حسیب احمد حسیب
محفلین
جنید جمشید آخر مسلہ کیا ہے ...... !
گزشتہ کچھ عرصہ سے جنید جمشید کے خلاف ایک عوامی تحریک کھڑی کی گئی ہے جس کی پشت پر ایک طرف تو مسلکی عصبیت کار فرما دکھائی دیتی ہے تو دوسری جانب ہماری اپنی لاتعداد غلطیاں .....
جنید جمشید کی کہانی بہت سے ایسے مسلمانوں کی کہانی ہے جو گناہوں کی زندگی سے تائب ہوکر دین کی جانب راغب ہوتے ہیں جگر مراد آبادی کا قصہ تو معروف ہے کہ وہ کس طرح خواجہ عزیز الحسن مجذوب رح کی تحریک پر مولانا اشرف علی تھانوی رح کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر دین حق سے منسلک ھوگئے ......
لیجئے یہ واقعہ سنیے
جگر کو عموماً بھارت کا سب سے بڑا شراب نوش شاعر کہا جاتا ہے۔ سستی اور گھٹیا قسم کی شراب انھوں نے اس کثرت سے پی کہ اس کی نظیر ادبیات کی تاریخ میں نہ ملے گی۔ پھر رفتہ رفتہ ان کا دل توبہ کی طرف مائل ہوا۔ طبیعت شراب سے بے زار رہنے لگی اور دل میں یہ بات آئی کہ کسی اللہ والے کے ہاتھ پر شراب خانہ خراب سے توبہ کی جائے۔ اس سلسلے میں انھوں نے خواجہ عزیز الحسن مراد آبادی سے مشورہ کیا۔ خواجہ عزیز الحسن مراد آبادی جگر کے گہرے دوست تھے۔ مشاعروں میں بھی جگر کے ساتھ شریک ہوتے۔ بڑے باکمال اور قادرالکلام شاعر تھے۔ عشقِ حقیقی کے قائل تھے اور مجاز کے پردے میں حقیقت بیان کرتے۔ خواجہ صاحب کا تخلص ’’مجذوب‘‘ تھا۔ ان کی شاعری کا مجموعہ ’’کشکولِ مجذوب‘‘ کے نام سے طبع ہو چکا۔
یہ خواجہ صاحب مولانا اشرف علی تھانوی کے مرید تھے۔ ان سے بڑی عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ انھوں نے ایک مرتبہ مولانا تھانوی کو اپنا یہ شعر سنایا۔
ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی
مولانا نے اس پر خوب داد دی اور انعام سے نوازا۔ انہی خواجہ صاحب نے جگر کو بھی مولانا تھانوی کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا مشورہ دیا۔ جگرصاحب خود تو مولاناکی خانقاہ (تھانہ بھون) حاضر نہ ہوئے۔ ایک سفید کاغذ پر اپنا یہ فارسی شعر لکھ بھیجا۔
بہ سرِ تو ساقی مستِ من آید سرورِ بے طلبی خوشم
اگرم شراب نمی دھدبہ خمارِتشنہ لبی خوشم
(’’اے میرے مدہوش ساقی! تیرے دل میں یہ بات ہے کہ میں تجھ سے کچھ نہ مانگوں۔ ٹھیک ہے اگر تو مجھے شراب نہیں دیتا تو میں اِسی تشنہ لبی کے خمار میں ہی خوش ہوں۔‘‘)
چنانچہ یہ خط مولانا کی خدمت میں پہنچایا گیا۔ مولانااشرف علی تھانوی کے لیے فارسی اجنبی نہیں تھی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مولانا نے بچپن میں قرآنِ پاک حفظ کیا۔ اس کے بعد ذاتی شوق سے فارسی پڑھی۔ اس دوران عربی تعلیم شروع ہونے سے پہلے کچھ عرصہ فارغ گزارا۔ فرصت کے اِن دنوں میں مولانا نے ایک فارسی مثنوی ’’زیروبم‘‘ کے عنوان سے تخلیق کی۔ یہ مولانا کا بچپن تھا۔ اُس زمانہ میں فارسی کا معیار بھی بہت اونچا ہوا کرتا تھا۔ (یہ انیسویں صدی کے اواخر کی بات ہے جبکہ مولانا کا انتقال ۱۹۴۳ء میں ہوا۔) مولانا تھانوی خود بھی اشعار کا نہایت عمدہ اور نفیس ذوق رکھتے تھے۔ مثالیں اُن کے ملفوظات میں بکثرت بکھری پڑی ہیں۔ مولانا کے خلفاء و مریدین میں سے بھی اکثر صاحبِ دیوان ہوئے ہیں۔
چنانچہ انھوں نے جگر کے خط کو پڑھا تو ان کی مراد سمجھ گئے۔ اس کے بعد انھوں نے کاغذ کے دوسری جانب مندرجہ ذیل شعر لکھ کر جگر کو واپس بھجوا دیا۔
نہ بہ نثرِ نا تو بے بدل، نہ بہ نظم شاعر خوش غزل
بہ غلامی شہہ عزوجل و بہ عاشقی نبیؐ خوشم
(’’اے جگر تیرا تو یہ حال ہے لیکن میرا یہ حال ہے کہ نہ میرا کسی عظیم ادیب کی تحریر میں دل لگتا ہے اور نہ ہی مجھے کسی بڑے شاعر کی شاعری خوش کرتی ہے۔ بلکہ میں تو اللہ تعالیٰ کی بندگی میں اور اپنے پیارے نبی ﷺ کی غلامی میں ہی خوش رہتا ہوں۔‘‘)
قدرت کو جب کسی ہدایت کا انتظام کرنا منظور ہو تو اس کے لیے وہ اسباب بھی خود مہیا کرتی ہے۔ یہ خط جب جگرصاحب کے پاس پہنچا تو اُن کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور وہ دیر تک روتے رہے۔
اگلے ہفتے وہ خواجہ صاحب کی معیت میں مولانا کی خانقاہ میں حاضر ہوئے۔ مولانا صاحب شاید پہلے ہی سے منتظر تھے۔ توبہ ہوئی اور بیعت بھی۔ اس کے بعد جگر نے مولانا سے چار دعائوں کی درخواست کی۔ ایک یہ کہ وہ شراب چھوڑ دیں۔ دوسرے ڈاڑھی رکھ لیں، تیسرے حج نصیب ہوجائے اور چوتھے یہ کہ ان کی مغفرت ہوجائے۔ مولانا نے جگر کے لیے یہ 4 دعائیں کیں اور حاضرینِ محفل نے آمین کہی۔ بعدازاں مولانا تھانوی نے جگر سے کچھ سنانے کی فرمائش کی۔ جگر نے محفل میں نہایت سوزوگداز سے اپنی یہ غزل سنائی۔
کسی صورت نمودِسوزِ پنہانی نہیں جاتی
بجھا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی نہیں جاتی
صداقت ہو تو دل سینوں سے کھینچنے لگتے ہیں واعظ
حقیقت خود کو منوا لیتی ہے، مانی نہیں جاتی
چلے جاتے ہیں بڑھ بڑھ کر مِٹے جاتے ہیں گر گر کر
حضور شمعِ پروانوں کی نادانی نہیں جاتی
وہ یوں دل سے گزرتے ہیں کہ آہٹ تک نہیں ہوتی
وہ یوں آواز دیتے ہیں کہ پہچانی نہیں جاتی
محبت میں ایک ایسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے
کہ آنسو خشک ہوجاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی
جگر وہ بھی سرتاپا محبت ہی محبت ہیں
مگر اِن کی محبت صاف پہچانی نہیں جاتی
مولانا اشرف تھانوی جیسے عالمِ دین اور شیخ وقت کی مانگی ہوئی پہلی تین دعائوں کی قبولیت تو خدائے پاک نے جگر کو ان کی زندگی میں ہی دکھا دی۔ انہوں نے بیعت کے بعد شراب بالکل چھوڑ دی۔ چونکہ کثرتِ مے نوشی کی عادت تھی لہٰذا اسے بالکل ترک کرنے سے وہ بیمار ہوگئے اور قلب میں درد رہنے لگا۔ جگر و معدہ میں سوزش ہوگئی جس کی وجہ چہرے اور گردن کی جلد پھٹنے لگی۔
اس موقع پر ماہر ڈاکٹروں کا ایک بورڈ بیٹھا۔ اُس نے مشورہ دیا کہ تھوڑی مقدار میں اگر شراب جسم کو ملتی رہے تو جسمانی اعضا اپنا کام ٹھیک طرح سے کرتے رہیں گے ورنہ زندگی کا چراغ گُل ہونے کا اندیشہ ہے۔ جگر نے اُن سے پوچھا کہ اگر شراب پیتا رہوں تو کتنا عرصہ جی سکوں گا؟
ڈاکٹر بولے ’’چند سال مزید اور بس۔‘‘
جگر نے کہا ’’میں چند سال خدا کے غضب کے ساتھ زندہ رہوں… اس سے بہتر ہے کہ ابھی تھوڑی سی تکلیف اُٹھا کر خدا کی رحمت کے سائے میں مرجائوں۔‘‘
لیکن بھلا ہوا اخلاص کا کہ خدائے پاک نے جگر کے الفاظ کی لاج رکھ لی اور دیسی علاج سے صحت عطا فرما دی۔ اس دوران لاہور کے مشہور معالج حکیم حافظ جلیل احمد مرحوم سے بھی علاج ہوتا رہا۔
دوسری دعا یہ تھی کہ ڈاڑھی رکھ لیں۔ یہ بھی پوری ہوئی۔ انھوں نے بیعت کے بعد حلیہ سنت کے مطابق کرلیا اور لباس بھی۔ اس دوران نماز کی بھی عادت ڈال لی۔ تھوڑی دیر مسجد میں بیٹھے رہنے کو بھی اپنا شعار بنا لیا۔ غالباً اسی زمانے کی بات ہے کہ ایک مرتبہ تانگے میں سوار ہو کر کہیں جا رہے تھے۔ تانگے والا باربار نہایت ترنم سے یہ شعر پڑھ رہا تھا:
چلو دیکھ کر آئیں تماشا جگر کا
سنا ہے وہ کافر مسلماں ہوگیا
تھوڑی دیر بعد تانگے والے نے پچھلی نشست سے ہچکیوں کی آواز سنی۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک مولوی صاحب رو رہے تھے۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ یہی جگرمرادآبادی ہیں۔
(مستعار : اردو ڈائجسٹ )
ماضی قریب میں مرحوم معین اختر ، معروف انڈین اداکار قادر خان ، لہری ، سارہ چودھری اور متعدد دوسرے اس فہرست میں شامل ہیں جنہوں نے گمراہی کے راستے کو چھوڑ ہدایت کی طرف آنا قبول کیا .....
جنید نے شہرت کی انتہائی بلندی دیکھی ہے اور اسے دین کی جانب راغب کرنے والی شخصیت کوئی اور نہیں مولانا طارق جمیل صاحب جیسی صاحب دل اور بزرگ شخصیت تھی تبدیلی کا یہ عمل آسان نہ تھا بلکہ یہ ایک طویل اور تکلیف دہ راستہ تھا جس میں اپنوں کی شدید مخالفت مال و دولت کی قربانی اور بے شمار ایسی دشواریاں تھیں کہ بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا دیں ...
جنید کا سب سے بڑا مخالف ایک ایسا شخص ہے جو پاکستان کا سب سے بڑا شو بوائے ہے اس شخص نے جس انداز میں دین کی تضحیک و تذلیل کا بازار گرم کر رکھا ہے اس کی دوسری مثال ملنی مشکل ہے جس زمانے میں یہ جاہل آنلائن نامی پروگرام کرتا تھا اس کی کم علمی کے شاہکار صاحبان علم کی طبیعت پر شدید بوجھ تھے پھر جب اس نے جنید کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے جل کر اس کے خلاف گستاخی کی تحریک شروع کی تو دیکھنے والے حیران تھے کہ یہ تو وہ شخص ہے کہ جس نے لاتعداد کھلی گستاخیاں اصحاب رسول رض کی شان میں کر رکھی ہیں اور جس کا ماضی رافضیت کی تہمت سے داغدار ہے یہ صرف اور صرف مسلک کے نام پر لوگوں کے جذبات کو گرم کر کے اپنی دوکان چمکانے کی سازش ہے اور کچھ نہیں ......
اب تصویر کا دوسرا رخ
جب بھی کوئی معروف شخصیت دین کی طرف راغب ہوتی ہے تو اس کو تربیت کی سخت بھٹی سے گزارا جاتا ہے کہ تاکہ اس کا تزکیہ ہو سکے شہرت پسندی ایک ایسی بیماری ہے کہ جس کے جراثیم کبھی ختم نہیں ہوتے بلکہ جب بھی اور جہاں بھی ماحول میسر آ جاوے اپنی اثرات ظاہر کرنے شروع کر دیتے ہیں .......
جنید بھائی جنید بھائی کی گردان ہر جانب سنائی دینے لگی یہاں تک کہ وہ کچھ بھی ہوا کہ جو نہیں ہونا چاہئیے تھا ......
جنید بھائی مدارس میں جاکر بیان فرما رہے ہیں
جنید بھائی علماء کے منبر پر بیٹھے ہیں
جنید بھائی داعی دین کے طور پر معروف ہو رہے ہیں
جنید بھائی اسلامی اسکالر کے طور پر ٹی وی پروگرامات میں شرکت فرما رہے ہیں
موجودہ تبلیغی جماعت میں بے شمار افراد ایسے ہیں جن کی قربانیاں جنید جمشید سے کہیں زیادہ ہیں جن کے علم کے سامنے جنید طفل مکتب ہے لیکن انھیں کبھی منبر نہیں ملا .......
یہ منبر علما کا منبر ہے
یہ نبوت کے ورثا کا منبر ہے
یہ صاحبان معرفت کی جا ہے
یاد رکھئے خوب یاد رکھئے
جب آپ کسی معروف مگر جاہل شخص کو اس منبر پر بیٹھا دینگے تو ایسے ہی مغالطے جنم لینگے
میں سب سے پہلے اس وقت کھٹکا جب جنید جمشید صاحب لیز کے اشتہار میں یہ کہتے دکھائی دئیے کہ الله کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام مت کرو .......
میں نے اپنے حلقے کے تبلیغی احباب اور علما کو متوجہ کیا کہ یہ ابتداء ہے یہیں اس خرابی ک تدارک کر دیا جاوے ورنہ معاملہ ہاتھ سے نکل جائے گا ......
پھر نگاہوں نے وہ منظر بھی دیکھا کہ مدارس کی سالانہ تقریب میں جنید صاحب اوپر بیٹھے تقریر فرما رہے ہیں اور علوم نبوت کے طالبان نیچے بیٹھے ہیں .......
علما کی اس بے توقیری پر دل جل کر رہ گیا اپنے قریبی حلقوں کو پھر متوجہ کیا کہ صاحبان کیا ہم ایک دیوبندی عامر لیاقت بنانے جا رہے ہیں .......
آج یہ معاملے ہمارے گلے پڑا ہوا ہے جسے اگلنا بھی مشکل اور نگلنا بھی کٹھن .......
یاد رکھیے ہر شخص کا شعبہ الگ ہے اس کی استعداد الگ ہے اس کا میدان الگ ہے اور جب بھی گھوڑے کا کام گدھے سے لیا جاوے گا ایسی ہی خرابیاں پیدا ہوتی رہینگی .
شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان مدظلہ فرماتے ہیں
دارالعلوم دیوبند او راس عظیم ادارے کی طرف منسوب اکابر علمائے دیوبند کی بہت سی خصوصیات تھیں ،اخلاص وللہیت، دیانت وامانت، اسلامی علوم میں پختگی ومہارت، ان کی ترویج واشاعت،خود داری واستغناء، حق کی حمایت، باطل کی تردید ، اسلاف پر اعتماد ، اتباع سنت، یہ سب صفات ان میں بدرجہ اتم موجود تھیں ، لیکن مجھے آج ان کی جس صفت اور جس خصوصیت کو ذکر کرنا ہے وہ ” اعتدال“ ہے۔ علمائے دیوبند کے مسلک ومزاج میں ”اعتدال“ وہ بنیادی عنصرو خصوصیت ہے جو انہیں افراط وتفریط سے بچا کر ٹھیک اسی راستے تک لے جاتی ہے جو ”ماأنا علیہ وأصحابی“ کا مصداق ہے او رجس پر چلنے والے ” اہل سنت والجماعت“ کہلاتے ہیں، اعتدال کی یہ صفت ان کی زندگی کے ہر ہر شعبے میں جھلکتی ہے۔
راہ اعتدال پر چلنے والوں کے لیے ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ افراط والے انہیں تفریط میں مبتلا سمجھتے ہیں اور اہل تفریط انہیں افراط کے زمرے میں شمار کرتے ہیں، علمائے دیوبند کے ساتھ بھی ایسا ہوا اور ہو رہا ہے، مثلاً علمائے دیوبند ، قرآن وحدیث پر ایمان کامل او رعمل صالح کے ساتھ اسلاف پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں اور قرآن وحدیث کی تشریح میں اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے کے بجائے ان کے اقوال وتشریحات کو مرکزی حیثیت دیتے ہیں، لیکن اس اعتماد اور عقیدت میں وہ اس قدر غلو نہیں کرتے کہ وہ شخصیت پرستی یا عبادت کے رتبے کو چھولے، بلکہ یہ اعتماد اور عقیدت، فرق مراتب کو ملحوظ رکھ کر ،اعتدال کی حدود کے اندر ہی اندر رہتی ہے۔
حسیب احمد حسیب
گزشتہ کچھ عرصہ سے جنید جمشید کے خلاف ایک عوامی تحریک کھڑی کی گئی ہے جس کی پشت پر ایک طرف تو مسلکی عصبیت کار فرما دکھائی دیتی ہے تو دوسری جانب ہماری اپنی لاتعداد غلطیاں .....
جنید جمشید کی کہانی بہت سے ایسے مسلمانوں کی کہانی ہے جو گناہوں کی زندگی سے تائب ہوکر دین کی جانب راغب ہوتے ہیں جگر مراد آبادی کا قصہ تو معروف ہے کہ وہ کس طرح خواجہ عزیز الحسن مجذوب رح کی تحریک پر مولانا اشرف علی تھانوی رح کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر دین حق سے منسلک ھوگئے ......
لیجئے یہ واقعہ سنیے
جگر کو عموماً بھارت کا سب سے بڑا شراب نوش شاعر کہا جاتا ہے۔ سستی اور گھٹیا قسم کی شراب انھوں نے اس کثرت سے پی کہ اس کی نظیر ادبیات کی تاریخ میں نہ ملے گی۔ پھر رفتہ رفتہ ان کا دل توبہ کی طرف مائل ہوا۔ طبیعت شراب سے بے زار رہنے لگی اور دل میں یہ بات آئی کہ کسی اللہ والے کے ہاتھ پر شراب خانہ خراب سے توبہ کی جائے۔ اس سلسلے میں انھوں نے خواجہ عزیز الحسن مراد آبادی سے مشورہ کیا۔ خواجہ عزیز الحسن مراد آبادی جگر کے گہرے دوست تھے۔ مشاعروں میں بھی جگر کے ساتھ شریک ہوتے۔ بڑے باکمال اور قادرالکلام شاعر تھے۔ عشقِ حقیقی کے قائل تھے اور مجاز کے پردے میں حقیقت بیان کرتے۔ خواجہ صاحب کا تخلص ’’مجذوب‘‘ تھا۔ ان کی شاعری کا مجموعہ ’’کشکولِ مجذوب‘‘ کے نام سے طبع ہو چکا۔
یہ خواجہ صاحب مولانا اشرف علی تھانوی کے مرید تھے۔ ان سے بڑی عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ انھوں نے ایک مرتبہ مولانا تھانوی کو اپنا یہ شعر سنایا۔
ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی
مولانا نے اس پر خوب داد دی اور انعام سے نوازا۔ انہی خواجہ صاحب نے جگر کو بھی مولانا تھانوی کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا مشورہ دیا۔ جگرصاحب خود تو مولاناکی خانقاہ (تھانہ بھون) حاضر نہ ہوئے۔ ایک سفید کاغذ پر اپنا یہ فارسی شعر لکھ بھیجا۔
بہ سرِ تو ساقی مستِ من آید سرورِ بے طلبی خوشم
اگرم شراب نمی دھدبہ خمارِتشنہ لبی خوشم
(’’اے میرے مدہوش ساقی! تیرے دل میں یہ بات ہے کہ میں تجھ سے کچھ نہ مانگوں۔ ٹھیک ہے اگر تو مجھے شراب نہیں دیتا تو میں اِسی تشنہ لبی کے خمار میں ہی خوش ہوں۔‘‘)
چنانچہ یہ خط مولانا کی خدمت میں پہنچایا گیا۔ مولانااشرف علی تھانوی کے لیے فارسی اجنبی نہیں تھی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مولانا نے بچپن میں قرآنِ پاک حفظ کیا۔ اس کے بعد ذاتی شوق سے فارسی پڑھی۔ اس دوران عربی تعلیم شروع ہونے سے پہلے کچھ عرصہ فارغ گزارا۔ فرصت کے اِن دنوں میں مولانا نے ایک فارسی مثنوی ’’زیروبم‘‘ کے عنوان سے تخلیق کی۔ یہ مولانا کا بچپن تھا۔ اُس زمانہ میں فارسی کا معیار بھی بہت اونچا ہوا کرتا تھا۔ (یہ انیسویں صدی کے اواخر کی بات ہے جبکہ مولانا کا انتقال ۱۹۴۳ء میں ہوا۔) مولانا تھانوی خود بھی اشعار کا نہایت عمدہ اور نفیس ذوق رکھتے تھے۔ مثالیں اُن کے ملفوظات میں بکثرت بکھری پڑی ہیں۔ مولانا کے خلفاء و مریدین میں سے بھی اکثر صاحبِ دیوان ہوئے ہیں۔
چنانچہ انھوں نے جگر کے خط کو پڑھا تو ان کی مراد سمجھ گئے۔ اس کے بعد انھوں نے کاغذ کے دوسری جانب مندرجہ ذیل شعر لکھ کر جگر کو واپس بھجوا دیا۔
نہ بہ نثرِ نا تو بے بدل، نہ بہ نظم شاعر خوش غزل
بہ غلامی شہہ عزوجل و بہ عاشقی نبیؐ خوشم
(’’اے جگر تیرا تو یہ حال ہے لیکن میرا یہ حال ہے کہ نہ میرا کسی عظیم ادیب کی تحریر میں دل لگتا ہے اور نہ ہی مجھے کسی بڑے شاعر کی شاعری خوش کرتی ہے۔ بلکہ میں تو اللہ تعالیٰ کی بندگی میں اور اپنے پیارے نبی ﷺ کی غلامی میں ہی خوش رہتا ہوں۔‘‘)
قدرت کو جب کسی ہدایت کا انتظام کرنا منظور ہو تو اس کے لیے وہ اسباب بھی خود مہیا کرتی ہے۔ یہ خط جب جگرصاحب کے پاس پہنچا تو اُن کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور وہ دیر تک روتے رہے۔
اگلے ہفتے وہ خواجہ صاحب کی معیت میں مولانا کی خانقاہ میں حاضر ہوئے۔ مولانا صاحب شاید پہلے ہی سے منتظر تھے۔ توبہ ہوئی اور بیعت بھی۔ اس کے بعد جگر نے مولانا سے چار دعائوں کی درخواست کی۔ ایک یہ کہ وہ شراب چھوڑ دیں۔ دوسرے ڈاڑھی رکھ لیں، تیسرے حج نصیب ہوجائے اور چوتھے یہ کہ ان کی مغفرت ہوجائے۔ مولانا نے جگر کے لیے یہ 4 دعائیں کیں اور حاضرینِ محفل نے آمین کہی۔ بعدازاں مولانا تھانوی نے جگر سے کچھ سنانے کی فرمائش کی۔ جگر نے محفل میں نہایت سوزوگداز سے اپنی یہ غزل سنائی۔
کسی صورت نمودِسوزِ پنہانی نہیں جاتی
بجھا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی نہیں جاتی
صداقت ہو تو دل سینوں سے کھینچنے لگتے ہیں واعظ
حقیقت خود کو منوا لیتی ہے، مانی نہیں جاتی
چلے جاتے ہیں بڑھ بڑھ کر مِٹے جاتے ہیں گر گر کر
حضور شمعِ پروانوں کی نادانی نہیں جاتی
وہ یوں دل سے گزرتے ہیں کہ آہٹ تک نہیں ہوتی
وہ یوں آواز دیتے ہیں کہ پہچانی نہیں جاتی
محبت میں ایک ایسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے
کہ آنسو خشک ہوجاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی
جگر وہ بھی سرتاپا محبت ہی محبت ہیں
مگر اِن کی محبت صاف پہچانی نہیں جاتی
مولانا اشرف تھانوی جیسے عالمِ دین اور شیخ وقت کی مانگی ہوئی پہلی تین دعائوں کی قبولیت تو خدائے پاک نے جگر کو ان کی زندگی میں ہی دکھا دی۔ انہوں نے بیعت کے بعد شراب بالکل چھوڑ دی۔ چونکہ کثرتِ مے نوشی کی عادت تھی لہٰذا اسے بالکل ترک کرنے سے وہ بیمار ہوگئے اور قلب میں درد رہنے لگا۔ جگر و معدہ میں سوزش ہوگئی جس کی وجہ چہرے اور گردن کی جلد پھٹنے لگی۔
اس موقع پر ماہر ڈاکٹروں کا ایک بورڈ بیٹھا۔ اُس نے مشورہ دیا کہ تھوڑی مقدار میں اگر شراب جسم کو ملتی رہے تو جسمانی اعضا اپنا کام ٹھیک طرح سے کرتے رہیں گے ورنہ زندگی کا چراغ گُل ہونے کا اندیشہ ہے۔ جگر نے اُن سے پوچھا کہ اگر شراب پیتا رہوں تو کتنا عرصہ جی سکوں گا؟
ڈاکٹر بولے ’’چند سال مزید اور بس۔‘‘
جگر نے کہا ’’میں چند سال خدا کے غضب کے ساتھ زندہ رہوں… اس سے بہتر ہے کہ ابھی تھوڑی سی تکلیف اُٹھا کر خدا کی رحمت کے سائے میں مرجائوں۔‘‘
لیکن بھلا ہوا اخلاص کا کہ خدائے پاک نے جگر کے الفاظ کی لاج رکھ لی اور دیسی علاج سے صحت عطا فرما دی۔ اس دوران لاہور کے مشہور معالج حکیم حافظ جلیل احمد مرحوم سے بھی علاج ہوتا رہا۔
دوسری دعا یہ تھی کہ ڈاڑھی رکھ لیں۔ یہ بھی پوری ہوئی۔ انھوں نے بیعت کے بعد حلیہ سنت کے مطابق کرلیا اور لباس بھی۔ اس دوران نماز کی بھی عادت ڈال لی۔ تھوڑی دیر مسجد میں بیٹھے رہنے کو بھی اپنا شعار بنا لیا۔ غالباً اسی زمانے کی بات ہے کہ ایک مرتبہ تانگے میں سوار ہو کر کہیں جا رہے تھے۔ تانگے والا باربار نہایت ترنم سے یہ شعر پڑھ رہا تھا:
چلو دیکھ کر آئیں تماشا جگر کا
سنا ہے وہ کافر مسلماں ہوگیا
تھوڑی دیر بعد تانگے والے نے پچھلی نشست سے ہچکیوں کی آواز سنی۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک مولوی صاحب رو رہے تھے۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ یہی جگرمرادآبادی ہیں۔
(مستعار : اردو ڈائجسٹ )
ماضی قریب میں مرحوم معین اختر ، معروف انڈین اداکار قادر خان ، لہری ، سارہ چودھری اور متعدد دوسرے اس فہرست میں شامل ہیں جنہوں نے گمراہی کے راستے کو چھوڑ ہدایت کی طرف آنا قبول کیا .....
جنید نے شہرت کی انتہائی بلندی دیکھی ہے اور اسے دین کی جانب راغب کرنے والی شخصیت کوئی اور نہیں مولانا طارق جمیل صاحب جیسی صاحب دل اور بزرگ شخصیت تھی تبدیلی کا یہ عمل آسان نہ تھا بلکہ یہ ایک طویل اور تکلیف دہ راستہ تھا جس میں اپنوں کی شدید مخالفت مال و دولت کی قربانی اور بے شمار ایسی دشواریاں تھیں کہ بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا دیں ...
جنید کا سب سے بڑا مخالف ایک ایسا شخص ہے جو پاکستان کا سب سے بڑا شو بوائے ہے اس شخص نے جس انداز میں دین کی تضحیک و تذلیل کا بازار گرم کر رکھا ہے اس کی دوسری مثال ملنی مشکل ہے جس زمانے میں یہ جاہل آنلائن نامی پروگرام کرتا تھا اس کی کم علمی کے شاہکار صاحبان علم کی طبیعت پر شدید بوجھ تھے پھر جب اس نے جنید کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے جل کر اس کے خلاف گستاخی کی تحریک شروع کی تو دیکھنے والے حیران تھے کہ یہ تو وہ شخص ہے کہ جس نے لاتعداد کھلی گستاخیاں اصحاب رسول رض کی شان میں کر رکھی ہیں اور جس کا ماضی رافضیت کی تہمت سے داغدار ہے یہ صرف اور صرف مسلک کے نام پر لوگوں کے جذبات کو گرم کر کے اپنی دوکان چمکانے کی سازش ہے اور کچھ نہیں ......
اب تصویر کا دوسرا رخ
جب بھی کوئی معروف شخصیت دین کی طرف راغب ہوتی ہے تو اس کو تربیت کی سخت بھٹی سے گزارا جاتا ہے کہ تاکہ اس کا تزکیہ ہو سکے شہرت پسندی ایک ایسی بیماری ہے کہ جس کے جراثیم کبھی ختم نہیں ہوتے بلکہ جب بھی اور جہاں بھی ماحول میسر آ جاوے اپنی اثرات ظاہر کرنے شروع کر دیتے ہیں .......
جنید بھائی جنید بھائی کی گردان ہر جانب سنائی دینے لگی یہاں تک کہ وہ کچھ بھی ہوا کہ جو نہیں ہونا چاہئیے تھا ......
جنید بھائی مدارس میں جاکر بیان فرما رہے ہیں
جنید بھائی علماء کے منبر پر بیٹھے ہیں
جنید بھائی داعی دین کے طور پر معروف ہو رہے ہیں
جنید بھائی اسلامی اسکالر کے طور پر ٹی وی پروگرامات میں شرکت فرما رہے ہیں
موجودہ تبلیغی جماعت میں بے شمار افراد ایسے ہیں جن کی قربانیاں جنید جمشید سے کہیں زیادہ ہیں جن کے علم کے سامنے جنید طفل مکتب ہے لیکن انھیں کبھی منبر نہیں ملا .......
یہ منبر علما کا منبر ہے
یہ نبوت کے ورثا کا منبر ہے
یہ صاحبان معرفت کی جا ہے
یاد رکھئے خوب یاد رکھئے
جب آپ کسی معروف مگر جاہل شخص کو اس منبر پر بیٹھا دینگے تو ایسے ہی مغالطے جنم لینگے
میں سب سے پہلے اس وقت کھٹکا جب جنید جمشید صاحب لیز کے اشتہار میں یہ کہتے دکھائی دئیے کہ الله کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام مت کرو .......
میں نے اپنے حلقے کے تبلیغی احباب اور علما کو متوجہ کیا کہ یہ ابتداء ہے یہیں اس خرابی ک تدارک کر دیا جاوے ورنہ معاملہ ہاتھ سے نکل جائے گا ......
پھر نگاہوں نے وہ منظر بھی دیکھا کہ مدارس کی سالانہ تقریب میں جنید صاحب اوپر بیٹھے تقریر فرما رہے ہیں اور علوم نبوت کے طالبان نیچے بیٹھے ہیں .......
علما کی اس بے توقیری پر دل جل کر رہ گیا اپنے قریبی حلقوں کو پھر متوجہ کیا کہ صاحبان کیا ہم ایک دیوبندی عامر لیاقت بنانے جا رہے ہیں .......
آج یہ معاملے ہمارے گلے پڑا ہوا ہے جسے اگلنا بھی مشکل اور نگلنا بھی کٹھن .......
یاد رکھیے ہر شخص کا شعبہ الگ ہے اس کی استعداد الگ ہے اس کا میدان الگ ہے اور جب بھی گھوڑے کا کام گدھے سے لیا جاوے گا ایسی ہی خرابیاں پیدا ہوتی رہینگی .
شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان مدظلہ فرماتے ہیں
دارالعلوم دیوبند او راس عظیم ادارے کی طرف منسوب اکابر علمائے دیوبند کی بہت سی خصوصیات تھیں ،اخلاص وللہیت، دیانت وامانت، اسلامی علوم میں پختگی ومہارت، ان کی ترویج واشاعت،خود داری واستغناء، حق کی حمایت، باطل کی تردید ، اسلاف پر اعتماد ، اتباع سنت، یہ سب صفات ان میں بدرجہ اتم موجود تھیں ، لیکن مجھے آج ان کی جس صفت اور جس خصوصیت کو ذکر کرنا ہے وہ ” اعتدال“ ہے۔ علمائے دیوبند کے مسلک ومزاج میں ”اعتدال“ وہ بنیادی عنصرو خصوصیت ہے جو انہیں افراط وتفریط سے بچا کر ٹھیک اسی راستے تک لے جاتی ہے جو ”ماأنا علیہ وأصحابی“ کا مصداق ہے او رجس پر چلنے والے ” اہل سنت والجماعت“ کہلاتے ہیں، اعتدال کی یہ صفت ان کی زندگی کے ہر ہر شعبے میں جھلکتی ہے۔
راہ اعتدال پر چلنے والوں کے لیے ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ افراط والے انہیں تفریط میں مبتلا سمجھتے ہیں اور اہل تفریط انہیں افراط کے زمرے میں شمار کرتے ہیں، علمائے دیوبند کے ساتھ بھی ایسا ہوا اور ہو رہا ہے، مثلاً علمائے دیوبند ، قرآن وحدیث پر ایمان کامل او رعمل صالح کے ساتھ اسلاف پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں اور قرآن وحدیث کی تشریح میں اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے کے بجائے ان کے اقوال وتشریحات کو مرکزی حیثیت دیتے ہیں، لیکن اس اعتماد اور عقیدت میں وہ اس قدر غلو نہیں کرتے کہ وہ شخصیت پرستی یا عبادت کے رتبے کو چھولے، بلکہ یہ اعتماد اور عقیدت، فرق مراتب کو ملحوظ رکھ کر ،اعتدال کی حدود کے اندر ہی اندر رہتی ہے۔
حسیب احمد حسیب
آخری تدوین: