جنہیں سورج کا ہم سفر ہونا ہے برائے اصلاح

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جنہیں سورج کا ہم سفر ہونا ہے​
ابھی گھر سے انہیں بے گھر ہونا ہے​
آج ظالم سماج کے سامنے​
کسی کا دل، کسی کا سر ہونا ہے​
جو بڑے زعم میں تجھے پانے نکلے​
انہیں اب رسوا دربدر ہونا ہے​
جتنے انساں تھے سب خدا ہو چکے
کیا خداؤں کو اب بشر ہونا ہے
عزم راسخ یقین کامل مرا​
تیرگی کو تو مختصر ہونا ہے​
 

احمد بلال

محفلین
پھر آپ کو اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ردیف فاعلن پر تقطیع ہو رہا ہے۔ کیونکہ ہونا کا و نہیں گر سکتا۔ جبکہ بحر خفیف میں آخری رکن فعلن یا ف ع لن ہو سکتا ہے۔ اسی طرح دوسرے شعر کے پہلے مصرعے میں "سامنے" کو آخری رکن پہ باندھنے میں بھی یہی غلطی ہے۔ جس شعر پہ شرک کا گمان ہو رہا ہے اس کے دوسرے مصرعے کو کس معنی میں کہا ہے؟
بہرحال خیال اچھا ہے۔
 

احمد بلال

محفلین
تیسرے شعر کے پہلے مصرعے میں "تجھے" میں جھ مشدداستعمال کیا گیا ہے جو کہ غلط ہے۔
"نے نکلے" ؟ پورا مصرع ہی نظر ثانی کی ضرورت رکھتا ہے۔
مقطع کا آخری مصرع بھی۔
فی الحال کوئی درستگی نہیں کر رہا تاکہ آپ پہلے خود کوشش کریں۔
 
تیسرے شعر کے پہلے مصرعے میں "تجھے" میں جھ مشدداستعمال کیا گیا ہے جو کہ غلط ہے۔
"نے نکلے" ؟ پورا مصرع ہی نظر ثانی کی ضرورت رکھتا ہے۔
مقطع کا آخری مصرع بھی۔
فی الحال کوئی درستگی نہیں کر رہا تاکہ آپ پہلے خود کوشش کریں۔

میرے خیال میں لفظ ”تجھے“ کے ساتھ وزن کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ ”پانے نکلے“ کے ساتھ مسئلہ ہے۔
 

احمد بلال

محفلین
شاعر کو اس بات کا علم ہے یہ مجھے نہیں پتا۔ لیکن اصولِ تقطیع یہی ہے اور اسی طرح ہر شعر تقطیع ہوتا ہے۔ یعنی دوسرا ساکن متحرک بنایا جاتا ہے۔ (شعر کے درمیان ہو تو۔)
دونوں میموں ادغام بھی ممکن ہے۔ فی الحال کوئی مثال ذہن میں نہیں آ رہی۔ الف عین ۔
 
دونوں میموں ادغام بھی ممکن ہے۔ فی الحال کوئی مثال ذہن میں نہیں آ رہی۔ الف عین ۔
خیر یہ شعر تو ویسے بھی عیبِ تنافر کا شکار ہے۔ اب دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
آپ جس کی بات کر رہے ہیں وہ صوتی صورت ہوتی ہے۔ لیکن تقطیع میں الگ الگ ہی گنا جاتا ہے۔
مثال کے طور پے مفاعیلن کے وزن پے کہیں:
شبِ غم میں

تقطیع میں میم دو ہی آئینگے
 

احمد بلال

محفلین
خیر یہ شعر تو ویسے بھی عیبِ تنافر کا شکار ہے۔ اب دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
آپ جس کی بات کر رہے ہیں وہ صوتی صورت ہوتی ہے۔ لیکن تقطیع میں الگ الگ ہی گنا جاتا ہے۔
مثال کے طور پے مفاعیلن کے وزن پے کہیں:
شبِ غم میں

تقطیع میں میم دو ہی آئینگے
خیر دیکھتے ہیں الف عین صاحب کیا کہتے ہیں
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
سب سے پہلے میں اس غزل کی تقطیع کرتا ہوں۔

مطلع:
فَعِلاتن مفاعلن فَعِلن(2211-2121-211)
ج نِ سورج--کَ ہم س فر--ہُ نَ ہے (جنہیں سورج کا ہم سفر ہونا ہے)
ابِ گر سے--انے بِ گر--ہُ نَ ہے (ابھی گھر سے انہیں بے گھر ہونا ہے)

دوسرا شعر:
فاعلاتن مفاعلن فاعلن(2212-2121-212)
آ ج ظا لم--س ما ج کے--سا م نے (آج ظالم سماج کے سامنے)
فَعِلاتن مفاعلن فَعِلن(2211-2121-211)
ک سِ کا دل--ک سی کِ سر--ہُ نَ ہے (کسی کا دل، کسی کا سر ہونا ہے)

تیسرا شعر:
فاعلاتن مفاعلن فعلیان(2212-2121-1212)
جو ب ڑے زع--م مے ت جے--پا نِ نک لِ (جو بڑے زعم میں تجھے پانے نکلے)

فَعِلاتن مفاعلن فَعِلن(2211-2121-211)
انِ اب رس--وِ در ب در--ہُ نَ ہے (انہیں اب رسوا دربدر ہونا ہے)

چوتھا شعر:
فاعلاتن مفاعلن فاعلن(2212-2121-212)
جت نِ ان سا--تِ سب خ دا--ہو چ کے (جتنے انساں تھے سب خدا ہو چکے)
کا خ دا ؤ--کَ ان ب شر--ہو نَ ہے (کیا خداؤں کو اب بشر ہونا ہے)

پانچواں شعر:
فاعلاتن مفاعلن فاعلن(2212-2121-212)
عز م را سخ--ی قی ن کا--مل م را (عزم راسخ، یقین کامل مرا)
تے ر گی کو--تَ مخ ت صر--ہو نَ ہے (تیرگی کو تو مختصر ہونا ہے)
 
Top