہو تو اسے ۱۲ بور اور ۱۰ ڈرام بارود سے کام چلانا چاہیے، تاہم اس سے بھاری رائفل والا کام لینا ممکن نہیں۔
عام طاقت کے انسان کے لیے میں ۸ بور کی دو عدد دو نالی رائفلیں مناسب سمجھتا ہوں جن کا وزن ۱۴ سے ۱۵ پاؤنڈ ہو اور ۱۲ سے ۱۴ ڈرام بارودد استعمال ہوتا تھا۔ اس میں ۳ اونس کی سخت گولی ہاتھی سمیت ہر قسم کے جانور کی ہڈیاں توڑ سکتی ہے اور جنگلی بھینسے میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک جا سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب بھینسا یا کوئی دوسرا خطرناک جانور حملہ کر رہا ہو تو ایسی رائفل لازمی ہو جاتی ہے۔
اگرچہ رائفل کو اب عام قبولیت مل چکی ہے اور ماہرین کے خیال میں ایکسپریس رائفل ہی بہترین ہے مگر میرے خیال سے یہ غلط ہے۔
ایکسپریس گولی کی رفتار کو ظاہر کرتا ہے اور عام طور پر اس کی گولی کھوکھلی ہوتی ہے جس سے نہ صرف گولی کا وزن کم ہو جاتا ہے اور اس سے بارود کی کم مقدار درکار ہوتی ہے اور جب گولی جانور کو لگتی ہے تو اندر گھس کر پھیل اور تقسیم ہو جاتی ہے۔ میرے خیال میں ایسی گولی کالے ہرن پر تو کارگر ہوگی ورنہ ٹھوس گولی ہرن سے گزر کر کسی اور لگ سکتی ہے۔
رائفل کے خریدار کو چاہیے کہ وہ خود سے پوچھے کہ اسے کس مقصد کے لیے گولی درکار ہے۔ اسے ان دو سوالوں کا جواب معلوم ہونا چاہیے کہ گولی کیا ہے اور اس کا کیا مقصد ہوتا ہے؟
گولی عموماً ایک ایسی چیز ہوتی ہے جو تمام تر متعلقہ اجزا کو ایک ساتھ جوڑ کر رکھتی ہے۔ گولی کا مقصد سیدھا نشانے کی طرف جانا ہے اور اس میں اندر گھسنے کی کافی صلاحیت ہونی چاہیے اور اس کا راستہ آسانی سے نہ بدلے۔ اس طرح کی گولی سے شدید صدمہ پہنچتا ہے۔
ان سب خصوصیات کو کیسے جمع کیا جائے؟ اگر گولی میں بہت زیادہ گھسنے کی طاقت ہو تو وہ جانور کی دوسری جانب سے نکل جائے گی اور صدمہ نہیں پہنچے گا۔ جانور کو پہنچنے والا صدمہ دراصل اس کے جسم کے اعضا کی جانب سے گولی کے سفر کی مزاحمت ہوتا ہے۔ اگر گولی اندر رہ جائے تو ساری کی ساری توانائی صدمہ بن کر جانور کو پہنچے گی۔ اعشاریہ ۵۷۷ کی گولی کا وزن ۶۴۸ گرین ہوتا ہے اور چھ ڈرام بارود کی طاقت سے اس کے ٹکراؤ کی شدت ۳۵۰۰ فٹ پاؤنڈ ہوتی ہے جو اگر گولی باہر نہ نکلے تو ساری توانائی جانور کو صدمہ پہنچائے گی۔
سو ہماری کوشش یہی ہے کہ گولی جانور کے جسم سے پار نہ ہو تاکہ اس کا اثر پورا ہو۔
یہ نکتہ کھوکھلی ایکپریس گولی کی حمایت میں اٹھایا جاتا ہے کہ جب سخت عضلات سے یہ گولی ٹکراتی ہے تو پاش پاش ہو جاتی ہے اور باہر نہیں نکلتی۔
تاہم میرا نکتہ یہ ہے کہ اس طرح گولی خودکشی کر لیتی ہے اور اگرچہ جانور کے اعضائے رئیسہ اس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ تاہم گولی کا وجود ختم ہو جاتا ہے کہ وہ ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے اور اس طرح جانور کو پہنچنے والا صدمہ زیادہ نہیں ہوتا۔
اگر جانور چھوٹا اور بے ضرر ہو تو یہی ہمارا مقصود ہوتا ہے۔ تاہم اگر جانور بڑا اور خطرناک ہو تو کھوکھلی ایکپسریس گولی شکاری کے لیے مہلک ہو سکتی ہے۔
میں نے بہت مرتبہ تجربہ کار شکاریوں سے سنا ہے کہ انہوں نے کیسے اعشاریہ ۴۵۰ بور کی چھوٹی اور کھوکھلی ایکسپریس گولی سے شیر یا کسی دوسرے جانور کو شانے کے پیچھے ایک ہی گولی مار کر شکار کر لیا تھا۔ میں نے ان کی ناکامی کی داستانیں بھی سنی ہیں جن کی وجہ انہیں بھی سمجھ نہیں آتی تھی۔ اعشاریہ ۵۷۷ کی ٹھوس گولی کا رخ اگر درست ہو تو کبھی بھی ناکام نہیں ہوتی۔ جانور چاہے جس رخ بھی کھڑا ہو، اگر شکاری کو جانور کے اعضائے رئیسہ کے مقامات کا درست اندازہ ہو (جو کہ کامیاب شکاری کے لیے لازمی امر ہے) تو کم فاصلے پر چلائی گئی یہ ٹھوس گولی ہڈی، عضلات اور ہر چیز کو تباہ کرتی، راستہ بناتی اعضائے رئیسہ تک جا پہنچے گی۔ اس گولی میں شیر، ببر شیر، ریچھ یا تیندوا کے اعضائے رئیسہ تک پہنچنے کی صلاحیت تو ہو مگر باہر نہ نکل پائے۔ اگر یہ جانور واپیٹی یا سانبھر ہو تو یہ گولی دوسرے سرے پر کھال کے نیچے رک جائے۔ اب بتائیے کہ ایک مقدار کے بارود اور ایک ہی جیسی گولی سے یہ کیسے ممکن ہے؟
گولی کو بناتے ہوئے مختلف دھاتوں کے آمیزے سے دخول کی صلاحیت کو کم یا زیادہ کیا جا سکتا ہے۔ انتہائی سخت گولیوں کی ایک مخصوص مقدار بڑے اور موٹی کھال والے جانوروں کے لیے الگ سے تیار کر کے رکھنی چاہیے اور ایک مخصوص مقدار نسبتاً نرم دھات والی گولیوں کی ہو تاکہ یہ جانور کو لگتے ہی پھیل تو جائے مگر ٹوٹ نہ سکے۔ سو ہر قسم کی گولیوں پر الگ رنگ سے نشان لگا دینا چاہیے تاکہ پہچان ہو سکے۔
اگر خالص سیسے سے بنی ہوئی گولی ہو تو اعشاریہ ۵۷۷ بور کی گولی کی ابتدائی رفتار ۱۶۵۰ فٹ فی سیکنڈ ہوتی ہے اور جانور کو لگتے ہی چھوٹی کھمبی کی شکل میں تبدیل ہو جائے گی اور جوں جوں جانور کے اندر گزرتی جائے گی، اس کا حجم پھیلتا جائے گا اور بالآخر دوسری جانب کی لچکدار کھال کے نیچے عام کھمبی کے حجم کی بن کر رک جائے گی۔ میں شیر، ببر شیر، سانبھر، واپیٹی اور دیگر بڑے جانوروں کے لیے خالص سیسے کی گولی کو ترجیح دیتا ہوں کہ ان کی کھال سخت نہیں ہوتی اور شکل تبدیل کرنے کے باوجود گولی ثابت رہتی ہے اور ساری توانائی صدمہ بن کر جانور کو منتقل ہو جاتی ہے۔
ٹھوس گولی کی نسبت کھوکھلی گولی سے پہنچنے والے صدمے کی شدت بہت فرق ہوتی ہے کہ دونوں کے وزن میں فرق ہے۔ کھوکھلی گولی مہلک زخم تو پہنچاتی ہے مگر اس سے ہمیشہ جانور فوری ہلاک نہیں ہوتا۔ میں نے بہت مرتبہ اعشاریہ ۵۰۰ کی کھوکھلی ایکسپریس گولی جو پانچ ڈرام بارود سے چلتی تھی، جانور کے شانے کے پیچھے یا کندھے پر لگتے دیکھی ہے جو مہلک زخم دیتی ہے مگر جانور ایسے بھاگتا ہے کہ جیسے اسے کچھ نہ ہوا ہو اور کم از کم سو گز بھاگ کر گرتا اور اچانک مر جاتا ہے۔
یہ شکار کا اچھا طریقہ نہیں۔ خالص سیسے کی ٹھوس گولی سے جانور اسی جگہ ہلاک ہو جاتا کیونکہ گولی شکل بدلنے کے باوجود بھی ثابت رہتی اور شدید صدمہ پہنچاتی۔ جانور کی ہلاکت کے بعد جب اس کا اندرونی معائنہ کیا جائے تو کھوکھلی گولی سے پھپیھڑے، جگر اور دل بھی بیک وقت مجروح دکھائی دیتے ہیں جو ایک ہی گولی سے ہوئے تھے۔ اکثر داخلے کے مقام پر چھوٹا سا سوراخ ہوتا ہے جبکہ کھال سے ایک انچ نیچے گولی پھٹتے ہی بڑا سوراخ دکھائی دیتا ہے اور یہاں سے گولی کے ریزے الگ الگ سمت اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔
عقلِ سلیم سے یہ بات بخوبی سمجھی جا سکتی ہے کہ ایسی گولی جانور کو ہلاک تو کر دے گی مگر کسی خطرناک جانور کے حملے کو روکنے کے لیے مناسب نہیں۔ کم جسمانی طاقت کے حامل افراد کھوکھلی گولی والی ایکسپریس کو ترجیح دیتے ہیں کہ رائفل ہلکی اور گولی کا دھکا بھی کم ہوتا ہے۔
میری رائے یہ ہے کہ اگر آپ چاہیں کہ گولی جانور کو لگتے ہی پھیل جائے تو نرم دھات استعمال کریں مگر گولی ٹھوس ہی ہو۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ گولی زیادہ اندر تک جائے تو سخت دھات استعمال کریں جیسا کہ دسواں حصہ قلعی یا تیرہواں حصہ پارہ۔ اگرچہ یہ گولی جنگلی بھینسے کی سخت ہڈیوں سے ٹکرا کر اپنی شکل تو تبدیل کر لے گی مگر جب یہ اعشاریہ ۵۷۷ بور کی رائفل سے چھ ڈرام بارود سے چلائی جائے تو واپیٹی کے جسم سے گزر کر پیچھے کھڑے دوسرے واپیٹی کو بھی مار سکتی ہے۔
اسی رائفل سے نرم سیسے کی ٹھوس گولی نر شیر کے شانے پر لگے تو دوسرے شانے اور جلد کے درمیان رک جائے گی۔ اس طرح شیر بھی فوری ہلاک ہو جائے گا اور گولی بھی ثابت رہے گی۔
اس شیر کی لاش کو کھول کر دیکھا جائے تو پتہ چلے گا کہ گولی کندھے کے جوڑ پر لگی اور اسے توڑتی ہوئی آگے بڑھی تو کندھے کی ہڈی کے ریزے چھروں کی مانند پھپیھڑوں میں گھسے اور دونوں کندھوں کے جوڑ ریزہ ریزہ ہو چکے ہوں گے۔ پھیلتی ہوئی گولی تباہی پھیلاتی گئی ہوگی۔ یہ شکار کا بہترین اصول ہے۔ زخمی مت کرو، بلکہ جانور کی فوری ہلاکت ہو اور یہ کام اعشاریہ ۵۷۷ بور کی رائفل سے خالص سیسے کی ٹھوس گولی سے یا پھر پیراڈاکس کی پونے دو اونس کی سخت دھات کی گولی اور ساڑھے چار ڈرام بارود والی گولی ہی کر سکتی ہے۔ یہ بہت بڑی گولی ہے اور اسے پھیلنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
بندوق ساز ہمیشہ یہی کہیں گے کہ خالص سیسے کی گولی استعمال نہ کی جائے کہ نرم سیسہ رائفل کی نال میں جمنا شروع ہو جائے گا۔ یہ اعتراض فوجی رائفل پر تو مناسب ہے مگر شکار پر ہر روز چند ہی گولیاں چلتی ہیں اور رائفل ہر شام کو صاف بھی کی جاتی ہے۔
شکار میں ہونے والے زیادہ تر حادثات کی وجہ نامناسب رائفل کا انتخاب ہوتی ہے۔ اگر شکاری نے سکاٹ لینڈ میں بے ضرر سرخ ہرن کا شکار کرنا ہے تو وہ کسی بھی قسم کا تجربہ کر سکتا ہے۔ مگر جب وہ برطانوی ساحل سے مشرق یا افریقہ کے لیے روانہ ہونے لگے تو اسے کھوکھلی ایکسپریس گولی والی رائفل کو گھر ہی رکھ دینا چاہیے۔ اس بارے میں اپنی رائے دے رہا ہوں ورنہ نتائج مہلک بھی ہو سکتے ہیں۔ چند ماہ قبل ہی مرحوم مسٹر انگرام اعشاریہ ۴۵۰ بور کی ایکسپریس رائفل سے کھوکھلی گولی ہاتھی پر چلانے کی وجہ سے ہلاک ہوا حالانکہ اس جگہ کم از کم ۱۰ بور کی رائفل ہونی چاہیے تھی۔ میں ایکسپریس رائفل کے حامیوں سے صرف ایک سوال پوچھتا ہوں: ‘اگر آپ پیدل شکار کرتے ہوئے محض اپنی رائفل پر بھروسہ کر رہے ہوں تو آیا آپ اعشاریہ ۵۷۷، اعشاریہ ۵۰۰ یا اعشاریہ ۴۵۰ بور کی کھوکھلی گولی استعمال کریں گے یا جانور کے حملے کا سامنا ٹھوس گولی سے کرنا پسند کریں گے؟‘
ہندوستان بہت وسیع ملک ہے اور مختلف مقامات کا موسم اور وہاں شکار کے طریقے بھی اسی اعتبار سے مختلف ہیں۔ گھنے جنگلوں میں پیدل شکار ناممکن ہوتا ہے اور ہانکے سے ہی شکار ممکن ہو پاتا ہے۔ مختلف مقامات پر شکاری مچانوں (درخت کی شاخوں پر بندھے ہوئے جھولے یا تختے) پر بٹھا دیے جاتے ہیں جو زمین سے دس یا بارہ فٹ اونچی ہوتی ہیں۔ اس جگہ سے شکاری خطرے سے محفوظ اور پوشیدہ رہتے ہوئے کچھ فاصلے تک بخوبی دیکھ سکتا ہے۔ اس مقام پر بیٹھ کر شکاری چاہے تو کھوکھلی ایکپسریس گولی سے دل بہلا سکتا ہے کہ جانور زیادہ سے زیادہ پچاس گز کے فاصلے سے گزریں گے۔ میں جانتا ہوں کہ اس فاصلے پر شیر کبھی ٹھوس گولی سے نہیں بچ سکتا مگر ایکسپریس کی کھوکھلی گولی سے بچنے کی بہت ساری وجوہات ممکن ہیں۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ گھنے جنگل میں شاید ہی کبھی پورا جانور دکھائی دے کیونکہ بے شمار ٹہنیاں اور پتے وغیرہ درمیان میں آ جاتے ہیں اور جب دونوں آنکھیں کھول کر دیکھا جائے تو صاف دکھائی دیتا ہے مگر جب ایک آنکھ بند کر کے نشانہ لیا جائے تو منظر صاف نہیں رہتا۔ تب جا کر احساس ہوتا ہے کہ گولی کو کم از کم بیس ٹہنیوں کو کاٹ کر گزرنا ہوگا۔ ٹھوس گولی کا رخ شاید معمولی سا بدل جائے مگر چھنگلی کے برابر ٹہنی سے ٹکراتے ہی کھوکھلی ایکسپریس کی گولی ریزہ ریزہ ہو جائے گی۔ کھوکھلی ایکسپریس کے بارے اس سے زیادہ کچھ کہنا بیکار ہے۔
جب میں یہ لکھ رہا تھا تو ۲۴ جون ۱۸۸۸ کو مجھے پائنیر کی طرف سے خط ملا جس میں مندرجہ ذیل واقعہ درج ہے کہ کتھبرٹ فریزی کیسے چند ہفتے قبل شیر کا شکار ہوتے بچا اور اسی سے کھوکھلی ایکسپریس گولی کی خامیاں واضح ہوتی ہیں۔ اگر ٹھوس گولی ہوتی تو سیدھی شیر کے بھیجے میں ترازو ہو جاتی اور شیر وہیں گر جاتا۔ کھوکھلی گولی شیر کے دانت پر لگی اور فوراً ریزہ ریزہ ہو کر پھیلی تو شیر کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی۔ اس کے علاوہ شیر کو کوئی نقصان نہ پہنچا۔ زخمی شیر نے اس کے اردلی کو نہ صرف ہلاک کیا بلکہ ساتھ بیٹھ کر اس کی ہڈیاں بھی چباتا رہا۔ اس نے بتایا کہ جونہی شیر کو گولی لگی تو اس کا خیال تھا کہ شیر وہیں مر جائے گا مگر بدقسمتی سے گولی ریزہ ریزہ ہو گئی۔ اس نے شیر کے سینے پر بائیں نال بھی چلائی مگر اسے کوئی فرق نہ پڑا۔ اگر یہ ٹھوس گولی ہوتی تو سیدھی شیر کے پھیپھڑوں یا دل تک پہنچ جاتی۔
شیر کے ساتھ تجربہ
دکن کا مندرجہ ذیل واقعہ ایک شکاری نے ۱۴ جون ۱۸۸۸ کو سکندر آباد کے اخبار میں لکھا:
‘کتھبرٹ فریزر امروتی کے جنگلوں میں شیر سے معجزانہ طور پر بچے۔ یہ خوش قسمت انسان بیرور میں ڈی ایس پی کے عہدے پر فائز ہیں۔ انہوں کے مطابق اردلی نے بتایا کہ شیر ایک درخت کے نیچے مردہ پڑا ہے۔ انہوں نے قریب جا کر اپنے اردلی اور ایک دوسرے بندوق بردار کو پیچھے بھیج دیا اور خود وہیں بیٹھ کر شیر کو دیکھنے لگے۔ اتنے میں اٹھارہ فٹ کے فاصلے سے شیر دھاڑا اور ان پر حملہ کر دیا۔ انہوں نے رائفل تیار رکھتے ہوئے شیر کو پانچ فٹ کے فاصلے تک آنے دیا اور پھر گولی چلائی۔ گولی سیدھی شیر کے منہ پر مگر مطلوبہ مقام سے ایک انچ نیچے لگی۔ مگر شیر نہیں رکا۔ سو انہوں نے بعجلت دوسری گولی چلا دی۔ پہلی گولی سے شیر کی دائیں آنکھ نکل گئی اور دوسری گولی سینے میں کافی نیچے لگی۔ اس کے بعد انہیں علم نہیں کہ کیا ہوا مگر پھر انہوں نے خود کو شیر کے سامنے پڑا دیکھا اور شیر ان کی دائیں ٹانگ پر پنجہ رکھے بائیں ٹانگ کو کھینچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ شیر کے منہ سے نکلنے والی جھاگ سے ان کا کوٹ اور تھوڑی بھر گئی تھیں۔ انہوں نے شیر کے پنجوں سے نکلنے کی کوشش کی اور خوش قسمتی سے شیر کی اس جانب کی آنکھ نکل چکی تھی سو وہ انہیں دیکھنے سے قاصر تھا۔ اچانک شیر نے ان کے اردلی کو بھاگتے دیکھا تو انہیں چھوڑ کر اس کے پیچھے لپکا اور اسے فوراً ہلاک کر دیا۔ مسٹر فریزر کا ہیٹ، رائفل اور تمام تر کارتوس گر چکے تھے، سو وہ بندوق بردار کی طرف بھاگے اور اس دوران انہیں شیر سے آٹھ فٹ کے فاصلے سے گزرنا پڑا۔ انہوں نے قریب سے گزرتے ہوئے اردلی کی ہڈیاں چبائے جانے کی آواز بھی سنی کیونکہ شیر اردلی کی گُدی چبا رہا تھا۔ انہوں نے بندوق لی مگر بندوق بردار نے بتایا کہ وہ دونوں نالیاں چلا چکا ہے۔ تاہم اس نے بہت پیچھے کا نشانہ لیا تھا تاکہ ‘صاحب کو گولی نہ لگے، مگر دل مضبوط کر کے نشانہ لگایا‘۔ ایک اعلیٰ افسر نے اس پر لکھا کہ یہ بہت بہادر انسان تھا اور گولی چلانے کے بعد اس نے مسٹر فریزر کی آمد تک اپنی جگہ نہیں چھوڑی۔ یہ بندہ گوالگھور کا راجپوت رنجیت سنگھ تھا جو بہت بہادر قوم ہے۔ چونکہ ان کے پاس مزید کارتوس نہیں تھے اور اردلی مر چکا تھا، سو وہ اس مقام سے کچھ دور ہٹ گئے۔ کچھ دیر بعد انہیں ایک کارتوس ملا تو وہ اردلی کی لاش چھڑانے گئے مگر بے سود۔ شیر اس کے ساتھ ہی لیٹا ہوا تھا اور بھینسیں فرار ہو چکی تھیں۔ مسٹر فریزیر نے چھ میل دور سے ہاتھی منگوایا مگر ہاتھی سورج غروب ہونے کے بعد پہنچا۔ اس لیے مسٹر فریزیر کو بوجھل دل کے ساتھ اردلی کی لاش چھوڑ کر جانا پڑا۔ شیر کے پنجے سے لگنے والے زخم سے بھی کافی خون بہہ رہا تھا۔ اگلے روز وہ لاش لینے گئے تو شیر وہیں مرا پڑا تھا۔ بدقسمتی سے ایکسپریس کی گولی ٹوٹ گئی، ورنہ اس مقام پر چلائی گئی بارہ بور کی گولی سیدھی شیر کے دماغ میں ترازو ہوتی‘۔
اس طرح کی ناکامیوں کے بے شمار واقعات بیان ہو سکتے ہیں اور بہت سے تجربہ کار شکاری کالے ہرن وغیرہ سے ہٹ کر کسی بھی قیمت پر ایکسپریس گولی کو استعمال نہیں کرنا چاہتے۔
ایکسپریس کی کھوکھلی گولی پر اتنا ہی کافی ہے، اب ہر انسان کی اپنی مرضی کہ وہ اسے استعمال کرے یا نہ کرے۔ ذاتی طور پر میں کسی ایسے دوست کے ساتھ شکار پر نہیں جاؤں گا کسی خطرناک شکار پر ایسا کمتر ہتھیار لے کر جائے۔ آگے چل کر میں اس کے بارے ایک چونکا دینے والا واقعہ بیان کروں گا۔
میگزین رائفل فوج کے لیے لازم ہو چکی ہے، مگر میں اسے شکار کے لیے مناسب نہیں سمجھتا کہ ہر گولی چلانے پر آپ کو رائفل کو شانے سے ہٹا کر دوبارہ گولی بھرنی پڑتی ہے۔ ونچسٹر کمپنی نے اس بارے اعشاریہ ۴۰۰ بور رائفل میں میگزین لگا دیا ہے۔ اس رائفل میں ۱۱۰ گرین بارود استعمال ہوتا ہے۔ ذاتی طور پر میرے اپنے استعمال کے لیے ایک اعشاریہ ۵۷۷، ایک اعشاریہ ۴۰۰ اور ایک ۱۲ بور کی پیراڈاکس بندوق کافی ہیں جن میں ٹھوس گولیاں استعمال ہوں گی تاہم ان گولیوں کی سختی فرق ہو سکتی ہے۔ زیادہ بڑے جانوروں کے لیے ۸ بور کی رائفلیں، سخت گولیاں اور ۱۴ ڈرام بارود کافی ہوگا۔
شکاری رائفلوں پر اس سے زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، تاہم ان کی تاریخ اور ترویج پر الگ سے کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ بندوقوں کے بارے پہلے سے اتنا کچھ مواد موجود ہے کہ اس بارے مزید لکھنا بیکار رہے گا۔
باب دوم
ہاتھی
اس جانور کو انسانی تاریخ میں ہمیشہ سے خاص اہمیت دی جاتی رہی ہے کہ اس کی جسامت بہت عجیب اور رویہ وحشیانہ ہوتا ہے۔ یہ سوال بھی کئی بار سامنے آتا ہے کہ آیا ہاتھی زیادہ ذہین ہے یا کتا؟ میرا نکتہ نظر یہ ہے کہ کتا انسان کا ساتھی ہے اور ہاتھی اس کا غلام۔
ہم سب کتے کی وفاداری سے بخوبی آگاہ ہیں جو وہ نسلِ انسانی سے روا رکھتا ہے۔ کتا انسان کی عسرت یا دولت سے متاثر نہیں ہوتا اور جب اس کے مالک کو اس کے تمام تر دوست احباب بھی چھوڑ چکے ہوں، کتا ساتھ نہیں چھوڑتا۔ اس کی یاداشت قابل قدر ہے حالانکہ فطرت نے اس کی عمر زیادہ نہیں رکھی۔
خطرے کی صورت میں کتا ہمیشہ اپنے مالک کا دفاع کرے گا اور اس سلسلے میں اس کی اپنی ذہانت کافی ہے۔ وہ فوراً دشمن کو پہچان کر اس پر حملہ کر دے گا۔ شکار کے دوران مالک کے برابر خوش ہوگا۔ شکار سے واپسی پر رات کو وہ اپنے مالک کے قدموں میں سو جائے گا اور وہ مالک کے گھر کا ہی ایک رکن ہوتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ ہاتھی کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اسے تربیت دے کر کچھ کام کرنے کے لیے تیار کیا جا سکتا ہے مگر وہ کبھی اپنی مرضی سے کام کرنے کو سامنے نہیں آئے گا۔ میں نے کبھی نہیں سنا کہ ہاتھی نے اپنے مالک کو ڈوبنے سے بچایا ہو یا حملے کی صورت میں خود سے اس کا دفاع کیا ہو۔ آپ کو آپ کا دشمن آپ کے پسندیدہ ہاتھی کے سامنے مار ڈالے تو بھی ہاتھی یا تو مداخلت نہیں کرے گا یا پھر بھاگ جائے گا اور جب تک مہاوت اسے اشارہ نہ کرے، وہ دخل نہیں دے گا۔ جب تک ہاتھی کو حکم نہ دیا جائے، ہاتھی کبھی بھی کوئی کام یا حرکت نہیں کرے گا۔
اس بات سے قطع نظر، ہاتھی کی یاداشت اور سیکھنے کی صلاحیت حیران کن ہے اور محیر العقول کام کر سکتا ہے، تاہم یہ کام کرنے کے لیے اسے باقاعدہ حکم دینا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ ہاتھی کی طاقت بے پناہ ہوتی ہے۔
میں نے ہاتھیوں کے ساتھ بہت برس کام کیا ہے اور ایشیا اور افریقہ کے ہاتھیوں کے ساتھ بھی اور میرا خیال ہے کہ ہاتھی فطرتاً بزدل ہوتا ہے۔ آزاد حالت میں افریقی نر ہاتھی بالخصوص خطرناک ہوتا ہے مگر جھنڈ کی شکل میں ہاتھیوں کو جب دشمن کی بو آئے تو وہ فرار ہو جاتے ہیں۔ پالتو بننے سے ہاتھی مزید بزدل ہو جاتے ہیں۔ ایسا ہاتھی مشکل سے ہی ملتا ہے جو کسی جنگلی جانور کے حملے کا سامنا بہادری سے کر سکے۔ عموماً ایسی صورت میں ہاتھی دم دبا کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور اگر جنگل پاس ہی ہو تو سواروں کے لیے یہ فرار مہلک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
ایشیائی اور افریقی ہاتھیوں کا فرق واضح ہے۔ اگرچہ مردہ ہاتھی کی درست پیمائش دینا تو ممکن نہیں کہ کہ مرنے کے بعد ہاتھی کی اونچائی لیٹی حالت سے فرق ہوتی ہے کہ کھڑی حالت میں وزن سے اونچائی کم ہو سکتی ہے۔
برطانیہ کے چڑیا گھر نے جب امریکہ کو جمبو نامی مشہور افریقی ہاتھی بیچا تو وہ بچپن سے ہی قید میں تھا اور آمد کے وقت اس کی اونچائی ۴ فٹ ۶ انچ تھی۔ انگلینڈ سے روانگی کے وقت اس کی پیمائش پوری توجہ سے کی گئی جو شانے پر پوری ۱۱ فٹ تھی اور وزن ساڑھے چھ ٹن۔ اس کے اگلے پیر کی گولائی اس کی اونچائی کا عین نصف تھی۔ میں نے افریقہ میں اس سے بھی بڑے بہت سے ہاتھی دیکھے ہیں مگر ہندوستان میں اتنا بڑا کوئی ہاتھی نہیں دیکھا۔
افریقی ہاتھی کو سدھانا مشکل نہیں مگر ان کو زیادہ تعداد میں حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ افریقی باشندے وحشی ہیں اور فطری طور پر وہ جانور کو پکڑ کر سدھانے کی بجائے اسے ہلاک کرنے اور کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وسطی افریقہ میں نو سال قیام کے دوران میں نے ایک مرتبہ بھی کسی جنگلی جانور یا پرندے کو پالتو نہیں دیکھا۔ سدھا ہوا ہاتھی افریقہ میں مہم جوؤں کے لیے بہت قیمتی ہو سکتا ہے کہ بہت گہرے دریا بھی عبور کر سکتا ہے اور مگرمچھوں سے بھی کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ ایشیائی ہاتھی کی نسبت افریقی ہاتھی بہت کم سدھائے گئے ہیں اور سننے میں یہ آیا ہے کہ افریقی ہاتھی کی نسبت ہندوستانی ہاتھی زیادہ شریف اور آسانی سے سدھایا جا سکتا ہے۔ افریقی ہاتھی زیادہ طاقتور بھی ہوتا ہے۔ ہندوستانی نر ہاتھی بمشکل نو فٹ جبکہ مادہ آٹھ فٹ تک پہنچتے ہیں۔ دس فٹ تک شاید ہی کوئی ہاتھی پہنچ پائے۔ مہاوت اپنے ہاتھی کی پیمائش کرتے ہوئے مبالغے سے کام لیتے ہیں۔
چونکہ جمبو قید میں ہی گیارہ فٹ کا ہو گیا تھا، سو یہ کہنا غلط نہیں کہ افریقی ہاتھی آزاد حالت میں بارہ فٹ تک بھی پہنچ سکتے ہوں گے۔ میں نے بہت مرتبہ اس سے بھی بڑے ہاتھی دیکھے ہیں مگر یقین سے ان کی پیمائش کا نہیں کہہ سکتا۔
افریقی ہاتھی کی جسمانی ساخت ایشیائی سے فرق ہے۔ اس کے جسم کا بلند ترین مقام اس کا شانہ ہوتا ہے اور پشت خالی، ہندوستانی ہاتھی کی کمر خمدار اور شانہ نسبتاً نیچے ہوتا ہے۔ دونوں کے سر کی ساخت فرق ہوتی ہے اور افریقی ہاتھی کے کان بہت بڑے اور جب پیچھے کی طرف ہوں تو کندھے کو ڈھانپ لیتے ہیں۔ جب افریقی ہاتھی کا کان اس کے جسم سے لگا ہوا ہو تو اس کے سرے پر چلائی گئی گولی مہلک ثابت ہوتی ہے۔ یہ گولی سیدھی پھیپھڑوں کے درمیان سے گزرے گی۔ ہندوستانی ہاتھی کے کھانے کے دانت افریقی سے زیادہ بڑے ہوتے ہیں کیونکہ دونوں کی خوراک فرق ہوتی ہے۔ افریقی ہاتھی پتوں اور مموسا وغیرہ جیسے درختوں کی رسیلی جڑیں کھاتے ہیں جو وہ اپنے بیرونی دانتوں کی مدد سے کھود نکالتے ہیں۔ افریقی جنگلات اکثر سدابہار ہوتے ہیں اور درخت کی چھال بھی رسدار ہوتی ہے۔ ہندوستانی جنگل گرمی کے موسم میں بالکل خالی ہو جاتے ہیں۔ دونوں نسل کے ہاتھیوں میں چار دانت ہوتے ہیں جو بہت سخت ہوتے ہیں۔ ان کے درمیان نرم سطح ہوتی ہے جو عمر کے ساتھ دانتوں کو گھسنے سے بچاتی ہے۔ جبڑے کے پیچھے ایک غدود سے رطوبت خارج ہوتی ہے جو دانت کی مرمت کا کام کرتی ہے۔
ہاتھی کی عمر کے بارے کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ قید میں ہاتھی کی زندگی کم ہو جاتی ہے۔ اس لیے ہم اندازہ ہی لگا سکتے ہیں۔ ہاتھی کے بیرونی دانت لگ بھگ چالیس سال کی عمر تک جا کر مکمل ہوتے ہیں۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ جنگل میں ہاتھی کی زندگی لگ بھگ ڈیڑھ سو سال ہونی چاہیے۔
قید میں ہاتھی کی زندگی فطرت سے دور ہوتی ہے۔ ہندوستانی جنگلی ہاتھی کو سورج سے نفرت ہوتی ہے اور دن نکلنے کے بعد شاید ہی کبھی کھلے میں دکھائی دے۔ رات کے دوران وہ جنگل میں ہر جگہ پھرتا ہے اور صبح سورج طلوع ہونے سے ایک گھنٹہ قبل جنگل میں سایہ دار جگہ پر رک جاتا ہے۔ پیٹ بھرتے ہوئے جتنی شاخیں توڑتا ہے، بمشکل ان میں سے نصف کو کھاتا ہے۔ درختوں کی چھال اکھاڑتا ہے مگر زیادہ تر کھائے بغیر چھوڑ دیتا ہے۔ ساری رات ہاتھی پیٹ بھرتا ہے۔ اس کی خوراک دیکھی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ کس طرح کی خوراک پسند کرے گا۔ زیادہ تر جنگلی جانوروں کو ایک خاص حد تک نباتات کا علم ہوتا ہے جن سے وہ اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ جانوروں میں محض اونٹ ہی ایسا جانور ہے جو اپنا پیٹ بھرنے کے چکر میں زہر بھی کھا سکتا ہے۔ تاہم ہاتھی اپنی ضروریات کے مطابق انتہائی توجہ سے خوراک کا انتخاب کرتا ہے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ جنگل کے کتنے کم درخت اس کی خوراک بن سکتے ہیں۔ کچھ درختوں کے پتے، کچھ کی کھال، کچھ کی جڑیں اور کچھ کے تنے (گنا اس کی ایک مثال ہے) پسند کرتا ہے۔ ایک درخت کے چھلکے کو اتار کر اس کی لکڑی کھاتا ہے۔
جنگلی ہاتھی شب بیدار جانور ہے اور درختوں کو چھو کر اور سونگھ کر پہچانتا ہے کہ رات کے اندھیرے میں درخت کے پتے دیکھ کر پہچان ممکن نہیں ہوتی۔ جنگلی جانوروں میں ہاتھی کی قوتِ شامہ سب سے تیز ہوتی ہے اور ہزار گز دور سے بھی دشمن کی بو سونگھ لیتا ہے اور اگر ہوا موافق ہو تو اس سے بھی زیادہ دور سے سونگھ لیتا ہے۔ سونڈ کے اعصاب بہت طاقتور ہوتے ہیں اور اگرچہ اس کی کھال موٹی ہوتی ہے مگر سونڈ کے سرے پر بنے ابھاروں سے چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی اٹھا سکتا ہے۔
سونڈ پر لگنے والا زخم ہاتھی کے لیے شدید تکلیف کا سبب بنتا ہے اور جب شیر حملہ کرے تو ہاتھی اپنی سونڈ کے نچلے حصے کو گول کر کے سینے کے نیچے چھپا لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زخمی ہونے کے بعد ہاتھی بہت بزدل ہو جاتا ہے۔ شکار کے لیے بہت عمدہ ہاتھی جب شیر کے ہاتھوں زخمی ہوتا ہے تو پھر لگ بھگ ہمیشہ کے لیے بیکار ہو جاتا ہے۔ قدیم دور میں ہاتھیوں کو جنگ کے دوران زرہ بکتر پہنائی جاتی تھی تاکہ تیر اور بھالے سے زخمی نہ ہو۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ شکار والے ہاتھی کے مہاوت کتنی لاپرواہی سے سونڈ کو خالی چھوڑ دیتے ہیں۔ حالانکہ آسانی سے اس پر حفاظتی تہہ چڑھائی جا سکتی ہے۔
کمشنر کی طرف سے مجھے ایک بڑا نر ہاتھی دیا گیا تھا جس کی سونڈ کے لیے میں نے حفاظتی خود بنوایا تھا۔ اس کی پہلی تہہ سانبھر کی نرم کھال سے بنی تھی جو پورے سر کو ڈھانپ لیتی تھی اور گلے کے نیچے تسموں سے
باندھی جاتی تھی۔ سونڈ کی جڑ سے تین فٹ تک کا حصہ بھی چھپا ہوتا تھا۔ سونڈ کا نچلا حصہ خالی تھا اور حملے کی صورت میں ہاتھی اسے اوپر اٹھا لیتا تھا۔ اس کے اوپر بھینس کی رنگی ہوئی کھال کی تہہ ہوتی تھی جو اتنی پھسلواں تھی کہ شیر کے پنجے یا دانت اس پر پھسل جاتے تھے۔ ہاتھی کو سونڈ ہلانے میں کوئی دقت بھی نہیں ہوتی تھی۔ آنکھوں کے لیے چھ چھ انچ کے دو سوراخ بنے ہوئے تھے۔
اچھا تربیت یافتہ ہاتھی جلد ہی اس کا عادی ہو جائے گا اور اس کے اعتماد اور بہادری میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔
بے پناہ طاقت کے باوجود ہاتھی بہت نازک جانور ہے اور کئی طرح کی بیماریوں اور مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔ گلے کی سوج عام پائی جاتی ہے اور ہاتھی خوراک کھانے کے قابل نہیں رہتا۔ ایک اور مرض میں ٹانگیں سوج کر بہت تکلیف کا سبب بنتی ہیں اور چھونا ممکن نہیں رہتا۔ یہ بیماری عموماً تب ہوتی ہے جب سارا دن گرمی میں چلنے کے بعد ہاتھی کو ٹھنڈے پانی کے تالاب میں گھس کر آبی پودوں سے پیٹ بھرنے دیا جائے۔
ہاتھی سے زیادہ شاید ہی کوئی اور جانور دھوپ سے پریشان ہوتا ہو۔ ہاتھی ہمیشہ تاریک ترین مقامات پر رہنا پسند کرتا ہے۔ گہرے رنگ اور بڑی جسامت کی وجہ سے ہاتھی کا جسم سورج کی زیادہ سے زیادہ حرارت جذب کرتا ہے اور جب ہندوستان میں ہاتھی سامان اٹھا کر دھوپ میں چلے تو آپ اس کی تکلیف کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ صرف مہاوت کے وزن کے ساتھ صبح نو بجے کے بعد چلتے ہوئے ہاتھی کو تکلیف ہونے لگتی ہے۔ چلتے ہوئے ہاتھی سونڈ کو اپنے حلق میں ڈال کر معدے سے پانی نکالتا ہے اور اپنے اگلی ٹانگوں اور پہلوؤں پر بوچھاڑ کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ سواروں کو بھی یہ پانی سہنا پڑتا ہے۔ ہاتھی یہ کام ہر پانچ منٹ بعد کرتا رہتا ہے۔
ہاتھی کی یہ عجیب بات ہے کہ اس طرح معدے سے وہ پانی نکال سکتا ہے اور اس پانی میں کوئی بو بھی نہیں ہوتی۔ دیگر جانوروں کے برعکس ہاتھی کے جسم سے کوئی بو نہیں آتی۔ اس کی کھال کو چھوئیں تو ہاتھ میں کوئی بو نہیں آتی چاہے سونڈ کو چھوئیں یا کسی اور مقام کو۔ گھوڑوں کی بو بہت زیادہ ہوتی ہے اور اصطبل کے قریب رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میں نے بہت مرتبہ ایسی جگہ خیمے میں رات گزاری ہے جہاں پچاس یا ساٹھ یا سو گز دور کئی ہاتھی کئی روز تک بندھے رہے تھے مگر کوئی بو نہیں آئی۔
ہاتھی کی غذا ہمیشہ تازہ اور صاف ہوتی ہے اور انہضام کا عمل بھی تیز۔ اس کا ایک معدہ ہوتا ہے اور مختصر سی آنت، سو جلد ہضم کر لیتا ہے۔ تاہم اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہاتھی کو زیادہ مقدار میں مسلسل کھاتے رہنا پڑتا ہے۔ ایک ہاتھی کو کم از کم ۶۰۰ پاؤنڈ روز کا چارہ درکار ہوتا ہے۔
ہاتھی کی خوراک کے بارے اکثر بحث ہوتی رہتی ہے۔ آسام کے کھیڈا محکمے کے سپرنٹنڈنٹ مسٹر جی پی سینڈرسن کی رائے اس بارے حرفِ آخر ہے کہ ہاتھیوں کے چارے کے علاوہ انہیں غلہ بھی دینا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ یہ چارے پر منحصر ہے کہ ہاتھی کو اور کیا چاہیے۔ جہاں کیلے بکثرت ہوں وہاں اس کے تنے ہاتھی شوق سے کھاتے ہیں۔ تاہم اگر یہ ہاتھی کے سامنے ایسے ہی ڈال دیے جائیں تو کافی حد تک ضائع ہو سکتے ہیں۔ ہاتھی چھال کی تہیں اتار کر پھینکتا جاتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جہاں چاول ساتھ دینے مقصود ہوں وہاں کیلے کے تنے کو درمیان سے چیر کر دو دو فٹ لمبے ٹکڑے بنا لینے چاہیئں۔ ہر ٹکڑے کے دونوں سروں کو ملایا جائے تو کھوکھلی نالی سی بن جاتی ہے۔ اس میں مٹھی بھر چاول ڈال کر کیلے کی چھال سے باندھ دینا چاہیے۔ اس طرح کے پیکٹ ہر ہاتھی کے لیے تیار کرنا بہتر ہے۔ جب یہ تیار ہو جائیں تو مہاوت ایک ایک کر کے ہاتھی کو یہ پیکٹ دیتا جائے گا۔
ہاتھی اپنی خوراک کے بارے بہت حساس ہوتا ہے اور اگر کوئی چیز ذرا سی بھی ناپسند ہو تو فوراً اسے رد کر دیتا ہے۔ ایک بار میں نے ایک ہاتھی دیکھا جو برہم پترا میں ڈھابری کی پولیس کے پاس تھا۔ اسے کافی مقدار میں چاول ملتے تھے جو تین چوتھائی پاؤنڈ جتنی مقدار میں مندرجہ بالا پیکٹ کی شکل میں دیے جاتے تھے۔ ایک خاتون نے اس ہاتھی کو ایک میٹھا بسکٹ کھانے کو دیا جو بمشکل ایک انچ لمبا اور نصف انچ چوڑا تھا۔ ہاتھی نے اسے سونڈ میں لیتے ہی پھینک دیا۔ مہاوت نے اس خاتون کو شرمندگی سے بچانے کے لیے بسکٹ اٹھایا اور چاول کے اگلے پیکٹ میں ڈال کر ہاتھی کے منہ میں رکھ دیا۔ پہلی بار چباتے ہی ہاتھی نے ناگواری کا اظہار کیا اور نوالے کو باہر اگل دیا۔ سارا نوالہ ریزہ ریزہ ہو چکا تھا جو ظاہر کرتا تھا کہ ہاتھی کو بسکٹ کتنا ناگوار گزرا تھا۔ اس کے بعد ہاتھی نے اپنی سونڈ کی مدد سے پورے منہ سے چاول کا ایک ایک دانہ صاف کیا جس پر کئی منٹ لگ گئے۔
ہاتھی اپنی سونڈ سے کئی کام لے سکتا ہے۔ ایک بار میرے پاس ایک ہاتھی تھا جسے بانس کی کھپچیوں سے بنی ٹوکری میں چاول ڈال کر دیے جاتے تھے۔ ہاتھی اس میں سے دانہ دانہ چن کر کھا جاتا تھا اور ٹوکری بالکل خالی ہو جاتی تھی۔
ہاتھیوں کی خوراک کا لگا بندھا اصول بنانا ممکن نہیں کہ ہر علاقے اور ہر کام کی ضروریات الگ ہوتی ہیں۔ اگر ہاتھی کو جنگل میں چرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا جائے تو وہ بانس، برگد، پیپل اور انجیر کی نسل کے درختوں سے پیٹ بھرتا رہے گا۔ تاہم اگر ہاتھی نے سفر کرنا ہو اور کام بھی، تو کمشنریٹ کی طرف سے ہر ہاتھی کو ۱۵ پاؤنڈ آٹا ہر روز اضافی دیا جاتا ہے اور ۶۰۰ پاؤنڈ سبز چارہ الگ سے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک پاؤنڈ دیسی گھی میں نمک اور گڑ ملا کر دیا جاتا ہے۔ میں جنگل میں کام کے دوران ہر ہاتھی کا راشن دوگنا کر کے ۳۰ پاؤنڈ آٹا کر دیتا ہوں۔ یہ آٹا دو دو پاؤنڈ وزنی روٹیوں کی شکل میں کھلایا جاتا ہے۔
ہاتھیوں کو سورج غروب ہونے سے ایک گھنٹہ قبل چارہ دیا جاتا ہے اور اندھیرا چھانے سے قبل پانی پلانے لے جاتے ہیں۔ ہاتھی کی تندرستی کے لیے صفائی انتہائی اہم ہے۔ ہاتھی کو روز نہانا چاہیے اور پورے جسم کو اینٹ یا نرم پتھر سے رگڑ کر صاف کرنا چاہیے۔ ہاتھی اسے اتنا پسند کرتا ہے کہ اپنے بھاری بھرکم جثے کے باوجود مطلوبہ انداز سے لیٹ کر حکم مانتا ہے۔ ہاتھی کا سر اکثر پانی کی سطح کے نیچے ہوتا ہے اور سونڈ باہر نکال کر سانس لیتا رہتا ہے۔ پورے جسم کی صفائی کے بعد ہاتھی تالاب میں گھس کر اپنے بدن پر پانی بہاتا ہے۔ نہانے کے بعد ہاتھی کا رنگ کالا سیاہ نکل آتا ہے مگر چند منٹ بعد ہاتھی اپنے بھیگے بدن پر باریک مٹی پھینکتا ہے جو چپک جاتی ہے اور ہاتھی کا رنگ مٹی جیسا ہو جاتا ہے۔
ہاتھی سے زیادہ کوئی چوپایہ پانی میں اتنا خوش نہیں ہوتا جتنا خشکی پر۔ آزاد حالت میں ہاتھی بہت چوڑے دریا بھی عبور کر لیتا ہے اور دلدلی علاقوں میں جنگلی بھینسے یا سور کی طرح گھسا اور لوٹنیاں مارتا رہتا ہے۔ اس طرح اس پر مٹی اور کیچڑ کی موٹی تہہ چڑھ جاتی ہے اور مچھروں اور مکھیوں سے چھٹکارہ مل جاتا ہے۔ پالتو حالت میں ہاتھی زمین کی سختی جانچنے یا دلدل کو پہچاننے کے قابل نہیں رہتا اور کسی پُل سے گزرنے سے قبل سونڈ مار کر اور ایک قدم رکھ کر اس کی مضبوطی جانچتا ہے۔
ہاتھی کی تیراکی کی صلاحیت کے بارے درست اندازہ لگانا تو ممکن نہیں کہ اس کا انحصار کئی باتوں پر ہوتا ہے جیسا کہ پانی ٹھہرا ہوا ہے یا بہہ رہا ہے، مگر ہاتھی بغیر تھکے کئی گھنٹے تک سطح پر رہ سکتا ہے۔ ہاتھی کا جسم کچھ ایسا ہوتا ہے کہ وہ ڈوب نہیں سکتا۔ پانی میں موجود ہاتھی کو گولی ماری جائے تو مرتے ہی اس کی لاش تیرنا شروع کر دے گی۔ ہاتھی کا ایک پہلو پانی سے اوپر نکل آئے گا اور کئی افراد کا وزن سہار سکے گا۔ دریائی گھوڑے کو گولی لگے تو وہ پتھر کی مانند ڈوب جائے گا اور جب جسم میں گیسیں جمع ہو جائیں گی تو دو گھنٹے بعد ابھرے گا۔ سو ہاتھی کی نسبت دریائی گھوڑے کا جسم زیادہ بھاری ہوتا ہے حالانکہ وہ پانی میں رہنے والا جانور ہے۔
مہاوت جب پالتو ہاتھیوں پر سوار ہو کر دریا عبور کرتے ہیں تو وہ ہاتھی کی کمر پر کھڑے ہو کر ہاتھی کی گردن سے بندھی رسی کی مدد سے توازن برقرار رکھتے ہیں۔ عام انسان اگر ہاتھیوں کے جھنڈ کو دریا عبور کرتے دیکھے تو یہی سمجھے گا کہ ہاتھی ڈوب رہے ہیں حالانکہ وہ محض کلیلیں کرتے جا رہے ہوتے ہیں۔ ایک بار میں نے چالیس ہاتھیوں کو دریائے برہم پترا عبور کرتے دیکھا جب دریا کا پاٹ ایک میل سے بھی زیادہ تھا۔ پہلے ہاتھی نے ۳۵ فٹ اونچے کنارے کو اپنے پیروں سے دھکیلا تو مٹی نیچے گری اور ڈھلوان بن گئی۔ پھر پچھلے پیروں پر بیٹھ کر ہاتھی پھسلتا ہوا نیچے اترا جبکہ اگلی ٹانگوں اور سونڈ کی مدد سے توازن برقرار رکھتا رہا۔ جب وہ نیچے اترا تو کافی ساری مٹی بھی ساتھ پہنچی اور دوسرے ہاتھیوں کے لیے اچھا خاصا راستہ بن گیا۔ چند ہی منٹ میں ہاتھیوں کے جھنڈ نے باقاعدہ راستہ بنا دیا۔
میں نے بہت مرتبہ ایسی جگہیں دیکھی ہیں جہاں سے ہاتھی اس طرح راستہ بنا کر گزرے تھے اور بظاہر وہاں سے ہاتھی کا گزرنا ممکن نہ دکھائی دیتا تھا۔ دریا میں پہنچتے ہی ہاتھیوں کی مستیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ سارا دن گرمی میں کام کرنے کے بعد برہم پترا کے ٹھنڈے اور گہرے پانی میں پہنچ کر ہاتھی پانی میں گم ہو جاتے ہیں اور ان کے مہاوت ان کی پشت پر سوار ایسے دکھائی دیتے ہیں کہ جیسے پانی کی سطح پر چل رہے ہوں۔ ہاتھی کی سونڈ ہمیشہ پانی سے باہر رہتی ہے اور کبھی کبھار پورا سر بھی نکل آتا ہے۔ دریا عبور کرتے ہوئے ہاتھیوں کی رفتار کافی تیز ہوتی ہے اور دریا عبور کرنے پر وقت بھی نہیں لگتا اور ہاتھی اس سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں۔
پہلی بار جب آپ مہاوت کو ہاتھی پر آنکس استعمال کرتے دیکھتے ہیں تو ہاتھی پر ترس آتا ہے۔ یہ بیس انچ لمبا اور قدیم لنگر کی مانند دکھائی دیتا ہے۔ اس کے سرے پر تیز ہُک لگا ہوا ہوتا ہے۔ ہاتھی کو آگے بڑھانے کے لیے مہاوت یہ اس کے سر میں گاڑتا ہے اور رکنے کے لیے کانوں کے پیچھے نرم جگہ پر چبھوتا ہے۔ آنکس کا وزن ۴ سے ۶ پاؤنڈ ہوتا ہے اور کافی خطرناک دکھائی دیتا ہے۔ بعض آنکس دو یا تین سو سال پرانے اور بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ اگرچہ پہلے تو ہاتھی پر ترس آتا ہے مگر جلد ہی انکشاف ہوتا ہے کہ آنکس کے بغیر ہاتھی کو قابو نہیں رکھا جا سکتا۔ آنکس ایک ایسی طاقت ہے کہ جس کے بغیر ہاتھی کو محض پیار محبت سے قابو نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ جب تک سزا کا خوف نہ ہو، ہاتھی کسی قیمت پر انسان کی خدمت کو تیار نہیں ہوتا۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ چھوٹے بچے کے ہاتھ میں چھڑی دیکھ کر بھی ہاتھی ڈر جاتا ہے۔ اگر بچہ ہاتھی کی سونڈ اور منہ پر چھڑی مارے تو ہاتھی انتہائی خوف سے اپنی سونڈ اگلی ٹانگوں کے بیچ دبا لیتا ہے۔ مادہ کی نسبت نر زیادہ ناقابلِ اعتبار ہوتا ہے۔ بظاہر شکار کی نیت سے انسان سوچتا ہے کہ نر ہاتھی اپنی طاقت اور ہمت کی وجہ سے زیادہ بہتر سواری ثابت ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ دو بڑے بیرونی دانت حفاظت کا اچھا سبب بن سکتے ہیں تاہم اس کے باوجود مادہ کو زیادہ فرمانبردار ہونے کی وجہ سے ترجیح دی جاتی ہے۔
نر ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور مستی کی حالت میں انتہائی ناقابلِ اعتبار ہو جاتے ہیں۔ یہ کیفیت ہر سال دو سے چار ماہ تک جاری رہتی ہے۔ اس کیفیت میں ہاتھی کو خصوصی توجہ درکار ہوتی ہے اور اگلی ٹانگوں میں مضبوط بیڑیاں لازمی ہو جاتی ہیں۔ کچھ ہاتھی سارا سال ایک جیسے رہتے ہیں تو کچھ مست کی حالت میں جیسے دیوانے ہو گئے ہوں اور اپنے مہاوت کو مار ڈالنے اور گڑبڑ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ تاہم ایسی کسی حالت میں ذمہ داری مہاوت کی ہوتی ہے کیونکہ اگر ہاتھی کا مناسب خیال رکھا جائے اور بروقت مناسب بیڑیاں اور زنجیریں ڈال کر رکھی جائیں تو ہاتھی نقصان پہنچانے کے قابل نہیں رہ جاتا۔
بہت مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ مہاوت غفلت کی وجہ سے ہاتھی پر زنجیریں نہیں ڈالتا یا پھر پرانی اور مرمت طلب زنجیریں استعمال کرتا ہے جس کی وجہ سے ہاتھی فرار ہو کر تباہی پھیلاتا ہے اور سب سے پہلے مہاوت ہی مارا جاتا ہے کہ وہی اسے دوبارہ پکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔
مست کیفیت کی آمد کے ساتھ ہی ہاتھی کی کنپٹیوں پر بنے سوراخوں سے چکنا اور بدبودار مواد بہنا شروع ہو جاتا ہے جو کولتار جیسا دکھائی دیتا ہے۔ سوراخ کے گرد تقریباً چار انچ جتنا حصہ گیلا دکھائی دیتا ہے اور اس کی بو اونٹ کی گردن سے نکلنے والی بو سے مماثل ہوتی ہے۔
میں نے کئی نر ایسے بھی دیکھے ہیں جو کبھی مسئلہ نہیں پیدا کرتے، مگر مست کی حالت میں ان پر خاص توجہ دی جاتی تھی کہ ان کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ کئی نر ہمیشہ مسئلہ بنے رہتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح نقصان کا سبب بنتے ہیں۔ اگر انہیں زنجیروں میں بھی جکڑ دیا جائے تو بھی وہ پیر سے مٹی اڑاتے رہتے ہیں اور کبھی خاموش نہیں ہوتے اور سر ہلاتے رہتے ہیں۔ ان کی ہر حرکت سے بے چینی ظاہر ہوتی ہے اور اجنبی افراد بھی فوراً خطرہ بھانپ لیتے ہیں۔ ایسے ہاتھیوں کے قریب جاتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے اور ہمیشہ پہلو سے قریب جانا چاہیے، سامنے سے کسی بھی قیمت پر نہیں۔
ہاتھی اکثر دھوکا دیتا ہے اور اگر اس کے قریب غیر محتاط ہو کر کھڑے ہوں تو اچانک اس کی سونڈ ٹکرا سکتی ہے۔ اسی طرح ہاتھی کے عین پیچھے کھڑا ہونے سے گریز کرنا چاہیے کہ ہاتھی دولتی بھی چلاتے ہیں۔ اتنا بڑا جانور اتنی سہولت سے دولتی چلاتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔
ہاتھی کی رفتار کے بارے کافی بحث ہوتی رہی ہے اور یقین سے کچھ کہنا ممکن نہیں کہ پالتو اور آزاد ہاتھی کی رفتار میں کافی فرق ہوگا۔ ایشیائی ہاتھی کی نسبت افریقی ہاتھی زیادہ تیز رفتار ہوتا ہے کہ افریقی ہاتھی کی ٹانگیں لمبی اور قدم بھی اسی حساب سے بڑا ہوتا ہے۔ افریقی ہاتھی زیادہ طویل سفر کا عادی ہوتا ہے جبکہ ایشیائی ہاتھی گنے چنے جنگلاتی قطعوں تک محدود رہتا ہے۔ زیادہ سفر کی وجہ سے افریقی ہاتھی زیادہ چست و چوبند ہوتا ہے۔ میرے خیال میں افریقی ہاتھی کی رفتار ابتدائی دو سے تین سو گز پر پندرہ میل فی گھنٹہ تک ہو سکتی ہے جس کے بعد کم ہو کر دس میل فی گھنٹہ پر آ جاتی ہے اور ایک گھنٹے میں اتنا فاصلہ طے بھی کر لیتا ہے۔ ایشیائی ہاتھی پندرہ میل فی گھنٹہ دو تین سو گز تک تو دوڑ لیتا ہے مگر اس کے بعد اس کی رفتار بمشکل آٹھ میل فی گھنٹہ رہ جاتی ہے۔ پانچ میل کے بعد یہ رفتار مزید کم ہو کر چھ میل تک پہنچ جاتی ہے۔
ہاتھی کی اتنی تیز رفتاری کا تجربہ محض اس وقت ہو سکتا ہے جب ہاتھی غصے سے پاگل ہو کر کسی انسان کا پیچھا کرے۔ ایسا بدقسمت انسان بمشکل ہی دوڑ کر اپنی جان بچا سکتا ہے۔ پہلے پچاس یا سو گز تک ہاتھی کی رفتار پندرہ میل فی گھنٹہ سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ غیر ہموار زمین پر گھوڑے پر سوار ہو کر بھی انسان بمشکل ہاتھی سے بچ سکتا ہے۔ میں جوانی میں بالکل ہموار میدان میں ہاتھی سے مرتے مرتے بچا۔ ہموار میدان میں اچھا صحت مند انسان اٹھارہ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے جو اسے ہاتھی سے بچانے کے لیے کافی ہے۔ تاہم بدقسمتی سے ہموار زمین کم ہی ملتی ہے کہ ہاتھی عموماً ایسی جگہوں پر ملتے ہیں جو ہاتھیوں کے لیے فائدہ مند ہوں اور وہاں جھاڑ جھنکار اور کٹی پھٹی زمین پر بھاگتے ہوئے انسان متواتر ٹھوکریں کھاتا رہتا ہے۔
سومالی لینڈ میں حال ہی میں مرحوم انگرم گھوڑے پر سوار تھا مگر ہاتھی نے پکڑ کر ہلاک کر دیا تھا۔ انگرام ہتھنی کے پیچھے تھا اور اس پر .۴۵۰ بور کی رائفل سے گولیاں چلا رہا تھا۔ ہتھنی نے حملہ کیا اور خاردار جھاڑیوں کی وجہ سے گھوڑا تیز نہ بھاگ سکا اور ہتھنی نے اسے گرا کر دانتوں سے ہلاک کر دیا۔
افریقی اور ایشیائی ہاتھیوں میں ہاتھی دانت بھی فرق ہوتے ہیں۔ افریقی ہاتھی کے دانت بڑے اور بھاری ہوتے ہیں اور مادہ کے بھی دانت ہوتے ہیں جبکہ ایشیائی ہاتھی میں ہتھنی کے دانت دو یا تین انچ سے زیادہ باہر نہیں نکلتے۔ ایک بار میرے پاس ۱۴۹ پاؤنڈ وزنی ہاتھی دانت تھا۔ خرطوم میں ایک بار دانتوں کا جوڑا دیکھا جو ۳۰۰ پاؤنڈ وزنی تھا۔ ایک بار ایک دانت ۱۷۲ پاؤنڈ وزنی بھی دیکھا۔ ۱۸۷۴ میں لندن میں ایک ہاتھی دانت ۱۸۸ پاؤنڈ وزنی بھی نیلام ہوا تھا۔ تاہم یہ ہاتھی دانت استثنائی صورت رکھتے ہیں۔ عام افریقی ہاتھی دانت کا جوڑا ۱۴۰ پاؤنڈ اور ایک دانت ۷۵ پاؤنڈ جبکہ دوسرا ۶۵ پاؤنڈ کا اوسط وزن رکھتا ہے۔ کم وزن والا دانت وہی ہوتا ہے جو کھدائی کے لیے زیادہ استعمال ہو۔
ہاتھی کھدائی کا بہت شائق ہوتا ہے اور بہت سی اقسام کے درختوں کی جڑیں کھود کر کھاتا ہے۔ عموماً دائیں دانت زیادہ استعمال ہوتا ہے اور مسلسل استعمال ہی کی وجہ سے نسبتاً پتلا اور ہلکا ہوتا ہے۔ عرب اسے ‘خادم‘ دانت کہتے ہیں۔ چونکہ افریقی ہاتھی زیادہ مقدار میں جڑیں کھاتا ہے، سو ایشیائی ہاتھی کی نسبت زیادہ تباہی پھیلاتا ہے۔ ہاتھیوں کے جھنڈ کے گزرنے پر اکھڑے ہوئے درختوں کی تعداد دیکھ کر حیرت ہوتی ہے اور مموسا کے بہت بڑے درخت جو ایک ہاتھی کے بس کا روگ نہ ہوں، وہاں پورا جھنڈ مل کر ان کی جڑیں کھودتا اور ان درختوں کو گراتا ہے۔ میں نے دو سے تین فٹ موٹے تنے والے درخت اکھڑے دیکھے ہیں جو ہاتھی رسیلی جڑوں اور پتوں کی وجہ سے اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ ایسے درختوں کی جڑوں کو کھودنے کے لیے مختلف جسامت کے ہاتھی دانت کے سوراخ ہوتے ہیں اور آس پاس چھوٹے بڑے ہر قسم کے ہاتھیوں کے پگ دکھائی دیتے ہیں۔
ایک بار میں نے ایک بڑے درخت سے ہاتھی کو سر ٹکراتے دیکھا جو درخت کو جھنجھوڑ کر پھل گرا رہا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہاتھی بوقتِ ضرورت کتنی قوت صرف کر سکتا ہے۔ اُس وقت ہم دریائے نیل کے پاس ایک جگہ چھپ کر آبی اینٹلوپ کا انتظار کر رہے تھے اور سورج غروب ہونے میں نصف گھنٹہ باقی تھا کہ ہمیں جنگل سے زور کی چنگھاڑ اور شور کی آواز آئی اور پھر جیسے ایک شاخ ٹوٹی ہو۔ ہمیں پتہ چل گیا کہ ہاتھی آ رہے ہیں۔
پھر کئی سمتوں سے ہاتھی نمودار ہوئے اور ان میں سے ایک ہاتھی تو اتنا بڑا تھا کہ میں نے اس سے بڑا ہاتھی آج تک نہیں دیکھا۔ یہ ہاتھی ہمارے مقام سے ۱۲۰ گز تک پہنچ گئے مگر ہم دریا کے کنارے اونچی زمین پر جھاڑی کے پیچھے بیٹھے تھے، سو ہاتھی ہمیں نہ دیکھ پائے۔ اس بڑے ہاتھی کے دانت انتہائی بڑے تھے مگر ہمارے پاس چھوٹے بور کی رائفلیں تھیں، سو ہم صبر سے بیٹھے رہے۔
اُس جگہ ایک بہت بڑا اور بھاری درخت تھا جس کا تنا تین فٹ چوڑا تھا اور اس کی بالائی شاخوں پر بڑی کھجور جیسا پھل لگا ہوا تھا۔ یہ پھل خوشبودار اور رسیلے ہونے کی وجہ سے ہاتھیوں کو بہت پسند ہیں اور دور دور سے ہاتھی اس پھل کے پکنے کے وقت پہنچ جاتے ہیں۔ اِس وقت ہاتھی نے نیچے گرے کچھ پھل کھائے اور پھر سر اٹھا کر باقی پھلوں کا جائزہ لیا اور پھر درخت کو ہلانے کا فیصلہ کیا۔ چند فٹ پیچھے ہٹ کر اس نے پھر اپنے سر سے درخت کو ٹکر ماری۔ ٹکر اتنی زور کی تھی کہ سارا درخت نیچے سے اوپر تک لرز گیا اور بارش کی طرح پھل نیچے گرے اور ہاتھی نے فوراً انہیں کھانا شروع کر دیا۔ میرے ساتھ اُس روز کمانڈر بیکر تھا اور ہمارا یہی خیال تھا کہ اگر اس درخت پر کوئی انسان چڑھا ہوا ہوتا تو اس ٹکر کی شدت سے بچنے کے لیے اسے بہت زور سے درخت کو پکڑنا پڑتا۔
اگر ایک ہاتھی کا وزن چھ سے سات ٹن ہو اور جب وہ حرکت کر رہا ہو تو اس کا وزن کئی گنا زیادہ ہو جاتا ہے جو بڑے درخت کے مجموعی وزن سے زیادہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے ٹکر اتنی زوردار لگتی ہے۔
ہاتھی کی یاداشت بہت اچھی ہوتی ہے اور مختلف مقامات پر مختلف موسموں میں پائے جانے والے پھلوں کو یاد رکھتے ہیں۔ سائیلون کے جنوبی اضلاع میں بہت بڑی تعداد میں ایک خاص درخت پایا جاتا ہے جس کا پھل کرکٹ کی بڑی گیند کے برابر ہوتا ہے۔ اس کا خول سخت ہوتا ہے اور جب یہ پک جائے تو بھورا ہو جاتا ہے اور کسی سخت چیز سے ضرب لگا کر توڑا جا سکتا ہے۔ پھل کا بھورے رنگ کا گودا بہت خوشبودار اور بہت میٹھا ہوتا ہے۔ اندر موجود بیج ناشپاتی کے بیجوں جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ جب تک یہ پھل پورا نہ پک جائے، ہاتھی اسے کھانے سے گریز کرتے ہیں۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ بغیر کسی کیلنڈر کے ہاتھیوں کو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ پھل اب پکنے والا ہے اور بہت بڑی تعداد میں ہاتھی اس جگہ پہنچ جاتے ہیں۔
ہاتھی کو بخوبی یاد رہتا ہے کہ کون سا شخص اس کے ساتھ محبت سے پیش آیا اور کس نے برا سلوک کیا، چاہے برا سلوک کرنے والا خود بھول جائے۔ ایک بار میں سات ماہ انگلستان میں گزار کر واپس آیا تو کمشنریٹ کی طرف سے دیا ہوا ہاتھی مجھے دیکھتے ہی فوراً پہچان گیا۔ میں کئی ماہ تک ہر روز اس ہاتھی کو اپنے ہاتھ سے گنے اور دیگر مزے کی چیزیں کھلاتا رہا تھا۔ ہاتھی نے اس بات کو یاد رکھا۔
اسی طرح ہاتھی بڑی حد تک ایسے افراد کو بھی یاد رکھتا ہے جو اسے ناپسند ہوں۔ مست کی حالت میں ایسے افراد اگر ہاتھی کی سونڈ کے قریب پہنچیں تو ان کے لیے بہت خطرہ ہوتا ہے۔ مہاوت یا دیگر افراد جو ہاتھیوں کی دیکھ بھال کا کام کرتے ہیں، جب وہ ہاتھیوں کے ساتھ برا سلوک کریں تو ہاتھیوں کے بدلہ لینے کی داستانیں مشہور ہیں۔ تاہم بہت مرتبہ بالکل انجان افراد کے ساتھ بھی ہاتھی کافی برا سلوک کرتے ہیں۔ شاید جیسے بعض انسان نشے کی حالت میں اپنی سدھ بدھ کھو بیٹھتے ہیں، ویسے ہی مست حالت میں کچھ ہاتھی دوسروں کی نسبت زیادہ پرتشدد ہو جاتے ہوں گے۔
وسطی صوبجات میں کئی سال قبل بالاگھاٹ کے ضلع میں ایک ہاتھی اپنے رویے کی وجہ سے کافی مشہور ہوا تھا۔ زنجیروں کو توڑ کر یہ ہاتھی مہاوت کو ہلاک کرنے کے بعد سیدھا جنگلوں میں گھس گیا۔ عجیب بات ہے کہ سدھائے جانے کے باوجود ہاتھیوں کو جب بھی پناہ درکار ہو تو سیدھا جنگل کا رخ کرتے ہیں۔ اگر کھلے میدان میں ہاتھی ہیجان کا شکار ہو تو سیدھا قریب ترین جنگل کا رخ کرتا ہے تاکہ وہاں چھپ سکے۔ مندرجہ بالا ہاتھی بھی اسی طرح فرار ہوا مگر برسوں کی انسانی رفاقت کے باعث اس میں چالاکی کا عنصر پیدا ہو گیا۔ یہ ہاتھی آس پاس کے علاقے کے لیے خطرہ بن گیا۔ پورا ایک سو میل لمبا اور چالیس یا پچاس میل چوڑا علاقہ ہاتھی کے خوف میں ڈوب گیا۔
اس کے حملوں سے علاقے کا کوئی بھی دیہات نہ بچ سکا۔ طویل فاصلے طے کر کے اور غیرمتوقع طور پر کسی دیہات میں نمودار ہوتا تو دیہاتی خوفزدہ ہو کر اپنی جان بچانے کو بھاگ کھڑے ہوتے۔ ہاتھی ان کے غلے کے گوداموں اور گھروں کو تباہ کرتا اور اگر کوئی انسان ہتھے چڑھتا تو اسے بھی چیر ڈالتا۔
اس ہاتھی کو انسانی جانوں سے کھیلنے کا چسکا پڑ گیا تھا۔ نہ صرف وہ پیٹ بھرنے کے لیے دیہاتوں پر حملے کرتا بلکہ کھیتوں میں چوکیداروں کی کمین گاہوں کو بھی تباہ کرتا جہاں بیٹھ کر دیہاتی اپنی جنگلی جانوروں سے اپنی فصلیں رات کو بچانے بیٹھتے۔ یہ کمین گاہیں عموماً زمین سے سولہ فٹ کی بلندی پر چار مضبوط بلیوں پر تختہ لگا کر بنائے جاتے اور اس پر چھت ڈال دی جاتی تھی۔ چھت سے شبنم اور بارش سے بچاؤ ہو جاتا۔ ایسی اونچی جگہوں پر بیٹھ کر ساری رات دیہاتی شور مچاتے ہوئے اپنی فصلوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے۔
ایسی کمین گاہوں کو ہاتھی خوشی خوشی تباہ کرتا تھا اور کبھی دیہاتیوں کے شور کو خاطر میں نہ لاتا تھا۔ الٹا وہ ان دیہاتیوں کے شور کو سن کر اندھیرے میں ان کے سر پر جا پہنچتا۔ یہ بلیاں جتنی مضبوط سہی، ہاتھی کا مقابلہ نہ کر سکتی تھیں اور دیہاتی حملے کے ساتھ ہی اڑتے ہوئے نیچے جا گرتے۔ پھر ہاتھی انہیں یا تو موقع پر کچل دیتا یا پھر ان کا تعاقب کر کے سونڈ سے ان کے ہاتھ پیر نوچ کر الگ کر ڈالتا۔ اس طرح اس ہاتھی نے ضلع بھر میں کم از کم ۲۰ افراد ہلاک کیے اور اس ہاتھی کی ہلاکت ضروری ہو گئی۔
آخرکار یہ کام کرنل بلوم فیلڈ اور اس کے ایک دوست نے کیا جنہوں نے اس جان لیوا اور مہلک کام کو پورا کرنے کے لیے خطرہ مول لیا۔ یہ لوگ مقامی افراد کی اطلاع پر جاتے رہے۔ تاہم یہ ہاتھی بہت مکار تھا اور حملہ کرتے ہی بہت دور کسی جنگل میں چھپ جاتا اور اگلے حملے کے لیے وہاں سے باہر نکلتا۔ کرنل بلوم فیلڈ نے مجھے اس بارے بتایا کہ اس نے کتنے دنوں تک تھکن کا مقابلہ کرتے ہوئے صبر سے ہاتھی کا پیچھا جاری رکھا۔ دونوں شکاری مقامی کھوجیوں کی مدد سے آخرکار ہاتھی تک پہنچ گئے جو گھنی گھاس اور خاردار جھاڑیوں کے قطعے میں سو رہا تھا۔ تاہم ہاتھی نے انہیں آتا بھانپ لیا اور بیدار ہو کر فرار ہو گیا۔ تاہم انہوں نے پیچھا جاری رکھا اور جہاں کہیں موقع ملتا، ہاتھی کے جسم میں گولی اتار دیتے۔ آخرکار ایک صاف قطعے میں پہنچ کر تکلیف اور غصے کے مارے ہاتھی نے ان کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا۔ دونوں شکاری بہترین رائفلوں سے مسلح تھے اور ہاتھی اب تک نہتے دیہاتیوں کی جان سے کھیلتا رہا تھا۔ جونہی ہاتھی حملہ کرنے کے لیے مڑا تو دونوں ماہر شکاریوں نے اس کے بھیجے میں گولیاں اتار دیں۔ کرنل بلوم فیلڈ کی گولی ہاتھی کے سر کے پار ہو گئی تھی۔
یہ کہنا تو ممکن نہیں کہ اگر یہ ہاتھی پکڑ کر دوبارہ سدھایا جاتا تو کیا وہ پھر سے پہلے جیسا ہو جاتا۔ تاہم مست ہاتھیوں کے کئی قصے مشہور ہیں جہاں انہوں نے مہاوت اور کئی دیگر افراد کو ہلاک کر دیا تھا مگر بعد میں جب پکڑے گئے تو پھر پہلے کی طرح شریف النفس بن گئے۔ جی پی سینڈرسن آسام کے سرکاری کھیڈا محکمےکا سربراہ تھا، اس نے مجھے ایک ایسے ہی ہاتھی کا واقعہ سنایا ہے جو مست حالت میں اپنے مہاوت اور چند دوسرے دیہاتیوں کو ہلاک کر کے فرار ہو گیا تھا اور پورے علاقے میں دہشت پھیلا دی تھی۔ اس نے کئی دیہات تباہ کر دیے اور حکام نے اس کی ہلاکت پر انعام مشتہر کرا دیا۔
سینڈرسن کا خیال تھا کہ یہ ہاتھی بہت قیمتی ہے اور اس طرح اس کی ہلاکت مناسب نہیں۔ سو اس نے اس ہاتھی کو زندہ پکڑنے کا فیصلہ کیا اور اپنے ہمراہ کھیڈا کے تین بہترین تربیت یافتہ ہاتھی لیے۔ ضلعے بھر کی پولیس کو ہدایات کر دی گئیں کہ ہاتھی کی اطلاع ملتے ہی اسے پہنچائی جائے۔ جلد ہی اطلاع مل گئی کہ ہاتھی کہاں موجود ہے۔ ہاتھی ایک دیہات کو تباہ کر کے وہیں کچھ روز سے مقیم تھا اور چاول اور غلے سے پیٹ بھر رہا تھا۔
دو مادہ اور ایک نر ہاتھی کے ساتھ سینڈرسن نے فوراً اس مقام کا رخ کیا۔ نر ہاتھی کا نام موتا گوچی تھا اور بہت بہادر اور نڈر تھا۔ اس ہاتھی کو کھیڈا میں پکڑے جانے والے دوسرے مشکل ہاتھیوں کو پکڑنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ تمام تر ضروری رسیاں اور زنجیریں ساتھ تھیں اور یہ چھوٹا سا مگر تجربہ کار گروہ روانہ ہو گیا۔ سینڈرسن کے پاس ایک لمبا نیزہ تھا اور موتا گوچی کی پشت پر ہودے پر سوار تھا۔ ایک گھنٹے بعد یہ لوگ مطلوبہ دیہات جا پہنچے جہاں تباہی صاف دکھائی دے رہی تھی۔ یہ دیہات کھلے میدان میں تھا اور پون میل دور جنگل شروع ہوتا تھا جہاں یہ ہاتھی بے چین اِدھر اُدھر چلتا دکھائی دیا۔
ماداؤں کو پیچھے چھوڑ کر سینڈرسن اور موتا گوچی آگے بڑھے۔ جب یہ لوگ مفرور ہاتھی سے دو سو گز دور رہ گئے تو اس نے پہلی بار انہیں دیکھا۔ پہلے پہل تو ہاتھی انہیں اتنے قریب دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ اس دوران موتا گوچی نوے یا سو گز دور پہنچ گیا۔ پھر دونوں ہاتھیوں نے رک کر ایک دوسرے کا جائزہ لیا۔ جونہی مفرور ہاتھی چند قدم پیچھے ہٹا، موتا گوچی حملے کے لیے تیار ہو گیا۔ اگلے ہی لمحے دونوں ہاتھی ٹکرائے۔ ٹکراؤ اتنا شدید تھا کہ سینڈرسن کے ہاتھ سے نیزہ گر گیا۔ موتا گوچی بہت تجربہ کار ہاتھی تھا، سو اس نے پہلے اپنا سر جھکا لیا تھا جس سے اگرچہ مہاوت غیرمحفوظ ہو گیا تھا مگر اس طرح اس نے مخالف ہاتھی کو سونڈ کے نیچے گلے سے تھام لیا اور زور لگا کر اسے الٹا پھینک دیا۔ جونہی دوسرا ہاتھی نیچے گرا، موتا گوچی اس کے سر پر سوار ہو گیا۔
اسی دوران سینڈرسن نے اتر کر ہاتھی کے ایک پیر میں زنجیر ڈال دی اور اسی دوران اشارہ پا کر دونوں ہتھنیاں بھی پہنچ گئیں۔ چند لمحوں میں اس ہاتھی کو بیڑیاں ڈال دی گئیں اور وہ مکمل طور پر بے بس ہو گیا۔ پھر اس ہاتھی کو چلا کر چند میل دور اُس کیمپ لے جایا گیا جہاں سے وہ فرار ہوا تھا۔ دونوں ہتھنیاں اس کے پہلوؤں پر چل رہی تھیں اور جب بھی ہاتھی ذرا اڑیل پن دکھاتا تو پیچھے سے موتا گوچی ہاتھی دانت چبھو کر اسے آگے بڑھا دیتا۔
پھر مست حالت ختم ہوئی تو یہ ہاتھی پھر سے فرمانبردار بن گیا۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ مست حالت میں ہاتھی کیسے پاگل ہو جاتا ہے اور توجہ سے کیسے اسے پکڑ کر پھر سدھایا جا سکتا ہے۔
اس واقعے کے بعد موتا گوچی اور کھیڈا کے چالیس دوسرے ہاتھی سینڈرسن نے میرے حوالے کر دیے تاکہ میں ۲۵ روزہ شکاری دورے پر جا سکوں۔ ہماری منزل چُر یعنی دھبری کے جنوب میں دریائے برہم پترا میں بنے جزیرے تھے۔
ہندوستان میں شیر اور ہاتھی اس طرح ایک دوسرے سے منسلک ہیں کہ انہیں الگ کرنا ممکن نہیں۔ موتا گوچی اگرچہ بہت زیادہ دوستانہ ہاتھی نہ تھا مگر پھر بھی اسے اپنی جانب رکھنا اہم تھا۔ اس دوران سینڈرسن بیمار تھا اور میرا ساتھ دینے سے قاصر۔ اب اتنے سارے ہاتھیوں کی طویل قطار میں محض ایک ہی شکاری تھا۔ عام طور پر اتنی طویل قطار میں چار شکاری ہوتے ہیں۔ پہلے تو مجھے لگا کہ یہ دورہ بیکار جائے گا کہ نہ تو مجھے زبان آتی تھی اور نہ ہی ہاتھیوں یا مہاوتوں میں سے کسی سے واقفیت تھی۔ تاہم جلد ہی واضح ہو گیا کہ سینڈرسن کی سربراہی میں یہ لوگ انتھک محنت کے عادی ہیں اور افسران کے احکام اور ان کے طور طریقے سمجھنے کے قابل ہو چکے ہیں۔ جلد ہی ہم سب اچھے دوست بن گئے۔
میں نے ہاتھیوں کو قطار میں ان کی رفتار اور خوبیوں کے اعتبار سے رکھا۔ ہر روز ہر ہاتھی اپنے مخصوص مقام پر رہتا تھا اس طرح تمام ہاتھی اپنے دائیں بائیں والے ہاتھیوں کو پہچاننے لگے۔ درمیان میں سست رفتار ہاتھی تھے اور دونوں سروں پر سبک رفتار ہاتھی۔ دو انتہائی تیز ہاتھیوں اور ان کے ذہین مہاوتوں کو سکاؤٹ کے طور پر میں دونوں جانب چوتھائی میل آگے رکھتا تھا۔
میرے اپنے ہاتھی کے ایک جانب موتا گوچی تھا تو دوسری جانب ایک اور قابلِ اعتبار ہاتھی تھا۔ یہ دونوں ہمیشہ میرے ساتھ رہے اور اگر جنگلی گلاب کی جھاڑیوں سے شیر نہ نکلتا تو یہ تین ہاتھی اسے دھکے دے کر باہر نکال دیتے۔
یہ نظام بہت اچھا تھا اور چند روز کی مشق کے بعد ایسے لگتا تھا جیسے پیدل فوجیوں کی قطار چل رہی ہو۔ بسا اوقات میں اضافی ہاتھی بھی شامل کر لیتا کہ میرے پاس کل پچاس سے زیادہ ہاتھی تھے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ایک بار جب کوئی تیندوا یا شیر اپنی جگہ چھوڑتا تو ہم ہر قیمت پر اسے شکار کر لیتے۔ بعض اوقات کئی کئی گھنٹے لگ جاتے، مگر کوئی جانور بچ کر نہ جا سکا۔ ایک بار ہم ایک بڑے جزیرے برغ پر تھے جو کئی ہزار ایکڑ پر پھیلا ہوا تھا اور زیادہ تر مقامات پر گھاس اور جھول کے گھنے جھنڈ تھے۔ گرمی کے موسم میں شیر یہاں شوق سے پناہ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ دلدلی علاقوں پر بھی وسیع جنگل تھا جہاں بارہ سے چودہ فٹ اونچی گھاس اگی ہوئی تھی اور ہاتھی کے لیے بھی وہاں گھسنا مشکل تھا۔
حسبِ معمول میں طلوع آفتاب سے ذرا دیر بعد شکار پر نکل آیا تھا کہ ہمارے شکاریوں نے آن کر بتایا کہ گزشتہ رات ہمارا باندھا گیا کوئی بھی بیل نہیں مارا گیا ۔ سو ہم نے فیصلہ کیا کہ ہاتھیوں کو قطار کی شکل میں چلا کر اونچی گھاس میں شکار کے قابل جانور تلاش کیے جائیں۔ اسی طرح پھر ہم جھول کے جھنڈوں کو بھی دیکھتے۔
ہم سیدھی قطار میں آگے بڑھے اور ہماری قطار میں ۳۵ ہاتھی تھے۔ اس طرح ہم ایک میل آگے بڑھے کہ دیمک کی بمیٹھی پر کھڑے ایک مقامی بندے نے ہمیں اپنی طرف بلایا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو اس نے بتایا کہ گزشتہ روز شام کو شیر اس کی گائے کو ہلاک کر کے انتہائی گھنے جنگل میں لے گیا۔ پیچھا کرنے کی ہمت اس بندے کو نہ ہوئی۔ یہ اچھی خبر تھی سو ہم نے اس بندے کو ایک ہاتھی پر سوار کیا اور رہنما بنا کر روانہ ہو گئے۔
ہاتھی اسی طرح ایک قطار میں آگے بڑھتے رہے اور کبھی سور نکلتے یا پاڑے نکلتے جو کہ یہاں بکثرت پائے جاتے تھے۔ اگر ان پر گولی چلانے کا ارادہ بھی ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ گھاس اتنی گھنی تھی۔ جانور دکھائی نہ دیتے تھے بلکہ گھاس ہلنے سے ان کا پتہ چلتا تھا۔
بیس منٹ میں ہم گھاس کو عبور کر کے اونچی مزروعہ زمین پر پہنچ گئے جہاں زمین نسبتاً سیدھی ہو گئی تھی۔ اس کھلے میدان کے ساتھ وسیع جنگل تھا جس میں ایک فٹ گولائی کے درخت اگے ہوئے تھے۔ یہ درخت ایک انچ موٹی اور اٹھارہ فٹ اونچی گھاس کے ساتھ اس طرح گتھے ہوئے تھے کہ ناقابلِ عبور دکھائی دیتے تھے۔ یہاں کی زمین بہت زرخیز تھی۔ اگرچہ یہ گھاس وغیرہ نسبتاً خشک دکھائی دے رہی تھی مگر آگ نہیں پکڑتی تھی۔ کئی جگہ ادھ جلی گھاس دکھائی دے رہی تھی۔
ہمارے رہنما نے وہ مقام دکھایا جہاں شیر اس کی گائے کو لے کر گیا تھا۔ نرم مٹی پر شیر کے پنجوں سے اس کی جنس اور جسامت واضح ہو گئی۔
اس بات پر سب متفق تھے کہ شیر یہیں موجود ہے۔ تاہم اسے باہر کیسے نکالا جائے۔ یہ جنگل لگ بھگ ایک میل تک اسی طرح گھنا تھا اور اس کی چوڑائی نصف میل تھی۔ اس کی ایک جانب مسطح مزروعی زمین تھی اور دوسری جانب اونچی گھاس اگی ہوئی تھی جو کئی جگہوں پر جلی ہوئی تھی۔
اگر شیر کی روانگی پر مناسب طور پر نگرانی کی جاتی تو ڈیڑھ سو گز پر دکھائی دے سکتا تھا۔
زمین اتنی مسطح تھی کہ اگر شیر نکلتا تو کہنا دشوار تھا کہ کس سمت جاتا۔ یہ بھی کہنا مشکل تھا کہ شیر اس محفوظ پناہ گاہ سے نکلے گا یا نہیں۔
جب آپ نے ہانکا کرانا ہو تو سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ مطلوبہ جانور کہاں سے اور کس راستے سے آیا تھا کہ واپسی بھی اسی راستے سے اسی جگہ کو ہوگی۔ اتنی اونچی گھاس اور بے شمار جزیروں کی وجہ سے کہنا مشکل تھا کہ شیر کس سمت سے آیا ہوگا۔ تاہم ایک سمت محفوظ تھی کہ شیر کبھی بھی مزروعہ زمین کو نہیں فرار ہوگا۔ دوسری سمت ہمیں کڑی نگاہ رکھنی ہوتی تاکہ شیر وہاں سے نہ نکل جائے۔
سو میں نے فیصلہ کیا کہ میں جنگل کے کنارے اس جگہ جا کر رکوں جہاں سے ہم ابھی آئے تھے۔ اُس جگہ جلی ہوئی گھاس اور جنگل ملتے تھے اور پاس ہی سے شیر گائے کی لاش کو گھسیٹ کر لے گیا تھا۔ سو میں نے ہاتھیوں کو مخالف سمت بھیجا تاکہ وہ دو سو گز دوری سے میری جانب آئیں۔ میرا خیال تھا کہ شیر لاش سے زیادہ دور نہ ہوگا۔ اس کے علاوہ میں نے اونچی گھاس والی جانب دو سکاؤٹ ہاتھی بھیج دیے جو مجھے موجودہ مقام سے بھی دکھائی دے رہے تھے۔ سو کونے پر کھڑا ہونے کی وجہ سے دو سمتیں مجھے صاف دکھائی دے رہی تھیں۔
میں نے زور سے سیٹی بجائی تو ہانکا شروع ہو گیا۔ دور سے ہاتھیوں نے جب جھاڑ جھنکار کو کچل کر راستہ بنانا شروع کیا تو ایسا لگا جیسے بہت زور سے ہوا چل رہی ہو۔ کبھی کبھی کسی شاخ کے ٹوٹنے کی بھی آواز آ جاتی جو ہاتھیوں کے راستے میں ہوتی۔
میں ایک ہتھنی پر سوار تھا جس کا نام نیلموں تھا۔ اس کے بارے کہا گیا کہ بہادر ہتھنی ہے مگر جوں جوں ہاتھیوں کا شور قریب آتا گیا، اس کا ہیجان بڑھتا گیا۔ کوئی چھوٹا ہرن بھی نکلتا تو ہتھنی ٹھٹھک جاتی۔
بہت کم ہاتھی ہی ہانکے کی قطار کے سامنے کھڑے بے چینی ظاہر نہیں کرتے، چاہے ہانکا انسان کر رہے ہوں یا ہاتھی۔ چونکہ اس مرتبہ بہت زیادہ شور ہو رہا تھا اور اچانک ایک ہاتھی چنگھاڑا اور پھر شیر کی مدھم غراہٹ سنائی دی اور پھر ہاتھیوں نے ٹرائی آنک کی آوازیں نکالنا شروع کر دیں۔ نیلموں کو علم ہو گیا کہ اس کا خوفناک دشمن قطار کے آگے اسی کی سمت بڑھتا آ رہا ہے۔
چونکہ میں کونے پر کھڑا تھا، سو اپنے دائیں اور بائیں جانب ہاتھی نمودار ہوتے دکھائی دیے۔ قطار بہت خوبصورتی اور اتنے قریب سے آگے بڑھی تھی اور کوئی بھی شیر ان سے بچ کر واپس نہ جا سکتا تھا۔
میرا ملازم مائیکل میرے پیچھے ہودے پر بیٹھا تھا۔ وہ خاموش طبع اور کام سے کام رکھنے والا تھا۔ خود سے شاید ہی اس نے کبھی کوئی بات کی ہو۔ اس بار وہ بولا: ‘ہانکا خالی ہے صاحب‘۔
میں نے جواب دیا: ‘مائیکل، تمہیں کتنی بار سمجھایا ہے کہ جب تک ہانکا پوری طرح تمام نہ ہو جائے، اس طرح کی بات نہ کیا کرو‘۔ زیادہ تر ہاتھی باہر نکل آئے تھے اور شاید پانچ یا چھ ابھی ظاہر نہیں ہوئے تھے تاہم ان کی قطار بالکل سیدھی چلی آ رہی تھی۔ دس یا بارہ گز کا فاصلہ طے کر کے وہ بھی باہر نکل آتے۔ قطار چلتی رہی، دو تین مہاوتوں نے کہا بھی کہ شاید شیر پیچھے رہ گیا ہوگا، واپس چلیں۔ چھ سات گز بچ گئے اور ہاتھی بڑھتے چلے آئے کہ اچانک شیر کی دھاڑ سنائی دی۔ چند انتہائی بڑے شیروں میں سے ایک سیدھا نیلموں کی جانب بڑھا اور یہ کہتے افسوس ہوتا ہے کہ نیلموں فوراً مڑی اور گولی چلانے کا بہترین موقع ضائع ہو گیا۔ تمام ہاتھی مختلف سمتوں میں بھاگے۔ شیر فوراً واپس اسی جگہ گم ہو گیا۔
انتہائی کامیاب ہانکا، انتہائی فضول نتیجہ، میری ہتھنی عین وقت پر دغا دے گئی۔ ایسے جنگل میں اب یہ شیر یا تو ہانکے کے ہاتھیوں پر حملہ کرتا یا پھر چھپتا چھپاتا فرار ہو جاتا۔
میں نے گھڑی دیکھی تو ساڑھے آٹھ بج رہے تھے۔ مہاوتوں نے تجویز پیش کی کہ ابھی شیر کو سونے دیا جائے اور دوپہر میں ہانکا کیا جائے۔ اتنے ہاتھی دیکھنے کے بعد میرا نہیں خیال کہ شیر آرام سے سو جاتا۔ ظاہر ہے کہ مہاوت اس خوفناک جنگل میں ہانکے سے خوفزدہ تھے۔ اس بار انہوں نے مجھے قطار کے وسط میں چلنے کی درخواست کی تاکہ شیر اگر حملہ کرے تو ان کا دفاع ہو سکے۔
مجھے بخوبی علم تھا کہ قطار کے اندر رہتے ہوئے شکار کا موقع نہ ملتا کیونکہ گھاس اور جھاڑ جھنکار بہت گھنا تھا اور ایک فٹ دور کی چیز بھی دکھائی نہ دے سکتی تھی۔ تاہم میں نے چند ہاتھی قطار کی شکل میں پون میل دور ایک پگڈنڈی پر بھجوا دیے اور باقی ہاتھیوں کو شانے سے شانہ ملا کر چلنے کا حکم دیا۔ اس طرح ہم گھاس پھونس کو کچلتے ہوئے جاتے اور شیر کہیں بھی دبک کر بچ نہ پاتا۔
کئی بار ہاتھیوں نے خطرے کی آواز نکالی اور ہمیں علم تھا کہ شیر بہت قریب ہے، مگر ہم اسے دیکھ نہ سکے۔
تین بار ہم نے اس طرح قطار چلائی اور تیسری مرتبہ میں نے اپنا ہاتھی بڑھا کر پگڈنڈی پر دیگر سکاؤٹ ہاتھیوں کے ساتھ روک دیا۔ قطار یہاں پہنچ کر رک جاتی۔
اچانک مجھے ہاتھیوں کی قطار سے شور سنائی دیا اور دو تین ہاتھیوں نے آواز نکالی۔ ایک لحظے کو مجھے مدھم سا سایہ دکھائی دیا جو جلی ہوئی گھاس والے کنارے کے قریب تھا۔ تاہم میری ہتھنی اتنی بے چین تھی کہ نشانہ لینا ممکن نہ تھا۔ اس کے علاوہ سایہ اتنا مدھم تھا کہ اگر میں پوری طرح متوجہ نہ ہوتا تو وہ کبھی بھی نہ دکھائی دیتا۔ فوراً ہی ایک مہاوت چلایا کہ اس نے شیر کو راستہ عبور کر کے دوسری جانب جاتے دیکھا ہے۔ ہانکا ناکام رہا۔ ابھی تک ہم نے شیر کو چوتھائی میل لمبے اور نصف میل چوڑے قطعے تک محدود رکھا تھا اور اب شیر نئی جگہ پر پہنچ گیا جو پون میل لمبی اور نصف میل چوڑی تھی۔
ہانکا جاری رکھنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔ سو ہم نے صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے کی طرح اس جنگل کا ہانکا شروع کر دیا۔ کافی دیر تک شیر نہ دکھائی دیا۔ ساڑھے بارہ بجے گرمی اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی اور آسمان پر بادل کا ٹکڑا بھی نہ تھا۔ ہاتھی ایک بار پھر اس جنگل سے نکلے اور اپنے معدوں سے پانی نکال کر اپنے اوپر چھڑکنے لگے۔ مہاوت بھی تھکے ہوئے اور مایوس تھے۔ انہوں نے کہا: ‘ہانکا بیکار ہے۔ شیر سیدھا نکل گیا ہوگا۔ یا جب آپ نے گولی چلائی تھی شاید وہ زخمی ہو گیا ہو یا بغیر زخمی ہوئے نکل گیا ہوگا؟ شاید ڈر کر فرار ہو گیا ہو؟ اب وہ پھر کبھی نہیں دکھائی دے گا۔ شدید گرمی کی وجہ سے ہاتھی بھی تھک گئے ہیں۔ سو اب ہاتھیوں کو دریا پر لے چلتے ہیں تاکہ وہ نہا لیں‘۔ میں نے مشورہ کے لیے سب کو جمع کیا۔ سارے ہاتھی میرے گرد جمع ہو گئے۔ جب ہمراہی تھکے اور مایوس ہوں تو ان کے سامنے کوئی نئی تجویز پیش کرنی چاہیے۔ سو میں نے انہیں کہا: ‘ہم صبح سے مصروف ہیں اور ہاتھی بھی گرمی کی شدت سے نڈھال ہیں۔ شیر بھی اسی طرح تھکا ہوا ہوگا کیونکہ وہ پہلی بار ساڑھے آٹھ بجے نکلا تھا۔ یاد ہے کہ کل میں نے دریا کے کنارے ایک ہرن مارا تھا؟ اگر شیر بھی گرمی سے نڈھال ہے تو وہ بھی اسی تالاب کی طرف گیا ہوگا۔ تم لوگ ایسے کرو کہ قطار بنا کر پندرہ منٹ بعد پانی کی طرف چل پڑو۔ میں پہلے وہاں پہنچ جاتا ہوں۔ اگر شیر راستے میں ہوا تو سیدھا پانی کو آئے گا۔ اگر وہ پہلے سے پانی میں ہوا تو میں اسے دیکھ لوں گا۔ اگر شیر نہ بھی ملا تو بھی ہم پانی تک پہنچ جائیں گے اور ہمارا کیمپ اس کی سیدھ میں موجود ہے ہی۔ اس بات پر سبھی متفق ہو گئے اور خوشی خوشی قطار بنانے لگے۔ میں نے نیلموں کو پانی کی جانب دوڑایا۔
پون میل بعد جنگل میں جھول کے درخت دکھائی دینے لگے اور مجھے یقین ہو گیا کہ کل جہاں میں نے ہرن مارا تھا، وہ جگہ یہاں سے قریب ہوگی۔ سو میں نے مہاوت سے کہا کہ وہ بائیں مڑ کر آگے بڑھے جہاں پانی ہوگا۔ اس جگہ پچاس یا ساٹھ گز کی ہلکی سی ڈھلوان تھی اور اسی میں نامعلوم گہرائی تک شفاف پانی بھرا ہوا تھا۔
ابھی میں اسی جگہ پہنچا ہی تھا کہ میں نے بولنے کی بجائے مہاوت کو اشارہ کیا کہ رک جائے۔
اس جگہ مجھے ایسا منظر دکھائی دیا کہ میرا دل خوش ہو گیا اور سارے دن کی محنت کا پھل مل گیا۔ ۱۲۰ گز دور میرے بائیں جانب ایک شیر کی گردن اور سر پانی کے اوپر دکھائی دیے۔ باقی سارا جسم ٹھنڈے پانی میں نظروں سے اوجھل تھا۔ ہم اتنی دیر سے جنگل میں گرمی میں تھکے ماندے ہانکا کر رہے تھے اور یہاں شیر پانی میں نہا رہا تھا۔ مہاوت فضل اگرچہ عقلمند انسان تھا مگر اس نے کہا کہ گولی چلائیں۔
میں نے سرگوشی میں جواب دیا کہ فاصلہ بہت ہے۔
مہاوت بولا کہ گولی چلا دیں، آپ کی رائفل بہترین ہے اور اگر شیر نے ہمیں دیکھ لیا گا تو فرار ہو جائے گا۔
میں نے سرگوشی میں اسے چپ رہنے کو کہا اور بتایا کہ سورج عین ہمارے پیچھے چمک رہا ہے اور شیر ہمیں نہیں دیکھ سکتا۔ شیر کی آنکھیں چمکدار سبز رنگ کی دکھائی دے رہی تھیں۔ اسی دوران شیر نہا کر فارغ ہوا اور کتے کی طرح پچھلی ٹانگوں پر بیٹھ گیا۔ میں نے کبھی اتنا خوبصورت شیر پھر نہیں دیکھا۔ اس کا خوبصورت سر اور قممقوں کی مانند سبز آنکھیں سامنے تھیں۔ تاہم اس کی کھال سے کیچڑ ٹپک رہا تھا کیونکہ وہ شیر تہہ میں بیٹھا تھا۔
اب مہاوت بولا کہ اب وقت آ گیا ہے، نشانہ خطا نہیں ہو سکتا۔ گولی چلائیے، ورنہ شیر نکل جائے گا۔ میں نے اسے چپ کرایا اور ایک منٹ بعد شیر پھر پانی میں لیٹ گیا۔
میں نے مہاوت سے کہا کہ خاموشی سے ہاتھی کو واپس الٹے قدموں لے جائے اور مڑے نہیں۔ نیلموں نے ذرا سی بھی آہٹ پیدا کیے بنا فاصلہ طے کیا اور ہم پھر جنگل میں پہنچ گئے۔ اب ہمیں تسلی ہوئی۔
میں نے مہاوت سے کہا کہ وہ سیدھا چلے اور جب میں اس کے سر کو چھوؤں تو دائیں مڑے اور جھول کے جھنڈ سے نیچے جائے اور جب دوبارہ اس کی پگڑی کو چھوؤں تو رک جائے۔
ہتھنی کے قدم گنتے ہوئے میں نے فاصلے کا تیّقن کیا۔ پھر میں نے مہاوت کی پگڑی کو چھوؤا اور نیلموں دائیں جانب مڑ گئی۔ گہرے سبز رنگ کے جھول کے درختوں سے ہوتے ہوئے جب ہم رکے تو شیر ہمارے عین سامنے مگر پچہتر گز دور تھا۔
میں نے مہاوت سے کہا کہ وہ ہتھنی کو بالکل ایک ہی جگہ رکھے اور پھر نشست پر بیٹھ کر میں نے نشانہ لیا تو جھول کی ایک شاخ عین میرے سامنے جھول رہی تھی۔ پہنچ سے دور ہونے کی وجہ سے میں نے مہاوت سے کہا کہ اسے موڑ دے جو اس نے موڑ دی۔
اب منظر واضح تھا۔ شیروں کی آنکھیں سبز رنگ کی ہوتی ہیں۔ ہتھنی بالکل ساکن ہو گئی اور میں نے لبلبی دبا دی۔
اعشاریہ ۵۷۷ بور کی رائفل میں جب ۶ ڈرام بارود جلا تو پانی کی سطح پر کہیں گولی لگتی دکھائی نہ دی اور شیر کا سر اب عجیب سے زاویے پر تھا، اس کا ایک گال پانی کے اوپر اور ایک نیچے تھا۔ اس کی ایک آنکھ پانی کی سطح کے اوپر ابھی تک سبز رنگ کے یاقوت کی مانند چمک رہی تھی۔
میں نے مہاوت کو کہا کہ وہ ہتھنی بھگائے اور جلد ہی ہم شیر کی لاش کے قریب پہنچ گئے۔ شیر پوری طرح مر چکا تھا۔ میں نے زور سے سیٹی بجائی اور گھڑی پر دیکھا تو ایک بج رہا تھا۔ ساڑھے آٹھ بجے سے ہم اس شیر کے پیچھے لگے ہوئے تھے اور اب اس کا انجام بخیر ہوا۔
جلد ہی باقی ہاتھی بھی پہنچ گئے کہ انہوں نے گولی کی آواز اور میری سیٹی بھی سن لی تھی۔
موتا گوچی سب سے پہلے پہنچا اور شیر کی آنکھ کو دیکھتے ہی اس نے سوچا کہ شیر ابھی زندہ ہے۔ سو اس نے فوراً اس کے سر پر پہنچ کر اسے اپنے دانتوں سے کئی فٹ اوپر اچھالا اور پھر لات ماری تو شیر پھر ہوا میں اچھلا۔ اگر مہاوت آنکس بروئے کار نہ لاتا تو موتا گوچی اس شیر کو کچل کر اس کی کھال کو خراب کر دیتا۔
جلد ہی شیر کی گردن سے رسی باندھ کر موتا گوچی کے ذریعے اسے پانی سے باہر نکال کر اچھی طرح دھویا گیا اور پھر گولی کا نشان تلاش کیا گیا۔
شیر پر کوئی بھی گولی کا نشان نہ تھا کہ گولی اس کے نتھنے سے گھسی تھی اورگردن توڑتی ہوئی جسم میں گھس گئی۔ پہلی گولی شاید کسی ٹہنی سے لگ کر بھٹک گئی تھی۔ جب اس شیر کو لٹایا گیا تو بغیر کھینچے اس کی لمبائی ۹ فٹ اور ۸ انچ تھی۔
باب سوئم
شیر (جاری)
پچھلے باب میں ہاتھی کے غصے کی شدت کے بارے کافی مواد موجود ہے کہ مست حالت اس کے اعصاب پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے۔ اس بارے بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں مگر ان کا فائدہ نہیں۔ ہاتھیوں میں نر اور مادہ کے مزاج اور ان کے کاموں میں بھی فرق ہے۔ مادہ کو گھر کے عام کام کاج کے لیے رکھا جاتا ہے جبکہ نر بہت طاقتور ہوتا ہے اور خطرے کے وقت اپنا دفاع کرنے کے قابل ہوتا ہے اور اس سے زیادہ بھاری کام لیے جا سکتے ہیں۔ تاہم یہ کہنا ضروری ہے کہ بہترین ہاتھی کم دکھائی دیتا ہے۔ ایسا ہاتھی جو جسمانی طور پر بہترین اور دیگر ہاتھیوں کی نسبت زیادہ بہادر ہو تو ہندوستان کا کوئی بھی باشندہ اس کے لیے منہ مانگی قیمت دینے کو تیار ہو جاتا ہے۔ ہاتھی کی قیمت کا تعین آسان نہیں کہ خریدار کی ضروریات اور اس کی مالی استطاعت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ گھوڑوں کی طرح ہاتھیوں کی قیمت بھی بہت فرق ہو سکتی ہے اور ہندوستان کے راجے مہاراجے اپنی پسند کے بہترین ہاتھی کی کوئی بھی قیمت لگانے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
میں نے ہندوستان میں خوبصورت ترین ہاتھی نندگاؤں کے راجہ کے پاس دیکھا ہے۔ یہ مقام رائے پور کے پاس ہے۔ دسمبر ۱۸۸۷ میں وسطی صوبجات کے چیف کمشنر کے پاس بیس ہاتھی پیش ہوئے تھے جن میں متذکرہ بالا ہاتھی نہ صرف جسامت بلکہ خوبصورت میں سب سے ممتاز دکھائی دے رہا تھا۔ ہاتھی میں خوبصورتی کا معیار ہڈیوں سے نہیں بلکہ گولائی سے ماپا جاتا ہے۔ بہترین ہندوستانی ہاتھی کی اونچائی شانے کے مقام پر ساڑھے نو فٹ ہونی چاہیے۔ سر جتنا بڑا ہو، اتنا اچھا ہے۔ ماتھا گولائی کی شکل میں اور چوڑا۔ سونڈ کے اوپر کا ابھار ٹھوس محسوس ہو اور لال رنگ کے نشان ہوں جو گالوں تک پھیلے ہوئے ہوں اور سونڈ پر تین فٹ نیچے تک بھی ہوں۔ اس ہاتھی کو بہت وزنی ہونا چاہیے اور جب ہاتھی آرام سے کھڑا ہو تو اس کی سونڈ ہلکی سی مڑی ہوئی اور زمین کو چھو رہی ہو۔ چہرے کی کھال کو ہاتھ لگائیں تو نرم محسوس ہو اور کہیں نشیب یا ہڈیاں نہ محسوس ہوں کہ یہ بڑھاپے کی علامات ہیں۔ کان بڑے ہوں اور کانوں کے سرے ہموار ہوں اور چھونے پر ہموار لگیں جیسے کسی نے استری کیے ہوں۔
جب ہاتھی بوڑھا ہونے لگتا ہے تو کان کے اوپری سرے جھکنے لگتے ہیں اور عمر کے ساتھ ساتھ یہ جھکاؤ بڑھتا جاتا ہے۔ آنکھیں بڑی اور صاف ہوں اور ان کا رنگ تیز ہیزل۔ ہاتھی دانت موٹے اور دراڑوں سے پاک اور خوبصورتی سے مڑے ہوئے اور ہلکے سے دائیں اور بائیں کو جاتے ہوں۔ ان کی لمبائی ہونٹ سے تین فٹ سے زیادہ باہر نہ ہو۔ جسم گول ہو اور کہیں کوئی پسلی دکھائی نہ دے۔ شانے بھاری ہوں اور پٹھے ابھرے ہوئے دکھائی دیں۔ پشت ہلکی سی خم دار ہو اور دم کی طرف زیادہ جھکی ہوئی نہ ہو۔ پشت طویل اور موٹی ہو اور آخری سرے پر بہت لمبے اور موٹے بالوں کی دو قطاریں ہوں۔
ٹانگیں قد کے اعتبار سے نسبتاً چھوٹی مگر بہت موٹی ہوں۔ گھٹنے سے اوپر کے پٹھے بہت واضح ہوں۔ گھٹنے خوب گول ہوں اور ہاتھی کے پیر کی گولائی اس کے قد کے نصف کے برابر ہو۔ ہاتھی کی کھال نرم اور ڈھیلی ہو اور جیسے اس کے جسم پر لپٹی ہوئی ہو۔ ان خصوصیات کا حامل ہاتھی بہترین تربیت یافتہ ہونا بھی لازمی ہے۔
جب ہاتھی کو جھکنے کا حکم ملے تو فوراً جھک جائے اور اسی طرح جھکا رہے جب تک کہ اسے اٹھنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ہاتھی اگلے قدموں پر نہیں بلکہ پچھلے قدموں پر جھکتا ہے اور اگلی ٹانگیں پھیلا کر اپنے دانت زمین پر رکھ دیتا ہے۔ یہ حالت انتہائی غیر فطری ہے۔ بعض ہاتھی بے صبرے ہوتے ہیں اور جب ان پر سوار ہونے کے لیے سیڑھی لگائی جائے تو اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک بار ایک ایسا ہی ہاتھی اتنے جھٹکے سے اٹھا کہ ہودے پر سوار میری بیوی اچھل کر ایک طرف جا گری۔ میں ابھی سیڑھی پر ہی تھا اور میں دوسری جانب جا گرا۔ غلط تربیت یافتہ ہاتھی بہت خطرناک ہوتا ہے اور اگر پتھریلی زمین پر گریں تو خطرناک چوٹ بھی لگ سکتی ہے۔
ہاتھی کا ہر قسم کی جھجھک اور بزدلی سے پاک، نرم فطرت ہونا لازمی ہے۔ بعض آوازوں اور مناظر سے ہاتھی ٹھٹھک جاتے ہیں۔ جنگل میں پگڈنڈی پر چلتے ہوئے یہ کہنا ممکن نہیں کہ کس جانور سے کب سامنا ہو جائے۔ بعض ہاتھی قریب کے جنگل میں کسی جانور کے بھاگنے کی آواز سنتے ہی مڑ کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ بعض ہاتھی پچاس گز کے فاصلے سے ریچھ کی بو سونگھ کر یا اس کی آواز سن کر اتنے گھبرا جاتے ہیں کہ ان کو قابو کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر ہاتھی کسی بھی حقیقی یا فرضی خطرے کی وجہ سے بھاگ کھڑا ہو تو ہودے پر سوار افراد کے لیے انتہائی خطرہ ہوتا ہے کہ ہاتھی عموماً گھنے جنگل کو فرار ہوتا ہے اور درختوں کی ٹہنیاں ہودے پر بیٹھے بندے کو لگ کر اسے گرا دیتی ہیں یا خاردار جھاڑیاں اس کی بوٹیاں نوچ لیتی ہیں۔
ہر ہاتھی کو ایک جیسی تربیت دینا ممکن نہیں اور بہت کم ہاتھی مکمل طور پر قابلِ اعتبار بنتے ہیں۔ اگر ان پر بھروسہ کرنا ہو تو ان میں کردار پیدا کرنا پڑتا ہے۔ مثالی ہاتھی کا غیر جذباتی ہونا لازمی ہے اور کسی بھی چیز پر توجہ نہ دے اور محض مہاوت کے احکام پر کسی مشین کی مانند عمل کرتا رہے۔ کسی شور، کسی منظر یا کسی بھی جانور کے حملے کا اس پر کوئی اثر نہ ہو اور نہ ہی آگ کی آواز اسے ڈرائے، حالانکہ ہانکے کے دوران ہاتھیوں کی پیش قدمی کو آگ سے پیدا ہونے والا شور سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے۔
ہاتھی کی عام رفتار ۵ میل فی گھنٹہ ہوتی ہے اور اگر ہموار میدان ہو تو چھ میل تک پہنچ جاتی ہے۔ عموماً مادہ کی رفتار نر کی نسبت زیادہ ہموار ہوتی ہے۔ ہاتھی کو جب رکنے کا حکم ملے تو فوراً وہیں رک جائے اور نہ تو سر کو حرکت دے اور نہ ہی کان پھڑپھڑائے۔ اچھا تربیت یافتہ ہاتھی مہاوت کے حکم پر آگے یا پیچھے، ایک یا کئی قدم تک حرکت کو تیار رہے اور پھر جب رکنے کا حکم ملے تو مجسمے کی طرح ساکت ہو جائے۔
اگر ہاتھی شیر کے قریب ہو تو اسے شیر کی بو سے اس کا درست مقام معلوم ہو جاتا ہے۔ اگر شیر دکھائی دیے بغیر حملہ کرے اور غراتا اور دھاڑتا آئے تو ہاتھی اپنی جگہ سے ذرا سی بھی حرکت نہ کرے تاکہ ہودے پر موجود شکاری اس پر آرام سے نشانہ لگا سکے۔ اگرچہ شکار میں اس کی بہت اہمیت ہے مگر یہ خوبی بہت نایاب ہے۔ بعض ہاتھی شیر کے حملے کا جواب حملے کی صورت میں دیتے ہیں جو اور بھی خطرناک ہو جاتا ہے۔ اکثر ہاتھی فرار نہ بھی ہو یا حملہ نہ بھی کرے تو بھی اچانک ایک سمت مڑ جاتا ہے اور نشانہ خطا جاتا ہے۔
ہاتھی کسی بھی قیمت پر اپنی مرضی نہ کرے بلکہ ہر وقت مہاوت کے حکم کی فوری تعمیل کرتا رہے۔
مندرجہ بالا خصوصیات کا حامل ہاتھی کسی بھی ہندوستانی راجے کے لیے ۱۵۰۰ روپے کے برابر ہوگا مگر میں ایسے بہت سارے مقامی شکاریوں کو جانتا ہوں جو ایسے ہاتھی کے لیے ۳٫۰۰۰ روپے تک دینے کو تیار ہو جائیں گے۔
مقامی راجے اور شہزادے اپنے جنگلوں سے ہاتھی پکڑنے میں بہت فخر محسوس کرتے ہیں اور جب بھی کوئی تہوار یا میلہ ہو، وہ اپنے ہاتھیوں پر ریشم کے کپڑے اور سونے کے بھاری زیورات لدواتے ہیں۔ ان بھاری زیورات کو دو افراد بمشکل اٹھا سکتے ہیں۔ اسی طرح ریشمی کپڑے بھی نسل در نسل منتقل ہوتے رہتے ہیں اور محض تہواروں کے لیے نکالے جاتے ہیں۔ ہاتھی دانت سے چاندی کے بنے گھنٹے لٹکائے جاتے ہیں اور دربار کے وقت بہت بھلے لگتے ہیں۔ بسا اوقات ایسے دربار میں سو سے زیادہ ہاتھی اس طرح سج سنور کر لائے جاتے ہیں اور ہر ہاتھی کے زیورات اور لباس دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔
ہاتھی کا لبادہ اس کے کام کی مناسبت سے ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو ہاتھی کی پشت کو بچایا جاتا ہے۔ ہاتھی کی کھال بہت مضبوط دکھائی دیتی ہے مگر معمولی رگڑ بھی اس پر پھوڑے کا سبب بن جاتی ہے اور یہ پھوڑے جلدی نہیں بھرتے۔ مہاوت لاپرواہ ہوتے ہیں اور جب تک ہاتھی کی تکلیف کا انہیں ذمہ دار نہ بنا کر ان کی تنخواہ سے کچھ رقم نہ کاٹی جائے، وہ بات نہیں سمجھتے۔
مناسب دیکھ بھال سے ہاتھی کبھی بیمار نہیں پڑتے اور ہاتھی کی پشت پر لگنے والا گدا پشت کی شکل کا بنا ہوا ہونا چاہیے۔ عموماً دو انچ موٹا کپاس سے بھرا ہوا گدا ہاتھی کے شانے سے لے کر کمر تک پھیلا دیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں کپاس کی بجائے اون بہتر رہتی ہے اور درمیان میں کچھ خالی جگہ ہو تاکہ ریڑھ کی ہڈی پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔ تین انچ موٹا ایسا گدا ہاتھی کی کمر پر بخوبی آ جاتا ہے اور اس کی ریڑھ کی ہڈی کو تکلیف سے بچاتا ہے۔ اس طرح جب ہاتھی سخت محنت کے دوران پسینے سے شرابور ہوتا ہے تو ہوا اسے بخوبی خشک کر سکتی ہے۔ اس نرم تہہ پر بڑا گدا رکھا جاتا ہے جو سخت نرسلوں سے بھرا ہوتا ہے اوریہ نرسل تالابوں میں عام ملتے ہیں۔ درمیان سے خالی اور اطراف میں ایک فٹ موٹا ہوتا ہے اور وزن کو ریڑھ کی ہڈی کی بجائے ہاتھی کی پسلیوں پر منتقل کر دیتا ہے۔
عام طور پر ان کی شکل گھوڑے کی زین جیسی ہوتی ہے۔ سفر کے لیے عام طور پر چارجامہ استعمال ہوتا ہے جو مستطیل شکل کا اور ہاتھی کی پشت پر مضبوطی سے باندھا جاتا ہے۔ اس کے درمیان میں کپاس بھری جاتی ہے اور اوپر صفائی سے کپڑا لگایا جاتا ہے۔ درمیان میں بیٹھنے کے لیے نشست بنائی جاتی ہے۔ اس کے سروں پر سہارے کی خاطر لوہے کے ڈنڈے لگائے جاتے ہیں اور نیچے ایک فٹ چوڑے تختے لٹکے ہوتے ہیں جن پر پیر رکھ سکتے ہیں۔
میرے نزدیک ہاتھی پر اس سے زیادہ آرام دہ سفر ممکن نہیں تاہم دونوں جانب وزن برابر رہنا چاہیے۔ عموماً راستہ اونچے نیچے نالوں سے گزرتا ہے اور اگر چارجامہ کا توازن ایک جانب ڈھلک جائے تو نیچی سطح والے افراد بہت تکلیف سہتے ہیں۔ مقامی افراد اچھا بھرا ہوا گدا استعمال کرتے ہیں کہ وہ آلتی پالتی مار کر بیٹھ سکتے ہیں۔ ہم یورپیوں کے لیے یہ طرزِ نشست بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ایسے گدوں پر لال کپڑے اور سونے کے دھاگوں سے کڑھائی کی ہوتی ہے۔ ہاتھی ریشم اور سونے کے دھاگوں والے کپڑے پہنتا ہے جو گھٹنے تک لٹکے ہوتے ہیں۔ منہ اور چہرے پر مختلف رنگوں سے نقش و نگار بنے ہوتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ کیسے یہ ان پڑھ اور لاپرواہ مہاوت کیسے ہاتھیوں کے چہرے اور منہ پر اتنے خوبصورت نقش و نگار بنا لیتے ہیں حالانکہ یورپیوں میں کوئی کوئی فنکار اتنے خوبصورت نقوش و نگار بنا پائے گا۔
شکار کے لیے محض ہودا ہی استعمال ہوتا ہے اور اس کی بناوٹ پر خصوصی توجہ دینی چاہیے کیونکہ یہ کم وزن مگر بہت مضبوط ہونا چاہیے۔ ہودے کا کوئی دروازہ نہیں ہونا چاہیے ورنہ مضبوطی متاثر ہوتی ہے۔ اچھا اور کشادہ ہودا ۲۰۰ سے ۲۳۰ پاؤنڈ وزنی ہونا چاہیے۔ یاد رہے کہ ہودا سفر کے لیے بالکل مناسب نہیں کہ اس پر بیٹھ ہوئے بندے کو ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہاتھی لہرا کر چل رہا ہو۔ چارجامہ یا گدے پر ایسا نہیں محسوس ہوتا۔ ہودے کا مقصد شکار ہے تاکہ کسی بھی سمت میں گولی چلانے میں مشکل نہ ہو۔
ہودے کا ڈھانچہ بہت مضبوط اور سخت لکڑی سے بنا ہونا چاہیے اور کناروں پر لوہے کی پتریاں چڑھی ہوئی ہوں۔ اس ڈھانچے پر جست کی تہہ والے لوہے کی تاروں کی تہہ ہو۔ بالائی ریلنگ سخت لکڑی سے بنی ہو اور ایک انچ موٹا بانس بھی پوری چوڑائی میں پھیلا ہوا ہو اور اس پر ہمیشہ کچے چمڑے کی تہہ لگی ہوئی ہو تاکہ گرفت میں آسانی ہو۔ ہودے کے دو حصے ہوتے ہیں، سامنے والا حصہ شکاری کے لیے اور پچھلا حصہ اس کے ملازم کے لیے ہوتا ہے۔ یہ تقسیم اس طرح ہونی چاہیے کہ ہودے کی مضبوطی پر فرق نہ پڑے۔ درمیان میں آڑی لکڑیاں لگی ہوئی ہوں جو ہودے کو وسطی حصے سے جوڑے رکھیں۔ پشت پر ٹیک لگانے کے لیے موٹے چمڑے کا گدا ہو۔ ۔
نشست ایسی ہو کہ اسے اٹھایا جا سکے اور اس کے نیچے سامان رکھنے جگہ ہو۔ چمڑے کا نرم گدا بہت اہم ہے۔ بندوقوں کے خانے میں دو بندوقیں بائیں جانب رکھنے کی جگہ ہو اور ایک بندوق دائیں جانب ہو۔ اس کی سطح نرم ہونی چاہیے تاکہ بندوقوں کو نقصان نہ پہنچے۔
فرشی خانے پر کارک یا کارک سے بنا قالین ہو تاکہ پیر نہ پھسلیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ ہودے کو انتہائی سخت دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ اگر شیر کا حملہ ہاتھی کے سر پر ہو تو ہاتھی پوری طاقت سے شیر کو جھنجھوڑ کر پھینکنے کی کوشش کرتا ہے۔ سو لوہے کی پتریاں مضبوط ترین ہوں اور خالص سوتی موٹی رسی استعمال کرنی چاہیے۔ بکل بہت خطرناک ہوتا ہے کہ اگر کھل جائے تو انتہائی خطرناک صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ ہودا ہاتھی پر سوت کی چھ رسیوں سے باندھا ہونا چاہیے اور پوری احتیاط سے گرہیں لگانی چاہیئں۔
اس تمام کام کی نگرانی خود کرنی چاہیے کہ مقامی بندے بہت لاپرواہ ہوتے ہیں۔ ہودا باندھتے ہوئے دو یا تین بندے اس میں بیٹھ جائیں تاکہ ہودا پوری طرح جم جائے اور گرہیں درست لگیں۔ ورنہ دورانِ سفر گرہیں ڈھیلی پڑ جائیں گی اور ہودا ایک جانب جھک جائے گا جو سواری اور سوار، دونوں کے لیے بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ہاتھی کے پیٹ پر سانبھر کی خوب دباغت کی گئی نرم کھال ہونی چاہیے اور اگلی ٹانگوں کے پاس کے حصے کو رسی کی رگڑ سے محفوظ رکھے گی۔
سینے کی ڈھال اور دیگر حصوں کو بھی موٹی سوتی رسی سے باندھنا چاہیے مگر دم کے نیچے والے حصے کے لیے دھاتی نلکی ہونی چاہیے جو انگریزی کے حرف وی یا یو جیسی ہو۔ اس طرح ہاتھی کو تکلیف نہیں ہوگی۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، اس کی تجویز سب سے پہلے سینڈرسن کی طرف سے آئی تھی۔
بہترین نر ہاتھی، اس پر بندھا ہوا بہترین ہودا اور اچھا مہاوت، بہترین سواری ہوتے ہیں۔
ساز و سامان سے لیس ہو کر، اچھے مہاوت کے ساتھ پوری طرح قابلِ اعتبار ہاتھی پر سوار ہو کر جب انسان صبح سویرے نکلے تو بہت مسرت حاصل ہوتی ہے اور انسان پورے دن کے اچھے برے واقعات کے لیے تیار ہوتا ہے۔
مہاوت کا اس میں کتنا کردار ہوتا ہے! دور سے کسی کو شاید اندازہ بھی نہ ہو کہ ہاتھی اور مہاوت کے مابین کس طرح گفت و شنید ہوتی ہے اور کیسے خفیہ اشاروں سے مہاوت ہاتھی کو حکم دیتا ہے، چاہے وہ پیر کے انگوٹھے کا دباؤ ہو یا ایک گھٹنے کا ہلکا سا لمس یا ہلکا سا ایڑی سے چھونا ہو یا غیرمحسوس انداز سے جسم کو ایک جانب سے دوسری جانب جھکانا، ہاتھی کو ہر معمولی سے معمولی حرکت بھی پتہ چل جاتی ہے اور اپنی ذہانت سے کام لیتے ہوئے ہاتھی ایسے عمل کرتا ہے جیسے انتہائی بڑے جہاز کو پانی میں چھپی ہوئی پتوار موڑتی ہے۔ جیسے گھڑسوار جانتے ہیں کہ اچھا سوار کیا ہوتا ہے، اگرچہ اس کی وضاحت نہیں کی جا سکتی۔ بہت سے لوگ گھڑ سواری کرنے کا سلیقہ اور وقار رکھتے ہیں مگر وہ شہسوار نہیں۔ ایسا سوار جونہی زین پر بیٹھتا ہے، گھوڑے کو اس با ت کا علم ہو جاتا ہے کہ سوار کیسا ہے۔ اسی وجہ سے چاہے گھوڑا کتنا عمدہ ہی کیوں نہ ہو، سواری اور سوار، دونوں کے لیے سفر تکلیف دہ ہوگا۔
جب ایسا سوار گھوڑے کو کوئی رکاوٹ عبور کرنے کا حکم دیتا ہے تو گھوڑا جھجھک جاتا ہے کہ آیا سوار رکاوٹ عبور کرنا بھی چاہ رہا ہے کہ نہیں۔ اسی وجہ سے ہی زیادہ تر حادثات ہوتے ہیں۔ عین یہی معاملہ ہاتھی کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ سو ہاتھی کی سواری میں یہی مسئلہ ہوتا ہے کہ مہاوت آپ کے حکم کو فوراً سمجھ کر ہاتھی تک اسے پہنچا دے۔
مقامی افراد دائیں اور بائیں سمت کو سمجھنے میں کچھ لمحے لگاتے ہیں۔ ہاتھی یہ جھجھک فوراً سمجھ جاتا ہے کہ مہاوت بھی نہیں جانتا کہ کس سمت جانا ہے۔ اسی وجہ سے ہاتھی سیدھی حرکت کرنے کی بجائے سر کو ہلاتا جاتا ہے۔ اسی طرح شیر کے شکار پر اگر مہاوت ذرا سا بھی ڈر جائے تو ہاتھی کو فوراً پتہ چل جاتا ہے اور بدقسمتی سے خوف چھوت کی طرح پھیلتا ہے۔ عمدہ ہاتھی بھی مہاوت کی وجہ سے مار کھا جاتا ہے۔
عام لوگ ہاتھی کو ذہین مانتے ہیں مگر میں ان کا ہم خیال نہیں، مگر مجھ سے زیادہ ہاتھیوں کا شائق مشکل سے ہی کوئی ہوگا۔ میں نے اپنی جوانی میں کئی سو ہاتھی شکار کیے ہیں مگر اب اس پر پچھتاوا ہوتا ہے اور اب اپنے دفاع یا پاگل ہاتھی کے علاوہ میں کسی بھی قیمت پر کسی بھی ہاتھی پر گولی نہیں چلاؤں گا۔ ہاتھی میں کچھ ایسا ہوتا ہے کہ اس میں دلچسپی لینا فطری بات ہے۔ جیسے ہر انسان ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، ویسے ہی ہاتھی بھی ایک دوسرے سے فرق ہوتے ہیں۔
تاہم ہاتھی دیگر جانوروں سے بہت مختلف ہوتا ہے کہ اس کی بے پناہ طاقت سے بہت سے کام لیے جا سکتے ہیں اور اس کی انفرادیت انسانوں کے لیے دلچسپی کا سبب ہوتی ہے۔ تاہم جب ہم اس کے سیکھنے کی صلاحیت یا جنگلی حالت میں اس کی عادات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ کئی حشرات بھی اس سے زیادہ عقلمند ہوتے ہیں۔ اگر ہاتھی شہد کی مکھی کی طرح گھر بنا کر خشک موسم کے لیے چارہ جمع کر سکتا ہو، یا پرندوں کی طرح گھونسلہ بنا کر موسم سے بچاؤ کر سکتا ہو، اود بلاؤ کی طرح بند باندھ کر خشک سالی کے لیے پانی اکٹھا کر سکتا ہو، گلہری یا چوہے کی طرح اپنی غذا ذخیرہ کر سکتا ہو تو اس عظیم الجثہ حیوان کو ہم کتنی حیرت سے دیکھیں گے۔ مگر ہاتھی ایسا کچھ بھی نہیں کرتا۔ جب تک اسے بطورِ خاص حکم نہ دیا جائے، یہ کچھ بھی نہیں کرتا۔ مگر اس کی طاقت ہی ایسی چیز ہے جو انسان کے لیے اسے اہم بناتی ہے۔ اگر ہاتھی اپنے مہاوت یا مالک کو خوش کرنے کی نیت سے اپنی فطری ذہانت استعمال کرے تو اس کی اہمیت کئی گنا بڑھ جائے۔ مگر ایسا ہوتا نہیں۔
کسی ہاتھی کے بارے ایک جیسی رائے نہیں دی جا سکتی۔ ہر ہاتھی کی بہادری اس کی صحت پر منحصر ہوتی ہے جو اس کے اعصاب کو متاثر کر سکتی ہے۔ اگر انتہائی نڈر انسان بیمار ہو تو چھوٹی سی بات پر بھی پریشان ہو سکتا ہے جبکہ صحت مندی کی حالت میں اس کا رویہ یکسر مختلف ہوگا۔ جانور اپنی کیفیات بول کر نہیں بتا سکتے، سو کئی مرتبہ جانور کا رویہ عجیب لگ سکتا ہے کہ ہاتھی کی بیماری دکھائی نہیں دے رہی ہوتی۔
ایک بار میں نے ایک قابلِ بھروسہ ہاتھی کی ایسی ہی مضحکہ خیز کیفیت دیکھی تھی۔ یہ حکومتی ملکیت کا بڑا نر ہاتھی تھا جو مجھے چند ماہ کے لیے عاریتاً دیا گیا تھا۔ مولا بخش نامی یہ ہاتھی شیر کے حملے کا ثابت قدمی سے سامنا کرتا تھا اور میرا خیال ہے کہ اسے کسی بھی چیز سے ڈر نہیں لگتا ہوگا اور اس سے بہتر شکاری ہاتھی پر میں کبھی نہیں سوار ہوا۔ ایک بار ہم شیر کی تلاش میں پہاڑی علاقے میں چل رہے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ شیر یہیں کہیں اونچی گھاس اور کٹی پھٹی زمین میں چھپا ہوا ہے۔ ہانکے والوں کی قطار آ رہی تھی، سو میں نے ہاتھی کو پہاڑی کے دامن میں گھنے جنگل میں رکوا دیا جہاں سے ایک تنگ مگر صاف میدان نظر آتا تھا۔ ہاتھی کا صرف سر جھاڑیوں سے باہر نکلا ہوا تھا اور سرمئی رنگ کی وجہ سے وہ آس پاس کی جھاڑیوں سے مل گیا تھا۔
ہاتھی کو پوری طرح علم تھا کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور جوں جوں ہانکے والے قریب آتے گئے، مولا بخش مزید محتاط اور ہوشیار ہوتا گیا۔ اچانک سو گز دور سے ایک خرگوش نکلا اور چند گز سیدھا ہماری جانب تیزی سے بھاگتا آیا کہ چند سیکنڈ بعد ہاتھی کی ٹانگوں میں گھس جاتا، ہاتھی اسے نہیں دکھائی دیا ہوگا۔ اچانک مولا بخش پر دہشت چھائی اور اس نے مڑ کر دوڑ لگا دی۔ اگرچہ پانچ یا چھ گز بعد وہ رک گیا، مگر اتنے چھوٹے اور بے ضرر خرگوش کے سامنے اس کا یہ رویہ بہت عجیب تھا۔
اسی وجہ سے آتشیں اسلحے کی آمد کے بعد فوجی استعمال کے لیے ہاتھی کو رد کر دیا گیا ہے۔ پرانے دور میں ہاتھیوں کی قطار اور ان پر سوار تیر برداروں کا دستہ بہت اہم کردار ادا کرتا ہوگا مگر برطانوی آتشیں اسلحے کے سامنے جب مقامی راجوں کے ہاتھیوں کی قطاریں آئیں تو سبھی منہ موڑ کر اپنی فوج کو کچلتے ہوئے فرار ہو جاتے تھے۔
کچھ عرصہ قبل میونخ میں دس یا بارہ ہاتھی کسی صوبائی تہوار کے لیے لے جائے جا رہے تھے کہ ان کا سامنا آگ اگلتے اژدر (ڈریگن) سے ہوا اور بھگدڑ مچ گئی اور پندرہ یا سولہ افراد شدید زخمی ہوئے۔
ایک بار میرے پاس ایسا ہاتھی تھا جس نے بہت بار ہیجان میں مبتلا ہو کر جنگل کا رخ کیا اور میں مرتے مرتے بچا۔ اس ہاتھی کا نام لارڈ میو تھا۔ یہ ہاتھی بہت نرم مزاج مگر کسی بھی چیز سے خوفزدہ ہو جاتا تھا۔ ہانکے والوں کے شور شرابے سے بھی وہ ڈر کر فرار ہو جاتا تھا اور ایک بار تو پورا ایک میل بھاگنے کے بعد جا کر رکا۔ اس کیفیت میں آنکس کا معمولی سا بھی اثر نہیں ہوتا تھا۔
یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ جب ہاتھی گھبرا جائے تو اس کی ساری تربیت ہوا ہو جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ سب کچھ بھول کر جنگل میں اپنی اصل پناہ گاہ میں چھپ جائے۔
میں ایک بار بالا گھاٹ میں لارڈ میو پر سوار تھا جہاں ہانکے والے قابلِ بھروسہ نہ تھے۔ شیر نے جنگل سے بھری پہاڑی کے دامن میں کھلے میدان کے قریب ایک بیل مارا تھا۔
چوں کہ کئی مرتبہ یہ ہانکے والے قطار توڑ چکے تھے، سو میں نے سوچا کہ اس مرتبہ میں براہ راست ان کی نگرانی کروں گا۔ اس لیے میں نے کھلے میدان میں ایک قطار بنائی اور ہر بندہ ایک دوسرے سے یکساں فاصلے پر کھڑا ہوا۔ کل ۱۲۰ دیہاتی جمع ہوئے۔
میں نے شکاری کو رائفل دے کر دو سو گز آگے ایک مناسب مقام پر بنی مچان پر بٹھا دیا۔ یہ مچان میرے لیے بنی تھی۔
ان لوگوں کی قطار درست کرنے کے بعد میں نے ہانکا شروع کرنے کا حکم دیا۔ اگلے ہی لمحے شور و غل برپا ہو گیا اور تین یا چار ڈھول بھی بجنے لگے۔
میں قطار کے وسط میں لارڈ میو پر سوار تھا۔ جونہی ہی شور ہوا، ہاتھی گھبرا کر سیدھا جنگل کو بھاگ کھڑا ہوا۔ آنکس بار بار چھبویا گیا مگر کوئی فرق نہ پڑا۔ جنگل میں پہنچ کر ہم درختوں سے ٹکرانے لگے۔ خوش قسمتی سے ہاتھی پر ہودا نہیں تھا اور ہم گدے پر سوار تھے۔ گدے کو باندھی گئی رسیوں کو ہم نے مضبوطی سے تھامے رکھا اور دائیں بائیں جھک کر درختوں سے بچتے رہے۔ شکر ہے کہ چند سیکنڈ کی ان قلابازیوں کے بعد نیزے سے مسلح ایک اور ہاتھی کا مہاوت ہمارے قریب پہنچا۔ اسے لارڈ میو کے مزاج کا علم تھا، سو اس نے ہر ممکن تیزی سے بھاگ کر ہاتھی کے سامنے کا رخ کیا۔ میرا خیال تھا کہ دو سو گز تک ہاتھی اس طرح بھاگنے کے بعد تھک جائے گا کہ ہم نسبتاً چڑھائی پر جا رہے تھے۔ اگر جنگل میں درختوں کی بجائے خاردار جھاڑیاں اور بیلیں ہوتیں تو ہمارے مرنے میں کوئی کسر نہ رہتی۔
میں نے چڑھائی شروع ہوتے ہی چلا کر مہاوت سے کہا کہ سیدھا پہاڑی کے اوپر کا ہی رخ رکھے اور ہاتھی کو دائیں یا بائیں نہ مڑنے دے۔ مہاوت کی پگڑی اور ٹوپی کب کی اتر چکی تھی اور وہ مسلسل ہاتھی کے سر پر آنکس چبھوئے جا رہا تھا۔ مجھے علم نہیں تھا کہ ہاتھی پتھریلی زمین پر بھی اتنی تیزی سے بھاگ سکتا ہے۔
چھوٹے درخت جھکتے گئے اور کچھ شاخیں ٹوٹتی گئیں اور کئی مڑ کر تیزی سے جھولتیں اور ہاتھی کی رفتار میں کمی دکھائی نہ دی۔ کاش کہ ہاتھی کو روکنا ممکن ہوتا۔ ہاتھی کے پیچھے زنجیریں پڑی تھیں جو میں نے اپنے ترجمان مدار بخش کی مدد سے نیچے گرا دیں، تاکہ اگر کوئی مدد کو آئے تو ہاتھی کو روک سکے۔
نصف میل بعد ہم پہاڑی کے کافی ڈھلوان حصے پر پہنچے جہاں اتنی بڑی چٹانیں تھیں کہ ہاتھی کا فرار مشکل ہو گیا۔ ہمارے پیچھے بھاگنے والا دوسرا مہاوت بیچارہ ہانپ رہا تھا اور پیر لہولہان، وہ اب ہم سے آگے پہنچ گیا۔ ہاتھی ابھی بھی رکنے والا نہیں تھا، سو مہاوت نے ہاتھی کی سونڈ میں نیزہ چبھونا شروع کر دیا۔ آخرکار ہاتھی رک گیا۔ اتنی دیر میں اور لوگ بھی پہنچ گئے اور زنجیروں سے ہاتھی کے اگلے پیر باندھ دیے گئے۔ ہاتھی نے بڑی مہارت سے پیر باندھنے کے عمل کو ناکام بنانے کی کوشش کی مگر نیزے کے سامنے ایک بھی نہ چلی۔
اس طرح پہلی مرتبہ میں نے فرار ہونے والے ہاتھی کا مشاہدہ کیا مگر جلد ہی علم ہو گیا کہ میرے دونوں ہی ہاتھی بیکار ہیں۔ اس واقعے کے چند ہفتے بعد ہم نے کیمپ منتقل کیا اور اس جانب جا رہے تھے۔ یہ مقام کسلی کہلاتا ہے اور مقامی ٹھیکیداروں کے بھیجے جانے والے ریلوے کے سلیپروں کا مرکزی گودام بھی یہیں ہے۔ انہیں بیس بیس کے ڈھیروں میں ترتیب سے رکھا جاتا ہے اور درمیان میں مناسب جگہ چھوڑی جاتی ہے۔ اُسی صبح ایک بڑا بیل مر گیا تھا۔ ہمارا خیمہ اس کی لاش سے محض پچاس گز دور لگا تھا۔ گِدھ جمع ہو چکے تھے اور جلد ہی بیل کی لاش سڑنے لگتی۔ ظاہر ہے کہ مقامی لوگ لاش کو ہاتھ لگانے کو اپنی بے عزتی سمجھتے تھے۔ سو میں نے حکم دیا کہ ایک ہاتھی کے ساتھ اس لاش کو باندھ کر ایک میل دور پھینک دیا جائے۔ لارڈ میو کو لایا گیا اور نچلی ذات کا خاکروب آگے بڑھا اور اس نے بیل کی پچھلی ٹانگوں سے موٹی رسی باندھ دی اور دوسرا سرا ہاتھی کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ اس دوران ہاتھی نے ذرا سی بھی توجہ نہیں دی۔ جب سارا کام پورا ہو گیا تو بیل کی لاش ہاتھی سے چھ یا سات گز دور تھی۔
مہاوت کے اشارے پر لارڈ میو روانہ ہوا اور جونہی اس نے اپنے پیچھے وزن محسوس کیا تو گھبرا کر تیزی سے بھاگ کھڑا ہوا۔ بیل کی لاش سلیپر کے ڈھیروں کے درمیاں اچھلتی اور ٹکراتی ہوئی گزرنے لگی۔ اس طرح بھاگتے ہوئے ہاتھی کا رخ ۳۰۰ گز دور جنگل کی سمت تھا۔ سلپیر ہر طرف اچھل رہے تھے۔ خوش قسمتی سے وہاں کچھ لکڑہارے موجود تھے جنہوں نے شور مچا کر اسے واپس بھیجا۔ تاہم اب ہاتھی نے واپس لوٹنے کی بجائے میدان کا رخ کیا اور بیل کی لاش کو ایسے گھسیٹتا ہوا گیا جیسے خرگوش کی لاش ہو۔ اس کی رفتار اتنی تیز تھی کہ کوئی بھی مقامی بندہ اس سے قریب نہ پہنچ سکا۔
منظر انتہائی مزاحیہ تھا اور سارا گاؤں ہی تماشا دیکھنے آیا ہوا تھا۔ شاید لارڈ میو کا خیال تھا کہ لاش کا بھوت اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ جب تک ہاتھی جنگل کے باہر بھاگتا، مہاوت کے لیے کوئی خطرہ نہ تھا۔ راستہ ناہموار ہوتا گیا اور برسات میں بننے والے گڑھوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ اس طرح کی زمین ہاتھیوں کو سخت ناپسند ہوتی ہے کہ اس کی سطح ٹھوس نہیں ہوتی اور نیچے سے گزرنے والے پانی سے زمین کھوکھلی ہو کر ہاتھی جیسے وزنی جانور کا بوجھ سہنے کے قابل نہیں رہ جاتی۔ ہر گڑھے پر جب بیل کی لاش اچھلتی تو ہاتھی کو اور بھی زیادہ زور لگانا پڑتا اور وہ تھکنے لگا۔ دیہاتی اس کے پیچھے لگے ہوئے تھے۔ میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب ہاتھی اسی لاش کو گھماتا رہے گا تاکہ اس کی عادت ہو جائے۔ اس لیے ہم نے ہاتھی کی اگلی ٹانگوں کو زنجیروں سے جکڑ دیا تاکہ بھاگ نہ سکے اور پھر وقفے وقفے سے اسے رخ موڑ کر لاش بھی دکھاتے رہے۔ بیس منٹ میں ہی ہاتھی کو لاش کی کوئی پروا نہ رہی۔
اگرچہ ہاتھی بہت تیزی سے بھاگ سکتا ہے مگر یہ نہ تو اچھل سکتا ہے اور نہ ہی بیک وقت چاروں ٹانگیں زمین سے اٹھا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے کوئی بھی کھائی جو ہاتھی کے ایک قدم سے زیادہ لمبی ہو، ہاتھی اسے عبور نہیں کر سکتا۔ عموماً ہاتھی کا قدم چھ فٹ لمبا ہوتا ہے اور سات فٹ لمبی کھائی اسے روکنے کے لیے کافی رہے گی۔
اگرچہ ہاتھی کی طاقت بہت زیادہ ہوتی ہے مگر ہاتھی شاید ہی کبھی اسے استعمال کرتا ہو۔ ہاتھی پکڑنے والے احاطے کی دیواروں پر اگر سارے ہاتھی مل کر زور لگائیں تو اسے توڑ سکتے ہیں مگر یا تو ہاتھی مل کر کام کرنا نہیں جانتے یا پھر انہیں اپنی اجتماعی طاقت کا علم نہیں ہوتا۔
اسی وجہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہاتھی اتنے بھی وحشی نہیں کہ جتنا انہیں سمجھا جاتا ہے۔ کھیڈا کے بارے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کہ بہت سی جگہوں پر اس کی مدد سے جنگلی ہاتھی پکڑے جاتے ہیں۔ اگرچہ سائیلون (سری لنکا) میں کھیڈا زمانہ قدیم سے چلا آ رہا ہے مگر سنہالی لوگ اس معاملے میں ہندوستان سے بہت پیچھے ہیں۔ ہندوستان میں کھیڈا کے احاطے کے ساتھ اندرونی جانب گڑھے کھودے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ہاتھی احاطے پر پورا زور نہیں لگا سکتے جبکہ سائیلون میں اس چیز سے صرفِ نظر کیا جاتا ہے اور اکثر ہاتھی احاطہ توڑ کر فرار ہو جاتے ہیں۔ سائیلون میں بوڑھے ہاتھی کو بیکار سمجھتے ہوئے صرف نوجوان ہاتھی ہی پالے جاتے ہیں جبکہ ہندوستان میں کوئی بھی ہاتھی بیکار نہیں مانا جاتا اور بوڑھے ہاتھی بھی اتنی ہی آسانی سے سدھائے جا سکتے ہیں جتنا کہ نوجوان ہاتھی۔
ہندوستان میں ڈھاکہ میں سب سے بڑا کھیڈا ہوتا ہے اور پچھلے سال سینڈرسن کی زیرِ نگرانی جاڑو پہاڑیوں سے ۴۰۴ ہاتھی پکڑے گئے جن میں سے ۱۳۲ محض ایک ہی کھیڈے سے آئے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایک ضلعے سے ہر سال اتنے ہاتھی پکڑے جا سکتے ہیں اور اگر یہ کام جاری رہا تو چند سال بعد ہاتھی کا نام و نشان تک نہ بچے گا۔ تاہم برما میں بہت وسیع جنگل پھیلا ہوا ہے اور ہاتھی ہجرت کرتے ہیں اور مخصوص پھلوں کی تلاش میں پھرتے رہتے ہیں۔
پرندے، جنگلی جانور یا مچھلیاں، ان کی سالانہ ہجرت انسانی سمجھ سے باہر ہے۔ کیسے یہ سب جانور ایک دوسرے کو سمجھاتے ہیں کہ کب روانہ ہونا ہے۔ انگلستان میں چڑیوں کی ہجرت ایک معمہ ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں تاروں پر بیٹھے پرندے اچانک ایک روز غائب ہو جاتے ہیں۔
میں نے محض ایک بار ہاتھیوں کو ہجرت کرتے یا ہجرت کے فوراً بعد دیکھا ہے جو افریقہ میں تھا۔ ہم لوگ غیر آباد علاقے میں تیس میل دور جا رہے تھے اور گھاس کے وسیع و عریض قطعے کے عین درمیان ہمیں ہاتھیوں کا ایک بہت بڑا جھنڈ دکھائی دیا۔ یہ ہاتھی دس سے سو کے گروہوں میں بکھرے ہوئے تھے اور کہیں کہیں اکیلے نر بھی دکھائی دے جاتے۔ کئی گروہ تو بیس سے تیس تک بڑے دانتوں والے نروں پر مشتمل تھے تو کہیں محض مادائیں اور مختلف عمروں کے بچے ملے۔ یہ نظارہ کم از کم دو میل تک دکھائی دیتا رہا اور ہم ان سے چوتھائی میل کے فاصلے سے گزرے۔
ان کی درست تعداد کا اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ نمعلوم یہ گروہ کتنی دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ اب میں سوچتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ ایک بار میں نے وسطی افریقہ کے ایک مقام پر ۳٫۲۰۰ ہاتھی دانت دیکھے تھے جو کم از کم ۱٫۶۰۰ ہاتھیوں کی ہلاکت کا سبب بنے ہوں گے۔
ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ جب ہاتھی دانت محض داستانوں کا حصہ بن کر رہ جائیں گے کہ رسد کبھی بھی طلب کے برابر نہیں ہو پائے گی۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ افریقہ کے وحشی کبھی بھی جانور پالنے کے حق میں نہیں اور پچھلی صدی کے شکاریوں کی مانند انہیں محض قتل کا شوق ہے۔ جہاں کہیں ہاتھیوں کا بڑا گروہ ان وحشیوں کے ہتھے چڑھتا ہے تو وہ پورے گروہ کو شکار کر لیتے ہیں۔
ہاتھیوں کی ہلاکت کے لیے کئی طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ سب سے عام طریقہ خندق یا گڑھا ہوتا ہے کہ اس کو بنانا سہل تر اور کامیابی یقینی ہوتی ہے۔ ہاتھیوں کو بہت پیاس لگتی ہے اور وہ بڑے گروہوں کی شکل میں دریا کو جاتے ہیں۔ عموماً رات کے وقت وہ ہمیشہ اپنے مخصوص راستوں پر چل کر نہانے اور پیاس بجھانے جاتے ہیں۔ سو ان کے راستے میں کئی گڑھے کھود دیے جاتے ہیں۔ ان کی شکلیں فرق ہوتی ہیں مگر گول گڑھے عموماً زیادہ موثر ہوتے ہیں کہ ہاتھی سیدھا سر کے بل گرتا ہے۔ تاہم میں نے گول سے ہٹ کر بھی کئی شکلوں کے گڑھے دیکھے ہیں۔
سو دریا کو جانا ہمیشہ خطرناک ہوتا ہے اور ہمیشہ چند مقامیوں کو پہلے راستے کی چھان بین کے لیے روانہ کر دینا چاہیے۔ عموماً یہ گڑھے بارہ سے چودہ فٹ گہرے ہوتے ہیں اور ان کے اوپر ہلکی لکڑیاں رکھ دی جاتی ہیں۔ اس کے بعد سرکنڈے یا پتلی شاخیں ڈال کر اس پر لمبی اور خشک گھاس ڈالی جاتی ہے اور پھر اس کے اوپر ہلکی سی مٹی اور پھر ہاتھی کا گوبر ڈال دیا جاتا ہے۔ پھر تھوڑی سی سبز گھاس ڈال کر یہ پھندہ مکمل کر دیا جاتا ہے۔ رات ہوتی ہے اور سارے دن کے پیاسے ہاتھی دریا کا رخ کرتے ہیں۔ جونہی وہ ڈھلوان سطح پر پہنچتے ہیں تو ان کی رفتار بڑھ جاتی ہے اور سب سے اگلا ہاتھی پہلے گڑھے میں گرتا ہے۔ اس کے دائیں اور بائیں جانب والے ساتھی ڈر کے مارے بھاگتے ہیں تو ان کے لیے اطراف میں مزید گڑھے موجود ہوتے ہیں۔ سو کئی اور ہاتھی بھی گر جاتے ہیں۔ جب اگلی صبح شکاری پہنچتے ہیں تو ہاتھیوں کا معائنہ کرتے ہیں۔ پھر اس بے بسی کی حالت میں ہاتھیوں کو نیزے مار مار کر مار دیا جاتا ہے۔
ایک اور خوفناک طریقہ بھی وسطی افریقہ میں استعمال ہوتا ہے۔ خشک سالی میں جب سوکھی ہوئی جھاڑیاں اور گھاس دس سے چودہ فٹ اونچی ہوتی ہے اور جب بھی کسی کو ہاتھیوں کا گروہ اس کے اندر دکھائی دے تو وہ فوراً قریبی بستی کو اطلاع کرتا ہے اور سبھی شکار کے لیے آ جاتے ہیں۔ اس طرح وہ گھاس کے گرد لگ بھگ دو میل جتنا گول دائرہ بنا لیتے ہیں اور پھر اسے دائرے کی شکل میں آگ لگا دیتے ہیں۔ فطری طور پر ہاتھی آگ سے بہت ڈرتے ہیں اور جب بھی گھاس وغیرہ جلتی ہے تو اس کے تنوں کے جوڑ پھٹنے کی آواز ہاتھیوں کے اوسان خطا کر دیتی ہے۔ ہاتھی بڑھتی ہوئی آگ کی وجہ سے درمیان کو بڑھتے جاتے ہیں اور آخرکار انہیں اپنی بے بسی کا احساس ہو جاتا ہے۔ خوف سے پاگل ہوئے ہاتھیوں کو ہر طرف سے ہزاروں انسانوں نے گھیرا ہوا ہوتا ہے۔
آخرکار دھوئیں سے بے دم اور قریب آتی آگ سے پریشان ہو کر ہاتھی آگ کو عبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس دوران دھوئیں کی وجہ سے نہ تو دکھائی دے رہا ہوتا ہے اور نہ ہی وہ سانس لینے کے قابل ہوتے ہیں۔ اس کے بعد باہر منتظر شکاری نیزوں سے ان کا شکار شروع کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات سو یا اس سے بھی زیادہ ہاتھی اس طرح ایک وقت میں شکار کر لیے جاتے ہیں۔
گوشت کو لمبی پٹیوں کی شکل میں کاٹ کر اسے گیلی لکڑی کے دھوئیں پر پکایا جاتا ہے اور شکار میں آنے والی تمام بستیوں میں یہ گوشت بانٹ دیا جاتا ہے۔ ہاتھی دانت بھی تقسیم ہوتے ہیں اور ان کی ایک مخصوص تعداد سرداروں اور رہنماؤں کو دی جاتی ہے۔
جب انسان کسی جانور کے خلاف اٹھ کھڑا ہو تو اس جانور کی تباہی اٹل ہے۔ اگر ہم بارودی اسلحہ ایک طرف رکھ بھی دیں تو بھی جانور انسان کی عقل کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ تاہم اگر جانوروں کو کسی علاقے سے ختم کرنا یا بھگانا ہو تو انسانوں کی تعداد جانوروں سے کافی زیادہ ہونی چاہیے۔ میرے مشاہدے کے مطابق جنگلی جانور جنگلی انسانوں کے تمام تر حربوں بشمول گڑھوں، پھندوں، آگ اور دیگر سے بچ کر بھی زندہ رہ سکتے ہیں مگر بارودی اسلحے کا مقابلہ ان کے بس سے باہر ہے۔ بارودی دھماکے سے فوراً ہی جانوروں کو خطرے کا احساس ہو جاتا ہے۔ اگرچہ ہر جانور پیدائش سے ہی آسمانی بجلی کی گرج سنتا آتا ہے مگر بارودی دھماکے سے ہمیشہ خبردار ہو جاتا ہے۔
سائیلون میں گزرے بہت برس میں نے اسی چیز پر تحقیق کی تھی کہ اس کا بالخصوص ہاتھی پر کیا اثر ہوتا ہے۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ ہاتھی کیسے ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہیں مگر کسی جگہ چند روز شکار کھیل لیا جائے تو بہت بڑے علاقے سے شکار ایک دم غائب ہو جاتا ہے۔ میں نے سائیلون میں پارک نما علاقے میں بے شمار ہاتھیوں کے قدموں کے نشانات دیکھے ہیں کہ وہ اکٹھے ہو کر کیسے غیر محفوظ علاقہ چھوڑ جاتے ہیں۔ ایک بار میں ایک علاقے میں جب پہنچا تو ان دنوں گھاس جلنے کے بعد دو فٹ اونچی اگ آئی تھی اور ہاتھیوں سے پورا علاقہ بھرا ہوا تھا۔ میرے بھائی جنرل ویلنٹائن بیکر اور میں نے ۳۲ ہاتھی ایک ہفتے میں شکار کیے اور ایک دوست کو بھی شکار کی دعوت دی کہ بہترین شکار ہوگا۔ تاہم پانچ یا چھ دن بعد جب دوست پہنچا تو پورے علاقے میں دو تین بوڑھے نر ہاتھیوں کے سوا کچھ باقی نہ تھا۔
ہر شام رائفلیں صاف کرنے سے قبل ہم انہیں چلا کر خالی کرتے تھے۔ شاید ان دھماکوں کی وجہ سے اور پورے ہفتے کے شکار کی وجہ سے ہاتھی اس علاقے کو چھوڑ کر چلے گئے۔ فطریات کے طالبعلموں کے لیے ہاتھی ہمیشہ حیرانی کا سبب بنتے ہیں کہ اکثر ایسی جگہیں کہ جہاں ہاتھیوں کی موجودگی کے تمام ممکنہ اسباب دکھائی دیتے ہیں، وہ خالی نکلتے ہیں اور انسان سوچتا ہے کہ اتنے بڑے علاقوں میں اور اتنی زیادہ تعداد میں ہاتھی ہوں تو ان میں ظاہر ہے کہ بیمار ہاتھی بھی دکھائی دیں گے۔ تاہم اتنے برس افریقہ یا ایشیا میں ہاتھیوں کا شکار کرنے کے باوجود مجھے ایک بار بھی نہ تو کوئی ہاتھی بیمار دکھائی دیا اور نہ ہی فطری موت سے مرا ہوا ہاتھی۔ ایک بار میں نے مرے ہوئے ہاتھی کی لاش دیکھی تھی جو دوسرے نر کے ساتھ لڑائی میں شدید زخمی ہو کر مرا تھا۔
مقامی افراد مانتے ہیں کہ جب ہاتھی بہت بوڑھا ہو جائے تو جنگل میں کسی خاموش جگہ رہ کر سکون سے موت کا انتظار کرتا ہے۔ زیادہ تر جانور ایسا ہی کرتے ہیں اور ان کی لاشیں یا ہڈیاں ہمیشہ پانی کے آس پاس دکھائی دیتی ہیں کہ مرتے ہوئے وہ پیاس بجھانے آتے ہیں۔
بیل کے خاندان میں بے شمار وبائی امراض ہوتے ہیں اور بہت مرتبہ میں نے بے شمار مرے ہوئے بھینسوں کی لاشیں بہت بڑے علاقے میں پھیلی ہوئی دیکھی ہیں اور تعفن کے مارے سانس لینا محال ہو جاتا ہے۔ چند سال قبل ہندوستان میں رائے پور کے ضلعے میں بائزن میں ایسی وبائی بیماری شروع ہوئی اور بہت سارے علاقوں میں پھیل گئی۔ اس وبا سے بیل کے خاندان میں تو تباہی پھیلی مگر ہرنوں کی نسل بالکل محفوظ رہی۔ سائنسی اعتبار سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ بعض بیماریاں محض ایک خاندان کے جانوروں کو تو بیمار کرتی ہیں مگر دوسرے خاندان پر اثر نہیں ہوتا۔ یہی اصول پودوں کی بیماریوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
آزاد حالت میں ہاتھی کے صحت یاب ہونے کی معجزانہ صلاحیت ہوتی ہے۔ اگرچہ انہیں جراحت کا کوئی علم نہیں مگر وہ اپنے زخموں پر کیچڑ کا لیپ کر دیتے ہیں یا پھر سونڈ کی مدد سے مٹی کا چھڑکاؤ کرتے ہیں۔ مٹی اور کیچڑ ہی ان کی واحد دوا ہے جو انتہائی معمولی سے لے کر انتہائی بڑی تکلیف تک استعمال ہوتی ہے۔ اگر ہاتھی کی کمر پر ہلکی سی خراش یا رگڑ ہو تو ہاتھی سونڈ سے اس مقام پر مٹی پھینکتا ہے۔ اگر مہاوت نے آنکس کا بے رحمانہ استعمال کیا ہو تو ہاتھی کو جونہی موقع ملے، وہ زخموں پر مٹی چھڑکتا ہے۔ ایک بار میں نے ایک ہاتھی کو تالاب کی تہہ سے کیچڑ نکال کر گولی کے زخم پر لیپ کرتے دیکھا تھا۔ اس طرح زخم پر مکھیاں نہیں بیٹھتیں۔ اگر کسی جانور کے زخم پر مکھیاں بیٹھ جائیں تو اس میں کیڑے پڑ جاتے ہیں۔ ہاتھی کی سونڈ اس سلسلے میں بہت فائدہ مند ہے کہ یا تو وہ مطلوبہ مقام تک پہنچ جاتی ہے یا پھر اس جگہ مٹی چھڑکنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ انگلستان میں چرواہوں کو علم ہے کہ جب ان کی بھیڑوں کے زخم میں کیڑے پڑتے ہیں تو کتنی مشکل ہوتی ہے۔ تاہم پالتو جانوروں کے مالک ہاتھ سے کیڑے ہٹا سکتے ہیں مگر ایسے جنگلی جانور کا عمومی انجام موت ہوتا ہے۔ استوائی خطوں میں ایک خاص مکھی پائی جاتی ہے جو سائیلون میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ یہ مکھی انڈے کی بجائے بچے دیتی ہے۔ اس طرح یہ خوفناک مکھی پیدا ہوتے ہی جانور کو کھانا شروع کر دیتی ہے اور زخم کے اندر گھس کر چوبیس گھنٹے میں کافی بڑی ہو جاتی ہے۔ نتیجتاً بہت بڑا زخم بن جاتا ہے۔ اس کا بہترین علاج زخم پر چائے کا ایک چمچ مرکری کلورائیڈ ڈال کر اچھی طرح مالش کی جائے۔
میں نے سوڈان میں دیکھا ہے کہ جب اونٹ کی پشت پر کیڑوں بھرا زخم پڑ جائے تو عرب انتہائی ظالمانہ طریقے سے اس کا علاج کرتے ہیں۔ ایک بار میں نے ایک اونٹ کو بیٹھا دیکھا جس کی کوہان پر گہرا زخم تھا اور اس کے آس پاس لوگ جمع تھے۔ پتہ چلا کہ اس کا علاج ہونے جا رہا ہے۔ زخم چار یا پانچ انچ گہرا اور اتنا ہی چوڑا تھا اور اس میں کیڑے بھرے ہوئے تھے۔ جراح کوئلے دہکا رہا تھا۔ جب کوئلے لال انگارہ بن گئے تو اس نے ٹھیکری میں اٹھائے اور مہارت کے ساتھ کوہان کے زخم پر انڈیل دیے۔ بیچارہ اونٹ حواس باختہ اٹھا اور تکلیف سے چلاتا ہوا بھاگ پڑا۔ کوئلے اس کے گوشت کو جلا رہے تھے اور ظاہر ہے کہ کیڑے بھی جل کر مر گئے ہوں گے۔
عربوں کے نزدیک سب سے بہتر علاج آگ ہے اور زخموں کو داغنا بہترین علاج مانا جاتا ہے اور اس کی ناکامی کا تصور بھی نہیں۔
اگر اندرونی سوجن ہو تو سطح کو داغا جاتا ہے۔ اگر ناروا نکلنے کا شبہ ہو تو متعلقہ عضو پر کئی جگہ لال انگارہ سلاخ سے داغا جاتا ہے۔ پھر کسی ایک داغ والی جگہ سے ناروا نکل آتا ہے اور ہلکی سی پیپ اور سوجن کے بعد مسئلہ ختم ہو جاتا ہے۔ یہ بیماری سوڈان میں عام پائی جاتی ہے اور آلودہ پانی پینے سے لاحق ہوتی ہے۔ صحرا میں طویل عرصے بعد بارش ہوتی ہے تو خشک زمین پر جگہ جگہ تالاب بن جاتے ہیں۔ مقامی انہیں ہاتھ تک نہیں لگاتے کہ ان میں لازمی طور پر ناروے کے انڈے ہوتے ہیں۔ یہ انڈے انسانی جسم میں پہنچ کر پکتے ہیں اور پھر کیڑے نکل آتے ہیں۔ اب انڈوں سے بچے معدے میں نکلتے ہیں یا آنتوں میں، اس کا تو علم نہیں مگر بیماری تکلیف دہ ہوتی ہے۔
مریض کو بازو یا ٹانگ میں درد ہوتا ہے اور بہت زیادہ سوج جاتا ہے۔ شدید درد اور سوجن کی وجہ سے مقامی طبیب کو دکھاتے ہیں۔ طبیب فوراً فیصلہ کرتا ہے کہ ناروے کو نکلنے کا راستہ درکار ہے اور وہ متعلقہ عضو پر پانچ یا چھ جگہوں پر لال انگارہ سلاخ سے داغ دیتا ہے۔ چند روز بعد کیڑے کا منہ نکل آتا ہے اور اسے پکڑ کر کسی تنکے پر لیپٹ دیا جاتا ہے۔ ہر روز اس طرح مزید کیڑا باہر نکلتا رہتا ہے اور اسے تنکے پر لیپٹتے رہتے ہیں۔ تاہم کافی خیال کرنا پڑتا ہے کہ اگر کیڑا ٹوٹ جائے تو باقی حصہ باہر نہیں نکلے گا اور مزید تکلیف کا سبب بنے گا۔ عجیب بات ہے کہ یہ بیماری صرف انسانوں کو لاحق ہوتی ہے اور دیگر جانور محفوظ رہتے ہیں۔ تاہم جانوروں کو اور بہت سے طفیلیے تنگ کرتے ہیں۔ ہاتھیوں میں پیٹ کے کیڑے پائے جاتے ہیں۔ ایک بار میں نے گولی کے سوراخ سے ایسے کیڑے نکلتے دیکھے تھے مگر ہاتھی بالکل تندرست دکھائی دیا۔
ابی سینیہ کی سرحد پر ایک چاندنی رات میں مقامی فصلوں کی رکھوالی کے لیے بیٹھا تھا کہ جنگلی ہاتھی وہاں تباہی پھیلانے آتے تھے۔ تاہم یہاں سے قریب ترین جنگل بھی کم از کم ۲۰ میل دور تھا۔ ہاتھی سورج ڈوبتے ہی روانہ ہو جاتے تھے اور دس بجے کے قریب جوار کے کھیتوں میں پہنچ جاتے۔ چونکہ مقامیوں کے پاس آتشیں اسلحہ نہیں تھا، سو وہ شور مچاتے اور مشعلوں سے ہاتھیوں کو بھگانے کی کوشش کرتے تھے۔ ہاتھیوں کو اس سے زیادہ فرق نہ پڑتا تھا اور ایک مقام سے ہٹتے تو تھوڑی دور دوسری جگہ پیٹ بھرنے لگتے اور فصل کو بہت نقصان پہنچاتے کہ فصل پکنے کے قریب ہوتی تھی۔ جوار کی فصل دس سے بارہ فٹ اونچی ہوتی ہے اور اس کے تنے گنے سے مماثل ہوتے ہیں۔ اس کی بالی میں ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے چھوٹے بیج ہوتے ہیں۔ ہاتھیوں کو یہ بہت پسند ہے اور طویل فاصلہ طے کر کے وہ اسے کھانے آتے ہیں اور سورج نکلنے سے قبل اپنے ٹھکانے کو لوٹ جاتے ہیں۔
مجھے رات کو شکار پسند نہیں مگر مقامیوں کی مدد کا کوئی اور طریقہ بھی نہیں تھا۔ سو میں رات کو کاشت شدہ زمینوں پر جا کر بیٹھ گیا جو کئی میل پھیلی ہوئی تھی۔ رات پرسکون ہوتی ہے اور کسی قسم کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ جھینگر کی آواز بھی بہت اونچی لگتی تھی۔ آخرکار ایسی آواز آئی جیسے ہوا کا جھونکا آیا ہو۔ عین ممکن ہے کہ یہ جھونکا ہی ہوتا مگر ساتھ ہی ہمیں جوار کے تنے ٹوٹنے کی آواز سنائی دی جس سے واضح ہو گیا کہ ہاتھی پہنچ گئے ہیں۔
جوار کی فصل میں پودوں کی قطاریں تین تین فٹ کے فاصلے پر ہوتی ہیں اور زمین بالکل مسطح تھی۔ اس لیے جہاں سے آواز آئی تھی، وہاں تک خاموشی سے جانا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ ہاتھی پیٹ بھرتے تیزی سے ہماری جانب آ رہے تھے اور چند منٹ میں پچاس گز دور پہنچ گئے۔ میں فوراً اس سمت دوڑا اور جلد ہی ہاتھی کا تاریک سا ہیولہ ساتھ والی قطار میں دکھائی دیا۔ چار یا پانچ گز کے فاصلے سے ہاتھی اچانک میری سمت مڑا اور میں نے اس کے کان کے پیچھے گولی اتار دی۔ میرے پاس دس بور کی رائفل تھی اور مکھی پر سفید کاغذ باندھا ہوا تھا جو صاف چاندنی میں واضح دکھائی دے رہا تھا۔ ہاتھی عین اسی جگہ گرا اور جنبش تک نہ کی۔
جب تک میرے ساتھی قریب آتے اور میں رائفل بھرتا، چند منٹ گزر گئے۔ پھر میں رائفل بھر کر ہاتھیوں کے پیچھے گیا۔
فرار کے بعد ہاتھی زیادہ دور نہیں گئے تھے کہ انہیں بندوقوں سے پہلے کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا۔ ظاہر ہے کہ بیس میل کے طویل سفر کے بعد وہ اپنا پسندیدہ کھاجا اتنی آسانی سے چھوڑنے والے نہیں تھے۔ پہلے ہاتھی سے پون میل دور جہاں مزروعہ زمین ختم ہو رہی تھی، وہاں ہاتھی دوبارہ دکھائی دیے۔ یہاں پہنچ کر ہاتھی شاید منتظر کھڑے تھے کہ مداخلت ختم ہو تو وہ واپس پیٹ بھرنے جائیں۔ دس یا بارہ ہاتھی ایک جگہ اکٹھے کھڑے تھے۔ یہاں سے ان کا فاصلہ زیادہ نہیں تھا، سو میں نے سوچا کہ اگر میں ان کی سمت دوڑ لگا دوں تو ان کے خبردار ہونے تک قریب پہنچ چکا ہوں گا۔ سو میں بھاگا مگر حیرت دیکھیے کہ دو ہاتھی سیدھے میری جانب بڑھے۔ میں نے دونوں نالیاں چلا دیں۔ ایک ہاتھی زمین پر گرا اور پھر اٹھ گیا جبکہ دوسرا مڑا اور واپس غول میں جا گھسا۔
اُس رات میں نے ۱۰ بور کی دو نالی رائفل استعمال کی تھی جس میں مخروطی گولی پڑتی تھی۔ یہ گولی بارہ حصے سیسے، ایک حصہ پارے سے بنتی تھی اور سات ڈرام بارود پڑتا تھا۔
چند روز بعد مجھے مقامیوں نے ایک شدید زخمی ہاتھی کے بارے بتایا جو مشکل سے چل رہا تھا۔
اس واقعے کے ۴۲ دن بعد ہم نے ۲۲ میل دور جیرا نامی مقام پر کیمپ لگایا۔ دریائے سیتیت کے کنارے واقع یہ جگہ غیر آباد تھی اور یہاں خاردار درختوں کا ناقابلِ عبور جنگل تھا۔ عرب اس قسم کے درخت کو کِتل کہتے تھے۔ یہ درخت پچیس فٹ تک اونچا ہوتا ہے مگر اوپر جا کر بہت پھیل جاتا ہے۔ اس کی شاخیں موٹی ہوتی ہیں اور لکڑی سخت اور انتہائی مضبوط ہوتی ہے۔ اس کے کانٹے مڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ خاردار جنگل ہاتھیوں کی پسندیدہ آماج گاہ ہوتی ہے اور یہاں سے نکل کر ہاتھی رات کو بیس میل دور جوار کھانے جاتے ہیں۔
وہ رات ہم نے ایک نالے کی ریتلی تہہ میں سو کر گزاری کہ خشک سالی کی وجہ سے نالا خشک تھا۔ اگلی صبح شبنم کی وجہ سے ہمارے کمبل پوری طرح بھیگ چکے تھے۔ کیمپ لگانے کے بعد میں نے لیڈی بیکر کو وہیں کام کی دیکھ بھال پر چھوڑا اور خود اپنی رائفلیں اور چند ہمراہی لے کر علاقے کا جائزہ لینے نکلا۔
دریا سرخی مائل چونے کے پتھر کے پہاڑ سے اتر رہا تھا اور پانی بتدریج سفید ہوتا گیا۔ ہم اس کے ریتلے کنارے پر شکار کے پگوں کی تلاش کرتے رہے۔ ایک میل بعد ہمیں ہاتھیوں کے پگ ملے جو پانی پینے کے بعد واپس لوٹ گئے تھے۔ مجھے یقین تھا تھا کہ ان کا رخ مندرجہ بالا خاردار جنگل کی طرف ہوگا۔
چونکہ اور کچھ کرنے کا نہیں تھا، سو ہم نے ان نشانات کا پیچھا جاری رکھا اور جنگل تک آن پہنچے۔ یہاں محض ان مقامات سے اندر گھس سکتے تھے جہاں سے جنگلی جانوروں نے آمد و رفت سے کچھ تنگ سے راستے بنا دیے تھے۔ کئی جگہ بیٹھ کر تو کئی جگہ رینگ کر ہمیں چلنا پڑا۔ جگہ جگہ کانٹے راہ روک دیتے۔ جلد ہی ہمیں ہاتھیوں کے قریب ہونے کی نشانیاں ملنے لگیں۔ مقامی رہنما اپنے ننگے پیر ہاتھی کے گوبر میں گھسیڑ کر اس کی تازگی دیکھتے۔ جب گرم گوبر ملنے لگا تو یقین ہو چلا کہ ہاتھی قریب ہوں گے۔ پیش قدمی مزید محتاط ہو گئی۔ جنگل اتنا گھنا تھا کہ پیش قدمی محال ہو گئی۔ میں نے موٹی قمیض پہنی ہوئی تھی جو پھٹتی نہیں۔ اس کی آستینیں کہنی سے ذرا اوپر تک تھیں۔ نہ صرف قمیض بلکہ میری جلد بھی جگہ جگہ کانٹوں سے الجھ جاتی۔ ایک جگہ پہنچ کر لگا کہ اب مزید آگے نہیں بڑھ سکتے۔ عین اسی وقت قریب سے ہاتھی کی چنگھاڑ اور پھر حرکت کرنے کی آوازیں سنائی دیں۔ سارا غول جمع ہو کر فرار ہونے والا تھا۔
اس وقت شکار کرنا بہت اچھا ہوتا مگر سارے ہاتھیوں کی پیٹھ ہماری جانب تھے، سو ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے بڑے بڑے ولندیزی بحری جہاز ہمارے سامنے ہوں۔ ان سے آگے نکلنا ممکن نہ تھا۔ ایک ہتھنی اچانک مڑی اور حملہ کر دیا۔ خوش قسمتی سے میری گولی سیدھی اس کے ماتھے پر لگی اور دماغ میں ترازو ہو گئی۔ پھر میں نے نصف پاؤنڈ والی دوسری رائفل اٹھائی اور غول کے سب سے بڑے ہاتھی کے پہلو پر آخری پسلی کے بعد والی جگہ پر چلا دی۔ یہ گولی ترچھی لگی اور مجھے توقع تھی کہ یہ پھیپھڑوں سے گزرے گی۔ مجھے ہاتھی کا آگے کا حصہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
جنگل اتنا گھنا تھا کہ ہاتھیوں کو بھی راستہ بناتے ہوئے کچھ وقت لگا۔ آخرکار ہاتھی اسے روندتے ہوئے بھاگے۔ ان کے گزرتے ہی راستہ پھر بند ہو گیا۔ ہمیں یقین تھا کہ دوسرے ہاتھی کو جو پھٹنے والی گولی لگی ہے، وہ بچ نہیں سکے گا۔ سو مشکلوں سے راستہ بناتے ہم بڑھے تو ڈیڑھ سو گز کی دوری پر وہ ہاتھی مرا ہوا ملا۔
ساری صبح دونوں ہاتھیوں کا گوشت کاٹنے اور گولیوں کے زخم وغیرہ کا معائنہ کرنے میں گزری۔
ہم نے دیکھا کہ دوسرے ہاتھی کو لگنے والی گولی پھیپھڑوں میں جا کر پھٹی اور وہاں ہمیں ایک گولی کا بھی نشان ملا جو سینے میں گھسی مگر دل اور پھیپھڑوں سے بچ کر معدے سے ہوتی ہوئی ران میں پیوست ہو گئی۔ وہاں کے بڑے پٹھوں میں گولی پھیل کر رک گئی۔
کچھ وقت صرف کرنے کے بعد مجھے نہ صرف گولی کا پورا راستہ دکھائی دے گیا بلکہ میں نے ران میں پیپ بھرے زخم سے گولی بھی نکال لی۔ بظاہر کچھ عرصے بعد یہ پیپ خودبخود جذب ہو کر ختم ہو جاتی۔ حیرت کی بات دیکھیے کہ یہ میری اپنی دس بور کی مخروطی گولی تھی جو میں نے ۴۲ روز اور ۲۲ میل دور قبل رات کے وقت ہاتھی پر چلائی تھی۔ یہ گولی بارہ حصے سیسے اور ایک حصہ پارے سے بنی تھی۔
اس ہاتھی کی عظیم جسامت دونوں مرتبہ ہی پورے جھنڈ میں میری توجہ کا مرکز بنی تھی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ ہاتھی اتنا بڑا زخم کھا کر کیسے صحت یاب ہوا ہوگا۔ جسم کے اندر معدے کے زخم کے نیچے بالدار سنڈیاں اور کیڑے موجود تھے جو دو انچ لمبے تھے۔ مزید دیکھا تو معدے میں اور بھی کئی اقسام کے کیڑے اور دیگر طفیلیے موجود تھے۔ اس سے ہاتھی کو پہنچنے والے شدید زخموں سے بھی صحت یاب ہونے کی قوت کا پتہ چلتا ہے۔
مقامی افراد ہاتھیوں کو شکار کرنے کے لیے ان پر درخت کی شاخ سے بہت بڑے بھالے نما خنجر گراتے ہیں۔ اس کا پھل دو فٹ لمبا اور تین انچ موٹا ہوتا ہے اور دو دھاری ہوتا ہے۔ اس پر ڈیڑھ فٹ لمبا دستہ لگا ہوتا ہے اور دستے کے سرے پر دس سے بارہ پاؤنڈ وزنی بھوسے ملے گارے کی گیند لگی ہوتی ہے۔ جب ہاتھیوں کا جھنڈ کسی جگہ دکھائی دے تو شکاری اکٹھے ہوتے ہیں اور اس طرح کے خوفناک ہتھیار لے کر بڑے اور سایہ دار درختوں پر چھپ جاتے ہیں۔ بہت بڑے شکار کے دوران کئی سو درختوں پر اسی طرح شکاری چڑھے ہوتے ہیں۔ جب یہ انتظام ہو جائے تو ہاتھیوں کو بھگایا جاتا ہے اور ہاتھی جنگل میں بچاؤ کے لیے گھس جاتے ہیں۔
ہاتھیوں کی عادت ہے کہ اس طرح جب تنگ کیا جائے تو وہ بڑے درختوں کے نیچے پناہ لیتے ہیں اور یہ نہیں جان پاتے کہ ان کے شکاری اوپر پہلے سے ہی موجود ہیں۔ جب ہاتھی عین نیچے پہنچتا ہے تو شکاری اپنا ہتھیار اس طرح گراتا ہے کہ شانے سے ذرا پیچھے لگتا ہے اور دستے تک دھنس جاتا ہے کہ اسے دس یا بارہ فٹ کی بلندی سے چھوڑتے ہیں۔
بسا اوقات بہت سے ہاتھی ایک ہی درخت کے نیچے کھڑے ہوتے ہیں اور ان میں سے کئی اس طرح زخمی ہو جاتے ہیں۔ یہ طریقہ ہاتھیوں کے لیے بالخصوص مہلک ہوتا ہے کہ ہاتھی گھنے جنگل میں بھاگتا ہے تو اس ہتھیار کا دستہ اور مٹی کا گولہ شاخوں سے ٹکراتا جاتا ہے اور مزید زخمی کرتا جاتا ہے۔ اگر یہ ہتھیار درست مقام پر لگے تو ہاتھی کا بچنا ممکن نہیں رہتا۔
ہاتھی سے زیادہ مستقل مزاجی سے کسی اور جانور کا شکار نہیں کیا جاتا کہ افریقیوں کے لیے یہ بہت زیادہ خوراک مہیا کرتا ہے اور کھال سے ڈھال بنتی ہے۔ اس کی چربی بھی اہمیت رکھتی ہے اور ہاتھی دانت کی قیمت تو عیاں ہے ہی۔ افریقہ میں ہاتھی کا کوئی بھی حصہ ضائع نہیں ہوتا مگر سائیلون ہاتھی کی ہلاکت کے بعد اسے وہیں سڑنے کو پھینک دیا جاتا ہے۔
یورپی تاجر پیشہ ور شکاریوں کو ہاتھی شکار کرنے کے لیے ملازم رکھتے ہیں اور ان شکاریوں کے پاس بہت بھاری بندوقیں یا رائفلیں ہوتی ہیں جو کسی سہارے پر ٹکا کر چلاتے ہیں۔ عموماً ہاتھی سے پچاس گز دور رک کر اس کے شانے پیچھے ایک یا دو گولیاں اتار دی جاتی ہیں۔ اگر ہتھنی ہو تو وہیں گر جاتی ہے اور اگر ہاتھی ہو تو سو گز بھاگنے کے بعد گر جاتا ہے اور چونکہ پھیپھڑے زخمی ہوتے ہیں تو خون جمع ہونے سے ہاتھی دم گھٹنے سے مر جاتا ہے۔
ہاتھیوں کے سب سے بہادر شکاری عرب کے حمران شکاری ہیں۔ یہ شکاری ستیت دیرا کے ساتھ اباسینیا میں رہتے ہیں۔ ان کا واحد ہتھیار دو دھاری وزنی تلوار ہے۔ ان حیران کن شکاریوں کی تفصیل کئی سال قبل میں اپنی دوسری کتاب Tributaries of Abyssinia میں لکھ چکا ہوں مگر یہاں عنوان کی مناسبت سے ان کا مختصر تذکرہ کیے بنا چارہ نہیں۔
میں نے یہاں کا چکر ۱۸۶۱ میں لگایا تھا اور اس بارے میری تحاریر پڑھ کر بہت سارے انگریز شکار پر گئے تھے اور یہ جان کر افسوس ہوتا ہے کہ یہ تمام مشہور حمران شکاری اب زندہ نہیں رہے۔ ان کی زندگی جنگلی ہاتھیوں کے خلاف مستقل جدوجہد کا نام ہے اور یہ جدوجہد شکار کے دوران ان کی ہلاکت پر ہی ختم ہوتی ہے اور تلوار ان کے ہاتھ میں۔
پچھلی صدی کے مشہور افریقی سیاح جیمز بروس نے سب سے پہلے اباسینیا کے اگاغیری کے بارے بات کی تھی اور ان لوگوں اور ان کے علاقے کے بارے اس سے بہتر کسی نے روشنی نہیں ڈالی۔ جب میں بروس کے نقشِ قدم پر چلا تو میں نے اس کی کتاب اپنے ساتھ رکھی اور جگہ جگہ اس سے رہنمائی لی۔
تب سے مصر میں انگلستان کی قابلِ شرم مداخلت کی وجہ سے ہمیں سوڈان سے ہاتھ دھونے پڑے اور خرطوم میں جنرل گورڈن کی قیمتی جان بھی گئی اور ہمارے بنائے گئے تعلقات بھی یکسر ختم ہو کر رہ گئے۔ ماضی میں حمران شکاری جو ہمارے بہترین دوست تھے، برطانوی حکومت کی لاپرواہی سے ہمارے دشمن بن گئے۔ گزرے وقت پر نگاہ دوڑائیں تو یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ کہاں میں اور میری بیوی ایک سال تک بغیر کسی خاص ساز و سامان کے، ان لوگوں کے ساتھ سوڈان میں رہے اور ہمارے ساتھ محض ایک مصری ملازم اور چند عرب لڑکے تھے جو ہم نے صحرائی قبیلوں سے ساتھ لیے تھے۔ تب انگلستان کے بارے معلومات نہ ہوتے ہوئے بھی اس کا نام عزت سے لیا جاتا تھا۔ عرب سمجھتے تھے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور اس کی حکومت بہترین، اس کی فوجی طاقت کا کوئی جوڑ نہیں (تب ہندوستان فتح ہو چکا تھا) اور یہ کہ انگریز ہمیشہ سچ بولتے اور اپنے دوستوں کو کبھی بھی مشکل میں اکیلا نہیں چھوڑتے۔
یہ بھی عام سمجھا جاتا تھا کہ انگلستان یورپ کی واحد طاقت ہے جو مسلمانوں کی دوست ہے اور اگر انگلستان کی حمایت ختم ہو جائے تو روس شاہ کا تختہ الٹ کر مساجد کو تباہ کر دے گا اور قسطنطنیہ پر قابض ہو جائے گا۔ اس لیے انگلستان کو مسلمانوں کا دوست سمجھا جاتا تھا۔ دونوں نے مل کر روس کے خلاف جنگ لڑی تھی اور جب بھی سلطان کا حکم ہوا، مسلمان اور انگلستان پھر لڑائی کے لیے اکٹھے ہو جائیں گے۔ برطانوی مصنوعات کو خالص اور بہترین مانا جاتا تھا کہ ان اشیا کے معیار اعلیٰ ترین ہوں گے کہ اسے برطانویوں نے بنایا ہوگا۔
آج انگریز ان لوگوں کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہے۔ ساری شہرت تباہ ہو گئی ہے۔ جیسے کسی نے قلعی اتار دی ہو۔ سارا مسئلہ انتظامی نااہلی کا ہے۔ ہر ممکن طور پر ہم ناکام ہوئے ہیں۔ فوجی اعتبار سے بھی ہم ناکارہ نکلے اور ہر جنگ جو ہم نے لڑی، بری طرح شکست کھائی۔ جن افراد نے ان عرب قبائل میں وقت گزارا ہے اور ان کی محبت دیکھی ہے، ان کے لیے یہ سب تبدیلیاں مایوس کن ہیں۔ اب میں پیچھے مڑ کر اپنی غلطیوں پر نظر ڈالتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ انگلستان کے نام سے وابستہ تمام تر اعتماد غارت ہو گیا ہے۔ تمام ممالک بشمول سوڈان، کورڈوفن، دارفور وغیرہ جیسے ممالک اور ان میں بچھائی جانے والی ٹیلیگراف کی تاریں ہماری ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ ہم انہیں دشمنوں کے لیے چھوڑ آئے تھے۔ حالانکہ ذرا سی محنت سے یہ تمام ممالک ہمارے دوست بن سکتے تھے۔
ان جگہوں پر ۳۵ سال قبل اکیلی انگریز خاتون محفوظ سفر کر سکتی تھی اور اب ہر چیز تباہ ہو چکی ہے۔
انگلستان کی مصر میں آمد کا مقصد خدیو کی مدد کرنا تھا، مگر ہم نے اس کی بادشاہت تباہ کر دی اور سوڈان بھی کھو دیا۔
باب ۴
ہاتھی (جاری)
نئے تجربات کے باوجود یہ کہنا دشوار ہے کہ آیا افریقی ہاتھی کا سدھایا جانا ایشیائی ہاتھی کی نسبت زیادہ مشکل ہے یا نہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ آزاد حالت میں افریقی ہاتھی شکل صورت اور عادات میں یکسر مختلف تو ہوتا ہی ہے، بلکہ اس کی جسامت بھی زیادہ بڑی اور اسی حساب سے طاقت بھی زیادہ ہوتی ہے اور ایشیائی کی نسبت رفتار بھی زیادہ۔ افریقی ہاتھی ایشیائی کی نسبت زیادہ پھرتیلا بھی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پشت کا خلا، جھکا ہوا آگے کا بدن اور کانوں کا بہت بڑا ہونے کے علاوہ اس کی کھال زیادہ سخت ہوتی ہے اور کھال سے زیادہ کسی درخت کی چھال لگتی ہے۔
زمانہ حمل ایشیائی نسل کی مانند ۲۲ ماہ سمجھا جاتا ہے مگر یقین سے کچھ کہنا دشوار ہے۔ میرے تجربے کے مطابق افریقی ہاتھی زیادہ وحشی مگر نسبتاً بزدل ہوتا ہے اور ایشیائی ہاتھی کی مانند قابلِ اعتبار نہیں۔ پچھلے سال میں نے ایک چڑیا گھر میں ایک ہتھنی کو اپنے رکھوالے کو مارتے دیکھا۔ یہ ہاتھی دھوکے باز بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کے رکھوالے نے بتایا کہ یہ ہتھنی ہر نئے رکھوالے پسند کرتی ہے مگر تین یا چار روز بعد اسے یا تو دیوار کے ساتھ کچل کر یا دولتی چلا کر زخمی کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ہاتھی کتنی تیزی اور کتنے زور کی لات چلا سکتا ہے۔ اس کی دولتی کی رفتار کسی خچر سے کم نہیں ہوتی۔ اب سوچیے کہ اتنی وزنی جسامت کے جانور کی دولتی کتنی زوردار ہوگی۔
ہاتھی کے ٹخنے نہیں ہوتے اور پچھلی ٹانگوں کے گھٹنے انسانی ٹانگ سے مماثل ہوتے ہیں۔ اس طرح بظاہر تو یہ ناممکن لگتا ہے کہ ہاتھی پیچھے کی طرف دولتی چلا سکے مگر درحقیقت ہاتھی آگے اور پیچھے، دونوں سمتوں میں دولتی چلا سکتا ہے اور یہ اس کے دفاع کا اہم ہتھیار ہے۔ کوئی بھی جانور جو مشتعل ہاتھی کی اگلی اور پچھلی ٹانگوں کے درمیان پھنس جائے تو اس کی موت یقینی ہوتی ہے۔
اونٹ کی طرح چلتے ہوئے ہاتھی ایک سمت کے دونوں پیر اٹھاتا ہے مگر رکھتے ہوئے اگلا پیر تھوڑا پہلے زمین کو چھوتا ہے۔ دونوں پیروں کی ایڑی پہلے لگتی ہے۔ جب سخت زمین پر کئی ماہ تک ہاتھی کام کرتے رہیں تو ان کے پیروں کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایڑیاں گھس کر پتلی ہو گئی ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے پرانے بوٹ کی ایڑی گھس جاتی ہے۔
ہندوستانی نوابوں کو افریقی ہاتھی پسند نہیں کہ ان کے معیار کے مطابق افریقی ہاتھی خوبصورت نہیں ہوتا۔ ان کے خیال میں افریقی ہاتھی کی پشت کی ساخت اس کی خامی ہے۔ پہلی بار جب میں نے ایک بڑا نر افریقی ہاتھی دیکھا تو میرا بھی یہی خیال تھا۔ اُن دنوں میں حمران عرب شکاریوں کے ساتھ ابی سینیہ کے ویران علاقوں میں شکار کھیل رہا تھا۔ یہ جگہ ستیتی دریا کے کنارے ہے جو اتبارہ کا اہم دریا ہے اور آگے چل کر نیل میں شامل ہو جاتا ہے۔
میں ان بہترین شکاریوں کے بارے اپنی ایک اور کتاب میں تفصیل سے بیان کر چکا ہوں۔ میں نے ان سے زیادہ بہادر شکاری کوئی نہیں دیکھا کہ ان کے پاس محض ایک دو دھاری چوڑی عرب تلوار ہوتی ہے۔ اسی تلوار سے وہ گھوڑے پر سوار ہو کر ہاتھی، شیر، جنگلی بھینسے اور گینڈے کا شکار کرتے ہیں۔ یہ تلوار انتہائی تیز ہوتی ہے۔ اس کے دستے کے اوپر چھ انچ تک موٹی رسی بندھی ہوتی ہے اور یہاں دائیں ہاتھ سے پکڑا جاتا ہے۔ دستہ بائیں ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اس طرح کیا گیا وار انسان کو دو حصوں میں بہ آسانی کاٹ سکتا ہے۔ اب اس خوفناک ہتھیار سے ضرب لگائی جائے تو کسی بھی جانور کی ٹانگ کے پٹھے ایک ہی وار سے کٹ جائیں گے۔
ہاتھی کے شکار کا طریقہ درجِ ذیل ہے: تین یا زیادہ سے زیادہ چار شکاری گھوڑوں پر سوار ہو کر ہاتھیوں کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ جب انہیں ہاتھیوں کے پیروں کے نشانات مل جائیں تو آرام سے پیچھا کرتے ہوئے ان کے قریب جا پہنچتے ہیں۔ اگر ہاتھی اکیلا نہ ہو تو سب سے بڑے اور وزنی دانتوں والے نر ہاتھی کو غول سے الگ کر لیا جاتا ہے۔
پھر سب سے آگے والا شکاری اس ہاتھی کا پیچھا کرتا ہے اور دیگر ساتھی اس کے پیچھے قطار میں گھوڑے دوڑاتے ہیں۔ جب اگلا شکاری ہاتھی سے دس گز کی دوری پر پہنچتا ہے تو پھر اچانک رکنا ضروری ہو جاتا ہے کہ اب ہاتھی رک کر مڑتا ہے۔ اس جگہ ٹھنڈے دماغ کا ہونا ضروری ہے۔ ہاتھی حملے کے تیار اور مشتعل ہو چکا ہوتا ہے۔ چند لمحے رک کر شکاری اس ہاتھی کی ماں بہن ایک کرتا ہے اور اس کی تمام تر زنانہ رشتہ داروں کے ساتھ اپنے ناجائز فرضی تعلقات بیان کرتا ہے۔ پھر ہاتھی پانچ یا چھ قدم پیچھے ہٹتا ہے۔ یہ حملے کی علامت ہوتی ہے۔ زور سے چنگھاڑ کر ہاتھی سیدھا شکاری اور اس کے گھوڑے کی جانب بھاگتا ہے۔ بجلی کی سی تیزی سے شکاری اپنا گھوڑا موڑتا ہے اور دوڑ شروع ہو جاتی ہے۔ یہ سارا علاقہ ہاتھی کا پسندیدہ ہوتا ہے کہ زمین کٹی پھٹی اور جھاڑ جھنکار سے بھری ہوتی ہے اور درختوں کی شاخیں بھی راہ روکتی ہیں۔ اب شکاری کی زندگی یا موت کا دارومدار گھوڑے اور سوار کی مہارت پر ہے۔ پہلے سو گز تک ہاتھی کی رفتار ۲۰ میل فی گھنٹہ تک پہنچ جاتی ہے جو گھوڑے کی حدِ رفتار کے قریب تر ہوتی ہے۔ تاہم اس انتہائی خطرے کے باوجود سوار مڑ مڑ کر ہاتھی کو دیکھتا جاتا ہے اور اس کی رفتار سے ملا کر اپنی رفتار رکھتا ہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ہاتھی کے اتنا قریب رہے کہ ہاتھی کو کسی اور چیز کا خیال نہ رہے۔
اس دوران دو اور شکاری سرپٹ گھوڑے دوڑاتے ہوئے آتے ہیں اور ایک شکاری دوسرے کے گھوڑے کی لگام پکڑ لیتا ہے۔ پہلا شکاری گھوڑے سے جست لگا کر اترتا ہے اور اترتے اترتے ہاتھی کی پچھلی ٹانگ پر گھٹنے کے جوڑ سے ۱۶ انچ جتنا اوپر وار کرتا ہے۔ اس وار سے ہاتھی کے پیر کے پٹھے کٹ جاتے ہیں اور تیزی سے بھاگتا ہوا ہاتھی ایک دم رکتا ہے اور وزن پڑتے ہی جوڑ کھل جاتا ہے۔ اس طرح ناقابلِ تسخیر دکھائی دینے والا ہاتھی ایک ہی وار سے ناکارہ ہو جاتا ہے۔
ہاتھی ایک ہی جانب کے دونوں پیر بیک وقت اٹھاتا ہے۔ اگر ایک ٹانگ بیکار ہو جائے تو ہاتھی کی حرکت رک جاتی ہے اور ہاتھی بے بس ہو جاتا ہے۔ یہ وار کرتے ہی شکاری تھوڑا سا ایک جانب ہو کر کچھ دیر دیکھتا ہے اور پھر دوسری ٹانگ کے پٹھے بھی اسی طرح کاٹ دیتا ہے۔ نتیجتاً ہاتھی جریانِ خون سے مر جاتا ہے۔ یہ طریقہ بہت ظالمانہ ہے مگر انتہائی مہارت طلب بھی ہے اور کبھی نہ کبھی شکاری خود شکار ہو جاتا ہے۔
۱۸۶۱ میں ابی سینیہ میں دریائے نیل کی شاخوں کی سیر کے دوران ایک بار میں ان بہترین شکاریوں کے ساتھ نکلا اور یہیں پہلی بار نر افریقی ہاتھی دیکھا۔ اس جگہ ندی اچانک مڑتی تھی اور ایک جانب کنارے میں کٹاؤ اور دوسری جانب کافی ریت پڑی تھی۔ بتدریج کم ہوتے ہوئے پانی کے کٹاؤ کی وجہ سے چار چار فٹ اونچے چھجے بن گئے تھے۔ ہاتھی پانی میں کھڑا پیاس بجھا رہا تھا اور اس کے پیچھے کنارے سے جنگل سو گز دور ہوگا۔ سفید ریت پر چمکتا ہوا کالا ہاتھی ہندوستانی ہاتھی سے بہت فرق دکھائی دے رہا تھا۔ ہندوستانی ہاتھی کے حوالے سے میرا تجربہ اتنا طویل تھا کہ پہلی نظر میں مجھے لگا کہ اس افریقی ہاتھی کی پشت کی ساخت کسی حادثے کی وجہ سے بگڑ گئی ہوگی۔ میں نے سرگوشی میں اپنے ساتھیوں کو یہ بات بتائی تو وہ نہ سمجھ سکے اور گھوڑوں سے اتر کر بولے کہ یہاں ریت بہت نرم ہے، سو یہاں پیدل چلنا بہتر رہے گا۔
ہاتھی کے قریب پہنچنا مشکل تھا کہ یہ علاقہ بنجر تھا اور کسی قسم کی آڑ ممکن نہ تھی۔ واحد طریقہ یہ تھا کہ پانی کی سطح تک پہنچ کر کناروں کی اوٹ لے کر آگے بڑھتے جائیں۔ ہاتھی ہم سے تھوڑا سا دوسری سمت منہ کیے پانی پی رہا تھا۔ میرے پاس بہت بھاری بائیس پاؤنڈ وزنی ایک نالی رائفل تھی جس میں نصف پاؤنڈ وزنی مخروطی گولی اور ۱۶ ڈرام بارود ڈالا جاتا تھا۔ ریت اتنی نرم تھی کہ اتنی وزنی رائفل کے ساتھ بھاگ دوڑ ممکن نہ تھی۔ سو میں نے فیصلہ کیا کہ پچاس گز کے فاصلے پر پہنچ کر میں ہاتھی کے شانے پر گولی چلا دوں گا۔ ہر ممکن طور پر جھک کر چلتے ہوئے ہم اس مقام تک جا پہنچے جہاں سے میں نے گولی چلانے کا سوچا تھا۔ عین اسی وقت ہاتھی نے ہماری آمد کو بھانپ لیا مگر فیصلہ نہ کر سکا کہ کیا کرنا چاہیے۔ میں نے اس کے شانے کے عین پیچھے گولی چلائی اور جب دھواں چھٹ گیا تو گولی کے سوراخ سے بہتا ہوا خون دکھائی دے رہا تھا۔ میرا خیال تھا کہ ہاتھی حملہ کرے گا مگر اسی دوران میرے ساتھی حمران تلواریں لہراتے ہاتھی کی ٹانگوں کے پٹھے کاٹنے کو بھاگ پڑے تاکہ ہاتھی جنگل کو فرار نہ ہو سکے۔ اس پر ہاتھی نے فرار ہونے کو ترجیح دی اور اس کے بڑے پیروں کی وجہ سے اسے ریت پر بھاگنے میں کوئی دقت نہ ہوئی جبکہ میرے ساتھی تمام تر کوشش کے باوجود اس کے قریب نہ پہنچ سکے۔
گولی کا زخم مہلک تھا، سو خاردار جنگل میں پہنچ کر ہاتھی گرا اور مر گیا۔ یہ ہاتھی بہت بڑا تھا مگر چونکہ میں نے اس کی پیمائش نہیں کی، سو اس کی اونچائی بارے کوئی اندازہ لگانا مناسب نہ ہوگا۔
جیسا کہ میں پہلے ہی افریقی ہاتھی جمبو کی اونچائی کے بارے کہہ چکا ہوں جو لندن سے امریکہ روانگی کے وقت ۱۱ فٹ اونچا اور ۶ ٹن سے زیادہ وزنی تھا۔ اسے ہم اچھا نمونہ مان سکتے ہیں مگر جنگلی حالت میں ہاتھی اس سے کہیں زیادہ بڑے ہوتے ہیں۔
افریقی ہاتھی کے سر کی مخصوص بناوٹ سامنے سے گولی چلانے میں بہت مشکل پیدا کرتی ہے۔ ہاتھی کی کھوپڑی اس کے دماغ کو بچاتی ہے اور اس کی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ کسی خاص جگہ کا نشانہ لینا ممکن نہیں۔
میں افریقی ہاتھی کی پیشانی پر گولی چلا کر اسے فوری ہلاک کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکا حالانکہ پیشانی کے نیچے اور سونڈ کے ابھار کے شروع پر گولی چلانے پر ایشیائی ہاتھی فوری ہلاک ہو جاتا ہے۔ اگر افریقی ہاتھی حملہ آور ہو تو سامنے سے گولی چلا کر اسے کسی طور پر ہلاک کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ شکاری کے بچنے کی واحد امید دو نالی ۸ یا ۴ بور کی رائفل، سخت گولی اور ۱۴ ڈرام بارود کے علاوہ مضبوط اعصاب ہوتے ہیں۔ دائیں نال کی گولی ہاتھی کی سونڈ کی جڑ سے ذرا اوپر گولی چلائی جائے تو ہاتھی رک جائے گا۔ اگر ہاتھی رک کر مڑ جائے تو دوسری گولی شانے کے عین وسط پر مارنی چاہیے۔ پھر ہاتھی کو فرار ہونے کا موقع دینا چاہیے تاکہ وہ اندرنی جریانِ خون سے مر جائے۔
خطرناک جانوروں کے شکار پر کمتر درجے کے ہتھیار کے چناؤ سے زیادہ احمقانہ حرکت اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ لندن کے اسلحہ سازوں کو کوئی عملی تجربہ نہیں ہوتا اور وہ محض دور دراز کے ممالک میں جانے والے افراد کے بیان پر ہتھیار تیار کرتے ہیں۔ عام فہم بات ہے کہ بڑے جانور کے لیے بڑی گولی ہونی چاہیے اور بڑی گولی کو چلانے کے لیے زیادہ بارود درکار ہوگا اور زیادہ بارود کے لیے رائفل کا بھاری ہونا ضروری ہے۔ اگر شکاری بہت طاقتور نہ ہو اور بھاری ہتھیار نہ اٹھا سکتا ہو تو یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ وہ ہلکے ہتھیار سے بھی کاری ضرب لگا سکے گا۔
پچھلے سال ہم نے مسٹر انگرام کی جان گنوائی ہے جو صومالی لینڈ میں ہتھنی کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ اس کے پاس اعشاریہ ۴۵۰ بور کی رائفل تھی۔ اس نے ہتھنی پر گولی چلا کر اسے شدید زخمی تو کیا مگر زخم مہلک نہ تھے۔ گھوڑے کے سامنے خاردار جھاڑیاں تھی جنہیں وہ عبور نہ کر سکا اور ہتھنی نے اسے آ لیا اور اپنے بڑے دانتوں سے اسے ہلاک کر دیا۔
اس سال (۱۸۸۹) میں ایک اور بہترین شکاری گائے ڈانی مشرقی افریقہ میں جنگلی بھینسے کے ہاتھوں ہلاک ہوا۔ اصل حالات کا تو علم نہیں مگر اطلاع یہی ہے کہ وہ زخمی بھینسے کے پیچھے گھنے جنگل میں گھسا اور بھینسے نے مڑ کر حملہ کیا تو رائفل اسے روک نہ سکی۔
میرے خیال میں خطرناک جانور کے مقابلے میں کمتر درجے کا ہتھیار لے کر جانے سے زیادہ بڑی غلطی کوئی نہیں۔
کم تجربہ کار شکاریوں کے بیان میں ایک ہی بات مشترک ہوتی ہے کہ اعشاریہ ۴۵۰ بور کی رائفل سے ہر جانور مارا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اس ہلکی رائفل سے گینڈے یا بھینسے کے شانے پر گولی چلا کر اسے شکار کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اگر یہی جانور ان کے سامنے کھڑا ہو تو گولی کا اثر محض اتنا ہوگا کہ جانور کا غصہ بڑھ جائے گا۔
ان چھوٹے بور کی رائفلوں سے سب سے بڑا خطرہ انہیں لے کر ایسی جگہ جانا ہے جہاں خطرناک جانور بکثرت ہوں۔ ظاہر ہے کہ دن بھر اٹھانے کی نیت سے ہلکے وزن کی رائفل مناسب لگتی ہے۔ تاہم خطرناک جانوروں کے شکار پر جانے والے شکاریوں کو بھاری رائفل کی عادت ہونی چاہیے اور کسی بھی قیمت پر اعشاریہ ۵۷۷ بور کی ۱۲ پاؤنڈ وزنی رائفل سے کم تر ہتھیار ساتھ نہ لے کر جائیں۔ اس رائفل میں ۶۵۰ گرین کی سخت گولی اور کم از کم ۶ ڈرام بارود استعمال ہونا چاہیے۔
استوائی ممالک میں خطرناک جانوروں کے شکار پر جانے والے افراد کو یہ میری نصیحت ہے۔ عام جسامت کا بندہ ۱۲ پاؤنڈ وزنی رائفل کا جب عادی ہو جائے تو اسے کوئی مشکل نہیں ہونی چاہیے۔ اصولی طور پر یہ بور بھاری جانوروں کے لیے بہترین نہیں مگر اس میں سخت گولی استعمال کی جائے تو یہ کافی طاقتور ہوتی ہے۔ شانے پر چلائی گئی گولی ہاتھی سے چھوٹے ہر جانور کو ہلاک کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ پیشانی، کنپٹی یا کان کے پیچھے چلائی گئی یہ گولی ایشیائی ہاتھی کو مارنے کے لیے مناسب ہے اگرچہ میں موٹی کھال والے جانور کے لیے اس رائفل کا مشورہ نہیں دوں گا۔ تاہم جنگل میں اعشاریہ ۵۷۷ بور کی رائفل تحفظ کے لیے کافی ہے مگر اعشاریہ ۵۰۰ یا اعشاریہ ۴۵۰ بور کی رائفل حملہ آور ہوتے ہوئے جنگلی بھینسے کو بھی نہیں روک پائے گی۔
یہ بھی یاد رہے کہ محض ۶۵۰ گرین کی ہلکی گولی ہاتھی کی ٹانگ کی ہڈی یا گینڈے کی کھوپڑی کو نہیں توڑ سکے گی۔ چھوٹے بور کے بارے اس سے زیادہ کچھ کہنا بیکار ہے۔
میرا زندگی بھر کا تجربہ یہی کہتا ہے کہ بیس گز کے فاصلے سے سخت اور پرانی گول شکل کی گولی اور زیادہ مقدار میں بارود سے بہتر کوئی چیز نہیں۔ اس سے انتہائی کم رگڑ پیدا ہوتی ہے اور سخت ہونے کی وجہ سے شاخوں اور ہڈیوں کو توڑتی سیدھی بڑھتی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یقینی ہلاکت ہوتا ہے۔
گولی کی ساخت کو بدل کر ہم اس سے بہت سارے کام لے سکتے ہیں۔ کسی بھی نرم کھال والے جانور پر سخت اور سخت کھال والے جانور پر نرم گولی نہیں چلانی چاہیے۔ شکاری کا مقصد جانور کو صفائی سے اور فوری ہلاک کرنا ہوتا ہے۔ اگر نرم کھال والے جانور پر سخت گولی اور زیادہ بارود استعمال کیا جائے تو گولی آر پار ہو جائے گی اور جانور کو مہلک صدمہ نہیں پہنچے گا۔ اس طرح مہلک زخم کھانے کے باوجود بھی جانور فوری ہلاک نہیں ہوگا کہ گولی آر پار ہو گئی ہوگی۔
پتلی کھال والے جانور جیسا کہ شیر، ببر شیر یا بڑے ہرن وغیرہ کے لیے خالص سیسے کی گولی چلانی چاہیے۔ یہ گولی جانور کو لگتے ہی ایک خاص حد تک پھیلے گی اور جانور کے بدن سے گزرتے ہوئے مزید پھیلتی جائے گی اور آخرکار اس کی شکل بڑی کھمبی جیسی ہو جائے گی۔ یہ گولی جانور کے جسم کو پار کر کے دوسری جانب کی کھال کے نیچے رک جائے گی۔ اب اندازہ کیجیے کہ اتنی پھیلی ہوئی گولی سے کتنا اثر پیدا ہوگا کہ گولی جسم سے نہیں نکلی اور ساری توانائی جانور کے جسم میں ہی رہ گئی۔ اگر یہی گولی جانور کے جسم سے پار ہو جائے تو توانائی بھی ضائع ہو جائے گی۔
یاد رہے کہ اسلحہ ساز رائفل میں خالص سیسے کی گولی استعمال کرنے سے کتراتے ہیں کہ سیسہ نالی کے اندر لگا رہ جاتا ہے اور یہ بھی کہ ٹھوس گولی سے زیادہ بہتر نشانہ لگتا ہے۔ تاہم یہ اصول شکاری رائفلوں پر لاگو نہیں ہوتا۔ دن بھر کے شکار میں ہر نال سے پانچ یا چھ گولیاں ہی چلتی ہیں اور شام کو کیمپ لوٹنے پر رائفلوں کی صفائی بھی کی جاتی ہے۔ ویسے بھی نسبتاً کم فاصلے پر سیسے کی نرم گولی سے بھی بہترین نشانہ لگتا ہے۔ نالی سے سیسہ چپکنے کی بھی کوئی اہمیت نہیں اور سیسے کی گولی ہی بہترین انتخاب ہے۔
ہاتھی کے لیے نہ صرف خاص رائفل ہونی چاہیے بلکہ گولی بھی اتنی ہی خاص۔ ایسی بڑی سے بڑی گولی اور بارود کی مقدار مناسب ہوتی ہے جو شکاری کو زخمی نہ کرے۔ کسی خاص رائفل کی حمایت کرنا تو ممکن نہیں کہ وہ شکاری کی جسمانی قوت پر منحصر ہوتی ہے۔ اصولی طور پر میں پھٹنے والی گولی کے خلاف ہوں کہ اگر وہ مناسب حجم کی ہو تو بیکار ہوتی ہے اور اگر بہت بڑے حجم کی ہو تو پھر کارگر ثابت ہوتی ہے۔ میں نے بہت اقسام کی ایسی گولیاں آزمائی ہیں اور محض نصف پاؤنڈ وزنی گولی اور ۶ ڈرام بارود نے ہی تسلی بخش نتائج دیے تھے۔ یہ گولی میری اپنی تخلیق کردہ ہے کہ عام استعمال والی ایسی گولی جانور سے ٹکراتے ہی پھٹ جاتی ہے اور سطحی زخم چاہے بہت بڑا ہی سہی، اندر تک گولی نہیں جا پاتی۔
ایک زمانے میں پکریٹ آف پوٹاش کو بہت شہرت ملی کہ اس سے کافی زیادہ دھماکہ پیدا ہوتا ہے اور منتقلی بھی خطرناک نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ ہتھوڑے کی ضرب سے بھی یہ نہیں پھٹتا اور رائفل سے انتہائی تیز رفتاری سے نکل کر جب کسی چیز سے ٹکرائے تو پھر پھٹتا ہے۔
تاہم ہاتھی پر یہ چیز بیکار ہے کہ اس میں دخول کی صلاحیت نہیں ہوتی اور یہ گولی ہاتھی کی سخت کھال سے ٹکراتے ہی پھٹ جائے گی۔ میں نے بہت مرتبہ یہ گولی درختوں پر چلائی ہے اور ہر بار کافی زیادہ چھال تو تباہ ہو جاتی تھی مگر کبھی لکڑی میں گولی نہ گھس پائی۔
میری نصف پاؤنڈ والی ایسی گولی بہت سادہ تھی۔
کاسٹ آئرن کی بوتل نما شکل کے اوپر سیسہ چڑھایا جاتا تھا۔ اس کی گردن گولی کے اندر گھسی ہوتی تھی اور نپل کی شکل میں ہوتی تھی۔
باہر سے یہ گولی سیسے کی تھی اور لوہے کی بوتل اندر چھپی ہوئی۔ اس کے اندر نصف اونس باریک پسا ہوا بارود ڈال دیا جاتا تھا۔ گولی کو بھرتے ہوئے اس پر کیپ لگا دی جاتی تھی۔ اس گولی کو چلانے کے لیے ۱۶ ڈرام بارود استعمال ہوتا تھا۔
میں نے جتنی بار یہ رائفل چلائی، ہر بار جانور ہلاک ہوا۔ مگر یہ رائفل زیادہ اطمینان بخش نہیں تھی کہ دھکا بہت زیادہ لگتا تھا۔ جب یہ گولی ہاتھی کو لگتی تو فوراً نہ پھٹتی بلکہ ایک لمحے کے وقفے سے جب پھٹتی تو گولی ہاتھی کے وسط تک پہنچ چکی ہوتی تھی۔ جب نصف پاؤنڈ بارود ہاتھی کے جسم کے اندر پھٹے تو تباہی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
میں نے ایک بار یہ گولی دریائی گھوڑے کے ماتھے پر چلائی تھی جو اس گولی کا عمدہ امتحان تھا۔ یہ گولی دماغ سے گزر کر گدی سے گزرتی ہوئی گردن میں جا کر پھٹی اور ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کو تباہ کر دیا۔ اس طرح کئی فٹ لمبی سرنگ سی بن گئی جس میں میرا بازو کندھے تک بہ آسانی گھس جاتا تھا۔ اس سرنگ کے اختتام پر سیسے اور لوہے کے ذرات چپکے ہوئے تھے۔
جدید رائفلوں میں ہونے والی ترقی کی وجہ سے نصف صدی کے عرصے میں افریقی جنگلی حیات کی تباہی لازمی ہے کیونکہ ان علاقوں میں کوئی حکومت نہیں جو قوانین بنائے۔ یہ جانور ہزاروں سالوں سے وحشی انسانوں کے تیر اور بھالوں کا سامنا کرتے آئے ہیں اور گڑھے یا پھندے انہیں مٹا نہیں سکتے۔ تاہم بھاری بریچ لوڈنگ رائفلوں کی آمد کے بعد ہاتھی محض دور افتادہ مقامات تک محدود ہو کر رہ جائیں گے جہاں موجودہ شکاری نہ پہنچ سکیں۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ افریقہ میں جنگلی ہاتھیوں کو پکڑنے اور سدھانے کا کوئی نظام نہیں ہے۔ استوائی افریقہ اور دیگر خطوں میں مال بردار جانوروں کا کوئی تصور نہیں اور ہاتھی کی بے انتہا طاقت اور ذہانت کو یکسر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ کارتھیج کے قدیم سکوں پر افریقی ہاتھی کی شبیہ ہوتی ہے کہ کارتھیج والے ہاتھیوں سے کام لیتے تھے۔ مگر افریقہ کے موجودہ سیاہ فام افراد کبھی کسی جانور کو پالتو نہیں بنائیں گے، وہ محض اسے ہلاک کر کے کھانے سے دلچسپی رکھتے ہیں۔
جب ہم ہاتھی کی طویل فاصلوں تک تیراکی اور بہت بھاری وزن اٹھا کر طویل مسافت طے کرنے کی صلاحیت کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ افریقہ میں آنے والے یورپی بھی اس جانور کی صلاحیت سے صرفِ نظر کرتے آئے ہیں۔ ہاتھی فطری طور پر جنگلی علاقے میں سفر کا عادی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تیز بہاؤ والے ندی نالے بھی تیر کر عبور کر لیتا ہے اور عظیم ترین دریا بغیر کسی اضافی بوجھ اٹھائے عبور کرتا ہے۔ اس طرح ہاتھی عموماً ہودے کے ساتھ لگ بھگ ۱۳۰۰ پاؤنڈ وزن اٹھا کر منتقل کر سکتا ہے۔
اتنے وزن کے ہاتھی دانت کی قیمت ۵۰۰ پاؤنڈ بنتی ہے۔ اگر یہی وزن انسان اٹھائے تو اس کے لیے ۲۶ غلام درکار ہوتے ہیں جو عموماً سفر کے اختتام پر بیچ دیے جاتے ہیں اور اکثر ان سے زیادہ منافع ہوتا ہے۔ اگرچہ مادہ کی نسبت نر زیادہ وزن اٹھا سکتا ہے اور زیادہ طاقتور ہوتا ہے مگر مست کی کیفیت میں اس کی دیکھ بھال خطرناک ہو جاتی ہے۔ میں نے بعض لوگوں سے سنا ہے کہ اگر ہاتھی کو خصی کر دیا جائے تو مست کی حالت سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ مگر ہاتھی دیگر جانوروں سے فرق ہوتا ہے اور اس کے خصیے جسم کے اندر ہوتے ہیں اور جراحی سے وہاں تک رسائی ممکن نہیں۔
یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ زیادہ تر پالتو جانوروں کے نر زیادہ وحشی ہوتے ہیں۔ گھوڑا، بیل، سور اور ہرن وغیرہ بھی اسی درجے میں آتے ہیں مگر ہاتھی اجنبی کے لیے خطرناک ہونے کے علاوہ اپنے مہاوت کے لیے بھی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ کئی ماہ قبل میں نے ایک ایسے ہی ہاتھی کو جبل پور میں دیکھا تھا۔ یہ عظیم الجثہ ہاتھی مجھے جبل پور کے کمشنریٹ سے دیا گیا تھا۔ اس کا نام بسگام تھا اور اعلیٰ نسل کا سمجھا جاتا تھا۔ بسگام بدمزاج مشہور ہونے کے علاوہ بہادر بھی تھا۔ اس کی شہرت کو تب داغ لگا جب پچھلے سال شکار کے دوران ایک شیر اس کے قریب سے نکلا تو ہاتھی مڑ کر بھاگ نکلا۔ شیر نے ایک قلی کو اس سے چند فٹ دور ہلاک کیا تھا۔ تاہم یہ عارضی فرار مہاوت کی غلطی سمجھا گیا۔ سو اس کی چھٹی کر کے اس کی جگہ ایک بہترین پنجابی مہاوت لایا گیا۔ نئے مہاوت نے مجھے تسلی دی کہ ہاتھی قابلِ اعتبار ہے اور میں نے اس کی بات مان لی اور ساری مہم کے دوران میں اس پر سوار رہا۔
ہمیں جلد ہی علم ہو گیا کہ اس ہاتھی کو انسانوں سے دور رکھنا پڑے گا۔ جونہی کوئی انسان اس کی سونڈ یا پچھلے پیر کے قریب آتا، یہ اسے ضرب لگا دیتا۔ تاہم یہ ہاتھی مجھے پسند کرنے لگا کہ میں ہر روز اسے اپنے ہاتھ سے گنا، گڑ اور چپاتیاں کھلاتا تھا۔ میری عادت تھی کہ عین سامنے کھڑا ہونے کی بجائے ذرا پہلو پر کھڑا ہو کر بائیں ہاتھ سے اس کا ایک دانت تھام لیتا اور دوسرے ہاتھ سے اسے کھلاتا۔ ہر صبح بسگام اور ہتھنی ڈیموزل میرے سامنے لائے جاتے اور دونوں کو میں اپنے ہاتھ سے اچھی چیزیں کھلاتا۔ اس طرح وہ مجھ سے مانوس ہو گئے۔
اس ہاتھی کے بارے پہلی بار مجھے تب شبہ ہوا جب ہم نے دو نوجوان شیر شکار کیے اور پھر انہیں ہاتھی پر لاد کر رسیوں سے باندھ دیا۔ جب ہاتھی اٹھا تو اسے اچانک احساس ہوا کہ اس پر کون سے جانور رکھے گئے ہیں، سو اس نے زور سے جھرجھری لی جیسے کتا پانی سے نکل کر اپنا بدن جھاڑتا ہے۔ شاید اسے شک ہو کہ شیر مرے نہیں بلکہ ابھی زندہ ہیں۔ ایک شیر اچھل کر دائیں جانب کئی گز دور جا پڑا جبکہ دوسرا بائیں جانب گرا۔ ہاتھی نے فورا اس پر حملہ کر کے اگلے پیر سے اسے ٹھوکر ماری اور شیر اڑ کر کچھ دور گرا۔ پھر ہاتھی نے جھومنا شروع کر دیا۔ اس کی پچھلی ٹانگیں اتنی اونچی جا رہی تھیں کہ دراز قامت انسان کے سر سے بھی اوپر سے گزرتیں۔ مہاوت نے اس پر آنکس سے کافی زور لگایا اور آخرکار ہاتھی ایک شیر کی لاش کے ایک جانب کھڑا ہو کر اسے دیکھنے لگا کہ جیسے شیر اس پر حملہ کرنے لگا ہو۔
ظاہر ہے کہ شیر سے مقابلہ ہونے کی صورت میں اگر ہاتھی ایسی حرکت دوبارہ کرتا تو شیر پر گولی چلانا ناممکن ہو جاتا۔
کچھ وقت بعد میں کیمپ کے آس پاس کا جائزہ لینے نکلا ہوا تھا کہ دریائے برمی کے کنارے بڑے شیر کے تازہ پگ دکھائی دیے۔ میں نے اسی شام وہیں بھینسا بندھوا دیا۔
اگلی صبح شکاری خبر لائے کہ بھینسا مار کر ساتھ والی کھائی میں لے جایا گیا ہے۔ چوں کہ دریا قریب ہی تھا، سو مجھے یقین تھا کہ پیٹ بھرنے کے بعد شیر دریا سے پانی پی کر کنارے پر ہی کوئی محفوظ جگہ تلاش کر کے سو جائے گا۔
ہانکے کی صورت میں جب شیر نکلتا تو نصف میل جنگل سے بھری پہاڑی کو جانے کے راستے پر ممکنہ جگہوں پر مچانیں باندھ دی گئی تھیں۔
یہ جگہ کیمپ سے بیس منٹ کے فاصلے پر تھی اور دونوں ہاتھی تیار کھڑے تھے اور ان پر ہودے کی جگہ محض گدے رکھے تھے۔ ہودا جنگل کے لیے مناسب نہیں۔ پھر ہم روانہ ہو گئے۔
کل تین مچانیں بندھی تھیں جو ایک دوسرے سے سو سو گز دور، سیدھی قطار میں اور ایک کھلے قطعے کے پاس تھیں۔ یہ قطعہ دریا اور پہاڑی کے دامن والے جنگل کے عین وسط میں تھا۔ خسک سالی کی وجہ سے پہاڑی پر جنگل کے درختوں کے پتے جھڑ چکے تھے۔ پہاڑی سرخ رنگ کے ریتلے پتھر سے بنی تھی۔میرے حصے میں دائیں جانب والی مچان آئی۔ بائیں جانب ستر گز دور جھاڑیوں کی پتلی سی سی لڑی جنگل سے ملی ہوئی تھی اور اس کا خاتمہ تیس گز چوڑے قطعے کی شکل میں ہوا تھا اور اس کے چالیس گز کا کھلا میدان نما علاقہ تھا اور پھر پہاڑی کے دامن سے اصل جنگل شروع ہو جاتا تھا۔
ہم اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے اور شکاریوں نے یقین دلایا کہ شیر عین میرے سامنے سے نکلے گا۔
مچان پر آلتی پالتی مار کر بیٹھنا کسی بھی یورپی کے لیے اذیت سے کم نہیں اور شکار ممکن نہیں رہتا۔ اس لیے میں نے اپنے لیے ایک لکڑی کا سٹول بنوایا ہوا تھا جس پر بیٹھ کر میں کسی بھی جانب آسانی سے گولی چلا سکتا تھا۔ یہ کافی آرام دہ تھا۔
میں نے سٹول کو موٹی دری پر اچھی طرح جما لیا تھا تاکہ پھسل نہ جائے۔ پھر میں نے ماحول کا جائزہ لینا شروع کر دیا کہ شیر کہاں سے نکل سکتا ہے۔
ہانکا شروع ہو گیا تھا اور ڈیڑھ سو افراد کا شوربتدریج قریب آتا سنائی دے رہا تھا۔ کئی مور کھلے میدان سے بھاگ کر گزرے۔ مور ہمیشہ ہانکے میں سب سے پہلے فرار ہوتے ہیں۔ پھر مجھے گھنے جنگل سے سرسراہٹ سنائی دی اور ساتھ ہی سانبھر کی ٹانگیں دکھائی دیں جو کنارے کے قریب پہنچیں اور پھر رک کر ہانکے والوں کے شور کو سننے لگا۔
ہانکے والے قریب تر ہو رہے تھے اور ایک بڑی مادہ سانبھر تیزی سے بھاگنے کی بجائے آہستگی سے چلتی ہوئی باہر نکلی اور پھر مجھ سے دس گز دور کھڑی ہو کر سن گن لینے لگی۔ پھر اچانک جیسے کسی چیز سے ڈری ہو اور دو تین چھلانگیں لگا کر واپس اسی جگہ گم ہو گئی جہاں سے نکلی تھی۔
مجھے فوراً احساس ہوا کہ اس نے میری بو نہیں پائی ہوگی کہ میں زمین سے دس بارہ فٹ اونچا بیٹھا تھا اور ہوا رکی ہوئی تھی۔ سو اگر شیر جنگل میں تھا تو وہ واپسی کیوں اسی جنگل میں جاتی؟ میں یہی سوچ رہا تھا اور ساتھ ہی سامنے اور بائیں جانب بھی نظریں دوڑا رہا تھا۔ ۔ پھر میں نے ذرا سا دائیں جانب سٹول موڑا تو سامنے شیر دکھائی دیا جو جنگل سے نکل کر پہلے ہی مجھ سے پچہتر گز دور جا چکا تھا۔ شیر آہستہ آہستہ مندرجہ بالا جھاڑیوں کی پٹی کے قریب چلتا جا رہا تھا۔ کھلے میدان کے وسط سے ایک پگڈنڈی گزر رہی تھی، سو میں نے انتظار کیا کہ شیر اس کے سامنے پہنچ جائے۔ جب شیر اس پگڈنڈی کے سامنے پہنچا تو میں نے اعشاریہ ۵۷۷ بور کی رائفل سے گولی چلائی۔ میری سخت گولی شیر کے پہلو پر لگی اور پار ہوئی تو دوسری جانب سے مٹی اڑی۔ مجھے لگا کہ میں نے شانے سے زیادہ پیچھے گولی چلائی تھی کیونکہ شیر نے گولی لگتے ہی جست لگائی اور تیزی سے بھاگتا ہوا سامنے والی گھنی جھاڑیوں میں گھس گیا۔ میرا سٹول بہت کام آیا اور میں نے بائیں نال کو اس انتظار میں تیار رکھا کہ شیر ابھی جنگل میں گھسنے کے لیے کھلے میدان سے گزرے گا۔ چند لمحے بعد شیر بھاگتا ہوا کھلے قطعے سے گزرا۔ میں نے اس کے سامنے ڈیڑھ فٹ آگے کا نشانہ لیا اور گولی چلا دی۔ مختصر سی دھاڑ اور جسم میں تشنج کی سی کیفیت سے لگا کہ شیر کو کاری زخم لگا ہے۔ تاہم آہستہ ہوئے بغیر شیر سیدھا جنگل کو جا پہنچا جو وہاں سے چالیس گز دور تھا۔ اگر یہی گولی نرم سیسے سے بنی ہوتی تو شیر گولی لگتے ہی وہیں گر جاتا مگر دوسری جانب اڑنے والی مٹی سے پتہ چل گیا تھا کہ گولی پار ہو گئی ہے اور شیر کو صدمہ نہ پہنچا ہوگا۔
ہانکے والے اور شکاری پہنچ گئے اور میں نے انہیں تفصیل بتائی اور پھر ہم نے مل کر زمین کا معائنہ کیا تو فوراً ہی مٹی پر شیر کے ناخنوں کے نشان دکھائی دیے۔ ہم نے احتیاط سے جنگل کی جانب ان کا تعاقب کیا۔ ہماری جماعت میں کرنل لگارڈ، لیع اور میرے علاوہ دو تجربہ کار مقامی شکاری بھی تھے۔ شیر کا شکار بہت دلچسپ ہوتا ہے اور جب زخمی شیر کا تعاقب پیدل کیا جائے تو یہ بہت خطرناک ہو جاتا ہے۔ ہم آہستہ آہستہ بڑھتے گئے اور ہمیں شیر کے پنجوں کے ساتھ ساتھ ناخنوں کے نشان بھی دکھائی دیتے رہے۔ جنگل زیادہ گھنا نہیں تھا اور سطح پتھریلی تھی۔ درختوں کے پتے خشک سالی کی وجہ سے جھڑ چکے تھے اور ہمیں ہر سمت مناسب فاصلے تک بخوبی دکھائی دے رہا تھا۔
اس طرح ہم لوگ سو گز آگے بڑھے مگر خون کا قطرہ تک دکھائی نہ دیا۔ اب لگنے لگا تھا کہ کئی ہمراہیوں کو اس بات پر شبہ ہو چلا ہے کہ آیا شیر کو گولی لگی بھی ہوگی۔ میرا خیال تھا کہ شیر کو مہلک زخم پہنچا ہے۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ سخت گولی کا زخم صاف ہوگا اور جب تک شیر کے اندر خون نہ بھر جائے، قطرہ بھی باہر نہ گرے گا۔ اچانک ایک بندہ چلایا، ‘خون‘۔ اس نے ساگوان کا ایک بڑا پتہ اٹھا ہوا تھا جس پر خون کا بڑا نشان تھا۔ اس کے بعد خون دھار کی شکل میں گرا دکھائی دیا۔ ایک جگہ شیر رکا تھا جہاں خون کا تالاب سا دکھائی دیا۔ واضح ہو گیا کہ شیر قریب ہی ہوگا۔
اب میں نے ہاتھیوں کو بلایا کہ ہمارے لیے مزید پیدل پیش قدمی مہلک ثابت ہو سکتی تھی۔
بڑا ہاتھی بسگام آن پہنچا۔ میں نے اپنے قابلِ بھروسہ شکاری کریم بخش کو اپنی پیراڈاکس بندوق دی اور وہ اس ہاتھی پر سوار ہو گیا۔ میں نے اسے حکم دیا کہ خون کے نشانات کا پیچھا کرے اور شیر کو تلاش کرنے کے بعد لوٹ آئے۔ ہم ایک چھوٹی پہاڑی کی چوٹی پر کھڑے تھے جو گھنے جنگل میں واقع تھی۔ عین ہمارے سامنے کچھ نشیب سا تھا جہاں سے برسات کے موسم میں نالہ گزرتا ہوگا۔ میں نے سوچا کہ اگر شیر زندہ ہوا تو ہاتھی کو دیکھتے ہی اسی نالے میں اتر کر فرار ہو جائے گا۔ سو ہاتھی کی روانگی سے قبل ہم لوگ نالے کے کنارے مناسب جگہوں پر پہنچ گئے۔
ہم اپنے مقامات پر زیادہ دیر نہیں بیٹھے تھے کہ جس سمت ہاتھی گیا تھا، وہاں سے فائر کی آواز اور اس کے فوراً بعد دھاڑ سنائی دی۔ ظاہر ہے کہ شیر نہ صرف دکھائی دے گیا تھا بلکہ زندہ بھی تھا۔ ڈیموزل ہتھنی نے دھاڑ سنی تو بہت زور سے جھرجھری لی۔ دوسری ہتھنی کو اگر آنکس نہ چبھویا جاتا تو وہ فرار ہو جاتی۔ اب وقفے وقفے سے کئی گولیاں چلنے کی آوازیں آئیں۔ شیر کے مقام کے بارے جاننے کے لیے میں نے ڈیموزل کو بھیجا تاکہ خبر لا سکے۔ ہم اس دوران کھائی پر نگران رہے۔ شیر نہ آیا اور میں نے مقامیوں کو نالے کے کنارے درختوں پر چڑھا دیا کہ وہ نگران رہیں اور پھر ہم لوگ پیدل اس جگہ کو چل پڑے جہاں گولیاں چلی تھیں۔ ہم ۸۰ گز چلے ہوں گے کہ دونوں ہاتھی پتھریلی چوٹی کے اوپر دکھائی دیے۔ مقامی افراد بھی درختوں پر چڑھے ہوئے تھے۔ بسگام ہیجان کی حالت میں تھا اور کریم بخش نے بتایا کہ ہاتھی اتنا ہل رہا تھا کہ اس پر سے نشانہ لینا ممکن نہ تھا۔ میں نے پوچھا کہ شیر کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ بہت قریب۔ زمین پر کھڑے ہونے کی وجہ سے ہمیں کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا کہ ہر طرف کملائی ہوئی اونچی گھاس کھڑی تھی۔ میں بسگام کی پیٹھ پر سوار ہوا اور یہ دھڑکا بھی لگا تھا کہ کہیں وہ اچانک فرار نہ ہو جائے۔ اس اونچی جگہ سے میرا خیال تھا شیر دکھائی دے جائے گا۔ شیر ہم سے سو گز دور کھائی کی تہہ میں لیٹا تھا۔
جگہ جگہ چھوٹی جھاڑیاں اور زرد گھاس کے جھنڈ تھے، سو شیر کو تلاش کرنے میں کئی منٹ لگ گئے۔ میرا خیال تھا کہ زرد اور کالے رنگ کی پٹیاں دکھائی دیں گی جبکہ شیر پیٹھ کے بل لیٹا تھا اور پیٹ کی سفید اور کالی دھاریاں اوپر تھیں۔ شیر مر رہا تھا۔
پہاڑی کی یہ جانب اتنی عمودی اور پھسلواں تھی کہ ہاتھی نہ اتر سکتے تھے۔ اس لیے میں ڈیموزل پر سوار ہوا اور شیر پر کئی فائر کیے اور اس کی موت کی تسلی کر لی۔ زمین اتنی کٹی پھٹی تھی کہ میں کسی مقامی کو شیر کی موت کی تصدیق کرنے کے لیے نہیں بھیجنا چاہتا تھا۔ میں نے بسگام کے مہاوت سے کہا کہ وہ دائیں جانب بڑھ کر نالی میں داخل ہو اور پھر آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہوئے شیر تک پہنچے۔ اس دوران میں ڈیموزل پر سوار اترنے کی کوشش کروں گا کہ جہاں شیر مجھ سے چالیس گز دور ہوگا۔ یہ جگہ اتنی مشکل تھی کہ ہاتھی مڑ نہ سکتا۔ یہاں کھڑے ہو کر میں نے بسگام کو آتے دیکھا۔ یہاں کی چٹانیں بالکل ہموار اور سرخ رنگ کی تھیں اور کئی جگہ تو باقاعدہ راستہ سا بنا ہوا لگتا تھا۔ اس راستے پر چلتے ہوئے بسگام شیر کی لاش تک پہنچا۔ بسگام شیر سے پندرہ گز دور رک گیا۔ میں نے کبھی کسی جنگلی جانور کو اتنے جوش و خروش سے ناچتے نہیں دیکھا۔ جیسے بسگام اپنے حواس کھو بیٹھا ہو۔
ہاتھی کے ناچ کے بارے کہنا دشوار ہے کہ ہاتھی باری باری پچھلی ٹانگیں چلاتا رہا اور چنگھاڑتا اور شور مچاتا رہا اور سونڈ ہوا میں لہرا کر گھماتا رہا اور سر بھی ہلاتا رہا۔ پھر اس نے شیر کی لاش پر حملہ کرنے کا سوچا جیسا کہ چند روز قبل کر چکا تھا۔ بدقسمتی سے شیر پوری طرح مرا نہیں تھا اور اگرچہ شیر ہلنے جلنے سے معذور تھا مگر اس نے اپنے دانت ہاتھی کی پچھلی ٹانگ میں گاڑ دیے۔ ہاتھی اتنا جوش کی کیفیت میں تھا کہ وہ شیر کی لاش سے آگے نکل گیا تھا۔
اب صورتحال بہت مضحکہ خیز ہو گئی تھی۔ ہم قریب کھڑے سارا تماشا دیکھتے رہے۔ میں نے کبھی ہاتھی کو اتنے غصے میں نہیں دیکھا۔ ہر طرف پتھر اور گرد اڑ رہی تھی کہ ہاتھی نے شیر سے ٹانگ چھڑانے کی کوشش کی۔ شیر اس دوران گرد میں چھپ گیا۔ ہاتھی نے جھٹکا جو مارا تو شیر کا ایک بڑا دانت ٹوٹ گیا اور شیر اچھل کر دور جا گرا۔ بسگام نے فوراً اس کے شانے میں اپنا ایک دانت گھسیڑ کر اسے پوری طرح ہلاک کر دیا۔
یہ منظر بہت شاندار تھا۔ مجھے لگا کہ اگرچہ بسگام کی تربیت اچھی نہیں ہوئی مگر پھر بھی اس میں ہمت ہے۔ ابھی میں تالیاں بجانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک بسگام پر ہیجان کا دورہ پڑا اور اس نے نالے کی تہہ میں دوڑ لگا دی۔ اس کا رخ خاردار جھاڑیوں کی طرف تھا۔ فرار ہوتے وقت اس کی رفتار کم از کم بیس میل فی گھنٹہ رہی ہوگی۔ مجھے مہاوت کی عافیت خطرے میں دکھائی دینے لگی۔ میں نے اپنے ہمراہیوں کو شیر کی لاش لانے کے لیے بانس وغیرہ کا انتظام کرنے کا حکم دیا اور سیدھا بسگام کے فرار کی راہ پر چلا۔ مجھے پورا یقین تھا کہ مہاوت کی لاش زمین پر پڑی ہوگی۔
آخرکار نصف میل تک انتہائی پریشانی سے چلنے کے بعد ہم نے بسگام اور مہاوت کو بخیریت ایک میدان میں کھڑے دیکھا۔ مہاوت کے بدن سے جگہ جگہ لہو رواں تھا۔
اگلے روز ہاتھی کی ٹانگ کافی سوج گئی تھی حالانکہ زخم معمولی سا ہی تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ شیر کا ایک دانت ٹوٹ کر اندر رہ گیا تھا۔ ہاتھی دو ہفتوں تک چلنے کے قابل نہ رہا۔ مہاوت بہت ضدی ہوتے ہیں اور انہوں نے محض مقامی ادویات پر ہی اصرار کیا۔ ان کی پسندیدہ دوا مہوے کے پھول سے تیار کردہ کوئی لیپ تھا۔ میرا خیال تھا کہ اس دوائی سے الٹا ہاتھی کی بیماری بڑھی۔
جونہی بسگام چلنے کے قابل ہوا، میں نے اسے جبل پور کے کمشنریٹ کو بھجوا دیا کہ وہ شکار کے لیے یکسر نامناسب تھا۔ اگر اس کے فرار کے وقت کوئی بندہ اس کی پشت پر سوار ہوتا تو وہ کب کا مر چکا ہوگا۔ مہاوت چونکہ اس کی گردن پر بیٹھا تھا جو نسبتاً نیچی جگہ تھی، سو وہ بچنے میں کامیاب رہا۔
ہندوستان میں ہاتھی کا استعمال شیر کے شکار سے اتنا منسلک ہے کہ اب اگلا باب میں شیر پر لکھوں گا۔
باب ۵
شیر
بنی نوع انسان کے تصور پر شیر سے زیادہ کسی اور جانور نے قبضہ نہیں کیا۔ اسے درندگی اور بربریت کا مجسم نمونہ سمجھا گیا ہے۔
ہندوستانی شیر اور ہاتھی (ہاتھی کو شیر کے شکار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے) ایک دوسرے سے اتنے منسلک ہیں کہ میں نے اگلا باب ہی شیر پر لکھنے کا سوچا۔
شیر کی تفصیلات بتانے کے لیے ضروری ہے کہ ابتدا اس کی پیدائش سے کی جائے۔ شیرنی ایک جھول میں تین سے زیادہ بچے کم ہی پیدا ہوتے ہیں، دو عام تعداد ہے۔ دو سال بعد شیر بالغ ہو جاتے ہیں۔
نر اور مادہ کی جسامت میں کافی فرق ہوتا ہے۔ میں نے نر اور مادہ کی پیمائش اور وزن کو بھی بہت مرتبہ ماپا ہے اور ہمیشہ نر اور مادہ میں بہت فرق پایا ہے۔ یہ فرق بہت سارے جانوروں اور انسانوں میں بھی ملتا ہے۔ اسی طرح شیر کی اوسط لمبائی یا وزن کا تخمینہ لگانا کافی مشکل ہے کہ مختلف علاقوں کے شیر مختلف ہوتے ہیں جو ان کے لیے دستیاب خوراک پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر شیر ایسے جنگل میں پیدا ہو جہاں جنگلی سور اور دیگر جانور بکثرت ہوں تو پہلے دن سے ہی اسے خوب کھانے کو ملتا رہے گا اور اسی وجہ سے اس کی لمبائی زیادہ اور وزن بھی خوب ہوگا۔
ایک جوان شیرنی کا وزن ۲۴۰ پاؤنڈ ہوتا ہے اور یہ وزن زندہ جانور کا ہے۔ بہت اچھا نر شیر ۴۴۰ پاؤنڈ تک ہو جاتا ہے اور اگر یہی شیر بہت فربہ ہو تو اس کا وزن ۵۰۰ پاؤنڈ بھی ممکن ہے۔ ۵۵۰ پاؤنڈ وزنی شیر بھی ملتے ہیں، مگر میں یہاں اپنے تجربے کی بات کر رہا ہوں۔
اسی طرح شیر کی لمبائی کا انحصار اس کو ماپنے کے طریقے پر بھی ہوتا ہے۔ میرے پاس ہمیشہ فیتہ رہتا ہے اور کھال اتارنے سے قبل میں شیر کو زمین پر سیدھا لٹا دیتا ہوں اور دم یا سر کو کھینچنے کی اجازت نہیں دیتا۔ پھر ناک سے دم کے سرے تک کی پیمائش کرتا ہوں۔ ساڑھے نو فٹ کا شیر اوسط کہلائے گا۔ تاہم اگر اسی شیر کو کھینچ کھانچ کر ماپا جائے تو دس فٹ کا بھی ہو سکتا ہے۔
کھال کو دیکھ کر شیر کی اصل جسامت کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ ۹ فٹ ۷ انچ والے شیر کی جب کھال اتاری جاتی ہے تو اس کا وزن ۵ پاؤنڈ بنتا ہے کہ شیر فربہ تھا۔ اس کے سر کو کاٹ کر کھال اتاری جائے تو اس کا وزن ۲۵ پاؤنڈ بنتا ہے۔ اس شیر کا اپنا وزن ۴۳۷ پاؤنڈ تھا مگر بہنے والے خون کا وزن ایک گیلن یعنی ۱۰ پاؤنڈ لگایا جائے تو اس کا وزن ۴۴۷ پاؤنڈ بنے گا۔ اس شیر کی کھال کو محفوظ کرنے کے بعد جب ماپا گیا تو ۱۱ فٹ ۴ انچ نکلی۔ شیر کی کھال کو محفوظ کرتے وقت خوب کھینچ کھانچ کر زیادہ سے زیادہ بڑا کیا جاتا ہے۔ اگر کسی ماہرِ فطریات نے زندہ شیر نہ دیکھا ہو تو کھال دیکھ کر اسے شدید غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ شیر کتنا بڑا ہوگا۔
چڑیاگھر کے شیر بیچارے بہت مسکین اور دبلے ہوتے ہیں کہ ان کی ورزش نہیں ہو سکتی اور پٹھے کمزور رہ جاتے ہیں۔ ایسے شیر کو دیکھ کر جنگل کے بادشاہ کے حجم کا اندازہ لگانا غلط ہے جو ہر روز طویل فاصلے طے کرتا ہے اور شکار کو اپنے زورِ بازو ہلاک کرتا ہے۔ اچھا شیر کبھی بھی دبلا نہیں ہوتا بلکہ فربہ ہوتا ہے۔ اس کے شانے چوڑے، کمر اور رانوں کے علاوہ ٹانگیں بھی خوب مضبوط ہوتی ہیں۔ اگلے بازو اور کلائیاں بالخصوص چوڑی ہوتی ہیں۔
شیر کے پٹھے سخت اور مضبوط ہوتے ہیں اور دونوں شانوں میں گوشت کے اندر دو اضافی ہڈیاں ہوتی ہیں جو کسی دوسری ہڈی سے نہیں جڑی ہوتیں۔ ان کا کام شیر کے عضلات کو اضافی قوت فراہم کرنا ہے۔
شیروں کی عادات میں بھی بہت فرق ہوتا ہے، کچھ جنگل کے جانوروں کو کھاتے ہیں تو کچھ کا کام دیہاتوں کے ریوڑ کھانا ہوتا ہے۔ ایسے شیر بالخصوص بڑے اور موٹے ہوتے ہیں۔ چند شیر آدم خور ہوتے ہیں جو بعض اوقات بہت بدمزاج ہوتے ہیں اور انسان سے ٹاکرا ہونے کی صورت میں اسے مار کر پیٹ بھر لیتے ہیں اور سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یا پھر جب وہ زخمی ہوں اور پتہ چل جائے کہ انسان کا شکار کتنا آسان ہوتا ہے یا جب شیر بوڑھا ہو جائے یا پھر بچوں والی شیرنی ہو جس نے جنگل سے لکڑیاں چننے والی کسی عورت کو دبوچ لیا ہو اور پھر جان گئی ہو کہ انسان کا شکار کتنا سہل ہے۔ پھر شیر کو انسانی گوشت سے رغبت ہو جاتی ہے اور کبھی کبھار ہی پالتو مویشیوں کو کھاتا ہے۔
باقاعدہ آدم خور انتہائی محتاط جانور ہوتا ہے اور اس کا شکار اسی مناسبت سے مشکل تر۔ اس کی وجہ اس کی طاقت نہیں ہوتی بلکہ اس کی احتیاط اور کمینگی ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کی تلاش کا کام بہت مشکل اور مشقت طلب ہو جاتا ہے۔ مقامی بندہ آدم خور کا پوری طرح پیٹ نہیں بھرتا۔ اگر یہ عورت ہو تو شاید کولہوں پر زیادہ گوشت ہو کہ شیر کولہوں سے کھانا شروع کرتا ہے۔ آدم خور ہمیشہ بے خبر انسان کی گردن دبوچتا ہے اور پھر لاش کو گھسیٹ کر کسی محفوظ مقام پر لے جاتا ہے اور پھر پیٹ بھرتا ہے۔
کولہے اور پھر رانیں اور پھر دیگر پُرگوشت حصے کھانے کے بعد شیر عموماً لاش کو چھوڑ جاتا ہے اور کبھی واپس نہیں لوٹتا۔ جب بھوک لگے تو چند میل دور کسی اور دیہات میں نیا شکار کر لیتا ہے۔ اسی احتیاط کی وجہ سے آدم خور کی ہلاکت مشکل ہو جاتی ہے۔ اس طرح آدم خور عام شیروں سے مختلف ہوتا ہے کہ مویشی خور شیر پہلی بار پیٹ بھرنے کے بعد تقریباً ہمیشہ ہی شکار پر دوبارہ لوٹتا ہے۔ اگر شکاری کو رات کے شکار کا تجربہ اور شوق اور صبر ہو تو وہ شکار کردہ جانور سے دس گز کے اندر مچان بنا کر بیٹھ جاتا ہے۔ تاہم یہ انتظام دوپہر سے قبل ہو جانا چاہیے تاکہ شام کے وقت کوئی شور یا مداخلت آتے ہوئے شیر کو بھگا نہ دے۔ درخت پر مچان بنانا بہتر نہیں کہ اوپر موجود پتوں کی وجہ سے رائفل کے دیدبان دکھائی نہیں دیتے۔ سو پانچ انچ موٹی تین بَلیاں زمین میں گاڑ کر بارہ فٹ اونچی ایک تکون بنا دی جاتی ہے۔نچلے سرے دو فٹ جتنے زمین کے اندر گڑے ہوتے ہیں۔ تینوں بلیوں کا درمیانی فاصلہ چار فٹ ہوتا ہے۔ اس طرح یہ ڈھانچہ دس فٹ اونچا ہوتا ہے۔پھر تختوں کو رسیوں کی مدد سے اس پر باندھ دیا جاتا ہے کہ یہ ڈھانچہ ہلنے کے قابل نہیں رہتا۔ یہ تختے اوپری سرے سے ایک فٹ نیچے باندھے جاتے ہیں۔ اس پر ایک موٹی دری بچھا دی جاتی ہے۔ اس پر موڑھا یا سٹول رکھ کر شکاری بیٹھ جاتا ہے۔ اس کے اطراف میں بانس لگا کر اس پر کچھ ٹہنیاں لگا دی جاتی ہیں تاکہ شکاری نیچے سے دکھائی نہ دے۔ یہ مچان کہلاتا ہے۔ جب ہانکا کیا جائے تو شیر کبھی اوپر درختوں کی جانب نہیں دیکھتا اور اس کی ساری توجہ فرار کے راستے پر مرکوز ہوتی ہے۔ تاہم جب شیر اپنے شکار کردہ جانور کی لاش پر لوٹ رہا ہو تو وہ بہت محتاط ہو جاتا ہے اور ہر چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ہر طرح سے تسلی کرنے کے بعد بھی شیر وہیں پیٹ بھرنے نہیں بیٹھ جاتا بلکہ لاش کو پندرہ یا بیس گز دور گھسیٹ کر کھانا شروع کرتا ہے۔ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ شیر کولہوں اور نچلے دھڑ سے پہلے پیٹ بھرتا ہے۔ دوسرے چکر پر وہ اگلا حصہ کھاتا اور پھر گیدڑوں اور گِدھوں کے لیے کم ہی کچھ بچتا ہے۔ شکاری کا زمین سے دس فٹ اونچا ہونا اس لیے ضروری ہے کہ شیر کو شکاری کی بو نہ آئے۔
مجھے رات کا شکار پسند نہیں اور بہت کم ہی ایسا شکار کرتا ہوں۔ ساری رات تکلیف دہ حالت میں بیٹھے رہنا، ساری رات مچھروں کا مقابلہ کرنا اور اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے رہنا اور ہر سائے کو متوقع جانور سمجھ لینا، تھکا دیتے ہیں۔ اگر جانور آ بھی جائے تو بھی جب تک چاند نہ نکلا ہوا ہو، آپ کو جانور کا محض ہیولہ سا ہی دکھائی دے گا۔ بہت سے لوگوں سے میں نے سنا ہے کہ وہ ساری رات آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے سے تھک گئے اور آنکھ لگ گئی۔ صبح جب اٹھے تو بیل کی لاش غائب تھی۔ شیر بغیر کسی آہٹ کے آیا اور لاش لے گیا۔ رات کے وقت رائفل کے دیدبان کو دیکھنے کے لیے کئی طریقے استعمال ہوتے ہیں۔ سب سے آسان طریقہ دیدبان پر سفید رنگ کا کاغذ چڑھا دینا ہے۔ عموماً کاغذ کو کاٹ کر موم کے ساتھ نال پر چپکا دیتے ہیں۔ رات کو جب درخت کے پتوں کا سایہ نہ ہو تو سفید کاغذ صاف دکھائی دیتا ہے۔ مقامی لوگ چونے کو گوندھ کر اس کی گیند سی بنا کر دیدبان پر لگا دیتے ہیں۔ تاہم چمکدار روغن سے زیادہ بہتر کوئی چیز نہیں۔ اسے سربند بوتلوں میں خریدا جا سکتا ہے اور کئی سال تک چلتا ہے۔ اس کی تھوڑی سی مقدار بھی کافی رہتی ہے۔
آدم خور شیر کے لیے خصوصی احتیاط کرنی پڑتی ہے کہ اگر شیر کو شبہ بھی ہو جائے تو شکاری خود شکار ہو سکتا ہے۔ آدم خور شیر بغیر کسی آہٹ کے آتا ہے اور شکاری کو خبر بھی نہیں ہو پاتی۔ اس کی ایک مثال چند سال قبل ناگپور کے ضلعے میں ملی تھی۔ ایک شیرنی نے کئی انسان ہلاک کر کے کھا لیے تھے اور اس کی ہلاکت پر بڑا انعام مقرر ہوا تھا۔ ایک مقامی کو ہلاک کر کے شیرنی لے گئی تھی مگر اس کا تعاقب کیا گیا تو شیرنی پہلا لقمہ کھائے بغیر ہی بھاگ گئی۔ شکاریوں کا خیال تھا کہ رات کو شیرنی لوٹے گی۔
اس مقام پر کوئی درخت نہیں تھا اور نہ ہی مچان باندھنے کا موقع۔ انہوں نے موقع پر چار گہرے گڑھے کھودے اور لاش ان کے عین وسط میں پڑی تھی۔ ہر گڑھے میں ایک شکاری اپنی پرانی میچ لاک بندوقوں سے مسلح ہو کر بیٹھا۔ کچھ بھی نہ ہوا اور چاند غروب ہو گیا اور رات تاریک ہو گئی۔ شکاری اپنے گڑھوں سے نکلتے ہوئے خوفزدہ تھے کہ آدم خور کہیں بھی چھپی ہو سکتی تھی۔ سو وہ انہی گڑہوں میں ہی سو گئے۔
پو پھٹتے وقت تین شکاری تو گڑھوں سے نکلے مگر چوتھا غائب تھا۔ چند گز دور اس کی بندوق پڑی تھی اور گرد پر شیرنی کے پگ صاف دکھائی دے رہے تھے۔ ساتھ اس شکاری کی لاش گھسیٹنے کے نشانات بھی تھے۔ جب وہ لاش تک پہنچے تو شیرنی اپنا پیٹ بھر کر جا چکی تھی۔ شیرنی نے اُس روز بازی جیت لی تھی اور بہت سے شکاریوں کے تعاقب کے باوجود ایک سال بعد جا کر شکار ہوئی۔
اپنے شکار کو لے جانے کے حوالے سے شیر کی طاقت کے بارے بہت سی کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔ بہت سے اچھے خاصے عقلمند بندے بھی شیر کے بارے بتاتے ہیں کہ کیسے شیر پوری طرح جوان گائے کو مارنے کے بعد منہ میں پکڑ کر اسے اٹھا کر لے جاتا ہے۔ یہ بات مضحکہ خیز ہے کیوں کہ شیر کی نسبت گائے کا وزن زیادہ ہوتا ہے، اس لیے گائے کا کچھ نہ کچھ حصہ زمین سے لگتے رہنا چاہیے۔ ہندوستان کے مویشی بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور عموماً دبلے بھی، سو گائے کا وزن بمشکل ہی ۳۵۰ سے ۴۰۰ پاؤنڈ ہوتا ہوگا۔ اوسط نر شیر کا بھی اتنا ہی وزن ہوتا ہے۔ شیر عموماً لاش کو جزوی اٹھاتا ہے اور کچھ حصہ پیچھے گھسٹتا رہتا ہے۔ اس حالت میں سوچیے کہ مردہ بیل کو شیر جب گھسیٹ کر زمین پر ابھری ہوئی جڑوں، ندی نالے کے پتھروں اور دیگر رکاوٹوں سے جب گزرتا ہوگا تو کتنی مشقت ہوتی ہوگی۔ مگر پوری طرح جوان گائے یا بیل کی لاش کو شیر کبھی بھی پوری طرح زمین سے اٹھا کر نہیں جا سکتا۔
اکثر شکاری شیر کے شکار کی نیت سے چار یا چھ ماہ کا چھوٹا بھینسا باندھتے ہیں اور ظاہر ہے کہ چرواہے انہیں لاغر ترین جانور بیچتے ہیں۔ اس لیے ایک بڑا شیر تو ان بھینسوں کو اٹھا کر لے جا سکتا ہے اور شاید لاش کی ٹانگیں زمین پر گھسٹتی جائیں۔ اگر لاش بھاری ہو اصولی طور پر شیر لاش کو اٹھا کر نہیں لے جاتا بلکہ اٹھاتے ہوئے کھینچتا ہے۔
بڑے شیر کا حملہ بہت خوفناک ہوتا ہے اور اندازہ کر سکتے ہیں کہ ۴۰۰ سے ۵۰۰ پاؤنڈ وزنی جانور جب جست لگا کر بیل کی گردن پکڑتا ہے تو کتنی طاقت لگتی ہوگی۔ مقامی لوگ سمجھتے ہیں کہ دورانِ جست شیر اپنے شکار کی گدی پر دانت جماتا ہوا دوسری جانب جا گرتا ہے۔ اس طرح گردن اچانک مڑتی ہے اور جانور کی مزاحمت کی وجہ سے گردن ٹوٹ جاتی ہے۔ پھر شیر گلے سے پکڑ کر لاش کو کسی محفوظ جگہ لے جا کر پیٹ بھرتا ہے۔ شاید ہی شیر کسی جانور کی گردن نہ توڑے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ شیر اپنے پنجے کی ضرب سے گردن توڑ دیتا ہے جو کہ غلط ہے۔ ببر شیر کی مانند شیر تھپڑ نہیں لگاتا بلکہ پنجوں سے محض گرفت کرتا اور خراشیں لگاتا ہے۔ میں نے کئی مرتبہ انسان پر شیر کے حملے کا جائزہ لیا ہے اور کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ شیر نے تھپڑ مارا ہو بلکہ شیر ہمیشہ پکڑنے کے لیے پنجے گاڑتا ہے اور دانتوں سے جکڑ کر گردن کی ہڈی یا شانے کی ہڈی توڑ دیتا ہے۔ انسان پر حملہ کرتے ہوئے شیر عموماً کھوپڑی پر پنجے مارتا ہے اور عین اسی وقت گردن بھی منہ میں دبا لیتا ہے۔ چونکہ ہندوستانی لوگ کمزور جسامت کے ہوتے ہیں، سو شیر کے کھلے منہ میں ان کا سینہ اور پشت دونوں ہی سما جاتی ہیں۔
اس طرح کے حملے کا شکار ہوئے کئی بندے دیکھے تھے اور ہر ایک کی کھوپڑی پر لگا زخم ماتھے سے گُدی تک پھیلا ہوا تھا اور اتنا نفاست سے کٹا ہوا جیسے جراح کے نشتر سے بنا ہو۔ یہ زخم مہلک نہیں ہوتا تھا مگر متوفی کی موت کی وجہ اس کے سینے اور پشت پر لگنے والا زخم تھا جس میں دانت پھیپھڑوں تک پہنچ گئے تھے۔
ہندوستان کے جنگلوں میں جانے والے مقامی افراد کی تعداد کو دیکھیں تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیسے اتنے کم افراد جنگلی جانوروں کے ہاتھوں ہلاک ہوتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ زخمی ہوئے یا ہانکے سے ہٹ کر شیر شاید ہی کبھی انسان کو ہلاک کرنے کی نیت سے اس پر حملہ کرتا ہو۔ اکثر جب شیر کو تنگ کیا جائے تو وہ دھاڑ لگا کر حملے کے لیے دوڑتا ہے مگر حملہ کرنے کی نیت نہیں ہوتی۔ اگر انسان ذرا سا بھی شور کرے تو شیر فوراً فرار ہو جاتا ہے۔ تاہم بہت سارے شیر فطری طور پر بدمزاج بھی ہوتے ہیں اور آدم خور نہ ہوتے ہوئے بھی وہ بغیر کسی وجہ کے مقامی افراد کو ہلاک کر دیا کرتے ہیں مگر وہ نہ تو اس سے پیٹ بھرتے ہیں اور نہ ہی لاش پر لوٹ کر آتے ہیں۔
اگرچہ شیر بلی کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے مگر اسے پانی بہت پسند ہے۔ گرم موسم میں شیر ہمیشہ کسی تالاب، ندی یا دریا کے کنارے سائے میں ملے گا۔ شیر اُتھلے پانی میں رہنا پسند کرتا ہے اور پھر ریت پر لوٹنیاں لگا کر اپنا بدن خشک کرتا ہے۔ شیر بڑے دریا تیر کر عبور کر سکتا ہے اور برہم پترا جب کئی میل چوڑا ہو چکا ہوتا ہے، تو بھی شیر اسے عبور کر لیتا ہے کہ اس میں کئی جگہ گھاس پھونس اور نرسلوں سے بھرے جزیرے بھی آتے ہیں۔ اگر مٹرگشت کے دوران کوئی شکار نہ ملے تو شیر کافی طویل فاصلہ طے کر سکتا ہے۔
شیر کو گرمی پسند نہیں اور عموماً شمالی چین، منچوریا اور کوریا میں ملتا ہے جہاں سردیاں شدید ہوتی ہیں۔ سرد موسم میں شیر کی کھال بالدار کی بجائے سمور کی ہو جاتی ہے اور دم بھی خوب گھنی ہو جاتی ہے اور سارا بدن بہت خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔ ہندوستان کے گرم موسم میں شیر ہرگز خوش نہیں ہوتا اور اسے بہت پیاس لگتی ہے۔ اس کے پنجوں کی گدیاں بہت نرم ہوتی ہیں اور گرم ریت اور پتھروں سے جھلس جاتی ہیں۔ اس طرح ہانکے کے دوران اس کو آسانی سے آگے لگایا جا سکتا ہے۔ ہندوستان میں ہانکے والے شیر کی عادات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ تاہم سردیوں میں جب ہر ندی نالے اور تالاب میں پانی موجود ہوتا ہے تو شیر سے زیادہ کسی دوسرے جانور کی تلاش مشکل نہیں ہوتی۔
ہندوستان میں سبز جنگل اتنے گھنے ہوتے ہیں کہ زیادہ فاصلے تک کچھ دیکھنا ممکن نہیں رہتا مگر شیر کی دھاری دار کھال خشک ٹہنیوں، زرد گھاس اور فصل کے ادھ جلے تنوں سے اتنی مل جاتی ہے کہ چند گز کے فاصلے سے بھی اسے دیکھنا ممکن نہیں رہتا۔ اس کے علاوہ شیر کے چلنے کی آہٹ بھی نہیں ہوتی، سو شیر آسانی سے آ جا سکتا ہے۔ ہانکے کے دوران ذرا سا بھی شبہ ہو تو شیر اپنا راستہ بدل لیتا ہے۔ شیر سے زیادہ شاید ہی کوئی دوسرا جانور خطرے کو اتنی اچھی طرح بھانپ سکتا ہو۔
شیر کی قوتِ شامہ بہترین ہوتی ہے اس لیے ہانکا ہوا کی سمت سے شروع کیا جائے۔ اس طرح انسانی بو سے شیر دور جانے کی کوشش میں آسانی سے مطلوبہ سمت بڑھتا جائے گا۔ بصورتِ دیگر شیر ہانکے کے آگے چلتے ہوئے جب بڑھتے ہیں تو سامنے سے شکاریوں کی بو سونگھ کر واپس مڑ کر اور ہانکے کی قطار توڑ کر نکل جاتے ہیں۔
گرم موسم میں زیادہ تر درختوں کے پتے گر جاتے ہیں اور سو گز دور سے بھی جانور دکھائی دے سکتا ہے جو عام حالات میں پتوں کے پیچھے چھپا ہوتا۔ زمین پر مرجھائے پتوں کے ڈھیر بچھ جاتے ہیں اور اتنے سوکھ جاتے ہیں کہ ان پر ذرا سا پیر رکھا جائے تو ایسی آواز سے ٹوٹتے ہیں جیسے شیشے کی کرچیوں پر چلا جا رہا ہو۔ ایسی صورت میں ہانکے کے علاوہ شکار کا کوئی طریقہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔
شیر کی عادات کو بخوبی سمجھ لیا جائے تو مقامی شکاری کی مدد لازمی ہو جاتی ہے۔ یہ بندہ احمق اور ضدی تو ہوتا ہے مگر اسے اپنے علاقے اور مقامی شیر کے بارے سب کچھ معلوم ہوتا ہے۔ شیر کی عادت ہوتی ہے کہ مخصوص جگہ آرام کرتا ہے اور مخصوص راستوں پر ہی چلتا ہے۔ اس لیے کسی نالے یا راستے پر شیر کے تازہ پگ دکھائی دیں تو ظاہر ہے کہ شیر اسی راستے پر اپنے مطلوبہ مقام پر سو رہا ہوگا۔ مقامی شکاری فوراً جان لے گا کہ شیر کس سمت سے آیا ہے اور بتائے گا کہ تنگ کیا جائے تو شیر کس راستے سے جائے گا۔
عجیب بات ہے کہ اگر ایک شیر مارا جائے تو کچھ ماہ بعد ہی دوسرا شیر اس کی جگہ آ جائے گا اور لگ بھگ پہلے شیر والے راستوں پر چلتے ہوئے اور انہی مقامات پر آرام کرنے کو رکے گا اور انہی تالابوں سے پانی پیے گا حالانکہ دونوں کا کبھی سامنا بھی نہیں ہوا ہوگا۔
میں پہلے ہی شیر کی قوتِ شامہ کے بارے کہہ چکا ہوں کہ بہت طاقتور ہوتی ہے اور اسی وجہ سے شکاری کو ہمیشہ زمین سے دس فٹ اونچی مچان پر بٹھانا چاہیے۔
اندازے کی بنیاد پر جنگل میں ہانکا کرانا شاید ہی کبھی فائدہ دے۔ ایسے جنگل، جہاں شیر بکثرت ہوں، اکثر ہرن کے ہانکے میں بھی شیر نکل آتے ہیں اور شکاری تیار نہیں ہوتا۔
شیر کے شکار کا مناسب طریقہ درجِ ذیل ہے۔ فرض کریں کہ تین شکاری کسی ایسی جگہ پہنچتے ہیں جہاں چند روز قبل شیر نے گائے ہلاک کی ہوتی ہے۔ سب سے پہلے تو مقامی افراد کو ہر سمت بھیج کر تازہ پگ کی اطلاع منگوائی جاتی ہے اور ایسی جگہ کی تلاش بھی کہ جہاں شیر نے آخری بار پانی پیا ہو۔
شکاریوں کے پاس دو ہاتھی بھی ہونے چاہیئں چاہے جنگل کی نوعیت ہاتھی کی پشت پر سے شکار کے لیے مناسب نہ ہو۔ ان میں سے کم از کم ایک ہاتھی کو قابلِ بھروسہ ہونا چاہیے جو زخمی شیر کی تلاش میں بہادری اور آرام سے چل سکے۔ اس شکار کا خطرناک ترین مرحلہ وہ ہوتا ہے جب شکاری کو زخمی شیر کی تلاش میں خاردار جنگل میں پیدل گھسنا پڑتا ہے۔ قابلِ بھروسہ ہاتھی اس صورت میں نعمتِ غیرمترقبہ ثابت ہوتا ہے۔ جب ہانکے والے درختوں پر محفوظ جگہوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور شکاری شیر کے قریب ہی ہو مگر اسے دیکھ نہ سکے اور آہستہ آہستہ آگے بڑھے کسی وقت بھی شیر ہاتھی پر حملہ کر سکتا ہو۔
ہاتھی کی عدم موجودگی میں شیر کا پیچھا پیدل کرنا انتہائی خطرناک کام ہوتا ہے۔ مقامی شکاری عموماً اس بارے کافی پراعتماد ہوتے ہیں اور اونچے درخت پر چڑھ کر بیٹھ جاتے ہیں جہاں سے تیس یا چالیس گز تک انہیں صاف دکھائی دیتا ہے۔ اگر اتنی دور تک شیر موجود نہ ہو تو پھر وہ نیچے اتر کر احتیاط سے آگے بڑھتے ہیں اور پھر درخت پر چڑھ کر یہی عمل دہراتے ہیں۔ اس طرح وہ پیش قدمی جاری رکھتے ہیں حتیٰ کہ شیر دکھائی دے جاتا ہے۔ اگر شکاری کو درخت پر چڑھنے کی عادت ہو تو آسانی سے وہیں بلندی پر بیٹھے بیٹھے اطمینان سے نشانہ لے کر گولی چلا دیتا ہے۔ اگر اسے شیر واضح نہ دکھائی دے رہا ہو تو شکاری اندازے سے شیر پر گولی چلاتا ہے مگر گولی اس طرح چلانی چاہیے کہ یا تو شیر کے دماغ میں ترازو ہو جائے یا پھر گُدی میں۔
جب شکاری کسی جگہ پہنچ کر گائے کی ہلاکت کی خبر سنتے ہیں تو ہاتھی پر سوار ہو کر آس پاس کے علاقے اور پانی پینے کے مقامات پر شیر کے پگ تلاش کرتے ہیں۔ فرض کر لیتے ہیں کہ چند گھنٹے کی تلاش کے بعد انہیں پگ مل جاتے ہیں۔ اب تعاقب کا کام شروع ہوتا ہے اور شیر کی عادات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے تو شیر کے پانی پینے کے مقام کا علم ہونا چاہیے۔ خشک موسم یعنی مئی کے اوائل سے ہی گرمی کی شدت سے زمین کسی بھٹی کی طرح سلگنے لگتی ہے۔ اگر کوئی مستقل دریا نہ بہتا ہو تو اس علاقے میں کہیں پانی دکھائی نہیں دے گا۔ پھر دو یا تین بھینسے خرید کر پانی کے قریب مناسب مقامات پر بطور گارا بندھوا دیتے ہیں۔ رات کو شیر جب شکار کی تلاش میں مٹرگشت پر نکلتا ہے تو ان بھینسوں کو دیکھ سکتا ہے۔ تاہم یہ بھینسے ایک سے ڈیڑھ سال عمر کے ہونے چاہیئں تاکہ شیر کم از کم دو مرتبہ پیٹ بھر کر کھا سکے۔ اتنی مقدار میں گوشت کھانے کے بعد شیر زیادہ دور نہیں جا پائے گا اور پانی پینے کے بعد وہیں قریب ہی کہیں سو جائے گا۔
بھینسوں کو خریدتے ہوئے کافی احتیاط کرنی چاہیے۔ مقامی لوگ ہمیشہ کمزور اور بیمار جانور بیچنے کی کوشش کرتے ہیں اور شیر جب تک بھوکا نہ مر رہا ہو، کبھی ایسے بیمار جانور پر حملہ نہیں کرتا۔ اسے بھی ہماری طرح بہترین جانور کھانا پسند ہوتا ہے۔ جب شیر بھینسے کا پچھلا حصہ کھا لیتا ہے تو اسے کافی پیاس لگتی ہے۔ سو گارے کو پانی سے دو سو گز سے زیادہ فاصلے پر نہیں باندھنا چاہیے۔ اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ شیر پانی پی کر وہیں سو جائے گا اور بھینسے سے زیادہ دور نہ ہوگا۔ اگر پانی دور ہوا تو بھرا پیٹ ہونے کی وجہ سے جب شیر پانی پیتا ہے تو وہیں کہیں سو جاتا ہے کہ بھرے پیٹ کے بعد اسے نیند آتی ہے اور وہ کبھی لمبا فاصلہ طے کر کے لاش کو واپس نہیں جائے گا۔ اس طرح شکاری کا اندازہ غلط ہو جائے گا اور ہانکا بیکار ہو جاتا ہے۔ تمام انتظامات کے لیے کافی تیاری کرنی پڑتی ہے۔ مقامی شکاری بھینسے کو ایسی جگہ باندھتے ہیں جہاں دو مختلف پگڈنڈیاں ملتی ہیں تاکہ ان راستوں پر چلتے ہوئے شیر بھینسے کو دیکھ لے۔ میں اس کے خلاف ہوں کہ اگرچہ بھینسا مارا تو جائے گا مگر مداخلت کا امکان رہتا ہے کہ مقامی لوگ بھی انہی راستوں پر چلتے ہیں۔ ہلکی سی آہٹ بھی شیر کو خبردار کر کے بھاگنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ اس لیے وہ شکار کے پاس رہنے کی بجائے کہیں دور چلا جائے گا۔
مقامی لوگوں کو بہت تجسس ہوتا ہے اور جب بھی بھینسا مار کر کسی نالے میں گھسیٹ کر لے جایا جائے تو شکاری اور اس کے ہمراہی کوشش کرتے ہیں کہ شیر کو پیٹ بھرتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ یہ شکار کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے کہ شیر کو ان لوگوں کا پتہ چل ہی جاتا ہےا ور پھر وہ موقعے سے گم ہو جاتا ہے۔
مقامی شکاری کی حماقت یا شوق کی وجہ سے بہت بار ہانکے ناکام رہتے ہیں۔ اگر شکاری تجربے کار ہو تو اسے پورے کام کی خود نگرانی کرنی چاہیے۔
کامیابی کا دارومدار انہی چھوٹی چھوٹی مگر اہم باتوں پر ہوتا ہے۔
جب گارے کے لیے بھینسا باندھا جاتا ہے تو اسے اگلے پیر سے باندھنا چاہیے اور رسی اتنی مضبوط ہو کہ بھینسا اسے نہ توڑ سکے مگر اتنی بھی مضبوط نہ ہو کہ شیر بھی نہ توڑ سکے۔ اگر رسی بہت مضبوط ہو تو شیر اسے توڑ نہ سکے گا اور پچھلا حصہ کھانے کے بعد شیر پانی کے لیے نکل جائے گا۔ اس طرح لاش گِدھوں اور گیدڑوں کے لیے کھلے میں پڑی رہ جائے گی جو چند گھنٹوں میں ہی سارا گوشت کھا جائیں گے۔ جب گہری کھائی میں لاش کو پتوں کے ڈھیر کے نیچے چھپایا جائے تو گِدھ اسے تلاش نہیں کر سکتے اور شیر کو بھی تسلی ہوتی ہے کہ اس کا شکار کہیں نہیں جائے گا۔ سو شیر وہیں کہیں سو جائے گا اور جب ہانکے والے قریب پہنچیں گے تو بیدار ہوگا۔
اگر بھینسے کے گلے میں رسی ڈال کر باندھا جائے تو شیر کو خطرے کا احساس ہو جاتا ہے اور حملہ نہیں کرتا۔ میں نے کئی بار دیکھا ہے کہ شیر بھینسے کے گرد چکر کاٹتا رہا مگر جست لگا کر دبوچا نہیں۔ شاید اسے کسی خطرے کا احساس ہو گیا ہوگا حالانکہ زمین پر پگوں کے نشانات واضح تھے۔ اس کے علاوہ ایک بار میں نے بھینسے کی لاش کے ساتھ ہی گدھ مرا ہوا دیکھا تھا جو شاید شیر نے تھپڑ مار کر مارا ہوگا۔ جب بھینسے کو باندھا جائے تو اس کی اگلی ٹانگوں کو ایک فٹ یا سولہ انچ لمبی رسی سے باندھ دینا چاہیے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ اگر بھینسا رات کو رسی تڑا بھی لے تو بھی زیادہ دور نہیں جا پائے گا۔ اس طرح اگر بھینسا شیر کو دکھائی دے بھی گیا تو وہ لازمی حملہ کر دے گا۔ ایسی صورت میں فوراً ہانکا ہونا چاہیے کہ بھینسے کی لاش کہیں قریب ہی چھپی ہوئی ہوگی اور شیر بھی کہیں پاس ہوگا۔
گرمی کے موسم میں بہتر ہوتا ہے کہ ہانکا دس بجے کے بعد شروع ہو تاکہ شیر آرام سے سو چکا ہو۔ یاد رہے کہ بھینسے باندھنے سے قبل ہی مچانیں بھی بنا دینا بہتر رہتا ہے۔ مقامی شکاری بھینسے کی ہلاکت تک یہ کام ملتوی کر دیتے ہیں اور بعد میں جب مچان بنائی جاتی ہے تو قریب ہی موجود شیر کو آوازیں سنائی دیتی ہیں تو وہ بھاگ جاتا ہے اور ہانکا ناکام ہو جاتا ہے۔
میں مچان کے لیے ہمیشہ کیمپ میں لکڑیاں تیار کراتا ہوں اور قلی انہیں موقع پر لے جاتے ہیں۔ اس طرح مچان بناتے ہوئے ذرا سا بھی شور نہیں ہوتا جو کامیاب ہانکے کی اہم شرط ہے۔
مچان کی تکون بنیاد کے لیے تین بَلیاں ہونی چاہیئں اور اس پر مچان کے لیے لکڑیاں اگر سیدھی ہوں تو سولہ سے بیس کافی رہتی ہیں۔ اس بارے زیادہ توجہ نہیں دی جا سکتی۔ مقامی افراد کم وزن ہوتے ہیں اور آلتی پالتی مار کر گھنٹوں آرام سے بیٹھ سکتے ہیں مگر یورپی افراد کے لیے ایسا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے جب مقامی شکاری بتائے کہ مچان تیار ہے تو اس پر اندھا اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔
بہت مرتبہ ہانکے کے دوران شیر اس لیے بھی بچ کر نکل جاتے ہیں کہ شکاری انتہائی تکلیف دہ حالت میں بیٹھا ہوتا ہے اور شیر اچانک نمودار ہو جاتا ہے۔ اگر بڑی، مضبوط اور کشادہ مچان ہو تو ہوا سے جھولتی نہیں اور گولی خطا جانے کا امکان نہیں رہتا۔
میں بہت مرتبہ کوے کے گھونسلے جیسی کمزور مچان پر بیٹھا ہوں جو انتہائی کمزور شاخوں پر بنائی گئی تھیں اور ذرا سا بھی ہوا چلتی تو کانپنے لگ جاتی تھیں۔ ایسے حالات میں گولی خطا جانے کے پورے امکانات ہوتے تھے اور خوش قسمتی سے مجھے ایسی حالت میں کبھی گولی چلانے کی ضرورت نہیں پیش آئی۔
اگرچہ ہانکا اکتا دینے والا شکار لگتا ہے مگر دلچسپی لی جائے تو کافی مزے کا شکار ہوتا ہے۔ تاہم اس سے متعلق ہر کام پر توجہ دینا ضروری ہے۔ جب شیر بھینسا مار لے تو تمام تیاریاں کر لینی چاہیئں اور پھر ہانکے پر پوری توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ مختلف علاقوں کے مقامی مختلف صلاحیتیں رکھتے ہیں اور کئی جگہو ں پر مقامی ذہین ہوتے ہیں اور ہانکے میں پوری دلچسپی دکھاتے ہیں۔ اگر شکاری سخاوت دکھائے تو ان سے بہتر مدد اور کہیں سے نہیں مل سکتی۔ بعض جگہوں پر شکار کی کثرت ہوتی ہے مگر مقامی لوگ بزدل ہوتے ہیں اور ہانکے کے دوران کسی بھی قیمت پر وہ قطار بنانے کو تیار نہیں ہوتے اور ہانکے کی پوری کامیابی کا انحصار ہانکے کی قطار پر ہوتا ہے۔
پانچ سے آٹھ گز کے فاصلے پر چلتے ہوئے قطار کی صورت میں جب ہانکا ہوتا ہے تو ہانکے والوں کو خطرہ نہیں ہوتا۔ تاہم جب ہانکے والے گھبرائے ہوں تو قطار کی بجائے وہ دس یا بیس کی ٹولیوں میں چلنے لگتے ہیں اور اس طرح شور کرتے چلتے ہیں جیسے قطار شروع والی ترتیب سے چل رہی ہو۔ ایسے مواقع پر شیر کو قطار میں جگہ جگہ سوراخ دکھائی دیتے ہیں اور وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور ہانکا ناکام رہ جاتا ہے۔
ہانکے کی کامیابی کے لیے مزدوروں کا قطار میں اور برابر فاصلے پر ہونا لازمی ہے۔ اس کے علاوہ انہیں شکاریوں کے مقام کا بھی پورا علم ہو اور شیر کی عادات سے بھی آگاہ ہوں۔ ہانکے کی کامیابی کے لیے آٹھ یا دس تجربہ کار افراد کو ہانکے کی نگرانی سنبھالنی چاہیے اور قطار میں مناسب جگہوں پر موجود رہ کر احکامات جاری کرتے رہیں۔
بعض انتہائی ذہین شکاری ایسے بھی ہوتے ہیں جو شیر کو کسی بھی سمت جانے پر مجبور کر سکتے ہیں (اگرچہ استثنائی صورتیں ہوتی ہیں) اور کسی بھی مچان کے سامنے شیر کو لا سکتے ہیں۔ یہ کام زیادہ مشکل نہیں۔ ہانکا عموماً ہلال کی شکل میں تین چوتھائی دائرے جیسا ہوتا ہے۔ اگر تین شکاری ہوں تو انہیں مناسب جگہوں پر ایک دوسرے سے ۸۰ سے ۱۰۰ گز کے فاصلے پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ پھر کنارے والے شکاریوں سے پچاس پچاس گز کے فاصلے پر دو قطاریں سیدھی ہونی چاہیئں جن میں مقامی افراد درخت پر چڑھ کر نہ صرف منظر دیکھ سکتے ہیں بلکہ احکامات بھی آگے پہنچا سکتے ہیں۔ یہ قطار سیدھی ہانکے والوں تک جاتی ہے۔ اگر شیر اس علاقے میں موجود ہو تو پوری طرح گھیرے میں آ جاتا ہے۔ ہانکے والے تین اطراف میں جبکہ شکاری سامنے چوتھی سمت میں موجود ہوتے ہیں اور اطراف میں تیس سے پچاس گز کے فاصلے پر کئی افراد بھی چوکیداری کرتے رہتے ہیں۔ اگر جنگل زیادہ گھنا نہ ہو تو شیر کچھ ہی دیر میں دکھائی دے جاتا ہے۔ پھر ہانکا شروع ہوتا ہے اس طرح آگے بڑھتا ہے کہ شیر کسی ایک خاص مچان کی طرف پیش قدمی پر مجبور ہو جاتا ہے۔
اطراف میں بیٹھے افراد کو انتہائی خشک ٹہنیاں دے دی جاتی ہیں۔ جب اسے شیر اپنی جانب ہانکے سے نکلتا دکھائی دے تو ایک ٹہنی کو توڑ دیتا ہے۔ یہ آواز شیر کو واپس لوٹنے پر آمادہ کرنے کو کافی ہوتی ہے۔ شیر چند لمحے رک کر آوازیں سنتا ہے اور ہانکے والوں کے شور کی وجہ سے پھر مچانوں کی طرف چل پڑتا ہے۔ اس طرح نادیدہ چوکیدار شیر کو فرار ہونے سے روکتے ہیں اور کسی شبہے کے بغیر شیر چلتا ہوا مچانوں تک پہنچ جاتا ہے۔ عموماً ۳۰ سے ۴۰ گز کے فاصلے پر شکاری گولی چلا دیتا ہے۔ تاہم اس طرح کے شکار میں مہارت درکار ہوتی ہے تاکہ عین وقت پر ٹہنی کو توڑا جائے تاکہ شیر کو اپنی مرضی کی سمت جانے پر مجبور کیا جا سکے۔
اصولی طور پر ہانکے کے دوران معمولی سی آواز بھی شیر کا رخ موڑ دیتی ہے کہ شیر جانتا ہے کہ ہانکے والے اسے اس علاقے سے بھگانے پر تلے ہیں۔ شیر کسی لومڑی کی طرح چھپ چھپا کر چلتا ہے اور بار بار رک کر پیچھے آتے ہانکے والوں کو سنتا جاتا ہے۔ اگر اچانک شور ہو تو شیر واپس مڑ کر ہانکے والوں پر حملہ کر کے فرار ہو جائے گا۔
بعض شیر دوسروں کی نسبت زیادہ چالاک ہوتے ہیں اور کئی بار ہانکے سے بچنے کی وجہ سے جانتے ہیں کہ اسی طرح ہی وہ بچ سکتے ہیں۔
جب زمین کٹی پھٹی ہو اور جنگل بہت گھنا، تو شیر ہانکے والوں کا دور سے شور سنتے ہی آگے بڑھنے کی بجائے عموماً کسی گڑھے میں دبک کر بیٹھ جاتا ہے۔ یہ کافی خطرناک ہوتا ہے کہ شیر اسی طرح چھپا ہوا ہانکے والوں کو آتا دیکھتا رہے گا اور جب وہ محض چند گز دور رہ جائیں گے تو زور سے دھاڑ لگا کر بھاگتے ہوئے خوفزہ ہانکے والوں کے درمیان سے بچ کر نکل جاتا ہے۔ بعض اوقات تو راستے میں آنے والے کسی بیچارے دیہاتی کو پکڑ کر دو چار جھٹکے کر اس کا خاتمہ کرتا جاتا ہے۔ مجھے ایسے کئی شیروں کا علم ہے جو کئی بار اسی طریقے سے ہانکے سے بچ کر نکل گئے اور ان کا شکار انتہائی دشوار ہو گیا تھا۔
ایسی صورتحال میں میرا خیال ہے کہ ہانکے والوں کو ہرگز کوئی آواز نہیں نکالنی چاہیے اور قطار کی شکل میں آگے بڑھتے آئیں اور ساتھ ہی درختوں کے تنوں پر لکڑیاں مار کر آواز پیدا کرتے جائیں۔ مناسب وقفوں سے چھ یا آٹھ مقامی بندوق بردار بھی موجود ہوں اور اگر شیر ہانکے کی قطار توڑ کر نکلنا چاہے تو گولی چلا کر اسے ڈرا دیں۔ بعض اوقات شیر بندوق کا دھماکہ سن کر واپس مطلوبہ سمت فرار ہو جاتے ہیں۔ یہ فطری حس ہوتی ہے کہ پیچھے موجود ہانکے والوں کے شور کے باوجود جانور آگے موجود خطرے کا اندازہ کر کے پیچھے کی سمت بھاگنا چاہتا ہے۔ اگر جانور پیچھے کی سمت فرار ہونے کا سوچ لے تو پھر اس کو موڑنا ممکن نہیں ہوتا اور جو کوئی بھی راستے میں آئے گا، اس کے لیے خطرہ ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں شیر انتہائی خطرناک ہو جاتا ہے۔ تاہم فرار کے وقت تمام جانور ہی بہت محتاط ہو جاتے ہیں اور انسان کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں۔ اکثر شیر خاندان کی شکل میں رہتے ہیں اور ان میں نر، مادہ اور دو نوجوان بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا شیر ایسے خاندان میں مستقل رہتا ہے یا پھر وقتاً فوقتا آتا جاتا رہتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ شیر آتا جاتا رہتا ہوگا کیونکہ اسے مادہ سے دلچسپی محض افزائشِ نسل کے دوران ہوتی ہے اور ویسے تنہا زندگی گزارنے کا عادی ہوتا ہے۔ بعض خوش قسمت شکاری ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی مچان کے سامنے شیروں کا پورا خاندان گزرتا ہے اور وہ ہر ایک شیر کو شکار کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ میری قسمت کبھی اتنی اچھی نہیں رہی۔ میں نے چار میں سے تین شیر تو شکار کیے ہیں مگر چوتھا شیر جو کہ بڑا نر ہوتا ہے اور ہمیشہ محتاط ہوتے ہوئے سب سے پیچھے رہتا ہے، ہانکے والوں کی طرف سے فرار میں کامیاب رہتا تھا۔
جب تک بچے جوان نہ ہو جائیں، شیرنی ان کے ساتھ رہتی ہے اور انہیں بچپن سے ہی شکار کرنا سکھاتی رہتی ہے۔ کئی بار میں نے دیکھا ہے کہ چارے کے لیے چوتھائی میل کے فاصلے پر دو بھینسے باندھے گئے تھے اور اگرچہ وہ پوری طرح جوان نہیں تھے مگر پہلے بھینسے کی لاش کی گردن اور گلے پر کافی زخموں کے نشانات ہوتے تھے۔ ظاہر ہے کہ پہلے بچوں نے گردن توڑنے کی کوشش کی تھی اور پھر ماں نے مدد کی اور گردن توڑ دی اور یہ علامات زیادہ بڑے دانتوں کے نشانات سے واضح دکھائی دیتی ہیں۔ چھوٹے دانتوں اور پنجوں کے نشانات سے دکھائی دیتا ہے کہ کیسے بچوں نے گردن توڑنے کی ناکام کوششیں کی تھیں اور پھر ماں مدد کو آئی۔ دوسرے بھینسے کی گردن اور گُدی پر زخموں کے نشانات تو تھے مگر وہ ہمارے آنے تک زندہ کھڑا تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں بھینسوں پر شیر کے بچے نے حملے کیے اور ایک مرتبہ ماں نے مدد کی۔ لاش کے ساتھ ایک مردہ گِدھ بھی پڑا تھا جو شاید بچے نے مارا ہو۔ شاید یہ گِدھ دن کو مارا گیا ہوگا کہ رات کو گدھ درختوں پر سوتے ہیں۔
اگر شیر اور شیرنی اکٹھے ہوں تو ہانکے کے دوران شیرنی عموماً پہلے نکلتی ہے اور اس بات کو یاد رکھنا چاہیے۔ عموماً جب شیرنی نکلے تو اس مقام پر نظریں جمائے شیر کا انتظار کرنا چاہیے۔ اصول یہ ہے کہ سب سے پیچھے والے شیر پر پہلی گولی چلانی چاہیے ورنہ وہ گولی کا دھماکہ سنتے ہی سے مُڑ کر فرار ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ شکاری جب مچان پر بیٹھے تو اپنے سامنے کے علاقے کو پوری طرح ذہن نشین کر لے تاکہ کسی قسم کے بھی غیرمتوقع واقعے سے نمٹنے میں آسانی ہو۔ اسے اپنے سامنے موجود ہر جھاڑی، ہر کھلے قطعے اور شیر کے نکلنے کی متوقع جگہ کا پورا اندازہ ہو۔ شکاری کے چوکنا نہ ہونے کے سبب زیادہ تر شیر یا تو صحیح سلامت یا پھر معمولی زخمی ہو کر فرار ہو جاتے ہیں۔ شکاری عموماً اپنے سامنے کے علاقے کا بغور معائنہ نہیں کرتے اور جب شیر اچانک دکھائی دیتا ہے تو بوکھلا جاتے ہیں اور بہت عجلت سے گولی چلا دیتے ہیں اور نتیجتاً نشانہ یا تو خطا جاتا ہے یا پھر شیر معمولی زخمی ہوتا ہے اور پھر اس کے خون کے نشانات پر تعاقب کرنا پڑتا ہے۔ شیر کے شکار میں زیادہ تر شکاری اسی وجہ سے جان گنواتے ہیں کہ وہ گولی چلاتے وقت محتاط نہیں ہوتے۔ شیر پر محض اس وقت گولی چلانی چاہیے جب گولی اعضائے رئیسہ پر کہیں لگنے کا یقین ہو اور شیر زیادہ سے زیادہ چند منٹ میں ہلاک ہو جائے۔ اگر شیر سامنے سے گزر رہا ہو تو اس کے شانوں کے عین درمیان چلائی گئی گولی سیدھی دل میں ترازو ہو جاتی ہے اور اس کے دونوں کندھے بھی بیکار ہو جاتے ہیں اور وہیں گر جاتا ہے۔ شانے کے پیچھے بغل پر چلائی گئی گولی سے پھیپھڑے ناکارہ ہو جاتے ہیں اور ایک یا دو منٹ میں شیر مر جاتا ہے۔ تاہم پہلے منٹ کے دوران اگر شیر کے ہتھے کوئی انسان چڑھ جائے تو اس کا تیاپانچہ ہو جاتا ہے مگر اس کے بعد جریانِ خون سے شیر دم گھٹنے سے مر جاتا ہے۔ اگر شکاری کو اپنے نشانے اور رائفل کی درستگی پر پورا بھروسہ ہو تو پیشانی پر دونوں آنکھوں کو ملانے والے خط سے ذرا اوپر چلائی گئی گولی سے شیر عین اسی وقت ہلاک ہو جاتا ہے۔ یہ نشانہ عموماً اس وقت لیا جاتا ہے جب شکاری مچان پر یا کہیں اونچی جگہ بیٹھا ہو اور شیر اس کی سمت آ رہا ہو۔ تاہم نشانہ ذرا اوپر لینا چاہیے تاکہ اگر گولی پیشانی سے ہٹ کر بھی پڑے تو گردن توڑ جائے اور اگر زیادہ اوپر گولی جائے تو بھی ریڑھ کی ہڈی سلامت نہ رہے۔ تاہم اگر گولی نیچے چلائی جائے گی تو یا تو شیر کی ناک زخمی کر کے زمین میں دھنس جائے گی۔ تاہم اگر شکاری زمین پر موجود ہو تو اسے ذرا نیچے ناک کے عین درمیان کا نشانہ لینا چاہیے۔ اگر گولی ایک انچ اوپر گئی تو شیر بچ نکلے گا اور اگر گولی ذرا نیچے گئی تو گردن توڑتی ہوئی یا پھر سینے سے دل اور پھیپھڑوں کو تباہ کرتی ہوئی گزرے گی۔ ایسی صورتحال میں .۵۷۷ بور کی ۶۵۰ گرین کی ٹھوس گولی اور چھ ڈرام بارود انتہائی عمدہ نتائج پیش کرتے ہیں اور شیر یا ببر شیر کا حملہ وہیں رک جائے گا اور شکاری کا حوصلہ بڑھ جائے گا۔
باب ۶
شیر (جاری)
نیچرل ہسٹری کو اس کی فطری حالت میں دیکھنا بہت خوشی کا باعث بنتا ہے کہ جنگلی جانور اور ان کی عادات و اطوار فطری مقامات پر بالکل فطری ہوتے ہیں۔ آپ اطمینان سے ان جانوروں کی روز مرہ کی سرگرمیوں، ان کے آنے جانے کا مطالعہ کر سکتے ہیں جو بصورتِ دیگر چڑیا گھر کے تنگ پنجروں میں بند جانوروں سے کبھی نہیں دکھائی دے سکتا۔ تاہم چڑیاگھروں میں بند جانوروں کی تصویر کشی آسان ہوتی ہے اور مطلوبہ جنگلات کے سفر سے پہلے ان جانوروں کا بنیادی مطالعہ مفید رہتا ہے۔
عام خیال ہے کہ اگر جنگلی جانوروں کا واسطہ اگر بارودی اسلحے سے نہ ہوا ہو تو انہیں انسان سے ڈر نہیں لگتا اور ہرن وغیرہ جیسے شرمیلے جانوروں کو قریب سے دیکھنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی کہ جنگلی جانوروں کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ میرا تجربہ اس کے برعکس ہے۔ لگ بھگ سبھی جانوروں کے فطری دشمن ہوتے ہیں اور وہ نئی چیز کو دیکھ کر اور نئی آواز کو سن کر اسے خطرے سے جوڑ دیتے ہیں۔
درندے کمزور جانوروں کے لیے دہشت کا پیغام ہوتے ہیں اور انتہائی گرمی کے موسم میں بھی پانی کے کنارے کھڑے ہو کر یہ غریب جانور جب تک دائیں اور بائیں دیکھ کر پوری طرح اطمینان نہ کر لیں کہ کوئی درندہ ان کی گھات میں نہیں چھپا ہوا، پانی کو چھو بھی نہیں سکتے۔ اس کے باوجود بھی پورا غول ایک ساتھ پانی نہیں پیتا بلکہ کچھ جانور چوکیداری کرتے ہیں اور باقی پانی پیتے ہیں۔
عجیب بات دیکھیے کہ بعض نسل کے جانور اور پرندے انسانوں سے خصوصاً دور بھاگتے ہیں حالانکہ انہی جگہوں اور انہی حالات میں رہنے والے دوسرے جانور اور پرندے ایسا نہیں کرتے۔
عام مشاہدہ ہے کہ پن ککڑی چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو، اس کے قریب پہنچنا آسان نہیں ہوتا، حالانکہ کئی جگہوں پر ان کا شکار ہوتا ہے اور کئی جگہوں پر بھی جہاں ان کا شکار نہیں ہوتا، پھر بھی یہ پرندے بہت محتاط رہتے ہیں۔
گولڈن پلوور اس کی ایک اور اہم مثال ہے کہ یہ پرندہ ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ ویگ ٹیل بھی ہر جگہ ملتا ہے مگر انسان سے ڈرتا نہیں۔ ابابیل زمانہ قدیم سے انسانوں کے پاس رہتے آئے ہیں اور ان کے گھونسلے عموماً انسانی گھروں کے اندر ہوتے ہیں۔
ایک ہی جیسے حالات میں رہنے والے جانوروں اور پرندوں کے رویے میں اتنا فرق کیسے ہوتا ہے، اس بارے کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔
یہ بات بھی سمجھ سے باہر ہے کہ کیسے ایک ہی نسل کے کچھ جانور بہت شرمیلے ہوتے ہیں اور کچھ بہت نڈر۔
درندوں کی بہادری یا بزدلی ان کی قسم پر ہوتی ہے اور کچھ حد تک ماحول پر بھی انحصار کرتی ہے۔ شیر اور ببر شیر فطری طور پر شرمیلے ہوتے ہیں اور غیرضروری خطرے کا سامنا کرنا پسند نہیں کرتے اور عموماً کسی انسان کو گزرتے دیکھیں تو جھاڑی میں چھپ کر بیٹھے رہیں گے یا اگر انہیں یقین ہو کہ انہیں نہیں دیکھا گیا تو چھپ کر کہیں اور نکل جائیں گے۔
تاہم علاقے کے اعتبار سے یہ فرق ہو سکتے ہیں اور کسی خاص نسل کے بارے ایک جیسا فیصلہ دے دینا مناسب نہیں کہ علاقے کے اعتبار سے ان کا رویہ فرق ہو سکتا ہے۔
اونچی گھاس والے جنگل میں رہنے والے شیر عام جنگل والے شیروں کی نسبت زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ بھی ظاہر ہے کہ انہیں اونچی گھاس کی وجہ سے نہ تو دیکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی وہ کسی کو آتا دیکھ سکتے ہیں۔ اس لیے انسان جب تک ان کے سر پر نہ پہنچ جائے، دونوں ایک دوسرے کی موجودگی سے بے خبر رہتے ہیں۔ سو سامنا ہوتے ہی شیر یا تو حملہ کر دیتا ہے یا پھر بھاگ جاتا ہے۔ اگر یہی شیر اگر درختوں والے جنگل میں دکھائی دے تو انسان کو آتا دیکھ کر یا اس کی آہٹ سن کر شیر پہلے سے ہی خبردار ہو کر کہیں اور چل پڑے گا۔
شیروں کے لیے عام طور پر کم عمر بھینسا چارے کے طور پر باندھا جاتا ہے مگر بوڑھے بھینسے سے زیادہ خطرناک کوئی اور جانور نہیں سمجھا جاتا۔ اگر شیر بھینسوں کے ریوڑ پر حملہ کرنے کی حماقت کر بیٹھے تو پورا ریوڑ زخمی بھینس کی مدد کو لپکتا ہے اور شیر کو اتنی مار پڑتی ہے کہ اسے فرار پر ہی قرار کرنا پڑتا ہے۔
جب یہ کتاب لکھی جا رہی تھی تو اس سے چند ماہ قبل ایک مقامی بندہ میرے کیمپ میں اطلاع لے کر آیا کہ ایک نالے سے شیر نے جست لگا کر اس کی گائے پر حملہ کیا جو اس سے چند گز دور ہی گھاس چر رہی تھی۔ اس نے شیر کو بھگانے کی نیت سے شور مچایا تو ساتھ ہی موجود دو بھینسیں جو یہ دیکھ رہی تھیں، نے شیر پر حملہ کر کے اسے ٹکر ماری تو شیر نے بھاگ کر جھاڑیوں میں پناہ لی۔ گائے کی گردن بری طرح زخمی تھی اور وہ گاؤں کو بھاگی اور مالک نے پیچھا کیا۔ میں نے فوراً اس جگہ کا رخ کیا جو کیمپ سے دو میل دور تھی۔ اس جگہ زمین پر پگوں کے نشانات سے اس بندے کی کہانی کی تصدیق ہوئی۔ میں نے اگلے روز یہاں ہانکا کرایا مگر شیر مایوس ہو کر اس علاقے سے جا چکا تھا۔
اس سے شیر کے محتاط ہونے کے بارے پتہ چلتا ہے۔ میرا شکاری بہت تجربہ کار ہے اور اس کا خیال گائے کے مالک سے مختلف تھا۔ گائے کے مالک کا خیال تھا کہ شیر اس دس ایکڑ جتنے نشیب میں ہی کہیں موجود ہوگا۔ اس نے کہا کہ ہمیں فوراً ہانکا کرانا چاہیے ورنہ بھینسوں سے مار کھانے کے بعد شیر رات یہاں نہیں گزارے گا۔
میرے شکاری کا خیال اس سے مختلف تھا۔ اس نے کہا کہ شیر اس نشیب میں نہیں ہوگا کہ اس جگہ زمین کٹی پھٹی اور جنگل پاس ہی موجود ہے اور اس کے فرار کے لیے بہت سارے گہرے نالے موجود ہیں۔ اگر ہانکا کیا گیا تو شیر ہانکے سے باہر ہوگا اور شور سنتے ہی خبردار ہو کر بھاگ جائے گا۔ اس کے علاوہ چونکہ شیر نے دن دیہاڑے گائے پر حملہ کیا تھا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ شیر بہت بھوکا ہے اور اگر اس کے لیے ایک دو گارے بندھوا دیے جائیں تو وہ لازمی ان پر ہاتھ صاف کرے گا۔ سو اگر ہم گارے بندھوا دیں تو اگلی صبح ہانکے میں شیر کا مارا جانا یقینی ہوگا۔
دلیل معقول اور عام اصول کے مطابق تھی، مگر مقامی بندہ اصرار کر رہا تھا کہ بھینسوں سے مار کھانے کے بعد شیر کبھی بھی اتنی جلدی درخت سے بندھے ہوئے بھینس کی نسل کے کسی جانور پر حملہ نہیں کرے گا اور اگر ہم نے فوری ہانکا نہ کیا تو شیر اگلی صبح غائب ہوگا۔
بعد میں واقعات سے ثابت ہوا کہ اس مقامی بندے کی بات درست تھی کہ اگلی صبح دونوں بچھڑے زندہ سلامت تھے اور شیر اس علاقے سے غائب ہو گیا تھا۔
بھوکا ہونے کے باوجود شیر نے ایک سال عمر کے ان بچھڑوں کو چھونا بھی پسند نہیں کیا۔
برہم پترا کے پاٹ میں بنے گھاس کے جزائر پر بارہ سے چودہ سال قبل شیروں کی بہتات تھی مگر جوں جوں سٹیمروں کی تعداد بڑھتی گئی، شیروں کی تعداد گھٹتی گئی۔ پہلے ڈھبری سے جنوب میں دریا کے بہاؤ سے جگہ جگہ چند سو سے لے کر دو میل لمبے جزیرے بنے ہوتے تھے اور ان پر اونچی گھاس اور جھاؤ کے درخت اگ آتے تھے۔ ایسی جگہوں پر شیر اور دیگر جانور رہنا پسند کرتے ہیں۔ دریا کئی جگہوں پر اچانک مڑتا ہے اور جنگل کے کنارے کے نیچے کی مٹی نکال دیتا ہے۔ کئی جانور چارے اور پناہ کی تلاش میں آ جاتے ہیں اور ان کی آمد اُس وقت بڑھ جاتی ہے جب جنگل میں گھاس کو سالانہ بنیادوں پر آگ لگائی جاتی ہے۔
ایسے بے شمار جزائر پر جنگلی سور، پاڑے اور دیگر جانور رہنے لگتے ہیں اور ان کے پیچھے شیر بھی آ جاتے ہیں۔ اس جگہ شیر بھی محفوظ رہتے ہیں کہ شکاری کو دس فٹ اونچی گھاس سے شیر دکھائی نہیں دیتا اور اگر ہاتھیوں کی پوری قطار نہ ہو تو شیر کا شکار ممکن نہیں رہتا۔ تاہم سٹیمروں کی وجہ سے نقل و حمل آسان ہو گئی ہے اور لوگوں نے کاشتکاری کے لیے ان جزائر کا رخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ سٹیمروں اور بارجوں کی وجہ سے زرعی پیداوار کلکتہ تک پہنچانا سستا ہو گیا ہے۔ بارج کی لمبائی ۲۷۰ فٹ ہوتی ہے اور اس کو سٹیمر کھینچتا ہے۔ بارج زیادہ گہرا نہیں ہوتا اور اسی وجہ سے اس کو کھینچنے والے سٹیمر ۲۷۰ سے ۳۰۰ فٹ لمبے ہوتے ہیں۔
برہم پترا کچھ اس نوعیت کا ہے کہ یہاں چلنے والی کشتیاں لمبی اور چوڑی تو ہوتی ہیں مگر زیادہ گہری نہیں، اس لیے ان پر ۱۷ فٹ لمبی پتوار ہوتی ہے تاکہ رخ موڑنے میں آسانی رہے۔
جب بھی پانی میں چھپی ریت کے ٹیلے سے یہ ٹکرا جائے تو اگلا سرا رک جاتا ہے مگر پچھلا سرا حرکت کرتے ہوئے متوازی آ جاتا ہے اور پھر پانی کے دباؤ سے اگلا سرا بھی نکل آتا ہے۔ اس سارے کام میں بمشکل ایک گھنٹہ لگتا ہے۔
برہم پترا غیرمعمولی دریا ہے کہ اس کا بہاؤ مستقل ایک جیسا نہیں رہتا اور برسات میں سیلاب کے دوران نت نئے راستے بنا لیتا ہے۔ اسی وجہ سے اس پر بنے جزیرے اپنی جگہ بدلتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات اس کا رخ اچانک مڑتا ہے اور پہلے سے موجود گہرے پانی میں ایک نیا جزیرہ نکل آتا ہے جو سٹیمروں کی نقل و حرکت کو متاثر کر دیتا ہے۔ اس لیے سٹیمروں کی حرکت بہت دشوار ہوتی ہے اور کپتانوں کے لیے طویل تجربہ ہونا لازمی ہے۔
سیلاب کے زمانے میں جزائر ڈوب جاتے ہیں اور جنگلی جانوروں کو جان بچانے کے لیے تیر کر قریبی کنارے تک جانا پڑتا ہے۔ ایسے مواقع پر شیر بھی اپنی جان بچانے کو تیرتے ہیں اور اگر شکاری کشتی پر ان کا پیچھا کریں تو آسانی سے شکار کر سکتے ہیں۔ ایک بار میں ایک سٹیمر پر سوار تھا اور اس کے کپتان نے ایک بہت بڑے سیلاب سے متعلق واقعہ سنایا جس کے دوران سبھی جزیرے ڈوب گئے تھے اور کئی جزائر کا مقام بدل گیا تھا۔ صبح جب اٹھے تو ایک بندہ جب کیبن سے باہر نکلا تو سامنے پتوار پر شیر بیٹھا ہوا تھا۔ میں اوپر بتا چکا ہوں کہ ان سٹیمروں کے پتوار ۱۷ فٹ لمبے ہوتے ہیں۔ اس کے دونوں جانب ایک ایک بارج بندھا ہوتا ہے۔
ان بارجوں کی اوپری سطح پانی سے محض تین فٹ اونچی ہوتی ہے۔ جب اس بندے نے شور کیا تو شیر نے پتوار سے جست لگائی اور سیدھا قریبی بارج میں جا گھسا۔ اگلے لمحے پریشان مقامی افراد میں بھگدڑ مچ گئی۔ اس دوران شیر نے دو افراد کو گرا دیا اور پھر جست لگا کر سٹیمر پر چڑھ گیا۔ اس نئی جگہ پر پہنچ کر وہ انسانی چیخوں سے گھبرایا اور سیدھا پناہ لینے ایک کمرے میں گھس گیا۔ چونکہ اس کمرے کا ایک ہی دروازہ تھا، سو کپتان نے حاضر دماغی سے کام لیتے ہوئے اسے بند کر دیا۔ شیر قید ہو گیا۔
سٹیمر پر ایک ہی بندوق تھی جو کپتان کی ملکیت تھی۔ دروازہ تو بند تھا ہی، سو شیر سے کوئی خطرہ نہ رہا۔ ہوا کی خاطر بنائی ہوئی چھوٹی سی کھڑکی سے کپتان نے نشانہ لے کر شیر کے سر میں گولی اتار دی۔ سارا معاملہ با سہولت نمٹ گیا۔ جو مقامی افراد شیر نے گرائے تھے، وہ زخمی نہیں بلکہ پریشان تھے۔
دخانی کشتیوں میں لگاتار نئی ایجادات کی وجہ سے دنیا بھر میں محض نصف صدی کے عرصے میں ہی بے پناہ ترقی ہوئی ہے اور نتیجتاً دریائے برہم پترا میں بڑھنے والی آمد و رفت کا جائزہ لیں تو کافی دلچسپ منظر سامنے آتا ہے۔ اگرچہ دریا کے اندر بنے جزائر پر آباد ہونے کے اپنے خطرات ہیں کہ سیلاب کے موسم میں بے گھر ہونا پڑتا ہے۔ ویسے یہ جگہیں پہلے شیروں کی آماج گاہیں ہوتی تھیں مگر زمین انتہائی زرخیز ہے اور پٹ سن کی پیداوار کے لیے مشہور۔ پیداوار کو کلکتہ سٹیمروں کے ذریعے بھیجا جاتا ہے۔ اچانک سیلاب کا دھڑکا ہمیشہ لگا رہتا ہے اور ہر گاؤں میں دو یا دو سے زیادہ بڑی کشتیاں ہمیشہ کنارے پر بندھی رہتی ہیں اور ان پر سرکنڈوں کی چھت ڈالی جاتی ہے تاکہ سورج سے بچاؤ ہو سکے اور جب بھی ضرورت پڑے، سوار ہو کر جان بچائی جا سکے۔
پہلے پہل جب انسانوں نے برہم پترا کے جزائر اور کناروں پر آباد ہونا شروع کیا تو شیروں کی وجہ سے بہت نقصان اٹھائے۔ پھر مقامی دیہاتیوں نے حفاظتِ خود اختیاری کے تحت پیسے جمع کر کے پیشہ ور شکاریوں کو مقرر کیا۔ ان شکاریوں نے جلد ہی پھندوں اور تیر کمان سے شیروں کی تعداد کم کر دی۔ ان کے چوڑے تیر خاردار ہوتے تھے۔ شیروں کی تعداد میں اتنی تیزی سے کمی ہوئی کہ بنگال کے لیفٹننٹ گورنر نے شیر کی ہلاکت پر انعام کو پچاس روپے سے کم کر کے پچیس روپے کر دیا اور ڈھبری کی کچہری میں شیروں کی کھال اکثر آٹھ آنے سے ایک روپیہ فی کھال کے حساب سے بکتی تھیں۔
اس طرح زرعی صنعت کی ترقی سے زرخیز زمین کی قدر بڑھتی گئی جو اب تک نظرانداز ہوتی آئی تھی اور جنگلی جانوروں کا اس کا سب سے پہلے خمیازہ بھگتنا پڑا اور بتدریج منظر سے غائب ہوتے گئے۔ یہ ایسے ہی تھا جیسے ترقی یافتہ اقوام کے سامنے وحشی اور جنگلی قبائل ختم ہوتے جاتے ہیں اور ان کے ملک کالونیوں کا حصہ بنتے جاتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ آج بھی ان جزائر یا چُر پر تھوڑے بہت شیر موجود ہوں گے مگر جیسا کہ سننے میں آتا تھا کہ یہ علاقہ شیروں سے بھرا ہوا ہے، میرے تجربے میں ایسا نہیں تھا۔ تاہم اب بھی میں ۱۸۸۵ میں یہاں کے دورے کو یاد کرتا ہوں تو بہت خوشی ہوتی ہے اور کھیڈا کے سپرنٹنڈنٹ جی پی سینڈرسن کا شکرگزار ہوتا ہوں کہ اس نے مجھے شکار کی خاطر مطلوبہ تعداد میں سدھے ہاتھی دیے تھے۔
موچتاگچا کے راجہ سوچی خان نے میمن سنگھ سے ۳۵ ہاتھیوں کے ساتھ شکار شروع کیا اور مجھے بھی چند روز کے لیے شکار کی دعوت دی۔ اس کے بعد میں نے سینڈرسن سے روہومری میں ملاقات کرنی تھی جو ڈھابڑی سے ۳۸ میل دور اور برہم پترا پر ایک مقام تھا۔ میرے پاس کل ایک درجن ہاتھی تھے جن میں سے کچھ تو کھیڈا سے بھیجے گئے تھے اور کچھ بجنی کی رانی نے عاریتاً دیے تھے۔ اس طرح ہمارے ہاتھیوں کی تعداد شکار کے حوالے سے مناسب ہو گئی۔ تاہم رانی کا ایک بہت بڑے دانتوں والا نر ہاتھی اتنا وحشی تھا کہ دوسرے ہاتھیوں کے ساتھ اسے چلانا ممکن نہیں تھا۔ یہ ہاتھی بہت طاقتور اور بہت پریشان رہتا تھا۔ اس نے ایک ہودا تباہ کر دیا تھا کہ ساتھ موجود گھاس کے قطعے کو کسی نے آگ لگائی تو اس پر دورہ پڑ گیا۔ ہاتھی نے فوراً دوڑ لگا دی تھی اور درختوں سے ٹکرا کر ہودا ٹوٹ پھوٹ گیا۔ شکر ہے کہ کوئی سوار نہ تھا ورنہ مارا جاتا۔ ہاتھیوں کے اعصاب کو آگ کی آواز سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے اور اگر وہ پوری طرح تربیت یافتہ نہ ہوں تو انتہائی خطرناک ہو جاتے ہیں۔
راجہ کو اپنے ہاتھیوں سے بہت شغف تھا اور کھیڈا کے ہاتھیوں سے وہ ایسے ہی فرق تھے جیسے عام اصطبل میں بندھے گھوڑوں اور شکاریوں کے گھوڑوں میں فرق ہوتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ سوچی خان کے ہاتھی کام نہیں کرتے تھے اور انہیں محض تفریح اور نمائش کی غرض سے رکھا جاتا تھا۔ کھیڈا کے ہاتھی جاڑو پہاڑیوں میں کئی کئی ماہ سخت مشقت اور عام سی خوراک پر گزارا کرتے تھے۔ سینڈرسن ان کی مدد سے جنگلی ہاتھی پکڑتا تھا۔ تاہم راجہ کے ہاتھی بہت اعلیٰ درجے کے تھے کہ انہیں شیر کے شکار کے لیے بطور خاص تربیت دی جاتی تھی اور ان کی چال اتنی ہموار ہوتی تھی کہ انسان ہودے پر رائفل اٹھائے کھڑا ہو سکتا تھا کہ ریلنگ تھامنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔
ان کی چال لہرانے کی بجائے ہموار تھی اور ہاتھی پر سوار ہو کر شکار میں لہرانے والی حرکت ہی سب سے زیادہ مشکل پیدا کرتی ہے۔ کچھ ہاتھی تو اتنے اچھے تربیت یافتہ تھے کہ شیر کو دیکھ کر بھی ان پر کوئی اثر نہ پڑتا تھا حالانکہ عموماً ہاتھی شیر کو دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں اور ساکت نہیں رہ سکتے۔
ایک اچھی شکاری ہتھنی میری آمد سے کچھ روز قبل شیر کے حملے سے زخمی ہو گئی تھی اور اندازہ تھا کہ اگلی بار شیر کا سامنا ہوا تو بھاگ جائے گی۔ اگرچہ ہاتھی کا وزن اور طاقت بے پناہ ہوتی ہے مگر اس کی سونڈ کا بالائی حصہ بہت نازک ہوتا ہے اور عین اسی جگہ شیر دانت اور پنجے گاڑتا ہے۔ یہ زخم بہت تکلیف دہ ہوتا ہے اور شیر کے وزن سے نہیں بلکہ تکلیف کی شدت سے ہاتھی اس حملے کی وجہ سے گھٹنوں کے بل جھک جاتا ہے۔ شیر جب پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو تو اس کی آٹھ فٹ سے زیادہ تک پہنچ سکتا ہے۔ ہتھنی کے دانت نہیں ہوتے اور جب ہاتھی اس کی سونڈ کے نازک حصے پر پنجے اور دانت گاڑنا چاہے تو ہتھنی اپنا دفاع بھی نہیں کر سکتی۔ پھر بھی شکار کے لیے ہتھنی کو ترجیح دی جاتی ہے کہ وہ قابلِ اعتبار اور فرمانبردار ہوتی ہے۔ اگر قابل اعتبار ہاتھی ہو تو نر کی بڑی جسامت، سہل چال اور بہترین تربیت اسے انمول بنا دیتی ہے۔ ایسے ہاتھی کی سواری زندگی کا بہترین اور ناقابلِ فراموش تجربہ ہوتی ہے۔
مہاوت اپنے ہاتھیوں کے بارے ہمیشہ مبالغہ آرائی کرتے ہیں اور ایک بار میں نے رانی بجنی کے ایک ہاتھی کے بارے کافی تعریفیں سنی تھیں کہ وہ بہترین ہاتھی ہے مگر بعد میں پتہ چلا کہ یہ ہاتھی اتنا بدمزاج ہے کہ راجہ نے اس ہاتھی کے ساتھ اپنے ہاتھی لانے سے انکار کر دیا تھا۔ اگر یہ ہاتھی ذرا سا بھی ہیجان میں مبتلا ہوتا تو فوراً دوسرے ہاتھیوں پر حملہ کر دیتا تھا اور نتیجتاً کئی مفید ہاتھی بیکار ہو جاتے کہ رانی بجنی کے ہاتھی کے دانت نہ تو کاٹے گئے تھے اور نہ ہی انہیں کند کیا گیا تھا۔ اس لیے یہ انتہائی خوبصورت ہاتھی کیمپ میں دوسرے ہاتھیوں کا چارہ لانے کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ برہما پترا کے کناروں پر کیلے کے جھنڈ بکثرت ملتے ہیں۔ جب کیلوں کی فصل اتار لی جائے تو مقامی افراد ان کو انتہائی معمولی قیمت پر کاٹنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ کیلے کا پورا پودا لگ بھگ ۸۰ پاؤنڈ وزنی ہوتا ہے۔ اس وزن کو ہاتھی پر لاد کر کیمپ بھیجا جاتا ہے جو زیادہ دور نہیں ہوتا۔ ہاتھی پر شاخوں اور کیلے کے تنے لادنے کا عمل کافی دلچسپ ہوتا ہے۔
اس کے لیے دو افراد درکار ہوتے ہیں۔ ایک بندہ زمین پر رہ کر ٹہنیاں پکڑاتا ہے اور دوسرا بندہ ہاتھی کی پشت پر کھڑا ہوتا ہے اور ٹہنیوں کے پتلے حصے گدے پر رکھ کر اس پر پیر رکھتا ہے اور پھر اس پر دوسری سمت دوسری شاخ رکھ دیتا ہے۔ وزنی حصے نیچے کو لٹکے ہوتے ہیں۔ اس طرح شاخیں رکھتے جاتے ہیں اور ہاتھی کی پشت پر شاخیں جمع ہو جاتی ہیں کہ جیسے وہ بھوسے کا ڈھیر ہو۔ ہاتھی تقریباً چھپ جاتا ہے۔
متذکرہ بالا ہاتھی کو اس کام کے لیے مقرر کیا گیا تھا اور شکاری ہاتھیوں کی قابلِ عزت جگہ اس کی پہنچ سے دور تھی۔ ہم ہاتھیوں کی قطار کو لے کر جاڑو پہاڑیوں میں گھسے جہاں ایک مقامی بندہ ہمیں گینڈے اور بھینسے دکھانے کے لیے ساتھ تھا۔
ہم صبح چھ بجے نکلے اور چودہ میل کا سفر کر کے منزل پر جا پہنچے اور جب اونچی گھاس والی چوڑی وادی میں گھسے تو قطار کی شکل بنا لی اور آہستہ آہستہ آگے بڑھتے رہے۔ کئی جگہ دلدلی قطعے آئے اور چودہ سے پندرہ فٹ اونچے نرسل بھی ملے اور ان کی موٹائی انسانی انگلی کے برابر تھی اور گنجانی اتنی کہ ہر ہاتھی محض اپنے دائیں اور بائیں والے ہاتھی کو ہی دیکھ سکتا تھا اور باقی سب نظروں سے اوجھل تھے۔ مجھے فوراً احساس ہو گیا کہ یہ طریقہ غلط ہے کہ نہ تو سامنے کوئی ہانکے کے سٹاپ تھے اور نہ ہی ہاتھیوں سے خبردار ہو کر بھاگتا ہوا کوئی جانور دکھائی دیتا تھا۔ گھاس اتنی سبز تھی کہ کبھی کبھی عین سامنے کسی بڑے جانور کے بھاگنے کی آواز تو آتی مگر دکھائی کچھ بھی نہ دیتا۔
ہانکے کا یہ نظام بالکل غلط تھا۔ میں چھ شکاریوں میں دوسرے نمبر پر جبکہ سوچی خان میرے بائیں جانب تھا۔ ہم اس طرح چلتے ہوئے چھوٹی پہاڑیوں کے قریب سے مڑے تو پہاڑی کے جنگل پر ایک نر اور ایک مادہ سانبھر بھاگتے دکھائی دیے۔ سوچی خان نے فوراً رائفل کی دونوں نالیں باری باری چلا دیں مگر خالی گئیں۔ یہ جنگل کچھ عرصہ قبل آگ لگنے سے صاف ہو گیا تھا۔ تاہم اس سے ہانکے کا طریقہ غلط ثابت ہو گیا کہ اس طرح جانور خبردار ہو کر بھاگ جاتے اور ہمیں دکھائی بھی نہ دیتے۔ ہمارا دائیاں پہلو چار سو گز دور رک گیا اور باقی قطار اس کے گرد گھومنا شروع ہو گئی تاکہ ہم دلدلی قطعے کو چھان سکیں۔ اس قطعے کے چاروں طرف پہاڑیاں اور جنگل تھا۔ اچانک دو سو گز دور سے گولی کی آواز آئی، پھر دوسری گولی چلی۔ مجھے یقین تھا کہ کوئی بھینسا ہوگا۔ میں گولیوں کی تعداد گنتا رہا۔ میں نے کل اکیس دھماکے سنے۔ اس دوران ہماری قطار آگے کو چل پڑی اور جانور بھاگتے تو رہے مگر ہمیں کچھ دکھائی نہ دیا۔ اگرچہ جنگل جلے ہوئے تھے مگر وادی کی گھاس دلدل کی وجہ سے گہری سبز تھی اور اپریل کے مہینے میں بھی ہاتھیوں کے پیروں تلے زمین سے پانی نکل رہا تھا۔ گولیاں چلنے کے بعد کچھ بھی نہ ہوا تھا، سو ہم ایک جگہ جمع ہوئے اور ہمارے سامنے ایک بھینسا مرا پڑا تھا اور چار شکاری اس کے ساتھ کھڑے تھے۔ انہوں نے مل کر اکیس گولیاں چلانے کے بعد اس بھینسے کو شکار کیا تھا اور اس دوران بھینسے نے بھی فرار کی بجائے وہیں رک کر مقابلہ کرنے کو ترجیح دی تھی۔
یہ موٹی کھال والے جانور پر کھوکھلی ایکسپریس گولیوں کی ناکامی کا شاہکار تھا۔ بھینسے کی لاش گولیوں سے چھلنی تھی اور اکثر گولیاں بالکل درست مقامات پر لگی تھیں اور ایک گولی تو شانے کے عین پیچھے تھی اور اگر اعشاریہ ۵۷۷ بور کی ۶۵۰ گرین کی ٹھوس گولی اور ۶ ڈرام بارود سے چلائی گئی ہوتی تو یہ اکیلی گولی بھی مہلک ثابت ہوتی۔ اس بھینسے کو جب ہاتھیوں نے ہر طرف سے گھیر لیا تو اس نے فرار ہونے یا حملہ کرنے کی بجائے وہیں کھڑا رہنے کو ترجیح دی۔
ہم کیمپ سے بہت دور تھے اور ہم نے واپسی کا رخ کیا۔ کچھ نرم زمین سے ہٹ کر چلتے ہوئے ہم ٹھوس زمین پر پہنچے اور راستے میں پاڑے شکار کرتے گئے۔ کیمپ واپسی پر رات ہو گئی۔ بارہ گھنٹے کا کل سفر رہا اور اتنی طاقتور رائفلوں کے ہوتے ہوئے بھی نہ ہونے کے برابر شکار ہوا۔
اس روز ہم نے بہت سارا علاقہ طے کیا مگر کہیں بھی گینڈے کے پگ نہ مل سکے اور محض چند بھینسوں کے پگ ملے سو ہم نے ایسی فضول جگہ کو چھوڑنے کا سوچا اور اگلے روز ہم دریا کے اندر بنے جزائر یا چُر کو جانے کا منصوبہ بنانے لگے کہ وہاں زیادہ شکار تو نہیں ہوگا مگر شاید شیر مل جاتا۔
برہما پتر کے ان گھاس سے بھرے جزائر پر بغیر کسی تیاری کے اور ہاتھیوں کی قطار لے کر گھس جانے سے کامیابی کے امکانات انتہائی کم ہوتے ہیں۔
ان جزائر میں اگر شیر بکثرت نہ ہوں تو سارا دن بیکار جا سکتا ہے۔ جلتی ہوئی دھوپ میں اتنے ہاتھیوں کے ساتھ بار بار آگے پیچھے چلتے پھرتے رہنا پڑتا ہے۔
چار شکاریوں کے پاس ہم نے بیس مویشی رکھے ہوئے تھے اور ان میں سے پانچ یا چھ کو ہم ہر شام کو ایک ایک میل کی دوری پر شیروں کے لیے بندھوا دیتے تھے۔ ہر صبح شکاری جا کر ان بھینسوں کو دیکھتے تھے اور اگر کوئی بھینسا مارا جاتا تو ہرکارہ کیمپ کو دوڑا دیتے۔ ہاتھی تیار ہوتے تھے اور بغیر کسی تاخیر کے ہم روانہ ہو جاتے۔ اس طرح شیر بھینیسے کی لاش کے پاس ہی کہیں نہ کہیں لازمی مل جاتا تھا۔ اس وقت کافی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ شیر ذرا سی بھی آہٹ پا کر اونچی گھاس میں چھپ کر فرار ہو جائے گا۔
شیر کی ہلاکت کو یقینی بنانے کے لیے کم از کم دو ہاتھی ضرور ہوں جو ہانکے کی قطار کے دونوں سروں پر پون میل آگے جا کر کھڑے ہوں اور دو ذہین مہاوتوں کو ہاتھیوں سمیت ہانکے کے اختتامی مقام کی طرف بھیج دیا جائے۔ انہیں لال رنگ کی جھنڈیاں دے دی جائیں تاکہ اگر شیر نکلے تو اسے شور مچا کر اور جھنڈیاں لہرا کر واپس ہانکے کی سمت بھیج دیا جائے۔ اس طرح شکاریوں کو بھی پتہ چل جائے گا کہ شیر چل پڑا ہے اور مہاوت بھی تیار ہو جائیں گے۔
ایک بار جب شیر اس طرح چل پڑے تو پھر عموماً جھک کر بیٹھ جاتا ہے اور جب تک ہاتھی بالکل قریب نہ آ جائیں، اپنی جگہ نہیں چھوڑتا۔ ایسے مواقع پر جو بھی قریب ہو، شیر اس پر حملہ کرتے ہوئے عقب کی سمت سے بھاگ نکلنے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کے شور سے ہاتھی ڈر کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔
اگر ایسا ہو تو فوراً ہانکے والوں کو عقب کی سمت موڑ دینا چاہیے اور آگے والے ہاتھیوں کی جگہ دوسرے ہاتھی دوسری سمت بھیج دینے چاہیئں۔ اگر شکاری دو یا تین سے زیادہ نہ ہوں تو اس طرح اونچی گھاس میں شیر کا شکار کئی گھنٹے جاری رہ سکتا ہے۔ اگر زیادہ گھنا جنگل نہ ہو اور محض اونچی گھاس ہو تو اچھے انتظام اور شکاریوں کے صبر کی وجہ سے کسی شیر کو فرار ہونے کا موقع نہیں مل سکتا۔
اس بارے میں راجہ سوچی خان نے اپنا کردار بخوبی ادا کیا اور اپریل کے اس گرم دن راجہ سوچی خان اور اس کے ساتھیوں نے انتہائی صبر اور استقامت سے شکار جاری رکھا۔
ڈھبری کے قریب ان جزائر پر بہت کم جانور تھے اور چند پاڑوں اور جنگلی سور کے علاوہ کچھ بھی نہیں ملا حالانکہ سورج طلوع ہونے سے دوپہر تک ہم مسلسل چلتے رہے مگر شیر نہ دکھائی دیا۔ تاہم دوسرے روز جب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے والا تھا کہ ہمیں ایک مقامی بندہ دکھائی دیا۔ اس نے بتایا کہ دو روز قبل ایک شیر اس کی گائے مار کر کھا گیا۔
اسے رہنما بنا کر ہم دو میل دور کو چل پڑے جہاں جھول کے درخت تھے۔ اس کے پاس ایک نشیب تھا جہاں اس نے ہمیں گائے کی ہڈیاں دکھائیں جن سے پہلے شیر اور پھر گیدڑوں اور جنگلی سوروں نے پیٹ بھرا تھا۔ جب تک شیر کو تنگ نہ کیا جاتا، وہ اسی علاقہ میں موجود رہتا۔ سو ہم نے اس جزیرے کے ایک ایک انچ پر پوری احتیاط سے ہانکے کا فیصلہ کیا۔ یہ جزیرہ کئی میل لمبا مگر اس کی چوڑائی کہیں بھی ایک میل سے زیادہ نہیں تھی۔
ہم نے قطار تو بنا لی مگر آگے کوئی ہاتھی نہیں بھیجے اور نہ ہی کوئی احتیاط کی۔ ہمارا مقصد محض آگے پیچھے مسلسل چلتے رہنا تھا۔ گھنٹوں پر گھنٹے گزرتے گئے اور کبھی کبھار سور نکلتے۔
دو بج گئے اور خواتین کے لیے گرمی ناقابلِ برداشت ہو گئی۔ میری بیوی میرے پیچھے ہودے پر سوار تھی۔ شکار کے دوران مجھے خواتین کی ہمراہی پسند نہیں مگر اُس روز اپنی بیوی کی خصوصی درخواست پر میں اسے لے آیا تھا۔ اسے شیر دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ ہم گھنے اور سبز جھول کے درختوں سے گزر رہے تھے کہ اچانک ہاتھیوں نے کان سونتے اور سونڈ اوپر نیچے کرنے کے علاوہ مختلف آوازیں بھی نکالنے لگے۔ یہ خطرے کی علامت تھی۔ اس جگہ درخت کافی زیادہ اور گھنے تھے کہ یہاں نشیب میں پانی جمع رہتا ہوگا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ شیر اسی جھنڈ میں چھپا ہوا ہے۔
مگر سوال یہ تھا کہ اسے باہر کیسے نکالا جائے۔
جھول کے درخت بیس فٹ اونچے ہوتے ہیں مگر ان کے تنے انسانی بازو سے زیادہ موٹے نہیں ہوتے۔ یہ درخت بہت قریب قریب اگے تھے اور ان کے گھنے پتوں نے ایسی آڑ بنا دی تھی کہ سو شیر بھی بہ آسانی چھپ سکتے تھے۔
اگرچہ یہ نشیب عام زمین سے محض چھ فٹ نیچے تھا مگر یہاں گھاس بہت گھنی اور سبز تھی جبکہ باقی جگہوں پر گھاس زرد ہو چکی تھی۔ اس نشیب کی تہہ دلدلی تھی جس کی وجہ سے سبزہ اتنا گہرا تھا۔ یہ نشیب ۸۰ سے ۹۰ گز چوڑا مگر چوتھائی میل لمبا تھا۔
اس گھنے جھنڈ سے شیر کی تلاش کا کام نہ تو مہاوتوں کو پسند تھا اور نہ ہی ہاتھیوں کو۔ یہاں شیر کو فائدہ ہونا تھا۔ چونکہ قطار کی اہمیت واضح تھی، سو میں نے راجہ سوچی خان سے درخواست کی کہ وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ اس جھنڈ کے نچلے سرے پر جا کر میرا انتظار کرے اور میں اس دوران ہانکے کا نظام سنبھالتا ہوں۔
میرا خیال تھا کہ اس طرح شیر نہیں بچ سکے گا۔
منصوبے پر عمل درآمد درست طور پر ہوا۔ شکاریوں نے اپنی جگہ سنبھال لی اور کچھ تاخیر کے بعد میں نے چالیس ہاتھیوں کی سیدھی قطار بنا لی۔ ہر ہاتھی ایک دوسرے سے چار یا چھ فٹ سے زیادہ دور نہ تھا۔ اس بارے پہلے ہدایات دی جا چکی تھیں اور نتیجہ شاندار نکلا۔ ہاتھیوں کے راستہ بنانے کا شور متاثرکن تھا۔ جھول کے درختوں کے اوپری حصے جھٹکے سے نیچے گرتے اور ایسی آواز آتی جیسے سرکنڈوں میں آگ لگی ہو۔ ساتھ ساتھ ہاتھیوں کی مختلف قسم کی آوازیں بھی آ رہی تھیں۔ مجھے یقین تھا کہ شیر ہم سے محض چند فٹ آگے رہتے ہوئے بڑھ رہا ہے۔
ہاتھیوں کا جوش بڑھتا گیا اور بعض اوقات دو یا تین ہاتھی شور مچا کر واپس مڑتے۔ میں فوراً قطار روک کر سب کو واپس اپنی جگہوں پر لوٹنے کا حکم دیتا اور پھر ہانکہ شروع ہو جاتا۔
اس طرح بار بار رکتے اور چلتے ہوئے ہم آگے بڑھتے گئے۔ اچانک ہم گھاس کے دلدلی قطعے میں جا پہنچے جو ان درختوں کے بیچ تھا۔ یہاں پہنچ کر اچانک کئی ہاتھیوں نے رخ موڑا اور دم دبائے بھاگنے لگے۔ جلد ہی اس کی وجہ بھی معلوم ہو گئی کہ ایک بڑا شیر مجھ سے بیس گز سے بھی کم فاصلے پر گزر رہا تھا۔ مجھے گولی چلانے کا بہترین موقع ملا۔
میری ہتھنی کا نام سوچنمیا تھا اور اس کے بارے بہت تعریفیں سنی تھیں کہ بہترین ہتھنی ہے۔ مگر جونہی اس نے شیر کو دیکھا تو ڈر کے مارے اپنے جسم کو عجیب عجیب انداز سے موڑنے لگی۔ نشانہ لینا تو کجا ہودے میں ہمارا وجود خطرے میں پڑ گیا۔
عمدہ نر شیر نے جب یہ عجیب تماشا دیکھا تو وہیں رک گیا۔ اگر ہتھنی محض دو سیکنڈ کے لیے رک جاتی تو شیر کے شانے پر گولی چلانے کا بہترین موقع مل جاتا۔ جب شیر رکا تو ہتھنی کی دہشت میں اور بھی اضافہ ہو گیا اور اس کے جسم میں ایسے جھرجھری دوڑنے لگی جیسے کتا پانی سے نکل کر اپنا بدن خشک کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمیں دونوں ہاتھوں سے ہودے کی ریلنگ پکڑنی پڑی تھی اور میری جیب کے کارتوس تُڑ مُڑ کر بیکار ہو گئے۔ مہاوت ہتھنی کے سر پر آنکس چبھوئے جا رہا تھا اور شیر سامنے کھڑا حیرت سے یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔
ہماری بے بسی زیادہ دیر نہ جاری رہی اور شیر گھنی آڑ میں گم ہو گیا اور میں ہتھنی پر غصہ اتارنے لگا۔ دو بار میں نے رائفل اٹھائی تھی مگر اتنی شدت سے جھٹکا لگا کہ میں اچھل کر ریلنگ سے جا ٹکرایا اور اگر ریلنگ ٹوٹ جاتی تو میں شدید زخمی ہوتا۔ چونکہ شیر بچ گیا تھا، سو ہم نے ہانکے کو واپس موڑا۔ میرا خیال تھا کہ ہم ہاتھیوں کو جنگل سے نکالیں اور واپس دوسرے سرے پر جا کر پھر اسی ہانکے کو آگے بڑھائیں۔ شیر عین اسی طرح کرتا جیسا اس نے اب کیا تھا اور جہاں سے وہ نکلتا، دونوں شکاری اس کے منتظر ملتے۔
ہاتھی کافی ہیجان میں تھے کہ انہیں اپنے سامنے موجود شیر کا علم ہو گیا تھا۔ میں نے ہر ہاتھی کے درمیان ایک گز فاصلہ رکھنے کا حکم دیا تاکہ شیر واپس نہ لوٹ سکے۔
اس طرح قریب رہتے ہوئے ہم نے پیش قدمی کے دوران کئی بار محض چند فٹ آگے کسی جانور کو چلتے سنا۔ کئی ہاتھیوں نے پیچھے رکنے اور کئی ہاتھیوں نے آگے لپکنے کی کوشش کی اور سبھی شیر کی بو سونگھ رہے تھے۔ آخرکار کئی ہاتھیوں نے چنگھاڑ کر دوڑ لگائی تو بائیں جانب سے ایک شکاری نے فائر کیا جو نسبتاً اونچے مقام پر کھڑا نشیب کو دیکھ رہا تھا۔ قطار رکی اور اندازہ ہو گیا کہ راجہ نے گولی چلائی تھی کہ شیر جھول کے جھنڈ کے سرے پر نمودار ہوا تھا۔
ہم نے پیش قدمی شروع کی اور چونکہ گولی چلنے پر شیر نے آواز نہیں نکالی تھی، سو ہمیں علم ہو گیا کہ گولی خطا گئی۔ مجھے یقین تھا کہ اگر ہم اسی طرح قریب رہ کر چلتے جائیں تو نتیجتاً شیر باہر نکلے گا۔
آخرکار ہم جھول کے ذخیرے سے نکل آئے۔ سارا ذخیرہ ہاتھیوں کے قدموں تلے کچل کر تباہ ہو گیا تھا اور سامنے دس مربع گز جتنے نرسل اور دیگر پودے موجود تھے۔ ان کی بلندی ہاتھیوں سے کہیں زیادہ تھی اور مجھے یقین تھا کہ شیر یہیں چھپا ہوا ہوگا۔
سوچی خان کا ہاتھی اب اس کے دائیں جانب اور دوسرا شکاری بائیں جانب پہنچ گیا تھا۔ تیسرا شکاری اس کے سامنے مخالف سمت کھڑا تھا اور میں ہانکے کی قطار میں نچلی جانب تھا۔ میں نے شکاریوں کو محتاط رہنے اور شیر کو کھلے تک پہنچنے کی مہلت دینے کا کہا اور پھر ہاتھیوں کو تین چوتھائی دائرے کی شکل میں آگے بڑھایا۔ ہم شانے سے شانہ ملائے آگے بڑھتے رہے اور اچانک میرے بائیں جانب والا ہاتھی آگے کو جھکا اور پھر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ شیر نے جست لگا کر اس ہاتھی کو سونڈ کے بالائی حصے سے پکڑ کر نیچے جھکا لیا تھا۔ ہاتھی نے فوراً سنبھلا اور شیر کو جھٹک کر واپس کھڑا ہو گیا۔ زرد رنگ کی جھاڑیوں کی وجہ سے شیر نظروں سے اوجھل تھا۔
آہستہ آہستہ ہم نے پیش قدمی جاری رکھی اور دائرے کے سامنے چند گز کا حصہ کھلا تھا۔ زخمی ہاتھی کے ماتھے سے خون کا فوارہ بہہ رہا تھا اور دیگر ہاتھی ہیجان کی حالت میں تھے۔ مگر ایک دوسرے کے اتنا قریب ہونے کی وجہ سے ان کا اعتماد بحال ہو گیا تھا۔
اچانک میرے دائیں جانب دو گز دور ایک مہاوت نے چٹکی بجا کر مجھے اپنی جانب متوجہ کیا اور آنکس کے اشارے سے اپنے سامنے کوئی چیز دکھائی۔ میں نے فوراً اپنی ہتھنی کو پیچھے نکالا اور عین اس ہاتھی کے ساتھ جا کھڑا ہوا۔ اس نے سامنے کوئی چیز دکھائی مگر میری نظر نہ پڑ سکی کہ گھاس بہت گھنی تھی۔ اچانک کسی چیز نے حرکت کی اور میں نے شیر کا سر اور شانے دیکھے کہ شیر حملے کے لیے جھک رہا تھا۔ اگلے لمحے شیر میری ہتھنی کی سونڈ پر پنجے جما چکا ہوتا مگر اس بار دیگر ہاتھیوں کی موجودگی کی وجہ سے میری ہتھنی نے بہت حوصلہ دکھایا اور ذرا بھی نہ ہلی۔ میں نے شیر کے شانوں کے عین درمیان میں اعشاریہ ۵۷۷ کی گولی اتار دی۔ اس طرح شیر کا شکار تکمیل کو پہنچا۔
شیر کو گھسیٹ کر باہر نکالا گیا۔ خوبصورت نر شیر تھا اور پھر پتہ چلا کہ سوچی خان کی گولی شیر کے پیٹ میں لگی جو مہلک زخم تو نہ تھا مگر شیر کو مشتعل بنا گیا۔
پہلے ہی یہ بات زور دے کر کہی جا چکی ہے کہ قابلِ اعتبار ہاتھی بہت کم ملتا ہے۔ اسی وجہ سے شیر کا شکار مشکل ہو جاتا ہے کہ اگر ہاتھی بہادر نہ ہو تو رائفل سے نشانہ لینا ممکن نہیں رہتا کہ ایک ہاتھ سے ہودے کی ریلنگ کو پکڑے رکھنا پڑتا ہے۔ میرے پاس عموماً بارہ بور کی بندوق ساتھ رہتی ہے۔ جب گھاس بہت اونچی اور گھنی ہو تو کوئی بھی جانور بیس گز سے زیادہ دور نہیں دکھائی دیتا۔ سو گول شکل کی گولی کو بندوق سے چلایا جائے تو نشانہ بہترین لگتا ہے۔ اسی طرح اگر نالی کی چوڑائی سے ذرا بڑی گولی ہو تو اس سے تیس یا چالیس گز تک بھی بہترین نشانہ لگ سکتا ہے۔ اس طرح چلائی گئی نرم سیسے کی گولی پھنس کر چلتی ہے اور ۴ ڈرام بارود سے بہترین نشانہ لگتا ہے۔ بارہ بور کی بندوق اگر ۷ پاؤنڈ وزنی ہو تو اسے ایک ہاتھ سے پستول کی طرح چلایا جا سکتا ہے اور بہت طاقتور ہوتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ شکاری ایک ہاتھ سے ہودے کی ریل کو پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے بندوق چلا سکتا ہے۔ میں ہمیشہ دائیں نال میں گولی اور بائیں میں ۱۶ ایس ایس جی یا ایک اونس جتنے اے اے یا بی بی کے چھرے یا گراپ ڈالتا ہوں۔ دونوں میں یکساں چار ڈرام بارود ہوتا ہے۔ بیس یا تیس گز پر تیندوے کے لیے ایس ایس جی سے زیادہ موثر کوئی چیز نہیں۔ پاڑے اور دیگر چھوٹے چرندوں کے لیے باردو کی مقدار اتنی ہی مگر چھرے نسبتاً چھوٹے استعمال کرتا ہوں۔
ہودے پر سے رائفل کی نسبت بندوق چلانا آسان ہے کہ آپ کو نالی پر جھک کر ایک آنکھ میچ کر نشانہ نہیں لینا پڑتا بلکہ آسانی سے گولی چلائی جا سکتی ہے۔ تاہم ایک ہاتھ سے بندوق چلاتے وقت احتیاط کرنی چاہیے اور کلائی ہمیشہ بائیں جانب مڑی ہوئی ہو تاکہ بندوق کے گھوڑے اسی سمت مڑے ہوئے ہوں۔ اس حالت میں کہنی دائیں جانب اٹھی ہوئی ہوگی اور بندوق چلنے کے دھکے سے نالی اوپر کو نہیں اٹھے گی۔ دوسرا اس طرح بندوق کو ایک ہاتھ سے تھامنا بھی آسان ہوتا ہے۔ اگر شیر جست کر کے ہاتھی پر حملہ کر دے تو ہاتھی کی گھبراہٹ کی وجہ سے ایک ہاتھ سے گولی چلانی پڑتی ہے۔
اس کی ایک مثال سوچی خان کی روانگی کے فوراً بعد میں نے دیکھی۔ یکم اپریل ۱۸۸۵ کو میں رہومری جا کر سینڈرسن سے ملنے گیا تھا۔ سینڈرسن کے ہمراہ جاڑو پہاڑوں کے سارے سدھائے ہوئے ہاتھی تھے کہ کھیڈا کا موسم ابھی ختم ہوا تھا۔ وہ خود اور اس کے کئی ملازمین ملیریا سے متاثر تھے۔
ایک شام قبل ایک بیل کو کیمپ سے پون میل دور جنگل میں باندھا گیا تھا اور یکم اپریل کی صبح بتایا گیا کہ بیل کو شیر نے مار دیا ہے۔ ہم لوگ روانہ ہو گئے اور چند منٹ ہمیں بیل کی لاش دکھائی دے گئی جس پر بڑی تعداد میں گِدھ چکر کاٹ رہے تھے۔ گھاس اونچی تھی اور جگہ جگہ سے جلی ہوئی بھی۔ مختلف جگہوں پر گھاس کے قطعے آگ سے بچ گئے تھے کہ وہاں گھاس بہت گھنی تھی یا پھر بہت سبز۔ تاہم اس وقت ساری گھاس خشک تھی۔ ہاتھیوں کی قطار بنا کر میں اپنی ہتھنی پر سوار تین سو گز آگے جا پہنچا۔
ہاتھیوں کی قطار بہترین طریقے سے چلتی آئی کہ سینڈرسن خود ان کی نگرانی کر رہا تھا۔ اچانک مجھے زرد گھاس میں ایک لمبی دم دکھائی دی اور پھر ایک تیندوا اپنی سمت تیزی سے بڑھتا دکھائی دیا۔ چند منٹ کے لیے تیندوا نظروں سے اوجھل رہا اور مگر مجھے یقین تھا کہ وہ دائیں یا بائیں نہیں مڑا۔ میرے سامنے اونچی گھاس کا بڑا قطعہ موجود تھا، سو مجھے لگا کہ تیندوا یہاں تک آ کر اس میں چھپ گیا ہے۔ جب ہاتھی پہنچے تو میں نے انہیں کہا کہ کم از کم چھ ہاتھی اس گھاس کے اندر سے چلتے ہوئے گزریں۔ یہ گھاس مجھ سے چند گز ہی دور تھی۔ میرے پاس ابھی روسموں نامی ہتھنی تھی جو پچھلی ہتھنی سے بہت بہتر تھی۔ جونہی قطار اس گھاس میں داخل ہوئی، تیندوے کی مختصر غراہٹ سنائی دی اور پھر مجھ سے پچیس گز دور تیندوا بھاگتا دکھائی دیا۔ میں نے بارہ بور سے ۱۶ ایس ایس جی کے چھرے اس کے شانے پر چلائے تو تیندوے نے قلابازی کھائی اور وہیں ڈھیر ہو گیا۔
شکار بہت جلدی ختم ہو گیا اور ہمارا کیمپ یہاں سے بمشکل ایک میل دور اور نظروں کے سامنے تھا۔
ہم نے تیندوے کو ایک ہاتھی پر لدوا کر کیمپ بھجوا دیا اور ہم نے پھر قطار بنائی اور میں حسب معمول چند سو گز آگے جا پہنچا۔ اس جگہ گھاس کافی حد تک چھوٹی تھی۔
تقریباً پہلے کی طرح سب کچھ ہوا۔ میں نے قطار سے آگے ایک تیندوے کو بڑھتے دیکھا اور اپنی ہتھنی کو اس جگہ لے گیا جہاں میرے خیال میں اس تیندوے کو شکار کر سکتا۔ میں نے اسے الجھی ہوئی جھاڑیوں کے ایک قطعے میں داخل ہوتے دیکھا جہاں بمشکل ایک بچھڑا چھپ سکتا ہوگا۔ یہاں پہنچ کر تیندوا غائب ہو گیا۔
ہاتھیوں کی قطار آگے بڑھتی آئی اور کسی کو تیندوے کا علم نہ تھا۔ میں نے اس قطعے کی طرف اشارہ کر کے ایک ہاتھی کو اس کے اندر سے گزرنے کا کہا۔ اگلے لمحے تیندوا اچھل کر بھاگا۔ میں نے انتظار کیا کہ وہ ہاتھیوں کی قطار سے آگے نکلے۔ پھر ۳۵ گز کے فاصلے سے میں نے فائر کیا اور تیندوا فوراً گرا مگر پھر چند لمحے بعد اٹھا۔ اس کی ایک ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی اور کئی اور جگہوں پر بری طرح زخمی تھا۔ چالیس قدم چلنے کے بعد اس کی ہمت جواب دے گئی اور گر کر مر گیا۔ ایک مہاوت نے نیچے اتر کر اس کے سر پر کلہاڑی ماری۔ پھر اس تیندوے کو بھی کیمپ بھیج دیا گیا اور ہم نئے علاقے کی طرف بڑھے کہ یہاں کوئی شیر نہیں تھا۔ بیل کو انہی دو تیندوؤں نے پچھلے رات مار کر کھایا تھا۔
رسموں بہت بہادری سے کھڑی رہی تھی مگر اس پر سواری بہت تکلیف دہ تھی۔ اس کی پشت پر ہودے کی سواری طوفانی سمندر میں بحری جہاز کے سفر جیسی تکلیف دہ تھی۔
دو گھنٹے تک ہم ہر ممکن ایسی جگہوں پر پھرتے رہے جہاں شیر کے ہونے کا امکان تھا مگر بڑی تعداد میں جنگلی سور ہی دکھائی دیے۔ میں نے اپنے مقامی ہمراہیوں کے لیے چند سور شکار کیے۔ آخرکار ہمیں بہت دور جھول کے لہراتے جھومتے درخت دکھائی دیے۔ دن بہت گرم تھا اور ہمیں یقین تھا کہ انتہائی گرم زرد گھاس کی بجائے شیر سبز درختوں کی گھنی چھاؤں میں آرام کرنا بہتر سمجھے گا۔ شیر کے علاقوں میں گرم موسم کے دوران جھول کے نوعمر درختوں کے سائے میں شیر کا ملنا تقریباً لازمی ہوتا ہے۔ پتوں کے سائے سے زمین گرم نہیں ہوتی کہ دھوپ کبھی زمین تک نہیں پہنچ پاتی۔ شیر شب بیدار جانور ہے، اس لیے شدید گرمی سے نفرت کرتا ہے اور خوب گھنے سائے میں سوتا ہے۔ ایسی جگہ نمی بھی ہوتی ہے اور کہ جھول کے درخت نمدار جگہوں پر اگتے ہیں۔
ہم ایک پرانے نالے سے گزر رہے تھے اور اس کے دونوں کناروں پر جھول کے بہت اونچے درخت تھے اور گھاس بھی گھنی۔ اچانک ایک ہاتھی چنگھاڑا اور کئی دوسرے ہاتھی بھی پھر بول پڑے۔ جھول کے جھنڈ سے کسی جانور کے بھاگنے کی آواز آئی اور کئی ہاتھی واپس مڑ گئے۔ تاہم ہمیں محض جھاڑیاں ہلتی ہوئی دکھائی دیں۔ اگرچہ یہاں بڑے سور بکثرت تھے مگر ہاتھیوں کے رویے سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ کوئی اور جانور ہوگا۔
آہستہ آہستہ ہم آگے بڑھتے گئے۔ اچانک مجھے پندرہ گز آگے جھول کے درختوں کی پھننگیں آہستہ سے ہلتی دکھائی دیں۔ ہاتھی پھر چنگھاڑے اور ہیجان کی علامات ظاہر کیں اور کئی بار ایسا ہوتا رہا۔ آخرکار ہم جھول سے نکل کر مسطح زمین پر آ گئے جہاں موجود گھاس کو جلایا گیا تھا۔ تاہم یہ گھاس جلنے کے باوجود کھڑی تھی اور جگہ جگہ کالے اور زرد تنے دکھائی دیتے تھے جو شیر کے رنگ کے عین مماثل ہوتے ہیں۔ پھر ہم نے قطار کو پھیلا دیا تاکہ سامنے موجود دو سو گز جتنا علاقہ پوری طرح چھانا جا سکے۔ سینڈرسن نے قطار کے وسط میں اپنی جگہ سنبھالے رکھی جبکہ میں ڈیڑھ سو گز آگے پہنچ گیا جہاں ہانکے سے فرار ہونا والے سبھی جانور گزرتے۔
قطار ترتیب سے بڑھتی آئی۔ ہاتھی کافی پریشان تھے کہ انہیں خطرے کا احساس ہو گیا تھا۔
پچاس یا ساٹھ گز بھی نہ چل پائے ہوں گے کہ چند لمحوں کے لیے کئی دھاڑیں سنائی دیں اور ایک بڑے شیر نے قطار پر حملہ کر دیا۔ شاندار جستیں لگاتا ہوا شیر مسلسل کئی ہاتھیوں پر حملہ آور ہوتا رہا۔
اس شاندار جانور کو دیکھنا خوبصورت منظر تھا۔ شیر پوری قوت سے پیش قدمی کرتے ہاتھیوں پر حملہ آور ہوتا اور دھاڑتا رہا۔ جب سینڈرسن کے ہاتھی پر حملے کے بعد شیر آگے بڑھا تو اس کی رائفل دو بار چلی مگر شیر پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ ہاتھیوں کی پیش قدمی روکنے کے بعد شیر غائب ہو گیا۔
مجھے توقع تھی کہ شیر میری سمت نکلے گا مگر اونچی گھاس میں کوئی حرکت نہ محسوس ہوئی۔ ہاتھیوں کی قطار پھر اسی ترتیب اور احتیاط سے آہستہ آہستہ بڑھتی آئی اور اچانک اشارہ ملنے پر رک گئی۔ میں نے سینڈرسن کو ہودے پر کھڑا ہو کر گھاس میں کسی چیز کا نشانہ لیتے ہوئے دیکھا۔ پھر اس نے گولی چلائی اور فوراً ہی زوردار دھاڑ سنائی دی اور شیر چھلانگیں لگاتا ہوا اس طرح آگے بڑھا جیسے وہ میرے سامنے سے گزرے گا۔ تاہم پچاس ساٹھ گز کے بعد گھاس کی حرکت سست ہو گئی جیسے شیر عام رفتار سے چلنا شروع ہو گیا ہو۔ میرے عین سامنے تیس گز کے فاصلے پر یہ حرکت رک گئی۔
میں نے اس مقام پر ایک سبز جھاڑی دیکھی جس کے کچھ پتے سبز تھے۔ مجھے یقین تھا کہ شیر عین اسی جگہ آ کر رکا ہے۔ مہاوت نے ہتھنی کو آہستہ اور احتیاط سے آگے بڑھایا اور میں گولی چلانے کے لیے ہودے پر تیار کھڑا تھا۔ ساتھ ہی مجھے حملے کا انتظار تھا اور سینڈرسن مخالف سمت سے وہاں آ رہا تھا۔
سبز جھاڑی سے چند گز کے فاصلے پر مجھے شیر کے جسم کا کچھ حصہ دکھائی دیا مگر یہ کہنا ممکن نہ تھا کہ آیا یہ شانہ ہے یا پچھلی ٹانگ۔ ہاتھی کو مزید آگے لے جا کر دیکھا تو پتہ چلا کہ شیر مر چکا تھا۔ سینڈرسن کی تیسری گولی شیر کے شانے کے عین پیچھے لگی تھی۔ پہلی اور دوسری گولی خطا گئی تھیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب ہاتھی ہیجان کی حالت میں ہِل رہا ہو تو نشانہ لگانا کتنا مشکل ہوتا ہے۔
اب ہم نے اس شاندار شیر کو ہاتھی پر لادا اور کیمپ کو روانہ ہو گئے جہاں میری بیوی پہلے ہی دو تیندوے وصول کر چکی تھی۔ یکم اپریل کو بہت اچھا شکار ہوا۔ تاہم اس روز شیر ہمارا آخری شکار ثابت ہوا۔
اسی روز بدقسمتی سے سینڈرسن کو ملیریا نے آ لیا جو کئی روز سے دبا ہوا تھا۔ کونین سینڈرسن کے لیے ناموافق تھی اس لیے دوا کے ہوتے ہوئے بھی وہ بیماری بھگتتا رہا جو تین ہفتے تک جاری رہی۔ اس دوران اتنے ہاتھیوں کی طویل قطار کے ساتھ میں اکیلا ہی شکاری تھا جو اس سارے علاقے میں ہاتھیوں کے ساتھ مصروف رہا۔
یہاں میں سینڈرسن کی تعریف کروں گا کہ اس نے اپنے مہاوتوں کو بہترین تربیت دی تھی اور ہاتھی بھی بہترین سدھے ہوئے تھے۔ یہ سب میرے لیے کام کر رہے تھے اور نظم و ضبط کا بہترین مظاہرہ کیا تھا حالانکہ میں ان کے لیے اجنبی تھا اور بیس روز تک مسلسل ایک ساتھ کام کرنے کے باوجود ہمیں کہیں کوئی مشکل نہ پیش آئی۔ ایسا لگا جیسے وہ برسوں سے میرے ملازم ہوں۔۔ سینڈرسن کے محکمے کی کارکردگی کی اس سے بہتر تعریف ممکن نہیں۔
یکم اپریل کے شکار سے میری توقعات بڑھ گئی تھیں مگر جلد ہی علم ہو گیا کہ یہ دن غیرمعمولی تھا اور باقی دن مایوس کن گزرے۔ تھوڑے ہی وقت میں مجھے مختلف ہاتھیوں کے کردار کا اندازہ ہو گیا اور پھر میں نے انہیں قطار میں مختلف جگہیں دے دیں۔ بھاری اور سست ہاتھی درمیان میں ہوتے تھے اور زیادہ چست اور سبک رفتار ہاتھی کناروں پر۔ اس طرح بوقتِ ضرورت تیز رفتار ہاتھی قطار کے درمیان بھی تیزی سے پہنچ سکتے تھے۔ ہر ہاتھی ہر روز ایک ہی مقام پر متعین ہوتا تھا اور اس طرح وہ نہ صرف اپنے آس پاس والے ہاتھیوں سے واقف ہو گئے بلکہ اس طرح ہاتھی کو کام کرنے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔ مہاوت بہت ہوشیار تھے اور انہیں شکار میں بھی دلچسپی تھی۔ میری طرح انہیں بھی علم تھا کہ نظم و ضبط کتنی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ پوری قطار میں محض ایک شکاری میں ہی تھا۔
ہاتھیوں کی لمبی قطار کے ساتھ شیر کے شکار پر عموماً پانچ یا چھ شکاری مناسب وقفوں پر موجود ہوتے ہیں۔ مجھے یہ پسند نہیں کہ ہر بندہ عجلت میں شکار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جہاں ذرا سی بھی گھاس ہلتی دکھائی دے، وہیں گولی چلا دی جاتی ہے۔ تاہم ایک شکاری ہو تو انتہائی احتیاط کرنی پڑتی ہے تاکہ شیر فوری ہلاک ہو جائے۔ اس طرح برہما پترا میں جزیروں پر شکار میں پچیس دن انتہائی مطمئن کرنے والے تھے۔ اس دوران آٹھ شیر اور تین تیندوے دکھائی دیے اور ایک بھی بچ کر نہ نکل سکا۔
یہ بات واضح کرتا چلوں کہ شیروں کی ہلاکت پر حکومت کا انعام میں بغیر کسی خرچے کو نکالے، براہ راست مہاوتوں اور شکاریوں میں تقسیم کر دیتا ہوں۔ اس طرح وہ شکار میں مزید دلچسپی لیتے ہیں۔ اگر آج بھی اتنے ہی شیر ہوتے جتنے کئی برس قبل تھے تو مجھے یقین ہے کہ ہمارے شکار کردہ جانوروں کی تعداد کہیں زیادہ ہوتی۔
ہاتھیوں کی اتنی طویل قطار کے ساتھ محض ایک شکاری ہونے کا نقصان جلد ہی واضح ہو گیا۔
ہمارا ایک گارا مارا گیا اور شیر اسے گھسیٹ کر جنگلی گلاب کی جھاڑیوں میں لے گیا جو بارہ ایکڑ وسیع رقبے پر ہوگا۔ اس کے پھول عام انگلستانی گلاب سے زیادہ بڑے اور اتنے ہی خوبصورت تھے۔ اگرچہ ان پر کانٹے موجود تھے مگر انگلستانی قسم سے کم۔ دلدلی مقام پر ان کی بلندی اٹھارہ فٹ اور گنجانی زیادہ ہو جاتی ہے اور ناقابل عبور دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی بھی انسان اس سے نہیں گزر سکتا۔ اس لیے سبھی جنگلی جانور یہاں چھپنا پسند کرتے ہیں۔ یہاں انہیں انسانی مداخلت کا بھی ڈر نہیں اور خنک سایہ بھی میسر ہوتا ہے۔
گھاس والے کھلے میدانی علاقے میں آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایسی جگہیں شیر کے لیے بہترین مقام ہوتی ہیں کہ یہاں چھپ کر شیر اپنے شکار سے آرام سے پیٹ بھر سکتے ہیں۔
کیمپ سے تین میل کا فاصلہ طے کر کے ہم یہاں پہنچے تو مجھے یقین تھا شیر اسی کے اندر ہی کہیں چھپا ہوا ہوگا۔ اسی جیسا ایک اور قطعہ یہاں سے کچھ دور تھا اور ہمیں یقین تھا کہ اگر شیر یہاں سے نکلا تو سیدھا اُسی دوسرے قطعے کا رخ کرے گا۔ تاہم دونوں قطعوں کے درمیان گھاس کا کھلا میدان تھا۔ اس لیے میں پہلے قطعے کے دوسرے سرے پر جا کر ایک مناسب مقام پر کھڑا ہو گیا۔ میرا خیال تھا کہ شیر اپنی پناہ گاہ سے نکلنے کے بعد یہاں سے دوڑ کر گزرے گا۔
میں نے حسبِ معمول سکاؤٹ بھیج دیے اور پھر ہاتھیوں کی قطار روانہ کی تاکہ وہ مخالف سمت سے ہانکا کرتے آئیں۔
کچھ وقت گزر گیا اور پھر مجھے ہاتھیوں کی قطار آتی دکھائی دی۔ ہر ہاتھی ایک دوسرے سے یکساں فاصلے پر چل رہا تھا۔
اس طرح ہاتھی چلتے ہوئے مجھ سے دو سو گز دور آ پہنچے تو اچانک ایک ہاتھی کی چنگھاڑ سنائی دی۔ پھر ہاتھیوں نے سونڈیں ہوا میں لہرانا شروع کر دیں۔ قطار سیدھی نہ رہی اور صاف پتہ چل گیا کہ شیر ہاتھیوں کے سامنے موجود ہے۔ مہاوت پھر سے ہاتھیوں کو قطار میں لے آئے اور پیش قدمی شروع ہو گئی۔
میں ایک بڑے نر ہاتھی تھامپسن پر سوار تھا۔ یہ عمدہ ہاتھی تھا اور اس کے بیرونی دانت بھی بڑے تھے، لیکن اس کی چال بہت ناہموار تھی۔ اسے دیگر ہاتھیوں کے شور سے اندازہ ہو گیا تھا کہ شیر سامنے ہے، سو وہ کھڑے کھڑے ہلنے جلنے لگا۔
اچانک جنگل میں حرکت ہوئی اور ایک پاڑہ بھاگتا ہوا نکلا اور ہم سے چند گز کے فاصلے سے گزرا۔ میرا ہاتھی فوراً مڑا اور مجھے پتہ چل گیا کہ میرا ہاتھی قابلِ بھروسہ نہیں۔ کچھ دیر بعد پھر جھاڑیاں ہلتی دکھائی دیں اور مجھے ان میں زرد رنگ کا کوئی جانور حرکت کرتا دکھائی دیا اور پھر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ ہاتھیوں کی قطار آہستگی سے جھاڑیوں کو کچلتی اور اپنا راستہ بناتی بڑھتی آ رہی تھی۔ کبھی کبھار کوئی ہاتھی چنگھاڑتا۔ اچانک مجھے جھاڑیاں ہلتی دکھائی دیں اور فوراً ہی بہت بڑی شیرنی ایک یا دو بار دھاڑ کر عین میرے سامنے باہر برآمد ہوئی اور سیدھا میرے ہاتھی پر حملہ آور ہوئی۔ میرا ہاتھی فوراً مڑا اور چند قدم بھاگا جبکہ اس دوران شیر نے خطرے کو بھانپ کر واپس جھاڑیوں میں گھس گیا۔ ہاتھی کے مڑنے اور بھاگنے کی وجہ سے مجھے رائفل اٹھانے یا گولی چلانے کا موقع نہ مل سکا۔
ہمیں علم تھا کہ شیر ہاتھیوں اور میرے درمیان موجود ہے۔ مجھے یہ بھی یقین تھا کہ شیر پہلے والے مقام سے نہیں دکھائی دے گا۔ اس لیے میں نے ایک اور مناسب جگہ تلاش کی جو سو گز دور تھی۔ یہ جگہ تھوڑی سی بلند تھی اور ہاتھی گھوم کر اس جانب ہانکا کرنے لگے۔
سوروں کے سوا کوئی جانور نہ دکھائی دیا جو بھاگتے ہوئے ہاتھیوں کی ٹانگوں سے نکلتے رہے۔ دو ہاتھیوں کو نر سور کے دانتوں سے معمولی سے زخم بھی لگے۔
آخرکار قطار جنگل کے کنارے سے بیس گز تک آن پہنچی۔ اس جگہ بھی معمول کے مطابق ہنگامہ برپا ہوا اور کئی پاڑے قطار کی جانب سے نکل بھاگے مگر عین اسی وقت ایک شیر آگے کو نکلا اور زقندیں لگاتا ہوا جنگلی گلاب کے دوسرے جھنڈ کی طرف بھاگا۔ سکاؤٹوں نے پگڑیاں لہرائیں، شور مچایا اور ہاتھیوں کے شیر کے پیچھے بھگایا۔
میری سواری تھامپسن نے برا برتاؤ کیا تھا کہ اس نے دوبارہ رخ موڑا تھا اور اتنا بے چین تھا کہ شیرنی اگرچہ دس گز بھی دور نہیں تھی مگر مجھے رائفل اٹھا کر گولی چلانے کا موقع نہ ملا۔ مجبوراً میں نے اعشاریہ ۵۷۷ کی رائفل کو خانے میں رکھ کر اپنی بارہ بور کی بندوق اٹھا لی۔ اس کا وزن محض ۷ پاؤنڈ تھا اور ایک ہاتھ سے چلانا بھی آسان تھا۔ اس کی دائیں نال میں گولی جبکہ بائیں نال میں ایس ایس جی کے ایک اونس جتنے چھرے اور دونوں میں چار چار ڈرام بارود تھا۔ اس طرح کے کارتوس میں چھروں کے اوپر گوند کی موٹی تہہ سے دھجی چپکانی ہوتی ہے، ورنہ اتنے چھرے نہیں رہ پاتے۔
اس طرح دوسرے جھنڈ کے ہانکے پر ایک گھنٹہ گزر گیا اور اگرچہ شیر نے کئی بار حرکت کی مگر ہمارے ارادے کو بھانپ کر اس نے کسی بھی کھلی جگہ کا رخ نہ کیا۔ آخرکار اس مشکل کو بھانپ کر میں نے ہانکے کے قطار کے وسط کا رخ کیا۔ اس طرح سامنے کا رخ خالی ہو گیا، کہ شاید شیر وہاں سے پہلے جھنڈ کو فرار کی کوشش کرے۔
اس طرح قطار کی شکل میں ہم چلتے رہے اور اچانک مجھے اپنے سے تیس گز دور جنگل میں ایک جگہ حرکت دکھائی دی اور میں نے اس پر فوراً گولی چلا دی۔ میرا خیال تھا کہ یہ گولی اس نامعلوم جانور کو تو لگنے سے رہی، البتہ وہ اپنی جگہ بدلنے پر مجبور ہو جائے گا۔ فوراً ہی ہمیں دوسری جانب والے ہاتھیوں اور مہاوتوں کے شور سے علم ہو گیا کہ شیر بہت تیزی سے پہلے والے جھنڈ کو فرار ہوا ہے۔
ہم لوگ بعجلت اس جھنڈ کو پہنچے اور قطار بنا کر پھر ہانکا شروع کر دیا۔ اس جگہ ہم نے ہر ممکن طریقہ آزمایا اور مگر شیر دکھائی نہ دیا۔ ہاتھیوں کی حرکات سے واضح ہوتا تھا کہ شیر پاس ہی موجود ہے۔ میرے ہمراہیوں کا خیال تھا کہ میں نے جو گولی چلائی تھی تو شیر زخمی ہو گیا ہوگا اور اب زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے مر گیا ہوگا۔ اس طرح بار بار آگے پیچھے چلتے ہوئے سارا جنگل تہہ بالا ہو چکا تھا اور جگہ جگہ ایسے ڈھیر بنے ہوئے تھے جن میں بھینس چھپ سکتی تھی۔
میرا خیال ان سے مختلف تھا اور میرا خیال تھا کہ شیر جھک کر ہاتھیوں کو اپنے قریب سے گزرنے دیتا ہے اور ذرا بھی نہیں ہلتا۔ اس لیے میں نے ہاتھیوں کو شانے سے شانہ جوڑ کر چلنے کا حکم دیا۔ اس طرح ہم چلتے ہوئے چپہ چپہ چھان مارتے۔ اس طرح ہم نے چلنا شروع کر دیا۔ پندرہ منٹ بھی نہ گزرے تھے کہ اچانک دھاڑ سے ہاتھی ٹھٹھک کر رہ گئے اور شیر نے سیدھا قطار پر حملہ کر دیا۔ شیر کی موجودگی پر کوئی شک نہ رہا۔ سو ہم نے قطار پھر سیدھی کی اور پھر ہانکا شروع کر دیا۔ دو مرتبہ شیر نے اسی طرح حملہ کیا اور ہر بار قطار خراب ہو جاتی اور ایک ہاتھی کو معمولی سی خراش بھی لگی۔ شیر کو بھی علم ہو گیا کہ براہ راست حملہ کرنے سے فرار کا راستہ کھلے گا۔
ایک شکاری کی موجودگی سے اس شیر کا شکار لاٹری جیسا تھا۔ تاہم ہیجان اور سنسنی اپنے عروج پر تھے اور شیر کے بارے یقین ہو گیا کہ شیر کا طریقہ یہ ہے کہ دبک کر بیٹھ جاتا ہے اور ہاتھیوں کی قطار قریب آنے پر حملہ کرتا اور فرار ہو جاتا ہے۔ سو میں نے قطار میں اپنا مقام بدلا اور اپنے ساتھ دو تجربہ کار ہاتھی لیے اور آہستہ آہستہ پیش قدمی شروع کر دی۔ ہر مہاوت کو ہدایت تھی کہ اپنے سامنے پوری طرح محتاط رہے اور جہاں کوئی حرکت دکھائی دے، فوراً مجھے مطلع کرے۔ جنگل میں اب شیر کے علاوہ اور کوئی بھی جانور نہ بچا تھا، اس لیے کوئی بھی حرکت ہوتی تو وہ شیر کی ہی ہوتی۔
ہماری رفتار بمشکل نصف میل فی گھنٹہ تھی کہ ہاتھی اس سے آہستہ نہیں چل سکتے۔ اچانک قطار کے وسط والے مہاوت نے ہاتھ اٹھا کر مجھے اشارہ کیا اور اپنا ہاتھی روک دیا۔ اس کے رکتے ہی ساری قطار رک گئی۔
میں اس جگہ پہنچا تو قطار کھلی اور مہاوت نے مجھے بتایا کہ اس نے اپنے عین سامنے تین یا چار قدم کے فاصلے پر جھاڑیاں ہلتے دیکھی ہیں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ ایک لمحے کو اس نے کوئی زردی مائل چیز بھی دیکھی ہے جو ہمارے عین سامنے ابھی بھی بیٹھی ہے۔ میں نے اسے پیچھے جانے کا اشارہ کر کے اپنے قابلِ اعتبار دو ہاتھی آگے بلا کر دائیں اور بائیں کھڑے کر لیے۔ میرے مہاوت نے آگے بڑھنے کی بجائے اس جگہ گولی چلانے کا مشورہ دیا تاکہ شیر اس جگہ سے چل پڑے۔ میں اس طرح اندھا دھند گولی چلانے کا قائل نہیں مگر مجھے لگا کہ شاید اس طرح شیر حملہ کر دے۔ اس لیے میں نے بارہ بور کی بندوق سے نشانہ لے کر گولی چلا دی۔
فوری اور بہت زیادہ ردِ عمل ہوا۔ گولی چلتے ہی اونچی دھاڑ سنائی دی اور شیر نے اپنی کمین گاہ سے حملہ کر دیا۔ میرا ہاتھی اچانک اس طرح بائیں جانب مڑا کہ اگر میں تیار نہ ہوتا تو بہت زور سے ریلنگ سے جا لگتا۔ تاہم میں تیار تھا، سو فوراً میرے بائیں ہاتھ نے ریلنگ کو تھاما اور دائیں ہاتھ میں پکڑی بندوق اٹھا کر شیر پر اس وقت چلائی جب وہ نال سے دو فٹ کے فاصلے پر تھا اور مہاوت کی ران دبوچنے والا تھا۔ ریت سے بھرا تھیلا بھی اس طرح نہیں گرتا جس طرح فوراً شیر نیچے گرا۔ ایس ایس جی کے چھرے شیر کے کھلے منہ سے گزرے تھے۔
باقی بچی ہوئی کھوپڑی میرے پاس ابھی تک موجود ہے۔ نچلا جبڑا بالکل غائب ہو گیا۔ سارے دانت کٹ گئے تھے اور بالائی جبڑے کی ہڈی بھی کچھ کٹ گئی تھی۔ کئی چھرے تو گلے اور تالو سے ہوتے ہوئے دماغ میں اتر گئے تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بارہ بور کی بندوق سے کم فاصلے پر کتنی کارگر ثابت ہوتی ہے۔ اگر میرے پاس اپنی پسندیدہ اعشاریہ ۵۷۷ کی بارہ پاؤنڈ وزنی رائفل ہوتی تو کبھی بھی ایک ہاتھ سے نہ چلا سکتا۔ بارہ بور کی بندوق محض سات پاؤنڈ وزنی تھی اور پستول کی طرح ایک ہاتھ سے چلائی جا سکتی تھی۔
اس شکار کا نتیجہ میرے ہمراہیوں کے لیے بہت تسکین بخش تھا کہ سبھی نے ذہانت اور مہارت سے کام کیا تھا۔
ان جزیروں پر جنگلی سوروں کی بہتات تھی اس لیے شیر ہمارے گاروں کو چھوڑ کر اپنے من بھاتے کھاجے کو ہی ترجیح دیتے تھے جو انہیں آسانی سے مل جاتا تھا۔ ہر رات مختلف جگہوں پر گارے باندھے جاتے مگر شیروں نے انہیں کبھی نہیں چھوؤا۔ شیروں کی عدم توجہی کی وجہ سے ہمیں ہر روز کئی کئی گھنٹے فضول گشت کرنی پڑتی۔ اس خشک موسم میں بہت سارے جزیروں کے درمیان محض چند انچ گہرا پانی بہہ رہا ہوتا تھا۔ اس لیے اگر شیر ان جزائر پر ہوتے تو ان کے پگ ہمیں ریت پر دکھائی دے جاتے۔ رات کو شیر ہر سمت میں نکل کھڑے ہوتے ہیں اور بعض اوقات یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ شیر رات کے دوران خوراک یا ساتھی کی تلاش میں کتنا فاصلہ طے کرتے اور کتنے جزیروں سے گزرتے ہیں۔ اگر ریتلے نالوں میں شیر کے پگ نہ ہوتے تو واضح ہو جاتا کہ اس جزیرے پر شیر نہیں ہوں گے۔ تاہم میں ہر ایکڑ پر ہاتھیوں سے گزرتا اور شاید ہی ہم کبھی چار بجے سے قبل واپس آئے ہوں۔ ہر روز ہم صبح تڑکے ہی نکل کھڑے ہوتے تھے۔
چونکہ ہاتھیوں کا واسطہ شیروں سے اکثر پڑتا ہے، سو عام سوچا جاتا ہے کہ ہاتھی شیروں کی بو کے اتنے عادی ہو جاتے ہوں گے کہ انہیں فرق نہ پڑتا ہوگا مگر ایسا نہیں۔ شیر کی بو سونگھتے ہی بعض ہاتھی انتہائی بے چین ہو جاتے ہیں اور اکثر سور یا پاڑہ بھی نکلے تو ہاتھی بھڑک جاتا ہے۔ ایک بار ایسا ہی واقعہ ہوا جو مہلک حادثے پر منتج ہوتے ہوتے بچا۔
ہم دس فٹ اونچی اور مرجھائی ہوئی گھاس میں ہانکا کر رہے تھے جہاں بہت سارے سور تو تھے مگر شیروں کا کوئی نشان نہ ملا۔ دوپہر کے وقت ہمیں کچھ مقامی لوگ مویشی اور بھینسیں چراتے دکھائی دیے۔ اتنے بڑے ریوڑ کی موجودگی میں اس جگہ شیروں کی تلاش بیکار تھی۔ جب چرواہوں سے پوچھا گیا تو انہوں نے صاف انکار کیا کہ اس جگہ کوئی شیر موجود نہیں۔ تاہم انہوں نے دو میل دور ایک اور بڑے جزیرے کا ہمیں مشورہ دیا۔
ہم نے کئی نالے عبور کیے جن کے کنارے ۳۵ فٹ تک اونچے تھے اور مطلوبہ مقام تک جا پہنچے جہاں جھول کے درخت ایک نشیب میں اگے ہوئے تھے، پر چڑھ کر ہاتھیوں نے ہمارے بائیں جانب قطار بنا لی۔
میرا ہاتھی جس نشیب میں تھا، وہ قطار کی سمت کے متوازی تھی اور اس سے پانچ فٹ نیچی۔ جونہی ہاتھیوں نے پیش قدمی شروع کی، ہودے میں میرے پیچھے بیٹھے ملازم نے کہا، ‘شیر، آقا، شیر‘، اور ہاتھیوں سے چند گز دور اونچی گھاس کیس مت بائیں جانب اشارہ کیا۔
مجھے اور میرے ساتھیوں کو کچھ نہ دکھائی دیا مگر اس نے بتایا کہ اس ایک لمحے کے لیے شیر یا تیندوے کی لمبی دم دکھائی دی تھی۔ میں مائیکل پر ہمیشہ بھروسہ کرتا ہوں، سو میں نے قطار کی پیش قدمی روکنے کا حکم دیا۔ پھر میں اپنے ہاتھی کو اس سمت بڑھا کر لے گیا جہاں گھاس چھدری ہو کر کئی جگہ ختم ہو گئی تھی۔ یہاں رک کر میں نے ہاتھیوں کی قطار کی پیش قدمی کا انتظار کرنا تھا۔
اگر قابلِ بھروسہ ہاتھی بھی نہ ہوتا تو بھی ہم کچھ نہ کر پاتے اور شیر کئی اور افراد کو زخمی یا ہلاک کر دیتا۔
چوتھائی میل آگے وہ جگہ تھی جہاں کی سبز گھاس کو آگ لگائی گئی تھی اور ان کے تنے نیچے سے جلے ہوئے مگر گھاس اوپر سے محض جھلسی تھی۔ ان کا رنگ کالا اور زرد تھا، ایسا رنگ جو شیر کو بخوبی چھپا دے۔ چونکہ زیادہ بہتر جگہ ممکن نہ تھی، سو میں یہیں رک گیا اور ہانکے کا اشارہ دے دیا۔
ہاتھیوں کی قطار بڑھتی آئی۔ میں ایک بڑے نر ہاتھی پر سوار تھا جس کا نام تھامپسن تھا۔ مگر جوں جوں جنگلی سور نکلتے رہے، ہاتھی کا ہیجان بڑھتا گیا۔ ایک غول پانی کو بھاگا اور میرے بائیں جانب دریا میں گھس گیا۔ پھر ادھ جلی گھاس میں ہلکی سی حرکت ہوئی اور مجھے چالیس گز دور کوئی جانور رینگتا ہوا دکھائی دیا۔ پھر میرے ہاتھی کو دیکھتے ہی یہ جانور رک گیا۔ پھر اس نے حرکت کی اور پھر رک گیا۔
مجھے یقین ہو چلا تھا کہ یہ جانور شیر ہے اور اس کی کالی اور زرد دھاریاں تو دکھائی دے رہی تھیں مگر یہ کہنا ممکن نہ تھا کہ سر کس جانب ہے اور دم کس جانب۔ اس لیے میں نے اس کے رویے کا مشاہدہ کیا۔ مجھے اچانک لگا کہ شیر کا رخ میری ہی جانب ہے مگر وہ دبکا ہوا ہے۔ ہاتھی اب ڈیڑھ سو گز دور رہ گئے تھے اور نیم ہلالی شکل میں بڑھتے آ رہے تھے۔ گھاس کے اس قطعے کی چوڑائی بھی لگ بھگ ڈیڑھ سو گز رہی ہوگی۔
میں نے گولی چلانے کا سوچا کہ میری اعشاریہ ۵۷۷ بور کی رائفل سے شیر بیکار ہو جائے گا اور شدید زخمی حالت میں اس کی تلاش آسان ہو جائے گی۔ بصورتِ دیگر وہ پھر غائب ہو کر کئی گھنٹوں کے لیے دردِ سر بن جائے گا۔ اس لیے میں نے بہت احتیاط سے اس کا نشانہ لے کر گولی چلا دی۔
گولی کا فوری اثر ہوا۔ مسلسل دھاڑتا ہوا شیر گھاس میں دوڑتا ہوا آیا اور مجھے گھاس میں وہ بار بار تکلیف سے لوٹنیاں لگاتا ہوا دکھائی دیتا رہا اور ادھ جلی گھاس سے راکھ کے بادل اڑتے رہے۔ بارہ سے پندرہ سیکنڈ تک ایسا ہوتا رہا جس دوران میرا ہاتھی کئی بار مڑا مگر آنکس کی تاب نہ لا کر پھر رک گیا۔ اچانک راکھ کے بادل سے شیر تیزی سے دوڑتا ہوا آتا دکھائی دیا۔ ہاتھی اس کی تاب نہ لا کر مڑا اور بھاگ پڑا۔ ایک سو بیس گز تک اس نے کسی ریلوے انجن کی طرح دوڑ لگائی اور ہر رکاوٹ کو کچلتا ہوا نکل گیا۔ اس دوران شیر نے کچھ فاصلے تک تو پیچھا کیا اور مجھے توقع تھی کہ کسی بھی وقت وہ جست لگا کر ہودے سے چمٹ جائے گا مگر ایسا نہ ہوا۔ جب ہاتھی مڑ کر واپس آیا شیر پھر اونچی گھاس میں چھپ چکا تھا۔
مجھے پورا یقین تھا کہ شیر زخمی ہو چکا ہے مگر مائیکل نے کہا کہ حملہ دوسرے شیر نے کیا ہے اور دونوں ساتھ ہی تھے۔
میں نے اپنے ہاتھی کو بڑھا کر گھاس کے وسط میں کھڑا کر دیا اور ہانکے کی قطار کو پیش قدمی کا کہا۔ نیم دائرے کی شکل میں وہ بڑھتے آئے۔ مجھے یقین تھا کہ شیر ہانکے کی قطار اور میرے درمیان ہی کہیں ہے۔
ہاتھی سہولت سے بڑھتے آئے مگر چند ایک نے ہیجان کا اظہار بھی کیا۔ مجھ سے ستر گز دور پہنچ کر قطار رک گئی۔ مجھے یقین ہو گیا کہ شیر ان سے چند گز ہی دور ہوگا۔ پھر میں نے اپنے دائیں جانب یعنی قطار کی بائیں جانب کو حکم دیا کہ وہ دائرے میں گھوم کر مجھ تک پہنچے۔ اس طرح شیر ایسی جگہ حرکت کرتا جہاں گولی چلانا آسان ہوتا۔
قطار کی پیش قدمی سے پہلے ہی دھاڑ سنائی دی اور شیر نے گھاس سے جست لگائی اور ایک بڑے مکھنا (ایسا نر ہاتھی جس کے بیرونی دانت نہ ہوں) کو سونڈ سے پکڑ کر اسے نیچے جھکا لیا۔ مہاوت نیچے گر گیا۔ بجلی کی سی تیزی سے شیر نے ہاتھی کو چھوڑا اور مہاوت پر حملہ آور ہو گیا۔
میں نے کبھی ایسی بے بسی کا مظاہرہ نہیں دیکھا۔ پوری قطار تتر بتر ہو گئی۔ ہاگ نامی ایک بڑا ہاتھی کہ جس پر حملہ ہوا تھا، دیوانہ وار میدان میں مہاوت کے بغیر بھاگ رہا تھا۔ کئی دوسرے ہاتھی ہر جانب بھاگ رہے تھے اور اس دوران شیر کی دھاڑیں سنائی دے رہی تھیں اور وہ بدقسمت مہاوت کی چیخیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ مجھ سے ستر گز دور دھول کا بادل اڑ رہا تھا۔ سارا منظر کسی ڈراؤنے خواب کی طرح تھا۔ میرا ہاتھی جیسے پتھر کا ہو گیا ہو۔ میں نے مہاوت کو گدی سے پکڑ کر جھنجھوڑا کہ ہاتھی کو چلائے مگر ناکام رہا۔ اس نے پاگلوں کی طرح آنکس ہاتھی کے سر میں چبھویا مگر ہاتھی ٹس سے مس نہ ہوا۔ یہ سارا کام پندرہ سیکنڈ میں ہو گیا مگر ایسا لگا جیسے پندرہ منٹ گزر گئے ہوں۔
اچانک میرا ملازم چلایا، ‘آقا، دیکھیں، ایک اور شیر۔ دو شیر ہیں، ایک نہیں‘۔ میں نے اس جانب دیکھا تو چالیس گز دور دائیں جانب ایک شیر حملے کے لیے تیار حالت میں تھا اور ہاتھی نے اسے نہ دیکھا تھا۔
میں نے اس کی ناک کے عین نیچے گولی چلائی اور شیر وہیں لڑھک گیا۔ گولی اس کے پار ہو گئی تھی۔ اس کی لاش کو وہیں چھوڑ کر ہم آگے بڑھے اور میرا ہاتھی اب احکام مان رہا تھا۔ جہاں مہاوت پر حملہ ہوا تھا، وہ جگہ ابھی تک دھول میں گم تھی۔ میرا خیال تھا کہ مہاوت کی لاش پر شیر بیٹھا ہوگا اور میں ہودے میں تیار ہو کر کھڑا تھا کہ احتیاط سے گولی چلاؤں۔ جب ہم اس مقام پر پہنچے تو وہاں مہاوت کی دھوتی دکھائی دی۔ پندرہ گز دور مہاوت بے حس و حرکت پڑا تھا۔
اسے فوراً اٹھا کر ہم دریا پر لے گئے اور اس کے زخم دھوئے۔ شیر نے اسے شانے سے پکڑا تھا اور سر اور گردن پر کافی گہرے زخم تھے مگر سینے میں کوئی گہرا زخم نہ ملا۔ ہم نے ایک پگڑی پھاڑ کر اس سے پٹیاں بنائیں اور زخموں پر باندھ دیں۔ پھر میں نے اسے ہاتھی پر سوار کر کے کیمپ بھجوا دیا۔ پھر ہم نے شیرنی کی لاش بھی ہودے پر سوار کر کے کیمپ بھیج دی۔ یہ وہی شیرنی تھی جس پر میں نے پہلی گولی چلائی تھی۔ میری گولی سے اس کی ران کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی اور اسی وجہ سے وہ بھاگتے ہوئے تھامپسن کو نہ پکڑ سکی۔ پھر اس نے ہاگ پر حملہ کر کے اسے جھکایا تو مہاوت گر گیا تھا۔ بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ مہاوت کے دائیں پیر میں پھوڑا تھا جس کی وجہ سے وہ رسی کی سیڑھی پر پیر نہ جما سکا تھا۔ عام حالات میں مہاوت کی نشست کافی محفوظ جگہ سمجھی جاتی ہے۔
مہاوت کو زخمی کرنے کے بعد اسے مردہ سمجھ کر شیرنی جب تھامپسن پر حملے کو تیار ہو رہی تھی تو میری گولی اس کے سینے میں لگی۔
کیمپ لوٹ کر دیکھا کہ زخمی کی مناسب دیکھ بھال ہو رہی تھیاور اگلی صبح ہم نے اسے دھبری بھیج دیا جہاں کے ہسپتال میں کھیڈا کا ڈاکٹر اس کا علاج کرتا۔ چند ماہ بعد اس کے زخم پوری طرح بھر گئے اور وہ بغیر بتائے ہسپتال سے فرار ہو گیا۔
اس واقعے سے پتہ چلا کہ ہاتھیوں میں ہیجان کیسے پھیلتا ہے۔ عام کہاوت ہے کہ ہاتھی مہاوت پر انحصار کرتا ہے۔ تاہم یہ اصول عام کام سے متعلق ہے۔ بہادر ہاتھی بسا اوقات بزدل مہاوت کی وجہ ہچکچاتا ہے تاہم کوئی مہاوت کسی بزدل ہاتھی کو کبھی شیر کے سامنے نہیں لا سکتا یا اس کے حملے کا سامنا کرا سکتا۔ تھامپسن نے برا رویہ دکھایا تھا مگر میں نے اسے ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا۔ اگر وہ پھر بھی بزدل ثابت ہوتا تو پھر میں اسے کسی اور سے بدل لیتا۔
اس واقعے کے کچھ روز بعد مقامی افراد نے بتایا کہ گلاب کے جھنڈ میں ایک شیر موجود ہے۔ ہم لوگوں نے کیمپ منتقل کر کے ککری پانی لگایا ہوا تھا جو روہومری سے آٹھ میل دور تھا۔ میں نے فوراً ہاتھی جمع کیے اور دو میل دور گلاب کے جنگل کو روانہ ہو گئے۔
حسبِ معمول تیاری کی گئی اور میں تھامپس پر سوار ہو کر جنگلی گلاب کے جھنڈ سے گزرنے والی گھاس سے بھری پگڈنڈی پر جا کھڑا ہوا۔ جوں جوں ہانکے کے ہاتھی قریب ہوتے گئے، مجھے ان کی آوازوں سے یقین ہوتا گیا کہ شیر یا کوئی دوسرا درندہ ان کے سامنے موجود ہے۔ مجھ سے تیس گز تک جب ہانکے والے پہنچ گئے تو جھاڑیوں میں ایسی سرسراہٹ ہوئی جس سے پتہ چل گیا کہ یہ جانور اب نہیں چھپ سکتا۔ اچانک ایک بڑا تیندوا زقندیں لگاتا ہوا کھلے میں نکلا اور میں نے اس پر بعجلت گولی چلا دی۔ گولی اس کے شانے سے چند انچ پیچھے لگی۔ تیندوا قلابازی کھا کر نیچے گرا اور فوراً ہی چند گز دور جنگل میں غائب ہو گیا۔
میں نے ہاتھیوں کی قطار بلائی اور وقت ضائع کیے بنا ہاتھیوں نے ایک دوسرے کے قریب رہتے ہوئے ہانکا شروع کر دیا۔ مجھے یقین تھا کہ تیندوا جھاڑیوں میں ہی کہیں چھپا بیٹھا ہوگا۔
جلد ہی ہاتھیوں نے آواز نکالی اور تیندوے نے اپنی پناہ گاہ چھوڑ کر سیدھا تھامپسن پر حملہ کیا اور اس کے شانے پر پنجے گاڑ کر لٹک گیا جیسے بل ڈاگ ہو۔ تھامپس نے مڑ کر دوڑ لگا دی۔ گولی چلانا ممکن نہ تھا کہ تیندوا ہودے کے نیچے چھپا ہوا تھا۔ اس طرح بھاگتے ہوئے سو گز تک ہاتھی نے طے کیے اور راستے میں جھاڑیوں اور شاخوں کو توڑتا گیا۔ پھر مجھے محسوس ہوا کہ شاخوں اور جھاڑیوں کی رگڑ کی تاب نہ لا کر تیندوا گر گیا اور اگلے ہی لمحے گھنے جنگل میں غائب ہو گیا۔
اب میں نے اپنا ہاتھی بدل کر ایک مستقل مزاج ہتھنی نیلموں پر سواری کر لی۔ قطار پھر سے بنی اور ہم آہستہ آہستہ جنگل میں گھسے۔ ابھی ہم پچاس گز بھی نہ گئے تھے کہ ہاتھیوں نے تیندوے کی بو پائی۔ میں تیندوے کی فطرت سے بخوبی واقف ہوں، اس لیے میں نے اس مقام کا مکمل گھیراؤ کر لیا اور گھیرا اس وقت تک تنگ کرتے گئے جب تک وہ دکھائی نہ دیا۔ پھر بک شاٹ یعنی گراپ کا ایک فائر کافی رہا اور تیندوے کا شکار اپنے اختتام کو پہنچا۔
میرے اپنے تجربے کی روشنی میں ایک اچھے ہاتھی پر بیٹھ کر میدانی علاقے میں شیر کے شکار کا مقابلہ جنگل میں ہانکا کر کے شیر کو شکاریوں تک لانے سے نہیں کیا جا سکتا۔ پہلے طریقے میں شکاری مستقل متحرک رہتا ہے اور کسی وقت بھی اسے شیر کے سامنے کی توقع ہوتی ہے جبکہ دوسرے طریقے میں صبر کی ضرورت پڑتی ہے اور اکثر مایوسی ہاتھ آتی ہے۔ تاہم مختلف علاقوں کی مناسبت سے شیروں کے شکار کے لیے مختلف طریقے اپنائے جانے چاہیئں۔
ہر حالت میں، اگر ممکن ہو تو قابلِ بھروسہ ہاتھی ساتھ رہنا چاہیے کیونکہ حادثے غیر متوقع طور پر رونما ہو سکتے ہیں اور ہاتھی کی عدم موجودگی میں شکاری بیکار ہو جاتا ہے۔ تاہم جیسا کہ میں ابھی بتا چکا ہوں کہ اگر ہاتھی قابلِ بھروسہ نہ ہو تو اگرچہ کھلے میدان میں محض ہنسی کا سبب بنے گا مگر گھنے جنگل میں شکاری کے لیے قاتل ثابت ہوگا۔
آج تک میں محض ایک بار انتہائی قابلِ بھروسہ ہاتھی پر سوار ہوا ہوں جو جبل پور کے کمشنریٹ سے متعلق تھا اور اس کا نام مولا بخش تھا۔ یہ ۱۸۸۰ کا واقعہ ہے۔ یہ کسی حد تک وحشی تھا مگر چپاتی، گنے اور گڑ کھلانے کی وجہ سے وہ میرا اچھا دوست بن گیا۔ اسے ہر روز کام شروع کرنے سے قبل میں اسے اپنے ہاتھ سے یہ چیزیں کھلاتا تھا۔ اس کے علاوہ شام کو کیمپ واپس لوٹنے پر بھی اسے میں کچھ نہ کچھ دیتا تھا۔
اگرچہ میرے تجربے میں بہترین ہاتھی مولا بخش تھا مگر وہ ہر طرح سے بہترین نہیں تھا۔ جب شیر اس کے سامنے سے حملہ کرتا تو مولا بخش اپنی جگہ ساکن رہنے کی بجائے نڈر پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیدھا شیر پر حملہ کر دیتا۔
پہلی بار یہ کام میں نے دیکھا تو اس روز ایک بندہ ہلاک اور دو زخمی ہوئے تھے اور اگر مولا بخش بہادری نہ دکھاتا تو ان دونوں کا بھی مارا جانا لازمی تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ شیر کے شکار میں مستقل مزاج ہاتھی کا ہونا کتنا ضروری ہے کہ زخمی اور مشتعل شیر کا سامنا کرنا زمین پر رہ کر کرنا کتنا مشکل ہو جاتا ہے۔
میں اُن دنوں اپنے مرحوم دوست اور جبل پور کے اسسٹنٹ کمشنر بیری کے ساتھ وسطی صوبوں میں شکار کھیل رہا تھا۔ ہم مورورا میں تھے اور ریلوے لائن کے بالکل متوازی شکار کھیل رہے تھے اور لائن سے ہمارا فاصلہ بیس میل سے کم رہتا تھا تاکہ تازہ ساز و سامان میسر آ سکے۔ اس طرح دیگر سامان کے ساتھ ساتھ ہمیں ہر روز تیس پاؤنڈ تازہ برف الہ آباد سے مل جاتی تھی کہ ہر روز کا مقام سٹیشن ماسٹر کو بتا دیا جاتا تھا اور وہ برف آتے ہی قلی کے ذریعے بھجوا دیتا۔ اپریل کا اختتام چل رہا تھا اور گرمی عروج پر تھی۔ جبل پور سے سوڈا واٹر، عمدہ خیمے اور خس کی ٹٹی کے علاوہ ٹھنڈے مشروبات سے گرمی قابلِ برداشت ہو گئی تھی۔ اسی گرمی کی وجہ سے شیروں کی تلاش آسان ہو گئی تھی کہ سارے نالے، تالاب اور چشمے خشک ہو گئے تھے اور بڑی ندیوں کے موڑوں پر کہیں کہیں پانی تالابوں کی شکل میں موجود تھا۔ مقامی نمبرداروں کو ڈپٹی کمشنر سے پہلے ہی احکامات جاری کر دیے گئے تھے کہ ان کے قریبی علاقوں میں جہاں بھی شیر ملیں، ان کی معلومات فوراً بھیج دی جائیں اور جہاں شیروں کے پگ دکھائی دیں، ان راستوں پر بودے باندھ دیے جائیں۔ دوسرا حکم غلط فہمی پر مبنی تھا کہ بودے ہماری آمد تک نہ باندھے جاتے مگر اس طرح کئی بودے باندھے اور مار کر کھا لیے گئے جبکہ ہم کئی روز بعد جا پہنچے۔
جب ہم مرواری سے نو میل دور منزل پر پہنچے تو دیکھا کہ کارندوں نے کچھ زیادہ ہی جوش کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو بودے باندھے تھے جو ایک دوسرے سے نصف میل دور اور خشک دریا کے پاس تھے۔ دونوں کو مار کر کھا لیا گیا تھا۔ جب ہم انہیں دیکھنے پہنچے تو چند ہڈیاں ہی باقی بچی ہوئی تھیں۔
پانی پینے کی جگہوں پر شیروں کے علاوہ جنگلی سور اور چیتل کے موجود تھے سو ہم نے فوراً ہی ہانکے کی تیاری شروع کر دی۔
یہ علاقہ بہت خوبصورت تھا اور جگہ جگہ جنگل اور گھاس کے میدان موجود تھے جنہیں آگ لگا کر صاف کیا گیا تھا۔ جلی ہوئی سیاہ گھاس سے سبز گھاس سر اٹھانا شروع ہو رہی تھی۔
مہوے کے بے شمار درخت موجود تھے۔ ان کے پھولوں کے گچھے لٹکے ہوئے تھے اور انتہائی مسحور کن خوشبو ریچھوں اور دیگر جانوروں کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی۔ یہ پھول مقامی افراد کے لیے بھی بہت دلچسپی کا سبب ہوتے تھے کہ وہ نہ صرف انہیں کھاتے تھے بلکہ ان سے بہت طاقتور شراب بھی تیار کرتے تھے جو یہاں بہت مشہور تھی۔
کسی ایسی جگہ جہاں جانوروں کے لیے ہر ممکن کشش موجود ہو مگر جانوروں کو شکاری مار کر کھا گئے ہوں تو ایسی جگہ جب تک حکومت جانوروں کو بچانے کے لیے الگ سے انتظامات نہ کرے تو ان کا بچنا ممکن نہیں ہوتا۔ وسطی صوبوں کا یہی حال تھا۔ جب خشک موسم شروع ہوئے کافی وقت گزر چکا ہو اور پانی پہاڑیوں میں کہیں کہیں تالابوں کی شکل میں بچ جائے تو یہ جگہیں مقامی افراد کو بخوبی معلوم ہوتی ہیں مگر یورپی ان سے واقف نہیں ہوتے۔ چاندنی راتوں میں مقامی شکاری پانی سے دس گز کے اندر مچان پر بیٹھ کر پانی کے لیے آنے والے ہر جانور کو گولی مارتے جاتے ہیں۔
جنگلی جانوروں کے لیے بہترین جنگل میں جب کوئی جانور نہ دکھائی دے تو بہت مایوسی ہوتی ہے۔ تاہم مقامیوں کی اطلاع پر بھروسہ کرنے کی بجائے میں خشک ندیوں اور تالابوں کے کنارے پگ تلاش کرتا ہوں۔
اگر پگ مل بھی جائیں تو بھی ان کا معائنہ بغور کرنا چاہیے کہ خشک موسم میں جانور بار بار ایک ہی جگہ پانی پینے آتے ہیں اور بارش نہ ہونے کی وجہ سے پگ مٹتے نہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے بہت زیادہ جانور ہوں۔ یہ بھی یاد رہے کہ خشک موسم میں ہرن، نیل گائے اور دیگر جانور پانی کی تلاش میں طویل سفر کرتے اور صبح ہونے سے پہلے واپس لوٹ جاتے ہیں۔
عین یہی صورتحال اس دورے پر بھی تھی اور بہترین جنگلوں میں نہ ہونے کے برابر شکار تھا۔ چند روز قبل ہمارے بودے مارے گئے تھے مگر میرا خیال تھا کہ شیر ابھی تک شاید یہیں موجود ہو کہ دس تین جگہوں کے علاوہ اور کہیں پانی نہیں تھا۔
ہمارے پاس ہانکے کے لیے ۱۶۴ بندے تھے اس لیے ہم نے طویل قطار بنائی اور چونکہ جنگل حال ہی میں جلائے گئے تھے، اس لیے دور دور تک دکھائی دے رہا تھا اور سو گز کے فاصلے پر بھی جانور بخوبی دیکھا جا سکتا تھا۔
تمام تر ضروری انتظامات کے بعد ہانکہ شروع ہوا۔ حیرت کی بات تھی کہ اتنے عمدہ جنگل میں نہ ہونے کے برابر جانور تھے۔ نئی گھاس کی وجہ سے سطح ملائم اور سبز تھی مگر اسے کھانے کے لیے کوئی جانور نہ تھا۔
مایوسی کی کیفیت میں شدید گرمی میں کئی گھنٹے گزر گئے۔ انتہائی عمدہ جنگل میں انتہائی توجہ سے ہانکا کیا گیا مگر اکا دکا مور یا خرگوش کے سوا کچھ نہ دکھائی دیا۔ گرمی شدید تھی اور ہانکے والے صبح چھ بجے سے ہانکا کرتے کرتے تھک گئے تھے۔ ناکامی سے زیادہ کوئی چیز نہیں تھکا دیتی۔ جنگل بہت عمدہ تھے اور ہر جنگل ایک جیسا دکھائی دیتا تھا اور مجھے علم نہ تھا کہ ہم کیمپ سے کتنے دور ہیں۔ تاہم مجھے حیرانی ہوئی کہ مجھے بتایا گیا کہ ہم دائرے میں حرکت کر رہے ہیں اور ہمارا کیمپ بمشکل ڈیڑھ میل دور ہوگا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ اب ہانکہ کرتے ہوئے براہ راست کیمپ کو جاتے ہیں۔
آخری ہانکے کے دوران میں نے واضح طور پر اپنے عقب سے نصف میل دور سانبھر کی آواز سنی تھی اور ہمارا رخ اسی جانب تھا۔ سانبھر دن کی روشنی میں شاید ہی کبھی آواز نکالے مگر تیندوا یا شیر دیکھ کر ضرور بولتا ہے۔ اس لیے میں نے سوچا کہ شاید وہ شیر کو دیکھ کر بولا ہو۔ کیمپ کے پاس ہی ایک چھوٹی سی ندی تھی جہاں سے شیر پیاس بجھانے نکلا ہوگا۔
بیری نے اس کے باہر درختوں کے چھوٹے جھنڈ کے درمیان جگہ سنبھالی اور میں اس جھنڈ کے کنارے پر کھڑا ہو گیا۔ میں مولا بخش پر بندھے ہودے پر سوار تھا اور اس اونچے مقام سے مجھے دو سو گز تک نہ صرف اس جھنڈ کا کچھ حصہ بلکہ دوسری جانب میدان بھی صاف دکھائی دے رہا تھا۔
تھوڑی دیر میں ہانکے کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں اور پھر ہیجان زدہ آوازیں سنائی دیں کہ جیسے کوئی جانور نکل آیا ہو۔ ہم اتنے مایوس ہو چکے تھے کہ شیر کو بھول کر یہ سوچ رہے تھے کہ کوئی بھی قابلِ شکار جانور نکل آئے تو گولی چلا دیں گے۔ اچانک زور کے نعروں کے بعد دس بارہ جنگلی سور نکل کر اس جانب گئے جہاں بیری کھڑا تھا۔ اس نے فوراً دو گولیاں چلائیں۔
ہانکے کی قطار قریب تر ہو رہی تھی۔ عام ہانکے میں اتنا جوش نہیں دکھائی دیتا مگر چونکہ یہاں دور تک کا منظر واضح دکھائی دے رہا تھا، سو ہانکے والے پرجوش تھے۔ ایک بار پھر نعرے لگے اور آٹھ یا دس چیتل میرے ہاتھی کے قریب سے گزر کر کھلے جنگل کو بھاگ گئے۔ یہ ساری مادائیں اور چھوٹے بغیر سینگوں والے نر تھے، سو میں نے گولی نہیں چلائی۔ اب ہم شکار کی کمی کا شکوہ نہیں کر سکتے تھے کہ لگ بھگ تمام جانور ہی یہاں تھے۔ اچانک ہانکے والوں نے شور مچایا اور کم از کم بیس سور نکل کر بیری کی طرف گئے جہاں دو گولیوں کی آواز سنائی دی۔ مجھے توقع تھی کہ کچھ دیر پہلے والا سانبھر شاید نکل آئے۔ تاہم ہانکے کا اختتام ہو رہا تھا کہ دونوں سروں سے کافی سارے ہانکے والے نکل آئے تھے۔
پھر میں نے بیری کو اپنی سمت آتے دیکھا۔ وہ اپنی جگہ چھوڑ کر آ رہا تھا۔ جب وہ قریب پہنچا تو زور سے بولا، ‘تم نے دیکھا؟‘ میں نے پوچھا، ‘تم نے کوئی سور زخمی کر دیا؟‘ اس نے جواب دیا، ‘سور؟ شیر تھا۔ میں نے آج تک اس سے بڑا شیر نہیں دیکھا۔ وہ مجھ سے بیس گز دور گزرا اور میں نے دونوں نالیاں چلائیں۔ دونوں ہی خطا گئیں۔ پتہ نہیں کیسے۔‘ یہ بہت اہم خبر تھی۔ میں فوراً ہاتھی سے اترا اور جائے وقوعہ کو گیا۔ شیر بیری کے بہت قریب سے گزرا ہوگا کہ میں نے اسے جنگل کی وجہ سے نہیں دیکھا تھا۔
کئی منٹ بعد ہمیں شیر کے پگ دکھائی دیے اور میں نے وہاں سے بیری کے مقام کا فاصلہ دیکھا۔ بیس گز بھی نہیں بنتے تھے۔ اب اہم ترین سوال یہ تھا کہ آیا شیر زخمی ہوا ہے؟ ہم نے باریکی سے جائزہ لے کر زمین میں ایک گولی کا نشان تو دریافت کر لیا مگر دوسرا نشان نہ مل سکا۔ شاید دوسری گولی شیر کو لگی ہوگی۔ تاہم بیری قسم کھا کر کہہ رہا تھا کہ گولی شیر کو نہیں لگی کہ گولی چلانے سے پہلے اور بعد میں شیر کی چال میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اس کا خیال تھا کہ شیر نے گولی کی آواز نہ سنی ہوگی کہ گزرتے ہوئے اس کا سر مخالف سمت تھا اور شاید ہانکے والے ۱۶۴ افراد کا شور اس کی توجہ کا مرکز تھا۔
ہم نے خون کے نشانات تلاش کرنے کی بیکار کوشش کی اور پھر یہ فیصلہ کیا کہ عجلت کی وجہ سے بیری نے بہت اونچی گولی چلائی ہوگی۔ پھر ہم نے اس جنگل کے ہانکے کا منصوبہ بہت احتیاط سے بنایا جہاں شیر ابھی گھسا تھا۔
یہ جگہ سارے دن میں دیکھی ہوئی دیگر جگہوں سے یکسر مختلف تھی کہ اس کو آگ نہیں لگی تھی۔ آگ اس سے پہلے ایک پگڈنڈی پر رک گئی تھی۔ یہ گھاس خشک اور مرجھائی ہوئی ہونے کے باوجود تین فٹ اونچی تھی۔ یہ جگہ ہر قسم کے جانور کو چھپانے کے لیے بہترین ہوگی۔ مجھے یقین تھا کہ شیر اس طرح کی پناہ گاہ سے اشد ضرورت کے بغیر نہ نکلتا۔ تاہم اس جگہ ہانکا کرنے سے قبل ہمیں اچھی طرح پورے علاقے کا جائزہ لینا ضروری تھا۔
میں پھر مولا بخش پر سوار ہوا اور بیری سے کہا کہ وہ ڈیموزل پر بیٹھے اور دو ماہر شکاری ساتھ لے کر ہم ہانکے کی قطار سے نکلے اور کہتے آئے کہ حکم ملتے ہی سیدھے چل پڑیں۔ تاہم اس بار میں نے انہیں شور کرنے سے منع کیا اور کہا کہ وہ محض درختوں کے تنے پر لکڑیاں مارتے آئیں۔
اس طرح ہم چوتھائی میل آگے بڑھے اور پھر بائیں جانب کے جنگل میں مڑ کر داخل ہو گئے۔
اس طرح تین سو گز چل کر ہم ایک نسبتاً کھلی جگہ پہنچے جہاں سے کم گہرے نالے گزرتے تھے جو پاس موجود کم اونچی پہاڑیوں سے آتے تھے۔ میں نے بیری کو دو سو گز دائیں جانب ایسی ہی ایک جگہ بھیجد یا۔ میرا خیال تھا کہ جب ہانکا شروع ہوگا تو شیر انہیں نالوں سے چھپ چھپا کر نکلنے کی کوشش کرے گا۔
پھر ہم نے ایک مقامی شکاری کو واپس بھیجا تاکہ ہانکا شروع ہو سکے۔ بیری میری بائیں جانب ڈیموزل پر سوار تھا جبکہ میں مولا بخش پر سوار جنگلی نالے کے وسط میں کھڑا ہو گیا جہاں ہر طرف بیس گز واضح منظر دکھائی دیتا تھا۔
جلد ہی ہمیں ٹہنیاں ٹوٹنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں اور ہانکے والے میرے احکامات کے عین مطابق بالکل خاموشی سے آ رہے تھے۔
جنگل میں کوئی بھی جانور نہ تھا، شاید پچھلے ہانکے کے شور سے سارے جانور بھاگ گئے تھے۔ خیر، ہانکا خالی گیا اور ہانکے والے ہمارے سامنے نکل کر آ گئے۔ میں نے ہاتھی موڑنے کا حکم دیا تاکہ مزید چوتھائی میل پر ہانکا ہو سکے کہ اچانک پچاس گز دور سے ہمیں شیر کی انتہائی اونچی دھاڑیں سنائی دیں۔ میں نے آج تک ان آوازوں سے زیادہ شور کسی ایک جانور سے نہیں سنا۔ اس کی آواز انتہائی دہشت ناک تھی۔ تاہم لمحہ بھی ضائع کیے بنا میرے عقلمند مہاوت نے ہاتھی کو فوراً اسی جانب بڑھایا جہاں سے ابھی تک دھاڑیں سنائی دے رہی تھیں۔
مولابخش پوری طرح قابلِ بھروسہ ہاتھی تھا اور اس کا مہاوت بھی۔ ہر ممکن تیزی سے ہم شیر کی سمت جا رہے تھے مگر مجھے پھر بھی ایسا لگ رہا تھا کہ ہم بہت آہستگی سے جا رہے ہیں۔
زمین تھوڑی سی اونچی ہوتی جا رہی تھی اور جنگل کے درخت اب بیس فٹ اونچے اور انسانی ران کے برابر موٹے تھے۔ اس کے علاوہ بہت بڑے درخت بھی تھے۔
مولابخش اپنے وزن کے ساتھ ان درختوں کو توڑتے ہوئے راستہ بناتا جا رہا تھا۔ شیر کی دھاڑیں اب تک رک گئی تھیں۔ چونکہ اس موسم میں درختوں کے پتے جھڑ چکے تھے، سو ہمیں دور دور تک درختوں پر پناہ کی تلاش میں چڑھے ہوئے ہانکے والے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ جونہی پہلا بندہ دکھائی دیا، ہم نے چیخ کر پوچھا کہ شیر کہاں ہے۔ اس نے عین اپنے نیچے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہیں ہے۔ عین اسی وقت ایک اونچی دھاڑ سنائی دی اور شیر نے براہ راست مولابخش پر حملہ کر دیا۔
درمیان میں اتنے درخت تھے کہ میں گولی نہ چلا سکتا تھا۔ مولابخش رکنے کی جائے سیدھا شیر کی جانب لپکا۔ اپنے بڑے سر کی جنبش سے درخت توڑے جو سیدھا اس کی جانب بڑھتے ہوئے شیر پر گرے اور شیر ایک لمحے کو جھجھکا۔ یہ کہنا ممکن نہیں کہ شیر ہاتھی کے دانتوں سے ٹکرایا یا نہیں مگر لگ بھگ اتنے قریب پہنچ چکا تھا کہ درخت اس پر گرے اور شیر رک گیا۔ عین اسی لمحے مولابخش کسی مجسمے کی مانند ساکت ہو گیا۔ اس طرح مجھے گولی چلانے کا بہترین موقع ملا اور اعشاریہ ۵۷۷ کی گولی کھاتے ہی شیر وہیں گرا اور قلابازی کھا کر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ تاہم پندرہ قدم دور گھاس میں اس کی جدوجہد کی آوازیں آنے لگیں۔
اب میں نے مولابخش کو اس جانب بڑھایا اور جب شیر کے شانے صاف دکھائی دینے لگے تو میں نے اس کے کندھے کے عین وسط میں دوسری گولی اتار دی۔
اس ہاتھی نے بہت عمدہ کارکردگی دکھائی تھی اور اب میں مڑ کر دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ اگر کوئی دوسرا برا ہاتھی ہوتا تو کتنا افسوس ہوتا۔ پھر مولابخش شیر کی لاش تک پہنچا اور مہاوت کے اشارے پر آس پاس کا جھاڑ جھنکار صاف کر دیا۔ اس دوران اس کی سونڈ کئی بار شیر کی کھال سے ٹکرائی مگر اس نے کوئی توجہ نہ کی۔
میں نے منہ میں دو انگلیاں ڈال کر زور سے دو بار سیٹی بجائی کہ شیر مارا جا چکا ہے اور ابھی وہیں کھڑے تھے کہ ایک مقامی بندہ بری طرح لڑکھڑاتا ہوا آیا جیسے نشے میں ہو۔ آخرکار وہ ہاتھی کے پیروں میں گر گیا۔ اس کے سارے جسم پر خون کے نشانات تھے اور وہ بیہوش ہو گیا۔ میرے ساتھ ایک بہترین مدراسی ملازم تھامس تھا جو میرے پیچھے ہودے پر سوار تھا۔ وہ فوراً نیچے اترا اور اس بدقسمت قلی کو پانی کے چھینٹے مارے۔ یہ پانی ایک برتن میں ہودے کے نیچے موجود تھا۔ چند لمحے بعد بندے کو ہوش آیا اور ہانکے والے ایک اور زخمی بندے کے ساتھ آ پہنچے۔ یہ شیر کے ہاتھوں زخمی ہونے والا دوسرا بندہ تھا۔ ہم نے انہیں زمین پر لٹا کر ان کے منہ اور سینے پر پانی انڈیلا۔ اس دوران ایک اور جماعت ایک اور زخمی کو اٹھا کر لے آئی۔ تیسرے بندے کی شناخت دشوار تھی کہ وہ خون، پتوں اور مٹی سے بری طرح لتھڑا ہوا تھا۔ یہ بہت بڑی مشکل تھی۔ جب شیر دھاڑ کر ہانکے کی قطار پر حملہ کر رہا تھا تو یہ لوگ شیر کے ہاتھ آ گئے تھے۔ گاؤں بمشکل ایک میل دور تھا سو ہم نے فوراً تین چارپائیاں منگوا لیں تاکہ ان افراد کو منتقل کیا جا سکے۔
ڈیمزل سے اتر کر بیری میرے ہاتھی پر سوار ہو گیا جبکہ اس کے ہودے پر بڑی مشکل سے شیر کی لاش کو لاد دیا گیا۔ اس طرح ہم غمگین حالت میں گاؤں میں داخل ہوئے تو عورتوں نے روتے اور چلاتے ہوئے ہمارا استقبال کیا۔ میں پچھتانے لگا کہ شیر کا شکار بے شک شکاری کے لیے لطف کا سبب ہوتا ہوگا مگر ہانکے کے لیے جانے والے بے ضرر دیہاتی مفت میں اپنی جان سے ہاتھ دھوتے ہیں۔
تاہم جلد ہی شیر کے غصے کا سبب معلوم ہو گیا۔ اصولی طور پر جب تک شیر زخمی نہ ہو، ہانکے والوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں بنتا اور زخمی شیر جس جنگل میں موجود ہو، وہاں ہانکے کے لیے کبھی انسانوں کو نہیں بھیجنا چاہیے۔ ایسے مواقع پر جب ہاتھی موجود نہ ہوں تو بھینسوں کو ساتھ لے جانا چاہیے۔ ان کے ریوڑ کی مدد سے شیر کو جنگل سے بہ آسانی نکالا جا سکتا ہے۔
جب شیر کی کھال اتاری گئی تو ہم نے دم کی جڑ کے پاس ایک چھوٹا سوراخ دیکھا جو پہلے دکھائی نہیں دیا تھا۔ قریب سے دیکھا تو اس میں سیسے کے باریک ذرات پائے گئے جو بالکل چپٹے ہو چکے تھے۔ یہ سوراخ ایک انچ سے زیادہ گہرا نہیں تھا کہ اس جگہ پٹھے بہت مضبوط ہوتے ہیں اور یہ گولی بیری کی اعشاریہ ۵۷۷ بور کی کھوکھلی ایکسپریس سے نکلی تھی اور اس زخم نے شیر کو بدمزاج اور مشتعل بنا دیا تھا مگر اسے زیادہ زخمی نہ کر پائی۔ تاہم یہاں وضاحت کرتا چلوں کہ یہ گولی معمول سے زیادہ کھوکھلی اور ہلکی تھی اور اس وجہ سے چھ ڈرام بارود کی طاقت نہ سہار پائی اور شیر کے جسم سے ٹکراتے ہی بکھر گئی۔
اس کا مقابلہ میری اعشاریہ ۵۷۷ کی گولی سے کریں جو چھ ڈرام بارود سے ہی چلی تھی مگر نرم سیسے کی ٹھوس گولی تھی۔ پہلی گولی شیر کو ترچھی لگی جو دائیں پہلو میں گھسی اور پھیپھڑوں کو جلاتی ہوئی شانے کی ہڈی توڑ کر دوسری جانب کی کھال کے نیچے رک گئی تھی۔ یہ گولی ہاتھی پر حملے کے وقت چلائی گئی تھی۔ دوسری گولی محض اس کی تکلیف ختم کرنے کے لیے چلائی تھی جو دونوں کندھوں سے ہوتی ہوئی دوسری جانب کھال کے نیچے رک گئی تھی۔ یہ گولی آگے سے پھیل کر ایک انچ اور پیچھے نصف انچ موٹی بچ گئی تھی۔ یہ شیر بڑا اور غیر معمولی طور پر موٹا اور بھاری تھا۔ اس نوعیت کے جانور کے لیے خالص سیسے کی نرم گولی بہترین انتخاب ہوتی ہے۔ اگر یہی گولی ٹِن یا کسی دوسری دھات سے ملا کر سخت بنائی گئی ہوتی تو شیر کے جسم کے پار ہو جاتی اور شیر کو مہلک صدمہ نہ پہنچتا۔ یہی مہلک صدمہ ہی ہوتا ہے جو خطرناک شکار کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ میں ایک بار پھر یہ اصول دہراتا ہوں کہ کھوکھلی گولی میں صدمہ پہنچانے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر اور بھاری ٹھوس گولی میں انتہائی زیادہ صدمہ پہنچانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ جب یہ ٹھوس گولی خالص سیسے کی بنی ہو تو شیر سے ٹکراتے ہی پھیلنا شروع ہو جائے گی اور راستے میں آنے والے عضلات، پٹھوں اور ہڈیوں کو اپنی بے پناہ طاقت اور وزن سے توڑتی ہوئی گزرے گی جس سے خوفناک زخم پیدا ہوگا۔ بہت بڑا شیر بھی ہو تو اس کا وزن ۴۵۰ پاؤنڈ تک ہو سکتا ہے جبکہ ۶۵۰ گرین کی اعشاریہ ۵۷۷ بور ی گولی جب چھ ڈرام بارود سے چلتی ہے تو ٹکراؤ کے وقت اس کی طاقت ۳۵۲۰ فٹ پاؤنڈ ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ محض نظریاتی حساب ہے مگر ۴۵۰ پاؤنڈ بمقابلہ ۳۵۰۰ پاؤنڈ ہو تو یہ گولی شیر کے حملے کو نہ صرف روک سکتی ہے بلکہ اسے وہیں لٹا بھی سکتی ہے۔ شرط محض اتنی سی ہے کہ گولی آر پار نہ ہو جائے۔
ہم نے زخمی افراد کی دیکھ بھال کی ہر ممکن کوشش کی۔ میں نے انہیں دودھ، سوڈا واٹر اور افیون ملا کر پلانے کی کوشش کی مگر ان کے ہاں ذات پات کا نظام اتنا سخت تھا کہ انہوں نے ہمارے ہاتھ سے کچھ بھی کھانے پینے سے انکار کر دیا۔ سو ان کے زخموں کو دھو کر مرہم پٹی کے بعد انہیں علاج کے لیے ان کے ہم مذہب افراد کے حوالے کر دیا گیا۔
ایک بندے کو سینے اور پشت پر شیر نے بری طرح کاٹا تھا اور اس کے دانت پھیپھڑوں میں داخل ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ اس کے چہرے اور سر پر بھی شیر نے پنجے مارے تھے۔ یہ بندہ چند گھنٹوں بعد مر گیا۔ دوسروں کو کندھے اور کہنی سے اوپر شیر نے کاٹا تھا اور شیر کے ناخن سے ان کے ماتھے سے گدی تک ایسے چیر لگے تھے جیسے جراح نے کاٹا ہو۔
انہیں چارپائیویں پر ڈال کر مورواڑہ بھیج دیا گیا جہاں ایک ماہ کے علاج کے بعد وہ پوری طرح صحت یاب ہو گئے۔ شیر کے پنجے جو ان کے سر پر لگے تھے، وہ محض ناخن تھے، دھکہ نہیں لگا تھا۔
یہ حادثہ کھوکھلی گولی سے پیش آیا تھا ورنہ اگر عین اسی مقام پر ٹھوس گولی لگتی تو شیر کی ریڑھ کی ہڈی کا کچھ حصہ اڑا لے جاتی اور شیر وہیں بیکار ہو جاتا۔
باب ۷
شیر (جاری)
مندرجہ بالا حادثے کے اگلے روز ہم آم کے جھنڈ کے سائے تلے آرام سے بیٹھے تھے کہ چار بجے شام کو ایک مقامی بندہ آیا اور بولا کہ ایک شیر نے اس کی دودھیل گائے کو ہلاک کر دیا ہے اور لاش یہاں سے دو میل دور پڑی ہے۔
پچھلے روز کے افسوس ناک واقعے کے بعد مقامی افراد ہانکے کے لیے بالکل تیار نہیں تھے اور مجھے ان کے جذبات کا پورا احساس تھا۔ ویسے بھی ہانکے کا وقت گزر چکا تھا۔ سو میں نے سوچا کہ دو ہاتھیوں کو ساتھ لے جا کر جائے وقوعہ کا معائنہ کرتا ہوں تاکہ اگلے روز کی حکمتِ عملی طے کی جا سکے۔
ہم چار بجے روانہ ہوئے کہ ہاتھیوں کو تیار ہوتے ہوتے وقت لگ گیا۔
مقامی بندہ فاصلے کے تعین کے حوالے سے کافی درست تھا اور گھاس کے قطعوں اور جنگلوں سے بھری پہاڑیوں اور نالوں سے گزر کر ہم مطلوبہ جگہ پہنچے جہاں آسمان پر گِدھ چکر کاٹ رہے تھے۔ یہاں ہمیں ایک بہت عمدہ سفید گائے کی باقیات دکھائی دیں جو کھلے میں ماری گئی اور پھر گھنے جنگل میں گھسیٹ کر لے جائی گئی تھی۔
ڈیمزل کو وہیں کھلے میں چھوڑ کر میں نے بیری کو اپنے ہودے میں سوار کیا اور سورج غروب ہونے تک ہم نے احتیاط سے جنگل چھانا۔ تاہم ناکامی ہوئی اور ہم کیمپ کو واپس لوٹ آئے۔ تاہم ہم نے خود کو اس علاقے سے خوب واقف کر لیا۔ اگلی صبح پو پھٹتے ہی میں نے محض بیس افراد جمع کیے اور دو ہاتھیوں اور ایک بہت نڈر پولیس والے کے ساتھ شام والے مقام کو روانہ ہوئے۔ تاہم لاش غائب تھی۔ سب بندوں کو جنگل کے باہر چھوڑ کر ہم مولا بخش پر سوار گھسیٹنے کے نشانات پر روانہ ہوئے۔ ہم پوری طرح محتاط تھے۔ ۱۵۰ گز بعد ہم نے شیر کے رکنے اور آرام کرنے کا مقام دیکھا۔ یہاں شیر نے کافی کھایا تھا اور سر کے سوا باقی سب کچھ کھایا جا چکا تھا۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا گیدڑوں اور لگڑبگھوں نے بھی پیٹ بھرا تھا یا پھر شیر بقیہ لاش کو کسی اور جگہ لے گیا ہوگا۔ تاہم اندازہ تھا کہ شیر زیادہ دور نہ ہوگا۔
جنگل پانچ چھ ایکڑ سے زیادہ بڑا نہ تھا اور گھاس سے گھرا ہوا تھا۔ سو ہم نے ارد گرد سکاؤٹس رکھنے اور پھر دونوں ہاتھیوں پر سوار ہو کر جنگل چھاننے کا منصوبہ بنایا۔
تاہم یہ بیکار گیا۔
یہ جنگل جس ڈھلوان پر تھا، وہ بہت ڈھلوان اور چوڑے نالے پر تھا۔ یہ بڑا نالہ تھا جس میں کئی چھوٹے نالے اور ندیاں آ گرتے تھے۔ بحیثیتِ مجموعی اس جگہ مرجھائی ہوئی گھاس سے بھرا ہوا اور کئی جگہوں پر ڈھلوان تھا۔ اوپری حصوں پر جنگل تھا۔ نچلے حصے پر ایک چھوٹا مگر اہم تالاب تھا کہ یہ دو میل کے دائرے میں واحد پانی تھا۔ حسبِ معمول تالاب کے کنارے ریتلے تھےکیونکہ یہ نالے کے موڑ پر تھا۔ اس جگہ ہم نے کئی شیروں کے پگ دیکھے اور اندازہ لگایا کہ ایک شیر اور ایک شیرنی یہاں رہتے ہیں اور میں نے نر کو تو شکار کر لیا ہے مگر مادہ ابھی باقی ہے۔
نالا ۲۰ گز چوڑا اور ۳۰ گز گہرا تھا۔ اس کے کنارے زیادہ تر جگہوں پر عمودی تھے اور تہہ میں پتھر اور ٹنڈ منڈ جھاڑیاں تھیں۔ بہت ممکن تھا کہ شیرنی پانی پی کر انہی جھاڑیوں میں کہیں سو رہی ہو کہ وہاں خنک سایہ بھی تھا۔ تاہم نالے کی تہہ میں ہانکے والوں کو بھیجنا مناسب نہ تھا اور کنارے اتنے عمودی تھے کہ ہاتھی نہ اتر پاتے۔
۴۰۰ گز دور ایک بڑا درخت دائیں کنارے پر اگا ہوا تھا اور اس کی شاخیں نالے پر تھیں۔ سو میں نے بیری کو تجویز پیش کی کہ وہ انہی شاخوں پر بیٹھ جائے اور ہم نالے میں پتھراؤ شروع کرتے ہیں۔ اگر شیرنی پیچھے کو بھاگے تو میں اسے سنبھال لوں گا اور اگر وہ آگے کو بھاگی تو بیری وہاں موجود ہوگا۔ ہم نے اس پر عمل کیا مگر پولیس والے نے نالے میں اتر کر چلنے پر اصرار کیا۔ مقامی افراد دونوں کناروں سے پتھراؤ کرنے لگے۔
تاہم اس نالے میں کوئی بھی جاندار نہ تھا۔ میں نے مولابخش کو آہستہ آہستہ چلایا اور نالے میں دیکھتا آیا اور آخرکار بیری تک پہنچ گیا۔ بیری کو شاخ سے اتار کر میں نے ہودےمیں اپنے پیچھے سوار کر لیا۔ اگرچہ ہانکا خالی گیا تھا، مجھے یقین تھا کہ شیرنی انہی نالوں میں سے کسی ایک میں دبکی بیٹھی ہوگی۔ اس لیے ہم نے سب بندوں کو اونچی جگہ کھلے میدان میں بٹھایا اور سوچا کہ ہم مولابخش پر سوار ہو کر نالوں کی تلاشی لیں کہ ہاتھی کنارے کے بالکل ساتھ چلتا رہے گا اور ہم نیچے دیکھتے جائیں گے۔ پت جھڑ کی وجہ سے کوئی جانور بھی ہم سے نہ چھپ پاتا۔
مقامی لوگ بھی اس بندوبست پر بہت خوش ہوئے اور انہوں نے گھاس کے قطعے کو نشست گاہ بنا لیا اور وہاں سے ہماری نقل و حرکت کو دیکھنے لگے۔
مولابخش نے وقار سے چلنا شروع کیا۔ وہ نالے کے کنارے سے اتنا قریب چل رہا تھا کہ میں ڈرنے لگا کہ کہیں کنارہ بیٹھ نہ جائے۔ ہاتھیوں کو زمین کی مضبوطی کے بارے بہترین علم ہوتا ہے۔ اگرچہ مجھے ڈر لگ رہا تھا مگر مولابخش اطمینان سے چل رہا تھا۔ ہم مختلف نالوں کے کناروں پر اوپر اور نیچے چلتے رہے مگر کچھ نہ دکھائی دیا۔
سورج آگ برسا رہا تھا اور رائفل کی نال کو تھامنا مشکل ہو رہا تھا۔ ہم لوگ چھ بجے سے چل رہے تھے اور اب دوپہر ہو چکی تھی۔ کھائیوں کی تہہ میں خشک پتوں کی چند فٹ موٹی تہہ بچھی ہوئی تھی۔ یہ پتے کناروں کے درختوں سے نیچے گرے تھے۔ سو اگر کہیں بلی بھی چھپی ہوتی تو بھی ہم دیکھ لیتے۔ بیری بولا، ‘شیرنی نہیں ہے۔ وہ شاید شکار مار کر کھانے کے بعد دور چلی جاتی ہوگی۔ ممکن ہے کہ وہ اب یہاں سے دو میل دور کہیں ہو اور ہم یہاں نالے چھان رہے ہیں۔‘ ابھی اس نے یہ الفاظ ادا کیے تھے کہ اچانک ہمیں ایسی آواز آئی جیسے تیز ہوا کا جھونکا آیا ہو۔ ہمارے سامنے کچھ پتے اڑے۔ پہلے پہل تو مجھے کچھ نہ سمجھ آئی مگر چند لمحے بعد بیس قدم دور ہمارے سامنے ایک شیرنی جست لگا کر کنارے پر چڑھ آئی۔ فوراً ہی اس نے کئی دھاڑیں لگائیں اور کھلے میدان میں سیدھی بھاگتی ہوئی مولابخش پر حملہ آور ہوئی۔ میں نے اس سے زیادہ بے وجہ حملہ نہیں دیکھا۔
ہاتھی بھی اس اچانک حملے پر ششدر رہ گیا اور اپنا سر ہلانے لگا جس کی وجہ سے میں گولی نہ چلا سکا۔ اس نے شیرنی کو اپنے لمبے دانتوں پر وصول کر کے سر کو دائیں طرف جھٹکا دیا تو شیرنی اڑتی ہوئی اسی نالے میں واپس جا گری۔
اگرچہ درختوں اور جھاڑیوں پر سے پتے گر چکے تھے، بدقسمتی سے دوسرے کنارے پر عین ہمارے سامنے کروندے کی ایک بڑی اور سبز جھاڑی تھی۔ شیرنی نے کنارے کو جست لگائی اور سیدھا اسی جھاڑی کے پیچھے گم ہو گئی۔ ہم گولی نہ چلا سکے۔
مہاوت اپنا کام بخوبی جانتا تھا، سو اس نے فوراً ہی ہاتھی کو چند قدم آگے بڑھایا اور سر دائیں جانب موڑ کر ہمیں گولی چلانے کا بہترین موقع دیا۔ شیرنی میرے عین سامنے اسی گز دور ہلکی سی اونچی ہوتی ہوئی زمین پر دوڑتی جا رہی تھی۔میں نے بیری کی رائفل کا دھماکہ سنا مگر شیرنی پر کوئی فرق نہ پڑا۔ شیرنی سیدھی ہمارے مخالف سمت جا رہی تھی اور مولابخش کسی مجسمے کی مانند ساکت تھا، سو میں نےجب لبلبی دبائی تو شیرنی قلابازی کھا کر گری اور اس کا سر ہماری جانب اور دم دوسری جانب تھی۔ شیرنی عین ہماری سیدھ میں پڑی تھی۔ ہمارے ساتھیوں نے یہ سارا منظر بخوبی دیکھا تھا اور خوشی سے شور مچانے لگے۔
ہم واپس مڑے اور ہاتھی کے اترنے کے لیے مناسب جگہ تلاش کی۔ پھر ہم نے فاصلہ ماپا تو کل ۸۲ گز نکلا۔ میری اعشاریہ ۵۷۷ بور کی سیسے کی ٹھوس گولی شیرنی کی گدی پر لگی اور کئی مہرے قیمہ بن گئے تھے اور پھر گولی دماغ میں گھسی اور دو حصوں میں بٹ گئی۔کھوپڑی بری طرح ٹوٹ چکی تھی۔ ایک تہائی گولی کا حصہ دائیں آنکھ سے نکلا ہوا تھا جبکہ باقی دو تہائی حصہ چہرے کی ہڈیاں توڑتا ہوا دانتوں کے قریب پھنسا ہوا تھا۔ جبڑے کی ہڈی بھی ٹوٹ چکی تھی۔ بیری کی گولی شیرنی کو بھی عین اسی جگہ یعنی دم کی جڑ کے پاس لگی تھی۔
کیمپ پہنچ کر جب شیرنی کی کھال اتاری گئی تو ہم نے جائزہ لیا کہ کھوکھلی گولی کا کیا اثر ہوا ہے۔ یہ ہمارے لیے خطرناک علامت تھی۔ گولی محض ایک انچ اندر گھسی۔ ہم نے گوشت کو ٹھنڈے پانی سے دھویا اور زخم کو اچھی طرح دیکھا جو ایک انچ سے بھی چھوٹا تھا۔ گولی شیرنی کو لگتے ہی اپنی شکل کھو چکی تھی۔ یہ گولی ٹوپی کی طرح کھوکھلی اور اسی طرح بیکار تھی جیسے ٹوپی کو حملہ کرتے شیر پر اچھالا جائے۔
یہ بات عام اصول کے خلاف تھی کہ شیر جب تک زخمی نہ ہو، حملہ نہیں کرتا۔ اگر نالے کے کنارے کوئی بندہ پیدل جا رہا ہوتا تو شیرنی وہیں اس کے چیتھڑے اڑا دیتی۔ایسا ہی پچھلے سال (۱۸۸۸) کو ہوا جب رائے پور میں مقامی مشنری کے بیٹے لاویس پر حملہ کر کے ایک شیرنی نے اسی طرح مار ڈالا تھا۔ یہ شیرنی اس بندے کے کیمپ کے ساتھ ہی ایک نالے میں چھپی تھی اور نوجوان شکاری نے اناڑی پن کی وجہ سے بندوق اٹھائی اور چند ساتھیوں کے ساتھ پیدل روانہ ہو گیا۔
اس نے نالے کے کنارے سے جھانک کر دیکھا تو شیر لیٹا تھا۔ اچانک بندے دیکھ کر شیر گھبرا گیا اور اسی دوران شیرنی جست لگا کر کنارے پر پہنچی اور قبل اس کے کہ وہ گولی چلا سکے، اسے دبوچ لیا۔ شیرنی نے اسے پکڑ کر چند بار جھنجھوڑا اور پھر واپس اپنی جگہ لوٹ گئی۔ تاہم لاویس شدید زخمی ہو گیا تھا اور اگلے دن اسے چارپائی پر ڈال کر رائے پور پہنچایا گیا جہاں وہ مر گیا۔
بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ شیر جب بھی انسان پر حملہ کرتا ہے تو مقصد اسے کھانا ہوتا ہے۔ یہ غلط فہمی ہے۔ بہت سارے حادثوں میں شیر کا حملہ محض اپنے بچاؤ کی نیت سے ہوتا ہے کہ انسان بہت قریب پہنچ جاتا ہے۔ سو شیر سمجھتا ہے کہ انسان اسے کوئی نقصان پہنچانے آیا ہوگا اور جست لگا کر حملہ کرتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شیر اونگھ رہا ہو اور انسان کی موجودگی سے بیدار ہوتے ہی بھاگے اور انسان کو لاعلمی میں زخمی کرتا جائے۔ جب ہانکے کے دوران شیر ہانکے والوں کی طرف سے نکلنے کی کوشش کرے تو ظاہر ہے کہ وہ دکھائی دینے والے پہلے انسان پر حملہ آور ہو جائے گا کہ وہ اس کے فرار کے راستے میں حائل ہوگا۔ مگر شیر اسے کبھی کھانے کی نیت سے نہیں مارے گا۔ ہاں آدم خور ہو تو اور بات ہے۔
بعض آدم خوروں کا نڈر پن اور ان کی مکاری حیران کن حد تک بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔
چند سال قبل مندلا کے ضلع میں ایک آدم خور نے ایک سڑک پر قبضہ کر کے آمد و رفت بند کر دی تھی۔ عام خیال کے برعکس یہ شیر نہ تو بوڑھا تھا اور نہ ہی خارش زدہ، بلکہ انتہائی طاقتور اور دہشتناک جانور تھا۔ یہ ایسا قذاق تھا جو سڑک کے ایک مخصوص حصے پر قابض تھا اور گزرنے والی بیل گاڑیوں کے گاڑی بانوں سے پیٹ بھرتا تھا۔ گاڑی پر حملہ آور ہو کر وہ بیل کی بجائے گاڑی بان کو اٹھا کر نزدیکی جنگل میں کھا جاتا تھا۔ اس نے بہت سارے انسان کھا لیے اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ کوئی بھی مقامی گاڑی بان یہاں سے اکیلا گزرنے پر کسی قیمت پر بھی تیار نہ ہوتا تھا۔ اس لیے کئی گاڑیاں جمع ہو کر جاتی تھیں۔ تاہم شیر پوری قطار کو گزرنے دیتا اور آخری گاڑی پر حملہ کر کے اس کے گاڑی بان کو لے جاتا۔ باقی ساتھی دہشت سے دیکھتے رہ جاتے۔
ایسا بہت مرتبہ ہوا اور آخرکار آمد و رفت پوری طرح سے رک گئی۔ اس شیر کی ہلاکت پر حکومت نے بڑا انعام مقرر کیا مگر بیکار رہا کہ کسی شکاری کو یہ شیر نہ دکھائی دیا۔
آخرکار پولیس کے سپرنٹنڈنٹ مسٹر ڈف نے اس کام کے لیے کمر باندھی۔ اس کا ایک بازو کسی بندوق کے حادثے میں کٹ گیا تھا۔ سو اس نے شیر کے لیے ایک پھندا تیار کیا۔ اس نے دو بیل گاڑیاں لیں جن پر چھت پڑی ہوئی تھی۔ ہر گاڑی میں دو بیل جوتے گئے تھے۔ آگے والی گاڑی پر آگے اور پیچھے مضبوط بانس باندھے گئے جس سے گاڑی ایک پنجرے کی مانند دکھائی دینے لگی۔ آگے والی گاڑی پر پنجرے کے اندر سامنے گاڑی بان اور پیچھے ڈف بیٹھا۔ اس کا خیال تھا کہ جونہی شیر پچھلی گاڑی پر حملہ کرے گا، وہ گولی چلا دے گا۔ اس نے پچھلی گاڑی پر بھوسے اور کپڑوں کی مدد سے اصلی گاڑی بان جیسا پتلا بٹھا دیا۔ پچھلی گاڑی کے بیل سدھے ہوئے تھے، سو وہ اگلی گاڑی کے پیچھے چلتے رہتے۔ اس طرح شیر پر گولی چلانے کا نادر موقع مل جاتا۔
ہر چیز توقع کے مطابق ہوئی۔ سڑک خالی پڑی تھی اور دونوں گاڑیاں اب خطرناک مقام پر پہنچ گئے۔ یہاں ایک طرف جنگل سڑک کے ساتھ ملا ہواتھا اور دوسری جانب کھلا گھاس کا میدان تھا۔ دونوں گاڑیاں آگےپیچھے چلتی رہیں۔ ڈف نے پوری توجہ سڑک پر مرکوز رکھی۔ اچانک دھاڑ سنائی دی اور ایک بڑا شیر جست لگا کر جنگل سے نکلا اور فوراً پچھلی گاڑی کے ڈرائیور کو دبوچ کر اسے جنگل کی طرف لے چلا۔ ہر کام توقع سے بڑھ کر ہوا۔ مگر ایک بات بھلا دی گئی تھی کہ جونہی شیر نے دھاڑ کر بیل گاڑی پر حملہ کیا، بیلوں نے سڑک چھوڑ کر گھاس کے میدان میں دوڑ لگا دی۔ پیچھے دوسری گاڑی بھی تھی۔ اس گڑبڑ میں ناممکن تھا کہ گولی چلائی جا سکتی۔ چند لمحوں کی دوڑ کے بعد دونوں گاڑیاں اس میدان سے گزرنے والے نالوں میں پھنس گئیں۔ آدم خور اپنے شکار کے ساتھ فرار ہو چکا تھا مگر اسے خشک بھوسے پر ہی گزارا کرنا پڑا ہوگا۔
تمام فریقین کے ہاتھ مایوسی آئی، پتلے بیچارے کا جو بھی حشر ہوا ہو، اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
یہ واقعہ پوری طرح مصدقہ ہے اور مجھے اس ضلع کے کمشنر نے عین اسی طرح سنایا تھا۔ یہ شیر بعد میں ایک مقامی شکاری کے ہاتھوں مارا گیا جو گارا باندھ کر مچان پر اس کا منتظر بیٹھا تھا۔
اگرچہ آدم خور شیر ایک عذاب ہوتا ہے اور مقامی باشندوں کی زندگی بدل کر رہ جاتی ہے، تاہم ایسے شیر بھی ہوتے ہیں جو کبھی انسان پر حملہ نہیں کرتے۔ ان کا پیٹ مویشیوں سے پلتا ہے۔ ان کے آس پاس بے شمار انسان پھرتے ہیں مگر وہ کبھی انہیں نقصان نہیں پہنچاتا۔ نو سال قبل جبل پور ضلع میں بھنڈرا کے مقام پر ایسا ہی ایک شیر تھا جس نے ۵۰۰ سے زیادہ مویشی کھا لیے تھے۔ یہ بڑا شیر تھا مگر کبھی کسی انسان کو نقصان نہیں پہنچایا۔ عورتیں اور بچے بھی اس کے پاس بے خطر پھرتے۔ مقامی بندوں نے مجھے یقین دلایا کہ چودہ سال کےد وران اس کے پیچھے شکاری اور افسران دونوں لگے رہےاور اسے مار نہ سکے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ شیر بدروح ہے جسے مارا نہیں جا سکتا۔
بری روح کا سما جانا عام خیال پایا جاتا ہے اور موجودہ شیر کے بارے لوگوں کے خیال میں بحث کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی کہ اس شیر میں بدروح سما چکی ہے۔ ان لوگوں نے ہمیں یقین دلایا کہ یہ شیر مقامی افراد کو اکثر دکھائی دیتا ہے اور کبھی کسی کو نقصان پہنچانا تو درکنار، ہمیشہ آرام سے گزر جاتا ہے۔ تاہم ہر چوتھے روز گائے یا بیل بھی اٹھا لے جاتا تھا۔ کسی گاؤں سے چند مویشی کھانے کے بعد وہ ہفتے یا دو کے لیے چار یا پانچ میل کے فاصلے پر کسی دوسرے دیہات کا رخ کرتا تھا اور پھر اسی طرح واپس لوٹ آتا تھا اور ہمیشہ ایک ہی جنگل میں رہتا تھا۔ اس شیر کی عجیب عادات میں یہ بات بھی شامل تھی کہ اسے آتشیں اسلحے سے سخت نفرت تھی۔ ہانکے کے دوران تقریباً ہمیشہ دکھائی دیتا اور اس پر گولی بھی چلائی جاتی تو اسے نہ لگتی اور اگلے دن پھر دیکھا جاتا۔ مجھے بتایا گیا کہ اس شیر کے پیچھے جانے والے ہر شکاری نے اس پر گولی چلائی ہے اور اس بدروح پر کوئی بھی گولی اثر نہیں کرتی جو شاید گولیوں کے خطا جانے کی وجہ سے ایسا سوچا جاتا ہو۔
میں اس جگہ سے ۳۰ میل دور تھا جب اس شیر کی خبر ملی اور میں نے فوراً بھنڈرا کا رخ کیا۔ یہ جگہ خوبصورت اور دلچسپ محسوس ہوئی اور یہاں صدیوں سے کچا لوہا پگھلایا جاتا تھا۔ اونچے درختوں کا جنگل بونی پہاڑیوں پر اگا ہوا تھا اور یہ پہاڑیاں دراصل صدیوں سے پرانی بھٹیوں سے نکلی راکھ وغیرہ سے بنی تھیں۔
ہم مئی کی صبح جلدی پہنچ گئے جو سال کا گرم ترین موسم ہوتا ہے اور پتھریلی تہہ میں بہتی ہوئی شفاف ندی دور دور سے جانوروں کی دلچسپی کا سبب تھی۔ یہ ندی گاؤں کے نیچے بہتی تھی۔ شاید اسی وجہ سے یہاں شیر مستقل رہتے آئے تھے۔
ٹھاکر ذات کا بندہ نمبردار تھا اور ہم نے ایک روز قبل ہی کیمپ بھجوا دیا تھا۔ آمد پر ہماری ہر چیز تیار ملی اور ٹھاکر اور اس کے بندے ہمارے سامان کی نگرانی کر رہے تھے۔
معمول کی دعا سلام کے بعد میں نے اس مشہور شیر کے بارے پوچھا کہ آخری بار کب دکھائی دیا تھا۔ ٹھاکر نے ایک بندے سے پوچھ کر بتایا کہ تین روز قبل اس نے آخری گائے ماری تھی اور اگلے روز شیر نے معمول کے مطابق اگلا جانور مارنا تھا۔ کوئی ہیجان نہ تھا اور مقامی بندے شیر کے بارے ایسے بات کر رہے تھے جیسے ڈاکیے کا تذکرہ ہو۔
میرا شکاری بھی موجود تھا اور شیر چونکہ ہمیشہ بہترین جانور چنتا تھا، سو میں نے اسے حکم دیا کہ بہترین جانور کو گارے کے طور پر باندھے۔ کچھ دیر بعد ۱۶ ماہ عمر کا بہترین بچھڑا میرے سامنے لایا گیا۔ شیر ہر قیمت پر اسے مارتا۔ ویسے بھی شیر نے اگلے روز جانور مارنا ہی تھا، سو اس بچھڑے کو وہ کسی قیمت پر بھی نہ چھوڑتا۔
ٹھاکر کو وہ مقام بھی معلوم تھا جہاں گارا باندھنا بہتر رہتا۔ اس نے بتایا کہ شیر اسے لازمی مارے گا اور اگلے روز مجھے گولی چلانے کا موقع بھی ملے گا۔ مگر گولی یا کھال سے لگ کر گر جائے گی یا پھر خطا جائے گی۔ اس نے بتایا کہ خود اس نے کئی مواقع پر شیر پر گولی چلائی ہے اور ہمیشہ ناکام رہا اور اب اسے اس شیر کے شکار سے کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی۔میرے لیے یہ بات زیادہ دلچسپی کا سبب تھی۔
اگلی صبح پو پھٹتے ہی میرا شکاری اور کئی مقامی آن پہنچے اور بتایا کہ بچھڑا مارا گیا ہےا ور شیر اسے جنگل کے اندر ایک نالے میں لے گیا ہے۔ انہوں نے اونچے کنارے پر چڑھ کر دیکھا تھا کہ شیر پچھلی ٹانگیں کھا رہا تھا۔ یہ بات بھی اطمینان بخش تھی اگرچہ میرے خیال میں اگر ان کی موجودگی سے شیر گھبرا گیا تو شکار کا موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔ تاہم وہ اس بات پر ہنس پڑے اور ہانکے والے تیار ہو گئے۔ ہم نے اس جادوئی شیر کے شکار کے لیے ہانکا شروع کیا۔
مقامی بندے اس شیر کے لیے اتنی بار ہانکا کر چکے تھے کہ انہیں اس بارے تمام معلومات تھیں اور پورے علاقے سے بخوبی واقف ہو چکے تھے۔ پرانی مچانوں کو پھر سے باندھا گیا۔
ہمارے پاس کافی لوگ جمع تھے اور تجربہ کار شکاری بھی جمع ہو گئے۔ سو میں خاموش رہا کہ کئی لوگ احکام دینے لگیں تو الجھن پیدا ہو سکتی ہے۔
ہانکے والوں کو ان کے مقام پر چھوڑ کر ہمیں ایک میل آگے لے جایا گیا۔ میں نے اپنے شکاری کو دونالی بندوق دی تھی اور کہا تھا کہ وہ مقامی بندوں کی رہنمائی کرے۔ پھر وہ پتہ نہیں کہاں چلا گیا۔ ہم جنگل میں داخل ہوئے اور ایک چھوٹی پہاڑی سے اترنے کے بعد نالہ عبور کر گئے۔ میں نے ہدایت کی تھی کہ میری مچان نالے کے کنارے کے عین اوپر بڑے درخت پر بنائی جائے تاکہ نہ صرف نالہ بلکہ قریب ہی اس میں گرنے والے دو چھوٹے نالے بھی دکھائی دیتے تھے۔ یہ مقام عمدہ تھا کہ شیر نالوں سے ہو کر ہی بچ نکلنے کی کوشش کرتا۔ اس طرح مجھے گولی چلانے کا عمدہ موقع ملتا۔ میں اپنے ہاتھی سے نیچے اترا اور مچان پر بیٹھ گیا۔ میرے ساتھی اور ہاتھی واپس چلے گئے۔ میں انتہائی تکلیف دہ حالت میں اکڑوں بیٹھا تھا کہ تب میں نے اپنا گھومنے والا سٹول نہیں بنایا تھا۔
ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد مجھے ہانکے والوں کی آواز سنائی دی۔ قمریوں کی آواز کے بیچ ڈھول کی مدہم سی ڈھم ڈھم سنائی دیاور پھر لوگوں کی آوازیں بھی آنا شروع ہو گئیں۔
پہلے چند مور دوڑتے ہوئے نالے سے گزرے۔ پھر ایک جنگلی بھیڑ گرے ہوئے پتوں سے شور مچاتی گزری۔ فوراً ہی دو سو گز دور سے مجھے دو گولیوں کی آواز سنائی دی۔
مجھے علم ہو گیا کہ یہ میرا شکاری شیخ جہان تھا اور مجھے یقین تھا کہ اس نے گولی خطا کی ہے کیونکہ دو گولیاں بہت ہی کم وقفے سے چلی تھیں۔ اگر پہلی گولی نشانے پر لگی ہوتی تو دوسری گولی اتنی جلدی نہ چلائی جاتی اور اگر پہلی گولی خطا گئی ہوتی تو دوسری گولی اتنی عجلت میں چلائی جانا اس بات کی علامت تھی کہ نشانہ خطا ہی ہوگا۔
دس منٹ انتظار کے بعد بھی جب کوئی دوسرا جانور نہ دکھائی دیا تو میں نے ہاتھی کو بلانے کے لیے سیٹی بجائی اور اپنی مچان سے اتر آیا۔ پھر ہاتھی پر سوار ہو کر میں شیخ جہاں کی سمت گیا۔
ہانکے والے جمع تھے اور کچھ لوگ اس کی چلائی ہوئی گولیوں کو تلاش کر رہے تھے۔ دونوں گولیاں اس نے شیر پر بارہ گز سے بھی کم فاصلے پر چلائی تھیں۔ شیر نالے کی تہہ میں آہستہ آہستہ چلتا جا رہا تھا۔ مقامی لوگ نالے کے کنارے سے گولیوں کو کھودکر نکال رہے تھے۔
شیخ جہاں نے بتایا کہ بہت بڑا شیر اس کے قریب سے گزرا اور شاید وہ شیطان ہی ہو، کیونکہ دونوں گولیوں نے اس پر کوئی اثر نہیں کیا تھا۔
اس طرح ہمیشہ کی طرح یہ ہانکا اپنے انجام کو پہنچا اور اب ہمیں کیمپ لوٹنا تھا۔ ہر چیز مقامی افراد کے بیان کے عین مطابق ہوئی۔
اب ہم براہ راست بچھڑے کی لاش کو گئے جو ایک میل دور تھی۔ یہاں لاش خشک نالے کی تہہ میں پڑی تھی اور شیر کی بو واضح تھی۔ اس کا کچھ حصہ کھایا گیا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ شیر رات کو واپس لوٹے گا اور اگلی صبح اس کے شکار کا موقع مل سکتا ہے۔
دن کے وقت میں نے لوہا پگھلانے والی بھٹیوں کے معائنے میں وقت گزارا۔ یہ سبھی چھوٹے پیمانے پر کام کر رہی تھیں اور بہت زیادہ تعداد میں تھیں اور صدیوں پرانے طریقے پر عمل کر رہی تھیں۔ ہاتھ سے دھونکنی چلائی جاتی تھی جبکہ بھٹی مٹی سے بنی ہوئی تھی اور اس کے عین وسط میں سوراخ تھا جہاں سے خام مال کا چورا ڈالا جاتا تھا۔ عمل انگیز کے طور پر اس میں چونا ڈالتے تھے۔ سارے دن کی سخت محنت کے بعد پانچ یا چھ بندوں مل کر پندرہ پاؤنڈ جتنا خالص لوہا بناتے تھے۔ یہ لوہا بھی کبھی مائع شکل میں نہیں ہوتا تھا بلکہ جب حرارت سے سفید ہوتا تو لجلجی سی شکل بن جاتا تھا، جیسے نیم پگھلی موم ہو۔ اس لوہے کو پھر بار بار گرم کر کے اور ہتھوڑے مار مار کر مطلوبہ شکل میں لایا جاتا تھا۔ ایندھن کے لیے کسی خاص لکڑی کا کوئلہ استعمال ہوتا تھا۔
شام کو میں نے شیخ جہاں کی ناکامی پر غور کیا۔ اس نے بتایا تھا کہ ابھی ہانکے والوں کی آوازیں بمشکل سنائی دی تھیں کہ شیر اس کے پاس سے گزرا جس کے لیے وہ تیار نہ تھا۔ میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اس شیر کے بچنے کی وجہ یہی ہے کہ وہ ہانکے والوں کے گھستے ہی جنگل سے نکل جاتا تھا۔ عام طور پر شیر ہانکے کے بالکل آخر پر نکلتے ہیں۔
شیر کی اچانک آمد کی وجہ سےعموماً شکاری گھبرا جاتے ہوں گے اور عجلت میں چلائی گئی گولی خطا جاتی ہوگی۔ اس معاملے پر خوب غور کرنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ اگلے روز میں خوب آرام دہ حالت میں بیٹھوں گا اور اس مقصد کے لیے میں اپنے ساتھ تہہ شدہ کمبلوں کو لے جاؤں گا تاکہ ان پر بیٹھوں۔ اس کے علاوہ اگلی صبح کوئی بھی بندہ لاش کو دیکھنے نہ جائے گا۔ مقامی افراد کہہ چکے تھے شیر لازمی رات کو لوٹے گا۔ سو اگلی صبح کے لیے میں نے ہانکے والوں کو تیار رہنے کا حکم دے دیا۔
صبح ہوئی تو ہمارے پاس لگ بھگ دو سو بندے جمع ہو گئے۔
بچھڑے کی لاش کے مقام کے قریب پہنچ کر میں سب کو روک دیا اور ایک بندہ ساتھ لے کر گیا اور بغور جائزہ لیا۔ شیر لاش کو لے گیا تھا اور اس بات کی کافی علامات تھیں۔ اس لیے میں مزید آگے جانے کی بجائے رک گیا۔
مکمل خاموشی کے پیشِ نظر ہم نے ہانکے والوں کو کافی دور روک دیا تھا۔ جب شکاری بیٹھ جاتے تو پھر ہرکارہ جا کر انہیں تیار ہونے اور روانہ ہونے کا حکم پہنچاتا۔
مقامی شکاریوں نے یقین دلایا کہ مچان سے مجھے نالے میں چلتا شیر صاف دکھائی دے جائے گا اور عین میرے نیچے سے گزرے گا۔
اس درخت تک پہنچنے کے بعد میں نے تہہ شدہ کمبلوں اور دریوں کو اٹھا کر مچان پر رکھا اور نالے کی سمت چند ٹہنیوں کو کٹوایا۔ پھر میں مچان پر بیٹھ گیا اور خود کو سبز ٹہنیوں سے چھپا لیا۔
میں کمبلوں اور دریوں پر سکون سے بیٹھا تھا۔ ہرکارے کو ایک میل جا کر ہانکے کی اطلاع دینے پر وقت لگتا، سو میں نے اپنے سامنے کا بغور معائنہ شروع کیا۔
میں پچاس گز تک نالے کو بخوبی دیکھ سکتا تھا اور جہاں دیگر دو نالے آ کر ملتے تھے، وہ جگہیں بھی صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ شیر یہیں سے گزرتا۔
عین سامنے نالے کے دوسرے کنارے جنگل کئی سو گز تک ڈھلوان پر اگا ہوا تھا۔ اگر شیر نالے سے گزرتا تو میرے بائیں جانب سے آتا اور نالہ عبور کر کے پہاڑی پر جنگل کا رخ کرتا۔ شیر اکثر ایسا ہی کرتے ہیں۔
اب یہ جاننا مشکل تھا کہ آیا ہانکا شروع ہو گیا ہے یا نہیں کیونکہ بے شمار قمریاں چہک رہی تھیں۔ مگر پھر ایک مور اڑتا ہوا میرے دائیں جانب درخت پر بیٹھ گیا۔ لگ بھگ اسی وقت دو مورنیاں پتوں پر بھاگتی ہوئی گزریں۔ مجھے یقین ہو گیا کہ ہانکا شروع ہو گیا ہے کہ مور اسی سے ڈر کر بھاگے ہوں گے۔ اس لیے میں نے بھری ہوئی رائفل کو تیار رکھا۔ مجھے یقین تھا اگرچہ ہانکے والے بہت دور ہیں مگر شیر کسی وقت بھی دکھائی دے سکتا ہے۔
کانوں پر زور دیے بیٹھا رہا کہ اچانک دور سے ڈھول کی آواز آئی۔ابھی ڈھول کی آواز آئی ہی تھی کہ مجھے نالے میں پتوں پر بھاری قدموں کی چاپ سنائی دی جو مدہم مگر باقاعدہ تھی۔ مجھے یقین ہو گیا کہ یہ آواز شیر کی ہے۔ میں مختلف نالوں کو دیکھتا رہا مگر کچھ نہ دکھائی دیا۔ آواز ایک منٹ کو رک گئی اور پھر آنے لگی۔ آواز زیادہ دور کی نہیں تھی۔ میں نے نالے سے نظریں ہٹائیں اور اوپر دیکھا تو سامنے والی ڈھلوان پر ٹنڈ منڈ جھاڑیوں کے پار ایک بہت بڑے شیر کا ہیولہ سا دکھائی دیا جو بتدریج مدہم ہو رہا تھا۔ آہستہ آہستہ یہ ہیولہ ڈھلوان پر چڑھتا رہا۔ یہ وہی شیر تھا جس پر مبینہ بدروح کا سایہ تھا۔ یہ شیر برسوں سے بچتا آ رہا تھا۔ میں نے فوراً سوچا کہ ایسی حالت میں کون سا شکاری گولی چلائے بغیر رہ سکتا ہوگا۔ اس طرح چلائی گئی گولی کم از کم سو ٹہنیوں کو کاٹتی گزرے گی اور ظاہر ہے کہ ہدف سے ہٹ جائے گی۔ شیر چالیس گز دور ہوگا اور اُس وقت جھاڑیوں کے پتے گر چکے تھے مگر شیر کے راستے پر اور میرے ذرا دائیں جانب ایک بہت بڑی سدابہار جھاڑی تھی جو کروندہ کہلاتی ہے۔ اس جھاڑی کے اختتام پر نو یا دس فٹ جتنی خالی جگہ تھی جہاں موجود درخت گر چکا تھا۔ اگر شیر عین اسی طرح چلتا رہتا تو اسی جگہ سے گزرتا۔ میں نے بائیں کہنی گھٹنے پر ٹیک کر بے خبر چلتے ہوئے شیر کے شانے پر نشانہ جما لیا اور مجھے یقین تھا کہ اعشاریہ ۵۷۷ کی گولی اس شیر کی بدروح کو کیل دے گی جو اسے اب تک بچا رہی تھی۔
ہانکے والوں کی آوازیں اب مدھم سی سنائی دینے لگی تھیں اور ڈھول کی آواز بھی واضح ہو چکی تھی۔ کئی بار شیر رکا اور سر موڑ کر شور کو سنا اور پھر چل پڑا۔ پھر شیر کروندے کی جھاڑی کے پیچھے پہنچ گیا۔ میں نے رائفل کو جھکا لیا اور ہاتھوں کو چند لمحے آرام دیا۔
اتنا وقت گزرا کہ مجھےیقین ہو گیا کہ شیر جھاڑی کی عین سیدھ میں جنگل میں گھس گیا ہوگا۔ ابھی میں نےیہ سوچا ہی تھا کہ جھاڑی کے پار کھلی جگہ پر ایک بہت بڑے شیر کا سر نمودار ہوا۔ پورے پندرہ سیکنڈ تک سر وہیں رکا رہا۔ شیر سر موڑ کر آواز سن رہا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ اگر میں گولی چلاتا تو شیر کے دماغ میں ترازو ہو جاتی۔ تاہم میں نے صبر سے کام لیا۔ پھر شیر جھاڑی کے پیچھے سے نکل آیااور آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ جب میں نے لبلبی دبائی تو عین اسی لمحے شیر پچھلی ٹانگوں پر اچھلا اور ایک چھوٹے درخت پر منہ میں دبوچتے ہوئے گرا۔ اس کی دھاڑ دو میل دور تک سنائی دی ہوگی۔ پھر شیر واپس گرا اور ڈھلوان پر ایک کروٹ لینے کے بعد ساکت ہو گیا۔
شیر کی بدروح نکل گئی۔ مقامیوں کی طرف سے اس کی ہلاکت پر اتنی خوشی ظاہر کی گئی جتنی کبھی نہیں دیکھی۔
شیر کو ڈیمزل پر لادنے سے قبل ہی اس کی ہلاکت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح آس پاس کے دیہاتوں میں پھیل گئی۔ اس شیر کو تولنے کا کوئی انتظام میرے پاس نہیں تھا مگر آج تک اس سے زیادہ وزنی شیر میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ اگرچہ ہم نے اس کے نیچے چار بانس رکھے تھے اور بہت سارے بندے اٹھانے کو تیار تھے مگر شیر کو اٹھا کر ڈیمزل پر رکھنے میں بہت محنت ہوئی۔ جب ہم نے شیر کو لاد لیا تو ہمارے گرد مجمع جمع ہو چکا تھا۔ پھر سبھی لوگ ہاتھی کےساتھ ہمارے کیمپ کو لوٹے کہ یہ شیر برسوں سے ان کے مویشی مار رہا تھا۔
شیر کی لاش دیکھ کر تسلی کرنے کے لیے کم از کم ۳۰۰ عورتیں اور بچے جمع ہوئے۔عورتوں نے شیر کے پنجوں کو چوما اور اس کی دم اپنی آنکھوں پر پھیری، خدا جانے کس لیے ۔
یہ جانور بہت عیش کی زندگی گزار رہا تھا، اس لیے بہت مچرب تھا اور ہم نے کئی چاٹیاں اس چربی سے بھریں۔ اس کو گٹھیا کے مرض میں مالش کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے پاس وزن کرنے کی کوئی مشین نہیں تھی، اس لیے شیر کے وزن کا محض تخمینہ ہی لگ سکتا ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ چربی کا وزن ستر پاؤنڈ ہوگا۔ شیر یقیناً پانچ سو پاؤنڈ سے زیادہ وزنی ہوگا۔
اعشاریہ ۵۷۷ کی خالص سیسے کی گولی شیر کے شانے کے عین وسط میں لگی اور اسے چورا چورا کر دیا۔ ہڈی کے ریزے شیر کے پھیپھڑوں سے گزرےاور گولی پسلیوں سے گھستی ہوئی دوسری جانب کے شانے کو بھی توڑ کر کھال کے نیچے رک گئی۔ اس کی جسامت چھوٹی کھمبی جیسی دکھائی دے رہی تھی۔
اس شکار میں کسی انسان کو نقصان نہیں پہنچا مگر میں نے یہاں شیر کی چالاکی بتانے کے لیے تذکرہ کیا ہے جو اتنے ہانکوں سے بچتا رہا تھا کہ لوگوں نے اسے مافوق الفطرت سمجھ لیا تھا۔ میرا ملازم تھامس بہت خوش ہوا کہ اس نے شرط لگائی تھی کہ شیر ہو یا بدروح، اگر اس کے آقا کو گولی چلانے کا موقع ملا تو لازمی مارا جائے گا۔
باب ۸
تیندوا
اس جانور کی اتنی اقسام پائی جاتی ہیں کہ ان کو ایک نسل میں جمع کرنا بہت مشکل کام ہے۔ مختلف ممالک میں انہیں مختلف نام دیے جاتے ہیں۔ کہیں اسے لیوپرڈ تو کہیں پینتھر، کہیں چیتا تو کہیں جنگلی بلی یا جیگوار کہا جاتا ہے۔ تاہم یہ تیندوا ہی ہوتا ہے اگرچہ اس کی جسامت، رنگت اور دھبوں کی شکل کتنی ہی فرق کیوں نہ ہو جائے۔ اس لیے اس نام کے تحت میں اس کی تمام اقسام کے بارے لکھوں گا۔ اگرچہ بلی کے خاندان میں ببر شیر سے لے کر گھریلو بلی تک کو جمع کر دیا گیا ہے، اس کی دو اہم اقسام ہیں جو شیر اور ببر شیر ہیں جو دیگر تمام سے یکسر فرق ہیں۔
تیندوا زیادہ نڈر ہوتا ہے اور انتہائی محتاط بھی۔ اس کی تلاش بہت مشکل ہوتی ہے۔
کوئی بھی شیر یا ببر شیر درخت پر نہیں چڑھ سکتا، اِلا یہ کہ زمین سے چار یا پانچ فٹ کے فاصلے سے درخت کی شاخیں نہ شروع ہو جائیں۔ اگر ایسا ہو بھی تو درخت پر چڑھنا ان کی سرشت کے خلاف ہے۔ کبھی کبھار شیر یا ببر شیر ایسے درخت پر چڑھے دکھائی دے سکتے ہیں۔
تیندوا نرم چھال والے درخت پر بھی کسی بندر کی سی پھرتی سے چڑھ سکتا ہے اور اس کی ایک چھوٹی قسم ایسی بھی ہے جو تقریباً سارا وقت ہی شاخوں پر گزارتی ہے اور نیچے سے گزرنے والے بے خبر جانوروں پر حملہ کرتی ہے۔
دنیا کے مختلف حصوں کے تیندوؤں کی کھال کا معائنہ کریں تورنگ اور سمور کا فرق بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ سنو لیپرڈ یا برفانی تیندوا ہمالیہ اور دیگر اونچے پہاڑوں پر رہتا ہے اور اس کی کھال کی بہت اہمیت ہے۔ اس کی کھال پر دھبے کالے نہیں بلکہ مدھم ہوتے ہیں اور سمور انتہائی موٹی اور قریب قریب ہوتی ہے۔ یہ تیندواعموماً ۸٫۰۰۰ سے ۱۰٫۰۰۰ فٹ یا اس سے زیادہ بلندی پر رہتا ہے۔ منچوریا اور کوریا میں تیندوے کی ایک ایسی قسم بھی ملتی ہے جو ہندوستان میں نہیں پائی جاتی۔ یہ بڑا جانور ہوتا ہے اورموسمِ سرما میں اس کی کھال کا رنگ بہت شوخ ہوتا ہے اور کالے دھبے بہت بڑے ہونے کے علاوہ دائروں کی شکل میں ہوتے ہیں۔ ایسے ایک تیندوے کی میرے پاس کھال ۷ فٹ ۹ انچ لمبی ہے اور پوری دم اور سمور بھی محفوظ ہے۔ یہ انتہائی خوبصورت کھال ہے اور شاید معتدل موسم میں کسی اونچی جگہ رہتا ہوگا۔
افریقہ میں تیندوے کے دھبے عموماً بالکل گول دائرے ہوتے ہیں جو کمر پر بہت قریب اور پیٹ اور شانوں کی سمت ان کا درمیانی فاصلہ بڑھتا جاتا ہے۔ سائیلون میں دو مختلف اقسام ہیں، ایک بڑا تیندوا ہوتا ہے جو ساڑھے سات فٹ لمبے ہو جاتا ہے اور دوسرا چھوٹا تیندوا جو پہاڑوں پر رہتا ہے۔ سائیلون میں ان دونوں کو چیتا کہا جاتا ہے۔
ہندوستان میں اس کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں اور سب سے بڑے کو پینتھر کہتے ہیں۔
دنیا بھر تیندوے کے علاوہ کوئی اور جانور اتنے زیادہ مقامات پر نہیں پایا جاتا۔ کوئی بھی استوائی ملک اس سے خالی نہیں اور اسے عام طفیلیہ مانا جاتا ہے۔ شاید کوئی جزیرہ ایسا ہو جہاں یہ جانور نہ پایا جاتا ہو۔
یہ کہنا تو ممکن نہیں کہ کس جسامت کا جانور تیندوے کی بجائے جنگلی بلی کہلائے گا۔ بلیوں کی اتنی اقسام ہیں کہ ان کے بارے کچھ کہنا بیکار ہے۔ کچھ اقسام اتنی بڑی ہو جاتی ہیں کہ وہ چھوٹے تیندوے کہلا سکتی ہیں جبکہ کچھ اقسام گھریلو بلی سے زیادہ بڑی نہیں ہوتیں۔ ان میں ہر قسم کا رنگ بھی ملتا ہےا ور دھبے اور دھاریاں بھی اور کئی کا رنگ شیرنی جیسا خاکی بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم بیرونی رنگت سے قطع نظر، ان کا کردار ایک ہی ہوتا ہے۔
یہ سب بہت مکار، غصہ ور اور تباہی کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہندوستان میں شیر کی نسبت تیندوے کہیں زیادہ مویشی مارتے ہیں۔
سب سے بڑا اور خوبصورت ترین تیندوا جنوبی امریکہ کا جیگوار ہوتا ہے۔ اس کی جسامت چھوٹی شیرنی کے برابر ہوتی ہے اور عام تیندوے سے کہیں زیادہ بھاری ہوتے ہیں۔ اس کا سرغیر معمولی طور پر بڑاہوتا ہے اور اسے آپ دھبے دار شیر بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کے دائرے واضح ہوتے ہیں اور دائرے کی بجائے لہر دار شکل میں ہوتے ہیں۔
چیتا یا شکاری تیندوا ایک الگ نسل ہے اور اگرچہ اسے تیندوا کہا جاتا ہے مگر یہ شکل اور عادات میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اس کے ناخن بہت لمبے ہوتے ہیں اور پنجے کے اندر نہیں چھپ سکتے اور نہ ہی بلی کے خاندان کے دیگر اراکین جتنے مڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس لیے میں اس جانور کو عام تیندوے سے الگ کر کے لکھوں گا کہ یہ ایک الگ موضوع ہے۔
پینتھر یا بڑا تیندوا ساڑھے سات فٹ تک لمبا ہوتا ہے اور بعض غیر معمولی تیندوے تو آٹھ فٹ کے قریب بھی مارے گئے ہیں ۔یہ جانور بہت طاقتور ہوتا ہے اور اس کی گردن اور ٹانگیں بہت قوی ہوتی ہیں۔
بڑے تیندوے کا وزن ۱۶۰ پاؤنڈ سے ۱۷۰ پاؤنڈ تک ہو سکتا ہے۔ تیندوے کے بھاری ہونے کے باوجود صرف بندر ہی اس سے زیادہ پھرتیلا ہوتا ہے اور بعض اوقات یہ ہوشیار بندر بھی تیندوے کا نوالہ بن جاتے ہیں۔ کئی مرتبہ تو تیندوا شکاریوں کو مچان سے بھی نوچ لیتا ہے۔
ایسے حقائق کو نظرانداز تو نہیں کیا جا سکتا مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ تیندوا ایسے مواقع پر بھی حملہ کر دے گا کہ جب شیر بھی نکل جانے میں عافیت سمجھے گا۔
تیندوے کی عادات ہمیشہ ایک جیسی ہوتی ہیں۔ غروبِ آفتاب کے وقت یہ شکار پر نکلتا ہے اور ساری رات شکار کی تلاش میں گزارتا ہے۔ یہ اپنے شکار کا گلا دبوچ کر ٹانگوں کی مدد سے اس کی گردن سے چمٹ جاتا ہے اور جب تک شکار کی گردن نہ ٹوٹ جائے یا دم گھٹنے سے نہ مر جائے، یہ اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کرتا۔جب جانور مر جائے تو تیندوا کبھی بھی شیر کی طرح پچھلی ٹانگوں سے کھانا نہیں شروع کرتا بلکہ پیٹ چاک کر کے آنتیں، دل، پھیپھڑے، جگر وغیرہ باہر نکال کر پہلے انہیں ہڑپ کرتا ہے۔ پھر تیندوا نزدیک کسی جگہ چھپ کر آرام کرتا ہے اور اگر اسے چھیڑا نہ جائے تو اگلے روز غروبِ آفتاب کے بعد واپس لوٹتا ہے۔
شیر کی نسبت تیندوے کی ہلاکت کہیں مشکل ہوتی ہے کہ شیر کبھی بھی درختوں کا جائزہ نہیں لیتا اور اگر شکاری مچان پر بیٹھا ہو تو شیر اس پر توجہ نہیں دیتا۔ تاہم تیندوا اپنے شکار کو پہنچنے سے قبل پوری طرح محتاط ہوتا ہے اور ہر قدم پھونک پھونک کر رکھتا ہے اور دبک کر شاخوں اور درختوں کا بھی جائزہ لیتے ہوئے آتا ہے کہ وہ خود اکثر انہی جگہوں پر چھپ کر بیٹھتا ہے۔ بہت بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ شکاری مایوس ہو جاتا ہے کہ تیندوا نہیں آئے گا، تیندوا پاس ہی بیٹھا شکاری کا جائزہ لے رہا ہوتا ہے۔ اس کی آمد و رفت بالکل بے آواز ہوتی ہے۔ ایسے مواقع پر تیندوا رکنے کی بجائے فرار کو ترجیح دیتا ہے۔ اس طرح شکاری ناکام و نامراد لوٹتا ہے اور اس کا خیال ہوتا ہے کہ تیندوا دور دور تک نہیں ہوگا۔
استوائی جنگلات کا چالاک ترین پرندہ عام کوا ہے جو اپنی عقل کے سہارے زندہ رہتا ہے۔ اس کے مشاہدے سے کوئی چیز نہیں بچ سکتی اور کسی بھی جانور کی لاش کو سب سے پہلے کوا ہی تلاش کرتا ہے۔ اگر سورج غروب ہونے کے بعد بھی دو تین کوے درخت پر بیٹھے ہوں اور اچانک کائیں کائیں کریں تو یہ اس بات کی واضح نشانی ہوتی ہے کہ تیندوا آ رہا ہے۔ آپ کو تیندوا فوراً نہ بھی دکھائی دے تو بھی اپنی احتیاط بڑھا دیں اور غور سے اطراف کا جائزہ لیتے رہیں کہ کوئے کی کائیں کائیں سننے کے بعد تیندوا بھی محتاط ہو گیا ہوگا۔
تاہم اس جانور کے شکار کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی اور اس کے لیے الگ سے شکاری مہم پر جانا مناسب نہیں سمجھا جاتا کہ جہاں اس نے جانور ہلاک کیا ہو، اس کے جغرافیے پر بھی منحصر ہوتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ تیندواکسی دور افتادہ کھوہ میں چھپا ہو یا کسی بڑے درخت کی شاخوں پر یا نزدیکی پہاڑی کے کسی بڑے پتھر کے ساتھ یا کسی غار میں چھپا ہوا ہو۔ شیروں کے برعکس ان کے شکار کا کوئی لگا بندھا اصول نہیں ہے۔ تیندوا محض نقصان دیتا ہے اور اسے طفیلیہ سمجھ کر اس کو مٹا دینا چاہیے۔
مختلف ممالک میں مقامی افراد تیندوے کے شکار کے لیے مختلف قسم کے پھندے تیار کرتے ہیں۔ سب سے کارآمد پھندہ عام چوہے دان جیسا ہوتا ہے مگر حجم میں کافی بڑا۔ ایسے پھندے مستقل طور پر جنگل کے مختلف حصوں میں بنے ہونے چاہیئں اور جونہی تیندوے کے پگ دکھائی دیں، ان میں چارہ لگا دیا جائے۔ اس پھندے کی لمبائی دس فٹ اور چوڑائی تین فٹ ہوتی ہے اور اس کی اطرف سیدھی اور بہت مضبوط ہوں۔ اس کو زمین میں دو فٹ گہرا دبا کر اس پر خوب بھاری پتھر رکھ دیں۔ یہ پھندے پانچ فٹ اونچے ہوتے ہیں اور ایک طرف اوپر سے نیچے گرنے والا دروازہ ہونا چاہیے۔ اس کی چھت خوب مضبوط لکڑیوں سے بنی ہو اور اس پر پتھر رکھ دیے جائیں۔اس کا پچھلا حصہ ایسے ہو کہ بانس کی مدد سے اس میں ایک پنجرہ بنا دیا جائے جس میں بکری یا کتا باندھا جا سکے۔ رات کو کتا جب خود کو تنہا محسوس کرتا ہے تو خوب زور زور سے بھونکتا اور روتا ہے اور تیندوا اس کی طرف آسانی سے متوجہ ہو جاتا ہے۔ کوشش کی جائے کہ یہ حصہ اتنا مضبوط ہو کہ تیندوا اسے توڑ کر جانور کو ہلاک نہ کر سکے۔ افریقہ میں مقامی لوگ ایسا پھندہ بناتے ہیں کہ جب تیندوا اس میں سے گزر کر چارے کے جانور کی طرف جائے تو اس کے اوپر ایک وزنی شہتیر گرے۔ اس طرح تیندوا کچل کر ہلاک ہو جاتا ہے۔ تاہم یہ بہت خطرناک بھی ہوتا ہے کہ عام افریقی پھندوں میں انسان یا کوئی دوسرا جانور بھی پھنس کر ہلاک ہو سکتا ہے۔
سائیلون میں پہاڑی صحت افزا مقام نیویرا ایلیا میں اس طرح کے پھندے مستقل بنیادوں پر بنائے گئے تھے اور اس علاقے کا عذاب، تیندوے کی آبادی کافی کم ہو گئی تھی۔ میں نے ۱۸۴۶ میں یہاں برطانوی نسل کی بھیڑیں اورمویشی متعارف کرائے تھے اور گرمی سے بچاؤ کے لیے پہاڑی علاقے میں زرعی بندوبست کرنے کی کوشش کی تھی۔ تاہم تیندوے ہمارے لیے مستقل دردِ سر بن گئے اور اگرچہ رات کو مویشی باڑوں میں محفوظ ہوتے اور دن کو چراگاہوں میں ان کی نگرانی کی جاتی، مگر نقصان بہت زیادہ ہو رہا تھا۔ میں نے یہ بات دیکھی کہ روشن دن ہو تو حملے کبھی کبھار اور اگر بارش یا بادل ہوں اور جب تیز ہوا چل رہی ہو اور سردی کی وجہ سے مویشی اپنی حفاظت پر توجہ نہ دے سکتے ہوں تو حملے زیادہ ہوتے تھے کہ مویشی ہوا کی سمت منہ کر لیتے تھے۔
چوکیدار یا چرواہے عموماً کمبل اوڑھے درخت کے نیچے گیلے ہوئے بیٹھے ہوتے تھے اور نگرانی سے لاپروا ہو جاتے تھے۔ اس لیے تیندوا عین اسی وقت حملہ کرتا تھا۔ بہت بار میری گائیں اور بھیڑیں دن دیہاڑے ماری گئی تھیں اور تیندوے عموماً جوان گائے کی گردن بھی سہولت سے توڑ لیتے تھے۔ یاد رہے کہ مقامی گائے برطانوی گائے سے بہت چھوٹی اور کمزور ہوتی ہے۔ ایک با رایک قیمتی آئرشائر نسل کی گائے پر تیندوے نے حملہ کیا مگر گردن توڑنے میں ناکام رہا۔ گائے کا گلا بری طرح زخمی ہو گیا تھا اور چند دن بعد مر گئی۔ رکھوالا حملہ ہوتے ہی پہنچ گیا تھا اور تیندوے کو بھگا دیا تھا۔
تیندوے کے پنجوں سے لگنے والے زخم بہت خطرناک ہوتے ہیں کہ تیندوا شکار مارنے کے بعد کئی روز تک پیٹ بھرتا رہتا ہے اور گوشت گل سڑ چکا ہوتا ہے اور پنجے اور دانتوں سے جب تیندوا اس گوشت کو ادھیڑتا ہے تو جراثیم پنجوں پر لگ جاتے ہیں اور پنجوں سے لگنے والے زخم میں گینگرین پیدا ہو جاتی ہے۔ درندوں میں اگلے پیروں میں پانچ ناخن ہوتے ہیں جن میں ایک پہلو کی جانب انگوٹھے کا کام کرتا ہے۔ اس کی مدد سے گوشت کو ہڈیوں سے الگ کرنے میں سہولت ہوتی ہے۔
شیر یا تیندوے سے لگے زخم کو اچھی طرح ٹھنڈے پانی اور کاربالک ایسڈ سے دھونا چاہیے اور یہ عمل ہر روز کم از کم تین بار پٹی بدلتے وقت دہرایا جانا چاہیے۔ زخم پر پٹی کو پانی اور کاربالک ایسڈ کے محلول میں ڈبو کر باندھنا چاہیے اور پٹی مسلسل تر رہنی چاہیے۔
رات کے وقت تیندوے کی ہمت بہت بڑھ جاتی ہے۔ میں نے برسات میں علی الصبح تیندوے کے پگ نرم مٹی پر بہت مرتبہ دیکھے ہیں جو مویشیوں کے باڑے کے گرد گھوم کر اندر گھسنے کا سوچ رہا تھا۔
ایک بار میرے لوہار کا رات کےو قت تیندوے سے سامنا ہوا جو تیندوے کی بہادری کا عمدہ مثال تھی۔ ایک مقامی گائے کا بچھڑا پیدا ہوا۔ چونکہ یہ پہلوٹھی کا بچہ تھا، اس لیے اس کی ماں بہت محتاط تھی اور کسی بھی اجنبی کا اس کے قریب آنا خطرناک ہو سکتا تھا۔ اس گائے سینگ بہت بڑے اور نوکیلے تھے۔ یہ باڑہ پہاڑ کی ڈھلوان کاٹ کر بنایا گیا تھا۔ اس کی چھت گھاس پھونس کی تھی۔ رات کے وقت تیندوے نے گائے اور اس کے بچھڑے کی بو سونگھی اور چھت پر چڑھ کر سوراخ کر کے اندر داخل ہوا۔ گائے نے بھی تیندوے کی بو سونگھ لی اور اس کا سامنے کرنے کو تیار ہو گئی۔ جونہی تیندوا نیچے گرا، گائے نے اسے وہیں دبا لیا۔ تیندوے کو جست لگانے کا موقع بھی نہ ملا۔
اس شور کی وجہ سے لوہار جاگ گیا اور لالٹین اٹھا کر موقعے پر پہنچا اور پھاٹک کھولا تو اسے سامنے یہ منظر دکھائی دیا کہ گائے کسی چیز کو بار بار اچھال اور ٹکر مار رہی تھی۔ یہ تیندوا تھا اور دم توڑ رہا تھا۔ گائے کا بچہ ایک کونے میں محفوظ تھا اور گائے نے تیندوے کو گھستے ہی سینگوں پر رکھ لیا تھا اور اس کے بدن میں سینگ ترازو کر دیے تھے۔
جونہی لوہار اندر گھسا، گائے اسے دشمن سمجھ کر اس پر حملہ آور ہو گئی۔ لوہار لالٹین پھینک کر بھاگا اور سیدھا بیوی کے پاس بستر میں جا گھسا۔ کچھ دیر بعد جب ہر طرف سکون ہو گیا تو گائے ایک طرف بیٹھ گئی اور لوہار نے اپنے پستول سے تیندوے کے سر پر گولی چلا کر اسے ختم کر دیا۔
ہندوستان میں رہنے والے افراد تیندوے سے پہنچنے والے نقصانات کو بخوبی جانتے ہیں۔ شیر اور ببر شیر جہاں جہاں پائے جاتے ہیں، وہاں شاید خطرناک ہوتے ہوں مگر کبھی بھی انسانی آبادی پر حملہ نہیں کرتے۔ یہاں تیندوے کا خطرہ شروع ہوتا ہے۔ کوئی بھی جانور چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا اور مرغی سے لے کر گائے تک، تیندوے کے ہاتھوں کوئی جانور نہیں بچ سکتا۔
تیندوا اتنی احتیاط سے حرکت کرتا ہے کہ وہ کتے کی گردن دبوچ کر اسے لے جا رہا ہوتا ہے تو پھر اسے تیندوے کی موجودگی کا علم ہوتا ہے۔ ایک بار افریقہ میں ہم دریائے ستیتی کے کنارے کھلے میں لیٹے ہوئے تھے۔ مقامی عرب افراد الاؤ کے انگاروں کے گرد لیٹے تھے کہ اچانک ایک تیندوا ان کے بیچ گھسا اور ایک کتے کو اٹھا کر لے تاریکی میں غائب ہو گیا۔ باقی سب کتے اس کے پیچھے لپکے اور عرب بھی اپنی تلواریں اور ڈھالیں لیے گئے مگر تیندوا اپنے شکار کو ڈیڑھ سو گز دور چھوڑ کر بھاگ گیا۔ کتا بیچارہ نیند کی حالت میں پکڑا گیا اور چند گھنٹے بعد اس نے دم توڑ دیا۔ اس کے گلے اور گردن پر شدید زخم تھے۔ عام طور پر سوچا جاتا ہے کہ تیندوے یا کسی درندے کی آمد کے بارے کتے خبردار ہو کر شور مچانا شروع کر دیتے ہیں مگر اس روز انتہائی خاموش رات میں بھی تیندوا اتنی خاموشی سے آیا کہ کسی کو اندازہ بھی نہ ہو سکا۔ تیندوے کا حملہ اتنا اچانک ہوتا ہے کہ کتے کو مدافعت کا موقع بھی نہیں ملتا اور اس کی گردن دبوچ لی جاتی ہے۔ پھر کتا بے بس ہو جاتا ہے اور آواز تک نہیں نکال پاتا۔ ایک بار میں ایک بہت طاقتور بل ٹیریئر کے ساتھ سائیلون میں نیویرا ایلیا میں چہل قدمی کر رہا تھا۔ کتا مجھ سے چند قدم آگے جنگل میں بھاگ رہا تھا کہ اچانک آواز نکالے بنا غائب ہو گیا اور پھر کبھی اس کا پتہ نہ چل سکا۔ اگر یہی کتا تیندوے کو آمنے سامنے دیکھتا تو تیندوے کو جان کے لالے پڑ جاتے۔
ایک بار میرا ایک کتا میچ لیس جو فاکس ہاؤنڈ اور پوائنٹر والدین سے تھا، کو تیندوے نے دن دیہاڑے پکڑ لیا۔ یہ کتا دیگر کتوں کے ساتھ ڈمبولا میں جنگل کی پگڈنڈی پر دیگر کتوں کے ساتھ چل رہا تھا۔ یہ مقام نیویرا ایلیا سے زیادہ دور نہیں۔ تیندوے نے درخت سے جست لگائی اور کتے کو پکڑ کر پھر درخت پر چڑھ گیا۔ کتا اس کے منہ سے لٹک رہا تھا۔ سارے کتے درخت کے اردگرد جمع ہو گئے۔ تیندوے نے کتے کو چھوڑا اور درختوں پر جست لگاتا ہوا بھاگا اور نیچے کتے اس کا پیچھا کرتے رہے۔ آخرکار ایک بڑے درخت پر پہنچ کر تیندوا رک گیا کہ دیگر درخت اس سے دور تھے۔ یہاں کتوں نے اسے گھیر لیا۔ تیندوا کتوں پر غرانے لگا۔ سارے شکاری جمع ہو کر اس پر پتھرا ؤ کرنے لگے۔ پتہ نہیں کہ پتھر لگنے سے یا کہ ویسے، تیندوا نیچے کتوں کے عین بیچ گرا۔ ایک بہت بڑا کتا جو مسٹیف اور بلڈ ہاؤنڈ کا مخلوط النسل تھا، نے تیندوے کو دبوچ لیا اور پھر عام حملہ شروع ہو گیا۔ ۷ویں حصار کے کیپٹن پلیسر نے فوراً تیندوے کی بغل میں شکاری چاقو بھونک دیا اور چند منٹ میں تیندوا مر چکا تھا۔
چند سال قبل مرحوم ڈاؤنل کے کتوں نے نیویرا ایلیا میں ایک تیندوا شکار کیا۔ ان کی شدید لڑائی ہوئی اور چونکہ کتے بہت بڑے تھے، انہوں نے تیندوے کو قابو تو کر لیا مگر اسے مار نہ سکے۔ آخرکار جنرل ولکنسن نے شکاری چاقو سے وار کیا مگر چاقو نکالنے میں ذرا سستی کر گیا۔ تیندوے نے اپنے اگلے پنجے سے اس کے ہاتھ پر ایسا وار کیا کہ کئی ہفتے تک اس کے ہاتھ کو جراح کی ضرورت رہی۔ چاقو سے وار کرتے ہوئے اسے فوراً نکال لینا چاہیے کہ چاقو اندر رہ جائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں اور اگر فوراً نہ نکالا جائے تو وہ شکاری کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔
اگر ماہر شکاری چاقو استعمال کرے تو وہ اسے کبھی بھی خنجر کی مانند نہیں چلاتا بلکہ ایسے پکڑتا ہے جیسے تلوار ہو۔ اس طرح چاقو ہمیشہ قابو میں رہتا ہےا ور استعمال بھی آسان ہوتا ہے۔ موقع ملے تو ایک سے زیادہ وار کیے جا سکتے ہیں۔
میرے پاس ایک بار کئی سال تک ایک بہت طاقتور اور وحشی کتا رہا جو منیلا ہاؤنڈ اور راس امید کی کسی بڑی کتیا کا بچہ تھا۔ اس کا وزن ۱۳۰ پاؤنڈ سے زیادہ تھا اور پورے غول میں منفرد دکھائی دیتا تھا۔ اگرچہ اس کی تیندوے سے جنگ اکثر ہوتی تھی مگر میں نے خود سے کبھی نہیں دیکھی۔ اس کی عادت تھی کہ جب بھی ہم شکار پر جاتے ہوئے دو دو کتوں کو ایک ساتھ باندھ دیتے تاکہ اگر تیندوے کی بو مل جائے تو وہ گم نہ ہو جائیں، یہ ہمیشہ انکار کر دیتا تھا۔ اسے جونہی تیندوے کی بو آتی تو یہ احکامات ماننے سے انکار کرتا اور اس کی پشت کے بال کھڑے ہو جاتے۔ ہلکا سا غراتا اور سیدھا تیندوے کے پیچھے لگ جاتا۔ اسے تیندوے سے تنہا مقابلہ کرنا پسند تھا۔ ایسے مواقع پر یہ باقی سارا دن غائب رہتا اور شام کو فخریہ انداز میں بری طرح زخمی ہو کر لوٹتا اور کسی قسم کی طبی امداد اسے گوارا نہیں تھی۔ آتے ہی کھانے پر ٹوٹ پڑتا۔
ظاہر ہے کہ یہ تیندوے کو پا لیتا تھا اور اس کی لڑائی کا نتیجہ ہمیں کبھی معلوم نہ ہو پایا مگر اچھی خاصی مرمت کے بعد تیندوا فرار ہو جاتا ہوگا۔ یہ کتا ایک بہت بڑے سور کے ساتھ لڑائی میں مارا گیااور اس کے بارے میں سانبھر کے بارے لکھتے ہوئے مزید لکھوں گا۔ سانبھر کو سائیلون میں ایلک کہتے ہیں جو کہ غلط ہے۔
اچھے کتوں کو تیندوے کی خوراک بنتے دیکھنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے اور اب دیکھتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے کہ سائیلون میں میرے پالتو کتوں کی کتنی بڑی تعداد تیندوؤں کے ہاتھوں ہلاک ہوئی تھی۔ اگر شکاری کتا جنگل میں کھو جائے تو وہیں بیٹھ کر رونا شروع کر دیتا ہے جو اس کی عقلمندی ہوتی ہے کہ اس کو تلاش کرنے میں آسانی ہو۔ مگر تیندوے اسی چیز کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور درخت کی شاخوں پر کودتے ہوئے کتے کو آن دبوچتے ہیں۔ اس طرح کتے کو بچاؤ کا کوئی موقع نہیں ملتا۔
تیندوے کی حرکات اتنی خاموش ہوتی ہیں کہ اس کی وضاحت مندرجہ ذیل واقعے سے ہو سکتی ہے۔ اُس روز ہم رات کو ایک تالاب کے کنارے بیٹھے تھے۔ خشک سالی کی وجہ سے کہیں کہیں پانی ملتا تھا۔ گھنٹوں پر گھنٹے گزرتے گئے مگر ہرن سے بڑا کوئی جانور نہ آیا۔ پت جھڑ ہو چکی تھی اور چاند چمک رہا تھا۔ ہم ایک بڑے درخت کے نیچے بیٹھے تھے اور ہمارے سامنے زمین پر اس کی شاخوں کا سایہ واضح دکھائی دے رہا تھا۔ اچانک میری بیوی نے میری آستین پکڑ کر اشارہ کیا۔ عین ہمارے اوپر ایک بڑے جانور کا سایہ دکھائی دیا۔ میں اس پر بسہولت گولی چلا سکتا تھا مگر میرا خیال تھا کہ یہ بندر ہوگا۔ جب میں نے اٹھ کر اس کا جائزہ لینے کی کوشش کی تو تیندوا جست لگا کر ہم سے چند فٹ کے فاصلے پر اترا اور فرار ہو گیا۔ شاید یہ تیندوا ہماری بو پا کر درختوں کی شاخوں پر چلتا ہوا عین ہمارے اوپر ہنچ گیا تھا اور ہمیں علم تک نہ ہو سکا۔
ہر جگہ کے لوگوں کا یہی خیال ہے کہ شیر یا ببر شیر کی نسبت تیندوا زیادہ خطرناک ہے۔ میں اس سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ اگر کہیں خطرناک جانور سے سامنا ہو جائے تو اس کی جانب دیکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ انسانی نظر میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ وحشی جانور سہم جاتے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جنگلی جانور جب انسان کو دیکھے اور اسے پتہ چل جائے کہ انسان نے اسے نہیں دیکھا تو وہ عموماً اپنے راہ چلا جاتا ہے۔ مگر جب اسے گھور کر دیکھا جائے تو جانور کو غصہ آ جاتا ہے اور وہ حملہ کر دیتا ہے۔
اگر تیندوے کو علم ہو جائے کہ آپ نے اسے دیکھ لیا ہے تو وہ اکثر حملہ کر دیتا ہے۔ اگر آپ نہتے ہوں اور تیندوا دکھائی دے تو اسے نظر انداز کر دیں اور چلتے جائیں۔ تاہم اپنے دائیں بائیں اور پیچھے سے پوری طرح محتاط رہیں کہ تیندوا حملہ نہ کر دے۔ میں افریقہ میں جہاں بھی گیا، ہر جگہ مقامیوں نے بتایا کہ اگر ببر شیر شکار کی تلاش میں نہ نکلا ہو تو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ مگر تیندوے پر کبھی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ اگر تیندوے کو احساس ہو جائے کہ اس کو دیکھ لیا گیا ہے تو وہ لازمی حملہ کرتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار خشک گھاس کو آگ لگائی گئی تھی اور ایک مقامی چھوٹا لڑکا اپنے بڑے بھائی کے ساتھ آگ لگا رہا تھا۔ راستے میں ندی آئی جہاں آگ رک گئی تھی۔ وہاں پیاس کی وجہ سے یہ لڑکا پانی پینے جھکا تو کنارے پر چھپے ہوئے تیندوے نے اس پر حملہ کر دیا اور منہ میں اٹھا کر بھاگا۔ اس کے بھائی نے ناقابلِ یقین مہارت سے نیزہ پھینکا جو سیدھا اس کی گردن کی ہڈی کو توڑ گیا۔ بچے کو اٹھا کر ہمارے کیمپ لایا گیا مگر تیندوے کے دانتوں سے اس کے پھیپھڑے زخمی ہو چکے تھے اور پسلیوں کے زخم سے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ رات گئے یہ بیچارہ دم توڑ گیا۔ تمام درندوں کے پٹھوں کی طاقت بے پناہ ہوتی ہے اور جب ان کی کھوپڑی کو صاف کیا جائے تو اصل زندہ جانور سے کہیں چھوٹی دکھائی دیتی ہے۔ تیندوے کے سلسلے میں یہ بات اور بھی عجیب لگتی ہے کہ اتنے چھوٹے جبڑوں کےساتھ بھی تیندوا فوری ہلاکت کا سبب بن سکتا ہے۔
میں پہلے ہی تیندوؤں کی مختلف جسامت کے بارے بات کر چکا ہوں کہ سب سے بڑا تیندوا بعض اوقات چھوٹی شیرنی کے برابر ہوتا ہے اور انتہائی طاقتور ہونے کے ساتھ ساتھ بہت وزن بھی اپنے منہ میں اٹھا کر لے جا سکتا ہے۔ ایک بار ہم جبل پور ضلعے میں شکار کے لیے رکے ہوئے تھے۔ ہمارا کیمپ ایک بہت بڑے خالی میدان میں تھا جہاں باریک گرد کی تہہ بچھی ہوئی تھی۔ تین بڑی بھیڑیں ہمارے باورچی کے خیمے کے ساتھ رسی سے بندھی ہوئی تھیں۔ اگلی صبح ہم اٹھے تو ایک بھیڑ غائب تھی۔ زمین پر تیندوے کے پگ صاف دکھائی دے رہے تھے۔ تیندوا بھیڑ کو پوری طرح زمین سے اٹھائے ہوئے لے کر گیا تھا۔ ہمارے کیمپ سے پہاڑی کا فاصلہ نصف میل تھا جو بہت ڈھلوان اور جنگل سے بھری ہوئی تھی۔ وہاں غاروں میں تیندوے، ریچھ اور گیدڑ رہتے تھے۔ تیندوا پورا نصف میل تک بھیڑ کو اٹھائے گیا اور کہیں بھی نیچے نہیں رکھی ورنہ گرد پر اس کا صاف نشان بن جاتا۔
تیندوے کے بچے بہت خوبصورت ہوتے ہیں اور ذہین بھی۔ مگر انہیں پالنا اچھی بات نہیں کہ ان جانوروں کی فطرت کبھی نہیں بدلتی۔ اب یہی دیکھیں کہ عام پالتو بلی اپنے پنجوں سے مسلسل کرسیوں، صوفوں اور موڑھوں پر تیز کرتی رہتی ہے۔ ایک بار خرطوم میں ایک پالتو تیندوا تھا جو بے ضرر مانا جاتا تھا۔ ایک روز اس نے اپنی زنجیر تڑوا لی اور بجائے اس کے کہ اپنی آزادی سے لطف اندوز ہوتا، اس نے سیدھا مالک کی بہترین گائے کے گلے پر دانت جما دیے۔ اگر مالک کے غلاموں نے لاٹھیوں اور بھالوں سے تیندوے کو مار نہ ڈالا ہوتا تو گائے نہ بچتی۔
ایسے تمام جانور ناقابلِ اعتبار ہوتے ہیں اور انہیں کبھی پالنا نہیں چاہیے۔ تیندوے کی واحد قسم جو انسان کا ساتھی بن سکتی ہے، وہ شکاری چیتا ہے۔ میں نے کبھی ایساشکاری نہیں دیکھا جس نے جنگلی شکاری چیتے کو مارا ہو کہ یہ جانور بہت نایاب ہوتا ہے۔ میں بھی اکثر لوگوں کی مانند یہ سوچتا تھا کہ چونکہ شکاری چیتے کے ناخن ہمیشہ نکلے رہتے ہیں، اس لیے وہ درخت پر نہیں چڑھ سکتا۔ایک بار میں نے ایسے ہی شکاری چیتے کو انتہائی آسانی اور سہولت سے درخت پر چڑھتے دیکھا تو اس غلط فہمی سے نکل آیا۔
شکاری چیتا دیگر تمام تیندوؤں سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔۔ اس کی گردن لمبی، جسم پتلا اور اونچا ہوتا ہے۔ اس کا سر گول ہوتا ہے اور آنکھیں بڑی اور چبھنے والی ہوتی ہیں۔ ٹانگیں اونچی ہوتی ہیں۔ دم بہت لمبی اور موٹی ہوتی ہے جو پوری رفتار پر دوڑتے ہوئے سمت بدلنے میں مدد دیتی ہے۔ اس کی کھال پر گول اور انتہائی گہرے سیاہ رنگ کے بے شمار دھبے ہوتے ہیں۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ یہ جانور دنیا کا تیز ترین جانور ہے اور میدان میں کالے ہرن کو بھی پکڑ سکتا ہے۔ کالے ہرن کی رفتار تیز ترین انگریز تازی کتے سے بھی تیز ہوتی ہے۔ میں نے انہیں کبھی جنگل میں نہیں دیکھا مگر جو دیکھے ہیں وہ کتوں کی طرح پالتو تھے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ شکاری چیتے چھپ چھپا کر شکار کے پاس پہنچتے ہیں اور دو چار جستوں میں اسے دبا لیتے ہیں۔ اگر ناکامی ہو تو واپس لوٹ آتے ہیں۔ میں نے انہیں میدان میں بہت طویل دوڑ لگاتے دیکھا ہےا ور اس کی چال تازی کتے کی بجائے ایسی لگتی ہے جیسے کوئی بندر انتہائی تیزی سے لہراتے ہوئے بھاگ رہا ہو۔
عام تیندوا بلی کی طرح دبکتا ہے مگر شکاری چیتا اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ اس کی بڑی اور موٹی آنکھیں زیادہ وسیع منظر دکھاتی ہیں۔ گردن اور ٹانگوں کی مضبوطی اور اٹھے ہوئے سر سے اس کا کردار پتہ چلتا ہے۔ یہ جانور کھلے میدان میں اپنے شکار کو تلاش کرتا اور مارتا ہے۔ تیندوا اپنے شکا رکو جنگل میں چھپ چھپا کر مارتا ہے۔ شکاری حوالےسے تیندوے کی واحد قسم ہے جو انسان کے لیے مفید ہے۔ ہندوستان کے مقامی باشندے زمانہ قدیم سے اس قسم کے چیتے سدھار کر ہرنوں کے شکار کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں۔ یورپی تازی کتوں کی مدد سے خرگوش کا شکار اسی طرح کرتے ہیں۔
بڑودہ کے نواب کے پاس بہترین شکاری چیتے ہیں اور ڈبکہ میں ۱۸۸۰ میں اپنے قیام کے دوران میں نے بہت مرتبہ ان کو شکار کرتے دیکھا ہے۔ یہ سارا علاقہ زرخیز مٹی سے بھرا ہوا ہے اور بہترین فصلیں اگتی ہیں۔ کھیتوں کے درمیان پتلی سی خاردار جھاڑیوں کی قطار لگی ہوتی ہے اور سارا علاقہ میدانی ہے اور گھڑسواری کے لیے مناسب ترین۔ اس لیے پگ سٹکنگ وغیرہ جیسے شکار کے لیے بہت عمدہ مقام ہے۔ اپنے قیام کے دوران مجھے نواب نے ہر قسم کے شکار کا بندوبست کرا کے دیا۔ ان میں تازی کتوں کا ایک غول اور چھ عمدہ تربیت یافتہ شکاری چیتے بھی تھے۔ اس کے علاوہ باز اور عقاب بھی شامل تھے۔ ڈبکہ ریاستی دارلخلافہ بڑودہ سے ۱۸ میل دور ہے اور بہترین شکارگاہ ہے۔ یہاں نواب کا بڑا محل اور اس کے ہمراہیوں کے لیے بنگلہ بنا ہوا ہے۔ یہ چوٹی سے ۳۰ گز دور بنے ہیں اور ندی سے ۱۰۰ فٹ اوپر۔ یہاں سے دریا کا بہترین نظارہ ملتا ہے۔ برسات میں دریا کا پاٹ ایک میل چوڑا ہو جاتا ہے جبکہ خشک موسم میں سکڑ کر تین سے چار سو گز جتنا رہ جاتا ہے۔ بنگلے سے چند میل دور چیتوں کے لیے بہت عمدہ علاقہ تھا جو چھوٹے چھوٹے ٹیلوں پر مشتمل اور ہر قسم کی نباتات سے پاک تھا۔ اس کے بعد ایک کھلا میدان آتا تھا جس میں دو انچ گھاس اگی ہوئی تھی۔ اس میدان کے پاس کچھ نیچی پہاڑیاں تھیں جہاں چھدرا جنگل تھا اور کئی میل تک مسطح علاقہ جھاڑیوں وغیرہ کے ساتھ ساتھ مزروعہ قطعوں پر مشتمل تھا۔
پہلے روز ہم نے گرد آلود سڑک پر سفر کیا۔ یہ سڑک پختہ نہیں تھی کیونکہ اس علاقے میں پتھر نہیں پایا جاتا۔ بیل گاڑیوں کے پہیوں سے زمین کٹ گئی تھی اور یہاں گھوڑوں پر سفر کرنا زیادہ آرام دہ ہوتا۔ باز داروں نے کونجوں اور بگلوں پر کئی بار باز چھوڑے جو دلچسپی کا سبب بنے کیونکہ یہاں بہت سارے جھیلیں اور دلدلیں موجود تھیں۔
بازوں کی کارکردگی کا ہمیں جلد ہی پتہ چل گیا۔ ایک باز کی آنکھوں سے نقاب ہٹایا گیا تو اس نے بگلے کا پیچھا کرنے کی بجائے سیدھا اوپر کا رخ کیا۔ بگلا جھیل کے عین اوپر اور کافی اونچا اڑ رہا تھا، سو مجھے لگا کہ شاید باز نے بگلے کو نہیں دیکھا۔ باز نے الٹا رخ کیا اور سیدھا ہوا میں بلند ہوتے ہوتے ایک دھبہ سا دکھائی دینے لگا۔ اتنی دیر میں بگلا جھیل عبور کر کے کافی بلند ہو گیا تھا۔ اس کے نیچےزمین تھی۔ اچانک باز نے غوطہ لگایا اور تیر کی مانند ترچھا بگلے کی سمت لپکا۔ بگلے کو شاید اس خطرے کا اندازہ تھا کہ اس نے فوراً ہوا میں بلند ہونا شروع کر دیا تاکہ باز کو بلندی سے ملنے والے فائدے کو ختم کیا جا سکے۔ تاہم اس کی رفتار بہت سست تھی اور باز تیر کی مانند اس پر جھپٹا اور دونوں الجھے ہوئے چند لمحوں میں سو فٹ نیچے پہنچ گئے جیسے انہیں گولی لگتی ہو۔
پہلے جھپٹے کے بعد بگلے نے پر کھولے اور ان کی رفتار کم ہو گئی۔ اس دوران باز نے بگلے کی پشت پر سوارہو کر اس کی گردن پر اپنی تیز چونچ جمائے رکھی۔ اس طرح دونوں پرندے آہستہ آہستہ زمین پر پہنچ گئے۔ حملے کے وقت ان کی بلندی ہزار فٹ رہی ہوگی۔
باز دار اس دوران ان کے گرنے کے متوقع مقام کا اندازہ لگا کر اس سمت بگٹٹ دوڑتے رہے۔
باز بہت وحشی تھااور بگلے کی گردن کو نوچتا رہا۔ جب اس کے رکھوالے دونوں کو اٹھا کر میرے پاس لائے تو بھی بگلا زندہ تھا اور باز اس کی خون آلود گردن نوچ رہا تھا۔ یہ بہت ظلم دکھائی دیا اور جب میں نے رکھوالے سے کہا کہ وہ بگلے کو مار دے تو اسے بڑی حیرت ہوئی۔ تاہم اس نے باز کے منہ پر توبڑا چڑھا دیااور اگلی پرواز کی تیاری شروع ہو گئی۔
رکھوالے نے بتایا کہ باز نے جان بوجھ کر غلط سمت اڑان بھری کیونکہ وہ نیچے موجود پانی سے خوفزدہ تھا۔ اگر وہ پانی کے اوپر حملہ کرتا اور دونوں نیچے گرتے تو باز ڈوب سکتا تھا۔ اس لیے وہ دوسری سمت میں اونچا ہوا اور جونہی بگلا خشک زمین پر پہنچا، اس نے ترچھا غوطہ لگایا اور اسے دبوچ لیا۔ اس نے بتایا کہ بہترین تربیت یافتہ باز بھی پانی کے اوپر کسی پرندے پر حملہ کرنے سے رک جاتے ہیں کہ انہیں خطرے کا پوری طرح اندازہ ہوتا ہے۔
اس کے بعد کئی بازوں نے پروازیں بھریں اور ایک بار ایک بڑی کونج شدید جدوجہد کے بعد ماری گئی۔ ہر بارباز نے کافی اونچائی سے حملہ کیا اور پرندوں کے بچنے کا کوئی امکان نہ تھا۔ باز کی کامیابی کا راز اپنے سے بھاری اور زیادہ طاقتور پرندے کو مضبوطی سے پکڑے رہنا تھا۔
ڈبکہ آمد کے بعد ایک بار ہم لوگ شکاری چیتے سے کالے ہرن کے شکار پر بھی نکلے۔ ان چیتوں کے رکھوالوں کے سوا باقی سب محض تماشائی تھے اور کسی کو مداخلت کی اجازت نہ تھی۔ ہر چیتے کا اپنا پنجرہ تھا جو بیل گاڑی کی ایک شکل تھا۔ ہر گاڑی میں دو بیل جڑے ہوئے تھے۔ جب شکار قریب ہو تو چیتے کو پنجرے سے نکال کر اس کے اوپر بنی نشست پر رکھوالے کے ساتھ بٹھا دیا جاتا ہے۔ چیتے کے منہ پر توبڑا چڑھا ہوتا ہے سو جونہی اس کی آنکھوں سے پردہ ہٹتا ہے تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ شکار ان کے سامنے ہوگا۔
اس علاقے میں کالے ہرن بکثرت پائے جاتے تھے، سو جلد ہی ہمیں ایک غول دکھائی دے گیا جس میں کئی بڑے سیاہ نر موجود تھے۔ اس علاقے کی زمین چیتے کے لیے انتہائی موافق ہے۔ سطح ہموار اور پختہ ہے اور میدانی نوعیت کی ہے جس میں کہیں کہیں جھاڑیاں پائی جاتی تھیں۔
ایک چیتے کو اس کے پنجرے سے نکالا گیا تو وہ جست لگا کر پنجرے کے اوپر اپنے رکھوالے کے ساتھ بیٹھ گیا جس نے اس کی آنکھیں کھول دیں۔ دو سو گز آگے جا کر ہمیں بیس ہرن دکھائی دیے۔ مسطح زمین پر پہیئوں کی کوئی آواز نہیں سنائی دی اور ہم رک گئے۔ ہرن ہمارے سامنے سے ہٹ گئے۔ پھر ہم نے ستر یا اسی قدم کا فاصلہ طے کیا تو دو نر ہرن بائیں جانب دوڑتے دکھائی دیے جنہوں نے گاڑی کو دیکھ لیا تھا۔ اسی لمحے چیتے کو آزاد کر کے اس کے رکھوالے نے گاڑی سے اتارا۔ چیتا چند لمحوں کو جھجھکا اور پھر زقند لگا کر آگے بڑھا۔ اس دوران دونوں ہرن نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ چیتے کی رفتار کم ہو گئی مگر وہ محتاط ہو کر آگے بڑھ رہا تھا۔
ہم نے خاموشی سے گھوڑوں پر سوار پیچھا کیا اور چند لمحوں بعد ہمیں دونوں نر لگ بھگ ۱۲۰ گز دور دکھائی دیے اور ان کی آنکھیں ہماری جانب مرکوز تھیں۔ عین اسی لمحے چیتے نے دوڑ لگائی اور دونوں ہرن اپنے دشمن کو دیکھتے ہی بھاگ پڑے۔ دیکھتے ہی دیکھتے چیتا اور ہرن جھاڑیوں کے پیچھے ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔
ہم اسی جانب سرپٹ دوڑے اور تین سو گز سے بھی کم فاصلے پر ہم چیتے اور ہرن کے پاس پہنچ گئے۔ چیتے نے ہرن کو دبایا ہوا تھا۔ چیتے نے اس کا گلا دبوچا ہوا تھا اور ہرن زمین پر لیٹا ہوا تھا۔ چیتے نے اپنے شکار کو بھنبھوڑنے اور کاٹنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس کا گلا دبائے بیٹھا رہا جس سے ہرن کا دم گھٹ گیا تھا۔
پھر رکھوالے نے چیتے کے منہ پر توبڑا چڑھایا اور اس کی چمکتی ہوئی آنکھیں چھپ گئیں۔ تاہم اس نے ہرن کو نہ چھوڑا۔ پھر رکھوالے نے مضبوط ڈوری سے ہرن کی گردن پر تین چار بل دیے اور اسے سختی سے جکڑ کر چیتے کے منہ کے پاس ہرن کا گلا کاٹ دیا۔ جونہی خون کی دھار نکلی، لکڑی کے برتن میں اسے جمع کر لیا گیا۔ جب برتن پورا بھر گیا تو چیتے کا توبڑا ہٹایا گیا۔ خون کو دیکھتے ہی چیتے نے ہرن کو چھوڑا اور خون کو چاٹنے لگا۔ جب اس نے خون پی لیا تو اس کے منہ پر توبڑا چڑھا کر اسے پنجرے میں بند کر دیا گیا کہ اُس روز چیتا دوبارہ شکار پر نہ جاتا۔
چیتے کے لیے لکڑی کا برتن ویسا ہی تھا جیسا باز کے لیے پروں سے بنا مصنوعی پرندہ اس کی توجہ ہٹاتا ہے۔ چیتے کو علم ہے کہ کامیاب شکار کے بعد اس برتن سے اسے ہمیشہ خون ملتا ہے، سو جب اسے چھوڑا جائے اور وہ حکم نہ مانے تو اسے یہی برتن دکھا کر واپس لایا جاتا ہے۔
پھر دوسرا چیتا پنجرے سے نکالا گیا اور کچھ ہی دیر بعد ہمیں بہت سارے ہرن دکھائی دے گئے۔ ان کی اکثریت مادہ اور بچوں کی تھی۔ بیل گاڑیوں کو ہرنوں سے مخالف سمت چلا کر پھر بائیں موڑ کر چلایا جاتا اور پھر اس طرح فاصلہ گھٹاتے گھٹاتے بڑی محنت کے بعد ہمیں سو گز دور ایک بہترین نر ہرن کھڑا دکھائی دیا۔ اس نے جھاڑیوں کی وجہ سے ہمیں نہ دیکھا تھا۔
لمحہ ضائع کیے بغیر چیتا نیچے اترا اور سیدھا ہرن کی سمت بھاگا۔ پچاس گز قریب پہنچنے پر ہرن کو چیتے کا علم ہوا۔ بجائے بھاگنے کے،اس نے اپنا سر جھکایا اور تیز سینگ دکھائے۔ یہ بہت خوبصورت مگر قابلِ ترس منظر تھا۔ ہم جانتے تھے کہ چیتے اور ہرن کا کوئی جوڑ نہیں۔ پھر ہرن نے اپنی سمت آتے چیتے کی سمت چند قدم بڑھائے تو چیتا وہیں رک گیا۔ ہرن پھر آگے بڑھا مگر ہماری آمد کو بھانپ کر ہرن نے دوڑ لگائی اور چیتے کو وار کا موقع مل گیا۔ اس کا پنجہ اٹھا اور ہرن کے دائیں پہلو پر لگا اور ہرن گر گیا۔ بجلی کی سی تیزی سے چیتے نے ہرن کا گلا دبوچ لیا۔
ہمیں اس طرح ہرن کے مارے جانے پر افسوس ہوا کہ اگر ہم قریب نہ جاتے تو شاید ہرن لڑائی کرتا۔ تاہم رکھوالوں کی رائے فرق تھی کہ ہرن نے چیتے کو زخمی کر دینا تھا اور ہرن کا مارا جانا لازمی تھا۔
دو روز میں ہم نے بہت سے ہرن مارے اور پھر میرا جی بھر گیا۔ ہر بار شکار دو منٹ میں ختم ہو جاتا۔ یہ بات ماننی پڑتی ہے کہ چیتے بہترین اور نڈر تھے۔
اس طرح کے شکار میں کامیابی کا انحصار اس علاقے کی زمین پر ہے۔ یہ سارا علاقہ چیتے کے لیے فائدہ مند تھا کہ جہاں بکھری ہوئی جھاڑیوں کی مدد سے ہرن کے اتنے قریب پہنچنا آسان تھا کہ چیتا دوڑ لگا کر ہرن کو پکڑ سکے۔ تاہم دو روز کے شکار کے بعد ہرن اتنے خوفزدہ ہو گئے کہ انہوں نے اس علاقے کو چھوڑ دیااور بالکل خالی زمین کی طرف چلے گئے جہاں بہت دورتک دیکھنا آسان تھا۔ اس طرح شکار مزید دلچسپ ہو گیا کہ اب تک تو چیتے ہی کامیاب ہوتے آئے تھے۔
میں نے تجویز پیش کی کہ ہم تین گھڑ سوار اور تین بیل گاڑیاں ہوں اور تین چیتے ساتھ رکھیں۔ اس طرح شکار کا اصل مزہ آئے گا۔
اس طرح ہم روانہ ہوئے۔ اس جگہ مسطح زمین تھی اور اکا دکا جھاڑیاں بھی تھیں۔ اس پورے علاقے میں محض دو یا تین درخت تھے جو منحنی سے تھے کہ سیلاب سے ان کی نشونما متاثر ہوئی ہوگی۔ ہم اس جگہ پہنچے اور دوربینیں لگا کر شکار کو تلاش کرنے لگے۔ پیش قدمی کرتے ہوئے ہم جگہ جگہ رک کر شکار تلاش کرتے گئے اور جلد ہی ہمیں تیس یا چالیس ہرنوں کا ایک غول دکھائی دیا جس میں دو نر پورے کالے تھے۔ یہ غول اس کھلے علاقے کے عین وسط میں چھدری گھاس کھا رہے تھے۔
سوال یہ کھڑا ہوا کہ ہم کیسے ان کے قریب پہنچیں۔ منصوبہ یہ تھا کہ ہمارے تینوں گھوڑے بیل گاڑیوں کے پیچھے چھپے رہیں اور ہم چکر کاٹتے ہوئے متواتر ہرنوں کے قریب ہوتے جائیں۔ اس طرح ہرن بیل گاڑیوں سے شاید نہ گھبرائیں۔ گاڑی بانوں نے اس منصوبے پر عمدگی سے عمل کیا۔ بیس منٹ میں دائروں میں اور سیدھا چلتے ہوئے ہم ہرنوں سے ۳۰۰ گز کے فاصلے پر پہنچ گئے۔ غول ایک ساتھ جمع تھا اور چرتے ہوئے وہ جب بھی ہماری جانب دیکھتے تو کچھ دوردور ہو جاتے۔ مگر پھر تحفظ کی نیت سے ایک ساتھ جمع ہو جاتے۔ایک بار جب ہم رکے تو ہرن چرتے چرتے رکے اور ہماری جانب دیکھا۔ عین اسی لمحے ایک نر نے بلاوجہ دوسرے نر کو کھدیڑنا شروع کیا تاکہ وہ ماداؤں سے دور ہو جائے۔ دوسرے نر نے فرار کی بجائے لڑائی کو ترجیح دی۔ سو ان کی لڑائی شروع ہو گئی۔ دونوں نر مینڈھوں کی طرح لڑ رہے تھے۔ اس لڑائی کےد وران مادائیں جیسے مسحور ہو کر ان کا تماشا دیکھنے لگیں۔
گاڑی بانوں نے اس موقعے سے فائدہ اٹھایا اور سیدھا بیلوں کو آر چبھو چبھو کر ہرنوں کا رخ کیا۔ نصف منٹ میں ہم ہرنوں کے اتنے قریب پہنچ گئےکہ کسی اور وقت پہنچنا ممکن نہ ہوتا۔ ماداؤں نے ہماری آمد کو بھانپ کر دوڑ لگائی اور حسبِ معمول اونچی اونچی زقندیں لگاتے ہوئے بھاگ نکلیں۔ دونوں نر احمقوں کی مانند لڑائی میں مصروف تھے۔
ہم ۱۲۰ گز پر پہنچ گئے کہ دونوں نروں نے ہمیں دیکھا۔ لڑائی چھوڑ کر انہوں نے ہمیں ایک لحظے کو دیکھا اور پھر بھاگ کھڑے ہوئے۔ ایک دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب بھاگا۔ دونوں بگٹٹ بھاگے اور میدان مسطح اور کسی قسم کی رکاوٹ سے پاک تھا۔
عین اسی لمحے تیار چیتا ان کے لپکا اور تعاقب شروع ہو گیا۔ چیتے نے دائیں جانب والے کا رخ کیا جو ۱۱۰ گز دور ہوگا۔ رکھوالے نے درخواست کی کہ جب تک وہ نہ کہے، ہم پیچھےنہ جائیں۔
ہرن اور چیتا، دونوں کی رفتار حیران کن تھی۔ ہرن کسی پرندے کی مانند جا رہا تھا اور چیتا اس کے پیچھے پوری رفتار سے دوڑ رہا تھا۔
جب دونوں ہم سے دو سو گز دور پہنچ گئے تو رکھوالے نے ہمیں اشارہ کیا اور ہم نے گھوڑے دوڑا دیے کہ یہاں ٹھوکر لگنے کا کوئی خدشہ نہ تھا۔ تاہم چیتے اور ہرن کی رفتار کا مقابلہ ہمارے گھوڑے نہ کر پا رہے تھے۔تاہم ہمارے سامنے انتہائی عمدہ منظر تھا۔
چیتا ہرن کے قریب ہو رہا تھا جبکہ ہرن نے اپنا پورا زور لگایا ہوا تھا۔ چوتھائی میل تک یہ دوڑ جاری رہی اور پھر اچانک ہرن کسی خرگوش کی مانند مڑا مگر چیتا بروقت نہ مڑ سکا اور آگے نکل گیا۔ ہرن اور چیتے کا درمیانی فاصلہ محض تیس گز رہا ہوگا۔ فوراً سنبھل کر چیتے نے رفتار بڑھا دی۔
چیتا ہرن تک پہنچنے ہی والا تھا کہ ہرن پھر مڑا کہ شاید اس طرح چیتے سے بچ سکے۔ تاہم اس بار چیتے کو پہلے سے ہرن کا اندازہ تھا اور وہ بھی اس کے ساتھ ہی مڑا۔ اس بار چیتا کمان سے نکلے تیر کی مانند لپکا اور ایک لمحے کو گرد کا بادل اٹھا اور دونوں جانور چھپ گئے۔ اگلے لمحے ہرن زمین پر گرا ہوا تھا اور چیتے کے دانت اس کے گلے میں گڑ چکے تھے۔
یہ دوڑ ۶۰۰ گز طویل تھی اور اس کے لیے بطورِ خاص ہندوستان آنا مہنگا سودا نہیں۔
چیتے کا سانس اتنا پھولا ہوا تھا کہ وہ بمشکل ہرن کے گلے کو پکڑے ہوئے تھا۔ چیتے نے ہرن کی دائیں ٹانگ پر پنجہ مارا تھا جہاں سے خون کی چند بوندیں نکلی ہوئی تھیں۔ اس وار کی وجہ سے ہرن گرا اور چیتے نے اسے دبوچ لیا تھا۔ اس کے علاوہ کوئی خون نہ تھا۔ جب رکھوالے نے ہرن کا گلا کاٹا تو پھر خون کا فوارہ بہنے لگا۔ پھر چیتے کو اس کے پنجرے میں بند کر دیا گیا۔ یہ شکار اتنا عمدہ تھا کہ ساتھ موجود میرے دوست نے کہا کہ وہ ساری زندگی ہندوستان رہا ہے مگر ایسا عمدہ شکار کبھی نہیں دیکھا۔
اس طرح کئی بار ہرنوں کا شکا رہوا مگر اتنا عمدہ منظر پھر نہ دکھائی دیا۔ ایک بار چیتا بہت دور سے چھوڑا گیا کہ ہرن ساڑھے تین سو گز دور تھے۔ یہ دوڑ بیکار تھی اور آخر میں چیتا کسی بندر کی سی پھرتی سے درخت پر چڑھ گیا۔
اس بلندی سے چیتے کو دور بھاگتے ہرن دکھائی دے رہے تھے اور جب اسے بلایا گیا تو وہ نیچے نہ اترا۔ پھر اس کا ایک رکھوالا اوپر چڑھا تو چیتا اس پر غرانے لگا۔ پھر لکڑی کا برتن نکالا گیا اور کچھ تذبذب کے بعد چیتا نیچے اتر آیا اور اس پر تھوبڑا چڑھا کر پنجرے میں دھکیل دیا گیا۔
تیندوؤں کی مختلف اقسام کے بارے ان معلومات سے آپ کو ان سے ہونے والی تباہی کا اندازہ ہو گیا ہوگا۔ خوش قسمتی سے ان کی افزائشِ نسل گھریلو بلیوں کی رفتار سے نہیں ہوتی اور شاید ہی کبھی دو یا تین سے زیادہ بچے پیدا ہوتے ہوں۔ میرا خیال ہے کہ حکومت شیروں کی ہلاکت کا پچاس روپے کا انعام ہٹا کر تیندوے کے شکار پر انعام کو بڑھا کر پچیس روپے کر دینا چاہیے۔ یورپی شکاری شیروں کو ہمیشہ بغیر کسی لالچ کے شکار کرتے رہیں گے مگر مقامی لوگوں کو پچیس روپے کا انعام تیندوے کے شکار پر آمادہ کر دے گا کہ اچھا شکاری کبھی اس پر زیادہ توجہ نہیں دیتا۔
تاہم اس فیصلےسے چیتے کو الگ رکھنا چاہیے کہ یہ شاذ ہی مویشیوں پر حملہ کرتا ہے اور اس کی توجہ جنگلی جانوروں تک ہی محدود رہتی ہے۔
باب ۹
ببر شیر
میں نے اس جانور کا تذکرہ جان بوجھ کر آخر پر رکھا ہے کیونکہ شیر اور ہاتھی کا چولی دامن کا ساتھ ہے، سو ببر شیر پر میں شیر کے خاندان کا تذکرہ تمام کروں گا۔
زمانہ قدیم میں ببر شیر وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے تھے۔ میسوپوٹامیا، شام، فارس اور ہندوستان میں بھی ببر شیر عام تھے۔ اب گجرات میں محدود تعداد اور ایران میں بہت کم بچے ہیں۔ باقی ایشیا خالی ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر اس جانور کو بچانے کی خاص کوششیں نہ کی گئیں تو اگلی چند صدیوں میں یہ ایشیا سے مٹ جائے گا۔
پورے کرہ ارض پر افریقہ واحد خطہ ہے جہاں ببر شیر ابھی بھی جنگل کا بادشاہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ماضی میں ببر شیر ہر جگہ حکمران تھا تو اب اس کے مٹنے کے امکانات کیسے پیدا ہو گئے ہیں؟ جواب آسان سا ہے کہ انہیں ختم کیا گیا ہے۔
ببر شیر بہت شاندار جانور ہے اور شیروں، تیندوؤں اور بلی کے خاندان کے دیگر اراکین کے برعکس چھپنے اور گھات لگانے کا ماہر نہیں ہوتا۔ اسے گھنے جنگل میں رہنا تو پسند ہے مگر وہ جس طرح خود کو خطرے کے سامنے لاتا ہے، شیر یا تیندوے کبھی بھی اس طرح کی حرکت نہیں کرتے اور جب تک ہانکے کی قطار انہیں مجبور نہ کرے، وہ ظاہر نہیں ہوتے۔ اس طرح اس کی تباہی آسان ہوتی ہے۔
دوسری جانب شیرنی کے بیک وقت کئی بچے پیدا ہوتے ہیں جو پانچ یا چھ ہوتے ہیں۔ اس طرح ببر شیروں کی تعداد برقرار رہنی چاہیے۔ تاہم ببر شیر زمانہ قدیم سے ہی انسان کا شکار بنتا آیا ہے اور انسان سے اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔
ہندوستانی ببر شیر افریقی ببر شیر کی نسبت چھوٹا ہوتا ہے اور اس کی ایال نہ تو اتنی گھنی ہوتی ہے اور نہ ہی اتنی گہری رنگت والی۔
میں نے کبھی بھی قید کی حالت میں ببر شیر کو آزاد حالت والے جانور کے قریب جسامت کا حامل نہیں دیکھا۔ شیر اور ببر شیر کی طاقت کا اندازہ لگانا تو ممکن نہیں کہ دونوں کی شکل اور ان کے عضلات کی نشونما الگ انداز سے ہوتی ہے۔ میں نے کبھی ببر شیر کا وزن نہیں نکیا مگر مجھے یقین ہے کہ عمدہ ببر شیر عمدہ شیر سے زیادہ وزنی ہوگا کہ ببر شیر زیادہ بھاری جسامت کا حامل ہوتا ہے اور اس کا سینہ اور شانے زیادہ چوڑے ہوتے ہیں۔ اس کا سر اور گردن جب جسم سے الگ کر کے ابالے اور صاف کیے جائیں تو زیادہ بڑے ہوتے ہیں مگر کھوپڑی شیر کے برابر ہی ہوتی ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ نو فٹ آٹھ انچ کا ببر شیر اسی لمبائی کے شیر سے زیادہ بھاری ہوگا۔ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ شیر حملہ کرتے وقت کبھی تھپڑ نہیں مارتا بلکہ اپنے ناخنوں سے شکار کو دبوچتا ہے۔ تاہم ببر شیر اپنی بے پناہ طاقت سے تھپڑ مارتا ہے اور عین اسی وقت اپنے پنجے بھی شکار میں کھبو دیتا ہے۔ یہ تھپڑ بہت بھاری ہوتا ہے اور اکثر انسان اس تھپڑ سے ایسے مر جاتے ہیں جیسے ہتھوڑا لگا ہو۔ ایسے ہی ایک تھپڑ کی زد میں آ کر سوڈان میں میرے ساتھ ایک ذہین اور بہترین جرمن ساتھی کی موت واقع ہوئی۔
فلوریان جرمن تھا جو خرطوم میں آسٹرین مشن کے ساتھ آیا تھا۔ اس کے ذمے مستری کا کام تھا۔ اسے مشینوں کی سمجھ بوجھ تھی اور جلد ہی اس نے دونوں نیل کے سنگم پر ایک کانوینٹ تعمیر کرنے کیا۔ پھر مذہبی جماعت کو چھوڑ کر اس نے ایک بڑھئی کے ساتھ مل کر شکار اور تجارت شروع کر دی۔
انہوں نے مل کر مربع پتھروں سے خوبصورت گول گھر بنائے اور دریائے عتبارہ پر دریائی گھوڑوں کا شکار کر کے ان کی کھال سے بہترین کوڑے بنانے شروع کر دیے۔ ان کا معیار عرب کوڑوں سے کہیں بہتر تھا اور ان کی فروخت آسان تھی۔ اگرچہ فلوریان کا پیشہ مستری کا تھا مگر اس نے جلد ہی بڑھئی کے کام میں مہارت بہم پہنچا لی اور عرب شیخوں کے لیے اونٹوں کے بہترین کجاوے بنانے شروع کر دیے۔ اس کے لیے ایک سخت لکڑی استعمال کرتا تھا اور صحرا کے عرب ان کجاؤں پر جان دیتے تھے۔ برسات میں وہ کجاوے بناتا اور خشک سالی شروع ہوتے ہی دونوں شکاری مل کر شکا رپر نکل جاتے۔ کاروبار ساتھ چلتا رہتا۔
فلوریان کا دماغ اور ہاتھ، دونوں ہی بہترین کام کرتے تھے مگر نشانے کا بہت کچا تھا۔ اس کا اسلحہ عام سا اور خطرناک تھا اور ایک بار ایک بندوق پھٹی تو اس کے بائیں ہاتھ کا انگوٹھا اور شہادت کی انگلی اڑا لے گئی۔
صحت یاب ہونے کے بعد بھی اس کا کام عمدہ ترین ہوتا تھا مگر اسلحے کے ساتھ بیکار تھا۔ اس کا اسلحہ ہمیشہ غلط وقت پر غلطی سے چل جاتا۔ کئی بار تو اس کی بندوق غلطی سے میرے سر کے قریب چلی اور مجھے مجبوراً کہنا پڑا کہ اسے اکیلے شکار کی عادت ڈالنی چاہیے۔
ایک رات اس نے چاندنی میں تالاب کے کنارے ایک ہاتھی شکار کیا۔ اگلی صبح اس نے ایک قابلِ بھروسہ مقامی بندہ بھیجا تاکہ کلہاڑی سے ہاتھی کے دانت کاٹ آئے۔ جب وہ بندہ واپس آیا تو اس نے بتایا کہ ایک بڑا ببر شیر ہاتھی سے پیٹ بھرنے کے بعد قریبی درخت کے نیچے لیٹا سو رہا ہے۔
فلوریان نے اس بندے کو ایک نالی رائفل تھمائی اور خود اپنی دو نالی بندوق لے کر اس جانب چل پڑے۔ ہاتھی کے قریب پہنچے تو ٹنڈمنڈ درخت کے نیچے ببر شیر فوراً دکھائی دے گیا۔ ہاتھی سے خوب پیٹ بھرنے کے بعد ببر شیر گرم سورج سے بچ کر غنودگی کی حالت میں تھا اور اس نے ان دونوں کو آتے نہیں دیکھا۔ گرمی اتنی شدید تھی کہ گھاس یا پتے بھی نہیں تھے کہ شیر ان میں گھستا۔
فلوریان سیدھا ببر شیر کی طرف گیا اور بیس گز کے فاصلے پر رک گیا۔ ببر شیر اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔ فلوریان نے نشانہ باندھا اور گولی چلا دی۔ اس کا نشانہ خطا گیا۔ ببر شیر جست لگانے کو تیار ہوا۔ فلوریان نے آنکھوں کے بیچ نشانہ لے کر دوسری گولی چلائی۔ وہ بھی خطا گئی۔ ببر شیر نے دھاڑ لگائی اور سیدھا اس پر حملہ کر کے اس کے سر پر پنجہ مارا اور پھر زمین پر گرانے کے بعد اس کی گردن دبوچ لی۔ عین اسی لمحے مقامی بندہ اس کی مدد کو آیا اور اس ڈر سے کہ گولی فلوریان کو نہ لگے، اس نے ببر شیر کے کان میں رائفل کی نال ڈالی اور گولی چلا دی۔ ببر شیر الٹ کر فلوریان کے اوپر گرا اور مر گیا۔
مصری حکومت کا سرکاری ملازم ایک اطالوی ڈاکٹر اوری حمران عرب سے جنگلی جانور خریدنے آیا ہوا تھا اور متذکرہ بالا حادثے کے وقت اس مقام سے آدھے گھنٹے کی پیدل مسافت پر موجود تھا۔ جب مقامی بندہ اس حادثے کی اطلاع لے کر وہاں پہنچا تو سب جائے حادثہ پر پہنچ گئے۔ ڈاکٹر اوری نے متوفی کا معائنہ کیا اور پھر مجھے بتایا کہ ببر شیر کے تھپڑ کا کیا اثر ہوا۔ کھوپڑی پر سارا زور پڑا اور مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ گئی تھی جیسے ناریل پر ہتھوڑا مارا جائے۔ شیر کے ناخن ہڈی کے اندر ایسے گھس گئے تھے جیسے کیل گاڑ دیا گیا ہو۔
اگر یہی حملہ شیر کرتا تو کھوپڑی کی ہڈی نہ ٹوٹتی بلکہ صرف سر کی کھال کٹ جاتی۔ تاہم گردن دبوچنے سے موت واقع ہوتی۔
ببر شیر کے تھپڑ کی طاقت کا ایک اور مظاہرہ میرے مرحوم دوست مونسیور لفارج کو ملا جو اُس وقت سوڈان میں بربر میں رہائشی تھے۔ یہ فرانسیسی بندہ حلیم پاشا کا نمائندہ تھا جو سابقہ حکمران اسماعیل کے چچا تھے۔ حلیم پاشا بہت متحرک آدمی تھے اور تاریخ میں وہ پہلے انسان بنے جس نے قاہرہ سے خرطوم کو دخانی جہاز بھجوایا جو دریائے نیل کی مختلف شاخوں سے ہوتا ہوا منزل تک پہنچا۔ یاد رہے کہ اُس دور میں دریائے نیل کا سفر بہت مشکل سمجھا جاتا تھا کہ نیل کی لمبائی ۱۶۰۰ میل کے قریب بنتی ہے اور لوگ اس میں محض چھوٹی کشتیاں چلاتے تھے۔ حلیم پاشا نے ہی سب سے پہلے سفید نیل کو ترویج دینے کی کوشش کی۔ مونسیور لفارج اسی شاندار فرد کے نمائندے تھے۔ یہ دخانی جہاز بخیریت خرطوم پہنچا اور پھر سفید نیل سے ہوتا ہوا آگے کو روانہ ہو گیا کہ اُن دنوں مصری سلطنت کی جنوبی حد خرطوم تھا۔
لفارج بہت دلکش شخصیت کا حامل تھا اور سوڈان کے دور افتادہ علاقے میں بخوشی رہ رہا تھا۔ جب اس کے گھر کے باغیچے میں بیٹھ کر ہم لوگ جب بات کرنے لگے تو دیکھا کہ نیل کے کنارے دو سو گز تک سبزے کے بعد صحرا شروع ہو جاتا تھا اور حیرت ہوئی کہ اتنا خوش مزاج بندہ کیسے ایسی جگہ پر سکون کی زندگی گزار رہا ہے۔
اس کی کتب اس کے پاس تھیں اور ماہانہ رسالے اور اخبارات بھی یورپ سے آتے تھے اور اس کی ذاتی ڈاک بھی باقاعدگی سے آتی جاتی تھی۔ اس کی بیوی مقامی مصری تھی اور انتہائی خوبصورت اور دلکش خاتون تھی۔
اس ویرانے اور اجاڑ مقام پر اس کی بیوی ہی اس کے لیے سب کچھ تھی اور سوڈان کے اس دور افتادہ علاقے میں اس کی واحد خوشی۔ اس بندے نے یہاں کامیابی حاصل کرنے کے بعد محض اپنی بیوی کی خاطر اپنا ملک، اپنے گھر والے اور اپنا سب کچھ چھوڑ دیا تھا۔ یہ بندہ یہاں رہتے ہوئے انتہائی مطمئن تھا مگر اس کا خیال تھا کہ مرنے کے لیے فرانس بہتر رہے گا۔ اس کا عہدہ پورے سوڈان میں سب سے اونچا تھا۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ سفید نیل کے کنارے آباد جنگلیوں سے کسی قسم کی تجارت کا امکان نہیں، سو اس نے اپنے آجر کو مطلع کر دیا۔ پھر اس نے مقامی تاجروں سے کاروبار شروع کر دیا اور ان سے عرب گوند، ہاتھی دانت اور کھالیوں کے علاوہ کپاس اور غلہ خریدتا اور جونہی موقع ملتا تو انہیں آگے بیچ دیتا۔
ہم ببر شیروں کے بارے بات کر رہے تھے تو اس نے اپنا ایک واقعہ بتایا جو اسے سفید نیل میں خرطوم کو جاتے ہوئے پیش آیا تھا۔
خشک موسم عروج پر تھا اور گھاس پھونس سب مرجھا چکی تھی اور مقامیوں نے دریا کے کنارے ہر قسم کے مرجھائے ہوئے سبزے کو آگ لگا دی تھی۔ ہر طرف زمین کی سطح سیاہ اور خالی تھی۔ دخانی جہاز آسانی سے بہاؤ پر جا رہا تھا تاکہ ایندھن کی بچت ہو سکے۔ اچانک کنارے کی سیاہ زمین پر ببر شیر بیٹھا دکھائی دیا۔ جہاز کو روک کر لفارج کے ایک شکاری کو گولی چلانے کا کہا گیا۔ اس بندے کو اپنے نشانے پر یقین تھا، سو وہ ایک نالی رائفل لے کر کنارے پر اتر گیا۔
جہاز کے عرشے سے سارا منظر واضح دکھائی دے رہا تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ شکاری آرام سے ببر شیر کی سمت گیا۔ ببر شیر نے اسے دیکھا تو کھڑا ہو گیا اور جب بندہ قریب پہنچا تو دبک گیا۔ شکاری اس سے چند گز دور کھڑا ہوا اور نشانہ لے کر اس نے گولی چلا دی۔دھاڑ لگا کر ببر شیر نے حملہ کیا اور شکاری کے شانے پر تھپڑ مارا۔ بندہ فوراً گر گیا اور ببر شیر اس کے اوپر سوار ہوا اور چند سانس لینے کے بعد لڑھک کر مر گیا۔ شکاری نے کوئی حرکت نہیں کی۔
جہاز فوراً کنارے پر لگا کر روکا گیا اور لفارج کئی ساتھیوں کے ہمراہ فوراً نیچے اترا۔ شکاری اور شکار دونوں مر چکے تھے۔ گولی سیدھا ببر شیر کے دل کے پار ہوئی تھی۔ شکاری کا دائیاں بازو تسمے سے کولہے سے لٹک رہا تھا کہ ببر شیر کے تھپڑ سے بازو جسم سے الگ ہو گیا تھا۔ ببر شیر کا پنجہ کندھے سے بازو کو کاٹتا ہوا پسلیوں اور پیٹ سے الگ کر کے کولہے تک پہنچ گیا تھا۔ شکاری کو مرنے میں ایک لمحہ بھی نہ لگا ہوگا۔
یہ ببر شیر کی طاقت کی عمدہ مثال تھی۔ عام طور پر ببر شیر یہ تھپڑ استعمال کرتا ہے مگر کئی بار اپنے شکار کو بلی کے خاندان کے دیگر اراکین کی مانند دانتوں اور پنجوں سے بھی دبوچ لیتا ہے۔
میرا خیال یہ ہے کہ اس طرح کے تھپڑ کا انحصار شکار کے مقام پر بھی ہوتا ہے۔ ببر شیر عام بیل کو گردن پر تھپڑ مار کر گرا سکتا ہے مگر اس کے لیے بیل کا پہلو اس کے سامنے ہونا ضروری ہے۔ ببر شیر کبھی بھی بیل کے سر پر وار نہیں کرے گا کہ اس طرح اسے سینگوں سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔
شیر کے پاس بھی تھپڑ مارنے کی بھرپور طاقت ہوتی ہے مگر وہ شاذ ہی استعمال کرتا ہے۔ ہم نے چیتوں کو کالے ہرن کو اسی طرح تھپڑ مار کر گراتے دیکھا تھا اور اندازہ ہے کہ عین اسی طرح ببر شیر بھی اپنے شکار کو اسی طرح تھپڑ مار کر گراتا ہوگا تاکہ گلے کو دبوچ سکے۔ سارے درندوں کا کبھی کبھار خطرناک دشمنوں سے پالا پڑتا ہےا ور اگر پہلی جست ناکام رہے تو ببر شیر کو دانتوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ایسا عموماً پرانے جنگلی بھینسے کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ لڑائی اس قابل ہے کہ اس کو دیکھنے کے لیے بطورِ خاص سفر کیا جائے۔ ایک مرتبہ میں نے جنگلی بھینسے اور ببر شیر کی ہڈیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ پڑے دیکھا۔ ببر شیر کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اور کھوپڑی الگ پڑی تھی۔ بھینسے کی کھوپڑی میں ناک کی ہڈی غائب تھی۔ زمین ایسے کھدئی ہوئی تھی جیسے دونوں کی شدید جنگ ہوئی ہو اور ان کی موت پر منتج ہوئی ہو۔ ہڈیوں سے گیدڑوں اور لگڑبگھوں نے پیٹ بھرا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ دو ببر شیروں نے حملہ کیا تھا اور ایک ببر شیر کی ہلاکت کے بعد بھینسا بھی مر گیا ہوگا۔
ببر شیر اکثر ایک سے زیادہ جمع ہو کر شکار کرتے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں مسٹر اوسویل نے ایسی ہی ایک مثال دی ہے جس میں وہ اپنے دوست میجر ورڈن کے ساتھ شکار کر رہا تھا۔ انہوں نے ایک بھینسے کو زخمی کیا جو جنگل میں چھپ گیا۔ دونوں شکاریوں نے احتیاط سے خون کے نشانات کا پیچھا کیا مگر تھوڑی دور ہی انہیں ببر شیر کی دھاڑیں سنائی دیں۔
ایسا لگ رہا تھا کہ ببر شیروں نے زخمی بھینسے کو دیکھ کر حملہ کر دیا ہوگا۔ مناسب احتیاط سے چلتے ہوئے وہ مقام پر پہنچے تو دلچسپ منظر دکھائی دیا۔ ایک گرے ہوئے درخت کے پیچھے چھپ کر انہوں نے پورا منظر بخوبی دیکھا۔
تین ببر شیر اس شاندار بوڑھے بھینسے کے ساتھ زندگی اور موت کی جدوجہد میں لگے ہوئے تھے۔ بھینسے نے پہلے ایک ببرشیر کو ٹکر ماری اور دوسرے کو دبا لیا۔ ایسا لگتا تھا کہ جلد ہی بھینسا تیسرے پر بھی حاوی ہو جائے گا مگر اچانک بھینسا گرا اور مر گیا۔ یہ شکاریوں کی گولی کا نتیجہ تھا کہ گولی بھینسے کے پھیپھڑوں سے گزری تھی۔
ببر شیروں کو اس کا کوئی علم نہ تھااور انہوں نے آپس میں لڑائی شروع کر دی۔ ایک بڑا نر پچھلے قدموں پر اٹھا اور اپنے پنجے بھینسے کی لاش پر رکھ دیے جبکہ دوسرے نے سر کو اور تیسرے نے پچھلے دھڑ کو اپنے پھیلے ہوئے پنجوں سے پکڑے ہوا تھا ۔ یہ چند گز کے فاصلے پر دکھائی دینے والا شاندار منظر تھا مگر دونوں رائفلوں سے نکلی دو گولیوں نے دو شیروں کو گرا دیا اور تیسرا شیر گھبرا کر گھنے جنگل میں چھپ گیا۔
میرے ایک ملازم اور بہت عمدہ جرمن شکاری جوہان شمٹ نے ایک بار دو ببر شیروں کو زرافے پر حملے کی حالت میں شکار کیا تھا۔ ان کے ڈھانچے چند روز بعد میں نے دریائے روین میں دیکھے۔ خشک موسم کے دوران یہ دریا خالی پڑا تھا۔ بعض موڑوں پر جہاں پانی نے سوراخ کر دیے تھے، وہاں پانی موجود تھا۔ شمٹ بیچارہ غریب آدمی تھا، سو عمدہ شکاری رائفل اس کی پہنچ سے باہر تھی اور اس نے عام سی دو نالی سولہ بور کی بندوق رکھی ہوئی تھی۔
اس نے یہ فرانسیسی بندوق قاہرہ میں پچاس فرانک میں خریدی تھی۔ تین ڈرام بارود اور گول شکل کی گولی سے یہ بندوق بہت عمدہ نشانے کی حامل تھی۔ وہ اسی بندوق سے شکار کرتا تھا۔ ایک بار وہ دریا کے کنارے مٹرگشت کر رہا تھا اور جہاں بھی پانی ہوتا، وہ احتیاط سے معائنہ کرتا۔ اچانک اسے نیچے لڑائی کی آوازیں سنائی دیں۔ گرد کا بادل اڑ رہا تھا اور جب وہ قریب پہنچا تو زرافے کی گردن دکھائی دی جس پر دو ببر شیر حملہ آور تھے۔ ایک اس کے گلے سے چپکا ہوا تھا اور دوسرے نے پچھلے دھڑ پر سواری گانٹھ رکھی تھی۔ جوہان نے کنارے پر اگے بڑے درخت کی اوٹ لی اور اس جگہ وہ دریا کی تہہ سے بیس فٹ اوپر اور زرافے سے پچاس گز دور تھا۔
زرافے کے پاس بچنے کا کوئی امکان نہ تھا اور مختصر سی جدوجہد کے بعد اسے گرا لیا گیا۔ سارا منظر اسے اوٹ سے بخوبی دکھائی دیا۔ پھر دونوں ببر شیروں نے ایک دوسرے پر غرانا شروع کر دیا۔ کنارہ بالکل عمودی تھا، سو جوہان نے آرام سے نشانہ لے گولی چلائی اور ایک ببر وہیں گر گیا۔ دوسرے نے ایک لمحے کو اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر سیدھا مخالف سمت کے کنارے کو جست لگائی۔ تاہم یہ کنارہ بالکل عمودی تھا، سو ببر شیر اسے نہ پھلانگ سکا۔ دوسری نال کی گولی اس کی پشت پر لگی اور نچلا دھڑ بیکار ہو گیا۔ ببر شیر وہیں گرا اور لوٹنے لگا۔ جوہان نے یہ موقع غنیمت جانا اور بندوق بھرنے کے بعد نیچے اترا اور قریب سے شیر کی کھوپڑی میں گولی اتار دی۔
زرافہ ابھی زندہ تھا، سو اسے بھی ایک گولی مارنی پڑی۔ چند منٹوں میں جوہان نے محض پچاس فرانک مالیت کی بندوق سے دو ببر شیر اور ایک زرافہ مار لیا تھا۔
میں نے بہت ساری کہانیاں سنی ہیں کہ ببر شیر کیسے کرال میں گھس کر بیل اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ یہ بات مجھے ناممکن لگتی ہے سو میں نے اس کی تصدیق کا سوچا۔ میرا ایک تجربہ کار دوست ایک کرال میں موجود تھا جب ببر شیر نے جست لگا کر باڑ عبور کی اور بیل اٹھا کر پھر باڑ کو جست لگا کر عبور کیا۔
رات کی تاریکی میں بہت شور و غل ہوا اور کوئی بھی بندہ اپنی آنکھوں سے ببر شیر کو بیل اٹھائے باڑ پھلانگتے ہوئے نہ دیکھ سکا۔میرا خیال ہے کہ گڑبڑ کے دوران زخمی ہونے والا بیل ہڑبڑاہٹ کی وجہ سے باڑ توڑ کر نکل گیا ہوگا اور باہر اسے شیر نے مار کر اٹھا لیا ہوگا۔ یہ بات فرض کرنا عقل سے بعید ہے کہ شیر پوری طرح جوان بیل کو اٹھا کر لے جائے گا۔ ببر شیر بیل کی لاش کو گردن کے قریب سے پکڑ کر کچھ اٹھاتا اور کچھ گھسیٹتا ہے۔
ایک بار میں دریائے ستیتی کے کنارے چہل قدمی کر رہا تھا کہ مجھے اپنے سامنے بیس گز کے فاصلے پر ایک جنگلی بھینسا کھڑا دکھائی دیا جو میری بو پا کر میری جانب دیکھ رہا تھا۔ اس نے اپنا سر اوپر کو اٹھایا جو اس کی عادت ہے اور اسی وجہ سے ماتھے پر گولی چلانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ تاہم مجھے علم تھا کہ میری دو نالی ۱۰ بور کی رائفل میں ۷ ڈرام بارود اور سخت گولی موجود ہے، سو میں نے بھینسے کے پوری طرح پھیلے ہوئے نتھنے کا نشانہ لیا اور گولی چلا دی جو مہلک ثابت ہوئی۔ گولی ناک سے ہوتے ہوئے دماغ سے گزرتی ہوئی اور سینے میں جا رکی۔ یہ بہت بڑا بھینسا تھا اور قریب موجود جنگلی بیروں کے جھنڈ میں شیروں کی رہائش تھی، میں نے سوچا کہ رات بھر اس کی لاش کو یہیں چھوڑ دوں۔
اگلی صبح میں اس جگہ لوٹا اور دو بہترین مقامی شکاری ساتھ تھے۔ ہم نے وہاں ریتلی زمین پر ببر شیروں کے پگ دیکھے جہاں انہوں نے بھینسے کی لاش کو گھسیٹا تھا، وہاں چار فٹ چوڑی لکیر بنی ہوئی تھی۔ یہ کام ایک سے زیادہ ببر شیروں نے مل کر کیا تھا۔
دریا کے متوازی جنگلی بیروں کے بہت گھنے جھنڈ تھے۔ یہاں خاردار رکاوٹ تھی جو دو سو گز چوڑی ہوگی اور بہت دور تک جا رہی تھی۔ جنگلی بیر میٹھا، بہت خوش ذائقہ اور خوشبودار ہوتا ہے مگر جب یہ پانی کے کنارے ریتلی زمین پر اگے ہوں تو انسان کے لیے ناقابلِ عبور باڑ بن جاتے ہیں۔ ببر شیروں نے اس میں جگہ جگہ تین یا چار فٹ اونچی سرنگیں بنا رکھی تھیں جو نہ جانے کہاں تک جاتی ہوں گی۔
بھینسے گھسیٹنے کے نشانات ایک ایسی ہی سرنگ کی طرف جا رہے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ لاش اندر ہی ہوگی اور ببر شیر بھی اس سے دو رنہ ہوں گے۔اب یاد کرتا ہوں تو ہنسی آتی ہے کہ جوانی میں کیسی کیسی احمقانہ حرکات کر جاتا تھا۔ اس بار بھی میں نے اسی سرنگ میں گھسنے کا فیصلہ کیا اور میرے ساتھ دونوں مقامی شکاری بھی تھے۔ میرے پاس اعشاریہ ۵۷۷ کی ہلکی دو نالی رائفل بھی تھی۔
چند گز بعد سرنگ کافی تنگ ہوگئی اور بمشکل ساڑھے تین فٹ اونچی ہوگی۔ یہ سدابہار جھاڑی تھی سو تاریکی کافی گہری تھی۔ مجھے ببر شیروں کے نشانات تو دکھائی نہ دے رہے تھے مگر میں رینگتا ہوا احتیاط سے بھری ہوئی رائفل کی لبلبی پر انگلی رکھے بڑھ رہا تھا۔ ستر گز چلنے کے بعد مجھے کچے گوشت کی بو آنے لگی۔ ظاہر ہے کہ بھینسے کی لاش قریب ہی رہی ہوگی۔ میں نے پیچھے دیکھا تو دونوں ہمراہی میرے عین پیچھے تھے۔ لاش کے ساتھ ہی ببر شیروں کی موجودگی بھی متوقع تھی۔ یہ بو آہستہ آہستہ بڑھتی گئی اور برداشت سے باہر ہوگئی۔پھر مجھے ہڈی ٹوٹنے کی آواز سنائی دی اور یقین ہو گیا کہ ببر شیر پاس ہی ہیں۔ میں نے ایک بار پھر پیچھے دیکھا تو میرے ساتھی میرے ساتھ ہی تھے۔ ہم آواز نکالے بغیر چند گز مزید آگے بڑھے اور اچانک ایک تاریک سا سایہ سرنگ میں دکھائی دیا۔ بھینسے کی لاش کی دوسری جانب مجھے اگلے لمحے بہت بڑے ببر شیر کا سر اور پھر اس کی شاندار ایال دکھائی دی ۔ایک اور سر دکھائی دیا جو کسی شیرنی کا تھا۔ عین اسی لمحے میرے گولی چلانے سے زور دار دھاڑ کے ساتھ منظر بدل گیا۔ ہم اور بھینسے کی لاش اس مقام پر رہ گئے۔ تینوں ببر شیر فرار ہو گئے اور ہمیں دوبارہ کبھی نہ دکھائی دیے۔ اپنی محتاط پیش قدمی سے ہم نے شیروں کو ڈرا کر بھگا دیا تھا۔ گولی چلانے کا بھی موقع نہ مل سکا۔
اس تنگ سی جگہ پر بھینسے کا سر کاٹنا بہت صبرآزما کام تھا مگر اب یہ سر میری دیوار پر لگا ہوا ہے اور یاد دلاتا ہے کہ میں یہ ببر شیروں کے جبڑے سے کھینچ لایا تھا۔ اگر عام شیر ہوتا تو ایسا کبھی نہ ہو پاتا۔
ایک با رپھر ایسے ہی مقام پر میں نے ایک ببر شیر کو چار گز کے فاصلے سے گولی ماری مگر اس کی لاش کبھی نہ مل سکی کیونکہ گولی لگتے ہی وہ جست کر کے بیر کے خاردار حصے عبور کر کے گم ہو گیا تھا۔ میرے دوست حمران عربوں اور مقامی شکاریوں نے بھی مجھے اس خطرناک کام سے روکنے کی کوشش کی۔ چونکہ میں اس طریقے سے ببر شیر نہ مار سکا، سو میں نے یہ کام چھوڑ دیا۔
مندرجہ بالا علاقے میں ببر شیر بکثرت تھے مگر انہیں کسی قسم کا خطرہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اصل خطرہ تب ہوتا جب ان پر حملہ کیا جاتا۔ جنگلی جانور بے شمار تھے، سو ببر شیروں کو انسان سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ چونکہ یہاں انسانی آبادی بہت کم تھی،سو شیروں کا انسانوں سے کوئی واسطہ نہ پڑتا تھا اور شیر بھی خیال رکھتے تھے۔
رات کو ہم نے وسیع الاؤ جلانے کی احتیاط کی۔ ہمارا کیمپ ہر طرف سے خاردار باڑ سے گھرا ہوا تھا مگر محض ایک بار ہمیں جنگلی جانوروں نے تنگ کیا تھا۔
اس روز میں کھانے کے لیے شکار کی تلاش میں نکلا ہوا تھا اور میرے پاس ۱۴ بور کی دو چکروں کی رائفل تھی جس کا نشانہ انتہائی عمدہ تھا۔ بڑے کڈو کو مارنے کے بعد ہم نے اسے اونٹ پر لادا اور کیمپ بھیج دیا۔ ہم چکر کاٹتے ہوئے کیمپ کو لمبے راستے سے روانہ ہوئے کہ شاید کوئی اور جانور بھی دکھائی دے جائے۔ دریا کے کنارے زمین بالکل ہموار تھی۔ جگہ جگہ جھاڑیوں کے جھنڈ تو ملتے تھے مگر بیچ بیچ میں گھاس کے قطعے بے شمار تھے۔ ان قطعوں میں دو سے تین فٹ اونچی گھاس مرجھائی ہوئی تھی۔ میرے چند ساتھی میرے اضافی رائفلیں (مزل لوڈر ہی تھیں کہ بریچ لوڈر تب ایجاد نہیں ہوئی تھیں) لیے آ رہے تھے۔ میں آگے چل رہا تھا اور جھاڑیوں سے راستہ بناتے ہوئے ہر ممکن کوشش کرتا تھا کہ زیادہ آواز نہ ہو۔
اچانک جب میں ایک جھاڑی سے جزوی طور پر نکلا ہی ہوں گا کہ سامنے ہلکی سی دھاڑ سنائی دی اور فوراً ہی ایک شیرنی کے شانے اور پچھلی ٹانگیں دکھائی دیں۔ سر اسی جھاڑی میں چھپا ہوا تھا۔ اگر میں رائفل کو بڑھاتا تو اسے چھو سکتا تھا۔ مگر میری موجودگی سے وہ لاعلم تھی۔ میں نے عین شانے کے بیچ کا نشانہ لے کر گولی چلا دی۔ مختصر سی دھاڑ کے بعد شیرنی غائب ہوئی اور اسی لمحے اسی جگہ ایک اور شیر نمودار ہوا۔ شاید دونوں ایک ساتھ تھے اور ہماری آمد کو محسوس کر کے چوکنے ہوئے۔ یہ بہترین موقع تھا، مگر میری رائفل خالی تھی۔ سو میں نے ہاتھ پیچھے بڑھایا تاکہ دوسری رائفل پکڑ سکوں مگر وہ پہلے ہی پیچھے ہٹ گئے تھے۔ میں ببر شیر سے محض چھ فٹ دور اور خالی رائفل کے ساتھ تنہا رہ گیا۔ ببر شیر کی گردن اور سر پوشیدہ تھے۔ سو میں نے رائفل بھرنا شروع کی۔ گولی کو اندر ڈال کر جونہی میں نے ضرب لگائی تو ببر شیر ڈر گیا اور زوردار دھاڑکے ساتھ اس نے آگے کو جست لگائی اور نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ میرے بھگوڑے ساتھی واپس لوٹے اور میں نےا ن کی تواضح چند لاتوں سے کی اور پھر دو نالی رائفل لے کر سب کے ساتھ زخمی شیرنی کی تلاش میں نکلا۔ وہ چند گز دور پڑی جانکنی کی کیفیت میں تھی۔ اس کی کراہوں سے ہمیں اس کے مقام کا اندازہ ہوا اور نے اسے تلاش کر لیا۔ تاہم اس کا ساتھی بحفاظت بچ نکلنے میں کامیاب رہا۔
ہم نے شیرنی کا پیٹ چاک کر کے اسے صاف کیا تاکہ وزن کم ہو جائے اور پھر اسے ایک حمران عرب اور تین مقامی افراد کے ساتھ مل کر دوسرے اونٹ پر بمشکل لادا۔
اس کی لاش سے خون ٹپکتا رہا اور کیمپ تک خون کی لکیر سی بن گئی۔ شیرنی نو فٹ ایک انچ لمبی تھی اور اس کی کھال اتار کر اس کی لاش کو ہم نے کافی دور پھینک دیا تاکہ لگڑبگڑ پیٹ بھر سکیں۔
سورج ڈوبنے کے بعد ہم نے الاؤ جلا دیے اور حمران شکاریوں کے اور میرے گھوڑے ہمارے احاطے کے عین وسط میں خیموں کے قریب باندھے گئے تھے اور ہم سونے جا ہی رہے تھے کہ اچانک احاطے کے قریب سے ببر شیر کی گہری دھاڑ سنائی دی۔ ہم نے احاطہ بنانے میں بہت احتیاط سے کام لیا تھا کہ اس علاقے میں عرب شکاری جماعتیں پھرتی تھیں اور جو بھی مقامی بندہ ملتا، عرب اسے مار ڈالتے۔ مقامیوں کو جب عرب ملتے تو وہ انہیں نہ چھوڑتے۔ احاطے کا جنگلا بنانے کے لیے خاردار درخت کو جڑ کے قریب سے کاٹا جاتا تھا اور پھر اسے گھسیٹ کر اس طرح احاطے تک لایا جاتا کہ ان کا تنا اندر کی طرف اور کانٹے دار شاخیں باہر کو رہتی تھیں۔ اس طرح دائرہ جب پورا ہوتا تو یہ درخت ایک دوسرے کے ساتھ ایسے گُتھ جاتے کہ محض ہاتھی یا گینڈا اس سے گزر سکتے تھے۔
سو اس احاطے کے باہر ببر شیر چکر کاٹ رہا تھا جس کے بارے میرے ساتھیوں نے بتایا کہ وہ مردہ شیرنی کا ساتھی ہے اور وہ اس کی لاش سے ٹپکتے خون کی لکیر پر چلتا ہوا ہم تک آن پہنچا ہے۔ میرے ساتھیوں کا خیال تھا کہ یہ ببر شیر بدلہ لینے پر تُلا ہوا ہے اور اگرچہ وہ اس احاطے سے گزر نہیں سکتا تو جست لگا کر اوپر سے اندر آ سکتا ہے۔
دریائے ستیتی کے کنارے رات کا وقت ہمیشہ دلچسپ ہوتا ہے اور سورج غروب ہونے کے نصف گھنٹہ بعد سے بہت زیادہ جنگلی جانور نکل آتے ہیں اور یا تو پانی پینے یا پھر چارے کی تلاش میں پھرتے ہیں۔ جہاں سے پانی ہٹتا ہے تو وہاں چارہ اگ آتا ہے۔ ببر شیر بھی اسی مناسبت سے شکار پر نکلتے ہیں اور ان کی غراہٹیں ہر سمت سے سنائی دیتی ہیں۔ پو پھٹتے ہی سبھی جانور اپنی اپنی کمین گاہوں کو چلے جاتے ہیں۔
میرے لیے رات کے سکوت کو توڑتی ہوئی ببر شیر کی دھاڑ سے زیادہ خوبصورت کوئی آواز نہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے دور سے بادل گرج رہے ہوں۔ اس کی قوت سے زمین لرزتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
ہمارے شبینہ مہمان نے ساری رات ہمارے احاطے کے گرد چکر کاٹتے اور وقفے وقفے سے دھاڑ لگانے میں گزاری۔ روشنی اتنی نہیں تھی کہ اس کو دیکھ کر گولی چلائی جا سکے۔ ہمارا لااؤ کافی بڑا تھا اور مقامی افراد اس کو مستقل مشتعل کرتے اور اضافی لکڑیاں ڈالتے رہے۔ کبھی کبھی وہ جلتی ہوئی لکڑی ببر شیر کی سمت پھینک دیتے۔
آخرکار ہم مقامی افراد کو چوکیداری پر متعین کر کے سونے چلے گئے۔ ان لوگوں نے کہا تھا کہ وہ کسی قیمت پر نہیں سوئیں گے ورنہ ببر شیر ان میں سے کسی نہ کسی کو اٹھا لے جائے گا۔ ان کی توقع کے برعکس میں نے ہوا میں گولی چلا کر اسے بھگانے سے انکار کر دیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ دن کی روشنی میں اس کا شکار کروں گا۔
اگلی صبح اٹھے تو ببر شیر کے پگ ہمارے احاطے کے گرد نرم ریت پر بخوبی دکھائی دے رہے تھے۔ میرا خیال تھا کہ وہ یہاں سے زیادہ دور نہ ہوگا۔ سو میں نے اپنے ساتھ بہترین شکاری لیے اور خود ہلکی ایک نالی رائفل کی بجائے اعشاریہ ۵۷۷ کی رائفل اٹھائی۔
ہمارے کیمپ کا مقام شکار کے اعتبار سے بہترین تھا۔ دریا ہمارے کیمپ کے گرد مڑتا تھا اور برسہا برس سے یہاں زرخیز مٹی لاتا رہا تھا جو کئی سو ایکڑ تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس میں جگہ جگہ بیروں کے جنگل اور دیگر درختوں کے جھنڈ تھے اور درمیان میں عمدہ گھاس اگی ہوئی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ رات والا ببر شیر یہیں کہیں چھپا ہوا ہوگا۔ سو میں نے سارا دن اسی کی تلاش میں وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔ میرے ہمراہی دل و جان سے متفق تھے کہ وہ اس ببر شیر کی موجودگی میں ایک اور رت جگے کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔
قسمت ہمارے خلاف تھی۔ سارا دن مجھے دیگر جانوروں کے شکار کے بہترین مواقع ملتے رہے مگر میں نے ببر شیر کا ہی قصد جاری رکھا مگر وہ نہ مل سکا۔
گھنی جھاڑیوں میں راستہ بناتے، ان کے نیچے سے رینگ کر گزرتے ہوئے مجھے بے شمار کانٹے لگے اور ہم نے اس علاقے کا چپہ چپہ چھان مارا مگر ناکام رہے۔ شدید گرمی کے باوجود ہم لوگ علی الصبح سے غروبِ آفتاب سے ایک گھنٹہ قبل تک سرگرداں رہے اور آرام بھی نہ کیا۔ مگر اس مقام پر ببر شیروں کے پگ ہر سمت بکھرے ہوئے تھے اور شیر بذاتِ خود دکھائی نہ دیا۔ چونکہ واپسی کا وقت ہو چکا تھا، سو ہم کیمپ کو روانہ ہوئے اور میں سب سے آگے تھا۔ اس جگہ چھدری جھاڑیاں اور ریتلے میدان تھے جو زیادہ بڑے نہ تھے۔ سب کی شکل ایک جیسی تھی، یہ کہنا مشکل تھا کہ آیا دن کے وقت ہم یہاں سے گزرے تھے یا نہیں۔ کئی جگہوں پر ہمیں اپنے پیروں کے نشانات ملے اور اس طرح لاپرواہی سے چلتے ہوئے ہم اپنی ناکامی پر مایوس جا رہے تھے۔
ابھی ہم کیمپ سے نصف میل دور تھے کہ بیر کی ایک چھوٹی جھاڑی سے نکلتے ہوئے مجھے اپنے سامنے ایک بڑا ایال دار ببر شیر دکھائی دیا جو کھڑا ہو رہا تھا۔ شاید وہ اونگھ رہا تھا کہ ہماری آمد سے خبردار ہوا۔ میں نے فوراً گولی چلا دی اور زودار دھاڑیں لگاتا ہوا وہ بیر کی جھاڑیوں کے نیچے لوٹنے لگا۔ اس وقت تک اندھیرا چھانے لگا تھا۔ میں نے ہر ممکن تیزی سے دوسری گولی بھی چلا دی اور شیر لوٹنیاں کھاتے ہوئے وہ اپنی پچھلی ٹانگیں اس طرح گھسیٹ رہا تھا کہ مجھے یقین ہو گیا کہ اس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہوگی۔ اندھیرا اتنا ہوگیا تھا کہ ببر شیر جس ناقابلِ عبور جھاڑی میں غائب ہوا، وہاں وہ ہم سے چند فٹ دور ہوتے ہوئے بھی دکھائی نہ دیا۔ رائفل کو دوبارہ بھر کر میں نے کوئی حل سوچنے کی کوشش کی۔ پھر جب اس جھاڑی کا معائنہ کیا تو علم ہوا کہ یہ ہر طرف سے ریتلے میدانوں سے گھری ہوئی ہے۔ مجھے یقین تھا کہ اس محفوظ پناہ گاہ سے ببر شیر کبھی نہ نکلے اور واحد حل یہ دکھائی دیا کہ یا تو میں اندر گھس کر اسے ختم کروں یا وہ مجھے پھاڑ کھائے۔ پھر عقل نے سمجھایا کہ اگر ببر شیر چلنے کے قابل نہیں ہے تو اگلے روز بھی وہ وہیں ملے گا۔س
ہم کیمپ کو واپس لوٹے اور رات سکون سے گزری۔ اگلے روز سورج نکلتے ہی ہم اس جگہ پہنچے اور دیکھا کہ ببر شیر ابھی تک زندہ تھا مگر اس کا پچھلا دھڑ حرکت کرنے سے قاصر تھا۔ ماتھے میں ایک گولی نے اس کی مشکل آسان کر دی۔ دس بندوں نے مل کر زور لگایا اور شیر کی لاش کو تین مضبوط ڈنڈوں کی مدد سے بیٹھے ہوئے اونٹ کی پشت پر لادا۔
میرے پاس اس شیر کا وزن کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا مگر یہ بہت بھاری شیر تھا اور مجھے یقین ہے کہ ۵۰۰ پاؤنڈ سے زیادہ وزن کا حامل رہا ہوگا۔
ببر شیروں کے بارے لکھے ہوئے مواد میں اتنا فرق موجود ہے کہ افریقہ کے ایک حصے میں جو چیز معمول سمجھی جاتی ہے تو دوسری جگہ انتہائی غیر معمولی سمجھی جاتی ہوگی۔ بےشک اس جانور کے کردار کا انحصار اس کے آس پاس کے علاقے پر بھی ہوتا ہے اور اسی وجہ سے ببر شیر کے کردار کے بارے جامع مضمون لکھنا جو پوری دنیا کے ببر شیروں کا احاطہ کرتا ہو، بہت دشوار کام ہے۔ رولینڈ گورڈن کمنگ نے اپنے کیمپ پر ببر شیر کے حملے کا ذکر کیا ہے کہ کیسے ببر شیر نے جست لگا کر خاردار باڑ عبور کی اور الاؤ کے پاس کمبل تلے سوئے ہوئے ایک مزدور کو منہ میں دبوچ کر نکل گیا اور تاریکی میں پاس ہی بیٹھ کر ایک ٹانگ کے سوا باقی سب کچھ ہڑپ کر گیا۔ گھٹنے سے یہ ٹانگ کٹی ہوئی تھی اور اگلے روز ملی۔ اسی کمبل تلے سوئے ہوئے دوسرے بندے نے بہت ہمت دکھائی اور الاؤ سے جلتی ہوئی لکڑی نکال کر شیر کے سر پر مارنا شروع کر دی تاکہ اپنے دوست کو بچا سکے۔ مگر شیر احاطے سے نکلا اور اتنے قریب بیٹھ کر کھانے لگا کہ ساری رات ہڈیاں چبانے کی آوازیں آتی رہیں۔
پرانی کتب میں درج ہے کہ جنوبی افریقہ میں ببر شیروں کا ویگن کے بیلوں پر حملہ کرنا عام سی بات ہے۔ تاہم میں افریقہ میں نو سال کیمپوں میں رہا اور خطِ استوا اور اس سے شمال میں ۱۴ ڈگری تک قیام کے باوجود میں نے کبھی ایسا نہیں سنا کہ ببر شیر کسی کیمپ پر حملہ کر کے بیلوں کو لے گئے ہوں۔ مندرجہ بالا واحد واقعہ ہے کہ ببر شیر ہمارے کیمپ کے قریب آیا تھا۔
اگر انسان نقصان پہنچانے کی نیت سے آ رہا ہو تو تمام جنگلی جانوروں کی حس انہیں بتا دیتی ہے اور واقعات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ میرا ذاتی تجربہ بتاتا ہے کہ شیر کی نسبت ببر شیر اتنا خطرناک نہیں ہوتا۔ ببر شیر زخمی ہونے کے بعد تعاقب کرنے پر بھی بہت زیادہ خطرناک نہیں ہوتا۔
بہت بار میں خالی ہاتھ تھا اور ببر شیروں کو قریب سے گزرتے دیکھا۔ ایک بار میں نے انتہائی دور افتادہ راستے پر گھوڑے پر جا رہا تھا اور ایک شیرنی اور اس کے پانچ تقریباً جوان بچے جنگل سے نکلے اور میرے گھوڑے کے آگے سے چند گز کے فاصلے سے گزری۔ نہ تو اس نے کوئی خوف کا اظہار کیا اور نہ ہی ہم پر بری نگاہ ڈالی۔ ایک بار طویل سفر کے بعد ہم ایک بڑے درخت کے نیچے رکے جہاں میں خیمہ لگانا چاہ رہا تھا۔ میں نے ملازم کو رائفل تھمائی جو اس نے درخت سے ٹکا دی۔ میں گھوڑے سے اترنے لگا تو جھاڑیوں سے شیرنی نکلی اور لاتعلقانہ انداز سے چلتی ہوئی ہمارے گھوڑوں سے چند فٹ کے فاصلے سے گزری۔ یکساں رفتار سے چلتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
ایک بار میں نے گھاس میں آگ لگائی جس کے بعد وہ میدان بالکل صاف ہو گیا۔ رات کو چاندنی تھی اور میں اپنے خیمے کے دروازے پر کھڑا تھا کہ اچانک ایک بڑا ببر شیر مجھ سے دس یا بارہ گز کے فاصلے سے گزرا۔ اس نے میرا سفید خیمہ دیکھا تو چند لمحے رکا اور پھر آہستہ آہستہ چل پڑا۔ میں جتنی میں رائفل اٹھا کر واپس لوٹا، وہ جا چکا تھا۔
ایک بار زخمی ببر شیر نے اکیلے شکاری کا سامنا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ شاید عام شیر بھی ایسا ہی کرتا، مگر شیر کے ساتھ ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے۔ اُس روز میں کسی بڑے ہرن کی تلاش میں نکلا ہوا تھا کہ کیمپ کے لیے گوشت آ سکے۔ میرے ساتھ ایک عرب حمران شکاری تھا جس کے پاس روایتی تلوار اور ڈھال تھی۔ چونکہ مجھے چھوٹے بور کی دو چکروں والی ایک نالی رائفل کے نشانے پر پوری طرح اعتبار تھا، اس لیے میں نے دوسری کوئی رائفل نہیں اٹھائی۔ ہم احتیاط سے جنگل میں جا رہے تھے اور امید تھی کہ کسی وقت بھی ہرن دکھائی دے سکتے ہیں۔ نصف میل دور ہم ایک تنگ سے قطعے کو جا پہنچے جو اسی گز لمبا ہوگا۔ اس کے اردگرد خوب گھنی جھاڑیاں تھیں۔ اس اکیلے قطعے میں بہت بڑا ببر شیر چھاؤں میں لیٹا تھا۔ اس کا فاصلہ ہم سے ۷۰ گز ہوگا اور وہ بیری کے جھنڈ کے بالکل قریب تھا۔
ہماری آہٹ سن کر وہ شاہانہ انداز سے اٹھا اور ابھی کھڑا سوچ ہی رہا تھا کہ میں نے اس پر گولی چلائی جو اس کے شانے پر لگی۔ دھاڑتے ہوئے اس نے لوٹنیاں لگائیں اور بیر کے نیچے گھس گیا۔
اگر میرے پاس دو نالی رائفل ہوتی تو میں دوسری گولی بھی چلا دیتا مگر یہ پرانے دور کی مزل لوڈر رائفل تھی جس کے بھرنے پر وقت لگتا تھا۔ جیسا کہ عجلت کے وقت ہوتا ہے، گولی اندر ڈالتے وقت پھنس گئی۔
اسی الجھن میں دیکھیے کہ میرے ساتھی عرب نے اپنی تلوار نکالی اور ڈھال لہراتا ہوا شیر کی طرف چل پڑا۔ اس طرح اکیلے چلتے ہوئے یہ نڈر بندہ ببر شیر سے چند گز دور تک پہنچ گیا۔ حملے کی بجائے ببر شیر نے دبک کر اس کو دیکھا اور کانٹوں میں گھس کر ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا اور پھر کبھی دکھائی نہ دیا۔ بعد میں عرب نے مجھے بتایا کہ اس نے ببر شیر کی توجہ بتانے کے لیے ایسا کیا تھا تاکہ مجھے گولی بھرنے کا موقع مل جائے۔
میں پہلے بھی یہ بات زور دے کر کہہ چکا ہوں کہ کبھی بھی اپنے دشمن کو کمتر نہیں سمجھنا چاہیے اور اگرچہ ببر شیر عام شیر کی نسبت کم خطرناک ہوتا ہے، مگر اسے ہمیشہ خطرناک سمجھنا چاہیے۔ خطرناک شکار میں انسان غلطی کر جاتا ہے۔ میرا دوست کرنل ناکس تجربہ کار اور نڈر شکاری تھا اور اس واقعے کی مناسبت سے یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے بے احتیاطی کی ہوگی۔ تاہم وہ شیرنی کے ہاتھوں مرتے مرتے بچا۔ اس نے شیرنی پر گولی چلائی جو وہیں گر کر لیٹ گئی جیسے مر چکی ہو۔ اکیلا ہونے کی وجہ سے اس نے کیمپ کا رخ کیا تاکہ دیگر ساتھیوں کو ساتھ لا کر شیرنی کی لاش اٹھوائے۔ جب یہ سب واپس گئے تو شیرنی اسی طرح پڑی ہوئی تھی۔اس نے یہی سوچا کہ شیرنی مر کر اکڑ چکی ہے مگر جونہی وہ لاش کے قریب پہنچاتو شیرنی نے اٹھ کر اسے گرا لیا۔اگر اس کے ساتھی مدد نہ کرتے تو وہ مارا جاتا۔ اس نے شیرنی کو تو مار لیا مگر خود بھی کافی زخمی ہوا اور صحت یابی پر کافی وقت لگا۔
اس طرح کے بے شمار واقعات ملتے ہیں جن میں ببر شیروں نے بہت زیادہ نقصان پہنچائے۔ بہت سارے واقعات میں ایسا بھی ہوا کہ ببر شیروں نے بزدلی اور پسپائی اختیار کی۔ تاہم جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ایک ہی اصول کسی نوع کے تمام تر جانوروں پر لاگو نہیں ہو سکتا۔ وسطی افریقہ کے مقامی افراد بہت عمدہ شکاری ہوتے ہیں اور جب تک ببر شیر پر حملہ نہ کیا جائے، اس پر توجہ نہیں دیتے۔ تاہم اس کے شکار کے دوران وہ اس کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ ایک بار افریقہ میں بہت بڑے شکار کے دوران ایک ببر شیر جب جال میں جا پھنسا تو اس نے پانچ بندوں کو زخمی کیا اور نیزوں کی بارش کے باوجود بچ کر نکل گیا۔
ببر شیروں کے بارے بے شمار داستانیں موجود ہیں اور اگر انہیں جمع کیا جائے تو کئی جلدیں بن جائیں گی تاہم چند مثالیں پیش کرنے کا میرا مقصد یہ ہے کہ میں اپنے ذاتی تجربے کے مطابق اس جانور کے مختلف رویوں کی وضاحت کر سکوں کہ اس نوع کے بارے کوئی ایک اصول نہیں ہو سکتا جو پوری نوع پر لاگو ہو سکے۔
وسطی افریقہ میں شکار کے طریقے جو اپنائے جاتے ہیں، وہ ہندوستانی طریقوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں شیر کا شکار ہاتھی پر بیٹھ کر یا مچان سے کیا جاتا ہے۔ راجپوتانہ میں شیر کا شکار اکثر پیدل کیا جاتا ہے اور اس میں اکثر جگہوں پر کھائیاں اور چٹانیں اور عمودی کناروں والے نالے پائے جاتے ہیں جو شکاری کے لیے تحفظ کا سبب بنتے ہیں۔
وسطی افریقہ میں موسم اور چارہ اس نوعیت کے ہیں کہ شکاری کو جلد ہی علم ہو جاتا ہے کہ اس کو اپنی ٹانگوں پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔ اس لیے نشانے کی درستگی انتہائی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ انسان بھاگ کر اپنی جان نہیں بچا سکتا۔ہم سب اپنی عادات اور روایات کے پابند ہوتے ہیں اور جب مچان سے شیر کا شکار کرنے کے بعد افریقہ پہنچتے ہیں تو علم ہوتا ہے کہ ہمیں اب پیدل رہ کر ببر شیر کا شکار کرنا پڑے گا اور اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ افریقہ اور سائیلون میں شکار کے دوران شکاری زمین پر کھڑا ہو کر شکار کرتا ہے اور جلد ہی اسے جانور کے حملے کا کوئی ڈر نہیں رہتا کہ اسے اپنی رائفل کے نشانے کی درستگی اور طاقت پر پورا بھروسہ ہوتا ہے۔ تاہم جب یہی شکاری مسلسل مچانوں اور ہاتھی پر سوار ہو کر شکار کرنے کا عادی ہو جائے اور اسے کسی زخمی شیر یا ببر شیر کا پیدل تعاقب کرنا پڑے تو ایک دم جھجھک جائے گا۔ میں نے زخمی ببر شیروں کا پیچھاہمیشہ پیدل رہتے ہوئے کیا ہے۔
حمران عرب گھوڑوں پر سوار ہو کر ببر شیروں کا شکار کرتے ہیں اور عموماً دو یا تین شکاری ہوتے ہیں اور تعاقب کرتے ہوئے اپنی بھاری اور چوڑی تلوار سے ببر شیر کی ریڑھ کی ہڈی کاٹ دیتے ہیں۔
وسطی افریقہ کے مقامی باشندے کبھی بھی بطورِ خاص ببر شیر کا شکار نہیں کرتے۔ تاہم عام شکار کے دوران اگر ببر شیر دکھائی دے جائے تو اس پر تیروں یا نیزوں سے حملہ کر دیتے ہیں۔
اکثر مقامی شکاری بہت نڈر ہوتے ہیں اور نیزے اور ڈھال کو اٹھائے ببر شیر پر حملہ کر دیں گے اور اگر ڈھال نہ بھی ہو تو بھی حملہ کرنے سے نہیں کتراتے اور انہیں ہنگامی صورتحال میں اپنے ساتھیوں کی مدد پر کامل اعتبار ہوتا ہے۔ ایک بار میں نے اعشاریہ ۵۷۷ کی رائفل سے شیرنی کے سینے پر گولی چلائی جو اسے زخمی کر گئی کیونکہ اس میں محض دو ڈرام بارود ڈالا گیا تھا۔ اس نے زخمی ہو کر چند مربع گز رقبے کی گھاس میں پناہ لی اور دکھائی نہ دے رہی تھی۔ میرے تینوں مقامی ساتھیوں نے کہا کہ وہ آگے بڑھ کر اسے نیزوں سے شکار کرتے ہیں مگر میں رائفل اٹھائے ان کی مدد کو تیاررہوں مبادا کہ ان کا نشانہ خطا ہو جائے اور شیرنی نکل آئے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مقامی افراد کو ہمارے اسلحے پر کتنا اعتبار ہے۔ تاہم میں نے یہ تجویز نرمی سے مسترد کر دی کہ خطرناک تھی۔ میں نے مقامی ساتھیوں کو سات فٹ اونچی دیمک کی بمیٹھی پر چڑھا دیا اور کہا کہ وہ شیرنی کو دیکھنے کی کوشش کریں۔ شیرنی زرد گھاس میں لیٹی تھی اور اس کی درست حالت کا علم نہیں ہو سکا۔ میں نے انہیں کہا کہ وہ اس مقام کو توجہ سے دیکھتے رہیں اور اگر شیرنی حملہ کرے تو نیزے ماریں۔ میرا ارادہ تھا کہ میں اس گھاس میں اندازے سے گولی چلاؤں گا۔ لیفٹیننٹ بیکر کو میں نے اپنے دائیں جانب کھڑا کیا اور اسے بھی ہدایت کی کہ شیرنی کو دیکھتے ہی گولی چلا دے۔ پھر میں آگے بڑھا اور گھاس سے بیس گز کے فاصلے پر جا کر رکا اور اندازے سے اس جگہ گولی چلا دی جہاں شیرنی کے ہونے کا امکان تھا۔ اس کا فوری نتیجہ نکلا۔
رائفل چلتے ہی شیرنی نے زوردار دھاڑ لگائی اور سیدھا مجھ پر حملہ آور ہوئی کہ میں سب سے قریب کھڑا تھا۔ میں نے بائیں نال کو اس کے سینے پر چلایا مگر گولی میں زیادہ اندر تک گھسنے کی صلاحیت نہ تھی (یہ پہلا اور آخری موقع تھا کہ میں نے کھوکھلی گولی استعمال کی تھی)۔ مقامیوں نے نیزے مارے مگر شیرنی اپنی رفتار کی وجہ سے بچ نکلی۔ لیفٹیننٹ بیکر نے اپنی اعشاریہ ۷۰ بور کی رائفل سے باری باری دونوں نالیاں چلائیں جو اسے لگیں مگر زیادہ فرق نہ پڑا۔ سبھی نے مڑ کر دوڑ لگا دی اور شیرنی ہم سے چند فٹ کےفاصلے سے تعاقب کر رہی تھی۔ لیفٹیننٹ بیکر کا مقامی ملازم اس کی اضافی بندوق لیے میرے قریب سے گزرا تو میں اس کے ہاتھوں سے بندوق چھین کر مڑا اور شیرنی کے سینے پر گولی چلا دی۔ یہ بارہ بور کی عام بندوق تھی جس میں گول شکل کی گولی اور چار ڈرام بارود استعمال ہوا تھا۔ شیرنی وہیں گری مگر فوراً اٹھ کر گھاس میں چھپ گئی۔ ہم سب واپس اپنے اپنے مقامات کو لوٹے مگر مجھے علم تھا کہ آخری گولی جلد ہی مہلک ثابت ہوگی۔
مقامیوں نے اپنے نیزے اٹھائے اور ہم نے اپنی رائفلیں بھریں۔ اچانک دیمک کی بمیٹھی پر چڑھے ایک مقامی شخص کو مجھ سے آٹھ گز دور شیرنی دکھائی دی۔ میں نے جب غور کیا تو دیکھا کہ شیرنی کے سر کا پچھلا حصہ اور گردن دکھائی دے رہی تھی۔ شیرنی دوسری جانب دیکھ رہی تھی۔ میں نے اس کی گُدی میں گولی اتار دی اور اس طرح یہ بہادر شیرنی ہلاک ہوئی۔
چونکہ شیرنی کو اٹھا کر لے جانا ممکن نہ تھا، سو ہم نے وہیں کھال اتاری اور جب اس کا معدہ چیرا گیا تو اس میں ہرن کے ایک بچے کے حصے ملے۔ بظاہر شیرنی نے چند گھنٹے قبل ہی اسے کھایا تھا۔ جب ہم نے یہ حصہ ایک ساتھ رکھے تو پورا بچہ بن گیا۔ میرے ساتھیوں نے فوراً آگ جلائی اور گوشت کو بھون کر کھانے لگے۔ یہ ان کی فتح کا جشن تھا۔۔ ہم نے رسی کی مدد سے شیرنی کی لمبائی ماپی جو ناک سے لے کر دم سمیت ساڑھے نو فٹ بنی۔
میں ببر شیروں کے بارے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گاتاہم ان کی پرسکون اور شاندار شخصیت، ان کی عظیم طاقت، قوتِ اظہار اور قوتِ فیصلہ واضح کرتی ہے کہ برطانیہ جیسی عظیم طاقت نے اسے کیوں اپنا قومی نشان بنایا۔
میں اس کی چھوٹی اقسام پر بات نہیں کرنا چاہتا، تاہم میں نے دو بار ہندوستان کے ببر شیروں کو دیکھا ہے۔ ان کی رنگت پوما جیسی ہوتی ہے، نسبتاً لمبی ٹانگیں، کانوں کے سروں پر کالے بالوں کے گچھے اسے سیاہ گوش سے زیادہ مماثل بناتے ہیں۔ میرے پاس ہندوستانی ببر شیر کی ایک کھال ہے جو میں نے صوبجاتِ متحدہ میں۱۸۸۸ میں شکار کیا تھا ۔
بلی کا پورا خاندان، ببر شیر سے لے کر عام بلی تک، سب کے دانتوں کی تعداد ایک جیسی ہے۔ چھ کاٹنے والے دانت، چھ سامنے والے دانت اور دو لمبے دانت فی جبڑا ہوتے ہیں۔ زبان کھردری ہوتی ہے کہ اس کی مدد سے گوشت کو چاٹتے ہوئے ہڈی سے الگ کیا جا سکتا ہے ۔
ببر شیر کی دم کے سرے پر ایک کانٹا سا ہوتا ہے جہاں دم اچانک نوکیلی ہو کر ختم ہو جاتی ہے۔ یہاں کالے بالوں کا ایک گچھا اسے چھپائے رہتا ہے۔
باب ۱۰
ریچھ
تاریخ کے قدیم ترین جانوروں میں سے ایک ریچھ بھی ہے جو ببر شیر کی نسبت انسانی دستبرد سے زیادہ بچتا آیا ہے۔
بچاؤ کی ایک اہم وجہ ریچھ کی عادات بھی ہو سکتی ہیں کیونکہ درندوں کے برعکس ریچھ مویشیوں اور انسانوں کو عام طور پر کوئی نقصان نہیں پہنچاتا۔ تاہم جب اس کا شکار کیا جائے تو یہ خطرناک ثابت ہوتا ہے اور اکثر بغیر وجہ کے بھی انسان پر حملہ کر بیٹھتا ہے۔
زیادہ تر جانوروں کی فطرت کا اندازہ ان کے دانتوں سے لگایا جا سکتا ہے اور ریچھ کے دانتوں سے اس کے ہمہ خور ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ اوپری جبڑے میں ۱۲ مولر، ۲ کینائن اور چھ کاٹنے والے ہوتے ہیں۔ نچلے جبڑے میں ۱۴ مولر، ۴ کینائن اور چھ کاٹنے والے ہوتے ہیں۔
ریچھ کی اتنی زیادہ اقسام پائی جاتی ہیں کہ بطور نوع ان کی خوراک متعین کرنا ممکن نہیں۔
قطبی ریچھ جو سیل اور مچھلیوں پر زندہ رہتا ہے، باقی سب اقسام سے فرق ہے۔ گرزلی ریچھ مغربی امریکہ میں پایا جاتا ہےا ور موقع ملنے پر گوشت بھی کھاتا ہے اور عام طور پر اس کی خوراک میں بیریاں اور جڑیں ہوتی ہیں۔ لگ بھگ سبھی ریچھ حشرات کے علاوہ نباتات کھاتے ہیں اور جب بھی موقع مل جائے تو گوشت بھی کھا لیتے ہیں۔ تاہم یہ زندہ جانور کو مار کر نہیں کھاتے۔
ہندوستان کا کالا ریچھ اس سے فرق ہے کہ وہ گوشت نہیں کھاتا اور پھل، بیریاں، مخصوص درختوں کے پتے، جڑیں، حشرات اور دیمک کھاتا ہے۔ دیمک اس کی پسندیدہ خوراک ہے اور اس کی خاطر زمین میں دو یا تین فٹ گہرا گڑھا بھی کھود لیتا ہے۔
ریچھ کے مولر انسان سے مشابہہ ہوتے ہیں اور خوراک کو چبانے کے کام آتے ہیں۔ناک سے تھوتھنی کا کام لیتا ہےا ور زمین پر موجود پتھروں کو الٹ کر ان کے نیچے سے حشرات، کیڑے، کینچوے، گھونگھے اور ہر چیز کو کھا جاتا ہے۔ ریچھ کو کسی بھی خوراک سے انکار نہیں۔
اگلے پنجوں کے ناخن تین سے چار انچ لمبے اور کھدائی میں بہت کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ کدال کی مانند استعمال کرتے ہوئے یہ ان پنجوں سے زمین کھودتا ہے۔ایسی جگہوں پر سخت کنارے پر ہمیں ریچھ کے پنجوں کے نشان ایسے ثبت ملتےہ یں کہ ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ اتنی سخت مشقت کے باوجود بھی ریچھ کو محض اتنی دیمک ملی ہوگی کہ چند لقمے بن سکیں۔
مجھے ریچھ کا انگریزی نام سلاتھ بیئر کبھی پسند نہیں آیا کہ یہ جانور خوراک کی تلاش میں سارا سال متحرک رہتا ہےا ور کبھی سرمائی نیند نہیں لیتا کہ یہ استوائی علاقوں کا باشندہ ہے۔ یہ نوع بہت متحرک ہوتی ہے اور کبھی گوشت نہیں کھاتی۔ مگر انسان پر بلا وجہ اکثر حملہ آور ہو جاتا ہے جو اس کے غصے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
پوری طرح جوان ریچھ کا وزن ۲۸۰ سے ۳۰۰ پاؤنڈ تک ہوتا ہے اور اس کی کھال بہت سخت اور موٹی۔ بال لمبے اور موٹے ہوتے ہیں اور کمر پر وسط میں گچھے کی شکل میں ان کی لمبائی سات انچ سے زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس کی کھال پر سمور نہیں ہوتی، اسی وجہ سے تجارتی اعتبار سے اس کی کھال کی کوئی اہمیت نہیں۔ سینے پر گھوڑے کے نعل یا انگریزی کے حرف وی کی شکل کا نشان ہوتا ہے جو سفید یا زردی مائل ہوتا ہے اور جب ریچھ حملہ کرنے کے لیے پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو تو اس نشان کے وسط میں گولی چلائی جاتی ہے۔
اس کی اگلی اور پچھلی ٹانگوں پر پانچ پانچ ناخن ہوتے ہیں۔ انہیں ہتھیلی میں چھپایا نہیں جا سکتا اور بلی کے خاندان کی طرح تیزیا بہت زیادہ مڑے ہوئے بھی نہیں ہوتے مگر ان سے لگنے والے زخم بہت بھیانک ہوتے ہیں۔ اگر کسی انسان کا سر ریچھ کے چنگل میں پھنس جائے تو عام طور پر سر کی کھال مکمل طور پر اتر جاتی ہے۔ ایک سے زیادہ واقعات کا مجھے علم ہے کہ جن میں ریچھ نے سر کی کھال کو گدی سے لے کر ماتھے تک ایسے چھیل دیا جیسے اس انسان کے سر پر وگ رکھی ہو۔
ریچھ کے ایک وقت میں مشکل سے ہی دو یا تین سے زیادہ بچے پیدا ہوتے ہیں اور پیدائش کے وقت انتہائی بدصورت ہوتے ہیں۔ تاہم ان کے ناخن، بازو اور ٹانگیں انتہائی طاقتور ہوتی ہیں۔ میں نے چھ ہفتے کی عمر کے ایک بچے کو دیکھا کہ اسے ٹوکری میں ڈالا گیا اور جب ٹوکری کو الٹا کر زور زور سے جھٹکے دیے گئے تو بھی بچہ باہر نہ نکلا۔
ریچھ کی بہت ساری اقسام درختوں پر چڑھنے کی عادی ہوتی ہیں مگر کئی اقسام ایسی بھی ہیں جو زمین پر ہی رہتی ہیں اور درخت پر نہیں چڑھ سکتیں۔ گرزلی ریچھ ایسے ہی ہوتے ہیں کہ ان کا وزن بہت زیادہ ہوتا ہے اور انہیں درخت پر چڑھنے سے قبل اس کی شاخوں کی مضبوطی کا اندازہ پہلے سے ہی لگانا پڑے گا۔ میرا نہیں خیال کہ آج تک کسی انسان نے گرزلی ریچھ کا وزن کیا ہوگا مگر جب اس کا مقابلہ قطبی ریچھ سے کیا جاتا ہے تو کچھ اندازہ ہو سکتا ہے کہ قطبی ریچھ نسبتاً کچھ زیادہ وزنی ہوتا ہے۔ جب میں کیلیفورنیا میں تھا تو مجھے ایک تجربہ کار بندے نے بتایا کہ لارڈ کوک واحد برطانوی ہے جس نے کیلیفورنیا میں اصل گرزلی شکار کیا تھا۔ راکی پہاڑوں میں ریچھ کی تین یا چار اقسام رہتی ہیں اور انہیں غلطی سے گرزلی کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی عادات اور مسکن ایک جیسے ہوتے ہیں اور میرے خیال میں گرزلی کا وزن ۱٫۲۰۰ سے ۱٫۴۰۰ پاؤنڈ تک ہوتا ہے۔
مسٹر لاموں نے اپنی کتاب Yachting in the Arctic Sea میں تمام قطبی جانوروں کے شکار کے بارے بہترین معلومات مہیا کی ہیں اور اپنے بجرے کی وجہ سے وہ ان کی اکثریت کا وزن بھی کرتا تھا۔ اس نے اپنے شکار کردہ قطبی ریچھ کے بارے لکھا: ‘یہ اتنا بڑا اور بھاری تھا کہ ہمیں اس کو کسی والرس کی طرح گھسیٹ کر بجرے کو لے جانا پڑا۔ یہ بہت بڑا نر ریچھ تھا اور اس کی اونچائی آٹھ فٹ سے زیادہ تھی اور اتنا ہی موٹائی۔ اس کے شانوں کی چوڑائی چار فٹ تھی۔ بازوؤں کی موٹائی ۳۴ انچ اور بہت لمبے، تیز اور طاقتور ناخن تھے۔ اس کے بال خوبصورت، موٹے، لمبے اور سفید تھے اور اس کے پنجوں سے کئی انچ باہر کو نکلے ہوئے تھے۔ یہ بہت عمدہ حالت میں تھا اور اس سے لگ بھگ ۴۰۰ پاؤنڈ جتنی چربی نکلی۔ اس کی کھال کا وزن ۱۰۰ پاؤنڈ سے زیادہ تھا اور سارے ریچھ کا وزن کسی بھی طور ۱٫۶۰۰ پاؤنڈ سے کم نہ رہا ہوگا‘۔ یہ وزن برطانوی گھوڑا گاڑیوں کے بڑے گھوڑے کے برابر ہے۔ میں نے لاموں کے شکار کردہ ریچھوں میں سےایک کھال دیکھی ہے اور وزن کے حوالے سے اس کا بیان درست ہے۔ اس کے علاوہ میں نے الاسکا میں سر تھامس ہسکتھ کے مارے ہوئے گرزلی ریچھ کی کھال بھی دیکھی ہے۔ اس کھال کو مسٹر رولینڈ وارڈ نے محفوظ کیا تھا اور اس نے مجھے یہ کھال اپنی دکان ۱۶۰ پکاڈلی سٹریٹ میں دکھائی تھی۔ یہ کھال قطبی ریچھ کی کھال سے ہلکی سی کم درجے کی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ کیلیفورنیا میں مجھے دی گئی معلومات درست تھیں اور گرزلی کا وزن ۱٫۴۰۰ پاؤنڈ سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔نر کی جسامت مادہ سے زیادہ بڑی ہوتی ہے۔
دیگر جانوروں کی طرح ریچھ کی مادہ بھی اپنے بچوں سے بہت لگاؤ رکھتی ہے اور بچوں کے ساتھ اسے ہر چیز مشکوک دکھائی دیتی ہے۔
جوں جوں انسانی آبادی بڑھتی جا رہی ہے، مختلف ممالک میں انسان کے لیے خطرناک جانوروں کو صفحہ ہستی سے مٹایا جا رہا ہے۔ اسی وجہ سے ریچھ اور بھیڑیے برطانیہ سے غائب ہوگئے ہیں اور فرانس میں بھی ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
۳۵ سال قبل میں کوہ پائرینیس کے دور افتادہ مقام پر موسمِ سرما کے شروع ہوتے ہی ریچھوں کے شکار پر نکلا تھا۔ تاہم انتہائی بدقسمتی سے ایک لینڈ سلائیڈ کی وجہ سے درہ بند ہو گیا جو مطلوبہ وادی کو جاتا تھا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ ریچھ جلد ہی سرمائی نیند کے لیے چلے جائیں گے اور اس سے قبل پہلی برفباری کے بعد ان کے قدموں کے نشانات دکھائی دیں گے۔
اگلے روز میں کسی نہ کسی طرح مطلوبہ وادی میں پہنچ گیا مگر بدقسمتی سے میں ایک روز دیر سے پہنچا اور مائیر نے ایک روز قبل ہی ایک مادہ اور اس کے بچے کو شکار کیا تھااور میری معلومات درست نکلیں۔
میں نے تازہ شکار شدہ ریچھوں کی کھالیں دیکھیں اور ان کے پنجے کے گوشت کے شوربے سے پیٹ بھرا جو بہت عمدہ اور ذائقہ دار گوشت تھا۔
ریچھنی کی کھال سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ سال یا سوا سال کی عمر کے بچھڑے کے برابر رہی ہوگی۔ یہ یورپ کے عام بھورے ریچھ کی مثال تھی جو ابھی تک ٹرانسلوانیا، ہنگری، اٹلی اور ترکی میں موجود ہے۔ یہی قسم ایشیائے کوچک میں رہتی ہے اور یہ دونوں اقسام سردیوں کے آغاز میں سرمائی نیند سو جاتی ہے۔ ترکی کے علاقے سبانیا میں جنگلی پھلوں کے درختوں کو اسی قسم کے ریچھ کے پنجوں سے سخت نقصان پہنچتا ہے کہ ریچھ چیری، آلو بخارے، سیب، اخروٹ اور دیگر پھلوں کی تلاش میں ان پر چڑھتے ہیں۔ ریچھ بھاری جانور ہے اور بخوبی جانتا ہے کہ شاخوں کے سرے اس کا وزن نہیں سہار سکتے، اس لیے وہ مضبوط شاخ پر کھڑے ہو کر چھوٹی شاخوں کو پکڑ کر ان کے پھل کھاتا ہے۔ ریچھ جنگلوں میں عام پائے جاتے ہیں مگر خزاں کے اواخرمیں ان کا شکار آسانی سے ہو سکتا ہے کہ تب پھل پکنے والے ہوتے ہیں اور سیب اور دیگر میوے زمین پر گر رہے ہوتے ہیں۔ ان کو کھانے کے لیے ریچھ پہاڑوں سے نیچے اترتے ہیں اور شام گئے اور علی الصبح ان کا شکار ہو سکتا ہے۔
ایشیائے کوچک اور شام میں ریچھوں کی دو منفرد اقسام پائی جاتی ہیں۔ اگرچہ دونوں مقام آس پاس ہیں مگر ریچھ ایک ہی جگہ نہیں پائے جاتے۔ شامی ریچھ کی جسامت عام ریچھ سے چھوٹی اور وزن بمشکل ۳۰۰ پاؤنڈ تک ہوتا ہے۔ کھال عجیب سی اور بدرنگ ہوتی ہے۔ اس کا رنگ خاکستری مائل اور جگہ جگہ سفید چتیاں ہوتی ہیں۔ آج کل یہ ریچھ کوہ ہوریب پر ملتے ہیں اور مقامی افراد بتاتے ہیں کہ جب انگور پکنے والے ہوں تو ریچھوں سے بچانے کے لیے رات کو چوکیدار بندوقیں لے کر بیٹھتے ہیں۔
سرمائی نیند سونے والے تمام جانور اپنی نیند کے لیے ایسی جگہیں چنتے ہیں جو کسی کو دکھائی نہیں دیتیں اور وہ سکون سے سو سکتے ہیں۔
خزاں کے اواخر تک پھلوں اور میوہ جات سے ریچھ خوب موٹے ہو جاتے ہیں اور جب زمین پر برف کی موٹی تہہ جم جاتی ہے تو ریچھ پہاڑوں کے اوپر کسی مخصوص غار میں جا کر آرام سے سو جاتے ہیں اور وہاں شاذ ہی انسان پہنچتا ہے۔ غار کے اندر فرن اور دیگر گھاس اور پتے بچھا کر موٹا ریچھ ان پر گول مول سا ہو کر سو جاتا ہےا ور ساری سردیاں اسی طرح سوئے ہوئے گزارتا ہے۔ اس کے جسم کی چربی پگھلتی اور اس کو غذائیت مہیا کرتی ہے۔ اس کی چربی میں کاربن کی کافی مقدار ہوتی ہے جو اسے توانائی مہیا کرتی ہے۔
اگر خزاں کے ریچھ کی تصویر نومبر میں اتار کر اسی ریچھ کو مارچ میں بیدار ہوتے وقت دکھائی جائے تو شاید وہ خود کو بھی نہ پہچان سکے۔ ساری سردیاں اس نےا پنی چربی پر گزارا کیا ہوتا ہے اور جب باہر نکلتا ہے تو کونپلیں، پتے، جنگلی پودوں کی جڑیں (جو وہ اپنی قوتِ شامہ سے سونگھ نکالتا ہے) اور زمین پر رینگنے والے سبھی جانور بشمول کیڑے، گھونگھے، حشرات وغیرہ اس کی خوراک بنتے ہیں۔ پھر گرمیوں میں پھل پکنا شروع ہو جاتے ہیں اور تب تک ریچھ کی صحت بحال ہو چکی ہوتی ہے۔
فطرت کے سربستہ رازوں کا کھلنا ممکن نہیں اور مختلف جانور کس وجہ سےسرمائی نیند سوتے ہیں، کی اصل وجہ شاید ہمیشہ راز ہی رہے گی۔ تاہم میرا خیال یہ ہے کہ سرمائی نیند اس لیے ہوتی ہے کہ سردیوں میں خوراک کا حصول ناممکن ہو جاتا ہے۔ جسم میں اگر پانی پہنچتا رہے تو جسم کافی عرصہ تک زندہ رہ سکتا ہے۔ مگر اس کی شرط یہ ہے کہ وہ بغیر کسی مداخلت کے آرام کرتا رہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ ہماری ہر جسمانی حرکت پر طاقت خرچ ہوتی ہے جو جسم حرارت کی شکل میں پیدا کرتا ہے۔ وزن اٹھانے کا ہاتھ پیرکو حرکت دینے کے لیے ایک خاص مقدار حرارت خرچ ہوتی ہے جو طاقت کا خرچ ہوتا ہے اور اس کی کمی کو خوراک سے پورا کیا جاتا ہے۔ اگر خوراک نہ ہو اور حرکت نہ کی جائے تو حرارت نہیں ضائع ہوگی۔
نیند بھی ایک طرح سے ذریعہ ہے جس کے تحت جسم بھی آرام کرتا ہے اور دماغ بھی سکون کی حالت میں آ جاتا ہےا ور کم سے کم جسمانی زور لگتا ہے۔ بغیر خوراک اور محض پانی کے سہارے انسان ۴۰ روز تک زندہ رہ سکتے ہیں اور پھر پہلے چند روز کم خوراک کھا کر اور پھر عام خوراک کی مدد سے اپنے معمول کو لوٹ جاتے ہیں۔ افریقہ میں قحط کے دوران میں بہت مرتبہ بھوکا سویا ہوں اور اگلی صبح اٹھنے پر مجھے کوئی خاص بھوک نہیں لگتی تھی۔
متواتر نیند کی وجہ سے انسان کو زیادہ غذا کی ضرورت نہیں پڑتی اور میرا خیال ہے کہ سرمائی نیند جانوروں کی مجبوری ہوتی ہے۔ پھلوں کا موسم ختم ہو جاتا ہے اور زمین جم جاتی ہے اور اسے کھود کر جڑیں وغیرہ نکالنا ممکن نہیں رہتا۔ سو پھلوں اور جڑوں پر زندہ رہنے والے جانور کے لیے دو ہی راستے ہوتے ہیں، یا تو بھوک سے مر جائے یا پھر سو جائے۔ نیند دراصل فاقے کا پہلا مرحلہ ہے۔ سو سردیوں کے چار ماہ جو جانور سو کر گزارتا ہے، وہ اپنے جسم میں محفوظ چربی پر زندہ رہتا ہے اور یہ چربی یا کاربن اسے چار ماہ زندہ رکھتی ہے۔ اگر ایسا جانور چار ماہ کی نیند کے بعدا ٹھے اور پھر اسے فوراً دوبارہ سونا پڑے تو یہ جانور زندہ نہیں بچے گا۔
میرا یہ نظریہ ہے کہ خوب موٹا جانور جانتا ہے کہ اب اسے خوراک ملنا بند ہو جائے گی اور وہ سو جاتا ہےا ور اس دوران اس کے جسم میں موجود چربی اسے زندہ رکھتی ہے۔ جب بہار میں ریچھ بیدار ہوتا ہے تو ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا ہوتا ہے۔ اس کی کھال لٹک رہی ہوتی ہے۔ پھر نئے سرے سے خوراک کی تلاش میں جٹ جاتا ہے اور آخرکار اس کا جسم اپنے پرانے حجم پر پہنچ جاتا ہے۔
اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ استوائی ریچھ سرمائی نیند میں نہیں جاتے کیونکہ خطِ استوا میں حقیقی سردی ہوتی ہی نہیں۔ اس لیے وہ سارا سال اپنی خوراک تلاش کر کے پیٹ بھر سکتے ہیں۔
امریکہ میں سبھی جانور بہت بڑے حجم کے ہوتےہ یں۔ گرزلی کو اگر شمالی یورپ کے عام ریچھ کے ساتھ رکھ کر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کھال کا رنگ کچھ فرق ہے اور حجم میں بھی۔ میں نے جب وائیومنگ میں راکی پہاڑوں میں بگ ہارن کے علاقے میں پیشہ ور شکاریوں سے پوچھا تو کچھ نے وہاں کے سبھی ریچھوں کو گرزلی قرار دیا تو کچھ نے پیسیفک سلوپ کے ریچھوں کو ہی اصلی گرزلی کہا۔
سبھی امریکی ریچھ کو جونہی گوشت ملے، ہڑپ کر جاتے ہیں مگر بطورِ خاص جانوروں کو مار کر نہیں کھاتے۔ امریکہ میں ریچھ کے شکار کا عام طریقہ یہ ہے کہ کالی دم والے ہرن کو شکار کر کے اس کے جسم کو کہیں چھوڑ دیا جائے۔ اس طرح تین یا چار ہرن مار کر مختلف جگہوں پر چھوڑ دیے جاتے ہیں اور یہ ریچھ کے لیے گارے کا کام کرتے ہیں۔
اگلی صبح پو پھٹنے پر شکاری ان گاروں کو دیکھنے آتا ہے اور دیکھتا ہے کہ ریچھوں نے رات بھر خوب محنت کر کے گڑھے کھودے اور ہرن کی لاشیں ان میں ڈال کر اسے گھاس اور مٹی سے چھپا دیا ہوتا ہے یا چھپا رہے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ریچھ اپنا پیٹ بھر کے وہیں کہیں پڑ کر سو رہتا ہے۔ اس طرح ریچھ کا شکار آسانی سے ہو سکتا ہے۔
جب میں ۱۸۸۱ میں بگ ہارن رینج میں تھا تو کئی شکاری جماعتیں مجھ سے دو موسم قبل اتنا شکار کر گئی تھیں کہ ریچھ بہت محتاط اور گھبرا گئے تھے۔ میرے کیمپ سے ایک میل سے بھی کم فاصلے پر دو پیشہ ورشکاری تھے جو کھالیں جمع کرتے تھے۔ ان کے نام بِگ بِل اور باب سٹیورٹ تھے۔ بوب کو لٹل باب کہتے ہیں اور اس کا ساتھی بہت لمبا چوڑا۔ باب سکاٹش النسل تھا اور پانچ فٹ پانچ انچ جتنا قد، جسم دبلا پتلا اور انتہائی پھرتیلا تھا۔ ان پہاڑوں پر موجود ہر جانور کے بارے اس کو مکمل معلومات تھیں چاہے وہ کوئی حشرہ ہو یا پھر بہت بڑا جانور۔ اس کی معلومات مکمل تھیں۔ باب شکاری اور جانوروں کو پھانستا تھا اور سال کے مختلف موسموں میں مختلف طریقے آزماتا تھا۔ کبھی سرخ لومڑیوں اور اودبلاؤ کو پکڑتا تو کبھی ہرنوں کو گولی مار کر ان کی کھال اتارتا تھا۔ اس کی ظالمانہ اور فضول سرگرمیوں کے بارے میں آگے چل کر لکھوں گا۔
اس کے پاس اعشاریہ ۴۵۰ کی ایک نالی شارپس رائفل تھی اور اس کی گھوڑی انتہائی خوبصورت تھی اور شکار کے لیے بہترین تربیت یافتہ۔ زیادہ بڑی بھی نہیں تھی۔ لٹل باب اور اس کی چھوٹی گھوڑی بہترین منظر دکھائی دیتے تھے۔ ایک بار میں ساڑھے پانچ بجے شام کو کیمپ لوٹا تو سورج ڈھل چکا تھا اور پہاڑیوں پر ہماری سمت سائے گہرے ہونے لگ گئے تھے۔ چھ بجے تک روشنی مدھم ہو چکی تھی۔ اچانک اس غیرآباد علاقے میں ہم سے پندرہ گز کے فاصلے پر ایک سایہ سا دکھائی دیا۔ یہ باب تھا جو اپنی خوبصورت گھوڑی پر سوار تھا اور اپنے دن بھر کی محنت کے بعد شکار کردہ جانوروں کی کھالیں اٹھائے لوٹ رہا تھا۔ صبح آٹھ بجے سے وہ اکیلا شکار پر نکلا اور اس کی گھوڑی پر اب تین ریچھوں اور چار ہرنوں کی کھالیں تھیں جو اس نے خود شکار کر کے اتاریں اور پھر گھوڑی پر لاد کر لے جا رہا تھا۔
ایک مادہ اور اس کے دو چھوٹے بچوں کی کھالیں تھیں جو سلور ٹپ کہلاتے ہیں۔ وہ اس خاندان کو جنگل میں ملا اور اس نے پہلے ماں کو شانے کے درمیان گولی ماری۔ ریچھنی گری تو اس کے بچوں نے آپس میں لڑنا شروع کر دیا۔ اتنی دیر میں باب نے اپنی بریچ لوڈنگ رائفل سے دو اور گولیاں چلا کر انہیں بھی ٹھنڈا کر دیا۔
باب سے زیادہ کھال اتارنے کا ماہر میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ ہرن کی کھال اتنی سہولت سے اتارتا تھا جیسے ہم اپنے کپڑے اتارتے ہیں۔ اکیلا بندہ سات جانوروں کو تلاش کر کے، شکار کر کے اور پھر ان کی کھالیں اتار کر ایک ہی دن میں لے جا رہا تھا۔
بڑے ریچھ کی کھال پچاس پاؤنڈ وزنی ہوتی ہے اور بچوں کی پچیس پچیس پاؤنڈ ۔ یہ تینوں سو پاؤنڈ ہوئیں۔ ہرنوں کی چار کھالیں پچاس پاؤنڈ۔ گھوڑی اس وقت ڈیڑھ سو پاؤنڈ وزنی کھالیں اور باب کا وزن ۹ سٹون اٹھائے جا رہی تھی۔ یہ سارا وزن ۲۷۶ پاؤنڈ بنتا ہے، رائفل اور کارتوس الگ۔
یہ عجیب سرزمین تھی اور ہمارا کیمپ سطح سمندر سے ۱۰٫۰۰۰فٹ کی بلندی پر تھا۔ اگرچہ ہم گہری اور تنگ کھائی میں تھے اور یہاں قریب ہی شفاف پانی کی چھوٹی سی ندی بہہ رہی تھی۔
اس وادی کے دونوں جانب ۱٫۴۰۰ فٹ اونچی پہاڑیاں تھیں اور ابھی ستمبر کے مہینے میں بعض جگہوں پر برف دکھائی دے رہی تھی۔ پہاڑیوں کی دونوں جانب ڈھلوان تھیں اور صنوبر کے جنگلات اگے ہوئے تھے۔ جگہ جگہ گھاس اور سیج قسم کی جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔
ہمارا کیمپ بہت مختصر تھا اور سونے کے لیے سات فٹ لمبا اور سات فٹ چوڑا خیمہ تھا جس کی اونچائی پانچ فٹ آٹھ انچ تھی۔ اس کی دیواریں تو نہیں تھیں بلکہ درمیان میں ستون کے ساتھ خیمے کا کپڑا لٹکا ہوا تھا۔ یہ محض ایک تہہ کپڑا تھا اور راتیں بہت سرد تھیں۔ عورت کے لیے یہاں قیام کرنا کافی مشکل تھا کہ ہمارے ساتھی کبھی کسی کام کرنے کو خود سے تیار نہ ہوتے تھے۔ اگر انہیں آنے کا حکم دیا جائے تو آتے، جانے کا کہا جاتا تو چلے جاتے۔ مگر جتنا کام کہا جائے، اس سے زیادہ ہرگز نہ کرتے تھے۔ بگ ہارن رینج میں شکار ایسے ہی مقامات پر ہوتا ہے۔ یہاں جانور یا آدمی مشکل سے ملتے ہیں۔ جو آدمی ملتے بھی ہیں تو وہ کیمپ کے لیے بیکار ثابت ہوتے ہیں مگر گھوڑوں اور خچروں کی دیکھ بھال ان سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا اور یہاں اس کی کافی ضرورت پڑتی ہے۔
ہمارے ساتھ کل چار بندے تھے، میرا شکاری جم بورن، باورچی ہنری (جرمن تھا)، ٹیکساس بِل جو بہترین اور کم عمر لڑکا تھا اور گیلارڈ۔میں بہت سالوں سے دنیا کے دشوار ترین علاقوں میں سفر کرتا رہا ہوں مگر میرے ساتھ ہمیشہ کافی بندے ہوتے تھے۔ یہاں میری بیوی اور مجھ سمیت کُل چھ افراد تھے۔اس لیے شکار کیے گئے تمام جانوروں کو کھانا ہمارے لیے ناممکن تھا۔
میں ضائع کرنے کی نیت سے شکار نہیں کرتا، سو بہت مرتبہ بہترین جانوروں کو گولی مارنے سے اس لیے رک گیا کہ ان کا گوشت بیکار جاتا۔ اس طرح میری توقع کے مطابق لطف نہ آیا۔ یہاں کوئی مقامی انڈین نہ تھے کہ وہ اپنی مخصوص جگہوں تک پابند تھے۔ اس لیے اگر شکار شدہ جانور کو ہم نہ کھاتے تو وہ ضائع ہو جاتا۔ کئی انگریز جماعتیں یہاں بے رحمی سے شکار کرتی رہی تھیں اور امریکی بھی کسی اصول کے پابند نہ تھے۔ اس لیے یہاں قتلِ عام شروع ہو گیا تھا اور جنس یا عمر کے لحاظ کے بغیر محض کھالوں کے حصول کے لیے اندھا دھند شکار ہوتا تھا۔ بہترین اور فربہ ہرنوں کو شکار کر کے ان کی کھال اتارنے کے بعد وہیں ضائع ہونے کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ان کا گوشت یا تو ضائع ہو جاتا یا ریچھوں کے ہتھے چڑھ جاتا جو جلد یا بدیر خود شکار ہو جاتے۔
باب سٹیوارٹ اور بگ بِل اسی طرح کے قصابانہ مشغلے میں مصروف تھے۔ وہ ہمیشہ اکیلے شکار کرتے اور صبح صبح پچھلے دن کے شکار کردہ جانوروں کی کھالوں کو میخیں گاڑ کر سکھانا شروع کرتے اور آٹھ یا نو بجے تک نکل کھڑے ہوتے۔ ہرنوں میں کالی دم والی ہرن کی کھال سب سے مہنگی تھی جو لگ بھگ ۱۱ شِلنگ فی پاؤنڈ فروخت ہوتی تھی۔ اس کھال سے عمدہ ترین دستانے بنتے جو کیلیفورنیا میں بہت مقبول تھے۔
ایک صبح میں شکار کی تلاش میں پھرتے ہوئے ان کے کیمپ تک جا پہنچا۔ وہاں دیکھا کہ وہ کیسے بالکل خشک کھالوں کے ڈھیروں کو انتہائی نفاست سے تہہ کر کے جمع کر رہے تھے۔ کھالوں کو خشک کرنے کے لیے وہ محض اس بلندی کی خشک ہوا استعمال کرتے تھے۔ میرے پوچھنے پر بگ بل نے پچھلے روز کے واقعات سنائے۔ اس نے بتایا کہ وہ سارا دن جس گرزلی ریچھ سے بچنے کی کوشش کرتا رہا، وہ سب سے بڑا ریچھ تھا۔ بگ بل سوئیڈش والدین کی اولاد تھا جو امریکہ میں پیدا ہوا۔ پیشے کے اعتبار سے بڑھئی تھا مگر کچھ برسوں سے شکار میں لگ گیا تھا۔ یہ بندہ بہت بڑا اور سوا چھ فٹ قد، بہت چوڑے شانے اور لمبے بازو تھے۔
بل بہترین شکاری تھا اور اس کے پاس اعشاریہ ۴۵۰ بور کی شارپ رائفل تھی جو اس علاقے میں عام پسند کی جاتی تھی۔ پچھلے سال اسے ایک عجیب تجربہ ہوا جس کی وجہ سے وہ اجنبیوں سے کترانے لگ گیا تھا۔
موجودہ کیمپ کے پاس ہی کہیں اس کے شام گئے ایک گھڑ سوار اجنبی پہنچا۔ اس کا گھوڑا اچھی نسل کا تھا اور وہ بندہ اکیلا دکھائی دیا۔ بگ بل بھی اکیلا ہی تھا۔کیمپ بہت سادہ سی شکل کا تھا اور صنوبر کے درخت کا تنا دو اور درختوں سے آڑا بندھا ہوا تھا۔ اس پر ساٹھ یا ستر درختوں کے تنے عموداً رکھے ہوئے تھے۔ ان تنوں پر صنوبر کی شاخیں اس طرح ڈالی گئی تھیں کہ چھت سی بن گئی تھی۔ ہوا عام طور پر ایسی سمت چلتی تھی کہ چھت کی اوٹ سے بچاؤ ہو جاتا تھا۔ سامنے کی جانب ساری رات الاؤ روشن رہتا۔
ایسے کیمپ میں بگ بل نے اجنبی کا استقبال کیا اور اس کی ہر ممکن خاطر کی۔ کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر دونوں سو گئے۔
اگلی صبح جب بگ بل اٹھا تو حیرت سے آنکھیں ملنے لگا۔ اس کا مہمان اور اس کے گھوڑے غائب تھے۔ اسے فوراً شبہ ہو گیا کہ اس کا مہمان گھوڑے چرا کر بھاگا ہے۔ اس نے فوراً آس پاس زمین کا معائنہ کیا تو پتہ چلا کہ دونوں گھوڑے اور خچر بھی غائب تھے۔مہمان نے رات کی مہمان نوازی کا یہ بدلہ دیا۔
خوش قسمتی سے بگ بل کا ایک گھوڑا کسی خاص مقصد کے تحت کچھ فاصلے پر بندھا ہوا تھا جو اجنبی کو دکھائی نہ دیا۔ گھوڑے پر زین ڈال کر چند لمحوں میں ہی بگ بل تعاقب میں روانہ ہو گیا۔ صبح کی شبنم میں نشانات واضح دکھائی دے رہے تھے۔ بگ بل نے گھوڑے کو ایڑ لگائی کہ وہ ہر ممکن عجلت سے اسے پکڑنا چاہ رہا تھا کہ کہیں اس کے دیگر ساتھی نہ آ جائیں۔ بل پوری رفتار سے روانہ ہوا جبکہ چور کا خیال تھا کہ بل کے پاس کوئی گھوڑا نہیں، سو وہ آرام سے مناسب رفتار سے جا رہا تھا۔
چند گھنٹوں کے تعاقب کے بعد ایک پہاڑی چوٹی سے بگ بل کو سامنے افق پر کچھ دھبے حرکت کرتے ہوئے محسوس ہوئے۔ اس نے گھوڑے کی رفتار بڑھا دی۔
اجنبی کو کسی قسم کا شک بھی نہ ہوا اور وہ آرام سے سیٹیاں بجاتا اور چوری شدہ جانوروں کو ہانکتا ہوا جا رہا تھا۔ اس دوران بل جوں جوں قریب ہوتا گیا، اس کا غصہ اور بھی تیز ہوتا گیا۔ اسے مغرب کے رواج کا بھی علم تھا، اس نے اپنی رائفل بھر کر تیار کر لی تھی۔
چند ہی منٹوں میں ان کا درمیانی فاصلہ سو گز رہ گیا۔ پتھروں پر گھوڑے کی ٹاپوں کو سن کر اجنبی گھبرا کر مڑا تو بل عین سامنے پہنچ چکا تھا۔
آگے کی زیادہ تفصیل تو علم نہیں مگر اجنبی کا ہاتھ اپنے ریوالور کو پہنچا ہی تھا کہ بگ بل نے اس کے سینے میں رائفل کی گولی اتار کر معاملہ ختم کر دیا۔ اس طرح بگ بل کو نہ صرف اپنے جانور واپس مل گئے بلکہ اس نے اجنبی کے گھوڑے اور زین پر بھی قبضہ کر لیا۔ پھر بل اپنے کیمپ کو لوٹا اور شکست خوردگی کی بجائے فاتح بن کر لوٹا۔ ظاہر ہے کہ بگ بل کے اس بہادرانہ اقدام کی وجہ سے علاقے کے لوگوں میں اس کی خاصی شہرت ہوئی، تاہم اُس دور میں وائیومنگ کے ان علاقوں میں بہت کم ہی لوگ ہوتے تھے۔
بگ بل اسی وجہ سے ہمیشہ تنہا اجنبیوں سے کتراتا تھاکہ مندرجہ بالا اجنبی کا کوئی رشتہ کہیں اسے بدلے میں نہ ہلاک کر دے۔ اب یہی بِگ بِل مجھے بتا رہا تھا کہ کل کیسے وہ ایک بہت بڑے گرزلی ریچھ سے بچنے کے لیے بھاگتا رہا تھا۔ اس نے مجھے وہ مقام اندازے سے دکھایا اور تفصیل بتائی۔ اس نے بتایا: ‘وہ سامنے نیچا چٹانی چھجا دیکھیں جو ہمارے عین اوپر ہے؟ اسی کے نیچےا یک چھوٹا سا چبوترا سا ہے جہاں آپ کو صنوبر کے چند درخت دکھائی دے رہے ہیں۔ وہاں جب میں اور ایڈمنڈ پہنچے تو اس جگہ ڈھلوان ہے جہاں سے اترنا آسان ہے۔ اس جگہ کئی بڑی چٹانیں پڑی تھیں اور اچانک مجھ سے دس گز کےفاصلے پر ایک بڑی چٹان اٹھ کھڑی ہوئی۔ یہ ریچھ تھا جو مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ میں نے آج تک اس سے بڑا گرزلی نہیں دیکھا۔ اس کی جسامت بڑے بیل جتنی تھی۔ وہ کتے کی مانند بیٹھا تھا۔ جونہی میں نے اسے دیکھا، میں نے سر پر پیر رکھ کر دوڑ لگا دی‘۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس نے گولی کیوں نہیں چلائ تو وہ بولا: ‘اگر میرے پاس اعشاریہ ۴۵۰ کی چھوٹی شارپ رائفل کی جگہ اعشاریہ ۵۷۷ کی ٹھوس گولیوں والی بھاری دو نالی رائفل ہوتی تو میں کبھی نہ بھاگتا۔ مگر میں کھالوں کے لیے شکار کرتا ہوں اور کوئی گرزلی میری کھال کے لیے میرا شکار کرے، مجھے اچھا نہ لگتا۔ یہ ریچھ میں نے آپ کے لیے چھوڑا ہے۔ اگر آپ صبح اس جگہ جائیں تو وہاں برف میں اس کے پیروں کے نشانات مل جائیں گے۔ تاہم یاد رہے کہ آپ اتنی بڑی جسامت دیکھ کر حیران رہ جائیں گے‘۔ دس منٹ بعد میں اسی جگہ روانہ ہو گیا جہاں ریچھ آخری بار دیکھا گیا تھا۔
مطلوبہ چوٹی پر پہنچ کر میں نے نیچے دیکھا تو ۷۰ میل دور راکی پہاڑ صاف دکھائی دے رہے تھے اور یہاں سے نیچے ۴٫۰۰۰ فٹ کی گہرائی کا بہترین منظر دکھائی دے رہا تھا۔ یہاں بعض جگہوں پر برف موجود تھی اور انہی میں سے ایک جگہ میں نے ایک گرزلی ریچھ کے پیروں کے نشانات دیکھے۔ آج تک میں نے اس سے بڑے نشانات نہیں دیکھے۔
چند گھنٹوں تک ہم اس کا پیچھا کرتے رہے مگر بیکار۔ کئی جگہوں پر میں نے کالی دم والے ہرن دیکھے مگر میں ریچھ کے چکر میں ان پر گولی نہیں چلانا چاہتا تھا۔ دن ناکام گزرا۔ اگلا دن بھی صبح سے غروبِ آفتاب تک تلاش کے باوجود ناکام رہا۔ ہمیں محض پرانے نشانات ملتے رہے مگر تازہ نشان کہیں نہ مل سکا۔ میرا ارادہ تھا کہ اس ریچھ کو تلاش کروں اور اسی لیے میں تیسرا دن بھی اسی کی تلاش میں گزرا۔ تیسری صبح میں ٹیکساس بل اور جم بورن کے ساتھ روانہ ہوا اور ہم چکر کاٹ کر کیمپ کے اوپر والی چوٹی کی طرف روانہ ہوئے۔
زیادہ تر جگہوں سے برف پگھل چکی تھی اور کہیں کہیں کچھ مقدار بچی تھی۔ ہم نے پہاڑی کی اس سمت کو پوری طرح چھانا تھا اور پچھلے دو روز میں میلوں کا سفر کیا تھا۔ اس لیے میں نے دوسری جانب جانے کا فیصلہ کیا جو شمالی طرف اور راکی پہاڑوں کی سمت تھی۔
پہاڑی کی اس جانب صنوبر کے جنگلات نہیں تھے مگر طویل ڈھلوان پر ڈیڑھ فٹ اونچی گھاس اگی ہوئی تھی۔ جگہ جگہ گہری کھائیاں بھی تھیں جن میں پستہ قامت درخت اگے ہوئے تھے جو پاپلر سے مشابہہ تھے۔ ان درختوں کی اونچائی ۲۵فٹ تک تھی اور موٹائی انسانی بازو کے برابر۔ مگر یہ اتنے گنجان تھے کہ گھوڑے پر سوار ہو کر ان کے درمیان سے گزرنا مشکل تھا۔
یہاں جگہ جگہ ایسے جھاڑیوں کے جھنڈ تھے جہاں ریچھ یا کوئی اور جانور مل سکتے تھے۔ اچانک مجھے ایک تاریک اور طویل کھائی دکھائی دی جو پہاڑ کی چوٹی سے نیچے کو آ رہی تھی اور اس کی لمبائی کئی میل ہوگی۔راستے میں ایک اور کھائی اس کو آن کر ملتی تھی اور اس کی شکل انگریزی کے حرف Y سے مشابہہ تھی۔ اس کی دم نیچے کو وسیع تر ہوتی گئی تھی۔ اس موسم میں وہاں محض ایک انچ جتنا پانی بہہ رہا تھا جو پہاڑ کی چوٹی سے پگھلنے والی برف سے آ ر ہا تھا۔
اس سے بہتر جگہ ریچھوں کو اور کہاں ملتی، سو میں نے اپنے دونوں ساتھیوں کو کھائی کے نچلے سرے پر جا کر اوپر کو آنے کی ہدایت کی اور کہا کہ وہ بالکل بھی آواز نہ نکالیں، بس اپنے چابک کے دستے کو کبھی کبھار درختوں پر مارتے آئیں۔
میں نیچے اترا اور میرا بہترین گھوڑا میرے پیچھے پیچھےڈھلوان پر اترا۔ ہم دونوں کھائی کے کنارے پہنچ گئے جس کی چوڑائی محض ۸۰ گز ہوگی۔ دونوں جانب سے کوئی بھی جانور نکلتا تو میں اس پر آسانی سے گولی چلا سکتا تھا۔اس سے بہترمقام ملناممکن نہیں تھا۔
میرے ساتھی بہترین تربیت یافتہ شکاری تھے اور ان کے گھوڑے جب پتھروں سے گزرتے تو کافی آواز پیدا ہوتی۔ کبھی کبھار وہ کسی درخت کے تنے پر چابک مار کر آواز بھی نکالتے۔ اس طرح جو بھی جانور بھاگتا، سیدھا میری جانب آتا۔
کالی دم والے ہرن بکثرت تھے اور ان کی جسامت چنکارے کے برابر تھی اور خوب فربہہ تھے۔ مگر ان کے سینگ ابھی تک مخمل میں پوشیدہ تھے اور اکتوبر کے بعد جا کر مخمل ہٹتی۔ میں نے کئی ایسے ہرن شکار کر لیے ہوتے مگر میں نے ریچھ کی خاطر ان سب کو چھوڑ دیا۔
اسی طرح ایک میل تک سفر کرنے کے بعد اچانک ہمیں دائیں جانب درختوں سے کسی جانور کے بھاگنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی میرے شکاری چلائے: ‘ریچھ۔ ریچھ‘۔ میں فوراً رکا اور نیچے مجھ سے سو گز دور سے تین بہترین نر واپیٹی نکلے اور کھلا میدان عبور کرکے دوسری جانب بھاگ نکلے۔ میں نے سب سے بڑے نر کا نشانہ لیامگر گولی نہیں چلائی۔ جب وہ جنگل میں گم ہونے ہی والے تھے کہ میں نے لبلبی دبا دی۔ یہاں سے فاصلہ ڈیڑھ سو گز ہوگا۔ عین اسی وقت جہاں واپیٹی موجود تھے، وہاں سےگرد کا بادل اٹھا اوروہ نظروں سےا وجھل ہو گئے۔ مجھے یقین تھا کہ میرا نشانہ خالی نہیں گیا۔
رائفل کی آواز سنتے ہی میرے ساتھی بھاگم بھاگ پہنچ گئے۔ میں نے فوراً پوچھا کہ تم نے ریچھ کا نعرہ کیوں لگایا تھا؟ اس نے جواب دیا کہ اسے بھورے رنگ کا بڑا سا جانور دکھائی دیا تو اس نے سمجھا کہ ریچھ ہے۔ میں نے جواب دیا کہ ریچھ نہیں بلکہ وہ واپیٹی تھا جس کو میں نے حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شکار کر لیا ہے۔ وہاں چھجے کے نیچے پڑا ہوگا۔ میرے ساتھی وہاں گئے تو شاندار نر مرا پڑا تھا۔ اس کے شانے پر گولی لگی تھی۔ اگست یا ستمبر میں نر واپیٹی کا وزن ۹۰۰ پاؤنڈ سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے سینے پر چربی کی تہہ پانچ انچ جبکہ پشت اور کولہوں پر تین انچ موٹی تھی۔ ہم نے یہ ساری چربی ایک ساتھ اتار لی۔ نصف گھنٹے بعد جب یہ ٹھنڈی ہوئی تو ڈھیر سا دکھائی دینے لگا۔
میرے شکار کردہ جانوروں یہ شاندار ترین جانوروں میں سے ایک تھا۔ ہم نے سارے بہترین حصے کاٹ لیے اور انہیں پاس اگے ایک درخت کی شاخیں کاٹ کر ان کے نیچے چھپا دیا۔
اس گولی کی حماقت کی وجہ سے ہمارا ایک گھنٹہ ضائع ہوا مگر اس نر کا سر بہت ہی شاندار تھا، سو اسے کاٹ کر ہم نے ایک بہت بڑے پتھر پر رکھ دیا تاکہ بعد میں منگوا سکیں۔
پھر ہم نے یہ سوچ کر تلاش شرو ع کر دی کہ اگر ریچھ کھائی میں تھا تو رائفل کے دھماکے سے اسے کوئی فرق نہ پڑا ہوگا اور اگر وہ کھائی سے باہر تھا تو کوئی بات نہیں۔ جوں جوں ہم نیچے اترتے گئے، کھائی چوڑی ہوتی ہوئی سو گز تک پھیل گئی۔ اس طرح شکار کے قابل جانوروں کے ملنے کے امکانات بڑھتے گئے۔ میں اپنے گھوڑے کے آگے خاموشی سے چل رہ اتھا کہ مجھے اچانک نیچے سے کچھ شور سنائی دیا۔ نیچے دیکھا تو انتہائی گھنے درخت ایسے ہل رہے تھے جیسے ہاتھی یا گینڈاتنوں سے کھجلا رہا ہو۔
میں اس سمت بھاگا اور پندرہ گز دور جا کر دیکھا کہ ایک نر واپیٹی کے سینگ درختوں سے الجھے ہوئے تھے اور وہ جیسے قید ہو گیا ہو۔ مجھے اس کے سینگوں کی کبھی کبھار جھلک دکھائی دے جاتی۔ ایک بار اس کا سر اور گردن دکھائی دیں تو اندازہ ہوا کہ بہت شاندار جانور ہے۔ میں اتنے قریب تھا کہ چاہتا تو پستول سے گولی چلا کر بھی اسے مار سکتا تھا مگر ہمارے پاس پچھلے نر کا اتنا گوشت موجود تھا کہ پورا ہفتہ کھا سکتے تھے اور ایک اور جانور کا شکار محض قتل ہوتا۔ دو منٹ تک میں نے خود کو گولی چلانے سے روکے رکھا۔ پھر اس کے سینگ آزاد ہوئے اور وہ بھاگ نکلا۔ مجھے اس کے بھاگنے کی آواز آتی رہی۔ میرے ساتھی چلائے کہ دیکھیں۔ دو منٹ بعد جب مجھے وہ دکھائی دیا تو ۳۰۰ گز دور تھا۔ اس کے سینگ اتنے بڑے تھے کہ میں نے آج تک ایسے سینگ پھر کبھی نہیں دیکھے۔ مجھے شدید افسوس ہوا کہ اس کے سینگ ایسے تھے جیسے برگد کی شاخیں۔ جب وہ پھنسا ہوا تھا تو مجھے اس کے سینگ نہیں دکھائی دیے تھے ورنہ کسی قیمت پر نہ جانے دیتا۔ اب مجھے پرانی کہاوت یاد آئی کہ موقع کبھی بھی ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔ افسوس کرتے ہوئے میں اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا اور انہیں اپنی سوچ کا بتایا کہ کیسے اتنا بڑا جانور میرے ہاتھ سے نکلا۔ بجائے اس کے کہ وہ مجھے تلسی دیتے، انہوں نے کہا کہ آپ اتنی دور سے شکار کرنےآئے ہیں اور شکار نہیں کر رہے تو پھر آنے کا کیا فائدہ؟ ایک معصوم جانور کو قتل نہ کرنے پر الٹا مجھے طعنہ ملا۔
میں نے انہیں ہدایت کی کہ اب پھر ہانکا شروع کریں اور جو بھی شکار کے قابل جانور دکھائی دیا، میں اسے شکار کروں گا۔ہانکاشروع ہو گیا۔
کچھ وقت تک خاموشی رہی اور میں گھوڑے پر سوار ہو کر بائیں جانب والی چھوٹی کھائی تک پہنچ گیا جو Y کی ایک شاخ تھی۔ میں اپنے ساتھیوں سے سو گز آگے تھا اور پتھریلی ڈھلوان پر اترنے لگا۔ پھر ندی عبور کر کے کچھ مشکل کے ساتھ سامنے والے کنارے پر چڑھا۔ میرا، رائفل، کارتوسوں اور زین کا وزن مل ملا کر ۱۸ سٹون بنتا تھا۔ جب ہم اوپر پہنچے تو میں دائیں جانب والی بڑی کھائی میں جھانک سکتا تھا مگر بائیں جانب والی زیادہ واضح دکھائی نہ دیتی تھی۔ تین تین چار چار فٹ اونچے پتھروں کی وجہ سے میرے گھوڑے کا چلنا دشوار تھا۔یہاں مجھے اچانک ریوالور چلنے کی آواز آئی اور میرے ساتھی چلانے لگے، ‘ریچھ ریچھ‘۔میں نے دو گز کے فاصلے پر ریچھ کو بھاگتے دیکھا جس نے مجھے نہ دیکھا تھا۔ میرے گھوڑے اور اس کے بیچ محض ایک بڑا پتھر تھا۔ جونہی اس کی نگاہ گھوڑے پر پڑی، مڑ کر اس نے بائیں جانب والی کھائی کا رخ کیا جہاں سے میں ابھی نکلا تھا۔ میں گھوڑے سے اترا اور سیدھا آگے کو بھاگا تاکہ جونہی ریچھ دکھائی دے تو گولی چلا دوں۔ مجھے وہ دھندلا سا دکھائی دے رہا تھا۔
اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے میں نے اسے مسلسل نظر میں رکھا اور محسوس کیا کہ وہ کھلے سے گزر کر بڑی کھائی کی جانب جائے گا۔ سو میں نے ڈیڑھ سو گز والی پتی اٹھائی تاکہ بعد میں وقت نہ ضائع ہو۔ ریچھ اسی طرح بھاگ رہا تھا اور میں نے سوچا کہ کیوں نہ جھاڑیوں کی پروا کیے بغیر گولی چلا دوں کہ اچانک اس نے رخ بدلا اور بائیں جانب کے کنارے پر چڑھنے لگا۔ ڈھلوان کی گھاس پر اس کا کالا رنگ خوب دکھائی دے رہا تھا۔ یہ بہترین موقع تھا، سو میں نے گولی چلا دی۔ اعشاریہ ۵۷۷ کی گولی اس کے گردوں سے گزری اور ریچھ وہیں گر کر نیچے کو لڑھکنے لگا۔ آخرکار موٹی جھاڑیوں میں اٹک گیا۔
میرے ساتھی بھاگتے آئے اور پھر ہم ریچھ کے قریب جا پہنچے جو مرنے والا تھا۔ ہمارے سامنے اس نے دم توڑا۔
جم بورن نے کہا: ‘زبردست، آخرکار ہم نے وہ گرزلی شکار کر ہی لیا‘۔
‘وہ گرزلی؟‘ ناممکن۔ یہ تو سلور ٹپ ہے، اصلی گرزلی نہیں‘۔ میں نے جواب دیا۔ پھر جو بحث شروع ہوئی، اس سے یہی ثابت ہوا کہ مقامی شکاریوں کی معلومات پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔اس ریچھ کا وزن چھ سو پاؤنڈ رہا ہوگا اور ہم تین بندوں نے مل کر جتنا بھی زور لگایا، ایک انچ بھی ریچھ کی لاش کو نہ ہلا سکے۔ میرے دونوں ساتھی چھ فٹ سے نکلتے ہوئے اورقوی تھے۔ ریچھ میں بہت چربی موجود تھی، شاید وزن چھ سو پاؤنڈ سے زیادہ بھی رہا ہو۔ ہم نے اس کی کھال اتاری اور بمشکل گھوڑے پر لادی۔ یہ ریچھ چاہے جتنا بھی بڑا رہا ہو، شام کو جب بگ بل نے اس کی کھال دیکھی تو فوراً کہہ دیا کہ یہ وہ ریچھ نہیں۔ مجھے اس کی بات پر یقین تھا کیونکہ میں اصلی ریچھ کے پیروں کے نشانات برف پر دیکھ چکا تھا جو اس ریچھ سے کہیں بڑے تھے۔
ریچھ کے پیروں کے نشانات چپٹے پیروں والے انسان کے پیروں سے مشابہہ ہوتے ہیں اور ان کی چوڑائی زیادہ ہوتی ہے۔ عجیب بات دیکھیے کہ کسی بھی جانور کو گردے پر گولی لگے تو وہ فوراً ہی مر جاتا ہے جبکہ گردن پر گولی لگے تو دھکے کی وجہ سے سارا اعصابی نظام مختل ہو جاتا ہے۔
پیشہ ور شکاریوں کے خیالات ایک دوسرے سے فرق ہوتے ہیں اور ایک بندہ جوکچھ روز شکار کھیلنے آیا ہو، اس سے نتیجہ نہیں نکال سکتا۔ تاہم اس بات پر سبھی متفق ہیں کہ گرزلی سب سے بڑا ریچھ ہوتا ہے اور دوسرے نمبر پر سنامون (دار چینی)، تیسرے پر سلور ٹپ اور چوتھے نمبر پر کالا ریچھ آتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سنامون ریچھ ہی گرزلی ہے اور اس مختلف مقامات پر اس کی کھال کا رنگ کچھ فرق ہو جاتا ہے؟ میرے ساتھیوں نے سلور ٹپ کو گرزلی کہا تھا جو بالکل ہی غلط بات تھی مگر چونکہ وہ یہاں باقاعدگی سے شکار کھیلتے تھے، سو اکا دکا گرزلی کا یہاں پایا جانا بھی عجیب بات نہیں۔ صنوبر کے اس جنگل میں گھڑسواری کرتے ہوئے مجھے ایک بہت بڑے ریچھ کی کھوپڑی ملی تھی جس سے زیادہ بڑی کھوپڑی میں گرزلی کے علاوہ اور کہیں نہیں دیکھی۔ عام ریچھ تو بچے لگتے تھے۔ اس میں بھی کوئی شک والی بات نہیں کہ مختلف قسم کے ریچھ ایک دوسرے سے ملتے ہوں گے اور کبھی کبھار ان کے باہم اختلاط سے بچے بھی پیدا ہوتے ہوں گے جو دونوں والدین سے کچھ فرق دکھائی دیتے ہوں گے۔ یہاں میری آمد سے ڈیڑھ سال قبل لارڈ لونزڈیل شکاری جماعت کے ساتھ آئے ہوئے تھے اور اسی علاقے میں شکار کھیلتے رہے۔ چونکہ یہ علاقہ برطانوی شکاریوں کے لیے انجان تھا، سو یہاں جانور بہت زیادہ تھے۔ ریچھ تو اتنے تھے کہ اس جماعت نے ۳۲ ریچھ شکار کیے۔ دیگر جانوروں کا تو شمار ہی نہیں۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اتنے زیادہ جانور مارے جانے کے باوجود بھی جنگلی جانور انسان سے نہیں گھبراتے حالانکہ کھلے علاقے میں انسان دور سے دکھائی دے جاتا ہے۔ بگ ہارن رینج پر ۸٫۰۰۰ سے ۱۲٫۰۰۰ فٹ کی بلندی پر چھوٹی گھاس ہی ملتی ہے۔ یہاں سطح مرتفع اور مسطح چوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ گہری کھائیاں جن کی عمودی گہرائی ڈیڑھ سے دو ہزار فٹ تک ہوتی ہے، طویل اور مخفی وادیاں جن کی تہہ کے جنگلات میلوں تک پھیلے ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ ستر سے نوے میل بعد جا کر راکی پہاڑوں سے مل جاتا ہے۔
میں خیمے میں نہانے کے بعد جسم کو خشک کر رہا تھا کہ اچانک باہر سے آواز آئی: ‘ریچھ۔ ریچھ‘۔ سوال کرنا بیکار تھا، سو بعجلت میں نے کپڑے پہنے اور باہر نکلا۔
ٹیکساس بل جا چکا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ دو بڑے ریچھ سامنے والی ڈھلوان سے اترتے دیکھے گئے تھے۔ چونکہ میرے میرے بہترین گھوڑے کی زین ابھی تک اتاری نہیں گئی تھی کہ شام بہت سرد تھی، ٹیکساس بل اسی پر سوار ہوا اور ریچھوں کے تعاقب میں بھاگ نکلا۔
میں نے لٹل ہنری سے پوچھا کہ وہ کون سی رائفل ساتھ لے گیا ہے تو جواب ملا کہ رائفل نہیں، اپنے ریوالور کے ساتھ گیا ہے۔
روشنی بہت کم رہ گئی تھی اور ریچھ کافی دور تھے، سو میں نے یہی سوچا کہ ٹیکساس بل کے قریب ہونے سے قبل ہی ریچھ جنگل میں گھس جائیں گے۔ تاہم اگر وہ انہیں کھلے میں لے آیا تو پھر آسانی ہوگی۔ تاہم ایسی ڈھلوان پر گھوڑے کو سرپٹ دوڑانا بھی کارے دارد تھا۔
تاریکی چھا گئی اور ہمیں امید تھی کہ ٹیکساس بل واپس آ جائے گا۔ جم بورن نے اپنی بھڑاس نکالنا شروع کر دی کہ اپنے آقا کے بہترین گھوڑے پر اندھیرے میں سوار ہو کر ایک ریوالور کے ساتھ ریچھوں کے پیچھے گیا ہے۔ ہمارا بہترین گھوڑا اندھیرے میں کہیں بھی ٹھوکر کھا کر اپنی ٹانگ تڑوا بیٹھے گا۔ خیر، رات بہت سرد ہے، سونا چاہیے۔ ابھی وہ اسی قسم کی بکواس کر رہا تھا کہ اوپر چوٹی کے قریب سے دو گولیوں کی آواز آئی۔ بل ریچھوں کے قریب پہنچ گیا ہوگا۔
تاریکی چھا چکی تھی اور ہمارا خیال یہی تھا کہ دو گولیوں کی وجہ صرف یہی ہو سکتی ہے کہ بِل نے ریچھوں کو جنگل میں گھسنے سے روکنے کے لیے یہ گولیاں چلائی ہوں گی۔ تاہم تاریکی میں اور اکیلا انسان کیا کر لے گا؟مجھے گھوڑے کی فکر ستا رہی تھی کہ یہاں زمین اتنی کٹی پھٹی اور جگہ جگہ سوراخ اور درختوں کے تنے گرے ہوئے تھے کہ دن کے وقت بھی مشکل ہوتی تھی۔
ہم نے صنوبر کے بہت سارے تنے جمع کر کے ان پر ٹہنیاں رکھیں اور الاؤ روشن کر دیا۔ بیس فٹ اونچے شعلے جلنے لگے۔ بل کی واپسی کے لیے یہ اچھا نشان ہوتا۔
پہلی دو گولیوں کی آواز سنتے ہی میں نے وقت دیکھا تھا۔ تب سے سیٹی بجاتے بجاتے میرے ہونٹ سُن ہونے والے تھے کہ اچانک بالکل مخالف سمت سے ایک گولی چلی۔ پھر دوسری، پھر تیسری، جب چھ گولیاں پوری ہوئیں تو میرے باورچی نے کہا کہ اب اس کا ریوالور خالی ہوگا مگر اس کے پاس کارتوس بھی ہیں۔
ان گولیوں کو کیوں چلایا گیا تھا؟ کہنا مشکل ہے کہ اتنی تاریکی میں وہ ریچھوں کا پیچھا کیسے کرتا؟ ویسے بھی پہلی دو اور اب چھ گولیوں کا درمیانی فاصلہ ایک میل سے زیادہ رہا ہوگا۔ موجودہ گولیوں کے مقام سے اگر وہ نیچے اترتا تو وادی میں پہنچ کر ندی کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے کیمپ آ سکتا تھا۔
میرے ساتھیوں کا خیال تھا کہ ہمیں گولیاں چلا کر اس کی رہنمائی کرنی چاہیے مگر میں نے انکار کیا کیونکہ اس طرح جنگلی جانور بھاگ جاتے۔ سو ہم نے مزید لکڑیاں جمع کیں اور الاؤ کو مزید بھڑکایا اور انتظار کرنے لگے۔
ایک گھنٹہ گزر گیا مگر بل واپس نہ آیا۔ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ بل نے ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لیے چھ گولیاں چلائی تھیں کہ یہ کارتوسوں کا ضیاع تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ ایک گولی چلاتا اور پھر چند منٹ انتظار کے بعد دوسری گولی چلاتا۔ ہم نے یہی فرض کیا کہ پہلی دو گولیوں سے ریچھ زخمی ہوا ہوگا اور پھر فرار ہو گیا۔ پھر بِل نے کسی نہ کسی طرح اس کا پیچھا کیا اور پھر اسے تلاش کر لیا۔
جب ہم بل کی واپسی سے مایوس ہونے والے تھے اور مجھے یقین تھا کہ تمباکو نوشی کی عادت کی وجہ سے بل کے پاس ماچس تو ہوگی ہی، وہ کہیں نہ کہیں الاؤ جلا کر رات گزارنے کے چکر میں ہوگا۔ اچانک ہمیں سیٹی سنائی دی اور پھر گھوڑے کے سموں کی آواز آئی۔ یہ آواز ڈیڑھ سو گز دور ندی سے آ رہی تھی۔
دو منٹ بعد ٹیکساس بل آن پہنچا اور گھوڑے کے جسم پر خشک جھاگ جمی ہوئی تھی اور اس کے ایک ہاتھ میں بڑا خون آلودجگر تھا جو اس نے ریچھ کا پیٹ کاٹ کر نکالا تھا۔ہم سبھی نے بیک زبان اسے خوش آمدید کہا مگر جم بورن نے محض یہی کہا کہ مالک کے گھوڑے کا یہ حشر کر کے آیا۔پھر بِل نے ہمیں پوری کہانی ایسے سنائی جیسے اس کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو۔ اس نے اندھیرے میں اپنے شکار کی داستان کچھ یوں سنائی: ‘خیر، میں نے دونوں ریچھوں کو اسی ڈھلوان پر چڑھتے دیکھا جہاں سے آپ او رمیں جنگلی مرغیوں کا شکار کر کے اترے تھے۔ میں ان کے پیچھے سرپٹ روانہ ہوا اور مقصد اتنا تھا کہ ریچھوں کو جنگل میں گھسنے سے روکوں، ورنہ وہ ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ ایک ریچھ نے تو دوڑ لگا دی اور میرے پہنچنے سے قبل ہی وہ میرے سامنے سے گزر کر جنگل میں گھس گیا۔ خیر، دو ریچھ تو ویسے بھی مجھ سے نہ سنبھالے جاتے۔
پھر میں دوسرے ریچھ کے سامنے آیا اور اس کے سامنے چابک سٹکایا۔ آخرکار وہ میرے سامنے مسطح علاقے میں پہنچ گیا جہاں ہم نے جنگلی مرغیاں ماری تھیں۔ اب اس کی وحشت بڑھ گئی تھی اور کنی کاٹ کر جنگل کا رخ کرنے کی کوشش میں تھا۔ تاہم میں اس کے ساتھ ساتھ تھا اور جب میں نے دیکھا کہ وہ نہیں رکے گا اور وہ میرے گھوڑے پر حملہ آور ہونے والا تھا تو میں نے اپنے ریوالور سے گولی چلائی۔ پھر اس نے دوسری بار حملہ کیا تو میں نے دو گز کے فاصلے سے دوسری گولی چلائی۔ اس نے رخ موڑا اور اب اس مسطح علاقے کے دوسری جانب جانے کی کوشش کرنےلگا۔ شاید وہ دو میل دور جنگل کی طرف رخ کرنا چاہتا تھا۔ تاریکی اتنی ہو چکی تھی کہ اب وہ بمشکل دکھائی دے رہا تھا۔واحد امکان یہی تھا کہ میں اس کے ساتھ ساتھ رہوں تاکہ جونہی موقع ملے، اسے گولی مار دوں۔ وہ کبھی ادھر جاتا تو کبھی ادھر۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ گھوڑے سے آگے نہیں نکل سکتا تو اس نے جنگل کا رخ کیا۔
میں چابک لہراتا اور اس کے پیچھے شور مچاتا رہا۔ اگر ایک بار بھی وہ اندھیرے میں گم ہو جاتو پھر کبھی نہ ملتا۔ زمین پر جگہ جگہ پتھر تھے، اس لیے گھوڑا تیزی سے مڑ نہ سکتا تھا۔ تاہم کبھی ہم سیدھے سرپٹ دوڑتے تو کبھی چکر کاٹتے۔ آخرکار ریچھ سست پڑ گیا۔ یہاں وہ زبان لٹکائے کھڑا ہانپنے لگا۔ گھوڑے کی بھی یہی حالت تھی۔ خیر، میں نے گھوڑا روکا اور اس پر گولی چلانے کو تیار ہونے لگا۔ ریچھ کو پتہ چل گیا کہ میں حملہ کرنے والا ہوں مگر وہ ہلنے جلنے سے رہ گیا تھا۔ میرے گھوڑے کے پہلو ایسے پھول پچک رہے تھے کہ چلائی ہوئی دو گولیوں کو بھرنا دوبھر ہو گیا تھا۔ میرا ارادہ تھا کہ چھ گولیاں پوری بھرنے سے قبل حملہ نہیں کروں گا۔ جب گولیاں بھر لیں تو میں نے گولیاں چلانا شروع کیں۔ شکر ہے کہ میں نے ریوالور پورا بھر لیا تھا۔
گولی پر گولی چلتی رہی مگر ریچھ ویسے ہی کھڑا رہا جیسے اس پر کوئی فرق نہ پڑ رہا ہو۔ آخرکار میں اس کے قریب پہنچا اور بالکل قریب سے اس کے شانوں کے بیچ گولی چلائی اور ریچھ وہیں گرکر مر گیا۔ بس یہی کچھ ہی ہوا تھا۔ پھر مجھے لگا کہ کوئی یقین نہیں کرے گا، سو میں نے اس کا پیٹ چاک کر کے اس کا جگر نکالا اور ساتھ لے آیا۔ یہ دیکھیے۔ اس نڈر انسان کو ذرا بھی احساس نہ تھا کہ اس نے کتنا بڑا کام کیا ہے۔ اتنی ہمت اور ایسی گھڑ سواری کے بارے میں نے آج تک پھر کبھی نہیں سنا۔رات کے گھپ اندھیرے میں اکیلے بندے نے ایک ریوالور سے جوان ریچھ شکار کیا جو میرےنزدیک بہت ہی اعلیٰ درجے کی ہمت تھی۔
اگلی صبح میں نے ریچھ کی کھال منگوائی۔ یہ بڑا سلور ٹپ ریچھ تھا اور قریب سے دیکھنے پر اندازہ ہوا کہ رات کیا ہوا تھا۔
شروع سے آخر تک اس پر کل آٹھ گولیاں چلائی گئی تھیں اور آخری گولی مہلک ثابت ہوئی تھی۔ ٹیکساس بل کا ریوالور کا نشانہ بہت عمدہ تھا مگر اس نے سات مرتبہ خطا کیا اور صرف آٹھویں گولی ریچھ کو لگی۔ یہ گولی شانوں کے بیچ سیدھی گزری جیسا کہ بل نے ہمیں بتایا تھا۔ یہ گولی سیدھی دل سے گزر ی اور پورے ریچھ سے گزرتی ہوئی پہلو سے گزری۔
برطانیہ واپسی پر میں نے میسرز کولٹ اینڈ کو سے اعشاریہ ۴۵۰ بور کا لمبی نال والا فرنٹیئر پستول خرید لیا۔
اگرچہ ریچھ کم تھے مگر دکھائی دیتے رہتے تھے۔ اصولی طور پر میں اپنے ساتھ جم بورن اور ٹیکساس بل کو شکار پر لے جاتا تھا اور گیلارڈ ہمارے بارہ تیرہ جانوروں کی دیکھ بھال کرتا تھا اور جرمن باورچی ہنری کیمپ میں میری بیوی کی مدد کو رک جاتا تھا۔ ایسے ہی ایک موقع پر تین ریچھوں نے ہمارے کیمپ کا چکر لگایا۔ یہ ریچھ پاس والے جنگل سے نکلے اور خوراک کی تلاش میں کیمپ سے پچاس گز کے فاصلے تک پہنچ گئے۔ درمیان میں محض دس فٹ چوڑی ندی بہہ رہی تھی۔ بیس منٹ تک وہ خوراک کی تلاش میں سرگرداں رہے اور پھر اچانک انہیں انسانی موجودگی کا احساس ہوا تو فوراً بھاگ کر جنگل میں گھس گئے۔
میرے واقف باب سٹیورٹ نے بتایا کہ ریچھ کافی ڈر گئے ہیں کہ ان کے شکا رکا واحد طریقہ Jump a bear ہی بچا ہے۔ پھر اس نے وضاحت کی: ‘آپ گھوڑے پر سوار ہو کر جنگل میں گھومیں۔ جہاں ریچھ کا نشان ملے، اس کا پیدل پیچھا شروع کر دیں جو دن کے وقت سوئے ریچھ تک لے جائےگا۔ وہاں آپ کی آمد سے گھبرا کر ریچھ ہڑبڑا کر اچھلے گا تو اسے وہیں مارا جا سکتا ہے۔ تاہم اتنے قریب سے ریچھ حملہ بھی کر سکتا ہے۔‘ اس طریقے کا نام اسی سے نکلا ہے۔
میں نے باب کے ساتھ طے کیا کہ ایک بار ایسے شکار پر نکلوں گا مگر جلد ہی مجھے احساس ہو گیا کہ یہ طریقہ اس کی ہلکی پھلکی جسامت کے لیے تو مناسب ہے مگر میرے جیسے بھارے بندے کے لیے ناممکن ہے کہ ہمیں گلہری کی طرح بھاگ دوڑ اور گرے ہوئے درختوں کے تنوں کو پھلانگنا پڑے گا اور میں اس سے وزن میں کافی زیادہ تھا۔ ہم ایک ساتھ نکلے اور باب اپنی چھوٹی گھوڑی پر سوار تھا جبکہ میں اپنے بہترین گھوڑے بک سکِن پر تھا جو گھنٹوں ایک ہی جگہ پر رہ کر چرتا اور مالک کا انتظار کرتا رہتا تھا۔ سو جب بھی ضرورت پڑتی میں اس پر سے اتر کر چل پڑتا اور واپسی پر گھوڑا وہیں ملتا۔ شکار کے لیے اس طرح کے تربیت یافتہ گھوڑے بہت قیمتی ہوتے ہیں کہ اکثر جانور کا پیچھا کرنے کے لیے کئی کئی گھنٹے پیدل چلنا پڑتا ہے۔ سو اترتے ہوئے گھوڑے کی لگام اس کے سامنے گرا دی جائے تو وہ پھر گھنٹوں اسی مقام پر رہ کر مالک کی واپسی کا انتظار کرتا ہے۔
جب ہم روانہ ہوئے تو چار میل میں ہمیں محض ایک بجو دکھائی دیا۔ ہم اس سے دس فٹ کے فاصلے پر رکے اور وہ زمین پر بیٹھا رہا۔ باب نے فوراً کہا کہ اسے مار کر اس کی کھال اتار لیتے ہیں۔ اس بیچارے کو ہر جانور کی کھال اتارنے کا شوق تھا۔ تاہم میرا ارادہ تھا کہ سارا دن ہم ریچھوں کے پیچھے گزاریں گے۔ آخرکار ہم صنوبر کے نوجوان درختوں کے جنگل کو جا پہنچے۔ یہاں پچاس ایکڑ جتنی زمین پر گھاس جلائی گئی تھی جس کے بعد یہاں صنوبر کے جنگلات اگ آئے تھے۔ میرے رہنما کے خیال میں ریچھ یہاں سونے آتے ہوں گے۔ اس سے زیادہ گھنا جنگل ممکن نہ تھا۔
ہم نیچے اترے اور گھوڑوں کی لگامیں ان کے سامنے ڈال دیں۔ہوا کے رخ کی مناسبت کا خیال رکھتے ہوئے ہم جنگل میں گھسے۔ یہاں پرانے درختوں کے سوئی نما پتے گرے ہوئے تھے اور یہ جگہ بہت نرم تھی۔ یہاں سبھی درختوں کی چھال پر نشانات تھے کہ جب واپیٹی اپنے سینگوں کی مخمل کو اتارنے کے لیے انہیں رگڑتے تھے۔ ابھی ہم یہاں نصف میل چلے ہوں گے کہ باب اچانک رکا اور نیچے جھک کر ایک ریچھ کے پیروں کے نشان دیکھنے لگا۔ یہ بہت بڑے انسانی پیر کے نشان لگ رہے تھے۔ یہ ریچھ کے تازہ نشانات تھے جو اسی جانب جا رہے تھے جہاں سے ہم آئے تھے۔ ہم نے نشانات کا پیچھا کیا اور آخرکار ایک بڑی سبز جھاڑی تک جا پہنچے۔ ہمیں یقین تھا کہ ریچھ اسی میں ہوگا۔
یہ بہت خطرناک مقام تھا اور باب نے بتایا کہ اگر وہ اکیلا ہوتا تو کبھی بھی نہ گھستا کیونکہ ایک گز آگے بھی دکھائی نہیں دیتا تھا اور ریچھ عین قدموں کے نیچے سے اٹھ کھڑاہوتا۔ چونکہ میرے پاس دو نالی طاقتور رائفل تھی، سو میں آگے تھا۔ باب میرے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ ہر ممکن احتیاط سے ہم لچکیلی شاخوں سے گزر رہے تھے کہ یہاں درختوں کے سائے کی وجہ سے کافی تاریکی تھی۔
اس طرح ہم چوتھائی میل آگے بڑھے تھے کہ اچانک میرے عین سامنے سے شور ہوا۔ چھوٹے درخت ہلنے لگے اور میں فوراً آگے کو بھاگا تاکہ دیکھ سکوں۔ عجیب سی غراہٹ کی آواز آئی جو ریچھ کی تھی مگر پھر نہ تو کچھ دکھائی دیا اور نہ ہی کچھ دکھائی دیا۔
باب سٹیوارٹ بھی پہنچ گیا۔ اس نے سمجھایا کہ یہ طریقہ غلط ہے۔ جونہی آواز سنائی دے تو آگے کو بھاگنے کی بجائے ایک طرف ہٹ جانا چاہیے۔ کیا پتہ ریچھ سیدھا آپ کی طرف آ رہا ہو اور آپ کو رائفل اٹھانے کا موقع بھی نہ ملے۔ خیر، ریچھ کو شکا رکر نے کا یہی طریقہ ہے اور بہت سے ریچھ اسی طرح بھاگتے ہیں تو پھر کہیں جا کر ایک کا شکار ہوتا ہے۔ میں نے جتنی بھی کوشش کی، اس نے تعاقب کرنے سے انکار کر دیا کہ جب ریچھ اس طرح ہڑبڑا کر بھاگتا ہے تو کئی میل بعد جا کر رکتا ہے۔
مجھے بڑی مایوسی ہوئی۔ خیر ہم گھوڑوں کو واپس لوٹے اور ان پر سوار ہو کر چل پڑے۔ میں نے اس جنگل کو ‘۱۰ میل جنگل‘ کا نام دیا تھا۔ یہاں جنگل کا فرش بالکل صاف تھا اور ہم ہر طرف ۸۰ سے ۱۰۰ گز تک بخوبی دیکھ سکتے تھے۔ اچانک ہمیں سامنے ایک بہت بڑی کھوپڑی دکھائی دی۔ باب نے اسے اٹھا کر دیکھا اور مجھے دیتے ہوئے بولا کہ یہ اصلی گرزلی کی کھوپڑی ہے اور اسے محفوظ کر لوں۔ تاہم اس میں کچھ دانت غائب تھے اور میں بہت کم ہی ایسی چیزیں جمع کرتا ہوں جو میں نے خود شکار نہ کی ہوں اور نہ ان کے شکار میں شریک ہوا ہوں۔ تاہم میرے شکار کردہ ریچھوں سے اس کی کھوپڑی کم از کم دو گنا بڑی تھی۔
جنگل کافی تاریک تھا اور زمین پر گلتے ہوئے سبزے کی موٹی تہہ تھی۔ اس لیے گھوڑوں کے سموں کی آواز نہ نکلتی تھی۔ اس طرح چلتے ہوئے ہم توجہ سے دیکھتے جا رہے تھے۔ باب آگے چل رہا تھا اور اچانک وہ اپنی گھوڑی سے اچھل کر اترا اور ایک کالی دم والے ہرن پر گولی چلا دی۔ ہرن ہمارے دائیں جانب ۸۰ گز دور بے خبر کھڑا تھا۔ دھماکہ سن کر ہرن تین چار گز بھاگا اور پھر کھڑا ہوگیا۔ باب نے بجلی کی سی تیزی سے رائفل بھری اور گولی چلا دی جو ہرن کی گردن پر لگی۔ ہرن وہیں گر گیا۔
ہم گھوڑوں پر سوار ہرن کو پہنچے اور دیکھا کہ بہترین ہرن تھا۔ مگر اس کے سینگ ابھی تک مخمل میں تھے سو بیکار۔ میں نے حیرت اور رشک سے باب کو کھال اتارتے دیکھا ۔ اگر میں اپنے کپڑے بشمول بڑا کوٹ اتارنا شروع کروں تو جتنی دیر مجھے لگے گی، اتنی ہی دیر میں باب نے اس شاندار ہرن کی کھال اتار لی۔ چند لمحوں بعد اس نے کھال کو تہہ کر کے زین پر جما لیا۔ پھر باب گھوڑی پر سوار ہوا اور ہم روانہ ہو گئے۔ میں نے باب سے کہا کہ اس نے بہت عجلت میں ہرن مار لیا تھا۔ اس نے جواب دیا کہ ہاں، دو ڈالر تو مل ہی جائیں گے۔ کالی دم والے ہرن سے زیادہ کسی چیز میں منافع نہیں۔ اس کا شکار آسان ہے، کھال اتارنا آسان، خشک کرنا آسان اور پھر تہہ کر کے منتقل کرنا بھی آسان ہے۔ خیر، ہم آہستہ آہستہ آگے کو چلتے رہے اور اطراف سے بھی نگران رہے۔
ایک میل جانے کے بعد ہمیں ریچھوں کے تازہ نشانات ملے جو ہمارے راستے سے گزرے تھے۔ ہم نے اتر کر ان کا بغور معائنہ کیا۔ یہ اوسط جسامت کے ریچھ تھے کیونکہ قدموں کی طوالت سے اندازہ ہو رہا تھا۔ یہ ریچھ رات بھر پیٹ بھرنے کے بعد واپس گئے ہوں گے۔ ہم نے کچھ دور گھاس کے قطعے میں اپنے گھوڑے چھوڑ دیے۔
اب ہم نے کھوج شروع کر دی تھی کہ نشانات کافی گہرے تھے اور سیدھے ان کی آرام گاہ کو جا رہے تھے۔ آخرکار ایک میل کے آسان سفر کے بعد ہم جنگل میں ایسی جگہ پہنچے جہاں کئی سو گز تک درخت کسی طوفان یا بگولے کی وجہ سے گر گئے تھے۔ یہاں درخت ایک دوسرے پر گرے پڑے تھے مگر ابھی گلنا سڑنا شروع نہیں ہوئے تھے۔ ان کی شاخیں بہت خشک تھیں اور جب ٹوٹتیں تو ایسی آواز آتی جیسے پستول چلا ہو۔ پیش قدمی بہت آہستہ ہو گئی۔ یہاں کم عمر صنوبر کے درخت عام تھے اور مجھے شکار کی تلاش میں اس سے زیادہ مشکل پیش قدمی کبھی نہیں کرنی پڑی۔ جگہ جگہ گرے ہوئے درخت، ان کی الجھی ہوئی ٹہنیاں اور صنوبر کے چھوٹے درخت، سبھی کچھ خلط ملط ہو گیا تھا۔
باب سٹیوارٹ نے نرم چمڑے کے جوتے پہنے تھے اور دبلا پتلا ہونے کی وجہ سے بہت تیزی سے حرکت کر رہا تھا اور گرے ہوئے تنوں پر دوڑتے ہوئے پھر رہا تھا۔ میرے پاس گھڑسواری والے لمبے جوتے تھے اور میرا وزن بھی اس سے کہیں زیادہ تھا۔ اگر میں گلہری ہوتا تو شاید اس کو پکڑ لیتا۔ مگر کئی سو گز کے سفر کے بعد ہم ایک دلدلی قطعے کو پہنچے جس کے اوپر کم از کم ستر یا اسی فٹ اونچی چٹان تھی۔
اسی کے وسط میں چھ فٹ لمبا اور آٹھ فٹ چوڑا پانی کا تالاب تھا۔ یہاں سے چند منٹ قبل کوئی بڑا جانور گزرا ہوگا کہ پانی میں مٹی ابھی تک چکرا رہی تھی۔ ہم نے رک کر معائنہ کیا۔ یہاں سے ریچھ گزرا تھا۔ باب نے سرگوشی کی کہ محتاط رہنا چاہیے کہ ایک سے زیادہ ریچھ بھی ہو سکتے ہیں۔ ہم آہستہ آہستہ بڑھتے گئے مگر تاریکی اتنی تھی کہ دس بارہ ریچھ بھی ہوتے تو نہ دکھائی دیتے۔
ہم ایک چھوٹے قطعے کو پہنچے جو ۲۰ مربع فٹ کا ہوگا۔ یہاں تاریکی چھٹ گئی تھی۔ زمین پر صنوبر کے پتوں کی موٹی تہہ تھی اور اس میں تین یا چار گول گڑھے تھے جو ریچھوں کے بستر تھے۔ ان کی گہرائی ڈیڑھ فٹ رہی ہوگی۔ اسی جگہ ریچھ رات بھر کی مٹرگشت کے بعد آ کر سوتے ہیں۔
میرا خیال تھا کہ ہم نے پیش قدمی کےد وران کئی بار آواز پیدا کی تھی، سو ریچھ بھاگ گئے ہوں گے۔ تاہم جوں جوں ہم آگے بڑھتے گئے، ہمارے سامنے ایک ایسا تاریک اور گھنا جنگل کا حصہ آیا جو ابھی تک نہ دیکھا تھا۔ عین اسی لمحے ہمارے عین سامنے ایک شاخ ٹوٹی۔ ایک لمحے کو مجھے بڑا کالا سایہ دکھائی دیا جو صنوبر کے گرے ہوئے درخت کے پیچھے غائب ہو گیا۔
روشنی اتنی نہیں تھی کہ مجھے رائفل کے دیدبان دکھائی دیتے، مگر میں نے گولی چلا دی اور فوراً ہی ریچھ کی غراہٹ اور شاخوں کے ٹوٹنے کی آوازیں آئیں۔ہم بمشکل آگے کو بھاگے مگر کوئی ریچھ نہ دکھائی دیا۔ ہم نے بہت تلاش کیا مگر ناکام رہے۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہاں شکار کھیلنا بیکار ہوگا۔
اس طرح ہم کئی گھنٹے پھرتے رہے مگر پھر کوئی ریچھ نہ ملا۔ پانچ بجے کے بعد ہم کیمپ لوٹے۔ دو ریچھ ملے مگر شکار ایک بھی نہ ہو پایا۔
جب ہم کیمپ پہنچے تو ٹیکساس بل میرے گھوڑے کی باگ تھامنے آیا مگر کچھ جھجھک رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہوا تو اس نے جواب دیا: ‘میرا قصور نہیں۔ دو روز قبل آپ نے جو واپیٹی مارا تھا، اس کی لاش ہم نے وہیں چھوڑ دی تھی کہ اس پر ریچھ آئیں گے تو ہم شکار کر لیں گے۔ اگلی صبح گئے تو دیکھا تھا کہ ریچھ اسے دفن کر گئے ہیں۔ آج صبح جب آپ اور باب چلے گئے تو جم بورن نے کہا کہ ہم جا کر دیکھتے ہیں کہ آیا ریچھ تو نہیں آئے۔ جب وہاں گئے تو ایک بہت بڑا ریچھ دفن شدہ واپیٹی پر سو رہا تھا اور اس کے دو بچے بھی ساتھ تھے۔ جم کےپ اس آپ کی مارٹینی ہنری رائفل تھی اور اس نے ریچھنی کے شانے پر گولی چلا کر اسے وہیں ڈھیر کر دیا۔ پھر اس کا ایک بچہ اٹھا اور دوسرے کو بہت زور سے تھپڑ مارا۔ میری ہنسی چھوٹ گئی۔ شاید وہ یہ سوچ رہا ہو کہ دوسرے بچے نے ماں کو مارا ہے۔ جم نے رائفل بھری اور ایک بچے کو بھی مار لیا۔ پھر اس نے تیسری گولی بھری اور دوسرا بچہ بھی مار لیا۔ تین ریچھ ایک منٹ سے بھی کم وقت میں شکار ہو گئے۔ ہنری مارٹینی کمال کی رائفل ہے مگر مجھے یقین ہے کہ آپ کو برا لگے گا کہ ہمارا وہاں جانا ہی غلط تھا اور اگر جم مجبور نہ کرتا تو میں کبھی بھی نہ جاتا‘۔
اندازہ کیجیے کہ ہم ریچھوں کے پیچھے سارا دن خوار ہوتے رہے اور ناکام ہو کر جب واپس لوٹے تو نکما باورچی میرے والے ریچھوں پر میری ہی رائفل کی مدد سے ہاتھ صاف کر چکا تھا۔ حالانکہ میں نے اگلے روز اسی جگہ انہی ریچھوں کو شکا رکرنے جانا تھا۔ صبح ہمارے روانہ ہونے سے پہلے ہی اسے یہ بات بری لگی تھی کہ میں کیوں باب سٹیوارٹ کے ساتھ جا رہا ہوں۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اس شکار پر اس کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ میرا تھا۔ برا بھلا کہے بغیر میں نے خاموشی سے اسے اپنے ایک دوست کے نام رقعہ دے کر کہا کہ صبح روانہ ہو جائے۔ میرا دوست ۴۲ میل دور ایک رینچ پر تھا۔ جم نے پوچھا کہ وہ کون سا گھوڑا ساتھ لے جائے تو میں نے کہا کہ سفید خچر۔ ا س نے پوچھا کہ واپس کب آنا ہے تو میں نے کہا کہ جب تک میں خود نہ بلوا بھیجوں۔ اس طرح وہ ہماری جماعت سے خارج ہو گیا۔
یہ عمدہ مثال ہے کہ بعض لوگ کیسے غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسے مہینے کے ۱۲۰ ڈالر ملتے تھے اور کھانا پینا اور گھوڑا الگ سے دیا گیا تھا۔ وہ خود کوآجر کے برابر سمجھنے لگا تھا۔ میرے دوسرے آدمیوں کو اس سے نصف تنخواہ ملتی تھی مگر وہ زیادہ مفید تھے۔ جم کی روانگی سے سبھی خوش ہوئے۔
اس انتہائی مغربی علاقے میں انسانی آبادی بہت کم تھی اور اونچے پہاڑ پر کھڑے ہو کر ہمیں ایک سو میل تک شمال کی جانب کوئی انسانی آبادی نظر نہ آئی۔ قریب ترین انسانی آبادی لگ بھگ ڈیڑھ سو میل دور دریائے ییلو سٹون پر حکومتی پارک کی شکل میں تھی۔ ہمارے عقب میں دریائے پاؤڈرایک سابقہ سٹیشن ۸۰ میل دور تھا۔ دونوں کے درمیان محض دو رینچ تھے۔ اب اندازہ کریں کہ اس دور افتادہ مقام پر قانون کی عملداری کیسے اور کیوں کر ممکن ہوتی۔
نزدیک ترین ریلوے سٹیشن راک کریک تھا جو یہاں سے ۲۴۰ میل دور تھا جہاں سے ہمارا سفر شروع ہوا تھا۔ یہ مقام سطح سمندر سے ۷٫۰۰۰ فٹ بلند تھا۔ نوے میل دور فورٹ فیٹرمین تھا جہاں کے لیے گھوڑا گاڑی چلتی تھی۔اس سفر میں دو بار گھوڑے تبدیل ہوتے تھے۔ سارے سفر کے دوران ایک بھی انسانی ہاتھ سے بنی عمارت نہیں ملی۔ سارا علاقہ جنگلی گھاس سے بھرا ہوا ہے جہاں مویشی اور جنگلی جانور اپنا پیٹ بھر سکتے ہیں۔ روانگی کے بعد ہمیں بہت دور افق پر ایک دھبہ سا دکھائی دیا جو گھوڑوں کی تبدیلی کا اگلا مقام تھا۔
اس جگہ پہنچے تو دیکھا کہ درخت کے تنوں سے بنا ہوا چھوٹا سا کیبن ہے جس میں دو کمرے اور ایک باورچی خانہ تھا۔ تاہم کھانا پکانے کا کام ۱۳ مربع فٹ کا کمرہ تھا جو نشست گاہ بھی تھا۔ اس کے ایک کونے میں چولہا رکھا تھا۔ یہاں موجود بندے نے بہت دور سے گاڑی آتے دیکھ لی تھی اور ہماری آمد پر پریشان نہ ہوا۔ میرے ساتھ میری بیوی اور چارلس ایلس تھے۔اس نے فوراً بڑے فرائنگ پین پر بیکن تلناشروع کر دی تھی اور ساتھ ہی سبزیوں کے کچھ ڈبے بھی کھول لیے تھے۔ ایک اور ڈبے کو کھول کر اس نے کسی نامعلوم جانور کا گوشت بھی نکال لیا تھا۔ اسی روز صبح کو اس نے ایک ہرن بھی شکار کیا تھا۔ سو کافی کچھ کھانے کے لیے موجود تھا۔
میز پر بہت ہی غلیظ دسترخوان بچھا ہوا تھا۔ ہمارے ساتھ ہمارا گاڑی بان، سائیس، ہمار امیزبان اور ایک نچلے طبقے کا بندہ بھی شامل ہو گئے۔ یہاں عجیب رواج تھا کہ گرمیوں میں کوئی بھی کوٹ نہیں پہنتا تھا اور صرف فلینل کی قمیض اور پتلون پہنی جاتی تھی۔ بریسز کی جگہ بیلٹ استعمال ہوتی تھی اور ریوالور ہر بندے کے پاس تھا۔ میں واحد بندہ تھا جس نے کوٹ پہنا ہوا تھا۔ مجھے شرمندگی سی ہوئی کہ کہیں مجھے بدتہذیب نہ سمجھ لیا جائے۔ سو میں نے کوٹ اتار دیا۔
ہم زیادہ خوش نہیں تھے اور ہر بندہ اسی کوشش میں تھا کہ کچھ غلط نہ بول جائے۔ اسی وجہ سے سبھی خاموش تھے اور کھانے کےد وران محض نمک یا بیکن مانگنے سے زیادہ کوئی بات نہ ہوئی۔ بعد میں مجھے بتایا گیا کہ یہ لوگ کھانے کے دوران فحش گفتگو کے عادی ہوتے ہیں اور ایک خاتون کی موجودگی میں انہیں خاموش رہنے کی عادت ہے۔ اگر کسی کی زبان سے غلطی سے کوئی غلط لفظ نکل بھی جاتا تو کم از کم پانچ منٹ کی خاموشی چھا جاتی۔ اسی وجہ سے وہ لوگ چپ چاپ تھے کہ کسی قسم کی غلطی سے بچ سکیں۔
اگر ان کی فحش گفتگو کی مانند ان کے جسم کی بو بھی چھپائی جا سکتی تو بہت اچھا رہتا۔ ان کی فلینل کی قمیضیں شاید ہی کبھی دھوئی جاتی ہوں کہ اس طرح وہ سکڑ جاتی ہیں۔ گاڑی بان سے گھوڑے کے جسم کی بو، سائیس سےاصطبل کی جبکہ ہمارے میزبان سے قسم قسم کی بدبوئیں آ رہی تھیں کہ وہ انہی کپڑوں میں سبھی کچھ کرتا تھا اور یہ کپڑے کبھی نہیں دھوئے گئے تھے۔
کھانا ختم ہوا اور ہم روانہ ہو گئے۔ اگلا مرحلہ دلچسپ تھا کیونکہ ہم گھاس کے میدان سے نکل کر پہاڑی علاقے میں داخل ہوئے۔ یہاں جگہ جگہ صنوبر کے جنگلات تھے اور کھائیاں بھی۔ بیس میل کے سفر کے بعد ہم پھر ایک طویل ڈھلوان سے اترے اور پھر درخت غائب ہو گئے۔
۳۵ میل کے سفر کے بعدہمیں ایک اور دھبہ سا دکھائی دیا اور جلد ہی وہ ایک اور کیبن بن گیا۔ یہاں دو خوبصورت لڑکیاں کام کر رہی تھیں اور ان کا بھائی یہ جگہ چلاتا تھا۔ ان دو بچیوں کی موجودگی میں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ تہذیب کے آثار پیدا ہونے لگ گئے تھے۔ پہلے پہل تو اس دور افتادہ مقام پر ان بچیوں کو ماں کے بغیر دیکھ کر مجھے ان کی سلامتی کے بارے فکر لاحق ہوئی مگر مجھے بتایا گیا کہ اس جگہ یہ بچیاں نیویارک سے زیادہ محفوظ ہیں کہ یہاں بڑے سے بڑا خونی اور بدمعاش بھی ان پر بری نگاہ نہیں ڈال سکتا۔ یہاں آتے ہی لوگوں کا لہجہ نرم ہو جاتا تھا۔
افسوس کہ کھٹملوں پر ان کی موجودگی سے کوئی فرق نہ پڑا اور جونہی لیمپ بجھا، کھٹمل نکل آئے۔ بستر پر سونا ناممکن ہو گیا۔سو میں نے پیرافین کا لیمپ پھر جلایا اور کھٹمل چھپ گئے۔ اچانک لیمپ ایک جھماکے سے بجھ گیا۔ شکر ہے کہ عمارت کو آگ نہ لگی۔ کھٹمل پھر نکل آئے۔میں پھر کبھی ایسی عمارت میں نہیں سویا۔ رات کو جھاڑیاں کاٹ پر ان پر چادر بچھا کر آسمان تلے سونا سب سے بہتر ہے۔
ہم فورٹ فیٹرمین پر پہنچے جو راک کریک سٹیشن سے ۹۰ میل دور تھا۔ ہماری گاڑی تنوں سے بنی ایک عمارت کے سامنے رکی جو پچھلی دونوں عمارتوں سے زیادہ بڑی تھی۔ میرے پاس جنرل میک ڈوول (بحرالکاہل کا ساحلی کمانڈر)کے تعارفی خطوط تھے جو فورٹ فیٹر کے سربراہ کرنل جینٹری اور یہاں کے میجر پاؤل کے نام تھے۔
اب براہ راست ان کے گھر جا کر رکنا مناسب نہ تھا، سو ہم سرائے میں جا کر رکے۔ کمرہ انتہائی غلیظ تھا اور زمین پر ریت کا فرش تھا۔ سستی شراب کے بھبھکے اٹھ رہے تھے اور ساری جگہ پر عجیب سی نحوست طاری تھی۔
سرائے کا مالک طویل قامت اورفلینل کی قمیض اور پتلون پہنے اور ریوالور لٹکائے آیا۔اس نے ہمارے چہرے پر بدمزگی کے آثار بھانپ لیے اور بولا: ‘معذرت چاہوں گا کہ ہمارے ہاں معزز خواتین کا انتظام نہیں ہوتا۔ یہ بھی اچھا ہے کہ آپ دن کی بجائے رات کو آئے ہیں ورنہ دن کو یہاں لڑائی ہوتی ہے۔ آپ کو میزپوش گندا لگ رہا ہے نا، صبح یہاں ڈِک اور بِل تاش کھیل رہے تھے۔ ایک دوسرے سے تکرار کے دوران دونوں نے ریوالور نکالے اور بِل نے اسی میز کی دوسری جانب بیٹھے ڈِک پر دو گولیاں چلا دیں۔ ڈِک یہیں میز پر لڑھک کر مر گیا‘۔ یہ واقعہ اس جگہ کے ساتھ مطابقت رکھتا تھا۔
مجھے علم تھا کہ سان فرانسسکو سے یہاں کے کماندار کو خط مل چکا ہوگا، سو میں اس کے گھر کی طرف چل پڑا تاکہ اپنی آمد کی اطلاع دے دوں۔
فورٹ فیٹرمین کوئی قلعہ نہیں تھا بلکہ ایک کھلا سٹیشن تھا۔ راستے میں میری ملاقات کرنل جینٹری سے ہوئی جو ہمیں ملنے کے لیے سرائے کی جانب آ رہاتھا۔ جب میں نے صبح والے واقعے کے بارے پوچھا تو اس نے بتایا کہ متوفی کی تدفین ہو گئی ہے اور اس واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا جا چکا ہے۔ متوفی کافی بدنام تھا اور اگر اس کا مخالف پہلے گولی نہ چلایا تو خود مارا جا چکا ہوتا۔تاش پر لڑائی کا خاتمہ قتل پر ہوا مگر ماحول بالکل مطمئن تھا کہ بات ختم ہو گئی۔
کرنل جینٹری نے ہماری رہائش کا بندوسبت میجر پاؤل اور اس کی بیوی کے ذمے لگا دیا کہ وہ خود کنوارہ تھا اور اس کی رہائش گاہ پر خواتین کی رہائش کا انتظام نہ تھا۔ پریری علاقے میں مہذب خواتین کو دیکھنا کافی اچھا لگا۔ میجر کی بیٹی سے بھی ملاقات ہوئی جو اٹھارہ سال کی تھی اور اس کی آواز بہت خوبصورت تھی اور اسے گانے کا شوق بھی تھا۔
اگلی صبح ہم پاؤڈر دریا کو روانہ ہوئے جو فورٹ فیٹرمین سے ۹۲ میل کے فاصلے پر تھا اور کوئی سواری کا کوئی الگ سے انتظام نہ تھا کہ یہاں کا سٹیشن کافی عرصہ قبل خالی کر دیا گیا تھا کہ مقامی انڈین لوگوں کو ان کے مخصوص علاقوں میں بھیج دیا گیا تھا۔ ہمیں رینچ کے مالکان فریون اور موریٹن نے دعوت دی تھی اور ان کا رینچ دریا کے دوسری جانب ۲۲ میل دور تھا۔ انہوں نے ہمارے لیے امریکی ویگن بھیجی ہوئی تھی۔ جم بورن ہماری آمد سے قبل وہاں بھجوا دیا گیا تھا۔
سارا راستہ پریری تھا اور کہیں کہیں ہرن دکھائی دے جاتے۔
درختوں کے تنوں سے بنی اس عمارت کو امریکی کیسل فریون کہتے تھے جو راک کریک سٹیشن سے ۲۱۲ میل دور تھی۔ وہاں پہنچ کر ہمیں اس دعوت کو قبول کرنے پر بہت خوشی ہوئی۔ گھر دو منزلہ تھا اور بالائی منزل پر بے شمار جنگلی جانوروں کے سردیواروں پر نصب تھے۔ یہاں موریٹن فریون کی بیوی بھی موجود تھی جس نے اس مقام کو مہذب بنایا ہوا تھا۔ یہاں سے دریائے پاؤڈر تک ۲۲ میل لمبی ٹیلیفون کی تار بھی بچھی ہوئی تھی اور ہر پندرہ منٹ بعد کوئی نہ کوئی پیغام آتا تھا۔
ہمارے مہربان دوستوں نے ہر ممکن آسائش مہیا کرنے کی کوشش کی اور ہر کام انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اور نہایت مہارت کے ساتھ کیا۔ اس دور دراز مقام پر ملازمین کا ملنا بھی ناممکن تھا۔
ان لوگوں کے رینچ پر ۸٫۰۰۰ مویشی تھے اور ہر ایک کی حالت بہترین تھی۔ مجھے مویشی پالنے کا کوئی تجربہ نہیں مگر امریکیوں نے بتایا کہ پریری گھاس کو جب مویشی چرتے ہیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ جڑی بوٹیاں اگنا شروع ہو جاتی ہیں۔ مثلاً اگر کسی جگہ دس ہزار مویشی پالے جا سکتے ہوں تو چند برس بعد وہی جگہ بمشکل پانچ ہزار کے لیے چارہ مہیا کر سکے گی۔ اس طرح ریچنگ ناکام ہوتی جاتی ہے۔
ان کے رینچ سے دریا کے بہاؤ کی سمت پچیس میل دور تہذیب کی آخری نشانی امریکی مسٹر اور مسز پیٹرزاور ان کے برطانوی ساتھی مسٹر السٹن کا رینچ تھا۔
ان لوگوں نے ہمارا بہت خیال رکھا۔ انہوں نے ہمارا استقبال اپنے نئے گھر میں کیا جو تعمیر کے آخری مرحلے پر تھا اور مجھے یقین ہے کہ انہیں ہماری وجہ سے کافی مشکل پیش آئی ہوگی۔
اگلی صبح ہم لوگ بگ ہارن کے لیے روانہ ہوئے اور پاؤڈر دریا عبور کر کے ہم سیدھا ڈھلوان پر چڑھنے لگے جو لگ بھگ ۴٫۰۰۰ فٹ اونچی تھی۔ ہم نے نکلتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ واپسی پر بھی ہم ان کے ساتھ چند دن گزاریں گے۔
یہاں پہنچ کر ہمیں اپنے چاروں ہمراہیوں کی عادات کا علم ہوا۔ میرا خیال تھا کہ وہ انتہائی سخت جان اور جفاکش افراد ثابت ہوں گے۔ اگرچہ وہ اچھے بندے تھے مگر ان کی عیش پرستی سے مجھے تعجب ہوا۔شکار سے بھرے علاقے میں میرا خیال تھا کہ ہم جانور شکار کر کے پیٹ بھریں گے اور میں ایسا بہت برسوں سے کرتا آیا تھا۔ بسکٹوں کا ایک بیرل، چند پاؤنڈ بیکن اور خاصی مقدار میں کافی کے ساتھ کوئی بھی شکاری بہت عرصہ نکال سکتا ہے۔ یہاں کے جنگلی جانور تو ویسے بھی خوب فربہہ تھے۔ میرے ساتھیوں کو اس سے کوئی غرض نہ تھی۔ انہیں کافی، چینی، بہت ساری بیکن، روٹی بنانے کے لیے چولہا، آٹا، بیکنگ پاؤڈر، خشک سیب، خشک آڑو، خشک بلیک بیریز اور نمک مرچ کے علاوہ بھی بہت کچھ درکار تھا۔
میری عادت رہی ہے کہ میں صبح کو چھ بجے کے قریب کافی کے ساتھ کچھ ٹوسٹ اور مکھن لیتا ہوں اور پھر سارا دن بغیر کھانے کے ہی گزرتا ہے۔ شام کو پانچ یا چھ بجے واپسی پر پھر کھانا کھاتا ہوں۔
میرے ساتھی کبھی بھی صبح سویرے تیار نہ ہوتے تھے بلکہ جب میں نکلنے کے لیے تیار ہوتا تو وہ بیٹھے بیکن فرائی کر رہے ہوتے تھے۔
جم بورن کو ہر چیز میں کیڑے نکالنے کی عادت تھی کہ ہم کیمپ سے بہت دور شکار کرتے تھے اور دوپہر کو کھانے پر آنا ممکن نہ ہوتا تھا۔ روزانہ بہترین ڈبل روٹی بنتی تھی اور میں اپنے ساتھیوں کو یہی کہتا تھا کہ ڈٹ کر ناشتہ کریں اور پھر کافی ساری ڈبل روٹی ساتھ لے کر چلیں تاکہ سارے دن کا انتظام ہو جائے۔
بگ بل اور باب سٹیوارٹ کے پاس بھی بیکن کی خاصی مقدار ہوتی تھی اور وہ جانوروں کا شکار کرنے کے بعد ان کی کھال اتار کر بہترین فربہہ جانور کو وہیں سڑنے کے لیے چھوڑ جاتے تھے۔
یہ لوگ ان چیزوں کو بیکار سمجھ کر پھینک دیتے تھے جو ہمیں بہت پسند ہوتی تھیں۔ مثلاً جنگلی مرغیاں ہمیں بہت پسند ہیں مگر جب میں شکار کر کے لاتا تو وہ انہیں پھینک دیتے۔ ایک بار میں نے اپنی اعشاریہ ۵۷۷ بور کی رائفل سے جنگلی خرگوش مارا اور پھر نیچے اتر کر اس کو صاف کیا اور اس میں گھاس بھر کر زین سے لٹکا لیا۔ مگر اس بہترین خرگوش کو کھانا ہمارے نصیب میں نہیں تھا۔ جب میں نے باورچی سے پوچھا کہ خرگوش کا کیا ہوا تو وہ بولا کہ یہ خرگوش سیج کی جھاڑی کھاتا ہے تو اس کی بو گوشت میں آ جاتی ہے سو اسے پھینک دیا تھا۔ آگے چل کر میں بگ ہارن رینج کی طرف واپس آؤں گا جب ہم واپیٹی اور دیگر جانوروں کا تذکرہ کریں گے۔ ابھی میں ہندوستانی ریچھ کے بارے بات کرتا ہوں۔
باب ۱۱
ریچھ (جاری)
میں پہلے ہی ہندوستانی ریچھ کے بارے بات کر چکا ہوں کہ اس کی عادات کی وجہ سے ہندوستان اور سائیلون میں ریچھ سےمتعلق حادثات کسی بھی دوسرے جانور سے زیادہ ہوتے ہیں۔ مگر یہ ریچھ گوشت خور نہیں اور اسے معدومیت کا شکار کرنا مناسب نہیں۔ میں یہ بھی بتا چکا ہوں کہ اس ریچھ کو سرمائی نیند کی ضرورت نہیں ہوتی مگر اسے چھپنے کا شوق ہوتا ہےا ور جہاں بکثرت ریچھ ہوں، وہاں بھی دن کے وقت شاید ہی کبھی دکھائی دے۔ پہاڑی چٹانوں، گہری کھائیوں اور گھنی جھاڑیوں میں آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ریچھ بہ آسانی چھپ سکتا ہے مگر میں نے بہت بار ایسی جگہوں کو دیکھا ہے جہاں چھپنے کی کوئی بھی جگہ نہیں ہوتی اور پھر بھی ہر رات کو ریچھ کے نشانات ملتے ہیں کہ وہ دیمک کی تلاش میں زمین کھودتا ہے۔ کئی بار تو وہ ہمارے کیمپ سے ڈیڑھ سو گز تک پہنچ جاتے تھے۔ ایسے جنگلوں میں دو دو سو بندوں کے ساتھ ہانکے سے بھی ریچھ نہیں ملتا۔ تجربے سے پتہ چلا ہے کہ ریچھ رات کو طویل سفر کرتے ہیں اور اپنی پسند کی خوراک کو مطلوبہ جگہوں پر تلاش کرتے ہیں۔ جب بھی کسی جنگلی جانور کا شکار کیا جائے تو اس کے پیٹ کو چاک کر کے دیکھنا چاہیے کہ اس نے کیا کھایا تھا۔ اس طرح اندازہ ہو جاتا ہے کہ مزید جانور کہاں مل سکتے ہیں۔ افریقہ میں بہت بار میں نے ایسی جگہ پر ہاتھی شکار کیے ہیں جہاں نزدیک ترین کاشتکاری پچاس میل دور ہوگی مگر ان کے معدے سے باجرہ نکلتا تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اپنی پسندیدہ خوراک کی تلاش میں جنگلی جانور کتنا طویل فاصلہ طے کر سکتے ہیں۔ اسی طرح جہاں بہت شکار کیا جاتا ہو، وہاں کے جنگلوں میں جانور پانی اور خوراک کی تلاش میں بہت مسافت طے کرتے ہیں۔
جب کھیتوں کی رکھوالی کرنے والے کافی تعداد میں ہوں اور ان کے پاس اسلحہ بھی ہو تو جب وہ کسی جانور کو بھگاتے ہیں تو وہ جانور اگلی رات واپس نہیں لوٹتا بلکہ مخالف سمت میں جاتا ہے۔ دو روز گزرنے کے بعد وہ واپس اسی جگہ آئے گا جہاں سے بھگایا گیا ہوتا ہے۔
دریائے نیل کی مختلف شاخوں والے علاقے میں ہاتھیوں کو عرب حمران شکاری بہت تنگ کرتے ہیں۔ اس لیے وہ ہاتھی کبھی بھی مسلسل دو راتیں ایک ہی جگہ پانی نہیں پیتے۔ اگر ایک رات وہ ایک دریا سے پانی پینے آتے ہیں تو اگلی رات تیس میل دور کسی اور جانب دوسرے دریا کا پانی پیئں گے۔
ریچھ تیزی سے سفر کر سکتا ہے اور بظاہر سست الوجود دکھائی دیتا ہے مگر بہت متحرک ہوتا ہے اور جب زمین کھدی ہوئی ہو تو اس سے یہ اندازہ نہ لگانا چاہیے کہ ریچھ بھی کہیں قریب ہی ہوگا۔
تیندوا اکثر درخت پر چھپ کر بیٹھتا ہے اور نیچے سے گزرنے والے انسان کو دکھائی نہیں دیتا۔ اگرچہ ریچھ درخت پر بخوبی چڑھ سکتا ہے مگر اس کی جسامت بھاری اور رنگت کالی ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کا چھپنا محال ہوتا ہے۔ بہت بڑے درخت کے تنے میں موجود سوراخ میں ریچھ چھپ سکتا ہے اور جب بھی موقع ملے تو چھپ جاتا ہے۔ ایک بار ایک بندہ ایسے ہی کسی درخت سے لکڑی کاٹنے آیا تو کلہاڑی کی آواز سے ریچھ جاگا اور سیدھا اس بندے پر حملہ آور ہو گیا اور اس کی ران منہ میں دبوچ لی۔ اس بندے نے کلہاڑی مار کر اسے ہٹایا۔ اس کی ران پر چھ انچ لمبازخم بنا جو گھٹنے تک پھیلا ہوا تھا۔ اس بندے نے بتایا کہ اگر اس کی کلہاڑی بھار ی ہوتی تو ریچھ کو مار ڈالتا۔ اس کی کلہاڑی بہت ہلکی تھی۔
میرا شکاری کریم بخش بہت طاقتور بندہ تھا اور ایک بار اس کا ریچھ سے مقابلہ ہوا۔ ریچھ نے اس کے مالک کو دبوچا اور پھر اس پر حملہ آور ہو گیا۔ کریم بخش کافی زخمی ہوا اور یہ لڑائی ایک کھائی کے کنارے ہو رہی تھی۔ اس نے ریچھ کو کھائی سے نیچے دھکیل دیا تھا۔ یہ بندہ ہیڈ کانسٹیبل تھا اور لوگ اس کی بہت عزت کرتے تھے۔
ریچھ بیوقوف ہوتا ہے اور دو بار میں نے اسے ہاتھی پر بغیر کسی وجہ کے حملہ کرتے دیکھا ہے۔ہم لوگ بالاگھاٹ ضلعے میں سانبھر کی تلاش میں ہانکا کر رہے تھے۔ مچان پر بیٹھنے کی بجائے میں اپنے ہاتھی ہری رام پر ہی سوار رہا۔ یہ ہاتھی مجھے حکومت نے دو بار عاریتاً دیا تھا اور ڈھلوان پر اگے گھنے جنگل میں اسے راستہ بنانے کا کمال حاصل تھا۔ اس کا مزاج اچھا تھا۔ سو میں نے اسے شکاری ہاتھی بنا لیا۔ ہم لوگ گھاس کے میدان میں کھڑے ہو گئے جو بہت خوبصورت تھا۔ہم لوگ ایک جھاڑی کے پیچھے نیم پوشیدہ تھے۔ میرا خیال تھا کہ ہانکے سے نکلنے والے جانور اسی سمت آئیں گے۔
اچانک مجھے اپنے دائیں جانب جنگل کے کنارے پر چھوٹی جھاڑیوں میں کالے رنگ کا کوئی جانور بھاگتا دکھائی دیا اور پھر اپنے مقام سے سو گز کے فاصلے پر ریچھ کو نکلتے دیکھا۔ وہ کھلے میں پہنچ کر چند سیکنڈ کو رکا اور پھر ماحول کا جائزہ لینے لگا۔
اچانک اسے میرا ہاتھی دکھائی دیا اور اس نے فوراً ہی ۱۰۰گز کے فاصلے سے ہاتھی پر حملہ کر دیا۔ مجھے زیادہ وقت نہیں ملا اور ریچھ دس گز دور ہوگا کہ میں نے لبلبی دبائی اور عین اسی وقت ہاتھی مڑا اور ڈھلوان پر نیچے کو سرپٹ دوڑا۔ اس کا رخ اڑھائی سو گز دور جنگل کی طرف تھا۔ ہاتھی جب اس طرح بھاگے تو اسے روکنا ممکن نہیں۔ شکر ہے کہ میں نے عین اسی جگہ ایک سپاہی کو کھڑا کیا تھا جہاں ہاتھی جانا چاہتا تھا۔ سپاہی کو جونہی صورتحال کا اندازہ ہوا، اس نے وہیں کھڑے ہو کر شور مچانا اور رائفل لہرانا شروع کر دیے۔ ہاتھی جنگل میں گھسنے ہی والا تھا کہ سپاہی اسے روکنے میں کامیاب ہو گیا۔ جنگل میں گھستے تو ہمارے چیتھڑے اڑ جاتے۔
اس دوران ریچھ فرار ہو گیا تھا اور اگرچہ ہم نے ایک میل سے زیادہ فاصلے تک پیچھا کیا مگر ریچھ نہ دکھائی دیا۔ یہ بغیر کسی وجہ کے حملے کی بہترین مثال ہے۔ اگر ہاتھی نہ بھاگتا تو تفصیل دیکھ سکتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ ریچھ ہاتھی کو ٹانگ سے پکڑ لیتا اور پھر فرار ہو جاتا۔
ایک اور موقعے پر سوندھا ضلعے میں میں ہری رام پر ہی سوار تھا اور بہترین اور اونچی گھاس کے قطعوں پر جا رہے تھے اور ایک سانبھر شکار کر لیا تھا کہ اچانک مجھے ایک عجیب سی غراہٹ سنائی دی جیسے شیرنی اپنے بچے یا نر کو بلا رہی ہو۔
یہ آواز چوتھائی میل دور سال کے جنگل سےآئی تھی۔ ہری رام جیسے بے اعتبار ہاتھی پر سوار ہو کر شیر کی تلا ش کافی خطرناک کام ہے۔ سال کا جنگل کافی گھنا اور تنے بہت مضبوط، سیدھے اورقریب قریب ہوتے ہیں اور بڑا ہاتھی سیدھا نہیں چل سکتا۔ سو اگر ایسے جنگل میں ہاتھی بھاگ پڑے تو سوار کی ہلاکت لازمی ہو جاتی ہے۔ شیر کی آواز پھر سنائی دی اور میں نے سوچا کہ قسمت آزماتے ہیں۔ سو ہم جنگل میں داخل ہو کر محتاط انداز سے پیش قدمی کرنے لگے اور اطراف کا بغور جائزہ لیتے گئے۔
سال کی لکڑی عمارتی مقاصد کے لیے بہترین سمجھی جاتی ہے اور ریلوے کے سلیپر بھی اسی سے بنتے ہیں۔ اس کی چھال کالی ہوتی ہے اور درخت بالکل عمودی ہوتے ہیں اور ۳۰ سے ۴۰ فٹ کے بعد شاخیں نکلتی ہیں۔ اس طرح کے جنگل میں ہاتھی کا گزرنا محال ہوتا ہے اور بہت جگہوں پر نر بانس کے جھنڈ بھی تھے۔ اگر ہاتھی بھاگ کرا س سے گزرنے کی کوشش کرے تو سوار کو مہلک زخم پہنچ سکتے ہیں۔ اس جنگل میں بہت سارے گہرے نالے بھی تھے اور ہم ان کے کنارے کنارے آہستگی سے چلتے رہے اور ساتھ ہی نالے کے اندر بھی جھانکتے رہے۔
شیر کی آواز کبھی ایک سمت سے آتی تو کبھی دوسری سمت سے۔ ہم فیصلہ نہ کر سکے کہ شیر کس سمت ہوگا۔
تاہم میں اس موقعے کو ہاتھ سے جانے نہ دینا چاہتا تھا۔ سو ہم دو گھنٹے تک اسی طرح بڑھتے رہے اور تمام کھائیاں اور نالے دیکھ لیے۔ میں نے گھڑی دیکھی تو پانچ بج گئے تھے۔ یہ واپسی کا وقت تھا کہ چھ بجے تک تو تاریکی چھا جاتی اور بانس کے جھنڈوں سے گزرنا ممکن نہ رہتا۔ سو ہم نے شیر کا خیال دل سے نکالا اور سیدھا کیمپ کی سمت چل پڑے۔
اس طرح چلتے ہوئے نصف گھنٹے بعد ہم کیمپ سے ایک میل دور رہ گئے تھے کہ اچانک مجھے اپنے دائیں جانب ۳۵ گز کے فاصلے پر تاریک سایہ دکھائی دیا جو بانس کے جھنڈ کے قریب تھا۔ میں نے ایک لمحے کو ہاتھی رکوایا اور عین اسی لمحے وہ سایہ گھنے جھنڈ کی طرف بڑھا۔اس کے شانے کا اندازہ لگا کر میں نے پیراڈاکس بندوق سے گولی چلائی۔ خوش قسمتی سے ہاتھی کو یہ سایہ نہ دکھائی دیا۔
اس گولی کا اثر عجیب نکلا۔ میں نے کبھی ایسا شور نہیں سنا اور دھاڑیں اور غراہٹیں سنائی دینے لگیں جیسے درجن بھر شیر اور ببر شیر شور مچا رہے ہوں۔
ہری رام بھاگ پڑا۔ میرے لیے دوسری گولی چلانا ممکن نہ رہا اور ایک بڑا ریچھ سیدھا ہماری جانب بھاگا۔ کتے کی رفتار سے بھاگتے ہوئے اس نے ہمارا رخ کیا۔
میرا خیال تھا کہ ہمارے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے مگر خوش قسمتی سے دو تین چھوٹے درختوں کو ہاتھی توڑتا ہوا گزرا۔ آنکس کا اثر جیسے ختم ہو گیا ہو۔ مہاوت کبھی گدی میں چبھوتا توکبھی کانوں کے اوپر نرم حصے پر۔ ہری رام کی دوڑ نہ رک سکی۔ایسا لگ رہا تھا کہ کئی میل تک وہ ایسے ہی دوڑنے کی نیت سے بھاگا ہے۔
میں اس ہاتھی کو روز اپنے ہاتھ سے مٹھائی اور دیگر لوازمات کھلاتا تھا اور اس سے باتیں بھی کرتا تھا۔ اگرچہ ہماری حالت خراب تھی، مگر میں نے پیار سے نرم لہجے میں ہاتھی کو مخاطب کیا اور اس سے بات شروع کر دی۔ کچھ دیر بعد ہاتھی سست ہوا اور لگ بھگ ڈیڑھ سو گز کے بعد رک گیا۔ میں نے مہاوت سے کہا کہ اسے سیدھا ریچھ کی سمت لے جاؤ۔ ہم مطلوبہ مقام پر پہنچے اور ریچھ کا شور ابھی تک سنائی دے رہا تھا۔ میرے تمام ساتھی درختوں پر چڑھ گئے تھے اور شکاری صاحب اپنا نیزہ پھینک کر گلہری کی مانند شاخوں سے چمٹے ہوئے تھے۔
ابھی ہم ماحول کا جائزہ لے ہی رہے تھے کہ اچانک ریچھ نمودار ہوا اور پھر ہاتھی پر حملہ آور ہو گیا۔ ہاتھی پھر بھاگ نکلا اور میں گولی نہ چلا سکا۔ پھر مجھے ہاتھی سے نرمی اور پیار سے بات کرنی پڑی اور پھر جا کر وہ رکا۔ یہاں ایک جگہ ہلکا سا نشیب تھا جہاں دلدلی زمین پر اونچی گھاس اگی ہوئی تھی۔ جوں جوں ہم آگے بڑھتے گئے، مہاوت نے آنکس کا بے رحمی سے استعمال جاری رکھا۔ اچانک اونچی گھاس سے ریچھ نمودار ہوا اور چالیس گز کے فاصلے پر پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا۔ یہاں گولی چلانے کا بہترین موقع ملا۔
ہری رام نے پھر دوڑ لگا دی۔گولی چلانے کا موقع ضائع ہو گیا۔ دو بار مزید ایسا ہوا اور پھر ریچھ ساتھ والے جنگل میں گم ہو گیا اور ہم ریچھ کو تلاش کرتے رہے۔بڑی مشکلوں سے ہری رام واپس اس جگہ پہنچا تو دیکھا کہ ریچھ مرا پڑا تھا۔ اس کی چیخم دھاڑ کچھ دیر ہوئی بند ہو چکی تھی۔ اس سے چند گز کے فاصلے پر ایک اور بڑا ریچھ جان کنی کی حالت میں تھا۔ دونوں کو پیراڈاکس کی ایک ہی گولی لگی تھی۔
اگرچہ ہمیں صرف ایک ہی ریچھ دکھائی دیا تھا، مگر سخت گولی پہلے ریچھ کے شانے سے گزری اور پھر اس کے پیچھے چھپے ہوئے دوسرے ریچھ کو بھی لگی جو کچھ گز دور ہوگا۔گولی نے اس کا بھی شانہ توڑا اور پھیپھڑوں میں جا کر رکی۔
اگرچہ یہ ریچھ پوری طرح جوان تھے مگر صاف لگ رہا تھا کہ جس ریچھ نے ہاتھی پر حملہ کیا تھا، وہ ماں ہوگی جو اپنے بچے کی جانکنی کی آواز سن کر ہاتھی پر حملہ آور ہوئی تھی۔ گولی کی طاقت کے بارے مجھے پوری طرح اطمینان ہو گیا مگر ہری رام کی بزدلی کی وجہ سے تیسرا ریچھ بچ کر نکل گیا تھا۔
میرے ساتھیوں کو ذرا بھی شرمندگی نہیں تھی اور وہ درختوں سے اترے۔ شکاری کے پاس نیزہ بطورِ خاص اسی مقصد کے لیے ہی تھا۔ اسے ناگپور کے بھوپت نے بنایا تھا۔ عموماً یہ نیزہ بہت بہادر شکاری کو دینا چاہیے اور اس کی ہمراہی میں جان بلب جانور کو دیکھنے کے لیے قریب جانا چاہیے۔ زیادہ تر حادثات ایسے وقت ہی ہوتے ہیں اور اس کی وجہ محض شکاری کی لاپرواہی ہوتی ہے۔ ایسا نیزہ دو فٹ لمبا ہو اور اس کا پھل تین انچ چوڑا اور بہت تیز۔ انی سے ۲۲ انچ کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی لکڑی آڑی لگی ہو تاکہ نیزہ جانور کے پار نہ ہو جائے۔ اس نیزے میں بہت مضبوط نر بانس لگانا چاہیے۔ اکثر بہترین نیزوں میں کمزور بانس لگایا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ ایسے نیزہ بردار کے ساتھ دم توڑتے جانور کی طرف جانا بہتر ہوتا ہے۔یاد رہے کہ عام جانور کے حملے کی نسبت زخمی جانور کا حملہ کہیں خطرناک ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ عام جانو رکا جب حملہ ہو تو اس پر گولی چلا کر اس کا رخ موڑا یا اسے ہلاک کیا جا سکتا ہے مگر شدید زخمی جانور کا حملہ صرف اور صرف اس جانور کی موت پر ہی رکتا ہے۔ ایسے معاملات میں بہت افسوس ناک حادثات پیش آتے ہیں جو صرف اور صرف شکاری کی غلطی کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔ ایسا ہی ایک سانحہ مرحوم لارڈ ایڈورڈ کے ساتھ پیش آیا تھا جو ڈیوک آف سومرسیٹ کا بیٹا تھا۔ کئی سال قبل اس پر ہندوستانی جنگل میں ریچھ نے حملہ کیا تھا اور اس کی ٹانگ کو گھٹنے کے پاس سے کاٹنا پڑا اور وہ جانبر نہ ہو سکا۔
یہ بدقسمت شکاری تنہا شکار پر نکلا تھا اور ایک ریچھ زخمی کر دیا تھا۔ پھر اس نے میل بھر زخمی ریچھ کا پیچھا کیا۔ جب اس نے ریچھ کو پا لیا تو ریچھ نے اس پر حملہ کر دیا ۔ اس نے دوسری گولی چلا کر اسے شدید زخمی کر دیا مگر ریچھ نے اسے گھٹنے سے پکڑ کر زمین پر گرا لیا اور سخت جدوجہد ہوئی۔ اس کے ہمراہیوں نے ریچھ کو بھگا دیا اور اسے کیمپ لے آئے۔ اس کا الزام کسی پر بھی عائد نہیں ہوتا۔ اس نے ریچھ کے ساتھ لڑائی کے دوران شکاری چاقو سے اپنا خوب دفاع کیا اور ریچھ کی لاش کچھ روز بعد اس کے شکاریوں نے تلاش کر لی تھی۔ مگر یہ نوجوان مقامی ڈاکٹر کی جراحی نہ سہہ سکا اور جاں بحق ہو گیا۔
ایک اور واقعے میں انسانی غلطی کے باوجود بہت بڑا حادثہ ہوتے ہوتے بچا۔ بہت برس قبل میں سائیلون میں اپنے مرحوم بھائی جنرل ویلنٹائن بیکر کے ساتھ ‘دی پارک‘ نامی علاقے میں شکار کھیل رہا تھا۔ اس سے چند روز جنگلی ہاتھی سے جھڑپ کی وجہ سے میری دائیں ران شدید سوجن کا شکار تھی اور چند گز چلنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ اچانک میرے گھوڑے کے سامنے چلنے والے بندے نے مڑ کر نعرہ لگایا: ‘ریچھ، ریچھ ‘ اور ہمیں چند گزد ور جنگل میں ایک سایہ سا بھاگتا دکھائی دیا۔ میرا بھائی فوراً نیچے اترا اور عین اسی لمحے گولی چلا دی۔ میری دائیں ٹانگ بالکل سُن تھی اور جب میں نیچے اترا تو کچھ نہ پتہ چلا اور میں گر گیا۔ پھر اٹھا اور لشتم پشتم ریچھوں کے پیچھے بھاگنے لگا۔ چند لمحے بعد احساس ہوا کہ دو ریچھ میرے عین سامنے بھاگ رہے ہیں۔ اچانک ان میں سے ایک مڑا اور مجھ پر حملہ آور ہوا۔ میں نے اس کے پیٹ پر گولی چلائی اور وہ وہیں گر گیا۔
پھر چند گز دور سے مجھے اپنے بھائی کے چلانے کی آواز آئی۔ مجھے خوف ہوا کہ کوئی حادثہ نہ ہو گیا ہو۔ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ایک ریچھ نیم دراز حالت میں ہے اور لکڑی کے ڈنڈے کو کتر رہا ہے جو میرے بھائی نے اس کے شانے کے زخم میں گھسیڑ رکھا ہے۔ اسے حیرت تھی کہ ریچھ اس زخم کے باوجود کیسے زندہ ہے۔ یہ بات کافی خطرناک تھی کہ ریچھ کسی لمحے بھی اٹھ کر حملہ کر سکتا تھا۔ میرے پاس تین پاؤنڈ وزنی شکاری چاقو تھا جس سے ریچھ کے سر پر وار کیا اور چاقو اس کے دماغ میں ترازو ہو گیا اور ریچھ وہیں مر گیا۔ اگر ایسی جگہ ہمارے پاس مندرجہ بالا نیزہ ہوتا تو بہت آسانی رہتی۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہندوستان میں لوگ شکاری کتوں کو استعمال کیوں نہیں کرتے۔ زخمی ریچھ یا شیر کا پیچھا کرنے کے لیے بل ٹیریئر انمول ہوتا ہے اور ریچھ کے سلسلے میں تو کتے بہت مددگار ہوتے ہیں۔ تاہم میں نے انہیں کبھی استعمال ہوتے نہیں دیکھا۔ وسطی اور شمالی ہندوستان میں سردیوں کا موسم بہت مناسب ہوتا ہے اور سارا دن کتے شکار کے باوجود زیادہ نہیں تھکتے۔ سینڈرسن نے اس بارے کافی دلچسپ تجربات کیے ہیں اور بتایا ہے کہ جب بُل ٹیریئر ریچھ کو ناک سے پکڑتا ہے تو ریچھ بیکار ہو جاتا ہے۔ تین کتے مل کر ریچھ کو مار سکتے ہیں اور ریچھ کے پنجے کتوں کی کھال پر زخم نہیں ڈالتے کہ وہ لجلجی سی ہوتی ہے۔
برِصغیر میں ریچھ کی دواور اقسام ہوتی ہیں، ایک کالا ریچھ اور ایک بھورا ریچھ۔ دونوں کشمیر اور ہمالیہ میں پائے جاتے ہیں۔ ان کا شکار تو میں نے کبھی نہیں کیا مگر دوسرے شکاریوں سے سنا ہے کہ ان کی عادات عام ریچھوں جیسی ہی ہوتی ہیں۔
بریچ لوڈر اور ہائی ولاسٹی گولیوں کی آمد سے قبل ریچھ خطرناک ہوتے تھے مگر میرے خیال میں اعشاریہ ۵۷۷ بور کی رائفل اور ۶ ڈرام بارود یا ۱۲ نمبر کی گول شکل والی گولی اور ۷ ڈرام بارود ہو تو ریچھ تو کیا بھینس کی جسامت کے کسی جانور کا بچنا ممکن نہیں۔تاہم گولی کا ٹھوس ہونا لازمی ہے۔ ایکسپریس والی کھوکھلی گولی کو میں اس میں شامل نہیں کرتا۔ اعشاریہ ۵۷۷ بور کی کھوکھلی گولی سے متعلق میں ایک مقامی شکاری کا واقعہ بیان کرتا ہوں۔ اس کا نام ظہور الاسلام تھا جو میرے ساتھ وسطی صوبجات میں پچھلی سردیوں میں سنگرم پورشکار کھیل رہا تھا۔
ہم ہر قسم کے جانور کو ہانکے سے نکال رہے تھے اور زمین پر ہونے کی وجہ سے ہم نے چھوٹی سی آڑ بنائی ہوئی تھی۔ اس مقصد کے لیے دو چھوٹے درختوں کو تین فٹ کی اونچائی پر کاٹ کر ان پر لکڑی ڈال کر ہم نے پتے بچھا دیے تھے۔ اس طرح دوسری جانب سے ہم نہیں دیکھے جا سکتے تھے۔
اس جگہ گھاس جھلسی ہوئی تھی اور چار فٹ اونچی ہوگی۔ جوں ہی ہانکے والے پہنچے، ایک ریچھ بھاگتا ہوا ظہور سے پندرہ گز کے فاصلے سے گزرا۔ ظہور نے گولی چلائی اور ریچھ غرایا اور بھاگتا رہا۔
میں نے خون کی مدد سے اس ریچھ کو تلاش کرنے میں مدد دی۔ ظہور نے بتایا کہ ریچھ کو گولی ترچھی لگی ہے سو یا تو کولہے پر یا پھر پچھلی ران پر لگی ہوگی۔
ایک فٹ سے زیادہ موٹے تنے والے ساگوان کے درخت پر ہمیں قیمہ سا دکھائی دیا جو زمین سے چھ فٹ اونچائی پر تھا۔ زرد گھاس بھی خون آلود تھی اور جگہ جگہ گوشت کے ریزے لگے ہوئے تھے۔
اس مقام کا بغور معائنہ کرتے ہوئے ہم نے ہڈی کے دو ٹکڑے اٹھائے جو ایک انچ لمبے ہوں گے۔ یہ شاید ریچھ کی ران سے گرے ہوں گے۔
۲۰۰ گز تک پیچھا کرنے کے بعد ہم ایک گہرے نالے پر پہنچے جہاں ہمارا خیال تھا کہ ریچھ لیٹا ہوگا۔ اس کی بجائے ہمیں ہڈی کا ایک اور ٹکڑا ملا۔ اعشاریہ ۵۷۷ کی کھوکھلی گولی اس کی ران کی ہڈی پر لگتے ہی بکھر گئی تھی۔ سارے پٹھے اور ہڈی چورا چورا ہو گئے تھے۔ تاہم ریچھ رکا نہیں اور ہمیں پھر نہیں ملا۔ ہم نے ہاتھی اور بندے بھی استعمال کیے تھے مگر ایک گھنٹے تک جاری رہنے والی یہ تلاش ناکام رہی۔
کھوکھلی گولی کے اثر کا اس سےزیادہ ظالمانہ پہلو اور کیا ہوگا کہ ہڈی سے لگتے ہی اسے چکنا چور کر گئی۔ اگر ٹھوس گولی ہوتی تو ریچھ کے پار ہو جاتی اور وہ وہیں گر جاتا۔
باب ۱۲
دریائی گھوڑا
دنیا بھر میں افریقہ واحد خطہ ہے جہاں دریائی گھوڑا ملتا ہے اور خط استوا سے شمال اور جنوب دونوں کے ۲۶ ڈگری تک تقریباً سبھی دریاؤں میں پایا جاتا ہے۔ یہ عام تصور ہے کہ زمانہ قدیم میں دریائی گھوڑا دریائے نیل پر قاہرہ تک پایا جاتا تھا مگر جوں جوں انسانی نقل و حرکت بڑھتی گئی، اس کا مسکن سمٹ کر سوڈان تک محدود ہو گیا۔ خرطوم کے شمال میں اس کی زیادہ تعداد نہیں ملتی۔ بربر سے ابو حامد تک دریائی گھوڑے پائے جاتے ہیں اور دریائے نیل پر بنے جنگلاتی جزائر پرملتے ہیں۔
یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کتنے کم عرصے میں کسی جانور کو ایک مخصوص علاقے سے نکالا جا سکتا ہے اور وہ کتنا طویل فاصلہ طے کر کے کسی اور جگہ آباد ہو سکتے ہیں۔ مجھے بخوبی یاد ہے کہ دریائے نیل پر اسوان کے مقام پر اٹھائیس برس قبل بے شمار مگرمچھ پائے جاتے تھے۔ سٹیمروں کی آمد و رفت سے گھبرا کر مگرمچھ اب ان جگہہوں جیسا کہ وادئ حیفہ میں بہت کم بچے ہیں حالانکہ بیس برس قبل ان کی تعداد کافی زیادہ ہوتی تھی۔
چند برس میں آنے والی تبدیلی کو تو ہم محسوس کر چکے ہیں تو پچھلے ہزار یاپندرہ سو برس میں دریائی گھوڑے کی تعداد کیسے کم ہوئی ہے، اس کے بارے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مگرمچھ اور دریائی گھوڑا اچانک کہیں دور دراز مقامات کو نہیں چلے جاتے بلکہ بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی وجہ سےبتدریج ہٹتے ہیں۔ کسی مخصوص علاقے سے ان کی روانگی اتنی آہستگی سے ہوتی ہے کہ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔
دریائی گھوڑا کالے گینڈے سے زیادہ وزنی ہوتا ہے اور شاید سفید گینڈے کے برابر ہوگا۔ اس لیے ہاتھی کے بعد اسے دوسرا وزنی زمینی جانور کہا جا سکتا ہے۔ اس کا گوشت اور کھال ہاتھی کی نسبت زیادہ بھاری ہوتا ہے اور جونہی گولی لگے توفوراًڈوب جاتا ہے۔ اگر پانی پچیس فٹ سے زیادہ گہرا نہ ہوتو دو گھنٹے میں جسم میں اتنی گیس جمع ہو جاتی ہے کہ سطح پر ابھر آتا ہے۔
اس کا وزن اور ہٹاؤ ایک دوسرے سے اتنے قریب ہوتے ہیں کہ معمولی سی کوشش سے سطح آب پر آجاتا ہے۔ چونکہ پیروں پر وزن انتہائی کم پڑتا ہےکہ یہ پانی کے اندر تیزی سے بھاگ سکتا ہے۔
دریائی گھوڑے کے پیر عجیب ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے نہ صرف وہ چکنی مٹی والے کناروں پر چڑھ سکتا ہے بلکہ یہ پیر تیرنے کے لیے یا لچکدار تہہ پر چلنے کے لیے بھی مناسب ہوتے ہیں۔ ہر پیر پر چار انگلیاں ہوتی ہیں اور ان پر نوکیلے ناخن لگے ہوتے ہیں جو اترائی اور چڑھائی میں مدد دیتے ہیں۔ اگرچہ اس کی انگلیوں کے درمیان جھلی نہیں ہوتی مگر کھال اتنی پھیل جاتی ہے کہ تیرنے میں کافی مددگار ہوتی ہے۔
میں نے نر دریائی گھوڑے کی پیمائش کی تھی جو ناک سے دم تک ۱۴ فٹ اور ۳ انچ بنی۔ دم کی لمبائی ۹ انچ تھی۔
اس کی ٹانگیں بہت چھوٹی ہوتی ہیں جیسے بہت فربہہ پالتو سور ہو۔ سر بہت بڑا ہوتا ہے اور اس کا منہ تمام زمینی جانوروں سے زیادہ بڑا ہے۔ اس کے بڑے دانت سور کی کچلیوں سے مماثل ہوتے ہیں مگر اس سے بہت بڑے۔ بڑے دانتوں کی بیرونی تہہ اتنی سخت ہوتی ہے کہ جب ان دانتوں کو نکالنے کے لیے کلہاڑی سے وار کیا جائے تو بسا اوقات چنگاریاں نکلتی ہیں۔
سامنے والے دانت آبی نباتات کو کاٹنے کے لیے مناسب ہوتے ہیں۔ اس کی کھوپڑی بہت بڑی ہوتی ہے مگر دماغ بہت چھوٹا اور انسانی مٹھی کے برابر ہوتا ہے۔
آنکھیں بڑی ہوتی ہیں اور ان کے گرد ہڈی ہوتی ہے۔ کان چھوٹے ہوتے ہیں اور سطح آب پر آنے کے بعد پانی نکالنے کے لیے دریائی گھوڑا انہیں زور سے ہلاتا ہے۔ دم بہت چھوٹی اور چپٹی ہوتی ہے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ دریائی گھوڑے کی ناک ابھری ہوئی ہوتی ہے جس میں بالائی ہونٹ بھی شامل ہے اور اس میں کرکری ہڈی ہوتی ہے۔
پانی کے اندر دریائی گھوڑااحمقانہ حد تک غصیلا ہوتا ہے اور نر تو اکثر بلا وجہ ہی کشتیوں پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔ تاہم اگر خشکی پر اسے چھیڑا جائے تو فوراً نزدیکی پانی کا رخ کرتا ہے۔ جب انہیں دن کے وقت نیند سے جگایا جائے تو میں نے انہیں فوراً کنارے سے پانی میں کودتے دیکھا ہے اور بعض اوقات تو وہ بارہ سے سولہ فٹ اونچے کنارے سے پانی میں چھپاک گرتے ہیں۔
ہر اصول میں استثنا بھی ہوتا ہے اور یہ احمق جانور عموماً انسان سے دور بھاگتا ہے مگر میں ذاتی طور پر دو واقعات جانتا ہوں جن میں انسانی جان گئی تھی۔ پہلا واقعہ دریائے عتبارہ سے متعلق ہے جہاں خشک موسم میں دریا کی تہہ پر ایک تالاب کے قریب مقامی بندوں نے تربوز اگا رکھے تھے۔ دریائی گھوڑے رات کوپکے ہوئے تربوز کھانے آتے تھے۔ ایک رات باڑی کے مالک نے انہیں بھگانا چاہا تو ایک پرانےنر نے اسے منہ میں دبوچ کر مار ڈالا۔
دوسرےموقع پر میں نے ایک دریائی گھوڑے کو زخمی کیا۔ یہ دریائے سفید نیل کے کنارے بستیوں میں دہشت کی علامت بنا ہوا تھا۔ اگلے روز اس کی تلاش کی گئی تو پتہ چلا کہ وہ دریا کے کنارے ریت پر لیٹا ہوا ہے۔ مقامی افراد سمجھے کہ وہ ہلنے جلنے سے قاصر ہوگا اور نیزے سنبھال کر اس کے قریب پہنچے تو اس نے سب سے آگے والے بندے پر حملہ کیا اور کمر سے پکڑ کر اسے دو ٹکڑے کر ڈالا۔
ایک بار میں سفید نیل کے کنارے شکاری کیمپ لگائے ہوئے تھا کہ ایک مقامی نابینا شیخ مجھ سے ملنے آیا۔ دریا عبور کرنے کے لیے اس نے پتلے درخت کے تنوں سے بنی کشتی استعمال کی تھی اور اس کا بیٹا کشتی کو کھے رہا تھا۔ ملنے کے بعد جب واپس جانے لگا تو دریا کی تہہ سے اچانک ایک نر دریائی گھوڑا ابھرا اور اس نے کشتی کو بمع شیخ کے چبا ڈالا۔ اس کا بیٹا بمشکل جان بچا کر کنارے تک آ پہنچا۔میں کنارے پر کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا۔
دریائی گھوڑے کی کھال دو انچ موٹی ہوتی ہے۔ سارے کھال جب اتاری جائے تو کافی وزنی یعنی اڑھائی سو کلو تک ہوتی ہے۔ میں نے اس کا کبھی وزن تو نہیں کیا مگر ایک بار میں نے نر دریائی گھوڑے کا شکار کیا اور اس کی کھال کو محفوظ کرنے کی نیت سے اتروایا اور بہت دشواری سے اسے ہم نے ایک طاقتور اونٹ پر لادا تو وہ بمشکل کھڑا ہوا۔ اچھے اونٹ عموماً ۵۰۰ پاؤنڈ وزن اٹھانے کے قابل ہوتے ہیں، سو یہ کھال اس سے کچھ زیادہ ہی وزنی ہوگی۔
یہ کہنا دشوار ہے کہ دریائی گھوڑا کتنی دیر پانی کے اندر سانس روک کر رہ سکتا ہے۔ اس کے نتھنے بند ہو سکتے ہیں اور گہری سانس لے کر دریائی گھوڑا پانی کے اندر غوطہ لگاتا ہے۔ آکسیجن سے بھر ی ہوا سے اس کا خون صاف ہوتا رہتا ہے۔ جب سانس ختم ہو جائے تو یہ سطح پر ابھرتا ہے اور پھنکار نما آواز کے ساتھ ساری سانس باہر نکال کر پھر سے پھیپھڑے بھر لیتا ہے۔ اس کا یہ عمل کسی حد تک وہیل وغیرہ سے مماثل ہوتا ہے۔ یہ عمل اتنا تیز ہوتا ہے کہ جب آپ کو ہوا اور پانی کا فوارہ اٹھتا دکھائی دیتا ہے تو عین اسی وقت دریائی گھوڑا اپنے پھیپھڑے خالی کر کے دوبارہ بھر چکا ہوتا ہے۔
میں نے کئی بار گھڑی کی مدد سے ان کے غوطے کا دورانیہ جاننے کی کوشش کی ہے مگر ایک جیسا جواب نہیں ملا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ عام حالات میں پانچ منٹ کے بعد اسے سانس لینے کے لیے سطح آب پر آنا پڑتا ہے۔ مگر بعض اوقات جب اسے چھپنے کی ضرورت پڑے تو دس منٹ بھی پانی کےاندر چھپا رہ سکتا ہے۔
اگر دریائی گھوڑے پر کئی گولیاں چلائی گئی ہوں اور وہ معمولی زخمی بھی ہو چکا ہو تو وہ جتنا ممکن ہو، پانی سے نیچے رہے گا۔ جب سانس لینا لازم ہو جائے گا تو محض اپنے نتھنے نکال کر ایک لمحے کے دسویں حصے میں پھیپھڑے خالی کر کے پھر بھرنے کے بعد پانی میں غائب ہو جائے گا۔ دریائی گھوڑا اگرچہ احمق جانور ہے مگر اپنے سر کو حملے سے بچانے کے لیے پانی کے نیچے رکھتا ہے اور سانس لینے کے لیے نتھنے باہر آتے ہیں۔اس طرح اس پر گولی نہیں چلائی جا سکتی۔
ماضی میں اس کے دانتوں کو ہاتھی دانت سے زیادہ قیمتی سمجھا جاتا تھا کہ اس سے دندان ساز مصنوعی دانت بناتے تھے۔ ان کا رنگ کبھی زرد نہیں پڑتا۔ اسی وجہ سے ان کی قیمت اس صدی کے آغاز میں بسا اوقات ۲۵ شلنگ فی پاؤنڈ تک پہنچ جاتی تھی۔تاہم ان دانتوں کو استعمال سے قبل ریگمال سے ان کی اوپری تہہ ہٹانی پڑتی تھی۔ تاہم جب سے امریکہ میں پورسلین ایجاد ہوا ہے، دریائی گھوڑے کے دانتوں کی قیمت اب ہاتھی دانت سے بھی کم ہو گئی ہے۔
اب اس کی اصل قیمت اس کی کھال اور چربی پر منحصر ہے۔ اس کی کھال سے کوڑے وغیرہ بنتے ہیں۔ اس کی چربی بہترین ہوتی ہے اور کسی قسم کی تیز بو نہیں ہوتی اور ابالنے کے بعد جب اسے صاف کیا جائے تو لارڈ کی طرح ہوتی ہے۔ ایک صحت مند دریائی گھوڑے سے لگ بھگ ۲۰۰ پاؤنڈ چربی نکلتی ہے جو عربوں کو بہت پسند ہے کہ ان کے مویشیوں میں چربی نہیں ہوتی اور وہ بہت نحیف ہوتے ہیں۔
میں نے مادہ دریائی گھوڑے کے ساتھ کبھی دو سے زیادہ بچے نہیں دیکھے اور اکثر تو ایک بچہ ہی ہوتا ہے۔ ماؤں کو بچوں سے بہت لگاؤ ہوتا ہے اور وہ اکثر انہیں اپنی پشت پر کھڑا کر لیتی ہیں اور پانی میں لے جاتی ہیں۔ جب انہیں محسوس ہو کہ بچوں کو سانس درکار ہے تو پھر اوپر لے آتی ہیں۔
دریائی گھوڑے آپس میں بہت زیادہ لڑے ہیں اور اکثر رات کو نروں کی دھاڑیں سنائی دیتی ہیں اور اگر کشتی دریا کے کنارے کھڑی ہو تو اس کا پیندا لرزتا محسوس ہوتا ہے۔
بہت مرتبہ میں نے نر دریائی گھوڑوں کی لڑائیاں دیکھی ہیں اور وہ منہ میں منہ پھنسائے سطح سے اوپر اٹھتے ہیں اور انہیں کسی خطرے کا احساس نہیں رہتا۔ ایک بار میں نے ایک تنگ سے دریائی دھارے پر ان کا ایک غول دیکھا۔ یہاں دریا کا پاٹ تیس گز سے زیادہ نہیں تھا اور جب بھی ان کا سر پانی کی سطح سے اوپر اٹھتا، وہ میرے رحم و کرم پر ہوتے۔ دریائی گھوڑے پر دو جگہوں پر مہلک نشانہ لگایا جا سکتا ہے۔ پہلا یہ کہ جب دریائی گھوڑا دوسری جانب دیکھ رہا ہوتو اس کے کان کے پیچھے اور دوسرا آنکھ کے عین نیچے۔ دونوں صورتوں میں گولی دماغ تک پہنچ جاتی ہے۔میں نے تیزی سے گولیاں چلائیں کیونکہ میرے پاس بریچ لوڈر تھی اور یہاں دریا تنگ تھا اور نو یا دس فٹ گہرا۔ پندرہ بیس دریائی گھوڑے جو یہاں مقیم تھے، میں کھلبلی مچ گئی اور زخمی دریائی گھوڑوں میں بھگدڑ مچ گئی جبکہ ہلاک شدگان نیچے ڈوب گئے۔ اچانک ایک زخمی دریائی گھوڑا سطح آب پر ابھرا اور اس نے خون آلود پانی کا فوارہ چھوڑا اور اس کے عین پیچھے ایک اور دریائی گھوڑا نمودار ہوا اور اس نے پہلے والے کی گردن کو اپنے جبڑوں میں دبوچ لیا۔ لڑائی دو یا تین منٹ تک جاری رہی اور میں پانی کی سطح سے دو یا تین فٹ اونچا کھڑا تھا مگر دونوں دریائی گھوڑوں نے لڑائی کے ہیجان میں مجھ پر توجہ نہ دی اور لڑتے لڑتے چار یا پانچ گز کے فاصلے پر پہنچ گئے۔ میں نے ایک کے کان میں اور دوسرے کے سر میں گولیاں اتار کر ان کی لڑائی ختم کر دی۔
میرے ساتھ ڈیڑھ ہزار آدمی تھے، سو انہیں گوشت کھلانے کے لیے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرنا چاہتا تھا۔
رات کے وقت افریقی دریا میں عام کشتی کی مدد سے دریا عبور کرنا ہو تو مجھے دریائی گھوڑے سے زیادہ کسی چیز سے نفرت نہیں محسوس ہوتی۔ اگر اسے محسوس ہو کہ آپ کی کشتی اس کی دشمن ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی آپ کو مرنےسے نہیں بچا سکتی۔ آپ کو شاید چند گز دور سے اس کی پھنکار سنائی دے اور اگلے ہی لمحے دریائی گھوڑا کشتی کے نیچے پہنچ کر اسے الٹا دے گا اور ان دیکھا دشمن آپ کا منتظر ہوگا۔ کئی بار جب میں سارا دن کی سیاحی کے بعد جھیل کے پار جانے کے لیے کشتی میں بیٹھا گھپ اندھیرے میں جا رہا ہوتا تھا کہ دریائی گھوڑوں کی پانی میں اترنے کی شپ شپ سنائی دیتی اور پھر یہی دھڑکا لگا رہتا کہ کس وقت کشتی الٹی جائے گی اور ہم بے بسی سے پانی میں جا گریں گے۔
بالائی نیل پر سیاحت کے تین سالوں کے دوران میری سبھی کشتیوں کو دریائی گھوڑوں کے ہاتھوں کچھ نہ کچھ نقصان ضرور پہنچا تھا۔ ایک بار ایک بڑی کشتی میں بھیڑیں لاد کر ہم دوسری کشتی کی مدد سے کھینچ کر لے جا رہے تھے۔ ہوا موافق تھی اور ہماری رفتار ۶ یا ۷ بحری میل فی گھنٹہ ہوگی۔ اچانک دریائی گھوڑے نے نیچے سے حملہ کیا اور کشتی ہوا میں اچھلی اور اس کے پیندے میں ایک بڑا سوراخ ہو گیا۔ سبھی بھیڑیں ڈوب گئیں۔ ایک بار ہم ایک بہت بڑی اور چپٹے پیندے والی کشتی میں سوار ہو کر جا رہے تھے جو کسی درخت کے تنے کو کاٹ کر بنائی گئی تھی اور اس کی لمبائی ۲۷ فٹ اور پیندے کی موٹائی ۳ یا ۴ انچ تھی۔ شکر ہے کہ یہ بہت سخت لکڑی سے بنی تھی۔ جب ہم کنارے کے قریب پہنچے تو نیچے سے دریائی گھوڑے نے حملہ کیا اور کشتی کا ایک حصہ ہوا میں اٹھ گیا۔ اگر عام پیندے والی کشتی ہوتی توہم سب اچھل کر پانی میں گرتے اور کشتی سمیت غرق ہو جاتے۔
ڈاکٹر لیونگ سٹون نے خود کو پیش آنے والا ایک واقعہ بتایا ہے کہ وہ مقامی افراد سے بھری کشتی لیے جا رہا تھا کہ دریائی گھوڑے نے حملہ کیا اور کشتی ہوا میں اچھلی اور اپنے سواروں سمیت غرق ہو گئی۔ یہ زمبیسی کی کسی شاخ پر پیش آنے والا واقعہ ہے۔
دریائی گھوڑوں کی وجہ سے حادثات بکثرت پیش آتے ہیں۔
ایک بار دن دیہاڑے میری کشتی کو کھینچنے والے سٹیمر پردریائی گھوڑے نے حملہ کیا۔ اس نے پیڈل والے پہیئے کے کچھ حصے توڑنے کے بعد اس نے سیدھا ہماری فولادی کشتی کا رخ کیا اور اس کے پیندے میں اپنے بڑے دانتوں سے دو سوراخ کر دیے جن سے پانی رسنا شروع ہو گیا۔
پانی تیزی سے اندر آنے لگا۔ سٹیمر نے فوراً رخ موڑا اور ہماری مدد کو آن پہنچا۔ ہم نے سامان منتقل کیا اور ساتھ ساتھ ہر ممکن برتن سے پانی نکالتے رہے۔ آخرکار انجینئر نے ننگے پیروں سے سوراخ تلاش کیے اور ان میں پیر پھنسا کر پانی کا راستہ روک دیا۔ جب ہم نے سارا پانی نکال دیا۔ پھر اس نے اس کی مرمت کی اور کشتی چلنے کے قابل ہوئی۔
دریا کی تہہ میں دریائی گھوڑے کی رفتار کافی ہوتی ہے۔ ایک بار ہم سٹیمر پر جا رہے تھے اور ہماری رفتار ۱۰ ناٹ فی گھنٹہ تھی۔ دریا کا بہاؤ تنگ اور زیادہ گہرا بھی نہیں تھا۔ ہمیں تقریباً سو گز آگے ایک بہت بڑے دریائی گھوڑے کا سر سطح سے اٹھتا دکھائی دیا۔ پھر وہ غائب ہو گیا۔ مگر اس کی حرکت سے سطح پر واضح لہر دکھائی دے رہی تھی۔ چونکہ دریا بہت تنگ تھا اور پانی زیادہ گہرا نہیں تھا، سو دریائی گھوڑا سیدھا ہی جا رہا تھا۔
انجینئر نے رفتار بڑھا دی اور کچھ وقت بعد ہم اس کے قریب جا پہنچے ۔ لہر ہمارے قریب آتی گئی اور پھر ہمارا ۱۰۸ ٹن وزنی سٹیمر کو جھٹکا لگا اور ذرا سا اٹھا۔
بدقسمتی سے ہمیں اس جانور کے انجام کا علم نہ ہو سکا۔
میں نے دریائی گھوڑے کا بدترین حملہ اسی دریا پر دیکھا تھا۔ ہم لوگ ۵۷ کشتیوں کا قافلہ لے کر دریا میں ایسے مقام پر راستہ کاٹ رہے تھے جہاں بہت زیادہ آبی پودے اگ آئے تھے اور نقل و حمل ناممکن ہو کر رہ گئی تھی۔ رات کو نر دریائی گھوڑے نے ہماری کشتی پر حملہ کیا اور اس کے ایک جانب بندھی چھوٹی کشتی کو ڈبو دیا۔ پھر اس نے ایک کشتی کے ایک طرف کو کاٹا۔ کشتی سترہ فٹ لمبی تھی اور لکڑی کے ٹکڑے اڑ کر گرے۔ اس کے بعد اس نے فولادی کشتی کا رخ کیا اور اسے ضرور ڈبو دیتا، مگر اس سے قبل میں نے ۸ بور کی ایک گولی اس کی کھوپڑی میں اتار دی۔ یہ بہت عجیب واقعہ تھا او رمیں نے سوچا کہ شاید خون کی بو سے اس نے حملہ کیا ہوگا اور ان کشتیوں کو ڈبو دیا جن پر گزشتہ روز کے مارے گئے دریائی گھوڑے کے گوشت کی پٹیاں رکھی تھیں۔ اس کے علاوہ میں نے پتوار کے ساتھ وہ گوشت باندھا ہوا تھا جو ابھی تک ہم پٹیوں کی شکل میں کاٹ نہ سکے تھے۔ اس دریائی گھوڑے کی ہلاکت کے بعد ہم نے جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ اس کے جسم پر جگہ جگہ زخموں کے مندمل نشانات تھے۔ ایک نشان تو کئی فٹ لمبا تھا۔ ان نشانات سے ہمیں اس کے بدمزاج ہونے کا ثبوت مل گیا۔
حمران عرب اور دیگر قبائل ہارپون سے دریائی گھوڑے کا شکار کرتے ہیں۔ میں نے ان کا مشاہدہ کیا ہے اور یہ کافی دلچسپ ہوتے ہیں۔
جب دریائی گھوڑوں کا چھوٹا غول سطح پر تیرتا یا غنودگی میں دھوپ سینکتا ہوا دکھائی دے تو دو شکاری دریا کے بہاؤ کی مخالف سمت ۲۰۰ گز پر جا کر دریا میں داخل ہوتے ہیں اور بہاؤ کے ساتھ تیرتےہوئے پہلے دریائی گھوڑے سے پانچ یا چھ گز قریب پہنچ جاتے ہیں۔ پھر دونوں اپنے ہارپون بیک وقت مارتے ہیں اور غوطہ لگا کر مخالف سمت تیرتے ہوئے قریب ترین کنارے کو چلے جاتے ہیں۔
اگر ہارپون ٹھیک مارے گئے ہوں تو گڑ جاتے ہیں۔ دونوں سے رسی لگی ہوتی ہے۔ انتہائی ہلکی لکڑی کے پیراک ٹکڑے ان سے منسلک ہوتے ہیں جن کا حجم انسانی سر کے برابر ہوتا ہے۔ ان رسیوں کی لمبائی دریا کی گہرائی کے برابر یا تیس فٹ کے برابر ہوتی ہے۔
جونہی دریائی گھوڑے کو زخم لگتا ہے تو وہ فوراًغوطہ لگا کر تہہ کو چلا جاتا ہے اور اِدھر اُدھر بھاگنا شروع کر دیتا ہے۔ جب وہ دوبارہ سانس لینے کے لیے سطح پر آتا ہے تو اسے لکڑی کے پیراک ٹکڑے دکھائی دیتے ہیں تو ڈر کر فوراً تہہ میں چھپ جاتا ہے۔
اسی دوران شکاری دوسرے کنارے پر پہنچ کر اپنے ساتھیوں کو جا ملتے ہیں جن کے پاس لمبی رسیاں اور اضافی ہارپون کے علاوہ بہت تیز نیزے بھی ہوتے ہیں۔
بظاہر دریائی گھوڑے کو پکڑنے کا کام کافی مشکل دکھائی دیتا ہے۔ سادہ مگر بہت ذہانت والا طریقہ اپنایا جاتا ہے جس کی مدد سے لکڑی کا پیراک ٹکڑا پکڑ ا جاتا ہے۔ دریا کی چوڑائی شاید ڈیڑھ سو گز ہو۔ ایک شکاری لمبی رسی کا ایک سرا لے کر دریا کو عبور کر کے دوسرے سرے پر چلا جاتا ہے۔ رسی کے وسط میں ایک پتلی سی ڈوری بندھی ہوتی ہے۔ ایک سرے پر بندے کے پاس ایک رسی ہوتی ہے تو دوسرے سرے پر بندے کے پاس ڈوری اور رسی دونوں کے سرے ہوتے ہیں۔ رسی اور ڈوری کو پھیلا کر یا ساتھ ملا کر زاویہ گھٹایا یا بڑھایا جا سکتا ہے۔
اس طرح چلتے ہوئے دونوں شکاری پیراک ٹکڑے تک پہنچتے ہیں۔ پھر وہ رسی اور ڈوری کو حرکت دیتے ہوئے پیراک ٹکڑے کو جکڑ لیتے ہیں۔ پھر دوسرے کنارے والا شکاری رسی چھوڑ دیتا ہے اور پہلے کنارے والا شکاری اس ٹکڑے کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اسی دوران دوسرا شکاری بھی واپس آن پہنچتا ہے۔
جب دریائی گھوڑے کو احساس ہو کہ اسے کھینچا جا رہا ہے تو اصل لطف شروع ہو تا ہے۔ مگر شکاری مہارت اور صبر سے کام لیتے ہوئے اسے کنارے کی طرف کھینچتا ہے اور آخرکار جب وہ قریب پہنچ جائے تو ایک اور ہارپون مارا جاتا ہے۔ اب احتیاط کی ضرورت نہیں رہتی اور سبھی شکاری مل کر رسیوں کی مدد سے دریائی گھوڑے کو کھینچنا شروع کر دیتے ہیں۔
میں نےا یسے حالات میں دریائی گھوڑے کو پانی سے نکل کر شکاریوں پر حملہ کرتے دیکھا ہے۔ شکاری اس پر نیزوں سے وار کرتے ہیں مگر دریائی گھوڑا اکثر انہیں چبا ڈالتا ہے۔ تاہم سب سے مؤثر دفاع دریائی گھوڑے کی آنکھوں میں مٹھی بھر ریت ڈال دینا ہے۔ ریت پڑتے ہی دریائی گھوڑا سیدھا پانی کا رخ کرتا ہے تاکہ آنکھیں دھو کر پھر حملہ آور ہو۔ ایک بار میں نے دیکھا کہ ایسے ہی شکار کے دوران دریائی گھوڑے نے بار بار حملے کیے اور اتنے نیزے توڑ ڈالے کہ مجبوراً مجھے اس کی کھوپڑی میں گولی اتارنی پڑی۔
وسطی افریقہ کے مقامی افراد حمران کی طرح تیر کر دریائی گھوڑوں کا شکار نہیں کرتے بلکہ وہ کشتی میں بیٹھ کر جاتے ہیں۔ تاہم اکثر دریائی گھوڑا حملہ کر کے کشتی کو تباہ اور انہیں ہلاک کر دیتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ تیر کر ہارپون مارنا بہتر ہوتا ہے کہ شکاری غوطہ لگا کر خود کو بچا لیتا ہے کیونکہ وہ دریائی گھوڑے کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ حملہ ہوتے ہی دریائی گھوڑا سیدھا اوپر کی جانب دیکھتا ہے تاہم سفید نیل اور اس کے آس پاس کی جھیلوں میں اتنے مگرمچھ ہوتے ہیں کہ وہاں تیرنا غیرضروری خطرے کا باعث بنتا ہے۔
اس طرح دریائی گھوڑے کے شکار میں بہت مزہ آتا ہے اور پانی میں موجود دریائی گھوڑے کو گولی مارنا شکار کی کمتر قسم ہے۔ جب تک لاش سطح پر نہ ابھر آئے، یہ کہنا ممکن نہیں ہوتا کہ وہ ہلاک ہوا یا بچ گیا ہے۔
گولی لگنے کی آواز اکثر سنائی دیتی ہے اور اس کا بڑا سر اچانک غائب ہو جاتا ہے۔ تاہم انتہائی تجربہ کار شکاری بھی اس چیز سے دھوکہ کھا سکتے ہیں اور چند منٹ بعد اچانک پھنکار سنائی دیتی ہے کہ دریائی گھوڑا زندہ ہے اور پھر اس پر گولی چلانے کا موقع نہیں ملتا۔
میرےخیال میں ۱۰ ڈرام بارود اور دس بور کی انتہائی عمدہ نشانے کی حامل رائفل دریائی گھوڑے کے لیے بہترین رہتی ہے۔ یہ گولی اگر دماغ سے چوک بھی جائے تو بھی اتنا صدمہ پہنچاتی ہے کہ وہ بے ہوش ہو جاتا ہے۔ ایسے مواقع پر دریائی گھوڑا لٹا ہو جاتا ہے اور اس کا پیٹ اوپر آ جاتا ہے اور ٹانگیں ہلنے لگتی ہیں۔ اس طرح طویل بے ہوشی کے دوران دریائی گھوڑا ڈوب کر مر جاتا ہے۔ میں نے انہیں اکثر بھاری رائفل سے ایسے ہی ہلاک کیا ہے کہ ان کی کھوپڑی ٹوٹ جاتی ہے۔ ایک بار اعشاریہ ۵۷۷ بور کی گولی نے بھی یہی کام کیا تھا اور اگرچہ کھوپڑی میں معمولی سی دراڑ پڑی اور گولی وہیں پھنس گئی تھی۔یہ مادہ دریائی گھوڑا چند منٹ تک سطح پر رہنے کے بعد ڈوب گئی تھی اور دو گھنٹے بعد اس کی لاش سطح پر ابھری۔ میرے پاس اس کی کھوپڑی موجود ہے جس میں گولی ابھی تک پھنسی ہوئی ہے۔
چونکہ دریائی گھوڑے بہت غصیلے ہوتے ہیں تو یہ سوچنا فطری بات ہے کہ وہ اکثر مگرمچھوں پر بھی حملہ کرتے ہوں گے۔ مگر ایسا نہیں ہوتا اور نہ ہی میں نے کبھی ایسا ہوتا سنا۔ ہاں میں نے ایک بار ایک دریائی گھوڑے پر گولی چلائی جو مہلک ثابت ہوئی اور دو گھنٹے بعد جب اس کی لاش ابھری تو اس پر مگرمچھوں کے دانتوں کے نشانات تھے۔ ظاہر ہے کہ مردہ دریائی گھوڑے سے مگرمچھ اپنا پیٹ بھرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ پاس ہی کئی مگرمچھوں کے سر بھی پانی سے باہر دکھائی دیے جو یقیناً منتظر ہوں گے کہ موقع ملے تو اس سے پیٹ بھر لیں۔ زندہ دریائی گھوڑے پر حملہ کرنے سے مگرمچھ بہت ڈرتے ہیں۔
ایک امکان البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ دریائی گھوڑے کے بچوں کو مگرمچھ اٹھا لے جاتے ہوں مگر یہ بات یقینی نہیں کیونکہ ایسا عینی شاہد کوئی نہیں ملا جو اس بات کی گواہی دے سکے۔ ویسے بھی بچے پر حملہ ہوتے ہی اس کی ماں مگرمچھ کو زندہ نہ چھوڑتی۔
دریائی گھوڑے کا بچہ بہت لذیذ ہوتا ہے۔جب اس کے پیروں کا شوربہ تیار کیا جائے تو اس سے زیادہ لذیذ شوربہ اور کسی جانور کا نہیں بنتا اور اس کی کھال کا شوربہ جیسے کچھوے کا شوربہ بنا ہو۔ جوان دریائی گھوڑے کی تازہ اتری ہوئی کھال کو اگر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر ایک گھنٹے کے لیے سرکے میں ڈبو کر پھر ابالی جائے تو اس میں اور کچھوے کی کھال میں فرق کرنا محال ہو جاتا ہے۔
دریائی گھوڑے کا گوشت ہمیشہ لذیذ ہوتا ہے اور اگرچہ بوڑھے نر کا گوشت سخت ہوتا ہے مگر چوڑے پتھر پر اسے کوٹ لیا جائے تو ریشے ٹوٹ جاتے ہیں۔ پھر اس میں کٹے ہوئے پیاز، مرچیں اور نمک کے علاوہ پودینہ ڈالا جائے تو یہ بہت مزے کے کباب اور تلا ہوا قیمہ بنتا ہے۔
مادہ ایک وقت میں ایک بچہ پیدا کرتی ہے سو ان کی تعداد بہت تیزی سے نہیں بڑھتی۔ جہاں ان کی بہت بڑی تعداد دکھائی دے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ ان کے سالانہ اجتماعات میں سے ایک جگہ ہوگی اور یہ اس علاقے میں ان کی اوسط تعداد کی نشاندہی ہرگز نہیں کرتی۔
ایک بار خشک موسم میں سفید نیل میں ایک موڑ پر مجھے ان کی بہت بڑی تعداد دکھائی دی۔ ہمارا سٹیمر ۹ ناٹ کی رفتار سے جا رہا تھا اور میرا خیال تھا کہ ہم ٹکرائے بغیر نہیں گزر سکیں گے مگر سٹیمر کے قریب آتے ہی وہ ہٹتے گئے اور ہمیں لاتعداد سر ہی سر دکھائی دیتے رہے۔
پانی میں وقت گزارنے والے دیگر جانوروں کے برعکس دریائی گھوڑا اپنا پچھلا حصہ پہلے ڈبوتا ہے۔ باقی تمام جانور سر کو پہلے اندر لے جاتے ہیں۔
سفید نیل کے کنارے جیسی غیر آباد جگہوں پر جہاں پانی کے کنارے بہت زیادہ سرکنڈے وغیرہ اگے ہوں تو وہاں دریائی گھوڑے کافی وقت گزارتے ہیں کہ یہ جگہ انسان کی آمد و رفت سے دور ہوتی ہے۔ جب تک کسی کشتی پر سوار انسان نہ گزرے، اسے دریائی گھوڑے ایسے مقامات پر نہیں دکھائی دے سکتے۔ یہاں سرکنڈوں میں جگہ جگہ تاریک سرنگیں سی بنی ہوتی ہیں جہاں سے دریائی گھوڑوں کی آمد و رفت ہوتی ہے اور یہیں گھس کر ہی دریائی گھوڑے سوتے ہیں۔یہ جگہیں ماداؤں اور ان کے بچوں کی پسندیدہ جگہیں ہوتی ہیں جہاں وہ انسانی اور حیوانی مداخلت سے دور رہ کر وقت گزار سکتے ہیں۔
اگرچہ کنارے پر کھڑے ہو کر اس کا شکار کیا جا سکتا ہے اور شکاری کو کوئی خطرہ بھی پیش نہیں آنا چاہیے مگر میں نے بہت سارے واقعات بیان کیے ہیں جن میں اس جانور کی ناقابلِ اعتبار فطرت کا پتہ چلتا ہے۔ ایک بار میں نے بغیر کسی وجہ سے اس کا حملہ دیکھا تھا۔ ہم لوگ کئی سو مویشیوں کو دریا کے پار لے جا رہے تھے۔ مقامی افراد کبھی ان کسی گائے کی دم پکڑ کر تیرتے تو کبھی کسی کا سینگ تھام کر۔ لمبے بانسوں اور زور زور سے بولتے ہوئے وہ انہیں لے جا رہے تھے۔ یہ گونڈوکرو سے جنوب میں ۲۰ میل پر واقع ایک جگہ تھی جہاں سے سفید نیل گزرتا تھا۔
اچانک اس ریوڑ پر کئی دریائی گھوڑوں نے حملہ کر دیا اور میں نے ان کے کئی سر اور گردنیں پانی سے نکلتے دیکھیں۔ ان کے منہ کھلے تھے اور کئی گائیوں کو گردن سے جکڑ کر پانی میں لے گئے اور وہ گائیں پھر کبھی نہ دکھائی دیں۔
دریائی گھوڑا گوشت خور نہیں، سو یہ محض ان کے غصے کی علامت تھی۔ پانی کے نیچے کیا ہوا، یہ بتانا مشکل ہے۔ وہ پانی کے نیچے اتنی دیر رہی ہوں گی کہ ان کا دم گھٹ گیا ہوگا اور وہ مر گئی ہوں گی۔
عام طور پر پانی کے اندر دریائی گھوڑا غصیلا اور خطرناک شمار ہوتا ہے اور اکثر کشتیوں پر اور دیگر چیزوں پر حملہ کر دیتا ہے۔ رات کو اس کے حملے بہت بڑھ جاتے ہیں۔ زمین پر یہ شاید ہی کبھی حملہ کرتا ہو بلکہ سیدھا نزدیکی دریا میں جا کر چھپ جاتا ہے۔
اس کے دانتوں کی قیمت اب کم ہو گئی ہے کیونکہ امریکیوں نے مصنوعی دانتوں کے لیے نیا مادہ ایجاد کر لیا ہے۔ اس کی کھال کی قدر مصر میں برطانوی مداخلت کے بعد کم ہو گئی ہے کہ اس کی کھال سے بنے کوڑے ممنوع ہو گئے ہیں۔ سو دریائی گھوڑا عظیم سفید نیل کا بلا شرکتِ غیرے حکمران بن گیا ہے اور یہاں سے برطانوی سٹیمر ہٹا لیے گئے ہیں اور یہ دریا اب پھر سے جنگلی جانوروں کی آماج گاہ بن گیا ہے۔