بسلسلۂِ یومِ اقبالؒ۔
چار سال قبل ریکارڈ کیے گئے جوابِ شکوہ کے ابتدائی بند۔
اطلاعاً عرض ہے کہ دیکھنے کی چیز نہیں ہے۔ بہتر ہو گا کہ آنکھیں بند کر کے سنیے!

 
بہت خوب کیا شستہ لب و لہجہ ہے جی ۔ ماشاءاللہ
متشکرم، بھائی جان۔
بہت عمدہ جناب۔ مزہ آ گیا۔
بہت شکریہ۔ ہمیں یومَ اقبالؒ کے حوالے سے آپ کا مراسلہ دیکھ کر تحریک ہوئی۔ بزرگوار نے حق ادا کیا ہے مداحی کا۔ ماشاءاللہ!
 
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟

اچھا ہوا میں نے کلام کے بارے میں نہیں پوچھا ، اگر اس پر بھی آپ یہی جواب دیتے ۔۔۔۔
یار راحیل بھائی، آواز و انداز تو بہت ہی خوبصورت ہے ، ماشاءاللہ ۔
اپنی شاعری کبھی اپنے انداز میں سنا دیں تو لطف آجائے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ایک جگہ محسوس ہوا کہ عالِم کو عالَم کہا گیا ہیں ۔ جہاں کم و کیف کے جواہر کے علم اور دانائی کا ذکر ہے۔
عالِمِ کیف ہے دانائے رموزِ کم ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
تصریح ہو جائے تو شکر گزار ہوں گا۔ میں عالَم ہی پڑھتا آیا ہوں۔ کم و کیف؟ :desire::desire::desire:

نوجوانی کی عمر میں کچھ فلسفہ و منطق وغیرہ کی بحثوں میں دلچسپی ہو گئی تھی جو بحمداللہ ،ثم الحمدللہ عارضی ثابت ہوئی اور کچھ قلبی واردات نے صاحب جنوں کر کے شفا بخشی اور اس کے خاشاک جلا کر اس کی راکھ بہادی ۔
ان ہی میں ان "کم و کیف" کی کمیت اور کیفیت کی نوعیت سے کچھ آگاہی بھی ہوئی تھی جس میں موجودات کی نوعیت کے عنوانات کو مقولات عشر کےتحت (خواہ مخواہ :)) پھیلایا اور سمیٹا جاتا ۔۔۔ قصہ مختصر یہ کہ ایک بنیاری عنصر جوہر ہے اور باقی نو اس کے عرض ہیں ۔کم۔ کیف ۔ متی ۔ وضع ۔ فعل - انفعال اور نہ جانے کیا کیا ۔یہ غالباً ارسطو بھائی کی طرف منسوب کی جاتی ہیں اور فلسفہ و منطق کے موضوعات میں بکثرت ملنے کا امکان ہے۔ مرزا غالب نے جہاں جوہر اور عرض کا اکٹھا تذکرہ کیا ہے وہاں ان کی معنوی لطافتوں سے خوب مضامین باندھے ہیں ۔غالب کے شارحین میں یوسف سلیم صاحب نے ان موضوعات پر خصوصاً توانائی صرف کی ہے۔
عرض کیجے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں؟
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا
مستیء بادِ صبا سے ہے بہ عرضِ سبزہ
ریزۂ شیشۂ مے جوہرِ تیغِ کہسار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے خیال میں ڈاکٹر صاحب یہاں انسان کو جواب دیتے ہوئے ۔اس کی اسی (سوکالڈ) دانائی کے زعم کا ذکر رہے ہیں اور انسان کو اس عاجزی میں پنہاں بلندی سے غفلت کی طرف توجہ دلا رہے ہیں۔
عالِمِ کیف ہے دانائے رموزِ کم ہے۔
ہاں مگر عجز کی اسرار سے نا محرم ہے
ایک ڈسکلیمر کا ذکر کے بریت کا اظہار البتہ کردوں کہ اس تمام قضیے کا میرے خلجان کی اختراع ہونا عین ممکن ہو سکتا ہے ۔:)۔ اور یہ بحث آپ کے کیف کے عالم میں بیک قلم سمٹ سکتی ہے ۔ :LOL:۔
برادر راحیل فاروق ۔
 
آخری تدوین:
"کم و کیف" کی کمیت اور کیفیت کی نوعیت سے کچھ آگاہی بھی ہوئی تھی جس میں موجودات کی نوعیت کے عنوانات کو مقولات عشر کےتحت (خواہ مخواہ :)) پھیلایا اور سمیٹا جاتا ۔۔۔ قصہ مختصر یہ کہ ایک بنیاری عنصر جوہر ہے اور باقی نو اس کے عرض ہیں ۔کم۔ کیف ۔ متی ۔ وضع ۔ فعل - انفعال اور نہ جانے کیا کیا ۔یہ غالباً ارسطو بھائی کی طرف منسوب کی جاتی ہیں
مجھے گمان تک نہیں تھا کہ کم اور کیف سے مراد کمیت اور کیفیت ہوں گے۔ آپ کی رہنمائی کے لیے از حد ممنون ہوں۔ منطق کے غالب حصے کی طرح مقولات بھی واقعی ارسطو ہی کی دین ہیں۔
میرے خیال میں ڈاکٹر صاحب نے یہاں انسان کو جواب دیتے ہوئے ۔اس کی اسی (سوکالڈ) دانائی کے زعم کا ذکر رہے ہیں اور انسان کو اس عاجزی میں پنہاں بلندی سے غفلت کی طرف توجہ دلا رہے ہیں۔
عالِمِ کیف ہے دانائے رموزِ کم ہے۔
ہاں مگر عجز کی اسرار سے نا محرم ہے
جیسے میں نے اسے پڑھا، اس صورت نے ہمیشہ الجھائے رکھا۔ میرا المیہ یہ ہے کہ میں نے معاصر روایت کے مطابق فلسفہ جو کچھ پڑھا، انگریزی میں پڑھا۔ آپ کے فرمان کے مطابق بات اب بالکل صاف ہو گئی ہے۔ ایک دفعہ پھر شکریہ۔
ایک ڈسکلیمر کا ذکر کے بریت کا اظہار البتہ کردوں کہ اس تمام قضیے کا میرے خلجان کی اختراع ہونا عین ممکن ہو سکتا ہے ۔:)
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا​
یہ بحث آپ کے کیف کے عالم میں بیک قلم سمٹ سکتی ہے ۔
شرمندگی ہو رہی ہے اس غلطی پر۔ آپ ہیں کہ مزے لے رہے ہیں!
 
آخری تدوین:
Top