سید شہزاد ناصر
محفلین
آہ جب دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
گلشن زیست جلانے کو شرر رکھتی ہے
توپ تلوار نہ یہ تیغ و تبر رکھتی ہے
بنت حوا کی طرح تیر نظر رکھتی ہے
اتنا پر سوز ہوا نالۂ سفاک مرا
کر گیا دل پہ اثر شکوۂ بے باک مرا
یہ کہا سن کے سسر نے کہ کہیں ہے کوئی
ساس چپکے سے یہ بولیں کہ یہیں ہے کوئی
سالیاں کہنے لگیں قرب و قریں ہے کوئی
سالے یہ بولے کہ مردود و لعیں ہے کوئی
کچھ جو سمجھا ہے تو ہم زلف کے بہتر سمجھا
مجھ کو بیگم کا ستایا ہوا شوہر سمجھا
اپنے حالات پہ تم غور ذرا کر لو اگر
جلد کھل جائے گی پھر ساری حقیقت تم پر
میں نے اگنے نہ دیا ذہن میں نفرت کا شجر
تم پہ ڈالی ہے سدا میں نے محبت کی نظر
کہہ کے سرتاج تمہیں سر پہ بٹھایا میں نے
تم تو بیٹے تھے فقط باپ بنایا میں نے
میں نے سسرال میں ہر شخص کی عزت کی ہے
ساس سسرے نہیں نندوں کی بھی خدمت کی ہے
جیٹھ دیور سے جٹھانی سے محبت کی ہے
میں نے دن رات مشقت ہی مشقت کی ہے
پھر بھی ہونٹوں پہ کوئی شکوہ گلہ کچھ بھی نہیں
میرے دن رات کی محنت کا صلہ کچھ بھی نہیں
صبح دم بچوں کو تیار کراتی ہوں میں
ناشتہ سب کے لئے روز بناتی ہوں میں
باسی تم کھاتے نہیں تازہ پکاتی ہوں میں
چھوڑنے بچوں کو اسکول بھی جاتی ہوں میں
میں کہ انسان ہوں انسان نہیں جن کوئی
میری تقدیر میں چھٹی کا نہیں دن کوئی
وہ بھی دن تھے کہ دلہن بن کے میں جب آئی تھی
ساتھ میں جینے کی مرنے کی قسم کھائی تھی
پیار آنکھوں میں تھا آواز میں شہنائی تھی
کبھی محبوب تمہاری یہی ہرجائی تھی
اپنے گھر کے لیے یہ ہستی مٹا دی میں نے
زندگی راہ محبت میں لٹا دی میں نے
کس قدر تم پہ گراں ایک فقط ناری ہے
دال روٹی جسے دینا بھی تمہیں بھاری ہے
مجھ سے کب پیار ہے اولاد تمہیں پیاری ہے
تم ہی کہہ دو یہی آئین وفاداری ہے
گھر تو بیوی سے ہے بیوی جو نہیں گھر بھی نہیں
یہ ڈبل بیڈ یہ تکیہ نہیں چادر بھی نہیں
میں نے مانا کہ وہ پہلی سی جوانی نہ رہی
ہر شب وصل نئی کوئی کہانی نہ رہی
قلزم حسن میں پہلی سی روانی نہ رہی
اب میں پہلے کی طرح رات کی رانی نہ رہی
اپنی اولاد کی خاطر میں جواں ہوں اب بھی
جس کے قدموں میں ہے جنت وہی ماں ہوں اب بھی
تھے جو اجداد تمہارے نہ تھا ان کا یہ شعار
تم ہو بیوی سے پریشان وہ بیوی پہ نثار
تم کیا کرتے ہو ہر وقت یہ جو تم بیزار
تم ہو گفتار کے غازی وہ سراپا کردار
اپنے اجداد کا تم کو تو کوئی پاس نہیں
ہم تو بے حس ہیں مگر تم بھی تو حساس نہیں
نہیں جن مردوں کو پروائے نشیمن تم ہو
اچھی لگتی ہے جسے روز ہی الجھن تم ہو
بن گئے اپنی گرہستی کے جو دشمن تم ہو
ہو کے غیروں پہ فدا بیوی سے بد ظن تم ہو
پھر سے آباد نئی کوئی بھی وادی کر لو
کسی کل بسنی سے اب دوسری شادی کر لو
گلشن زیست جلانے کو شرر رکھتی ہے
توپ تلوار نہ یہ تیغ و تبر رکھتی ہے
بنت حوا کی طرح تیر نظر رکھتی ہے
اتنا پر سوز ہوا نالۂ سفاک مرا
کر گیا دل پہ اثر شکوۂ بے باک مرا
یہ کہا سن کے سسر نے کہ کہیں ہے کوئی
ساس چپکے سے یہ بولیں کہ یہیں ہے کوئی
سالیاں کہنے لگیں قرب و قریں ہے کوئی
سالے یہ بولے کہ مردود و لعیں ہے کوئی
کچھ جو سمجھا ہے تو ہم زلف کے بہتر سمجھا
مجھ کو بیگم کا ستایا ہوا شوہر سمجھا
اپنے حالات پہ تم غور ذرا کر لو اگر
جلد کھل جائے گی پھر ساری حقیقت تم پر
میں نے اگنے نہ دیا ذہن میں نفرت کا شجر
تم پہ ڈالی ہے سدا میں نے محبت کی نظر
کہہ کے سرتاج تمہیں سر پہ بٹھایا میں نے
تم تو بیٹے تھے فقط باپ بنایا میں نے
میں نے سسرال میں ہر شخص کی عزت کی ہے
ساس سسرے نہیں نندوں کی بھی خدمت کی ہے
جیٹھ دیور سے جٹھانی سے محبت کی ہے
میں نے دن رات مشقت ہی مشقت کی ہے
پھر بھی ہونٹوں پہ کوئی شکوہ گلہ کچھ بھی نہیں
میرے دن رات کی محنت کا صلہ کچھ بھی نہیں
صبح دم بچوں کو تیار کراتی ہوں میں
ناشتہ سب کے لئے روز بناتی ہوں میں
باسی تم کھاتے نہیں تازہ پکاتی ہوں میں
چھوڑنے بچوں کو اسکول بھی جاتی ہوں میں
میں کہ انسان ہوں انسان نہیں جن کوئی
میری تقدیر میں چھٹی کا نہیں دن کوئی
وہ بھی دن تھے کہ دلہن بن کے میں جب آئی تھی
ساتھ میں جینے کی مرنے کی قسم کھائی تھی
پیار آنکھوں میں تھا آواز میں شہنائی تھی
کبھی محبوب تمہاری یہی ہرجائی تھی
اپنے گھر کے لیے یہ ہستی مٹا دی میں نے
زندگی راہ محبت میں لٹا دی میں نے
کس قدر تم پہ گراں ایک فقط ناری ہے
دال روٹی جسے دینا بھی تمہیں بھاری ہے
مجھ سے کب پیار ہے اولاد تمہیں پیاری ہے
تم ہی کہہ دو یہی آئین وفاداری ہے
گھر تو بیوی سے ہے بیوی جو نہیں گھر بھی نہیں
یہ ڈبل بیڈ یہ تکیہ نہیں چادر بھی نہیں
میں نے مانا کہ وہ پہلی سی جوانی نہ رہی
ہر شب وصل نئی کوئی کہانی نہ رہی
قلزم حسن میں پہلی سی روانی نہ رہی
اب میں پہلے کی طرح رات کی رانی نہ رہی
اپنی اولاد کی خاطر میں جواں ہوں اب بھی
جس کے قدموں میں ہے جنت وہی ماں ہوں اب بھی
تھے جو اجداد تمہارے نہ تھا ان کا یہ شعار
تم ہو بیوی سے پریشان وہ بیوی پہ نثار
تم کیا کرتے ہو ہر وقت یہ جو تم بیزار
تم ہو گفتار کے غازی وہ سراپا کردار
اپنے اجداد کا تم کو تو کوئی پاس نہیں
ہم تو بے حس ہیں مگر تم بھی تو حساس نہیں
نہیں جن مردوں کو پروائے نشیمن تم ہو
اچھی لگتی ہے جسے روز ہی الجھن تم ہو
بن گئے اپنی گرہستی کے جو دشمن تم ہو
ہو کے غیروں پہ فدا بیوی سے بد ظن تم ہو
پھر سے آباد نئی کوئی بھی وادی کر لو
کسی کل بسنی سے اب دوسری شادی کر لو