ہمیں زندگی میں بہت سے لوگ ملتے ہیں ،بہت سے بچھڑ جاتے ہیں۔۔۔کچھ کہ ملنے کا دکھ ہوتا ہے اور کچھ کے مل کر بچھڑ جانے کا ۔اس سلسلے میں اپنے بچھڑ جانے والے ساتھیوں کو یادیں دہرائیے اس سے شاید دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہو، شاید دوسروں کے لیے رہنمائی کا کوئی سامان ہو یا پھر کوئی سبق۔سلسلے کی پہلی یاد پیش خدمت ہے:




وہ روٹین کی فون کال تھی” آپ کا ۔۔۔کمپنی کی جانب سے انعام نکلا ہے۔“ میں نے نظر انداز کرنا چاہا لیکن نہ کر پایا۔ آواز خاصی بچگانہ تھی، اندر کا بڑا جاگا اورفوراً سوچا اسے کچھ سمجھاؤں۔
”بھائی دن رات میرے سامنے لوگ حادثات میں مرتے ہیں۔آپ کو خدا کا کچھ تو خوف کرنا چاہیے ۔کب تک اس طرح سادہ لوح لوگوں کو بے وقوف بناتے رہیں گے ۔۔۔“
میرے لہجے میں التجا تھی، تھوڑا غصہ تھا اور کچھ کچھ پریشانی۔ نجانے اسے ان میں سے کس نے متاثر کیا کہ اس کاگفتگو کا زوایہ انعام سے بدلا اور بدلتے بدلتے مذہب کی جانب کھنچنے لگا۔
”بھائی میں معذرت چاہتا ہوں۔۔۔بس ایسے ہی ۔۔۔مذاق میں۔۔۔“
”کوئی بات نہیں بھائی۔خوش رہیے اور دوبارہ کسی کو ایسی کال نہ کیجیے۔ بہت سے لوگ بہت حساس ہوتے ہیں اور بہت سے غریب جلد لالچ میں آجاتے ہیں“میری بات ختم ہوئی تو اس نے مجھ سے میسج پر بات کرنے کی اجازت لے کر ”اللہ حافظ“ کہا اورموبائل خاموش ہوگیا ۔ میں بھی اپنے تئیں مطمئن ہوگیا کہ شاید میری بات نے اس کے دل پر اثر کیا تھا ۔
صبح سویرےآنکھ کھلی تو موبائل کی سکرین پر ”گڈ مارننگ “کا پیغام جگمگا رہا تھا ؛ نمبر پہچان میں نہ آیا کہ محفوظ نہ تھا۔ لگتا تھا جیسے بھیجنے والا گہری رات تک جاگتا رہا ہو۔ میں نے جواب نہ دیا ۔ دوپہر کو پھر سے میسج آیااور ساتھ اپنا نام بھی لکھ دیا”ع۔۔“ میں سمجھ گیا کہ یہ حضرت کون ہیں۔ یہ وہی کل شام والا دوست تھا ۔یوں ہماری میسجنگ ہونے لگی ،وہ منہ بولا بھائی بن گیا ۔وہ مذہب کے بارے میں کچھ باتیں جاننا چاہتا تھا۔۔۔شاید سیکھنا بھی چاہتا تھا۔میرے پاس اس حوالے سے علم نہ ہونے کے برابر تھا البتہ کچھ باتوں کا جواب علما کرام سے پوچھ کر دے دیتا تھا یا جو کچھ خود یاد تھا بحوالہ بتا دیتا۔
کام سے واپس لوٹنے اور بعض اوقات کام کے دوران بھی کافی وقت میسر ہوتا تھا اس لیے میسجنگ کا یہ سلسلہ طویل ہونے لگا اور بعض اوقات تو گہری رات تک چلتا ۔ چند دن کی بات چیت سے اس کی زندگی کے کئی معمولات کا اندازہ ہوگیا۔اس کا تعلق کراچی سے تھا اور پیشہ نہایت معیوب ۔ میں نے اسے اس کام سے منع کرنے اور ہٹانے کی بھرپور کوشش کی لیکن وہ مجبور تھا اور اس کی کہانی اتنی دکھ بھری اور طویل تھی کہ ایک پورا ناول لکھا جاسکتا ہے۔ بہرحال اس نے خود کو اس کام سے باز رکھنے کی بھرپور کوشش کی، بہت پاپڑ بیلے اور تگ و دو میں لگا رہا۔اس کا نفسیاتی علاج بھی ہوا اور روحانی بھی تب کہیں جا کر کچھ بہتر ہوا ۔ اس نے اس دوران ایک اسلامی میسجنگ سروس بھی بنائی جس سے روزانہ قرآنی آیات کا ترجمہ، احادیث یا نعتیہ اشعار ہزاروں لوگوں کوبھیجے جاتے تھے۔ چند لوگ اور بھی اس کارِ خیر میں شریک ہوگئے اور یہ سلسلہ بڑھنے لگا۔
میرا اس سے ہمیشہ سیاسی موضوع پر اختلاف رہا۔ایسے ہی ایک اختلاف نے اتنا طول پکڑا کہ ہماری قطع کلامی ہوگئی۔یہ قطع کلامی تقریبا دو سال کے عرصے پر محیط رہی ۔ میں مقابلے کے امتحان کی تیاری میں مصروف رہا اوراس دورا ن شادی کا سلسلہ بھی چلا،مصروفیات اتنی زیادہ تھیں کہ یہ بھی یاد نہ رہا کہ کوئی ع نام کا دوست بھی کبھی موجود رہا تھا۔بہر حال دو سال کے قریب محیط قطع کلامی عید کے روز بھیجے گئے ایک میسج کے ذریعے ختم ہوئی۔اس سے پہلے ایک بات اور بھی ہوئی تھی کہ میں کراچی گیا تو اس نے وعدہ کیا کہ میرا کوئی عزیز مجھے لینے نہ آئے وہ خود رسیو کرکے گھر تک ڈراپ کردے گا اس سے ملاقات بھی ہوجائے گی اور سلام دعا بھی ۔گاڑی نے رات بارہ بجے اسٹیشن پر اتارا اور میں ایک بجے کے بعد تک اس کا انتظار کرتا رہا لیکن نہ اس نے آنا تھا نہ آیا۔میرے دل کو زیادہ ملال نہ ہوا کہ وہ شاید کہیں مصروف ہوگیا ہو لیکن میرے سات دن کے قیام کے دوران ایک بار بھی اس نے میرا کوئی جواب نہ دیا تو میں سمجھ گیا کہ وہ جان بوجھ کر ملنا نہیں چاہتااور بھلا مجھے اس پر کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔
میں کراچی ضروری کام نپٹانے کے بعد گھرلوٹ آیا۔
بہرحال عید کے روز بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ اس عرصے میں اس کی شادی ہوگئی تھی لیکن ناکام ہوئی۔ایک بیٹا پیدا ہوا لیکن چند ماہ بعد فوت ہوگیا۔ اس پر اس نے ایسے ایسے مرثیے لکھ رکھے تھے کہ میں شدت سے متاثر ہوا۔ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی شخص اپنے بیٹے کی وفات پر اس سے زیادہ پر اثر مرثیے لکھ سکتا ہے۔بہرحال وہ بچپن سے ہی والدین سے محروم رہا تھا ، اب ایک سہارا شادی اور بچہ تھا وہ بھی نہ رہے تو اور زیادہ تنہا ہوگیا۔مجھے ایک بڑا دھچکا اس کی بیماری ”ایڈز“سن کر لگا۔اس کا وہ بہت مہنگا علاج کرا رہا تھا لیکن اس کے پاس پیسے نہیں تھے اس لیے جو کچھ تھا بیچ رہا تھا اور شدت کے ساتھ گزشتہ زندگی پر پشیمان تھا۔ میں اس دوران حتی المقدور اس کی دل جوئی کی کوشش کرتا رہا۔ وہ چند باتوں پر متشدد تھا ان میں اولین لسانی بنیادوں پر تعصب پسندی تھی۔میری کم ظرفی کہیں کہ ایسے ہی موضوعات سے جان چھڑانے کے لیے وہ ایک بار پھر سے نظر انداز ہوگیا کہ میرے پاس کرنے کے بہت سارے کام تھے۔۔۔بیٹے کی پیدائش، والدین کی وفات اور بٹوارے کی صورت گھر خریدنے کے مسائل۔۔۔اتنے سارے کہ وہ بالکل نظر انداز ہوگیااور اس نے بھی کبھی کوئی رابطہ نہ کیا ۔مصروفیات سے فراغت ملتے ہی میں نے اس سے رابطہ کرنا چاہا تو معلوم ہوا کہ اس کا نمبر بندہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے اس نے کوئی نیا نمبر دیا تھا لیکن نجانے وہ کہاں تھا کچھ معلوم نہ ہوسکا۔ مجھے وہم ہونے لگا کہ اسے کچھ ہو نہ گیا ہو کہ وہ ایڈز کی آخری سٹیج پر تھااور اس کا اپنا کوئی تھا بھی نہیں۔اچانک سے ایک پچھتاوا دامن گیر ہوگیا اور اس میں اتنی شدت تھی کہ ہر وقت دماغ میں یہی اٹکا رہتا "خدا نخواستہ اسے کچھ ہوگیا ہو تو ؟"
میں نے ساری ڈائریاں کھنگالیں ، پرانے موبائل میں ایک ایک نمبر چیک کیا، ہرایک میسج پڑھا، بیک اپ سے سارے میسج نکالے کر اس کا نمبر تلاش کرنے میں کئی گھنٹے صرف کیے لیکن اس کا نمبر کہیں نہ ملا۔۔۔شایدا پنے نمبر کے ساتھ وہ خود بھی کہیں کھو گیا تھا۔میں اس کی صحت کے حوالے سے کافی پریشان ہوااور محوِ التجا بھی کہ وہ زندہ سلامت اور تندرست ہو۔یہ پریشانی اس سے رابطہ نمبر کھودینے کے ساتھ ابھی تک قائم ہے اور اس ماہ دوبارہ کراچی چکر لگا تو اتنی ہی شدت سے ساری ڈائریاں ، موبائل، بیک اپ چیک کیے لیکن اس کے نمبر کا کچھ پتہ نہ چلا ۔۔۔مجھے اس کے کھو جانے پر بہت افسوس ہے،دل میں اس کی صحت و تندرستی کی دعا بھی اور یہ خواہش بھی کہ اگر اس سے را بطہ ہوجائے تو اسے اپنے ہاں ہی بلا کر علاج کروا دوں۔۔۔
 

عرفان سعید

محفلین
بہت نفاست اور عمدگی سے آپ نے واقعات اور احساسات کو اس تحریر میں سمو دیا ہے۔ اللہ آپ کو قلم کی مزید جولانیاں دکھانے کی صلاحیت سے نوازے۔
 
Top