نوجوانی کی عمر میں کچھ فلسفہ و منطق وغیرہ کی بحثوں میں دلچسپی ہو گئی تھی جو بحمداللہ ،ثم الحمدللہ عارضی ثابت ہوئی اور کچھ قلبی واردات نے صاحب جنوں کر کے شفا بخشی اور اس کے خاشاک جلا کر اس کی راکھ بہادی ۔
ان ہی میں ان "کم و کیف" کی کمیت اور کیفیت کی نوعیت سے کچھ آگاہی بھی ہوئی تھی جس میں موجودات کی نوعیت کے عنوانات کو مقولات عشر کےتحت (خواہ مخواہ
) پھیلایا اور سمیٹا جاتا ۔۔۔ قصہ مختصر یہ کہ ایک بنیاری عنصر جوہر ہے اور باقی نو اس کے عرض ہیں ۔کم۔ کیف ۔ متی ۔ وضع ۔ فعل - انفعال اور نہ جانے کیا کیا ۔یہ غالباً ارسطو بھائی کی طرف منسوب کی جاتی ہیں اور فلسفہ و منطق کے موضوعات میں بکثرت ملنے کا امکان ہے۔ مرزا غالب نے جہاں جوہر اور عرض کا اکٹھا تذکرہ کیا ہے وہاں ان کی معنوی لطافتوں سے خوب مضامین باندھے ہیں ۔غالب کے شارحین میں یوسف سلیم صاحب نے ان موضوعات پر خصوصاً توانائی صرف کی ہے۔
عرض کیجے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں؟
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا
مستیء بادِ صبا سے ہے بہ عرضِ سبزہ
ریزۂ شیشۂ مے
جوہرِ تیغِ کہسار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے خیال میں ڈاکٹر صاحب یہاں انسان کو جواب دیتے ہوئے ۔اس کی اسی (سوکالڈ) دانائی کے زعم کا ذکر رہے ہیں اور انسان کو اس عاجزی میں پنہاں بلندی سے غفلت کی طرف توجہ دلا رہے ہیں۔
عالِمِ کیف ہے دانائے رموزِ کم ہے۔
ہاں مگر عجز کی اسرار سے نا محرم ہے
ایک ڈسکلیمر کا ذکر کے بریت کا اظہار البتہ کردوں کہ اس تمام قضیے کا میرے خلجان کی اختراع ہونا عین ممکن ہو سکتا ہے ۔
۔ اور یہ بحث آپ کے کیف کے عالم میں بیک قلم سمٹ سکتی ہے ۔
۔
برادر
راحیل فاروق ۔