کاشفی
محفلین
غزل
(راشد آزر)
جنہیں شعورِ فنِ منزل آشنائی رہا
اُنہی کے دل میں گمانِ شکستہ پائی رہا
سُراغ پا نہ سکے آپ اپنی منزل کا
وہ کم سواد، جنہیں شوقِ رہ نمائی رہا
ہمارے دامنِ عصیاں میں مُنہ چھپاتے رہے
وہ لوگ، جن کو بڑا زعمِ پارسائی رہا
فراق و وصل کی منزل سے ہم گزر تو گئے
رسائی میں بھی، مگر، خوفِ نارسائی رہا
بدلنے والے، تجھے مجھ سے کچھ گلہ تو نہیں
مری فنا کا تقاضا تری بھلائی رہا
وہ ہاتھ بڑھ کے گریبانِ جبر تک پہنچے
وہ ہاتھ، جن میں کبھی کاسہ، گدائی رہا
مَیں اپنے آپ سے یہ کہہ کے رو پڑا، آزر
کہ ایک عمر کا حاصل غمِ جُدائی رہا
(راشد آزر)
جنہیں شعورِ فنِ منزل آشنائی رہا
اُنہی کے دل میں گمانِ شکستہ پائی رہا
سُراغ پا نہ سکے آپ اپنی منزل کا
وہ کم سواد، جنہیں شوقِ رہ نمائی رہا
ہمارے دامنِ عصیاں میں مُنہ چھپاتے رہے
وہ لوگ، جن کو بڑا زعمِ پارسائی رہا
فراق و وصل کی منزل سے ہم گزر تو گئے
رسائی میں بھی، مگر، خوفِ نارسائی رہا
بدلنے والے، تجھے مجھ سے کچھ گلہ تو نہیں
مری فنا کا تقاضا تری بھلائی رہا
وہ ہاتھ بڑھ کے گریبانِ جبر تک پہنچے
وہ ہاتھ، جن میں کبھی کاسہ، گدائی رہا
مَیں اپنے آپ سے یہ کہہ کے رو پڑا، آزر
کہ ایک عمر کا حاصل غمِ جُدائی رہا