جواب شکوہ نشتر امروہوی

آہ جب دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
گلشن زیست جلانے کو شرر رکھتی ہے
توپ تلوار نہ یہ تیغ و تبر رکھتی ہے
بنت حوا کی طرح تیر نظر رکھتی ہے

اتنا پر سوز ہوا نالۂ سفاک مرا
کر گیا دل پہ اثر شکوۂ بے باک مرا

یہ کہا سن کے سسر نے کہ کہیں ہے کوئی
ساس چپکے سے یہ بولیں کہ یہیں ہے کوئی
سالیاں کہنے لگیں قرب و قریں ہے کوئی
سالے یہ بولے کہ مردود و لعیں ہے کوئی

کچھ جو سمجھا ہے تو ہم زلف کے بہتر سمجھا
مجھ کو بیگم کا ستایا ہوا شوہر سمجھا

اپنے حالات پہ تم غور ذرا کر لو اگر
جلد کھل جائے گی پھر ساری حقیقت تم پر
میں نے اگنے نہ دیا ذہن میں نفرت کا شجر
تم پہ ڈالی ہے سدا میں نے محبت کی نظر

کہہ کے سرتاج تمہیں سر پہ بٹھایا میں نے
تم تو بیٹے تھے فقط باپ بنایا میں نے

میں نے سسرال میں ہر شخص کی عزت کی ہے
ساس سسرے نہیں نندوں کی بھی خدمت کی ہے
جیٹھ دیور سے جٹھانی سے محبت کی ہے
میں نے دن رات مشقت ہی مشقت کی ہے

پھر بھی ہونٹوں پہ کوئی شکوہ گلہ کچھ بھی نہیں
میرے دن رات کی محنت کا صلہ کچھ بھی نہیں

صبح دم بچوں کو تیار کراتی ہوں میں
ناشتہ سب کے لئے روز بناتی ہوں میں
باسی تم کھاتے نہیں تازہ پکاتی ہوں میں
چھوڑنے بچوں کو اسکول بھی جاتی ہوں میں

میں کہ انسان ہوں انسان نہیں جن کوئی
میری تقدیر میں چھٹی کا نہیں دن کوئی

وہ بھی دن تھے کہ دلہن بن کے میں جب آئی تھی
ساتھ میں جینے کی مرنے کی قسم کھائی تھی
پیار آنکھوں میں تھا آواز میں شہنائی تھی
کبھی محبوب تمہاری یہی ہرجائی تھی

اپنے گھر کے لیے یہ ہستی مٹا دی میں نے
زندگی راہ محبت میں لٹا دی میں نے

کس قدر تم پہ گراں ایک فقط ناری ہے
دال روٹی جسے دینا بھی تمہیں بھاری ہے
مجھ سے کب پیار ہے اولاد تمہیں پیاری ہے
تم ہی کہہ دو یہی آئین وفاداری ہے

گھر تو بیوی سے ہے بیوی جو نہیں گھر بھی نہیں
یہ ڈبل بیڈ یہ تکیہ نہیں چادر بھی نہیں

میں نے مانا کہ وہ پہلی سی جوانی نہ رہی
ہر شب وصل نئی کوئی کہانی نہ رہی
قلزم حسن میں پہلی سی روانی نہ رہی
اب میں پہلے کی طرح رات کی رانی نہ رہی

اپنی اولاد کی خاطر میں جواں ہوں اب بھی
جس کے قدموں میں ہے جنت وہی ماں ہوں اب بھی

تھے جو اجداد تمہارے نہ تھا ان کا یہ شعار
تم ہو بیوی سے پریشان وہ بیوی پہ نثار
تم کیا کرتے ہو ہر وقت یہ جو تم بیزار
تم ہو گفتار کے غازی وہ سراپا کردار

اپنے اجداد کا تم کو تو کوئی پاس نہیں
ہم تو بے حس ہیں مگر تم بھی تو حساس نہیں

نہیں جن مردوں کو پروائے نشیمن تم ہو
اچھی لگتی ہے جسے روز ہی الجھن تم ہو
بن گئے اپنی گرہستی کے جو دشمن تم ہو
ہو کے غیروں پہ فدا بیوی سے بد ظن تم ہو

پھر سے آباد نئی کوئی بھی وادی کر لو
کسی کل بسنی سے اب دوسری شادی کر لو
 
آہ جب دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
گلشن زیست جلانے کو شرر رکھتی ہے
توپ تلوار نہ یہ تیغ و تبر رکھتی ہے
بنت حوا کی طرح تیر نظر رکھتی ہے

اتنا پر سوز ہوا نالۂ سفاک مرا
کر گیا دل پہ اثر شکوۂ بے باک مرا

یہ کہا سن کے سسر نے کہ کہیں ہے کوئی
ساس چپکے سے یہ بولیں کہ یہیں ہے کوئی
سالیاں کہنے لگیں قرب و قریں ہے کوئی
سالے یہ بولے کہ مردود و لعیں ہے کوئی

کچھ جو سمجھا ہے تو ہم زلف کے بہتر سمجھا
مجھ کو بیگم کا ستایا ہوا شوہر سمجھا

اپنے حالات پہ تم غور ذرا کر لو اگر
جلد کھل جائے گی پھر ساری حقیقت تم پر
میں نے اگنے نہ دیا ذہن میں نفرت کا شجر
تم پہ ڈالی ہے سدا میں نے محبت کی نظر

کہہ کے سرتاج تمہیں سر پہ بٹھایا میں نے
تم تو بیٹے تھے فقط باپ بنایا میں نے

میں نے سسرال میں ہر شخص کی عزت کی ہے
ساس سسرے نہیں نندوں کی بھی خدمت کی ہے
جیٹھ دیور سے جٹھانی سے محبت کی ہے
میں نے دن رات مشقت ہی مشقت کی ہے

پھر بھی ہونٹوں پہ کوئی شکوہ گلہ کچھ بھی نہیں
میرے دن رات کی محنت کا صلہ کچھ بھی نہیں

صبح دم بچوں کو تیار کراتی ہوں میں
ناشتہ سب کے لئے روز بناتی ہوں میں
باسی تم کھاتے نہیں تازہ پکاتی ہوں میں
چھوڑنے بچوں کو اسکول بھی جاتی ہوں میں

میں کہ انسان ہوں انسان نہیں جن کوئی
میری تقدیر میں چھٹی کا نہیں دن کوئی

وہ بھی دن تھے کہ دلہن بن کے میں جب آئی تھی
ساتھ میں جینے کی مرنے کی قسم کھائی تھی
پیار آنکھوں میں تھا آواز میں شہنائی تھی
کبھی محبوب تمہاری یہی ہرجائی تھی

اپنے گھر کے لیے یہ ہستی مٹا دی میں نے
زندگی راہ محبت میں لٹا دی میں نے

کس قدر تم پہ گراں ایک فقط ناری ہے
دال روٹی جسے دینا بھی تمہیں بھاری ہے
مجھ سے کب پیار ہے اولاد تمہیں پیاری ہے
تم ہی کہہ دو یہی آئین وفاداری ہے

گھر تو بیوی سے ہے بیوی جو نہیں گھر بھی نہیں
یہ ڈبل بیڈ یہ تکیہ نہیں چادر بھی نہیں

میں نے مانا کہ وہ پہلی سی جوانی نہ رہی
ہر شب وصل نئی کوئی کہانی نہ رہی
قلزم حسن میں پہلی سی روانی نہ رہی
اب میں پہلے کی طرح رات کی رانی نہ رہی

اپنی اولاد کی خاطر میں جواں ہوں اب بھی
جس کے قدموں میں ہے جنت وہی ماں ہوں اب بھی

تھے جو اجداد تمہارے نہ تھا ان کا یہ شعار
تم ہو بیوی سے پریشان وہ بیوی پہ نثار
تم کیا کرتے ہو ہر وقت یہ جو تم بیزار
تم ہو گفتار کے غازی وہ سراپا کردار

اپنے اجداد کا تم کو تو کوئی پاس نہیں
ہم تو بے حس ہیں مگر تم بھی تو حساس نہیں

نہیں جن مردوں کو پروائے نشیمن تم ہو
اچھی لگتی ہے جسے روز ہی الجھن تم ہو
بن گئے اپنی گرہستی کے جو دشمن تم ہو
ہو کے غیروں پہ فدا بیوی سے بد ظن تم ہو

پھر سے آباد نئی کوئی بھی وادی کر لو
کسی کل بسنی سے اب دوسری شادی کر لو
مزیدار مزیدار!!!

کل سے اس مزیدار نظم کو پڑھ کر ہم اپنی کہی ہوئی دو نظمیں تلاش کررہے تھے۔ لیجیے بچوں کے لیے لکھی نظم تو مل گئی۔

شکوہ۔ (علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ)
 
مزیدار مزیدار!!!

کل سے اس مزیدار نظم کو پڑھ کر ہم اپنی کہی ہوئی دو نظمیں تلاش کررہے تھے۔ لیجیے بچوں کے لیے لکھی نظم تو مل گئی۔

شکوہ۔ (علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ)

آج دوسری نظم بھی مل گئی!

شکوہ
محمد خلیل الرحمٰن​
کیا پڑوسی کی طرح زخم فراموش رہوں؟
نالے اُسکے بھی سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
فکرِ ہانڈی بھی کروں، محوِ غمِ دوش رہوں
دوستو! میں کوئی الو ہوں کہ خاموش رہوں​
’’جرات آموز مری تابِ سخن ہے مجھ کو‘‘
شکوہ بیوی ہی سے خاکم بدہن ہے مجھ کو​
ہے بجا کھانا پکانے میں بھی مشہور ہیں ہم
ہانڈیاں دھوتے ہیں چپکے سے کہ مجبور ہیں ہم
کپڑے دھونے پہ تو ہر روز ہی مامور ہیں ہم
رونا آتا ہے ہمیں آج ، تو معذور ہیں ہم​
اے مری بیوی مجھے شکوہ کُناں بھی سن لے
روکے کہتا ہے جو اب تیرا میاں بھی سن لے​
ہوئی لغزش جو کسی اور کو دیکھا ہم نے
مان لیتے ہیں پڑوسن کوبھی تاڑا ہم نے
آئی ماسی تو اُسے پیار سے گھورا ہم نے
پر کبھی تجھ سے ، تری ماں سے بگاڑا ہم نے؟​
لڑکی آتی تھی کوئی اُس سے بگڑ جاتے تھے
تیری خاطر تو ہر اک نار سے لڑ جاتے تھے​
تجھ سے پہلے تھا عجب میرے مکاں کا منظر
تو نے آتے ہی بدل ڈالا یہاں کا منظر
کام کرتے نہ تھے ہم سوتے تھے بس شام و سحر
تو نے آتے ہی ہمیں کام پہ جوتا کیونکر؟​
تجھ کو معلوم ہے ہم جاب پہ جاتے ہی نہیں
نخرے اوروں کے اُٹھانے ہمیں آتے ہی نہیں​
ہم جو جاتے تھے تو بس ایک مصیبت کے لیے
اور گھر لوٹ کے آتے تھے محبت کے لیے
گھر سے نکلے نہ کسی اور کی چاہت کے لیے
نہ صبیحہ کے لیے اور نہ اُلفت کے لیے​
تجھ کو ہم چھوڑتے گر اور کسی پر مرتے
کون سے ایسے بہادر تھے کہ ایسا کرتے​
چاک اِس شوہرِ تنہا کی نوا سے دِل ہوں
گئے وقتوں کی طرح چائے کے پیاسے دِ ل ہوں
جاگتے پھر اُسی مرغے کی صدا سے دِ ل ہوں
گرم یعنی پھر اُسی عہدِ وفا سے دِل ہوں​
گھر میں بیوی ہے تو کیا تھوڑا مزا لیں تو چلیں
بس ذرا روٹھی سلونی کو منا لیں تو چلیں​
 
Top