جن سے اردو محروم ہو گئی

شیخو

محفلین
[align=right:94f6c644d5]جن سے اردو محروم ہو گئی[/align:94f6c644d5]
انور سِن رائے
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن

20051219211521yearender_draftab_203.jpg

ایک بار پھر سال ختم ہو رہا ہے اور میں انہیں یاد کر رہا ہوں جنہوں نے خود کو لفظوں میں محفوظ کرنے سے محبت کی اور پھر ساری زندگی اس محبت کو نبھایا۔ شراکت پر یقین رکھنے والے یہ لوگ جب تک رہے دنیا کو اس کا دیا ہوا بڑھا کر لوٹاتے رہے۔
جاتے ہوئے سال پر نظر ڈالیں تو ایسا لگتا ہے کہ رخصت ہونے والی سب سے قد آور شخصیت امرتا پریتم تھیں حالانکہ جہاں تک مجھے علم ہے انہوں نے اردو کیا کسی بھی زبان میں گرمکھی پنجابی کے علاوہ نہیں لکھا۔ اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ ان کے ساتھ پنجابی ہی کا نہیں ہر زبان کا کچھ نہ کچھ چلا گیا ہے۔ شاید خالص تخلیقی فنکار ایسے ہی ہوتے ہیں۔

اس سال جو لوگ گئے ہیں ان میں کوئی بھی کل وقتی شاعر، فکشن نگار یا نقاد نہیں تھا۔ سبھی کچھ عشق، کچھ روزگار اور کچھ کام والے تھے۔ لیکن ان میں شان الحق حقی نے عشق، کام اور روزگار کو ملا کر ایک کر لیا اور سب مل کر ایسا کام بن گئے کہ جو کسی ایک کے بس کا تو لگتا ہی نہیں۔

’تار ِ پیراہن‘، ’حرف دل رس‘ اور ’دل کی زبان‘ کے نام سے ان کے تین شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ان کا غیر مطبوعہ کلام ہوگا اور بلا شبہ وہ ’بہت سوچ سمجھ کر اور صحیح و بے عیب شعر کہنے والے‘ تھے لیکن ایسا لہجہ ’بہت سوچ سمجھ کر شعر کہنے والوں میں‘ سے کتنوں کے پاس ہوتا ہے؟

تم سے الفت کے تقاضے نہ نبھائے جاتے : ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہے جاتے
بے اثر کب رہی داستانِ وفا : جب چھڑی سننے والوں کو نیند آ گئی
ہم نے یہ درس پایا لے دے کے زندگی سے : افسانہ آدمی کا سچا ہے آدمی سے وہ شیخ عبدالحق محدث کے خانوادے سے تھے اور مولوی احتشام الدین عرف ناداں دہلوی کے فرزند، ان کے والد نے دیوانِ حافظ اور رباعیات عمر خیام کو اردو میں منتقل کیا اور خوب کیا۔

حقی صاحب کو ان کے بزرگ دوست چاند صاحب بھی کہتے تھے اور انہوں نے 15 ستمبر 1917 سے 11 اکتوبر 2005 تک، ابتدائی تیرہ چودہ سال کو چھوڑ کر سارا وقت اردو کے لیے کام کیا۔ ان کی ابتدائی تعلیم پشاور میں ہوئی، انٹر انہوں نے دلی سے کیا اور بی اے علی گڑھ سے لیکن ماسٹر کے لیے پھر دلی آئے اور سٹیفن کالج سے انگریزی میں ایم اے کیا۔

باقی کام تو اپنی جگہ، انہوں نے سترہ سال تک اردو لغت بورڈ کے جریدے ’اردو نامہ‘ کے لیےجو اور جیسے اداریے لکھے ہیں اگر کسی نے صرف ایک اور ایسا کام بھی کیا ہوتا تو وہ بھی اس کی بعد از مرگ زندگی کے لیے کافی ہوتا۔

پاکستان سے کینیڈا منتقل ہونے سے پہلے ان کا شاید اب تک کا سامنے آنے والا آخری کام آکسفورڈ انگلش اردو ڈکشنری تھا۔ یہ کام بھی، کہا جاتا ہے کہ انہوں نے تنہا مکمل کیا۔ اب بتایے حقی ایک آدمی کا نام ہے یا کئی کا؟

ایک اور بڑا آدمی، ہم نے اس سال ڈاکٹر آفتاب احمد کے نام سے رخصت کیا۔ 22 اکتوبر 1923 کو لدھیانہ میں طلوع ہونے والے اس آفتاب نے اگر سرکاری نوکری کا انتخاب نہ کیا ہوتا تو کہیں زیادہ چکا چوند پیدا کی ہوتی۔ چودہ پندرہ برس کی عمر میں ہی ان کی تحریریں لاہور اور دلی کے سرکردہ ادبی جریدوں میں شائع ہونے لگی تھیں۔ انہوں نے لاہور میں انگریزی پڑھی اور پڑھائی۔ 50 کی دہائی میں برطانیہ آئے تو ان کی ٹی ایس ایلیٹ، ای ایم فوسٹر اور ایف آر لیوس سے رسم و راہ ہوگئی۔ انہیں غالب اور شکسپئر پر یکساں مہارت تھی۔ اگر لاہور کا حلقۂ اربابِ ذوق ان کے انتقال سے پہلے انتقال نہ کر گیا ہوتا تو ان کی کمی کو بڑی شدت سے محسوس کرتا۔

اسی سال رخصت ہونے والی ایک اور شخصیت مشفق خواجہ تھے۔ انہوں نے بے پناہ ادبی کالم لکھے۔ان کے انتقال سے پہلے تک تین مجموعے شائع ہو چکے تھے۔ اگرچہ ان کے کالموں میں بعض اوقات مزاح اور طنز، تمسخر کی حدود کے قریب قریب آ جاتے تھے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ نثر نگاری کا ایک طاقتور نمونہ ہیں۔

انہوں نے ایک ادبی جریدہ بھی شائع کیا جو جو اپنی آخری اشاعت تک معیاری رہا لیکن اس سب کے باوجود ان کا اصل میدان تحقیق قرار دیا جاتا ہے۔ جس میں ان کے معرکہ ’خوش معرکہ زیبا‘ اور یاس یگانہ چنگیزی کی کلیات ہیں۔
وہ لاہور میں خواجہ عبدالوحید کے ہاں پیدا ہوئے لیکن کراچی آئے تو کراچی ہی کے ہو رہے۔ عالی جی کا کہنا ہے کہ ان کا بہت سا کام زیرِ طباعت ہے اور بہت سا اشاعت طلب اور اس کام کو ہر قیمت پر محفوظ ہونا چاہیے لیکن کسے کرنا چاہیے عالی جی نے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا۔

اس سال ایک درویش بھی رخصت ہوئے اور ان کا نام حسن عابدی تھا۔ وہ مارکسی صوفی تھے۔ چھہتر سال کی زندگی کا سارا عملی حصہ انہوں اس کوشش میں گزارا کہ دنیا سے افلاس اور ناانصافی ختم ہو جائے اور وہ جو افلاس کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتے ہیں انہیں بھی اُن جیسا انسان سمجھا جائے جو اس لکیر سے اوپر رہتے ہیں۔ اسی کے لیے انہوں نے صحافت کی، جیلیں کاٹیں اور شاعری کی۔

شاعری میں ان سے زیادہ ان کے اس شعر کا تذکرہ ہوا:

اک عجب بوئے نفس آتی ہے دیواروں سے
ہائے زنداں میں بھی کیا لوگ تھے ہم سے پہلے

وہ جون پور، ظفر آباد میں پیدا ہوئے، اعظم گڑھ اور الہ آباد میں تعلیم حاصل کی اور بٹوارے کے ایک سال بعد پاکستان آگئے۔ 55 میں روزنامہ آفاق سے صحافت کا آغاز کیا 57 میں لیل و نہار سے وابستہ ہوئے اور فیض احمد فیض اور سید سبطِ حسن کے ساتھ کام کیا پھر روزنامہ مشرق کے ہفت روزہ اخبارِ خواتین سے وابستہ ہونے کے لیے کراچی آگئے۔ آخری ایام روزنامہ ڈان میں گزارے اور ادب و شاعری کو وقت دیا۔1995 سے 2004 تک ان کے تین شعری مجموعے، ’نوشتۂ نے‘ ’جریدہ ‘ اور ’فرار ہونا لفظوں‘ کے ناموں سے شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ بچوں کے لیے کہانیوں کا ایک انتخاب شائع ہوا جس کا نام تھا ’کاغذ کی کشتی‘۔

ان کی یادداشتوں کو سید جعفر احمد نے ’جنوں میں جتنی بھی گزری‘ کے نام سے مرتب کیا ہے۔ کراچی پریس کلب، کراچی یونین آف جرنلسٹس اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے ان سے سرگرم، مخلص اور ہمہ وقت لوگ کم کم پائے ہیں۔ یہ تینوں ادارے انہیں ضرور یاد رکھیں گے۔

اس سال رخصت ہونے والوں میں اردو تحقیقی و تدریس کی ایک اور نمایاں شخصیت ڈاکٹر غلام مصطفیٰ شاہ کی تھی۔ وہ جبل پور میں پیدا ہوئے۔ علیگڑھ میں تعلیم مکمل کی اور پاکستان آئے تو ان کی خدمات اردو کالج کے لیے حاصل کر لی گئیں۔ اردو کالج سے انہیں سندھ یونیورسٹی میں تدریس کی پیشکش ہوئی اور انہوں نے ڈاکٹر قاضی کے ساتھ کام کیا۔پھر انہیں شعبہ اردو کا سربراہ بنا دیا گیا۔

ڈاکڑ اسلم فرخی انہیں اپنا استاد بتاتے ہیں اس اعتبار سے ان کے شاگردوں کے شاگرد بھی اب تدریس سے وابستہ ہیں۔
ڈاکٹر شاہ نے 93 سال عمر پائی اور 90 سے زائد اردو اور انگریزی کتابوں کی تصنیف و تالیف کی۔ انہیں اقبال ایوارڈ اور نقوش ایوارڈ دیے گیے اس کے علاوہ پاکستان کے صدر نے بھی انہیں ستارہ سپاس اور نشان سپاس دینے کا اعزاز حاصل کیا۔

ان کے انتقال پر متحدہ مجلسِ عمل کے سربراہ قاضی حسین احمد سمیت جماعتِ اسلامی کی ساری قیادت نے صدمے کا اظہار کیا اور وزیراعلیٰ سندھ ڈاکٹر غلام رحیم نے بھی۔

اس کے علاوہ اردو شاعر و نقاد جمال پانی پتی، شاعر و صحافی شمیم نوید، شاعر صفدر برلاس، افسانہ نگار آمنہ ابوا لحسن، استاد و محقق ڈاکٹر معین الرحمٰن، شاعر امید فاضلی، استاد و کالم نگار نسیمہ بنتِ سراج، شاعر ساقی امروہی اور شاعر حنیف اسدی سے محروم ہو گئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
داد دیتا ہوں

شیخو صاحب بہت ہی مفید معلومات ہیں۔

جو مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں اے لئیم
خاک میں کیا صورتیں تھیں کہ پنہاں ہو گئیں
 

الف عین

لائبریرین
تعجب ہے اس میں جذبی کا ذکرنہیں۔ شمیم نوید کے انتقال کی خبر میرے لئے نئی ہے، اس لئے لکھ رہا ہوں کہ ان سے میری ملاقات رہی تھی جب وہ علیگڑھ آئے تھے اور ان سے ملاقات رہی تھی۔ یہ بات ہے 1970 کی
 

شیخو

محفلین
اعجاز اختر نے کہا:
تعجب ہے اس میں جذبی کا ذکرنہیں۔ شمیم نوید کے انتقال کی خبر میرے لئے نئی ہے، اس لئے لکھ رہا ہوں کہ ان سے میری ملاقات رہی تھی جب وہ علیگڑھ آئے تھے اور ان سے ملاقات رہی تھی۔ یہ بات ہے 1970 کی
اعجاز اختر صاحب جزبی صاحب غریب انسان تھے اور ویسے بھی وہ رکھ رکھائو والے انسان تھے۔تشہیر ان کی زیادہ نہ تھی۔اور آپ یہ تو جانتے ہیں کہ غریبوں کو کون پوچھتا ہے۔ویسے بھی سارے شاعر ،ادیب صرف د ل کے ہی امیر ہوتے ہیں۔
خبریں ان کی آتی ہیں جنہوں نے حکومت وقت کے حق میں یا برائی میں کوئی کارنامہ انجام دیا ہو اور جذبی صاحب نے ان دو چیزوں میں سے کسی پر نہیں لکھا۔کیا ہوا جو ان کا نام نہیں آیا۔لوگوں کے دلوں میں تو امر ہیں وہ
 
Top