محمد تابش صدیقی
منتظم
آمیناللہ پاک جوانوں میں کچھ کرنے کے اس جذبے کو قائم و دائم رکھیں۔ آمین
آمیناللہ پاک جوانوں میں کچھ کرنے کے اس جذبے کو قائم و دائم رکھیں۔ آمین
وہ کم از کم قابلِ رحم نہیں، بلکہ اچکا ٹائپ لگ رہا تھا.جس نے موبائل چھینا وہ بھی قابل رحم ہے۔ جابز ہوتی نہیں اور ٹی وی گلیمر دکھاتا رہتا ہے۔
پورا معاشرہ تباہ ہے۔ ہر ایک لوٹ مار میں لگا ہے۔
پولیس خود لوٹ مار کررہی ہے۔
عوام ایک دوسرے کو لوٹ رہی ہے
شکریہ خالد بھائی.مبارک ہو جناب
موبائل واپس ملنے کیلئے
عمدہ تحریر کیلئے
آمین. جزاک اللہ عثمان بھائی.واقعی حیران کن اور قابل تحسین ہے۔ تاہم میرا خیال ہے کہ ان جوانوں نے خطرہ مول لیا جو بہرحال ایک آئیڈیل بات نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ جان، مال اور عزت سلامت رکھے۔ آمین!
بے شک. جزاک اللہع - ابھی اگلی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں
ماشاءاللہ
جی لاقانونیت ایک المیہ ہے. دار الحکومت بھی محفوظ نہیں ہے.عام طور پر ایسی واردات کرنے والوں کے پاس 'گن' بھی ہوتی ہے اور گھبرا کر وہ انتہائی قدم بھی اُٹھا لیتے ہیں۔ بہرحال ان نوجوانوں کا جذبہ قابلِ تحسین ہے۔ ویسے پاکستان کا باوا آدم ہی نرالا ہے، پولیس اور دوسری فورسز کے کرنے والے کام بھی شہریوں کو خود ہی کرنے پڑتے ہیں
ہم بھی یہی کہنا چاہتے تھے۔ کسی کی طرف سے بدگمان نہ ہوں لیکن احتیاط بہت لازم ہے۔ ان وارداتوں کے علاوہ پچھلے کچھ عرصہ میں ہمارے ملک کو دہشت گردی کے حوالے سے بھی بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ہمارے اسکول میں ایک پٹھان فیملی اپنے بچوں کا ایڈمیشن کرانے آئی۔ انہوں نے روایتی لباس پہن رکھے تھے۔ ان دنوں سانحہ پشاور کو گزرے کچھ ماہ ہوئے تھے۔ ہم دونوں کا حلیہ دیکھ کے ٹھٹھکے۔ وہ لوگ ہم سے اردو میں بات کر رہے تھے اور آپس میں پشتو بول رہے تھے۔ ہمارے ذہن میں چونکہ کچھ اور ہی چل رہا تھا اس لیے ان کی ہر حرکت مشکوک لگ رہی تھی۔ ہمیں پکا یقین ہو چلا تھا کہ یہ لوگ کسی گروہ سے ہی تعلق رکھتے ہوں گے اور بم دھماکے کا پلان بنا کر اسکول میں اسکول تشریف لائے ہیں۔ ہم نے تو پرنسپل تک سے بھی یہ کہہ دیا کہ یہ مشکوک ہیں۔ بہرحال جب تک وہ اسکول میں رہے ہم خاصے محتاط رہے۔ اب ان کے بچے اسکول میں پڑھ رہے ہیں اور ہمیں اپنی اس دن والی احتیاط پسندی پہ ہنسی آتی ہے۔آمین. جزاک اللہ.
آپ کی باتوں سے متفق ہوں، مگر کسی حد تک احتیاط لازمی ہے. کسی کے حوالے سے بد گمانی نہ کریں. مگر اپنے حفاظتی اقدامات ضرور مکمل رکھیں.
میرے اٹھارہ سالہ سگے ماموں بس اسی قسم کے ایک ایڈونچر میں جان کھو بیٹھے تھے۔ میں بہت چھوٹا تھا ان دنوں۔ آدھی رات کو سینما میں فلم دیکھ کر واپس آ رہے تھے کہ راستے میں کہیں کچھ چوروں کو چوری کرتے دیکھ لیا، للکارا، وہ تین چار تھے، سر میں شدید ضرب آئی اور ایک آدھ گھنٹے کے اندر جاں بحق ہو گئے۔آمین. جزاک اللہ عثمان بھائی.
چھیننے والے کا سٹائل ایسا ہی تھا کہ اچکا لگ رہا تھا. گن پوائنٹ پر نہیں چھینا.
واردات بھی انتہائی مصروف اڈے اور اسلام آباد کی مصروف ترین روڈ اسلام آباد ایکسپریس وے پر ہوئی. جس پر شام کے وقت کافی رش ہوتا ہے.
بہر حال کچھ بھی ہو سکتا ہے. آپ کی بات درست ہے کہ احتیاط لازمی ہے.
18 سے 20 سال کے لڑکے تھے. اس عمر میں اکثر طبیعت ایڈوینچر والی ہی ہوتی ہے.
اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے. آمین.
بے شکاوہ ۔ ۔ ۔ افسوس اور خوشی ۔ ۔ ۔ ناز کرتا ہے زمانہ انہیں انسانوں پر ۔ ۔
اللہ تعالیٰ ان کی شہادت قبول فرمائے. آمینمیرے اٹھارہ سالہ سگے ماموں بس اسی قسم کے ایک ایڈونچر میں جان کھو بیٹھے تھے۔ میں بہت چھوٹا تھا ان دنوں۔ آدھی رات کو سینما میں فلم دیکھ کر واپس آ رہے تھے کہ راستے میں کہیں کچھ چوروں کو چوری کرتے دیکھ لیا، للکارا، وہ تین چار تھے، سر میں شدید ضرب آئی اور ایک آدھ گھنٹے کے اندر جاں بحق ہو گئے۔
میرے اٹھارہ سالہ سگے ماموں بس اسی قسم کے ایک ایڈونچر میں جان کھو بیٹھے تھے۔ میں بہت چھوٹا تھا ان دنوں۔ آدھی رات کو سینما میں فلم دیکھ کر واپس آ رہے تھے کہ راستے میں کہیں کچھ چوروں کو چوری کرتے دیکھ لیا، للکارا، وہ تین چار تھے، سر میں شدید ضرب آئی اور ایک آدھ گھنٹے کے اندر جاں بحق ہو گئے۔
اللہ تعالیٰ شہادت قبول فرمائے. آمینمیرے ماموں زاد بھائی کے ساتھ ملتی جلتی صورتحال پیش آئی تھی،ان کے گھر سے تھوڑا فاصلے پراندرونی گلیوں میں بازار سا ہے، وہاں کسی لڑکی سے پرس وغیرہ چھیننے کی کوئی واردات ہو رہی تھی، اس نے مدد کے لیے آواز دی تو انہوں نے ان میں سے ایک کو دبوچ لیا،اس کے دوسرے ساتھی نے ان کے کندھے کے اوپر پستول رکھ کر چلا دی جو اندر دل کے کنارے اور دوسرے اعضاء کو نقصان پہنچاتی ہوئی کہیں رک گئی، رات کا ہی وقت تھا پوری رات زندگی اور موت کی کشمکش میں رہے اور فجر کے قریب انتقال کر گئے۔مہینہ رمضان کا تھا، اس وقت ان کا بیٹا ایک سال کا تھا۔
استغفر اللہہم بھی یہی کہنا چاہتے تھے۔ کسی کی طرف سے بدگمان نہ ہوں لیکن احتیاط بہت لازم ہے۔ ان وارداتوں کے علاوہ پچھلے کچھ عرصہ میں ہمارے ملک کو دہشت گردی کے حوالے سے بھی بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ہمارے اسکول میں ایک پٹھان فیملی اپنے بچوں کا ایڈمیشن کرانے آئی۔ انہوں نے روایتی لباس پہن رکھے تھے۔ ان دنوں سانحہ پشاور کو گزرے کچھ ماہ ہوئے تھے۔ ہم دونوں کا حلیہ دیکھ کے ٹھٹھکے۔ وہ لوگ ہم سے اردو میں بات کر رہے تھے اور آپس میں پشتو بول رہے تھے۔ ہمارے ذہن میں چونکہ کچھ اور ہی چل رہا تھا اس لیے ان کی ہر حرکت مشکوک لگ رہی تھی۔ ہمیں پکا یقین ہو چلا تھا کہ یہ لوگ کسی گروہ سے ہی تعلق رکھتے ہوں گے اور بم دھماکے کا پلان بنا کر اسکول میں اسکول تشریف لائے ہیں۔ ہم نے تو پرنسپل تک سے بھی یہ کہہ دیا کہ یہ مشکوک ہیں۔ بہرحال جب تک وہ اسکول میں رہے ہم خاصے محتاط رہے۔ اب ان کے بچے اسکول میں پڑھ رہے ہیں اور ہمیں اپنی اس دن والی احتیاط پسندی پہ ہنسی آتی ہے۔
بےشک ایسا ہی ہے دنیا میں اچھے لوگ باقی ہیں اور ایسے نوجوان ہمارا سرمایہ ہیںشاید انہی کے لیے سرور بارہ بنکوی کہہ گئے ہیں:
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں