یہ نیچرل بیحوئر نہیں ہے اور انسان ایک دن ان تمام "مثبت" چیزوں سے اکتا جاتا ہے جو اس نے "منفی" چیزوں سے اخذ کی ہوتی ہے۔ وہ رہیے جو آپ ہیں، جیسا آپ کو محسوس ہوتا ہے۔ منفی کو منفی ہی سمجھیں اور مثبت کو مثبت۔ در حقیقت زندگی محض مثبت چیز کا نام نہیں ہے اور جب ہم محض مثبت کی الوژن پہ چلتے ہیں تو جلد یا بدیر تھک جاتے ہیں، بور ہو جاتے ہیں۔ زندگی مثبت و منفی کا مد و جزر ہے۔ میری ذاتی رائے میں دونوں سیچوئیشنز کو ایسے ہی ایکسپٹ کیا جانا چاہیے، جیسے وہ ہیں۔ زندگی اس صورت میں بہت آسان اور خوبصورت ہو جاتی ہے۔
عین ممکن ہے کہ ہم اپنی بات کی وضاحت نہیں کر پائے۔
ہماری سوچ یا ہمارا رویہ کچھ اس طرح سے ہے کہ کوئی دکھ ملتا ہے، کسی کی جدائی سہنی پڑتی ہے تو اس کا اتنا ہی دکھ کرتے ہیں کہ دل کا بوجھ قدرے ہلکا ہو جائے۔ یہ نہیں کہ زندگی کا روگ بنا کر بیٹھ رہیں۔ اللہ پاک کی مدد سےجلدی اس سے نکل کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔دھوکہ کھانے کے بعد بھی سنبھل جاتے ہیں بجائے واویلا کرنے کے۔ یہ نہیں کہ جفا کا دُکھ سہنے کا صدمہ نہیں ہوتا۔ مختصر یہ کہ سانپ نکل جانے کے بعد لکیر کو پیٹا نہیں کرتے۔
باقی رہے زندگی کے معاملات تو صبر و شکر کے ساتھ ہر صورت ِ حال کو قبول کرتے ہیں چاہے وہ منفی ہو یا مثبت۔ یکسانیت تو کسی بھی صورت موافق نہیں ہے۔ تبھی تو اب تک تازہ دم ہیں اور مختلف مقاصد لے کر زندگی کے ساتھ رواں دواں ہیں۔