سیدہ شگفتہ
لائبریرین
جوابِ شکوہ
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں ، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
قدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اُٹھتی ہے ، گردُوں پہ گذر رکھتی ہے
عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا
آسماں چیرگیا نالہء فریاد مرا
پیر گردُوں نے کہا سُن کے ، کہیں ہے کوئی !
بولے سیارے ، سرِ عرشِ بریں ہے کوئی !
چاند کہتا تھا ، نہیں اہلِ زمیں ہے کوئی !
کہکشاں کہتی تھی پوشیدہ یہیں ہے کوئی !
کُچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا
تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا !
عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا !
تا سرِ عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا ؟
آگئی خاک کی چُٹکی کو بھی پرواز ہے کیا ؟
غافل آداب سے سُکانِ زمیں کیسے ہیں !
شوخ و گُستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں !
اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
تھا جو مسجودِ ملائک یہ وہی آدم ہے ؟
عالمِ کیف ہے دانائے رموزِکم ہے
ہاں ، مگر عجز کے اسرار سے نا محرم ہے
ناز ہے طاقتِ گُفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو
آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ ترا
اشکِ بیتاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا
آسماں گیر ہوا نعرہء مستانہ ترا
کس قدر شوخ زباں ہے دلِ دیوانہ ترا
شکر شکوے کو کیا حُسنِ ادا سے تُو نے
ہم سُخن کر دیا بندوں کو خدا سے تُو نے
(جاری ۔ ۔ ۔ )