طارق شاہ
محفلین
غزل
عبیداللہ علیم
جوانی کیا ہوئی اک رات کی کہانی ہوئی
بدن پُرانا ہُوا، روح بھی پُرانی ہوئی
کوئی عزیز نہیں، ما سوائے ذات ہمیں
اگرہُوا ہے تو یوں جیسے زندگانی ہوئی
نہ ہوگی خشک، کہ شاید وہ لوٹ آئے پھر
یہ کشت گزرے ہوئے ابرکی نشانی ہوئی
تم اپنے رنگ نہاؤ، میں اپنی موج اُڑاؤں
وہ بات بھول بھی جاؤ جو آنی جانی ہوئی
میں اُس کو بھول گیا ہوں، وہ مجھ کو بھول گیا
تو پھر یہ دل پہ کیوں دستک سی ناگہانی ہوئی
عبیداللہ علیم